آزادی حاصل کرنے کے بعد آزاد قوم کی ذمہ داریاں

اللہ تعالٰی کا ہم پر بہت زیادہ فضل اور احسان ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں آزاد ملک میں آزادی کی نعمت سے نوازا

ورنہ اگر آج ہم دنیا میں ان ممالک اور اقوام کی طرف دیکھیں جو ابھی تک کفار کی غلامی اور قبضے میں ہیں تو ان پر ہونے والے ظلم و ستم دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ غلامی کس قدر بدترین چیز ہے

آزاد ہونے کے بعد ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے

01.غلامی کے دنوں کو یاد رکھنا اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ- الأنفال – آیت 26

اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک کرلے جائیں گے تو اس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہیں قوت بخشی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔

02.آزادی ملنے کے بعد شکرانے کے طور پر اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھنا وگرنہ گناہوں کی وجہ سے یہ نعمت ضائع بھی ہو سکتی ہے

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مَا لَمۡ نُمَكِّنۡ لَّـكُمۡ وَاَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَيۡهِمۡ مِّدۡرَارًا ۖ وَّجَعَلۡنَا الۡاَنۡهٰرَ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمۡ فَاَهۡلَكۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ وَاَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِيۡنَ.(الأنعام – آیت 6)

کیا انھوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے، جنھیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش برسائی اور ہم نے نہریں بنائیں، جو ان کے نیچے سے بہتی تھیں، پھر ہم نے انھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسرے زمانے کے لوگ پیدا کردیے۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا

وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهٖ فَحَاسَبۡنٰهَا حِسَابًا شَدِيۡدًاۙ وَّعَذَّبۡنٰهَا عَذَابًا نُّكۡرًا‏.(الطلاق – آیت 8)

اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا، بہت سخت محاسبہ اور انھیں سزا دی، ایسی سزا جو دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔

ایک بستی کی مثال دے کر سمجھایا

فرمایا

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرۡيَةً كَانَتۡ اٰمِنَةً مُّطۡمَٮِٕنَّةً يَّاۡتِيۡهَا رِزۡقُهَا رَغَدًا مِّنۡ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الۡجُـوۡعِ وَالۡخَـوۡفِ بِمَا كَانُوۡا يَصۡنَعُوۡنَ.(النحل – آیت 112)

اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلاہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے

03.آزادی ملنے کے بعد اپنے ملک میں اللہ تعالٰی کے احکامات اور دستور کا نفاذ کیا جائے اور غیراللہ کے نظاموں کو اپنے خطے میں نافذ نہ کیا جائے

فرمایا

اَلَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ.(القرآن. الحج – آیت 41)

وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب حکمران بنے اور فتنے پیدا ہوئے تو انہوں نے فرمایا

والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة…..بخاری

اللہ کی قسم میں ہر اس شخص سے لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق روا رکھے گا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ جب تک لوگ نماز اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تب تک مجھے ان سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے

04.آزاد ہونے کے بعد آزادی کے اصل مقصد اور نظریہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے اور اس پر مکمل کاربند رہنا لازمی سمجھا جائے پاکستان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے لیے حاصل کیا گیا تھا، اسے سیکولر سٹیٹ بنانے کے خواب مت دیکھے جائیں

نظریہ پاکستان دراصل اسلامی نظریہ فکروعمل( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ )کے سوتے سے پھوٹتا ہوا وہ شیریں چشمہ ہے جو پاکستان کے پس منظر میں نو مولود کے لیے شیر مادر کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کی ترقی کا راز اسی چشمے سے ہی سیرابی میں مضمر ہے۔پاکستان کے اندر انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کی ضمانت صرف اسی نظام میں ہے جو مکہ اور مدینہ کے راستے یہاں تک پہنچا۔پاکستان کی پیاس اسی چشمے سے سیرابی میں ممکن ہے اور پاکستان کی شکم سیری اسی چشمے کے پانی سے تیار کی ہوئی فصلوں میں پوشیدہ ہے۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

مشرق و مغرب میں پروردہ متعدد نظریات کی چکاچوند نے پاکستان اور اہل پاکستان کو احساس کمتری میں مبتلا کیا ہے ۔ان میں سے کسی نظریے کی تنفیذ اس تسبیح کو دانہ دانہ کر دینے کے مترادف ہو گی جو پاکستان کی وحدانیت کا باعث ہے۔قرطاس تاریخ گواہ ہے کہ نظریات ہی اقوام کی پہچان ہوتے ہیں۔دیگراقوام کے نظریات اپنانے سے نہ صرف یہ کہ پاکستان اپنا وجودگم کر بیٹھے گا بلکہ ذلت،پستی اور گمشدگی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑے گا جہاں سے واپسی ناممکنات عالم میں سے ہے۔

05.آزاد ہونے کے بعد من حیث القوم اپنے آپ کو تہذیب اغیار سے بھی محفوظ رکھا جائے

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قوم کو یہود و نصاری اور مشرکین کی تہذیبوں کے اثرات بد سے محفوظ رکھا اور اس معاملے میں اس حد تک محتاط ہوئے کہ اھل یہود سے ملکر روزہ رکھنا بھی برداشت نہ کیا

فرمایا

لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع… مسلم

اور فرمایا

( من تشبه بقوم فهو منهم )

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

06.آزاد ہونے کے بعد اپنی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اسباب و وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر شعور کی روشنی میں داخل ہوا جائے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں جامعہ صفہ کی بنیاد رکھ کر تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا تھا

اسی طرح خواتین کے لیے باقاعدہ تعلیمی مواقع فراہم کئے گئے

بدر کی جنگ میں جو قیدی ہاتھ لگے ان کے علوم و فنون سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا گیا

عبرانی زبان سیکھنے کے لیے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو باقاعدہ طور پر تیار کیا

07.آزاد ہونے کے بعد اپنے سابقہ علاقوں اور ملکوں کو واپس اپنے قبضے میں لانے کے لیے جدوجہد کی جائے

ارشاد باری تعالٰی ہے

 ؕ قَالُوۡا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِيَارِنَا وَاَبۡنَآٮِٕنَا ‌ؕ.(البقرة – آیت 246)

انھوں نے کہا اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں نہ لڑیں، حالانکہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بیٹوں سے نکال دیا گیا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا

وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ أخرجوكم.(البقرة – آیت 191)

اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ہجرت کے بعد اپنے سابقہ علاقے( مکہ مکرمہ )پر دوبارہ قبضہ کیا تھا

08.*آزاد ہونے کے بعد اپنے ان بھائیوں کی مدد لازمی کی جائے جو کسی وجہ سے ہجرت نہ کر سکے اور ابھی تک مقبوضہ علاقے میں کفار کے ظلم و ستم میں پس رہے ہیں

اللہ تعالٰی نے اھل مدینہ کو مکہ میں مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کا حکم دیا

فرمایا

وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا.(النساء – آیت 75)

اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنا۔

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يُهَاجِرُوۡا مَا لَـكُمۡ مِّنۡ وَّلَايَتِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ حَتّٰى يُهَاجِرُوۡا‌ ۚ وَاِنِ اسۡتَـنۡصَرُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ فَعَلَيۡكُمُ النصر.(الأنفال – آیت 72)

اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمہارے لیے ان کی دوستی میں سے کچھ بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے

اور ان کی آزادی کے لیے کوشش کے ساتھ ساتھ ان کے لیے دعائیں کی جائیں

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں قید مسلمانوں کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے

اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ….. بخاري

09.آزاد ہونے کے بعد دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے لیے اپنی آزاد ریاست کے دروازے کھول دیئے جائیں

اللہ تعالٰی نے فرمایا

يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ ؕ.(الحشر – آیت 9)

وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو

اور فرمایا

وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ.(الأنفال – آیت 74)

اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں، انھی کے لیے بڑی بخشش اور باعزت رزق ہے۔

10.آزادی ملنے کے بعد اپنی آزاد کردہ ریاست، ملک اور خطے کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے تاکہ دوبارہ یہ نعمت چھن نہ جائے اور پھر سے غلامی کا دور شروع نہ ہو

اس لیے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھنا ضروری ہے

فرمایا

وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ- الأنفال – آیت 60

اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کرسکو

اگر ہم اپنی قوت تیار نہیں کریں گے تو پھر دشمن ہمیں اچک کر لے جائے گا

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات

ملکی، سرحدی دفاع کے متعلق اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ.(آل عمران – آیت 200)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” اللہ کے راستے میں ایک دن (سرحدوں پر) پہرا دینا دنیا اور دنیا میں جو کچھ موجود ہے، اس سب سے بہتر ہے۔ “

[ بخاری، الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ : ٢٨٩٢، عن سہل بن سعد (رض) ]

اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا پہرا دینا ایک مہینے کے قیام اور صیام سے بہت رہے اور اگر اس حالت میں مجاہد فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا اور اس کے مطابق اس کا رزق بھی جاری رہے گا، نیز وہ آزمائش سے بھی محفوظ رہے گا۔ “

[ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عز وجل : ١٩١٣، عن سلمان الفارسی (رض) ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خندق اور تبوک کی جنگیں دفاع وطن کے لیے لڑی تھیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی سرحدوں کا دفاع خود کیا کرتے تھے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ

ایک رات مدینہ میں کچھ شور و غل ہوا، لوگ سمجھے کہ شاید دشمن نے حملہ کردیا ہے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکیلے ہی گھوڑے پر سوار مدینے کی سرحدوں کا چکر لگا کر واپس آ رہے ہیں عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا

11.آزاد ہونے کے بعد اپنی آزاد کردہ ریاست کی قوت و حیثیت کو عالمی سطح پر مثالی اور آئیڈیل بنایا جائے

اپنی خارجہ پالیسی کو بہترین اصولوں پر استوار کیا جائے بین الاقوامی سطح پر ملکی وقار پر آنچ نہ آنے دیں

اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں دوستوں کا واضح تعین کیا جائے ۔اس میدان میں قرآن مجید کی بہترین راہنمائی موجود ہے۔ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد پھروہیں اعتبار کر لینا اپنے وقار کو خود ختم کرنا ہے۔یہودونصاری ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے ہیں۔ دنیا سے اسی زبان میں بات کرنی ہو گی جووہ سمجھتی ہے۔لندن،نیویارک اور پیرس کے راستوں میں ذلت و رسوائی کے سواکچھ میسر نہیں ہوگا ۔عزت کاراز صرف حرمین شریفین کی گرد میں ہی پنہاں ہے۔امت مسلمہ سے تعلق جوڑنے اورملت اسلامیہ کے شجرسایہ دار کو تناور اور تنومند کرنے میں ہی ہمارا بین الاقوامی وقار ممکن ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

12.آزاد ہونے کے بعد اپنے آزاد ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالٰی کی توحید کو مضبوطی سے تھاما جائے اور الشرک باللہ کی من جملہ اقسام کو ختم کیا جائے کیونکہ توحید الہی میں ہی معاشرتی امن و استحکام مضمر ہے

ارشاد باری تعالٰی ہے

اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يَلۡبِسُوۡۤا اِيۡمَانَهُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمُ الۡاَمۡنُ وَهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ.(الأنعام – آیت 82)

وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ امن و سکون اور ہدایت ایسے خالص ایمان ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں جس میں توحید کے ساتھ کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ کی گئی ہو، جو قوم خالص ایمان اور خالص توحید سے محروم اور کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو اسے کسی صورت امن و چین اور ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے خالص توحید کو چھوڑا اور قبروں اور آستانوں کی پرستش شروع کردی (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام ذلت و مسکنت کا نشانہ بن گیا۔ اب نہ کہیں امن ہے نہ ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے احکام کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ خالص توحید کی طرف پلٹے اور صرف اپنے رب کے آستانے پر جمی رہے

13.آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک میں اتفاق.، اتحاد اور تنظیم کا ماحول پیدا کیا جائے اور ہر اس اختلاف سے اجتناب کیا جائے جس سے ملکی دفاع کمزور ہو اور دشمن کا فائدہ ہو، مذہبی، لسانی، علاقائی اور سیاسی اختلافات کی حوصلہ شکنی کی جائے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا ولا تفرقوا.(آل عمران – آیت 103)

اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ –

اور ان تمام عناصر کی بیخ کنی کی جائے جو ملکی و ملی اتحاد میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں خواہ وہ کسی سیاسی جماعت کی شکل میں ہوں یا مذہبی رہنما کی شکل میں ہوں، خواہ وہ کوئی قبائلی سردار ہو یا غیر ملکی این جی اوز ہوں، خواہ وہ کوئی اندرونی صفوں میں چھپا ہوا دشمن ہو یا بیرونی ایجنٹ ہو

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شاش بن قیس یہودی کے ناپاک عزائم کو بھانپتے ہوئے اس کی شرارتوں کا فوراً سد باب کیا تھا

14.آزاد ہونے کے بعد اپنے ملک میں عدل و انصاف اتنا مضبوط کریں کہ ہر ایک کی رسائی میں ہو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا.(النساء : 135)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جائو، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچائو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح با خبر ہے۔

عدل و انصاف کے پیمانے اتنے کڑے اور مضبوط ہوں کہ کسی عزت والے کی عزت یا کسی کمتر کی کمی انہیں متزلزل نہ کرسکے

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں

أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا.(بخاري 3475)

مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔