*احفظِ اللہ یحفظک*

*اللہ کی حفاظت کرو اللہ، تمہاری حفاظت کرے گا*

بقلم

چمن کے مالی بنالیں مناسب شعار اب بھی

چمن میں اتر سکتی ہے روٹھی بہار اب بھی

اس وقت وطن عزیز پاکستان میں بگڑتے حالات اور ناگفتہ بہ کیفیات روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں ملک کے مسائل ہیں کہ حل ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں

بدامنی اور لاقانونیت کا راج ہے، سنجیدہ اور درد رکھنے والا طبقہ عجیب تشویش میں مبتلا ہے

یہ سب مسائل کیسے ختم ہو سکتے ہیں اور وطن عزیز کا استحکام اور ناقابلِ تسخیر دفاع کیسے ممکن ہے اس کے لیے ذیل کا موضوع لائقِ التفات ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حفاظت کریں تو اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا

*تم ہی ترقی کرو گے اگر تم مومن ہو تو*

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 139)

اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔

*جتنا ایمان پختہ ہوگا اتنی زیادہ مدد ہوگی*

‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

من كان إيمانه أقوى من غيره، كان جنده من الملائكة أقوى

النبوات (ص 416).

جس کا ایمان دوسروں سے جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس کے ساتھ فرشتوں کا لشکر بھی اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ (آل عمران : 125)

کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو اور وہ اپنے اسی جوش میں تم پر آپڑیں تو تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا، جو خاص نشان والے ہوں گے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

*متحدہ ہندوستان میں فرشتوں کی مدد کا واقعہ*

ہمارے استاذ گرامی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

میں نے بہت سے قابل اعتماد لوگوں سے سنا کہ متحدہ ہندوستان میں حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے حکم پر مسلمانوں نے عید الاضحی کے دن گائیں ذبح کیں، تو ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، مسلمانوں نے تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مقابلہ کیا تو کفار کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور بھاگ گئے۔ جب مقدمہ چلا تو جنگ میں شریک مسلمان اور کافر پیش ہوئے، کفار کو شناخت کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا، ہم سے تو وہ لوگ لڑے ہیں جو سفید لباس میں ملبوس گھوڑوں پر سوار تھے، حالانکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہ تھا۔

*انجینئر عبدالقدوس سلفی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں*

متحدہ ہندوستان والا واقعہ میں نے بذات خود محترم حافظ محمد سعید صاحب حفظہ اللہ کے والد گرامی جناب کمال الدین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے سنا جو خود اس واقعہ میں موجود تھے ۔

*مولانا ارشد کمال صاحب فرماتے ہیں*

علماء کرام کے ایک واٹس ایپ مجموعہ بنام *مجلس التحقيق الاسلامی* میں مولانا ارشد کمال صاحب فرماتے ہیں :

میرے والد محترم جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آے تھے انھوں نے کئی بار ہمیں یہ واقعہ سنایا تھا وہ اس گاوں کا نام ملک پور بتایا کرتے تھے واللہ اعلم

*ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ تمہارا دفاع ناقابل تسخیر بنا دے گا*

کیونکہ اللہ فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (الحج : 38)

بے شک اللہ ان لوگوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے جو ایمان لائے، بے شک اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بے حد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہو۔

*غار میں بیٹھے دو مومن بندوں کو سر پر کھڑے دشمن سے بچا لیا*

انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا : انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا ۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے) ابوبکر صدیق ؓ گھبرا گئے اور بولے : یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالی تو وہ ہم کو دیکھ لے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو ۔

*اسے کہتے ہیں’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘*

تفسیر القرآن الكريم

*اللہ تعالیٰ،ایمان والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتا ہے اور آخرت میں بھی*

فرمایا :

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (غافر : 51)

بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

*مومنوں کی مدد کرنا، اللہ تعالیٰ اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں*

فرمایا:

وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم :47)

اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔

*اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر کوئی بھی اندرونی و بیرونی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا*

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران : 160)

اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمھارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مدد کرے گا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔

*تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کریں گے*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد : 7)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا۔

ہمارے استاذ گرامی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کی مدد دو طرح سے آتی ہے، ایک یہ کہ وہ ہمیں دنیا میں دشمنوں پر فتح اور غلبہ عطا فرما دے، مگر ایسا کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ وہ ہمیں آخرت عطا فرما دے، خواہ دنیا میں کسی موقع پر شکست سے بھی دو چار ہونا پڑے۔

تفسیر القرآن الكريم

*صبر اور تقوی اختیار کرو دشمن تمہارا نقصان نہیں کرسکے گا*

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (آل عمران : 120)

اور اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو تو ان کی خفیہ تدبیر تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی۔ بے شک اللہ، وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔

اور فرمایا :

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (الطلاق :2)

اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق : 3)

اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے، بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقینا اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔

*اگر اللہ نہ چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی کسی کا نقصان نہیں کرسکتی*

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:

يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ (ترمذي 2516 صحيح)

اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں

*نوح علیہ السلام نے اللہ کے دین کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے نوح کی حفاظت کی*

پورا جہان نوح علیہ السلام کو ڈبونا چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ بچانا چاہتے تھے

بحری جہاز Titanic کو سینکڑوں لوگوں نے بنایا، اس کا ناخدا بولا: "تقدیر بھی اسے ڈبو نہیں سکتی”۔ اس کا پہلا ہی سفر اسے لے ڈوبا۔

سفینہٴ نوحؑ کو بنانے والا اکیلا شخص، جو بولا:

[بسم الله مجريها ومرساها "اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا جا ٹھہرنا”]

تب پورا جہان ڈوبا اور یہ بچ گیا۔

یعنی امید، استعانت اور توکل کا اصل محل پہچانو؛ وہ کون ہستی ھے…

*خود نیک بنیں، اللہ تعالیٰ تمہاری، تمہارے بچوں کی اور تمہارے در و دیوار کی حفاظت اپنے ذمے لے گا*

اللہ تعالیٰ کے دو رسول، موسی و خضر علیہما السلام چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو خضر علیہ السلام نے اسے سیدھا کر دیا۔

جب موسی علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ وہ تو ہمیں کھانا بھی نہیں دے رہے اور آپ ان کی دیواریں سیدھی کررہے ہیں تو خضر علیہ السلام نے وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا (الكهف : 82)

اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔

اس واقعہ میں یہ جملہ *وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا* انتہائی قابلِ غور ہے کہ وہ آدمی نیک تھا اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والا تھا تو کس طرح اللہ تعالیٰ نے دو نبیوں کے ذریعے اس کے بچوں اور دیواروں کی حفاظت کی

*فجر کی نماز کی حفاظت کرو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا*

حضرت جندب بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہہ رہے تھے :

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ، فَلَا يَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ فَيُدْرِكَهُ فَيَكُبَّهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ» (

مسلم 1493)

’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی و ہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ( امان ) میں ہے ۔ تو ایسانہ ہو کہ ( ایسے شخص کو کسی طرح نقصان پہنچانے کی بناپر ) اللہ تعالیٰ تم ( میں سے کسی شخص ) سے اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ کرے ، پھر وہ اسے پکڑ لے ، پھر اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے

سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا:

((مَنْ صَلّٰی صَلَاۃَ الصُّبْحِ فَلَہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ فَلَا تُخْفِرُوْا اللّٰہَ ذِمَّتَہُ، فَاِنَّہُ مَنْ أَخْفَرَ ذِمَّتَہُ طَلَبَہُ اللّٰہُ حَتّٰی یُکِبَّہُ عَلٰی وَجْہِہِ۔)) (مسند أحمد: ۵۸۹۸)

جس نے نمازِ فجر ادا کر لی، پس اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ضمانت ہے، پس تم اللہ تعالیٰ کی ضمانت کو نہ توڑنا اور جس نے اس کی ضمانت کو توڑ دیا تو وہ اس کو طلب کرے گا اوراس کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دے گا۔

مسند احمد 1185

*نماز کی حفاظت، مدد کی ضمانت*

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة : 153)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

*اسماعیل اور ان کی والدہ محترمہ علیھما السلام نے صحراء میں نماز کی حفاظت کی تو بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی جان کی حفاظت کی*

ابراہیم علیہ السلام جب انہیں صحراء میں چھوڑ کر واپس پلٹے تو تھوڑا فاصلے پر رک کر کہنے لگے:

رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (إبراهيم : 37)

اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔

اور دعا کرتے ہوئے فرمایا :

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (إبراهيم : 40)

اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔

پھر ابراهيم علیہ السلام کے بیٹے اور بیوی پر اللہ تعالیٰ نے ایسی مہربانی کی کہ بے آب و گیا زمین میں پانی کا چشمہ جاری کردیا اور ایسا جاری کیا کہ رہتی دنیا تک اسے قائم و دائم رکھا

*ابراهيم علیہ السلام نے بت پرست قوم کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے تپتی آگ میں ان کی حفاظت*

ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا آخری قول، جب انھیں آگ میں پھینکا گیا

’’حَسْبِيَ اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ ‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب : «الذین قال لھم الناس… » : ۴۵۶۴ ]

تھا، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔

تو پھر اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا

ارشاد باری تعالیٰ ہے

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الأنبياء : 69)

ہم نے کہا اے آگ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔

وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (الأنبياء : 70)

اور انھوں نے اس کے ساتھ ایک چال کا ارادہ کیا توہم نے انھی کو انتہائی خسارے والے کر دیا۔

*اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ یاد رکھتا ہے*

فرمایا :

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة : 152)

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

*تین آدمی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں*

ایک حدیث میں آدمیوں کا تذکرہ ہے جوکہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-: رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلَى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللهِ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا (السلسلۃ الصحیحۃ 609)

تین شخص اللہ كی ضمانت میں ہیں، وہ شخص جو اللہ كی مساجدمیں سے كسی مسجد كی طرف نكلا ، اور وہ شخص جو اللہ كے راستے میں جہاد كے لئے نكلا اور وہ شخص جو حج كرنے كے لئے نكلا۔

*دربار فرعون میں موسی علیہ السلام نے رب تعالیٰ کی توحید کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے موسی کے کمزور تر اور فرعون کے طاقتور ہونے کے باوجود موسی کو نقصان نہ پہنچنے دیا*

ہمارے حافظ صاحب لکھتے ہیں

*غور کیجیے فرعون کس قدر متکبر اور ظالم تھا، کتنے لوگوں کو اس نے قتل کیا ہو گا۔ اس کے دروازے پر کتنا سخت پہرا ہو گا۔ دو آدمی جو ہاتھ میں صرف عصا لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس جاتے ہیں، کسی کو روکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بات شروع ہوتی ہے تو وہ ہر بات میں لاجواب ہوتا ہے۔ لاجواب ہو کر جیل کی دھمکی دیتا ہے، مگر دھمکی پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی، جادوگروں سے مقابلہ کرواتا ہے، ناکام ہوتا ہے۔ پھر قتل کرنا چاہتا ہے مگر جرأت نہیں ہوتی۔اللہ بہتر جانتا ہے کتنے سال اسی طرح گزرے، مگر وہ موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکا، اسے کہتے ہیں ’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ یعنی واضح غلبہ۔*

تفسیر القرآن الكريم

قرآن میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے

قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى (طه : 45)

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! یقینا ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا، یا کہ حد سے بڑھ جائے گا۔

قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى (طه : 46)

فرمایا ڈرو نہیں، بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔