ارکان اسلام

 

ارشاد ربانی ہے: لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ ( سورہ بقرۃ : آیت177)

ترجمہ: ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شحص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔

ارکان ایمان

عن عمر رضي اللہ عنہ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ: عِندَ رَسُولِ الله اِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثَّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِي ﷺ فَاسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَع كَفَّيهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدًا أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلام؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: اَلإسلام أن تَشْهَدَ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله، وَتُقِيمُ الصَّلَاة، وتُؤتِىَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ البَيْتَ إِنْ استَطَعْتْ إِلَيْه سَبِيلاً. قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَهُ، يَسْأَلُهُ وَ يُصَدِّقُهُ. قَالَ فَأَخْبِرُنِي عَنِ الإِيْمَانِ. قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ واليوم الآخرِ، وَتُؤْمِنَ بِالقَدْرِ خَيْرِهِ وَ شَرِّهِ ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ فَأَخْبَرَنِي عَنِ الإِحسَان. قَالَ: أن تَعْبُدَ اللهَ كَأنكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا المَسْئُولٌ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ. قَالَ: فَاَخبِرنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْامَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الحُفَاةَ العُرَاةَ العَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوِلُونَ فِي البُّنْيان، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عمرُ! أَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُم دِيْنَكُم. (أخرجه مسلم)

(تخريج: صحيح مسلم: كتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان)

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص خوب سفید کپڑوں اور سخت کالے بالوں میں نمودار ہوا، اس پر سفر کا کوئی نشان نہ تھا اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ٹیک دیئے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی دونوں رانوں پہ رکھا اور سوال کیا: اے محمد ﷺ! آپ مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رمضان کا صوم رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچنے کی تم میں استطاعت ہے۔ اس نے کہا: آپ ﷺ سچ فرماتےہیں۔ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود سوال کرتا ہے اور خود ہی ( جواب کی) تصدیق کرتا ہے۔ اس نے پھر کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتلائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے ہو تو وہ یقینًا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں خبر دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا، تو اس کی علامات کے بارے میں بتلائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (چند علامات یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی آقا (مالکن) کو جنے گی اور تم دیکھو گے کہ ننگے پیر ننگے بدن، فقیر اور بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ پھر وہ چلا گیا، میں ایک مدت تک منتظر رہا (پھر ایک دن) نبی ﷺ نے فرمایا: اے عمر! کیا تمھیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، وہ جبریل تھے تم کو تمہارے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

تشریح:

ایمان کے کچھ ارکان واصول ہیں جو ایمان کی اساس ہیں جن کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریمﷺ سے امت کی تعلیم کی غرض سے پوچھا تاکہ وہ اسے یاد کرلیں۔ اللہ تعالی پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وجود کو یقینی طور پر تصدیق کریں کہ وہی ہر چیز کا خالق و رازق اور مدبر عالم ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ اکیلا اور بے نیاز ہے، وہ صفات کمال اور اعلیٰ صفات سے متصف ہے اور ہر عیب و نقص سے پاک وصاف ہے وہی عبادت کا مستحق ہے اس کے علاوہ کی عبادت شرک و گمراہی ہے۔

فرشتوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی نظر نہ آنے والی نورانی مخلوق ہیں جن کی حقیقت اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور وہ اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے ہیں وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا گیا ہے اسے بجالاتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بہت ساری حکمتوں کے لئے پیدا کیا ہے۔

آسمانی کتابوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے اپنے انبیاء پر نازل فرمایا، اور ان میں سے جن کتابوں کا ذکر صراحت کے ساتھ آیا ہے ان سب پر ایمان رکھیں، اسی طرح ان میں موجود صح خبروں کی تصدیق کریں، نیز اس پر بھی ایمان رکھیں کہ قرآن مجید ہی ان میں افضل اور آخری اور سب کو منسوخ کرنے والی کتاب ہے اس کے علاوہ دیگر آسمانی کتابوں میں تعریف و تغیر اور تبدیلی واقع ہو گئی ہے لیکن قرآن مجید ہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں تغیر و تبدیلی نہیں ہوتی ہے اور وہ سب کا نگہبان اور سب کی تصدیق کرنے والی ہے۔

رسولوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسالت پر ایمان لائیں اور ان سے ثابت شدہ خبروں کو تسلیم کریں، نیز اس بات کو بھی دھیان میں رکھیں کہ وہ اللہ تعالی کے محقوق ہیں اور وہ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں اور بیمار بھی ہوتے ہیں اور انہیں موت بھی آتی ہے وہ ان سارے امور میں بالکل انسانوں کی طرح ہیں لیکن ان سے محبت اور ان کی اتباع کرنا واجب ہے اور ان سے دشمنی کرنے والوں سے اعراض کرتا از حد ضروری ہے۔

یوم آخرت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی تمام مخلوقات کو قیامت کے روز دوبارہ قبروں سے زندہ کرے گا اور ان سے حساب و کتاب لے گا اور پھر ان کے اعمال کے مطابق انہیں جنت یا جہنم میں داخل کرے گا۔

تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ جو کچھ اس دنیا میں پیش آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالی نے پہلے سے ہی لکھ رکھا ہے اور جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ہے۔ ان جملہ ارکان پر ایمان لانا بیحد ضروری ہے اگر کسی نے کسی ایک کو بھی ترک کر دیا تو وہ مومن نہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم تمام ارکان ایمان پر مکمل طریقے سے ایمان لائیں۔

فوائد:

1۔ ارکانِ ایمان چھ ہیں۔

2۔ اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، رسولوں، آسمانی کتابوں، یوم آخرت اور قضا و قدر

پر ایمان لانے کو ارکان ایمان کہتے ہیں۔

3۔ ارکان ایمان میں سے کسی ایک رکن کا بھی انکار کرنے والا کافر ہے۔

٭٭٭٭