اسلام دین ِ رحمت ہے ( 1)

اہم عناصرِ خطبہ :

01. اسلام دین ِ رحمت کیوں ہے ؟

02. اللہ تعالی ارحم الراحمین ہے

03.  رحمت ِ باری تعالی کا مستحق کون ہے ؟

04.  دین ِ اسلام میں رحمت ِ باری تعالی کی مختلف شکلیں

پہلا خطبہ

محترم حضرات !  ’ اسلام ‘  دین ِ برحق ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک یہی دین ہی قابل قبول ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :    ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ﴾  [ آل عمران : ۱۹]

’’ بے شک دین ( برحق ) اللہ تعالی کے نزدیک اسلام ہی ہے  ۔ ‘‘

اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ’اسلام ‘ ہی ہے ۔ اس لئے جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا پیروکار ہوگا اس کا وہ دین اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہو گا۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں  : ﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾   [آل عمران:۸۵]

’’ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔ ‘‘

لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ کچھ عرصہ سے بعض لوگ شدّ ومدّ سے یہ  پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ’اسلام ‘ وہ دین ہے جو انتہا پسندی ، تشدد اور دہشت گردی کی تعلیم دیتاہے اور اپنے پیروکاروں کو دہشت گرد بناتا ہے ۔ اسی لئے وہ مسلمانوں کو دہشت گرد تصور کرتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ محض ایک جھوٹ اور اسلام پر بہت بڑا بہتان ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین ِ رحمت ہے ۔ اور یہ وہ دین ہے جو پورے عالم کو امن وسلامتی کا پیغام دیتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی ’ جس نے یہ دین عطا کیاہے ‘ وہ ’ارحم الراحمین‘ ہے اور جس کے ذریعے عطا کیاہے وہ ’ رحمۃ للعالمین ‘ ہیں ۔

آج کے خطبۂ جمعہ اور آئندہ خطبۂ جمعہ میں ہم یہ ثابت کریں گے ( ان شاء اللہ ) کہ اسلام کے خلاف لگایا جانے والا یہ الزام بالکل بے جا اور غلط ہے ۔ اور اسلام پورے کا پورا دین رحمت ہے ۔

٭ اللہ تعالی نے اپنے آپ پر رحمت کو لکھ دیا ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کردیا ہے ۔

اس کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذَا جَآئَ کَ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئً ا بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ [ الأنعام :۵۴]

’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ کہئے : تم پر سلامتی ہو ۔ تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔ اگر تم میں سے کوئی شخص لا علمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے ، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

٭  ’رحمت ‘اللہ تعالی کی ملکیت ہے ۔

اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ رَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحَمَۃِ لَوْ یُؤَاخِذُھُمْ بِمَا کَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَھُمُ الْعَذَابَ﴾ [ الکہف :۵۸]

’’اور آ پ کا رب بہت بخشنے والا اور ’رحمت والا‘ ہے ، ورنہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اگر ان پر مواخذہ کرتا تو جلد ہی ان پر عذاب لے آتا ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ میں رحمت کا لفظ ( أل ) کے ساتھ آیا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ پوری کی پوری رحمت کا مالک اللہ تعالی ہی ہے ۔ اور اس کے خزانے سوائے اس کے کسی کے پاس نہیں  ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَہَّابِ ﴾  [ ص ٓ : ۹ ]

’’ یا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور بہت عطا کرنے والا ہے ۔‘‘

اور چونکہ وہ رحمت کا مالک ہے اسی لئے وہ جس کو چاہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرے ۔ اور جس پر چاہے رحم کرے اور جس کو چاہے عذاب میں مبتلا کرے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے :﴿  وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾   [ البقرۃ : ۱۰۵]

’’ اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتاہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآئُ ﴾  [ العنکبوت : ۲۱ ]

 ’’ وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہے رحمت کرتا ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی جس شخص کو اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو اسے کوئی محروم نہیں کر سکتا اور جسے وہ اپنی رحمت سے محروم کرنا چاہے تو اسے کوئی رحمت سے ہمکنار نہیں کر سکتا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ﴾ [ فاطر : ۲]

’’اللہ اگر لوگوں کیلئے اپنی رحمت کا ( دروازہ ) کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کردے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں ۔ ‘‘

گویا باری تعالی جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے اس سے محروم کردے ، اس کا پورا اختیار اسی کے پاس ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔

٭ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی میں سے ’ الرحمن ‘ اور ’ الرحیم ‘ بھی ہیں ۔ یعنی بہت ہی مہربان اور نہایت ہی رحم کرنے والا

اس کا فرمان ہے : ﴿ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ [ البقرۃ : ۱۶۳]

’’ اور تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے ۔ وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ [ الحشر :۲۲ ]

’’ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔وہ غائب اور حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ وہ نہایت مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی کے یہ دونوں اسمائے گرامی ( الرحمن الرحیم ) ایک ساتھ قرآن مجید میں سوائے سورۃ التوبۃ کے  باقی ہر سورت کے شروع میں (یعنی ۱۱۳ مرتبہ  ) ذکر کئے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ مزید پانچ مقامات پر بھی یہ دونوں ایک ساتھ ذکر کئے گئے ہیں ۔ جبکہ اسم گرامی ’ الرحمن ‘ اکیلا ۵۷ مرتبہ اور ’ الرحیم ‘ اکیلا ۹۵ مرتبہ ذکر کیا گیا ہے ۔ اور ( رحیما )  ۲۰ مرتبہ ذکر کیاگیا ہے ۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت کس قدر مہربان اورکتنا رحم کرنے والا ہے !

٭  اللہ تعالی ارحم الراحمین ہے اور اس سے بڑا رحم کرنے والا کوئی نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ﴾ [ یوسف :۶۴ ]

’’اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرما ن ہے : ﴿وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ  ﴾  [ المؤمنون : ۱۱۸]

’’اور آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما ۔ اور تو ہی سب رحم کرنے والوں سے اچھا رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اور حدیث ِ شفاعت میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( فَیَقُوْلُ اللّٰہُ : شَفَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ ، وَشَفَعَ النَّبِیُّونَ ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُوْنَ ، وَلَمْ یَبْقَ إَِّلا أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ۔۔۔۔) [ بخاری : ۷۴۳۹ ، مسلم : ۱۸۳ واللفظ لہ ]

’’اللہ تعالی فرمائے گا :فرشتوں نے بھی سفارش کر لی ، انبیاء نے بھی شفاعت کر لی اور مومن بھی سفارش کرکے فارغ ہو گئے ، اب صرف ارحم الراحمین باقی ہے۔۔۔۔‘‘

 ’’ پھر اللہ تعالی جہنم سے ایک مٹھی بھرے گا اور ان لوگوں کو جہنم سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی خیر کا کام نہ کیاتھا ۔ وہ جل کر کوئلے بن چکے ہونگے  ۔ اللہ تعالی انہیں جنت کے سرے پر واقع ایک نہر میں پھینک دے گا جسے نہر الحیاۃ کہا جائے گا ۔  پھر وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے ایک دانہ گذرگاہِ آب میں نکلتا ہے  ۔۔۔۔۔ پھر وہ ایک موتی کی طرح نکلیں گے۔ ان کی گردنوں پر مہریں لگی ہونگی جن کی وجہ سے انہیں اہلِ جنت پہچان لیں گے اور کہیں گے : یہ ہیں اللہ تعالی کے آزاد کردہ جنہیں اس نے کسی نیک عمل اور کسی خیر کے بغیرجنت میں داخل فرمایا ہے۔۔۔۔ ‘‘

اور عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کچھ قیدی آئے ۔ ان میں سے ایک عورت اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلی ،  تو اسے اس کا بیٹا قیدیوں میں مل گیا ، اس نے اسے اٹھایا اور اپنے پیٹ سے چپکا کر اسے دودھ پلانے لگی ۔ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے کہا : ( أَتَرَوْنَ ہٰذِہِ الْمَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَہَا فِی النَّارِ ؟ ) ’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے اس بیٹے کو آگ میں پھینکے گی ؟ ‘‘

ہم نے کہا : اللہ کی قسم ! نہیں ، ہم نہیں سمجھتے کہ وہ ایسا کر سکتی ہے ۔

 تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( لَلّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہِ مِنْ ہٰذِہِ بِوَلَدِہَا )  [ البخاری : ۵۹۹۹،مسلم : ۲۷۵۴]

’’ جس قدر یہ عورت اپنے بیٹے پر مہربان ہے ، اللہ تعالی اس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والاہے۔‘‘

اِس حدیث میں (بِعِبَادِہِ  ) سے مراد اللہ کے مومن بندے ہیں ۔ جیسا کہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : ( وَلَا اللّٰہُ بِطَارِحٍ حَبِیْبَہُ فِی النَّارِ )  [ رواہ أحمدوغیرہ  وصححہ الحاکم وأقرہ الذہبی ]

  ’’ جس طرح یہ عورت اپنے بیٹے کو آگ میں پھینکنے والی نہیں، اسی طرح اللہ بھی اپنے پیارے بندے کو جہنم میں پھینکنے والا نہیں ۔ ‘‘

’’ پیارے بندے ‘‘ سے مراد مومن ہی ہو سکتا ہے ۔ کافر نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ کافر اللہ تعالی کو محبوب نہیں بلکہ نہایت ہی ناپسندیدہ ہوتا ہے ۔  ﴿اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ ﴾  [ الروم : ۴۵]

٭ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور ہر چیز کو شامل ہے ۔عاقل کو بھی اور غیر عاقل کو بھی ، حیوان کو بھی اور انسان کو بھی ، فرشتوں کو بھی اور جنوں کو بھی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤمِنُوْنَ  ٭  اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ۔۔۔۔۔﴾ [ الأعراف : ۱۵۶ ]

’’ اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔ لہذا میں اُن کیلئے رحمت ہی لکھوں گاجو متقی ہیں ، زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور اس رسول کی اتباع کرتے ہیں جو نبی ٔ اُمی ہے ۔۔۔۔۔‘‘

اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت ویسے تو دنیا میں ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، لیکن  قیامت کے روز اس کی رحمت کے مستحق بس وہ لوگ ہونگے جو متقی ہونگے ، زکاۃ ادا کریں گے ، اللہ کی آیات پر ایمان لائیں گے اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کریں گے ۔

اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿ فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾  [ الأنعام : ۱۴۷]

’’ پھر اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو ان سے کہئے کہ تمھارا رب بہت وسیع رحمت والاہے ۔ اور مجرموں سے اس کا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا ۔ ‘‘

یعنی ان کے جھٹلانے کے باوجود اللہ تعالی کا عذاب ان پر نازل نہیں ہو رہا کیونکہ وہ بہت ہی وسیع رحمت والا ہے ۔ البتہ قیامت کے روز ان مجرموں کو اس کا عذاب ضرور ملے گا ۔

اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ﴾  [ المؤمن : ۷ ]

’’ جو ( فرشتے ) عرش اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کیلئے بخشش کی دعا کرتے ہیں اور ( کہتے ہیں ) اے ہمارے رب ! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ۔ لہذا جنھوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی اتباع کی انھیں بخش دے اور انھیں جہنم کے عذاب سے بچا لے ۔ ‘‘

٭ اللہ تعالی کن لوگوں پر رحم کرتا ہے ؟

ابھی ہم  ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت ان لوگوں کیلئے لکھ دی ہے جو متقی ہوں ، زکاۃ دینے والے ہوں ، اللہ کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہوں اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرنے والے ہوں ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالی ان پر رحم کرتا ہے جو لوگوں پر رحم کرتے ہیں ۔

حضرت اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  ) نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ ان کا ایک بچہ قریب المرگ ہے ۔  لہذا آپ ان کے گھر تشریف لائیں ۔ آپ نے پیغامبر کو کہا کہ انہیں میری طرف سے سلام کہو اور آگاہ کرو کہ

 ( إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہُ مَا أَعْطیٰ ،وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہُ بِأَجَلٍ مُّسَمّٰی ، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ)  ’’ اللہ تعالی کیلئے ہی ہے جو کچھ اس نے لیا اور جو کچھ اس نے عطا کیا ۔ اور ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے ۔  لہذا وہ صبر کریں اور اللہ تعالی سے اجر وثواب طلب کریں ۔ ‘‘

حضرت زینب   رضی اللہ عنہا  نے پیغامبر کو دوبارہ بھیجا اور آپ کو قسم دے کر ضرور بالضرور آنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سعد بن عبادہ  رضی اللہ عنہ  ، معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  ، ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ  ، زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ  اور چند دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ہمراہ اپنی صاحبزادی کے گھر میں پہنچے ۔

اُس بچے کو اٹھا کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی گود میں رکھ دیا گیا ، اُس وقت وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور اِس طرح حرکت کر رہا تھا جیسے ایک پرانے مشکیزے میں حرکت ہوتی ہے۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں میں آنسو بہہ نکلے ۔  تو حضرت سعد  رضی اللہ عنہ  نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا 🙁 ہٰذِہِ رَحْمَۃٌ وَضَعَہَا اللّٰہُ فِی قُلُوبِ مَنْ شَائَ مِنْ عِبَادِہِ ، وَلَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ إِلَّا الرُّحَمَائَ )  [ البخاری : ۵۶۵۵]

  ’’ یہ وہ رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہا رکھ دیا ۔اور وہ اپنے بندوں میں سے صرف ان لوگوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا 🙁 اَلرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمٰنُ ، اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ )   [ الترمذی : ۱۹۲۴ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ رحم کرنے والوں پر ہی اللہ رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ، تم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان پر ہے ۔ ‘‘

کن اعمال پر باری تعالی کی رحمت نصیب ہوتی ہے ؟

وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن کے کرنے پر باری تعالی کی رحمت نصیب ہوتی ہے اور ان لوگوں کے اوصاف کیا ہیں کہ جو اللہ تعالی کے ہاں اس کے مستحق بنتے ہیں ؟ آئیے قرآن مجید سے ان کی بعض انواع واقسام معلوم کرتے ہیں :

01.  ایمان اور تقوی والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُونَ بِہٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  ﴾ [ الحدید : ۲۸]

’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اللہ تمھیں اپنی رحمت سے دوگنا اجر عطا کرے گا اور ایسا نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمھیں معاف کردے گا ۔ اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

02. اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ [آل عمران : ۱۳۲]

’’ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘

03. قرآن مجید کی اتباع کرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [الأنعام : ۱۵۵]

’’ اور یہ کتاب ’ جسے ہم نے اتارا ہے ‘ با برکت ہے ، لہذا اس کی اتباع کرو اور ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘

04.  اچھے کردار والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [الأعراف : ۵۶]

’’ بے شک اللہ کی رحمت اچھے کردار والے لوگوں کے قریب ہے ۔ ‘‘

05. نماز پڑھنے ، زکاۃ دینے اور اطاعت ِرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کرنے والے

 اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [النور : ۵۶]

’’ اور تم نماز قائم کرو اور زکاۃ دیتے رہو اور سول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘

06. عمل صالح کرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ فِیْ رَحْمَتِہٖ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ﴾ [الجاثیۃ : ۳۰]

’’ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو اللہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا ۔ یہی واضح کامیابی ہے ۔ ‘‘

07. استغفار کرنے  والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿لَوْلاَ تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ [النمل : ۴۶]

 ’’ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘

08.  مومنوں کے درمیان صلح کرانے اور اللہ سے ڈرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾  [الحجرات : ۱۰]

’’مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر حم کیا جائے ۔ ‘‘

09. مصیبت کے وقت صبر کرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ٭ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ﴾ [البقرۃ : ۱۵۵۔۱۵۷]

’’ اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! )  صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘

10.  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾  [ التوبۃ : ۷۱]

’’ مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے ( مدد گار ومعاون اور ) دوست ہوتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ نماز قائم کرتے ، زکاۃ اداکرتے اور اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی رحم کرے گا ۔ بے شک اللہ تعالی غالب ، حکمتوں والا ہے۔ ‘‘

عزیز بھائیو ! ہم نے جو آیات ذکر کی ہیں ان سے پتہ چلتا کہ رحمت ِ باری تعالی کے مستحق کون لوگ ہیں اور ان کے اوصاف کیا ہیں۔ لہذا ہمیں بھی وہی اوصاف اختیار کرنے چاہئیں تاکہ ہم بھی انہی خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو جائیں جنھیں اللہ رب العزت کی رحمت نصیب ہوتی ہے ۔ ورنہ جو شخص رحمتِ باری تعالی سے محروم ہوتا ہے وہ یقینا خسارہ پانے والا ہوتا ہے ۔ اسی لئے حضرت آدم  علیہ السلام  اور ان کی بیوی حواء علیہا السلام نے دعا کرتے ہوئے کہا تھا :

 ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۳]

’’ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔ ‘‘

اور حضرت نوح  علیہ السلام  نے کہا تھا : ﴿ رَبِّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُنْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾  [ ہود : ۴۷ ]

’’ اے میرے رب ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھے آغوشِ رحمت میں نہ لیا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا ۔ ‘‘

اور اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ فَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ [البقرۃ : ۶۴]

’’ پھر اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاتے ۔ ‘‘

بلکہ اگر اللہ کی رحمت نہ ہو تو کوئی بھی انسان شیطان سے ہی نہیں بچ سکتا ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ [ النساء : ۸۳ ]

’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم سب سوائے چند لوگوں کے شیطان کی پیروی کرتے۔ ‘‘

دین اسلام میں رحمت ِ باری تعالی کی مختلف شکلیں

عزیز بھائیو ! دین اسلام میں اللہ تعالی کی رحمت ہمیں مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے مثلا :

01.  اللہ تعالی کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس کی طرف پیغمبر بھیج کر اسے اس کے فرائض کی یاددہانی نہ کرادے ۔

اس کا فرمان ہے :  ﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا  ﴾ [ الإسراء : ۱۵ ]

’’ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک رسول نہ بھیجیں ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرمان ہے  :﴿ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ  ﴾  [ القصص : ۵۹ ]

’’ اور آپ کا رب کسی آبادی کو ہلاک نہیں کرتا حتی کہ کسی مرکزی بستی میں رسول نہ بھیج لے جو انھیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے ۔ نیز ہم صرف ایسی بستی کو ہی ہلاک کرتے ہیں جس کے رہنے والے ظالم ہوں ۔ ‘‘

02.  اللہ تعالی اپنی رحمت کی بناء پر کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔

اس کا فرمان ہے : ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا  ﴾ [ البقرۃ : ۲۸۶ ]

’’ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت کے بقدر ہی پابند بناتا ہے ۔ ‘‘

یہی وجہ ہے ہے کہ

٭ جب پانی موجود نہ ہو یا موجود ہو لیکن ( بیماری وغیرہ کی وجہ سے ) اسے استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو تو اللہ تعالی نے تیمم کرنے کی اجازت دی ہے ۔

٭ اگر کوئی شخص کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے ۔ اور اگر وہ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو اسے لیٹ کر پڑھنے کی اجازت ہے۔

٭ حیض ونفاس کی حالت میں خواتین ِ اسلام کو نمازیں معاف ہیں ۔

٭ حج ِ بیت اللہ زندگی میں ایک بار فرض ہے اور وہ بھی صرف اس آدمی پر جو اس کی استطاعت رکھتا ہو ۔

٭ مریض اور مسافر کو مرض اور سفر کے ایام میں روزے چھوڑنے کی اجازت ہے ۔ تاہم عذر زائل ہونے پر انھیں قضا کرنا لازم ہے ۔

یہ تمام باتیں اِس کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان کی طاقت کے مطابق ہی اپنے احکامات کا پابند بناتا ہے ۔ اور انھیں ان کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا پورا دین ہی آسان ہے اور اس میں انسان پر کوئی مشقت وغیرہ نہیں ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ [ الحج : ۷۸ ]

’’ اس نے تمھیں چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ ‘‘

03.  اللہ تعالی نے کئی چیزوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص نہایت ہی مجبور ہو جائے تو اس نے اپنی رحمت کی بناء پر اسے بقدر مجبوری حرام چیز کو کھانے کی اجازت دی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿  اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ [ البقرۃ : ۱۷۳]

’’اس نے بلا شبہ تم پر مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور وہ چیز بھی جو غیر اللہ کے نام سے مشہور ہو،پھر جو مجبور ہو ، تاہم قانون شکنی کرنے والا اور حد سے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں ۔ اللہ یقینا بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

04. اللہ تعالی نے  اپنی ’رحمت ‘کی بناء پر لوگوں کی بھول چوک ، دل کے خیالات ووساوس اور جبر واکراہ کو معاف کردیا ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : (إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ ) [ البخاری :۵۲۶۹]

’’ بے شک اللہ تعالی نے میری امت کے دل کے خیالات اور وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک وہ عمل نہ کرے یا گفتگو نہ کرے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  (إِنَّ اللّٰہَ قَدْ تَجَاوَزَ لِی عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ )   [ ابن ماجہ : ۲۰۴۳ ۔ وصححہ الألبانی]

’’ بے شک اللہ تعالی نے میرے لئے میری امت کی غلطی ، بھول اور جس چیز پر وہ مجبور کردئیے جائیں اسے معاف کردیا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی نے اپنی رحمت کی بناء پر تین قسم کے لوگوں کو مرفوع القلم قرار دیا ہے ۔ اور وہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کے مطابق یہ ہیں  فرمایا :  ( رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ : عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ ، وَعَنِ الصَّغِیْرِ حَتّٰی یَکْبُرَ ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ أَوْ یُفِیْقَ )  [ ابن ماجہ : ۲۰۴۱ ۔ وصححہ الألبانی]

’’ تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے : سویا ہوا انسان جب تک وہ بیدار نہ ہو ۔ چھوٹا بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہو ۔ اور مجنون جب تک وہ دماغی طور پر ٹھیک نہ ہو ۔‘‘

05.  اللہ تعالی کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ وہ خود ہی اپنے گناہ گار بندوں کو پیار بھرے انداز میں اپنی رحمت ومغفرت کی امید دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

﴿ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ ﴾  [ الزمر : ۵۳ ]

’’ آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جنھوں نے ( گناہوں کا ارتکاب کرکے ) اپنے اوپر زیادتی کی ہے! تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو  ، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔  یقینا وہی تو ہے جو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے ۔ ‘‘

اور وہ خود ہی ہر صبح وشام اپنا دست ِ مبارک پھیلا کراپنے بندوں کو  پیش کش کرتا ہے کہ تم توبہ کر لو میں تمھیں معاف کردوں گا ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّہَارِ ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِہَا )  [ مسلم : ۲۷۵۹]

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اپنا دست ِ رحمت رات کے وقت پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا شخص توبہ کر لے ۔ اسی طرح دن کے وقت بھی اپنا دست ِ رحمت پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا آدمی توبہ کر لے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے ۔ ‘‘

اور جو شخص بھی کسی برائی کے بعد اخلاص دل کے ساتھ اللہ تعالی سے معافی مانگ لے تو وہ اسے اپنی رحمت کی بناء

 پر معاف کردیتا ہے ۔ ارشاد باری ہے : ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْئً ا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾  [النساء : ۱۱۵]

’’ جو شخص کوئی برائی کرے یا ( گناہ کا ارتکاب کرکے ) اپنی جان پر ظلم کرے ، پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کر لے تو وہ اللہ تعالیٰ کو انتہائی بخشنے والا ، بے حد مہربان پائے گا ۔ ‘‘

بلکہ اللہ رب العزت اتنا رحیم ہے کہ اس نے اپنے فرشتوں کو حکم دے رکھا ہے کہ اس کا کوئی بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرے تو  وہ فوری طور پراسے نہ لکھیں ، بلکہ کچھ وقت کیلئے اسے مہلت دیں ، شاید کہ وہ معافی مانگ لے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( إِنَّ صَاحِبَ الشِّمَالِ لَیَرْفَعُ الْقَلَمَ سِتَّ سَاعَاتٍ عَنِ الْعَبْدِ الْمُسْلِمِ الْمُخْطِیِٔ ، فَإِنْ نَدِمَ وَاسْتَغْفَرَ اللّٰہَ مِنْہَا أَلْقَاہَا ، وَإِلَّا کُتِبَتْ وَاحِدَۃً  [ صحیح الجامع الصغیر : ۲۰۹۷]

’’ بے شک بائیں طرف والا فرشتہ اپنا قلم خطا کار بندۂ مسلمان سے چھ گھڑیوں تک اٹھائے رکھتا ہے ، پھر اگر وہ شرمندہ ہو کر معافی مانگ لے تو وہ اس کی خطا کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ ورنہ ایک ہی خطا لکھ لی جاتی ہے ۔ ‘‘

06.  اللہ رب العزت اتنا رحیم وکریم ہے کہ وہ کسی بھی انسان کیلئے توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا یہاں تک کہ اس کی موت کا وقت قریب آجائے ۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ الترمذی : ۳۵۳۷ ۔ صححہ الألبانی ]

’’ جب تک بندے پر نزع کی کیفیت طاری نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے۔ ‘‘

07.  اللہ رب العزت اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ اگر وہ ایک نیکی کریں تو اس کا ثواب کئی گنا بڑھا دیتا ہے ، حتی کہ ایک نیکی سات سو نیکیوں کے برابر ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے برعکس اگر وہ ایک برائی کریں اور اس سے توبہ نہ کریں تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَ اِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا وَ یُؤتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [ النساء : ۴۰]

’’ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور کسی نے کوئی نیکی کی ہو تو اللہ اسے دو چند کردے گا اور اپنے ہاں سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا ۔ ‘‘

اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں : ( وَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ ، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ لَہُ عَشْرًا ، وَمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا لَمْ تُکْتَبْ شَیْئًا ، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً )   [ مسلم :۱۶۲]

 ’’ نمازوں کی فرضیت کے علا وہ یہ بات بھی میری طرف وحی کی گئی کہ جو نیکی کا ارادہ کرے ، پھر اسے عملی طور پر انجام نہ دے تو وہ اس کیلئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور اگر وہ اسے عملی طور پر کر لے تو اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے ، پھر اس پر عمل نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔ اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ ، ثُمَّ بَیَّنَ ذَلِکَ ، فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلٰی سَبْعِمِائَۃِ ضِعْفٍ إِلٰی أَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ ، وَمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ سَیِّئَۃً وَّاحِدَۃً )  [ البخاری : ۶۴۹۱ ، مسلم : ۱۳۱]

 ’’ بے شک اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں ۔ پھر اس نے ( انھیں لکھنے کا نظام )  واضح فرمایا۔ چنانچہ جو شخص کسی نیک کام کا ارادہ کرے پھر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے ۔ اور اگر وہ اس کا ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اپنے پاس دس نیکیاں لکھ دیتا ہے حتی کہ یہ سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ تک چلی جاتی ہیں ۔ اور اگر وہ کسی برائی کاارادہ کرے پھر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالی اسے بھی اپنے پاس ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے ۔ اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں ایک ہی برائی لکھتا ہے ۔ ‘‘

08. اللہ تعالی کی رحمت اس کے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : (إِنَّ  اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ الْخَلْقَ : إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی ، فَہُوَ مَکْتُوبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ  ) [ البخاری : ۷۵۵۴]

’’ بے شک اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ایک تحریر لکھ دی تھی کہ میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے ۔ یہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔ ‘‘

09. اللہ تعالی اِس قدر رحمان ورحیم ہے کہ اس نے اپنی رحمت کو سو حصوں میں تقسیم کرکے اس کا ایک ہی حصہ زمین پر اتارا  اورباقی تمام حصے اس نے اپنے پاس روک لئے ۔

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

 ( جَعَلَ اللّٰہُ الرَّحْمَۃَ فِی مِائَۃِ جُزْئٍ ، فَأَمْسَکَ عِنْدَہُ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ جُزْئً ا ، وَأَنْزَلَ فِی الْأَرْضِ جُزْئً ا وَّاحِدًا ، فَمِنْ ذَلِکَ الْجُزْئِ تَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ ، حَتّٰی تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَہَا عَن وَّلَدِہَا خَشْیَۃَ أَنْ تُصِیْبَہُ )   [ البخاری : ۶۰۰۰]

’’اللہ تعالی نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم کیا ، پھر ۹۹ حصے اپنے پاس روک لئے اور ایک حصہ زمین پر اتار دیا ۔ اسی ایک حصے سے مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ گھوڑی اپنے بچے سے اپنا کُھر اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے ۔ ‘‘

10.  اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم گرامی ( الرؤف ) ہے  ، جو قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ ذکر کیا گیا ہے ۔ اور اس کا معنی ہے : ترس کھانے والا ۔ یعنی اللہ تعالی اپنے بندوں پر ترس کھاتے ہوئے انھیں اپنا تقرب حاصل کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ اور جب کوئی بندہ تھوڑا سا اس کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اس سے کہیں زیادہ اس کی طرف بڑھتا ہے اور اسے اپنا قرب نصیب کرتا اور اسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے ۔

نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی :  أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِیْ ، فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ  فِیْ نَفْسِیْ ، وَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَأٍ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَأٍ خَیْرٍ مِّنْہُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا ، وَإِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً )   [البخاری : ۷۴۰۵، مسلم : ۲۶۷۵]

’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ کسی جماعت میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں ۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا ( دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ) اس کے قریب ہوتا ہوں ۔ اور اگروہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ ‘‘

بلکہ اللہ تعالی تو جانوروں پر بھی ترس کھاتا ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( وَلَمْ یُمْنَعُوا الزَّکَاۃَ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَائِ ، وَلَوْ لَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا )  [ رواہ الحاکم وصححہ ووافقہ الذہبی ]

’’ لوگ جب زکاۃ روک لیں گے تو ان پر بارش نازل نہیں ہوگی ۔ اور اگر چوپائے جانور نہ ہوتے تو ان پر بارش بالکل ہی بند ہوجاتی ۔‘‘

یعنی لوگوں کی طرف سے زکاۃ کی عدم ادائیگی کے باوجود  اللہ تعالی  چوپائے جانوروں پر ترس کھاتے ہوئے بارش کا نزول بند نہیں کرے گا ۔

عزیز بھائیو ! اللہ تعالی جانوروں پر اِس قدرترس کھاتا ہے کہ اگر کوئی بدکار انسان جانور پر ترس کھاتے ہوئے اسے پانی پلا دے تو اللہ تعالی اسے بھی معاف کردیتا ہے ۔

صحیحین میں ہے کہ ایک بد کار عورت نے ایک کتے کو دیکھا جو سخت گرم دن میں ایک کنویں کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا اور شدید پیاس کے عالم میں ہانپ رہا تھا ۔ اس نے اپنا موزا اتارا اور اس کے ذریعے کنویں سے پانی کھینچا ، پھر اسے پانی پلایا ۔  چنانچہ اُس کے اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کردیا گیا ۔  [ البخای : ۳۴۶۷ ، مسلم : ۲۲۴۴]

اور حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

’’ ایک شخص ایک راستے پر چل کر جا رہا تھا کہ اسے شدید پیاس محسوس ہوئی ، اسے ایک کنواں ملا ، وہ اس میں اترا اور پانی نوش کر لیا ۔ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو ہانپتے ہوئے دیکھا جو شدید پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا تھا ، وہ ( اپنے دل میں) کہنے لگا : پیاس نے اس کتے کا برا حال کر رکھا ہے جیسا کہ میرا برا حال تھا ۔ پھر وہ دوبارہ کنویں میں اترا ، اپنے موزے میں پانی بھرا ، اسے اپنے منہ کے ساتھ پکڑ کر اوپر کو چڑھا اور باہر آکر کتے کو پانی پلایا ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا : ( فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ)  ’’ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کردیا ۔ ‘‘ [ البخاری : ۲۳۶۳ ، مسلم : ۲۲۴۴]

اِس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین دین ِ رحمت ہے کہ جو کتے جیسے جانور پر بھی ترس کھانے کی دعوت دیتا ہے ۔ چہ جائیکہ وہ انسانوں کو خوفزدہ کرنے یا انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنانے یا انھیں نا جائز طور پر قتل کرنے کی ترغیب دے ! دین ِ اسلام اِس طرح کی چیزوں سے بالکل پاک ہے ۔

سامعین کرام ! ہم نے اللہ تعالی کی رحمت کے چند نمونے پیش کئے ہیں ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جو اللہ اپنے بندوں کیلئے اِس قدر رحمان ورحیم ہے اور اس سے بڑا رحم کرنے والا کوئی نہیں تو کیا اُس کے بارے میں یہ کہا جا سکتاہے کہ اس نے جو دین بھیجا وہ دین رحمت نہیں ، بلکہ ایسا دین ہے کہ جس میں خوف ودہشت ہے اور جس میں مار دھاڑ اور جنگ وجدال کے سوا کچھ نہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ اللہ ارحم الراحمین کا بھیجا ہوا دین ، دین ِ رحمت ہے اور اس میں تمام انسانوں کیلئے امن وسلامتی کا پیغام ہے ۔

 ہم باری تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔

دوسرا خطبہ

عزیز بھائیو !

ہمارا دین دین ِاسلام ہے جو کہ سلامتی کا سبق دیتاہے ۔ اور ہمارا خالق ومالک اور معبودِ برحق اللہ تعالی ہے جس کے اسمائے گرامی میں سے ایک اسم گرامی (السلام ) ہے ۔ اور اس کا معنی بھی یہی ہے : سراسر سلامتی والا ، یعنی وہ جس کے ظلم سے مخلوق سلامتی میں ہو ۔ اسی طرح اس کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ( المؤمن ) بھی ہے جس کا معنی ہے : امن دینے والا ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے مسلمان بندوں کو  بوقت ملاقات ایک دوسرے کو جو تحفہ پیش کرنے کی تعلیم دی ہے وہ ہے : (السلام علیکم ) یعنی ’ تم پر سلامتی ہو ‘ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی جو سلامتی والا اور امن دینے والا ہے اس نے اپنے ماننے والوں کو بھی یہی تعلیم دی ہے کہ وہ امن وسلامتی کے پیغام کو عام کریں اور دنیا بھر کے لوگوں کو باور کرائیں کہ ہم امن وسلامتی کو پسند کرتے ہیں اور خود بھی امن وسلامتی کے ساتھ رہنا چاہتے  ہیں اور دوسروں کی بھی سلامتی کے خواہشمند ہیں۔

اِس کے علاوہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کا جو ابدی ٹھکانا بنایا ہے اور جس میں وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ان کے بارے میں کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ان کا تصور کر سکتا ہے ، وہ ہے :  (دار السلام ) یعنی سلامتی کا گھر  ۔  یہ بھی اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کو امن وسلامتی بہت پسند ہے ۔

لہذا جو اللہ تعالی خود سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، مسلمانوں کو آپس میں پیغامِ امن دینے کی تعلیم دیتا ہے اور اس نے ان کیلئے سلامتی والا گھر تیار کر رکھا ہے ، کیا اس کا دین دین ِخوف ودہشت ہو سکتا ہے ؟  نہیں ، ہرگز نہیں ۔ یقینی طور پر اس کا بھیجا ہوا دین دین ِ رحمت ہے اور دین ِامن وسلامتی ہے ۔ جو ساری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اِس سچے دین کو قبول کر لو ، تمھارے لئے دنیا وآخرت میں سلامتی ہی سلامتی ہوگی ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مرتے دم تک اِس سلامتی والے دین ِ اسلام پر قائم ودائم رہنے کی توفیق دے ۔ اور ہمارا خاتمہ ایمان وعمل کی سلامتی کے ساتھ فرمائے ۔