اسلام میں نکاح کی اہمیت و فرضیت

================

انسانی رشتوں میں سے وجود میں آنے والا سب سے پہلا رشتہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیداکیا اور انھی سے اُن کا جوڑا حضرت حوا کو بنایا۔ اس طرح شوہر اور بیوی کا یہ پہلا انسانی رشتہ وجود میں آیا۔ باقی سارے رشتے ماں باپ، بیٹابیٹی، بھائی بہن و دیگر رشتے داریاں بعد میں وجود میں آئی ہیں۔

احساس اور رحمدلی کے تمام مظاہر نکاح کے راستے سے معرض وجود میں آتے ہیں

انسانی معاشرے میں باپ کی شفقت، ماں کی ممتا، بیٹے کی وفا، بیٹی کی عزت، اور چچا، تایا، خالہ، پھوپھو، دادا، دادی، نانا اور نانی جیسے پیار اور محبت اور ایک دوسرے کو چاہنے اور تعاون واحساس رکھنے والے جتنے رشتے موجود ہیں ان سب کے پیچھے صرف ایک راز ہے اور وہ ہے "نکاح” ورنہ اگر نکاح نہ ہو تو انسانی معاشرہ کسی بھی حیوانی معاشرے سے مختلف نہ ہو

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بچے تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں مگر ان میں یہ سب رشتے مفقود ہیں اس کی صرف یہی ایک وجہ ہے کہ نکاح انسانوں کا طریقہ ہے اور جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں

نکاح کرنے کا حکم ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا [النساء : 3]

اور اگر تم ڈروکہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے، یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی ۔

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا :

 يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ  (بخاري ،كِتَابُ النِّكَاحِ ،5066)

 نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لئے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلیناچاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگا ہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑدے گا ۔

نکاح انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سے پہلے جتنے بھی اللہ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں وہ سب بیوی بچے رکھتے تھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ [الرعد : 38]

اور بلاشبہ یقینا ہم نے کئی رسول تجھ سے پہلے بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے اور کسی رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی لے آتا، مگر اللہ کے اذن سے۔ ہر وقت کے لیے ایک کتاب ہے۔

‏نکاح اتنا پاکیزہ و عظیم شعار ہے

کہ اس کے حصول کےلئے حضرت موسی علیہ السلام  نے دس سال خدمت کا مہر مقرر کیا۔

اور زنا اتنی بڑی قباحت ہے

کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس سے بچنے کے لئے دس برس کےقریب قید کاٹی۔

قرآن کے یہ دو مضامین کو سامنے رکھیں اور پاکیزگی کو اختیار کیجئے۔

نکاح ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ» (ابن ماجہ ،كِتَابُ النِّكَاحِ،1846،حسن)

 نکاح میرا طریقہ ہے۔ اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخڑ کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔

نکاح سے بے رغبتی کرنے والے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

 [جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلٰی بُيُوْتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوْهَا فَقَالُوْا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النِّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَفَرَ اللّٰهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَأَنَا أُصَلِّی اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُوْمُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ إِلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِيْنَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰهِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لٰكِنِّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ ] [ بخاری، النکاح، باب الترغیب في النکاح : ۵۰۶۳۔ مسلم : ۱۴۰۱ ]

 ’’تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انھیں بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا، کہنے لگے : ’’ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہیں۔‘‘ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا : ’’میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا : ’’میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (انھیں بلوایا) اور فرمایا : ’’تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں، یاد رکھو! اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ کے تقویٰ والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو میرے طریقے سے بے رغبتی کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘

شادی کرو کیونکہ اس امت کے سب سے بہترین شخص نے شادی کی تھی

 سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کرلی ہے ؟

میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا

 فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً  (بخاری ،كِتَابُ النِّكَاحِ،5069)

 شادی کرلو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں ۔

بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی بہت عورتیں ہوں ۔

اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں قابلِ فخر امتی بنائیں

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ  (ابن ماجة ،كِتَابُ النِّكَاحِ،1846،حسن)

شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ, فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ  (ابوداؤد ،كِتَابُ النِّكَاحِ،2050 حسن صحیح)

” ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں ۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔“

امت کو خیر سے محروم مت کیجیے۔۔۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ (م: 597ھـ) فرماتے ہیں:

بہت سی شادیاں ایسے بھی ہوتی ہیں جن کے نتیجیے میں امام شافعی اور احمد بن حنبل جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں، ایسا نکاح ہزار سالہ عبادتوں سے بہتر ہے۔ (تلبیس ابلیس:ص 263)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيْبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِيْ فِي الصَّلاَةِ ] [ نسائي، عشرۃ النساء، باب حب النساء : ۳۳۹۱، عن أنس رضی اللہ عنہ ]

 ’’دنیا میں سے میرے لیے عورتیں اور خوشبو محبوب بنا دی گئیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنا دی گئی۔‘‘

بغیر نکاح، رہنا حرام ہے

سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ» (ابن ماجہ ،كِتَابُ النِّكَاحِ،1849،صحیح)

 کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے نکاح رہنے سے منع فرمایا۔

نکاح نہ کرو گے تو فساد پیدا ہوگا

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی ،أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،1084،حسن)

‘ جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا’۔

نکاح فقر کو دور کرتا ہے

عام طور پر غربت کو مرد کے نکاح کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو بیوی کو کہاں سے کھلائے گا، اس لیے غریب کو کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید کی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [النور : 32]

اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

بیوی آئے گی تو غنی ہو جائے گا

 اللہ تعالیٰ کے پاس غیب سے غنی کر دینے کا اختیار ہے اور اسباب کے لحاظ سے بھی بیوی آنے کے بعد وہ کمائی کے لیے زیادہ جدو جہد کرے گا۔ کھانا تو پہلے وہ خود بھی کھاتا ہے، اگر مزید کمائی نہ بھی کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ [ دیکھیے، بخاری : ۵۳۹۲ ] پہلے یہ اکیلا کمائی کرتا تھا، بیوی آنے کے بعد اس کی کمائی کی استعداد دو گنا ہی نہیں بلکہ مشہور عام قول کے مطابق گیارہ گنا ہو جائے گی۔ بیوی اس کا ہاتھ بٹائے گی، ہو سکتا ہے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ہنر عطا کر رکھا ہو، یا وہ بہتر مشورے دے کر خاوند کی بہترین مشیر ثابت ہو، یا بیوی کے رشتہ داروں کے تعاون سے حالت بدل جائے۔ علاوہ ازیں اولاد ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ اتنی کمائی کریں کہ پورا کنبہ ہی اغنیاء میں شامل ہو جائے۔ اس کے برعکس کسی غنی کو لڑکی دے تو ہو سکتا ہے کسی آزمائش میں وہ فقیر ہو جائے۔

[تفسیر القرآن الكريم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ]

نیک بیوی،دنیا کی بہترین متاع قرار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ” الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا ؛ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ ” [صحيح مسلم | كِتَابٌ : الرِّضَاعُ 1467

اللہ تعالیٰ نکاح کرنے والے کی مدد کرتا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُهُمُ الْمُكَاتَبُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ] [ نسائي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : ۳۲۲۰۔ ترمذي : ۱۶۵۵، قال الترمذي والألباني حسن ]

 ’’تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے، وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘

جس کے گھر میں انگوٹھی برابر لوہا بھی نہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی نکاح کردیا

 سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے لئے پیش کیا ۔ پھر ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کرادیجئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :

مَا عِنْدَكَ

تمہارے پاس ( مہر کے لئے ) کیا ہے ؟

 انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اذْهَبْ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ

کہ جاؤ اور تلاش کرو ، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی مل جائے ۔

 وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم ، میں نے کوئی چیز نہیں پائی ۔ مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی ، البتہ یہ میرا تہبند میرے پاس ہے اس کا آدھا انہیں دے دیجئے ۔

حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی ۔

مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ

کہ یہ تمہارے اس تہبند کا کیا کرے گی ، اگریہ اسے پہن لے گی تو یہ اس قدر چھوٹا کپڑا ہے کہ پھر تو تمہارے لئے اس میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا اور اگر تم پہنو گے تو اس کے لئے کچھ نہیں رہے گا ۔

پھر وہ صاحب بیٹھ گئے ، دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد اٹھے ( اور جانے لگے ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا اور بلایا ، یا انہیں بلایا گیا ( راوی کو ان الفاظ میں شک تھا )

پھر آپ نے ان سے پوچھا :

مَاذَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ

کہ تمہیں قرآن کتنا یاد ہے ؟

انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں چند سورتیں انہوں نے گنائیں ۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَمْلَكْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ  (بخاری ،كِتَابُ النِّكَاحِ،5121)

 کہ ہم نے تمہارے نکاح میں اس کو اس قرآن کے بدلے دے دیا جو تمہیں یاد ہے ۔

شیخ مدین نے موسیٰ علیہ السلام کی برادری، کاروبار، گھر، مکان کچھ بھی نہ دیکھا اور اپنی بیٹی کی شادی ان سے کردی

جب موسیٰ علیہ السلام نے دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلایا تو گھر جانے کے بعد ان میں سے ایک واپس آئی اور موسی علیہ السلام کو بلا کر اپنے باپ کے پاس لے گئی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [القصص : 25]

تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔

شیخ مدین علیہ الرحمہ نے موسی علیہ السلام کی ساری روئداد سننے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی ایک بیٹی کا نکاح موسی علیہ السلام سے کردیتا ہوں

چنانچہ اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید ارشاد فرماتے ہیں :

قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ  [القصص : 27]

اس نے کہا بے شک میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں، اس (شرط) پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا، پھر اگر تو دس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو یقینا تو مجھے نیک لوگوں سے پائے گا۔

کسی نکتہ دان نے لکھا ہے کہ میں حیران ہوتا تھا کہ موسی علیہ السلام نے اس عورت میں ایسی کیا بات محسوس کی تھی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے دس سال بکریاں چرانے کی شرط قبول فرما لی بالآخر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ حیاء دار عورت تھی

نکاح ،جائز محبت کا بہترین ذریعہ

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلُ النِّكَاحِ» (ابن ماجہ ،كِتَابُ النِّكَاحِ،1847،صحیح)

 آپس میں محبت رکھنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ [المؤمنون : 5]

اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [المؤمنون : 6]

مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔

فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ [المؤمنون : 7]

پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔

نکاح، طبی طور پر جسمانی امراض سے بچاؤ کا ذریعہ ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [الروم : 21]

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پائو اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔

نکاح ،صدقہ جاریہ ہے

 شادی، نکاح اور اس کی وجہ سے قائم ازدواجی رشتہ نسل انسانی وجود اور اولاد کی نعمت کے حصول کا جائز ذریعہ ہے اور اولاد کا حصول شادی کے اہم مقاصد میں ہے اسی لئے اولادکے لیے انبیاء کرام نے بھی دعائیں کی اور اللہ نے انھیں نا صرف دنیوی زندگی کی زینت، بڑھاپے کا سہارا  اوران کی تربیت کو اخروی زندگی میں بہت سارے اجروثواب کا ذریعہ بنا یا بلکہ والدین کے لئے صدقہ جاریہ بھی بنادیا

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ  (مسلم،كِتَابُ الْوَصِيَّةِ،4223)

 "جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے

نکاح، انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین ذریعہ ہے

نکاح کی وجہ سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے تئیں جو حقوق اور ذمہ داریاں عائد کی گئیں اسے صرف ذمہ داری اور بوجھ نہیں بلکہ اجر و ثواب اور اخروی کامیابی کا ذریعہ بھی بنا دیا گیا ۔ لہذا مرد کے ذریعہ خود اپنی بیوی بچوں پر خرچ کو سب سے بہترین صدقہ قرار دیا گیا

 ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:

دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ  (مسلم، كِتَابُ الزَّكَاةِ، 2311)

  "(جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دیناروہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن (کی آزادی) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کے نزدیک نکاح کی اہمیت

آپ فرماتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روز قیامت اپنی امت کو دیکھ کر خوش ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

 موت کے بعد نیک عمل کا (بصورت صالح اولاد) جاری رہنا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

ایسی نسل جو اللہ کی وحدانیت اور نبی کی رسالت کی گواہی دیتی ہو، کا پیدا ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

محرمات سے آنکھوں کا جھک جانا اور شرمگاہ کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

کسی خاتون کی عصمت کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

مرد کا بیوی کے پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے اور کھانے پینے پر خرچ کرنے کا ثواب ہی ہوتا تو کافی تھا۔

اسلام اور اس کے ماننے والوں کا بڑھنا اور اسلام دشمنوں کا اس پر پیچ و تاب کھانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

بہت سی عبادات، جو تارکِ دنیا درویش نہیں بجا لا سکتا، کا بجا لانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

بیٹیوں کا، جن کی اس نے اچھی پرورش کی اور ان کی جدائی کا غم سہا، جہنم سے ڈھال بن جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔

دو بچوں کا کم عمری میں فوت ہونا جو اس کے جنت میں داخلے کا سبب بن جاتے، ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔

اللہ کی خصوصی مدد کا حاصل ہو جانا ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔ کیونکہ جن تین لوگوں کی اعانت اللہ کے ذمے ہے، اس میں ایک پاکیزگی کی خاطر نکاح کرنے والا بھی ہے۔”  (بدائع الفوائد : 159/3)