اسلام کا عام فہم تعارف

اہم عناصرِ خطبہ :

01. اسلام ہی اللہ تعالی کا دین ِ برحق ہے

02. اسلام ہی تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین تھا

03. اسلام کسے کہتے ہیں ؟

04. اسلام کی بعض خصوصیات

05. اسلام کی اہم تعلیمات

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! اللہ تعالی کابے انتہاء شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور دین ِ برحق ( دین اسلام ) کو قبول کرنے کی توفیق دی ۔ یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ! کیونکہ دین ِ اسلام ہی اللہ تعالی کا دین ِ برحق ہے ۔ اس کے علاوہ جتنے دین ہیں وہ سب کے سب باطل ہیں اور جو لوگ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کے پیروکار ہیں وہ یقینا دنیا میں بھی خسارے میں ہیں اور آخرت میں بھی وہ یقینا خسارہ ہی پائیں گے اور انھیں اللہ تعالی کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم اسی دین ِ برحق ( یعنی اسلام ) کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔ اسلام کی حقانیت کو واضح کرتے ہوئے اس کا حقیقی مفہوم بیان کریں گے ۔ اس کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کریں گے اور اسلام کی اہم تعلیمات اور احکام وآداب پر روشنی ڈالیں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی

01. اللہ تعالی کے نزدیک سچا اور برحق دین ’ اسلام ‘ ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام﴾ [ آل عمران : ۱۹ ]

’’ بے شک دین ( برحق ) اللہ تعالی کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔ ‘‘

’اسلام ‘ اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے جیساکہ اس کا فرمان ہے :﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾ [ المائدۃ : ۳ ]

’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔‘‘

اس لئے جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا پیروکار ہو اس کا دین اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہے ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ [ آل عمران:۸۵]

’’ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طلبگار ہو تواس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔ ‘‘

02.اسلام تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیائے کرام علیہم السلام ایک ہی دین کے ساتھ مبعوث کئے گئے اور وہ ہے دین اسلام ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿شَرَعَ لَکُمَ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ﴾ [ الشوری : ۱۳ ]

’’ اس نے تمھارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیاتھا اور جو ہم نے آپ کو بذریعۂ وحی دیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو دیا تھا ۔ اور سب سے کہا تھا کہ تم دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ میں الو العزم پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہے اور سب سے افضل پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا گیا ہے کہ جو دین آپ پر بذریعۂ وحی اتارا گیا ہے اُسی دین کا حکم ان پیغمبروں کو بھی دیا گیا ۔ اور سب کو یہی کہا گیا کہ دینِ اسلام کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندی اور فرقہ بازی سے بچنا ۔

اسی طرح اللہ تعالی ملت ِ ابراہیمی کے بارے میں فرماتا ہے :

﴿ وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ٭ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ٭ وَ وَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾[البقرۃ:۱۳۰۔۱۳۲ ]

’’اور ابراہیم علیہ السلام کے دین سے تو وہی نفرت کر سکتا ہے جس نے خود اپنے آپ کواحمق بنا لیا ہو ۔ بے شک ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالح لوگوں میں سے ہوں گے ۔ جب انھیں ان کے رب نے فرمایا : فرمانبردار ہو جاؤ تو انھوں نے فورا کہا : میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار بن گیا ہوں ۔ اور ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو بھی اسی دین کی وصیت کی تھی ۔ ( انھوں نے کہا ) میرے بیٹو ! اللہ نے تمھارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ لہذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام جو کہ ان کی اولاد سے ہی تھے ، سب کا دین اسلام تھا ۔ اور اسی پر قائم رہنے کی وصیت ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بھی کی تھی ۔

اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَ اُمْرِتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ﴾ [ یونس : ۷۲ ]

’’ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہو جاؤں۔ ‘‘

اور حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ ﴾ [یونس:۸۴]

’’ اور موسی علیہ السلام نے کہا : اے میری قوم ! اگر تم واقعتا اللہ پر ایمان لے آئے ہو تو پھر اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو تو ۔ ‘‘

اسی طرح بلقیس نے کہا تھا :

﴿قَالَتْ رَبِّ اِِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ [النمل: ۴۴]

’’ اس نے کہا : اے میرے رب ! میں نے یقینا اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔ اور اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اُس اللہ کیلئے مسلمان ہو چکی ہوں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے ۔ ‘‘

ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا اور وہ ہے دین اسلام ۔

تاہم یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دین سے مراد وہ اصول ومبادی ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوئے ۔ مثلا توحید ِ باری تعالی پر ایمان لانا ، شرک کی حرمت ، قیامت کا دن اور اس میں لوگوں کا حساب وکتاب ، قتل ِناحق ، چوری اور بے حیائی وغیرہ کی حرمت ۔ اِس طرح کے بنیادی احکام تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل کئے گئے اور ان میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ ہاں دین کی جزئیات میں حالات کے مطابق تبدیلی ہوتی رہی ہے مثلا آدم علیہ السلام کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا جو بعد میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے ادوار میں حرام قرار دے دیا گیا ۔ اسی طرح اُس دور میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا جو بعد میں حرام کردیا گیا ۔ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اموال غنیمت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں تھا جبکہ آخر الزمان نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں انھیں حلال قرار دیا گیا ۔ اسی طرح نمازوں کی تعداد اور طریقۂ ادائیگی ، زکاۃ کی مقدار اور روزوں کی تعداد وغیرہ میں بھی مختلف انبیاء کی شریعتوں میں فرق رہا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصول ومبادی اور بنیادی احکام کے لحاظ سے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا ۔ جبکہ ان میں سے بعض کی شریعتیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْأنْبِیَائُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ ) [ بخاری : ۳۴۴۳ ، مسلم : ۲۳۶۵ ]

’’ تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ان کی مائیں ( شریعتیں)الگ الگ تھیں لیکن سب کا دین ایک تھا ۔ ‘‘

خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پرایمان لانا فرض ہے

خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی شریعت پر ایمان لانا قیامت تک آنے والے تمام لوگوں پر فرض ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کیلئے ہے ۔

جیسا کہ ارشاد باری ہے :﴿ قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾ [ الأعراف : ۱۵۸ ]

’’ کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ [سبأ : ۲۸]

’’ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ ‘‘

اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( ۔۔۔ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ) [ بخاری : ۴۳۸ ۔ واللفظ لہ ، مسلم : ۵۲۱]

’’ ہر نبی کو اس کی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔ ‘‘

اسی لئے اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو ‘چاہے وہ یہودی ہوں یا نصرانی ، مجوسی ہوں یا بت پرست ‘ سب کے سب کو حکم دیا ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں ۔اور انھیں خبردار کیا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہی ان کیلئے بہتر ہے ورنہ انھیں اللہ تعالی کے عذاب کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ کائنات کی ہر چیز پر اس کو مکمل اختیار اور قبضہ حاصل ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَآمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْوَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ 5[ النساء : ۱۷۰]

’’ اے لوگو ! رسول تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے ( دین ِ) حق لے کر آ چکا ، لہذا تم ایمان لے آؤ، یہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اور اگر تم انکار کروگے ( تو پھر یاد رکھو کہ ) آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کیلئے ہے ۔ ‘‘

انہی آیات کے پیش نظر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہ ان کے نزدیک ثابت شدہ اور یقینی عقائد میں سے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سوا اب کوئی چارۂ کار نہیں ۔ ہر حال میں ان پر اور ان کی شریعت پر ایمان لانا لازم ہے ۔ اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شریعت محمدیہ کو چھوڑ کر کسی اور نبی کی شریعت کی پیروی کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے شخص کو جہنمی قرار دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کا پیروکار ہو ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْأمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ، ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہٖ ، إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ) [ مسلم : ۱۵۳ ]

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس امت کا کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی میرے بارے میں سنے ، پھر اس حالت میں اس کی موت آجائے کہ وہ اس شریعت پر ایمان نہیں لایا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تو وہ یقینی طور پر جہنم والوں میں سے ہو گا ۔ ‘‘

اس لئے جو لوگ آج اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر قائم ہیں یا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ کسی اور نبی کی شریعت پر قائم ہونے کے دعویدار ہیں تو ان کے بارے میں ہم مسلمانوں کا یہ پختہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ وہ کافر ہیں اور اگر اسی پر ان کی موت آتی ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہیں ۔

کیونکہ جو شخص مشرکوں اور کافروں کے بارے میں یہ عقیدہ نہ رکھے کہ وہ کافر ہیں مثلا وہ یہود ونصاری یا مجوسیوں یا بت پرستوں یا کیمونسٹوں کو کافر نہ کہے تو وہ بھی انہی کی طرح کافر ہو جاتا ہے ۔ یا وہ ان کے کفر میں شک کا اظہار کرے مثلا وہ یوں کہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہودی حق پر ہوں ! یا معلوم نہیں کہ وہ کافر ہیں یا نہیں ! یا وہ یہ کہے کہ ہر انسان کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ یہودیت، نصرانیت اور اسلام میں سے جو نسا دین چاہے اختیار کر لے کیونکہ یہ سب کے سب آسمانی دین ہیں ! جیسا کہ بعض لوگ ان تینوں ادیان کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ تو جو آدمی اس طرح کا اعتقاد رکھے وہ یقینا کافر ہے ۔ لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہود ونصاری ، مجوس ، بت پرستوں اور ان کے علاوہ دیگر تمام کفار کے بارے میں پختہ اعتقاد رکھے کہ وہ یقینا کافر ہیں اور دین ِ باطل پر قائم ہیں ۔ اور وہ ان سے اور ان کے دین سے براء ت کا اظہار کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ان سے بغض اور عداوت رکھے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ ﴾ [ الممتحنۃ : ۴]

’’ تمہارے لئے ابراہیم ( علیہ السلام ) اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ۔ ہم تمہارے ( عقائد کے ) منکر ہیں اور جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتے ہم میں اور تم میں ہمیشہ کیلئے بغض وعداوت ظاہر ہو گئی ۔ ‘‘

اسلام کسے کہتے ہیں ؟

’ اسلام ‘ کا معنی ہے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے سامنے جھکا دینا ، اس کے احکامات پرسر تسلیم خم کردینا اور اس کی فرمانبرداری کرنا۔

کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی تابع فرمان ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ﴾ [آل عمران:۸۳]

’’ کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب چار وناچار اسی کے تابع فرمان ہیں اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘

مسلمانو ! جب کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی تابع فرمان ہے تو انسان اس کا تابع فرمان کیوں نہیں بنتا ؟ انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے اسے دیکھنے کیلئے آنکھیں دیں ؟ کس نے سننے کیلئے کان دئیے ؟ کس نے سوچنے کیلئے دماغ عطا کیا ؟ کس نے بولنے کیلئے زبان دی ؟ کس نے پکڑنے کیلئے ہاتھ اور چلنے کیلئے پاؤں دئیے ؟ وہ کون ہے جس نے اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا ؟ وہ کون ہے جس نے اسے رزق عطا کیا ؟ وہ کون ہے جس نے اِس انسان کیلئے شمس وقمر ، زمین وآسمان ، باغات ودرخت اورکائنات کی ہر چیزپیدا کی ؟ جس نے بغیر عوض کے انسان کو سب کچھ عطا کردیا کیا اس کا یہ حق نہیں کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے ؟ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے ؟ اس کی منہیات سے پرہیز کیا جائے ؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ﴾ [المائدۃ : ۹۲]

’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتے رہو ۔ اور (نافرمانی سے ) ڈرتے رہو ۔ پھراگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَأَنَّہُ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ [ الأنفال : ۲۴ ]

’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حکم مانو جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہو ۔ اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۔ اور اسی کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے ۔‘‘

ان آیات میں اور اِس طرح کی دیگربے شمار آیات میں اللہ تعالی نے اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گذاری کا واضح حکم دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بحیثیت مسلمان آزاد نہیں کہ جو چاہے اورجیسے چاہے کرتا رہے بلکہ وہ اِس بات کا پابند ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو ہر صورت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل درآمد کرے اور ان کی نافرمانی سے بچے ۔ اسی کو ’اسلام ‘ کہتے ہیں ۔ ورنہ اگر وہ من مانی کرتا رہے اور جو جی میں آئے اسے پورا کرنے پر تل جائے ، یہ نہ دیکھے کہ اس سے اللہ تعالی راضی ہو گا یا ناراض ، تو ایسا انسان اپنی خواہشات کا پجاری ہوتا ہے اور وہ اِس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرکے جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ٭ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ [الفرقان:۴۳۔ ۴۴]

’’ بھلا آپ نے اس پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی معبود بنا رکھا ہے ؟ کیا ( اس کو راہِ راست پر لانے کے ) ذمہ دار آپ بن سکتے ہیں ؟ یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ ‘‘

یہ آیت اِس بات کی دلیل ہے کہ خواہشاتِ نفس کا پیروکار انسان جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ لہذا اگر اسے صحیح معنوں میں ’ مسلمان ‘ بننا ہے تو نفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے اللہ تعالی کی مکمل فرمانبرداری کرنا ہوگی اور اس کی رضامندی کے حصول کیلئے اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہو گا ۔

اسی طرح ارشاد فرمایا : ﴿ اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ﴾ [الجاثیۃ:۲۳]

’’ بھلا آپ نے اس کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنایا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی اسلامی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا اور زندگی من مانی کرتے ہوئے گذارتا ہے اور اپنی خواہشات کو ہی رہبر ومرشد اور معبود بنا لیتا ہے تو اس کے کانوں اور دل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ آنکھیں ہونے کے باوجود اندھوں جیسا ہو جاتا ہے ! والعیاذ باللہ

لہذا مسلمان کو ایسا طرزِ عمل نہیں اختیار کرنا چاہئے اور صدق دل سے اللہ تعالی کا تابع فرمان بننا چاہئے ۔ اسی کو مسلمانی کہتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾ [النور:۵۱۔۵۲]

’’ مومنوں کی تو بات ہی یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کہتے ہیں کہ ’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘ ۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ، اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں ۔ ‘‘ اور جہاں تک خواہشات نفس کی پیروی کا تعلق ہے تو یہ مسلمان کیلئے انتہائی تباہ کن ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( ثَلَاثٌ مُہْلِکَاتٌ وَثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ : فَأَمَّا الْمُہْلِکَاتُ فَشُحٌّ مُطَاعٌ وَہَوًی مُتَّبَعٌ وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہِ ، وَأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَالْعَدْلُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدُ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی وَخَشْیَۃُ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ) [ صحیح الجامع للألبانی : ۳۰۴۵]

’’ تین چیزیں ہلاک کرنے والی اور تین چیزیں نجات دینے والی ہیں ۔ ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں : لالچ جس کو پورا کرنے پر تل جائے ، خواہش ِ نفس جس کی پیروی کی جائے اور آدمی کی من پسندی ۔ اور نجات دینے والی تین چیزیں یہ ہیں : ناراضگی اور رضا مندی دونوں حالتوں میں انصاف کرنا ، تنگ حالی وخوشحالی دونوں میں میانہ روی اختیار کرنا اور خفیہ اورظاہری دونوں حالتوں میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ۔ ‘‘

اسلام کی بعض خصوصیات

محترم حضرات ! ’اسلام ‘ اور ’ مسلمان ‘ کی حقیقت کو بیان کرنے کے بعداب ہم ’اسلام ‘ کی بعض خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

1۔ دین ِ اسلام آسان دین ہے

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ﴾ [ الحج : ۷۸ ]

’’ اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے ۔ ‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( إِنِّیْ لَمْ أُبْعَثْ بِالْیَہُودِیَّۃِ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃِ ، وَلٰکِنِّی بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۹۲۴]

’’ مجھے یہودیت یا نصرانیت کے ساتھ نہیں بلکہ اس دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے جوباطل کی آمیزش سے پاک اور نہایت آسان ہے ۔ ‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالیَ الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ ) [ صحیح الجامع : ۱۶۰]

’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ‘ دین ِ حنیفی ہے جوکہ آسان ہے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ) [ البخاری ۔کتاب الإیمان : ۳۹]

’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا ۔ لہذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ۔اور اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ۔ اورعبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ ۔اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالی سے مدد طلب کیا کرو ۔‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ (یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا ، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا ) [ البخاری ۔ الجہاد والسیر باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب : ۳۰۳۸]

’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا ۔ اور ان کوخوشخبری دینا ، دین سے نفرت نہ دلانا ۔ اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا ۔ ‘‘

دین میں آسانی کی چند مثالیں

01. پانی کی عدم موجودگی میں اللہ تعالی نے تیمم کے ذریعے طہارت حاصل کرنے کی رخصت دی ۔ پھر ارشادفرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ [المائدۃ:۶]

’’اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤنں کو ٹخنوں سمیت دھولو۔ اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لو ۔ ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت ضروری ہے فارغ ہو کر آیا ہو ، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو ۔ اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو ۔ اللہ تعالی نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے ۔ بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت کو تم پر مکمل کرے تاکہ تم شکر ادا کرو ۔ ‘‘

02. رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر اور مریض کو اللہ تعالی نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنے سفر یا مرض کے دنوں میں روزہ چھوڑ دیں اور دیگر دنوں میں ان ایام کے روزے قضا کر لیں ۔ پھر ارشاد فرمایا : ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۵]

’’ اللہ تعالی تمھارے لئے آسانی چاہتا ہے ، وہ تمھارے لئے تنگی نہیں چاہتا ۔ ‘‘

03. حضرت عروۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ، آپ کے سر سے وضو یا غسل کا پانی گر رہا تھا ۔ آپ نے نماز پڑھائی ۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے سوالات کرنا شروع کردئیے اور کہنے لگے : یا رسول اللہ ! کیا ہم پر اس چیزمیں کوئی حرج ہے ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فر مایا : ( لَا یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّ دِیْنَ اللّٰہِ فِی یُسْرٍ ) [ مسند احمد :۲۰۶۸۸۔ وقال محققہ الأرناؤط : حسن لغیرہ ]

’’ نہیں کوئی حرج نہیں ہے ، لوگو ! اللہ کے دین میں یقینا آسانی ہے ۔ ‘‘

04. حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃالوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا شروع کر دئیے ۔ چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے حلق قربانی کرنے سے پہلے کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اِذْبَحْ وَلَا حَرَجَ ) ’’ جاؤ قربانی کر لو اور اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘

پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! مجھے بھی پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی رمی کرنے سے پہلے کر لی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اِرْمِ وَلَا حَرَجَ )

’’ جاؤ رمی کرلو اور اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور کی تقدیم وتاخیر کے بارے میں جو سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اِفْعَلْ وَلَا حَرَجَ ) ’’جاؤ کرو اور کوئی حرج نہیں ‘‘ [ البخاری : ۱۷۳۶ ، مسلم : ۱۳۰۶ ]

05. شدید بارش کے دوران مقیمین کو دو نمازیں جمع تقدیم کے ساتھ پڑھنے کی اجازت ، دورانِ سفر نماز قصر کرنے اور دو نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت ، دورانِ حیض ونفاس خواتین کو نمازوں کی معافی اور روزے قضا کرنے کی اجازت وغیرہ ۔۔۔۔۔ یہ سب رخصتیں دین میں آسانی کی دلیل ہیں ۔

02. اسلام ایک مکمل دین ہے

اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔اور یہ اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور

یوں یہ دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔

حجۃ الوداع کے موقعہ پر اللہ تعالی نے دین کو مکمل کرنے کا اعلان یوں فرمایا :

﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ [ المائدۃ : ۳ ]

’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔‘‘

اِس مکمل دین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک پہنچا دیا تھااور امت کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے : ( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ ) [حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للألبانی ، ص ۱۰۳]

’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے ۔ اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ ‘‘

نیز فرمایا : ( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہٖ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِہٖ ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَہَاکُمْ عَنْہُ إِلَّا قَدْ نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ ) [ المرجع السابق ]

’’ اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ ‘‘

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو ۔ لہذا اِس دین میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے اور دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے ۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:

( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [ البخاری : ۲۶۹۷ ، مسلم : ۱۷۱۸ ]

’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔‘‘

مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )

’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ‘‘

اوراسی لئے امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے :

’’ مَنِ ابْتَدَعَ فِی الإِسْلاَمِ بِدْعَۃً یَرَاہَا حَسَنَۃً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلي الله عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَۃَ ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ وَلاَ یَصْلُحُ آخِرُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ إِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِہٖ أَوَّلُہَا ، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا ‘‘

’’ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوی کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی ( یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا ۔) تم اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو : ( ترجمہ )’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا‘‘ … پھر امام مالک رحمہ اللہ نے کہا : اس امت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے ۔ اورجو عمل اُس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ۔‘‘

محترم حضرات ! دین اسلام کس طرح مکمل دین ہے ! آئیے اِس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔

اسلام کی اہم تعلیمات

دین اسلام کی تعلیمات کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ایک حصہ عقائد سے متعلق ہے جسے ہم ایمانیات بھی کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرا حصہ اہم عبادات پر مشتمل ہے جیسے نماز ، زکاۃ ، روزہ اور حج بیت اللہ ۔ تیسرا حصہ اخلاقیات اور چوتھا حصہ معاملات سے متعلق ہے ۔ ہماری آئندہ گفتگو بھی قدرے تفصیل کے ساتھ انہی چار حصوں کے بارے میں ہوگی ۔

01. دین اسلام کی بنیاد اِس بات پر ہے کہ معبود حقیقی اکیلا اللہ تعالی ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ نہ ربوبیت میں اس کا کوئی شریک ہے ، نہ الو ہیت میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس کے اسماء وصفات میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ وہ اکیلا پوری کائنات کا خالق ومالک ، رزاق اور مدبر الامور ہے اور نظامِ کائنات کے چلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہی اکیلا تمام عبادات کا مستحق ہے ۔ دعا ہو ، نذر ونیاز ہو ، رکوع وسجود ہو ، خوف ورجاء ہو ، استغاثہ واستعانت ہو ، توکل وبھروسہ ہو ، محبت وعقیدت ہو ،تعظیم ہو ۔۔۔۔۔ الغرض یہ کہ ہر عبادت اُس کیلئے خاص ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے اسماء وصفات میں بھی وحدہ لا شریک ہے اور تمام عیبوں سے پاک ہے ۔

دین ِ اسلام میں اللہ تعالی کے ساتھ غیروں کو شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے اور جو شخص شرک کرتا ہو اور توبہ کئے بغیر اسی شرک پر اس کی موت واقع ہو تو اسلام اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ﴿ اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ ﴾ [ المائدۃ :۷۲]

’’ یقین مانو کہ جو شخص اﷲ کے ساتھ شرک کرتا ہو تو اﷲ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ ‘‘

اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:( مَنْ مَّاتَ وَہُوَ یَدْعُوْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ ) [البخاری :۴۴۹۷]

’’ جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ اﷲ کے علاوہ کسی اور شریک کو پکارتا تھاتو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘

معبود برحق (اللہ تعالی )کے بارے میں یہ تو ہے مسلمانوں کا عقیدہ ‘جبکہ نصاری کے ہاں عقیدۂ تثلیث پایا جاتا ہے یعنی ان کے نزدیک اللہ تین ہیں : اللہ ، عیسی اور روح القدس ۔ پھر یہ تینوں مل کر ایک الٰہ ہی بنتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ [المائدۃ:۷۳]

’’ وہ لوگ یقیناکفر کر چکے جنھوں نے یہ کہا کہ اللہ تین کا تیسرا ہے حالانکہ الٰہ تو بس ایک ہی ہے ۔ اور اگر وہ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جنھوں نے کفر کا ارتکاب کیا انھیں المناک عذاب ہو گا ۔ ‘‘

جبکہ بعض نصاری نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے !اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ﴾ [المائدۃ:۷۲]

’’ بلا شبہ ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے یہ کہا کہ ’ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے ‘ حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا کہ ’اے بنو اسرائیل ! تم اللہ کی ہی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا رب ہے۔‘‘

02. اللہ رب العزت کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ اللہ تعالی کی اولاد ہے اورنہ اس کے ماں باپ ہیں ۔ سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالی نے اسی چیز کو بیان کیا ہے ۔ جبکہ نصاری نے عیسی علیہ السلام کو اور یہود نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ۔

﴿وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِؤنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤفَکُوْنَ﴾[التوبۃ:۳۰]

’’ اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ تو ان کے منہ کی باتیں ہیں ۔ وہ ان کافروں کے قول کی تشبیہ کر رہے ہیں جو ان سے پہلے تھے ۔ اللہ انھیں غارت کرے یہ کہاں بہکے جا رہے ہیں ! ‘‘

بلکہ یہود ونصاری نے خود اپنے آپ کو بھی اللہ کے بیٹے اور چہیتے قرار دیا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ﴾ [ المائدۃ : ۱۸ ]

’’ یہود ونصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔ آپ کہئے کہ ( اگر ایسی بات ہے تو ) پھر وہ تمھیں تمھارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے ؟ بلکہ تم ویسے ہی انسان ہو جیسے دوسری خلقت ۔ ‘‘

اور مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالی کی اولاد قرار دیا ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ﴾ [الأنبیاء:۲۶]

’’ مشرکین کہتے ہیں کہ رحمن کی اولاد ہے ! وہ اس سے پاک ہے ۔ وہ ( فرشتے ) تو اس کے مکرم بندے ہیں ۔‘‘

03.مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی تمام نقائص وعیوب سے پاک ہے۔ جبکہ یہود اللہ تعالی کے عیوب بیان کرتے ہیں ۔ مثلا ان کا کہنا ہے کہ

﴿ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ ﴾ [ المائدۃ : ۶۴ ]

’’ اور یہودکہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ( بخیل ) ہے ! بندھے ہوئے تو انہی کے ہاتھ ہیں ۔ یہ کہنے کی وجہ سے ان پر پھٹکار پڑ گئی ۔ بلکہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں ، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔ ‘‘

04. دین اسلام میں یہ بات لازم ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کے فرشتوں ، اس کے تمام رسولوں ، اس کی تمام کتابوں ، روزِ آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لایا جائے ۔ یہ ایمان کے ارکان ہیں جن کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو تا ۔

05. اللہ تعالی اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کی اطاعت وفرمانبرداری کی

جائے اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے ۔ نیز ہر عبادت اللہ کی رضا کیلئے ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو کیونکہ جو عبادت اللہ کی رضا کیلئے انجام نہ دی جائے اس کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ، اسی طرح جو عبادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہ ہو وہ بھی اللہ تعالی کے نزدیک ناقابل قبول ہے ۔ یہ دین اسلام میں عبادت کی قبولیت کیلئے ایک بنیادی اصول ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ﴾ [ محمد : ۳۳ ]

’’ اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔ ‘‘

06.اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کا برحق کلام مانا جائے ۔ اسے پڑھا جائے ، اس میں غور وفکر کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اسے اپنا دستور حیات بنا کر اس پر عمل کیا جائے ۔ یہ دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول بھی ہے اور یہ اِس دین کی بہت بڑی خصوصیت بھی ہے کہ اس کا جو اصل ماخذ ومنبع ہے ( یعنی قرآن مجید ) وہ ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور جب تک یہ محفوظ رہے گا دین اسلام بھی محفوظ رہے گا۔

07. دین اسلام مسلمان کو اِس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ دنیا میں اس کی زندگی عارضی ہے ، اسے یقینی طور پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور مرنے کے بعد اسے قیامت تک یا جنت کی نعمتوں میں یا عذاب ِقبر میں رہنا ہے اور پھر قیامت کے روز اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ یہ دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے کہ وہ مسلمان کو دنیا کی رنگینیوں سے دل لگانے سے منع کرتا اور آخرت کیلئے عمل کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔

08. دین ِ اسلام مسلمان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اچھی اور بری ( ہر قسم کی ) تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ ہوچکا ہے، نیز جو کچھ ہونے والا ہے اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا ؟ سب کچھ اسے معلوم ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر تا ہے۔ ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہی واقع ہوتی ہے۔

دین اسلام مسلمان کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ ہر قسم کی بھلائی، عدل اور حکمت سے پُر ہے۔ جو شخص اس پر مطمئن ہوجاتا ہے وہ حیرت، تردد اور پریشانی سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی میں بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ کسی چیز کے چھن جانے سے غمزدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ رہتا ہے ۔ بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتا

ہے ۔اور جس شخص کو اس بات پر یقین کامل ہو کہ اس کی زندگی محدود ہے اور اس کا رزق متعین اور معدود ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ بزدلی اس کی عمر میں اور بخیلی اس کے رزق میں کبھی اضافے کا باعث نہ بنے گی۔ ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔

مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر میں لکھی ہوئی چیز پر جزع وفزع کا اظہارنہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ اور وہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس پر اسے ہر حال میں راضی ہی رہنا اور اسے تسلیم کرنا ہے ۔ اور اسے اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے وہ اس سے چوکنے والی نہیں ، بلکہ اسے مل کر رہے گی ۔ اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھی وہ اسے ملنے والی نہیں ، چاہے وہ جتنی محنت کر لے اور چاہے وہ جتنے جتن کر لے ۔

تقدیر پر ایمان لانا دین ِ اسلام کا وہ بنیادی اصول ہے کہ اگر صحیح معنوں میں اس پر یقین آجائے تو انسان بہت ساری ذہنی پریشانیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو صرف دین اسلام کے پیروکار ( سچے مسلمان ) کو ہی نصیب ہو سکتی ہے کسی اور کو نہیں ۔

09. دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔

پہلی بنیاد : دل کی گہرائیوں سے اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔

دوسری بنیاد : دن اور رات میں پانچ نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرنا ۔

نماز دین کا ستون ہے جو ہر مکلف پر فرض ہے اور اسے ہر حال میں ادا کرنا ضروری ہے ۔ نماز اسلام کا سب سے اہم فریضہ ہے اورقرآن مجید میں اللہ تعالی نے نمازوں کو پابندی سے پڑھنے کا بار بار حکم دیا ہے ۔ دین اسلام کی بنیادوں میں ’نماز ‘ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں قیامت کے روز سب سے پہلے پوچھ گچھ کی جائے گی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( ۔۔۔ أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الصَّلَاۃُ ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِہٖ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِہٖ )

’’ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا ، اگر نماز درست نکلی تو باقی تمام اعمال بھی درست نکلیں گے ۔ اور اگر نماز فاسد نکلی تو باقی تمام اعمال بھی فاسد نکلیں گے ۔ ‘‘ دوسری روایت میں فرمایا : ( یُنْظَرُ فِیْ صَلَاتِہٖ ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ) [ رواہ الطبرانی فی الأوسط ۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۳۵۸]

’’ اس کی نماز میں دیکھا جائے گا ، اگر وہ ٹھیک ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گا ۔ اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ ذلیل وخوار اور خسارے والا ہو گا ۔ ‘‘

نہ صرف خود مسلمان کو نماز قائم کرنی چاہئے بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہئے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَأمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلاَۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لاَ نَسْأَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی﴾ [طہ :۱۳۲]

’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے ، وہ تو ہم خود آپ کو دیتے ہیں۔ اور انجام ( اہلِ ) تقوی ہی کیلئے ہے ۔ ‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ ، وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِیْنَ ) [احمد ، ابو داؤد ۔ صحیح الجامع للألبانی: ۵۸۶۸ ]

’’ تمھارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں ( اور نماز نہ پڑھیں ) تو انھیں اس پر سزا دو ۔ ‘‘

دین اسلام کی یہ بہت بڑی خصوصیت ہے کہ مسلمان اپنے دن کا آغاز بھی اللہ تعالی کے سامنے سر بسجود ہو کر کرتا ہے اور دن کا اختتام بھی اس کے سامنے جھک کر اور اس سے دعا مانگ کرکرتا ہے ۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالی کا محتاج ہے ۔ اس کے سوا اس کیلئے اورکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنی محتاجی اور عاجزی وانکساری کا اظہار دن اور رات میں پانچ مرتبہ اس کے سامنے جھک کر کرتا ہے ۔

اسی طرح نماز کے حوالے سے اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ نماز کیلئے چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ مساجد سے اذان کہی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالی کی توحید کا اعلان اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے مسلمانوں کو اللہ کے گھروں میں جمع ہونے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ چنانچہ وہ باجماعت نمازیں ادا کرکے اپنے دلوں کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں ۔ یہ وہ عظیم ترین عبادت ہے جو بندوں کو اللہ تعالی سے جوڑتی ہے اور ان کے دلوں میں اس کی محبت کو اجاگر کرتی ہے ۔ یقینا اس طرح کی عبادت کا وجود کسی اور دین میں نہیں ہے ۔

تیسری بنیاد : زکاۃ ادا کرنا ۔ یعنی مسلمانوں میں جو مالدار لوگ ہوں وہ اپنے اموال کی ایک خاص مقدار اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کو دیں جو غریب اور محتاج ہوں۔ یہ بھی دین اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ مال ودولت کا ارتکازاس کے ماننے والوں میں سے ایک خاص طبقہ میں ہی نہیں ہو تا ، بلکہ اسلامی معاشرہ میں بسنے والے وہ محتاج اور ضرورت مند افراد بھی جن کے پاس مال ودولت کی اِ س قدر کمی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول پر بھی قادر نہیں ہوتے ، وہ اس مال سے مستفید ہوتے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔اسلام کا نظامِ زکاۃ اگر پورے اخلاص اور مکمل دیانتداری کے ساتھ نافذ کیا جائے تو

٭ اس سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔

٭ مختلف طبقوں میں مالیاتی توازن قائم ہوتا ہے ۔

٭ غریب لوگ احساس کمتری کا شکار ہونے اوراپنی ضرورتوں کی خاطر مختلف معاشرتی جرائم کا ارتکاب کرنے سے بچ جاتے ہیں ۔

٭ معاشی ظلم کا سد باب ہوتا ہے ۔

٭ مالداروں اور فقیر وں کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے ۔

٭ اخلاقی جرائم کا خاتمہ ہوتا ہے اور معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جاتاہے ۔

٭ مال پاک ہوتا ہے اور زکاۃ دینے والوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔

چوتھی بنیاد : رمضان المبارک کے روزے ۔ دین اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں مسلمان کو سال بھر کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس میں یقینا کئی حکمتیں اور متعدد فوائد وثمرات پنہاں ہیں ۔

٭اللہ تعالی نے روزے اس لئے فرض کئے کہ ان کے ذریعے مسلمان متقی اور پرہیزگار بن جائیں ، گناہوں اور نافرمانیوں سے اپنے دامن کو بچانے کی تربیت حاصل کریں ، نہ صرف پیٹ کا روزہ رکھیں بلکہ اپنے پورے اعضائے جسم کا برائیوں سے روزہ رکھیں ۔

٭ اِسی طرح انھیں روزے کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب نصیب ہو تا ہے اور وہ اس کی خوشنودی حاصل کرکے اپنی گردنوں کو جہنم کی آگ سے آزادکرانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔

٭روزے رکھنے سے مسلمان کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔

٭اس کے علاوہ روزہ رکھنے سے اس کی جسمانی صحت بھی بہتر سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ روزے کے دوران معدہ خالی رہتا ہے ، روزہ دار بھوک محسوس کرتا ہے تو اس سے وہ کئی بیماریوں سے شفا یاب ہو جاتا ہے ۔

پانچویں بنیاد : حج بیت اللہ ۔ مسلمان پر فرض ہے کہ اگر وہ صاحبِ استطاعت ہو تو زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ وہ حج بیت اللہ کی سعادت ضرورحاصل کرے ۔ یقینا اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں ۔

٭ سفرِ حج ‘ جس میں حاجی اپنے تمام اہل وعیال کو الوداع کہہ کر میقات سے احرام کی دو چادریں پہنتا اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتا ہے ‘ یہ مبارک سفر اسے سفرِ آخرت کی یاد دلاتا ہے کہ اُس کیلئے بھی انسان کو اپنے تمام اہل وعیال اور دوست احباب کو چھوڑ کر اور سفید چادروں میں ملبوس ہو کر جانا ہوتا ہے ۔

٭ حج بیت اللہ مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور اس کی جزاء اللہ تعالی کے ہاں جنت ہی ہے ۔

٭ حج کے دوران دنیا بھر کے لاکھوں حجاج کرام ایک ہی جگہ پر ، ایک ہی لباس میں ملبوس ، ایک ہی تلبیہ پڑھتے ، ایک ہی بیت اللہ کا طواف کرتے اور مقدس مقامات پر مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں جس سے وحدتِ امت کا تصور ابھر کر سامنے آتا ہے ۔

٭ اِس کے علاوہ مسلمانانِ عالم ایک ہی مقام پر اکٹھے ہو کر اخوت وبھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کہ دین ِ اسلام کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مسلمان بنائے اور اسلام پر ہی ہمیں ثابت قدم رکھے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! آپ نے دین اسلام کی تعلیمات کے دو اہم حصوں (ایمانیات وعبادات) پر ہماری گذارشات سن لیں ۔ اب اس کے مزید دوحصوں پر بھی ہماری کچھ گذارشات سماعت کر لیں ۔

10. دین اسلام دلوں کی اصلاح کا حکم دیتاہے کیونکہ جب دل کی اصلاح ہو جائے تو باقی اعضاء کی اصلاح خود بخود ہو جاتی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(أَلاَ وَإِنَّ فِیْ الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ لَہَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ ، أَلاَ وَہِیَ الْقَلْبُ ) [ بخاری : ۵۲ ، مسلم : ۱۵۹۹ ]

’’ خبردار ! جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہو جاتاہے ۔ اور جب خراب وہ ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور وہ ہے دل ۔ ‘‘

11. دین اسلام مسلمان کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دل کو حسد ، بغض ، کینہ اور نفرت جیسی امراض سے پاک رکھے ۔ اور اپنے دل میں تمام مسلمانوں کیلئے خیر خواہی ، محبت وپیار اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( لاَ تَحَاسَدُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوْا ، وَلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ تَحَسَّسُوْا وَلاَ تَنَاجَشُوْا ، کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا ) [ مسلم : ۲۵۶۳]

’’ تم ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ باہم حسد کرو ۔ نہ جاسوسی کیا کرو اور نہ ہی چوری چھپے کسی کی گفتگو سنا کرو ۔ اور کسی چیز کی قیمت بڑھانے کیلئے بولی مت لگایا کرو ۔ اور تم سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘

12. دین اسلام تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے ۔ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان پر ظلم کرنے سے منع کرتا ہے ۔ اور اپنے بھائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہُ وَلاَ یُسْلِمُہُ ، وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ أَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ ۔۔۔) [البخاری : ۲۴۴۲ ، مسلم : ۲۵۸۰]

’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، ( چنانچہ ) وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظالموں کے سپرد کرتا ہے ۔ اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجت کو پورا کرتا رہتا ہے ۔‘‘

دین اسلام ہر مسلمان کے خون ، مال اور اس کی عزت کو حرمت والا قرار دیتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( اَلْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمِ ، لاَ یَظْلِمُہُ وَلاَ یَخْذُلُہُ وَلاَ یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوٰی ہٰہُنَا ، وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ : دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ ) [ مسلم : ۲۵۶۴ ]

’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے رسوا کرتا ہے اورنہ اسے حقیر سمجھتا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرکے فرمایا کہ تقوی یہاں ہے ۔ پھر فرمایا : آدمی کی برائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ ‘‘

13.دین اسلام تمام مسلمانوں کو نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا حکم دیتا ہے اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے منع کرتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [ المائدۃ : ۲]

’’ تم نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو ۔‘‘

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مومنوں کو ایک دیوار کی مانند قرار دیا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے :

( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ ، یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا ) [ البخاری : ۴۸۱ ، مسلم : ۲۵۸۵]

’’ ایک مومن دوسرے مومن کیلئے دیوار کی مانند ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔ ‘‘

14. دین اسلام تمام مسلمانوں کو ایک ہی امت قراردیتا ہے ۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿ وَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ﴾ [المؤمنون:۵۲]

’’اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں ۔ لہذا مجھ سے ڈرو ۔ ‘‘

اس لئے گروہوں اور فرقوں میں مسلمانوں کاتقسیم ہونا درست نہیں ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا ﴾ [ آل عمران : ۱۰۳]

’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔‘‘

15. دین اسلام کا ایک اہم حصہ حقوق سے متعلق ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ۔ مثلا والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، میاں بیوی کے حقوق ، عام مسلمانوں کے حقوق وغیرہ ۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان تمام حقوق کو ادا کرے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے ۔

16. اسلام تمام معاملات میں عدل وانصاف کرنے کا حق دیتا ہے اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ ﴾ [ النساء : ۱۳۵ ]

’’ اے ایمان والو ! تم انصاف پر سختی سے قائم رہو ۔ ‘‘

17. اسلام رزق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کا حکم دیتا ہے اور رہبانیت سے منع کرتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِِلَیْہِ النُّشُوْرُ ﴾ [الملک:۱۵]

’’ وہی تو ہے جس نے زمین کو تمھارے تابع کر رکھا ہے ۔ لہذا تم اس کے اطراف میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ۔ اوراسی کی طرف تمھیں زندہ ہو کر جانا ہے ۔ ‘‘

اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِّنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاؤُدَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ البخاری : البیوع باب کسب الرجل وعملہ بیدہ : ۲۰۷۲ ]

’’ کسی شخص نے کبھی اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہو ۔ اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام ( باوجود بادشاہ ہونے کے ) اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھایا کرتے تھے ۔ ‘‘

18. اسلام حلال کمانے کا حکم دیتااور ہرناجائز طریقے سے مال کھانے سے روکتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ﴾ [ النساء : ۲۹]

’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو (تو ٹھیک ہے ) ‘‘

اس آیت کریمہ میں ( بِالْبَاطِلِ) یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا ، کسی کا مال غصب کرنا ، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سودی لین دین کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ۔

19. اسلام جہاں مال کمانے کے اصول متعین کرتا ہے وہاں اسے خرچ کرنے کے قواعد وضوابط سے بھی آگاہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾ [الإسراء:۲۹]

’’ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دیں ، ورنہ خود ملامت زدہ اور درماندہ بن جائیں گے ۔ ‘‘

یعنی نہ تو کنجوسی کریں اور نہ ہی فضول خرچی کریں بلکہ میانہ روی اختیار کریں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی عباد الرحمن کی ایک صفت یوں بیان کرتے ہیں :

﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴾ [الفرقان:۶۷]

’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کرتے ہیں ۔ بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔ ‘‘

اوراسلام فضول خرچی کرنے والوں ‘ خاص طور پر نا جائز کاموں پر پیسہ خرچ کرنے والے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا ٭ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْن﴾ [الإسراء :۲۶۔ ۲۷]

’’ اور بے جا اسراف سے بچو ۔ بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔ ‘‘

20. اسلام طرزِ حکمرانی کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ عدل وانصاف کریں اور رعایا پر ظلم کرنے سے پرہیز کریں ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾ [النساء:۵۸]

’’ اللہ تعالی تمھیں یقینا یہ حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حقدار ہیں انھیں وہ ادا کردو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔ ‘‘

21. دین اسلام ‘اسلامی معاشرے میں ان افراد کو کڑی سزائیں دینے کا حکم دیتا ہے جو اس کا امن خراب کرتے ، اس میں فساد پھیلاتے اور لوگوں کے جان ومال اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہوں ۔ چنانچہ اسلام میں چور کی سزا یہ ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں ۔ شادی شدہ زانی کی سزا یہ ہے کہ اسے پتھر مار مار کر ختم کردیا جائے اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا یہ ہے کہ اسے سو کوڑے مارے جائیں ۔ قاتل کی سزا یہ ہے کہ اسے بدلے میں قتل کردیا جائے ۔ اسی طرح باقی اسلامی سزائیں ہیں جو مسلم معاشرے میں قیامِ امن کی ضمانت دیتی ہیں ۔

محترم حضرات ! ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں دین ِ اسلام کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اس سچے دین کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرکے اس میں پورے کا پورا داخل ہو جائے اور پورے دین کو عملی جامہ پہنائے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ [البقرۃ:۲۰۸]

’’ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمھارا واضح دشمن ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے اور آخری دم تک اسلام پر ثابت رہنے کی توفیق دے ۔