اصحاب کہف

 ==============

 أصحاب کہف، اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب نشانی ہیں

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا ۔  [الكهف : 9]

یا تو نے خیال کیا کہ غار اور کتبے والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب چیز تھے؟

دوسری جگہ فرمایا :

ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا ۔ [الكهف : 17]

 یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے، پھر تو اس کے لیے ہرگز کوئی رہنمائی کرنے والا دوست نہ پائے گا۔

سورہ کہف کے نزول سے پہلے بھی لوگوں میں اصحاب کہف کے متعلق کچھ معلومات گردش کرتی تھیں

نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے سے مشرکین عرب میں اصحابِ کہف سے متعلق طرح طرح کی باتیں موجود تھیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھیں۔

اہل کتاب یہ تو جانتے تھے کہ کسی زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے، مگر وہ اس کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ اس لیے محض اٹکل سے اس کی تفصیلات بیان کرتے رہتے تھے۔

اصحاب کہف کہنے کی وجہ تسمیہ

"کہف” کا معنی "پہاڑ میں کھلی اور وسیع غار” ہے تو چونکہ وہ لوگ ایک غار میں رہے تھے اس لیے انہیں اصحاب کہف کہا جاتا ہے

اصحاب الرقیم کہنے کی وجہ تسمیہ

ان لوگوں کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ جب وہ اچانک غائب ہو گئے اور بہت تلاش کے باوجود نہ ملے تو ان کے نام ایک تختی یا سل پر لکھ کر خزانے میں محفوظ کر دیے گئے، یا یہ کہ ان کے پاس شریعت کے احکام پر مشتمل لکھی ہوئی کتاب تھی۔(شنقیطی)

 یا یہ کہ ان کے جاگنے کے بعد لوگوں نے غار پر ایک تختی نصب کر دی جس پر ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔

نوٹ : یاد رہے کہ ’’اصحاب کہف‘‘ اور ’’اصحاب رقیم ‘‘ ایک ہی گروہ کے نام ہیں

أصحاب کہف کے نام کیا ہیں اور علاقہ کون سا ہے

اصحابِ کہف کے ناموں اور یہ کہ وہ زمین کے کس حصے میں تھے؟

اس سب سے متعلق قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ثابت نہیں

بعض لوگوں نے اسرائیلی کتب سے ان کے نام بیان کیے ہیں مگر ان میں سے کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباری)

 اور بعض لوگ تو ان ناموں کے خواص اور فائدے بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لیے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں، بلکہ اگر ’’یا‘‘ حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں، یا ان ناموں میں نفع پہنچانے یا نقصان سے بچانے کی تاثیر کا عقیدہ رکھا جائے تو صاف شرک ہے۔

وہ جوانی چڑھتے لڑکے تھے

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ’’ الْفِتْيَةُ ‘‘ کا لفظ بولا ہے جیسا کہ فرمایا :

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى۔ [الكهف : 13]

ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کر دیا۔

اور ’’ الْفِتْيَةُ ‘‘

 ’’ فَتًي‘‘ کی جمع قلت ہے

اس سے مراد وہ جوان ہوتا ہے جو آغازِ شباب میں ہوں۔

 یعنی وہ چند نوجوان تھے اور نوجوان بوڑھوں کی نسبت حق کو زیادہ قبول کرنے والے ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والے اکثر نوجوان تھے۔ قریش کے بوڑھے بزرگ اپنے دین ہی پر باقی رہے، ان میں سے بہت کم ہی ایمان لائے۔ (حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ)

انکی تعداد کتنی تھی

ان کی تعداد کے متعلق لوگوں کے مختلف خیالات تھے :

 بعض کہتے تھے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا

 بعض کہتے تھے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا

اور بعض کہتے تھے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے پہلے دو قول ذکر فرما کر ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :

رَجْمًا بِالْغَيْبِ [الکہف :22]

یعنی وہ بن دیکھے پتھر پھینکتے ہیں

مطلب کہ بس اٹکل پچو اور تکے لگا رہے ہیں

 البتہ تیسرے قول کا ذکر فرما کر کہ وہ سات تھے، اس کی تردید نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا، کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے متعلق زیادہ جانتا ہے اور انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

فرمایا :

وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۔ [الكهف : 22]

اکثر اہل علم نے، جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں، آخری قول کو صحیح قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کے متعلق زیادہ بحث کرنے سے منع کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے اس بحث کے بے فائدہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا ۔ [الكهف : 22]

سو تو ان کے بارے میں سرسری بحث کے سوا بحث نہ کر اور ان لوگوں میں سے کسی سے ان کے بارے میں فیصلہ طلب نہ کر۔

 وہ مالدار گھرانوں کے لڑکے تھے

وہ اپنی قوم کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جیسا کہ (آگے چل کر) ان کے کھانا منگواتے ہوئے سب سے ستھرا کھانا رکھنے والے شخص سے کھانا منگوانے کی فرمائش سے ظاہر ہو رہا ہے۔

وہ رب تعالیٰ کی توحید پر ایمان لا چکے تھے

ان کی قوم اور بادشاہ مشرک بت پرست تھے، مگر یہ نوجوان بت پرستی چھوڑ کر اپنے رب کی توحید پر پختہ اور خالص ایمان لے آئے اور اس پر ڈٹ گئے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ۔ [الكهف : 13]

بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کر دیا۔

مشرک قوم اور مشرک بادشاہ کے سامنے توحید کا برملا اظہار و اعلان

وہ بادشاہ کے سامنے اس کے بھرے دربار میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے صاف اعلان کر دیا

إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا۔ [الكهف : 14]

جب وہ کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہر گز نہ پکاریں گے، بلاشبہ یقینا ہم نے اس وقت حد سے گزری ہوئی بات کہی۔

انہوں نے توحیدِ ربوبیت کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ ہم نہ بادشاہ کو اپنا رب مانتے ہیں نہ تمھارے بتوں کو، بلکہ ان سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے موجود آسمانوں اور زمین کے رب کو اپنا رب مانتے ہیں۔

اور انہوں نے توحیدِ الوہیت کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ ’’ ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہر گز نہ پکاریں گے‘‘

یعنی ہم عبادت بھی صرف اسی کی کریں گے، اسی سے دعا، اسی سے امید اور اسی سے خوف رکھیں گے۔ اگر ہم بادشاہ کو یا اس کے بتوں کو رب یامعبود مانیں تو اس وقت ہم بہت بڑی زیادتی کی بات کہیں گے۔

اعلانِ توحید کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو خوف اور گھبراہٹ سے محفوظ رکھا

فرمایا :

وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا [الكهف : 14]

اور ہم نے ان کے دلوں پر بند باندھ دیا، جب وہ کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا

قوم کے مشرکانہ عقائد کا رد کرتے ہیں

انھوں نے صرف توحید کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی قوم کے فعل کا رد بھی فرمایا کہ یہ ہماری قوم کے لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کیوں کرتے ہیں ۔

کہنے لگے :

هَؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۔ [الكهف : 15]

یہ ہماری قوم ہے، جنھوں نے اس کے سوا کئی معبود بنا لیے، یہ ان پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔

انہوں نے قوم کو چھوڑ کر دور کسی غار میں چلے جانے کا مشورہ کیا

قوم اور بادشاہ میں سے کسی نے ان کی دعوت قبول نہ کی تو انھوں نے مشورہ کیا کہ جب ہم ان لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے علیحدہ ہو چکے تو اب یہاں رہ کر جان یا ایمان بچانا مشکل ہے، اس لیے کسی پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لے لیتے ہیں۔

کہنے لگے :

وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرْفَقًا ۔ [الكهف : 16]

اور جب تم ان سے الگ ہو چکے اور ان چیزوں سے بھی جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں تو کسی غار کی طرف (جاکر) پناہ لے لو، تمھارا رب تمھارے لیے اپنی کچھ رحمت کھول دے گا اور تمھارے لیے تمھارے کام میں کوئی سہولت مہیا کر دے گا۔

شہری زندگی چھوڑ کر غار میں کیوں گئے

عقیدہ توحید کے بیان اور قوم کے مشرکانہ افکار کے رد کی وجہ سے بادشاہ نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر رکھا تھا لھذا وہ اپنے گھروں سے نکلے اور اللہ کی خاطر خویش و اقارب، مال و منال اور وطن کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے اور ایک پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لی

ہجرت کے لیے پہاڑ بہترین مقام ہیں

معلوم ہوا کہ جب معاشرے میں رہ کر دین پر عمل ممکن نہ رہے تو ہجرت کے لیے پہاڑ ہی بہترین مقام ہیں، چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يُوْشِكُ أَنْ يَّكُوْنَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِيْنِهِ مِنَ الْفِتَنِ ]  [بخاري : ۱۹]

 ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال چند بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کے پیچھے پھرتا رہے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگتا پھرے گا۔‘‘

جب کفار مکہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ طے کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین راتیں غار ثور میں چھپے رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار سے محفوظ رکھا۔

اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے

بعض لوگوں نے اس سے عزلت، یعنی لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا مسئلہ نکالا ہے، حالانکہ اصحابِ کہف نے کفار سے علیحدگی اختیار کی، اپنوں سے نہیں، بلکہ آپس میں تو وہ اکٹھے ہی رہے۔ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

غار میں داخل ہو کر دعا کرتے ہیں

إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا۔ [

الكهف : 10]

جب ان جوانوں نے غار کی طرف پناہ لی تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے کوئی رحمت عطا کر اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں کوئی رہنمائی مہیا فرما۔

یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے، یعنی محض اپنے فضل اور اپنی جناب سے کوئی بھی رحمت جو تو چاہے عطا فرما، رحمت میں کھانا پینا، امن و اطمینان اور ضرورت کی ہر چیز شامل ہے۔ اور ہمیں اس معاملے میں کوئی رہنمائی عطا فرما کہ ہم کیا کریں۔

جیسے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا تھا :

«رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ» [ القصص : ۲۴ ]

 ’’اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔‘‘

غار کی شیپ اور لوکیشن

 ان کے غار کا منہ شمال کی طرف تھا، جب سورج چڑھتا تو دھوپ دائیں طرف ہو جاتی اور غروب کے وقت بائیں طرف ہو جاتی تھی۔ ان کے بدن غار کے کشادہ حصے میں سورج کی تیز شعاؤں سے محفوظ تھے۔

فرمایا :

وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ ۔ [الكهف : 17]

اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف کنارہ کر جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتا ہے

غار میں کھلی جگہ تھی

فرمایا :

 وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ [الكهف : 17]

اور وہ اس (غار) کی کھلی جگہ میں ہیں۔

اور کہف کا معنی ہی پہاڑ میں کھلی اور وسیع غار ہے

اور وہ سو گئے

ظاہر بات ہے کہ وہ غار شہر سے کافی دور ہی ہوگی کیا معلوم وہاں پہنچتے پہنچتے کس قدر تھکاوٹ ہو چکی ہو  وہاں پہنچے تو تھکے ماندے نیند کی غرض سے لیٹ گئے اور سو گئے

فرمایا :

فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ۔ [الكهف : 11]

تو ہم نے غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال پردہ ڈال دیا۔

 ان کے کانوں پر پردہ ڈالنے کا مطلب ہے کہ انھیں سلا دیا، تاکہ ان کی پریشانی اور گھبراہٹ ختم ہو جائے، کیونکہ نیند، گھبراہٹ کا سب سے اچھا علاج ہے اور تاکہ وہ اپنی مشرک قوم سے بھی محفوظ ہوجائیں۔

سونے کی کیفیت

یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ اگر کوئی انھیں سوئے ہوئے دیکھتا تو سمجھتا کہ شاید وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے ، یعنی سوتے میں آنکھیں کھلی ہونے کی وجہ سے کوئی دیکھنے والا دیکھتا تو انھیں جاگتے ہوئے سمجھتا

فرمایا :

وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ [الكهف : 18]

اور تو انھیں جاگتے ہوئے خیال کرے گا، حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں

اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بدلتے رہے

 اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بدلتے رہے شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ ایک ہی پہلو پر پڑے رہنے سے مٹی ان کے بدنوں کو نہ کھا جائے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ایک لمبی مدت تک آرام و سکون سے سلائے رکھنے کا انتظام تھا۔

فرمایا :

 وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ [الكهف : 18]

 اور ہم دائیں اور بائیں ان کی کروٹ پلٹتے رہتے ہیں

ان کا کتا غار کی چوکھٹ پر بیٹھا رہا

 اس دوران ان کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے ایسے بیٹھا رہا گویا پہرا دے رہا ہو

فرمایا :

 وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ[الكهف : 18]

 اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے۔

کتے کے غار میں نہ جانے کی وجہ

کتے کے دہلیز پر بیٹھے رہنے اور غار میں نہ جانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ لاَ تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيْرُ ] [ بخاری، اللباس، باب التصاویر : ۵۹۴۹ ]

 ’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو۔‘‘

تو ہوسکتا ہے اسی وجہ سے انہوں نے کتے کو اندر داخل نہ کیا ہو

البتہ کھیتی کے لیے، مویشیوں کی حفاظت کے لیے اور شکار کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہے۔

خوفناک منظر

ایک الگ تھلگ غار میں ان کا اس طرح لیٹا ہونا اور چوکھٹ پر کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا تھا کہ اگر کوئی شخص اندر جھانکنے کی کوشش بھی کرتا تو خوف کے مارے بھاگ کھڑا ہوتا

فرمایا :

 لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا ۔ [الكهف : 18]

 اگر تو ان پر جھانکے تو ضرور بھاگتے ہوئے ان سے پیٹھ پھیر لے اور ضرور ان کے خوف سے بھر دیا جائے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیدار کیا

فرمایا :

ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ۔ [الكهف : 12]

پھر ہم نے انھیں اٹھایا، تا کہ ہم معلوم کریں دونوں گروہوں میں سے کون وہ مدت زیادہ یاد رکھنے والا ہے جو وہ ٹھہرے۔

اٹھتے ہی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی مدت سوئے رہے ہیں

 قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۔ [الكهف : 19]

ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کتنی دیر رہے؟ انھوں نے کہا ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، دوسروں نے کہا تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت تم رہے ہو

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا :

 ’’معلوم ہوتا ہے کہ وہ غار میں دن کے پہلے پہر داخل ہوئے تھے اور دن کے آخری حصے میں بیدار ہوئے۔ اس لیے اس سوال کے جواب میں کہ تم کتنی مدت یہاں ٹھہرے، کسی نے ایک دن اور کسی نے دن کا کچھ حصہ کہا، مگر جب غار کے اردگرد کا عالم بالکل ہی بدلا ہوا نظر آیا تو کہنے لگے، تمھارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنی مدت ٹھہرے ہو۔‘‘

وہ کتنا عرصہ سوئے رہے

حقیقت یہ ہے کہ ان کے غار میں ٹھہرنے اور سوئے رہنے کی مدت ایک آدھ دن نہیں بلکہ تین سو نو سال تھی

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا [الكهف : 25]

اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو (سال) زیادہ رہے۔

اپنے میں سے ایک بھائی کو کھانا لینے کے لیے بھیجتے ہیں

پھر( انہیں بھوک کی وجہ سے کھانے کی حاجت محسوس ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی کو کھانا لینے کے لیے قریب شہر بھیجیں تو) کہنے لگے :

فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ ۔ [الكهف : 19]

پس اپنے میں سے ایک کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر کی طرف بھیجو، پس وہ دیکھے کہ اس میں کھانے کے لحاظ سے زیادہ ستھرا کون ہے، پھر تمھارے پاس اس سے کچھ کھانا لے آئے

کھانا پرچیزر کو ھدایات اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید

انہوں نے اسے چند باتوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی :

01. بہترین اور معیاری کھانا لانا

 ایک یہ کہ کھانا لاتے وقت یہ دیکھ لے کہ شہر میں سب سے ستھرا کھانا کس کا ہے

فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ[

پس وہ دیکھے کہ اس میں کھانے کے لحاظ سے زیادہ ستھرا کون ہے، پھر تمھارے پاس اس سے کچھ کھانا لے آئے

اس میں کھانے کا حلال و طیب ہونا بھی شامل ہے اور سب سے صاف ستھرا ہونا بھی۔

معلوم ہوا کہ یہ نوجوان شہزادے تھے، یا امراء و وزراء کے چشم و چراغ تھے، جو شہر کے سب سے ستھرے ہوٹل سے کم پر راضی نہ تھے۔

02.  نہ کسی سے الجھنا نہ زیادہ باتیں کرنا

دوسری بات یہ کہ شہر میں لوگوں کے ساتھ نرمی اور باریک بینی کی کوشش کرے، کیونکہ سختی سے کام بگڑ جاتے ہیں اور باریک بینی اختیار نہ کرنے سے راز کھل جاتے ہیں اور مطلوبہ معلومات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔

03.  اپنی ٹیم کے بارے کسی کو پتہ نہ چلنے دینا

تیسری تاکید یہ کی کہ تمھارے بارے میں کسی کو ہر گز معلوم نہ ہونے دے۔ کیونکہ اگر مشرکین کو تمھارا پتا چل گیا تو وہ تمھیں سنگ سار کر دیں گے، یا جبراً تمھیں دوبارہ اپنے مشرکانہ دین میں واپس لے آئیں گے۔

دوسری اور تیسری تاکید کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے

وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا [الكهف : 19]

  اور نرمی و باریک بینی کی کوشش کرے اور تمھارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔

إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا ۔ [الكهف : 20]

بے شک وہ اگر تم پر قابو پالیں گے تو تمھیں سنگسار کر دیں گے، یا تمھیں دوبارہ اپنے دین میں لے جائیں گے اور اس وقت تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے۔

اس نے دیکھا کہ شہر کی ہر چیز ہی بدل چکی ہے

جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ شہر کے راستے، لوگوں کی تہذیب، رہن سہن، زبان اور لباس ہر چیز بدل چکی ہے، اس نے خیال کیا کہ شاید میں پاگل ہو گیا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔

شہر والوں کو معلوم ہو گیا

 بالآخر وہ شہر پہنچا اور ایک دکاندار سے کھانا خریدنے لگا اور اس نے سکہ نکالا تو دکاندار ششدر رہ گیا اور اس نے ایک دوسرے دکاندار کو بلایا، بالآخر کچھ لوگ جمع ہو گئے اور انھیں شک گزرا کہ شاید اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ مگر جب اس نے بتایا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں اور کل ہی یہاں فلاں بادشاہ کو چھوڑ کر گیا ہوں تو لوگوں کی حیرت اور بڑھ گئی اور وہ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ وہاں جب پوچھ گچھ ہوئی تو سب معاملہ کھل گیا

لوگوں کا ہجوم غار کی طرف چل نکلا

اصحابِ کہف کو دیکھنے اور انھیں سلام کرنے کے لیے بادشاہ اور اس کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم اس کھانا لینے کے لیے آنے والے مہمان کو ساتھ لے کر غار پر پہنچ گیا۔

اللہ تعالیٰ نے سب کو موت دے دی

(لوگ باہر ہی کھڑے رہے اور) شہر جانے والا ساتھی اندر داخل ہو گیا اور وہ سارے دوبارہ لیٹ گئے، اسی حال میں اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کر لی۔

شہر کے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے حیاۃ بعد الممات کا مشاہدہ کیا

اس وقت اس شہر کے لوگ مختلف عقائد رکھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مر کر جی اٹھنا برحق ہے، کوئی اس کا انکار کرتا تھا، کوئی کہتا کہ حشر صرف روح کا ہو گا بدن کا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اصحابِ کہف کا حال آنکھوں سے دکھا کر یقین دلا دیا کہ قیامت آئے گی اور حشر بدن اور روح دونوں کا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَكَذَلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا ۔ [الكهف : 21]

اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر مطلع کر دیا، تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت، اس میں کوئی شک نہیں۔

شہر کے لوگ اصحاب کہف کے متعلق جھگڑا کرنے لگے

پھر ان کے درمیان یہ بحث چل نکلی کہ ان پر دیوار بنا کر غار کا منہ بند کر دیں۔ یا ان پر ایک عمارت ان کی یادگار کے طور پر بنا دیں۔

اس جھگڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ [الكهف : 21]

 جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انھوں نے کہا ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا رب ان سے زیادہ واقف ہے

بطور یادگار اس جگہ پر مسجد بنانے کا فیصلہ

جن لوگوں کے پاس غلبہ و اقتدار تھا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے اور اس طرح ان کی یاد گار کو باقی رکھیں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا [الکہف :21]

وہ لوگ جو ان کے معاملے پر غالب ہوئے انھوں نے کہا ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے۔

کیا انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مسجدیں بنانا جائز ہے

بعض لوگوں نے اس واقعہ کو قبروں پر مسجدیں بنانے کی دلیل بنا لیا یے حالانکہ اس میں صرف یہ ذکر ہے کہ ان کے غالب اور بااثر لوگوں نے یہ کہا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے درست کہا یا غلط، اس کی وضاحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث کا مطالعہ کریں

01. عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس میں آپ فوت ہوئے :

 [ لَعَنَ اللّٰهُ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ ] [ بخاری : ۱۳۳۰۔ مسلم : ۵۲۹ ]

 ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘

02. جندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے فوت ہونے سے پانچ دن پہلے سنا، آپ نے فرمایا :

[ أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوْا يَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيْهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، إِنِّيْ أَنْهَاكُمْ عَنْ ذٰلِكَ ] [ مسلم : ۵۳۲ ]

 ’’جان لو! جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے، سن لو کہ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

03.  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سب سے بدتر مخلوق قرار دیا، فرمایا :

[ فَأُولٰئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] [ بخاري : ۴۲۷۔ مسلم : ۵۲۸ ]

04. جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

 [ نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُّجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُّقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُّبْنٰی عَلَيْهِ ] [ مسلم:۹۷۰ ]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ قبر چونا گچ (سیمنٹڈ) بنائی جائے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جائے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جائے۔‘‘

05. ابو الہیاج الاسدی، علی رضی اللہ عنہ کے داماد فرماتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا :

 [ أَلاَ أَبْعَثُكَ عَلٰی مَا بَعَثَنِیْ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لاَّ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَهُ ] [ مسلم : ۹۶۹ ]

 ’’کیا میں تمھیں اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا؟ وہ یہ ہے کہ کوئی مورتی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور نہ کوئی اونچی قبر جسے تو برابر نہ کر دے۔‘‘

سورہ کہف کے فضائل

فتنہ دجال سے محفوظ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُوْرَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ] [ مسلم : ۸۰۹]

’’جو شخص سورۂ کہف کی شروع کی دس آیات حفظ کرلے وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘

مسلم کی اس حدیث میں اس سورت کی آخری دس آیات کی بھی یہی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

 گھر میں سکینت اور برکت کا نزول

 اس سورت کے پڑھنے سے گھر میں سکینت اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

 [ كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْكَهْفِ وَإِلٰی جَانِبِهِ حِصَانٌ مَرْبُوْطٌ بِشَطَنَيْنِ، فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُوْ وَ تَدْنُوْ، وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَي النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذٰلِكَ لَهُ، فَقَالَ تِلْكَ السَّكِيْنَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ ] [ بخاری : ۵۰۱۱ ]

 ’’ایک آدمی سورۂ کہف پڑھ رہا تھا، اس کے ایک طرف ایک گھوڑا تھا جو دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا، تو اسے بادل کے ایک ٹکڑے نے ڈھانپ لیا، پھر اس نے قریب آنا شروع کر دیا اور مزید قریب آتا گیا، چنانچہ اس کا گھوڑا بدکنے لگا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ سکینت تھی جو قرآن کے ساتھ اتری۔‘‘

جمعے والے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت

 ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهٗ مِنَ النُّوْرِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ] [ مستدرک حاکم : 368/2، ح : ۳۳۹۲، صححہ الألباني في صحیح الجامع : ۶۴۷۰]

 ’’جو شخص جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے تو دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن رہے گا۔‘‘