اعمالِ صالحہ کو برباد کرنے والے امور

اہم عناصرِ خطبہ :

01. اللہ تعالی کی آیات یا آخرت کا انکار

02. مرتد ہونا

03. شرک کرنا

04. اللہ تعالی سے کفر کرنا

05. قرآن مجید کے کسی حکم کو نا پسند کرنا

06. اللہ کو ناراض کرنے والی باتوں کے پیچھے لگنا

07. اعتقادی نفاق

08. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا

09. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کرنا

10. ریاکاری

11. خلوت میں محرمات کا ارتکاب کرنا

12. نماز عصر کو دانستہ طور پر چھوڑنا

13. کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانا

14. اللہ کی قسم کھا کر یہ کہنا کہ فلاں آدمی کو اللہ معاف نہیں کرے گا

15. اللہ کے بندوں کی حق تلفی کرنا

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! بعض امور ایسے ہیں کہ جو نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں اور اعمال ِ صالحہ کو برباد کردیتے ہیں ۔ ایمان والے لوگ ایسے امور سے بچتے ہیں اور اپنے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی حفاظت کرتے ہیں ۔

آئیے آج کے خطبۂ جمعہ میں ایسے امور کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ، تاکہ ہم ایسے امور میں واقع نہ ہوں اور ہمارے اعمال محفوظ رہیں ۔

01. اللہ تعالی کی آیات یا قیامت کے دن کا انکار کرنا

جو شخص اللہ کی آیات کا انکار کردے ، یا وہ قیامت کے دن سے منکر ہو جائے تو اس کے اعمال صالحہ کی اللہ تعالی کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا ٭ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ٭ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ﴾ الکہف18 : 103 ۔105

’’آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمھیں ان لوگوں کے بارے میں خبر دیں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارہ اٹھائیں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں

رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے انکار کیا ۔ اِس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے ۔ چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہیں کریں گے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآئِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ الأعراف7 :147

’’ اور جن لوگوں نے ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوگئے ۔ انھیں ان کے اعمال ہی کی سزا دی جائے گی ۔‘‘

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی آیات کا انکار یا آخرت کا انکار انسان کی نیکیوں کیلئے تباہ کن ہے ۔

02. دین اسلام سے مرتد ہونا

دین اسلام وہ واحد دین ہے جو اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے ۔ اور یہی دین اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی اور دین اللہ تعالی قبول نہیں فرمائے گا ۔

اللہ تعالی دوٹوک انداز میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامِ﴾ آل عمران3 :19

’’ بے شک دین ( برحق ) اللہ تعالی کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ آل عمران3:85

’’ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طلبگار ہو تواس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اِس سچے اور برحق دین پر قائم ودائم رکھے ۔

جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین کو اختیار کرلے اسے ’ مرتد ‘ کہا جاتا ہے ۔ اور مرتد ہونے کی کئی صورتیں ہیں ۔ بعض اوقات صرف زبان کے کسی بول کی وجہ سے وہ مرتد ہو جاتا ہے ۔ مثلا وہ اللہ تعالی کو یا اس کے رسولوں کو یا اس کے فرشتوں کو گالی گلوچ کرے ۔ اور بعض اوقات وہ اپنے کسی فعل سے مرتد ہو جاتا ہے ۔ مثلا وہ بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو ، یا کسی پتھر یا درخت کے سامنے سجدہ کرے ، یا جادو کا عمل کرے ۔ اور بعض اوقات وہ اپنے کسی باطل عقیدے کی وجہ سے مرتد ہو جاتا ہے ۔ مثلا وہ یہ عقیدہ رکھے کہ زنا حلال ہے ۔ یا یہ کہ نماز فرض نہیں

ہے ۔ اور بعض اوقات صرف شک کی وجہ سے وہ مرتد ہو جاتا ہے ۔ مثلا اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک ہو ۔ یا اسے شرک کے حرام ہونے میں شک ہو ۔ وغیرہ

اور کوئی شخص جونہی ’ مرتد ‘ ہوتا ہے اُس کے ساتھ ہی اُس کے وہ تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں جو اُس نے حالت ِ اسلام میں انجام دئیے ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :217

’’ اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تو ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت ہوگئے اور آخرت میں بھی ۔ اور یہی لوگ جہنمی ہوں گے ، جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘

اسی طرح ارشاد فرمایا : ﴿ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ المائدۃ5 :5

’’ اور جو شخص ایمان سے کفر کر لے تو اس کے اعمال غارت ہوگئے ۔ اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا ۔ ‘‘

اِن آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو اعمال حالت ِ ایمان میں کئے گئے وہ کفر کی طرف پلٹنے کی وجہ سے کالعدم ہو جاتے ہیں ۔ اور جس طرح اسلام قبول کرنے کی وجہ سے پچھلے تمام گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں اسی طرح کفر کی طرف پلٹنے کی وجہ سے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ۔ الا یہ کہ مرتد موت سے قبل سچی توبہ کر لے اور اسلام کی طرف واپس لوٹ آئے ۔ اور اسی پر اس کی موت آئے ، تو اس کے اعمال بربادی سے بچ جائیں گے ۔

03. اللہ تعالی کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرانا

’شرک‘ سب سے بڑا گناہ اور ظلم ِ عظیم ہے ۔ اور اللہ کے نزدیک اس قدر سنگین جرم ہے کہ جو شخص اِس گناہ سے توبہ کئے بغیر مر جائے تواسے اللہ تعالی معاف نہیں کرے گا اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کیلئے جہنم ہوگا ۔ والعیاذ باللہ

اور دنیا میں ’ شرک ‘ کی بہت بڑی نحوست یہ ہے کہ جو شخص شرک کرے اُس کے سارے اعمال ِ صالحہ اس کی وجہ سے غارت ہو جاتے ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ چند انبیائے کرام علیہم السلام کے نام ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ أَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ الأنعام6 :88

’’ اور اگر ( فرضًا ) یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالی امام الأنبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :﴿ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾ الزمر39 :65

’’ یقینا آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے ( تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلا شبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور یقینا آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ ‘‘

ان دونوں آیات میں درحقیقت اللہ تعالی نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خبردار کیا ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام کے اعمال شرک کی وجہ سے غارت ہو سکتے ہیں ، حالانکہ ان کا شرک میں واقع ہونا نا ممکن ہے ، تو امت کا کوئی بھی فرد اگر شرک کرے گا تو اس کے اعمال بدرجہ اولی غارت اور برباد ہو سکتے ہیں ۔

اسی لئے اللہ تعالی نے مشرکین ِ مکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا :

﴿ مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِِمْ بِالْکُفْرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ وَ فِی النَّارِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ ﴾ التوبۃ9 :17

’’ مشرکوں کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کفر کی خود گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں ۔ ان کے اعمال غارت ہوچکے ۔ اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘

مشرکین مکہ طوافِ بیت اللہ ، حج اور عمرہ جیسے بڑے بڑے اعمال کرتے تھے ، اس کے علاوہ حجاج کو پانی بھی پلاتے تھے ، لیکن وہ اِس کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتے تھے اور کافر بھی تھے ۔ تو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں واضح کردیا کہ ان کے اعمال ان کے شرک اور کفر کی وجہ سے برباد ہوچکے۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو اللہ تعالی ان کے اعمال کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی طرح اڑا دے گا اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰـہُ ہَبَآئً مَّنْثُورًا ﴾ الفرقان25 :23

’’ اور انھوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم انھیں اڑتے ہوئے باریک ذروں کی طرح ( بے حیثیت ) کردیں گے ۔ ‘‘

04. اللہ تعالی سے کفر کرنا

جو شخص اللہ تعالی کو نہ مانتا ہو، وہ چاہے جتنے مرضی رفاہی اور خیراتی کام کرے ، اس کے ان کاموں کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب تک کہ وہ اللہ تعالی پر سچا ایمان نہ لائے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ﴾ ابراہیم14 :18

’’ ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ، ان کے اعمال اُس راکھ کی مثل ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے ۔ جو بھی انھوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے ۔ یہی دُور کی گمراہی ہے ۔ ‘‘

یعنی آندھی اور تند وتیز ہوا چل رہی ہو تو وہ راکھ کو اڑا کرلے جاتی ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح کافروں کے اعمال کی بھی قیامت کے دن کوئی حیثیت نہ ہوگی اور انھیں ان کا کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا ۔

05. قرآن مجید کے کسی حکم کو نا پسند کرنا

قرآن مجید کو یا اس کے کسی حکم کو نا پسند کرنا اعمال ِ صالحہ کے ضائع ہونے کا سبب ہے ۔ جیسا کہ بعض لوگ اُن سزاؤں کو نا پسند کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے بعض مجرموں کیلئے مقرر کی ہیں ، مثلا چور کا ہاتھ کاٹنا ، قاتل کو قصاص میں قتل کرنا ، زانی کو کوڑے مارنا وغیرہ ۔ اسی طرح بعض خواتین حجاب کے حکم کو نا پسند کرتی ہیں اور اسے آزادیٔ نسواں پر حملہ قرار دیتی ہیں !

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ ﴾ محمد47 :9

’’یہ اِس لئے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا تھا ، اسے انھوں نے ناگوار سمجھا ۔ چنانچہ اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردئیے ۔ ‘‘ یعنی ان کے نیک اعمال مثلا صلہ رحمی ، حجاج بیت اللہ کی خدمت وغیرہ کو برباد کردیا ۔

06. اللہ کو ناراض کرنے والی باتوں کے پیچھے لگنا اور اس کی رضا کو نا پسند کرنا

جو شخص ایسی باتوں کے پیچھے لگ جائے جو اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی ہوں ، یا وہ اُس راہ پر چل پڑے جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہو ۔ اور وہ اللہ کی رضا کو نا پسند کرے اور اس کی قضاء وقدر پر اعتراضات کرے تو اللہ تعالی اس کے اعمال ِ صالحہ کو ضائع کردیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ﴾ محمد47 :28

’’ یہ اِس لئے کہ وہ ایسی بات کے پیچھے لگ گئے جس نے اللہ کو ناراض کردیا اور انھوں نے اس کی رضا کو ناپسند کیا ، تو اللہ تعالی نے ان کے اعمال ضائع کردئیے ۔ ‘‘

07. اعتقادی نفاق

جو آدمی ظاہراً مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہو اور اپنے دل میں کفر چھپائے ہوئے ہو اور خفیہ طور پر کفار سے تعلقات ہموار کرتا ہو اور ظاہری طور پر مسلمانوں سے بھی دوستی کا اظہار کرتا ہو ، تو اُس کا یہ اعتقادی نفاق اس کے اعمال کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے ۔

اللہ تعالی نے سورۃ المائدہ میں اہل ِ ایمان کو یہود ونصاری کو دوست بنانے سے منع فرمایا ۔ اس کے بعد منافقوں کے طرز عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ ﴾ المائدۃ5 :52

’’آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے وہ انہی ( یہود ونصاری ) میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں ۔ ‘‘

یہ منافق ایک طرف یہود ونصاری سے خفیہ تعلقات قائم کرتے تھے ، تو دوسری طرف قسمیں کھا کر مؤمنوں سے کہتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں !

چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ ﴾ المائدۃ5 :53

’’ اور ایمان والے کہیں گے کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ یقینا وہ تمھارے ساتھ ہیں ، ایسے منافقوں کے اعمال برباد ہوگئے اور انھوں نے بالآخر نقصان ہی اٹھایا ۔ ‘‘

اسی طرح غزوۂ احزاب کے دوران بھی منافقوں نے جو طرز عمل اختیار کیا اللہ تعالی نے اس سے پردہ اٹھا دیا اور فرمایا : ﴿اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَاِذَا جَآئَ الْخَوْفُ رَاَیْتَھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُھُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَا ذَھَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ﴾ الأحزاب33 :19

’’ وہ تمھارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں ۔ پھر جب ( جنگ کا ) خطرہ آن پڑتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آنکھیں پھیر پھیر کر آپ کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو چکی ہو ۔ پھر جب خطرہ دور ہوجاتا ہے تو اموال غنیمت کے انتہائی حریص بن کر تیز تیز زبانیں چلانے لگتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائے ۔ لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردئیے ہیں ۔ اور یہ بات اللہ کیلئے بہت آسان ہے ۔ ‘‘

08. ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا

ایک سچا مسلمان پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے اور وہ دانستہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن جس شخص کے دل میں کفر ہو تو وہ جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے پر تل جاتا ہے ۔ ایسا شخص اگر کوئی نیکیاں کرتا بھی ہو تو اس کی نیکیوں کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ۔ اللہ تعالی اس کی نیکیوں کو برباد کردیتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَشَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الہُدٰی لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیُحْبِطُ اَعْمَالَہُمْ ﴾ محمد47 :32

’’بلا شبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے ( دوسروں کو ) روکتے رہے اور ان پرہدایت واضح ہوجانے بعد انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ، وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ ایسے لوگوں کے اعمال کو برباد کردے گا ۔ ‘‘

09. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی

اعمال ِ صالحہ کی بربادی کا سبب بننے والے امور میں سے ایک اہم امر ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور آپ کے احترام کو مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے ۔ اور آپ کی بے ادبی کو حرام قرار دیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام کے ساتھ پکارنے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اونچی آواز میں گفتگو کرنے سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو منع کردیا گیا اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرنے کی سختی سے تلقین کی گئی۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَائَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَائِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا﴾ النور24 :63

’’ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تم اس طرح مت بلاؤ جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ ‘‘

اور فرمایا : ﴿ یَا أَیُّہَا الذَِّیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ﴾ الحجرات49 :2

’’ اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بلند آواز سے بات کرتے ہو ، ورنہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں

گے اور تمھیں اس کا احساس تک نہ ہو گا ۔ ‘‘

اِس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اعمال ِ صالحہ کو برباد کردیتی ہے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی سے بچنا چاہئے ۔ اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ٭ لِتُؤمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا ﴾ الفتح48 :8 ۔9

’’ یقینا ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ ( اے مسلمانو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، ان کی مدد کرو اور ان کا ادب کرو ۔ اور صبح وشام اس ( اللہ ) کی تسبیح بیان کرو ۔ ‘‘

10. ریاکاری

جن اعمال میں انسان کی نیت خالص نہیں ہوتی ، بلکہ وہ ان میں ریاکاری کرتا ہے ، یا کسی دنیاوی مقصد کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اعمال رائیگاں چلے جاتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أخَافُ عَلَیْکُمْ اَلشِّرْکُ الْأصْغَرُ))

’’ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلرِّیَائُ ، یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأصْحَابِ ذَلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسَ : اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا ، فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً ؟)) الصحیحۃ للألبانی :951

’’ شرکِ اصغر سے مراد ریا کاری ہے۔اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو ریا کاری کرنے والوں سے کہے گا :تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کے لئے تم ریا کرتے تھے ، پھر دیکھو کہ کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دیتے ہیں ؟‘‘

اورابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا :

آپ کا کیا خیال ہے کہ جو شخص جنگ میں اس لئے شریک ہو کہ اسے اجر وثواب بھی ملے اور شہرت بھی ، تو اسے کیا ملے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا شَیْیَٔ )) ’’ اسے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ ‘‘

اس آدمی نے یہ سوال تین مرتبہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُہُ)) سنن النسائی :3140۔ وصححہ الألبانی

’’ بے شک اللہ تعالی کوئی عمل قبول نہیں کرتا سوائے اس کے جو خالص ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا کو طلب کیا گیا ہو ۔ ‘‘

جو شخص لوگوں کو دکھلانے کیلئے اور ان سے اپنی تعریف سننے کی خاطر مال خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالی کچھ بھی اجروثواب نہیں دیتا ۔ بلکہ اس کے عمل کو ضائع کردیتا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی کَالَّذِیْ یُنفِقُ مَالَہُ رِئَائَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لاَّ یَقْدِرُونَ عَلَی شَیْْئٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَاللّٰہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ﴾ البقرۃ2 :264

’’ مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) کو احسان جتلاکر اور ایذا دے کر اُس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو لوگوں کو دکھانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ تو اُس (کے مال) کی مثال اُس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اُس پر زور کا مینہ برسے اور وہ اُسے صاف کر ڈالے ۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘

11. خلوت میں محرمات کا ارتکاب

لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر خلوتوں میں اللہ تعالی کی محرمات کا ارتکاب کرنانیکیوں کیلئے تباہ کن ہے ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِی یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالَ جِبَالِ تِہَامَۃَ بَیْضًا ، فَیَجْعَلُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَبَائً مَّنْثُوْرًا))

’’ میں یقینا اپنی امت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز ایسی نیکیاں لے کر آئیں گے جو تہامہ کے پہاڑوں کی مانند روشن ہو نگی لیکن اللہ تعالی ان کی ان نیکیوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کی مانند اڑا دے گا ۔‘‘

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول !

(( صِفْہُمْ لَنَا ، جَلِّہِمْ لَنَا ، أَن لَّا نَکُوْنَ مِنْہُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ ؟))

آپ ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کر دیجئے اور ان کے بارے میں کھل کر بیان کر دیجئے تاکہ ہم لا علمی میں ایسے لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((أَمَا إِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُم،وَیَأخُذُوْنَ مِنَ اللَّیْلِ کَمَا تَأخُذُوْنَ ،وَلٰکِنَّہُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰہِ انْتَہَکُوْہَا)) سنن ابن ماجہ :4245۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :505

’’ خبر دار ! وہ تمہارے بھائی اور تمہاری قوم سے ہی ہونگے ۔ اور وہ رات کو اسی طرح قیام کریں گے جیسا کہ تم کرتے ہو لیکن وہ ایسے لوگ ہونگے کہ جب خلوت میں انھیں اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں ملیں گی تو وہ ان سے اپنا دامن نہیں بچائیں گے ۔ ‘‘

12. نماز عصر کو دانستہ طور پر چھوڑنا

اعمال ِ صالحہ کے ضیاع اور ان کی بربادی کا سبب بننے والے امور میں سے ایک امر نماز عصر کو دانستہ طور پر چھوڑنا ہے ۔

اللہ تعالی نے ویسے تو تمام نمازیں پابندی سے پڑھنے کا حکم دیا ہے ، لیکن نماز عصر کی خاص تاکید فرمائی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ﴾ البقرۃ2 :238

’’ تم لوگ اپنی سب نمازوں کی حفاظت کرو ، خاص طور پر درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔ ‘‘’درمیانی نماز ‘ سے مراد عصر کی نماز ہے ۔

اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ)) صحیح البخاری :553

’’ جو شخص نمازِ عصر کو چھوڑ دے تواس کا عمل ضائع ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

13. نجومیوں کے پاس جانا

نجومیوں کے پاس جا کر ان سے اپنی کسی مشکل کا حل پوچھنا انسان کے اعمال ِ صالحہ کیلئے تباہ کن ہے ۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :(( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَیْئٍی لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَا ۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً)) صحیح مسلم :2230۔ صحیح الجامع للألبانی :5940

’’ جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تواس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :((مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم)) صحیح الجامع للألبانی : 5939

’’ جو شخص کسی کاہن ( علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل ) کے پاس جائے ، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین ِ الٰہی سے کفر کیا ۔ ‘‘

14. اللہ تعالی کی قسم کھا کریہ کہنا کہ فلاں آدمی کو اللہ تعالی معاف نہیں کرے گا

اللہ رب العزت غفور رحیم ، نہایت ہی مہربان اور اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی توبہ پر خوش ہوتا ہے اور ان کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ اس کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ۔ اور وہ خود فرماتا ہے کہ

﴿ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ ﴾ الزمر39 :53

’’ آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جنھوں نے ( گناہوں کا ارتکاب کرکے ) اپنے اوپر زیادتی کی ہے! تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔ یقینا وہی تو ہے جو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے ۔ ‘‘

جو اللہ اِس قدر مہربان اور معاف کرنے والا ہے اُس کے بارے میں کوئی شخص قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ فلاں آدمی کو معاف نہیں کرے گا ، تو یہ بات اِس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالی اس کی وجہ سے اُس بندے کے اعمال ِ صالحہ کو برباد کردیتا ہے ۔

جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ ایک آدمی نے کہا : اللہ کی قسم ! فلاں آدمی کو اللہ معاف نہیں کرے گا ۔ تو اللہ تعالی نے کہا : (( مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَأَلّٰی عَلَیَّ أَن لَّا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ ؟ ))

’’ وہ کون ہوتا ہے جو قسم کھا کر یہ کہے کہ میں فلاں آدمی کومعاف نہیں کرو ں گا ؟ ‘‘ (( فَقَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ وَأَحبَطتُّ عَمَلَکَ )) صحیح مسلم :2621

’’ میں نے اُس فلاں کو معاف کردیا ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کردیا ہے ۔ ‘‘

آخر میں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے تمام امور سے بچنے کی توفیق دے جو اعمال ِ صالحہ کے ضیاع اور ان کی بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔ اور وہ اپنے فضل وکرم سے ہمارے اعمال کو شرف قبولیت سے نوازے۔

دوسرا خطبہ

عزیزان گرامی !

آئیے اب نیکیوں کے ضیاع کا آخری سبب ذکر کرتے ہیں ، جو انتہائی سنگین ہے ۔ اور وہ ہے :

15. اللہ کے بندوں کی حق تلفی کرنا

یعنی اللہ کے بندوں کے حقوق کو ضائع کرنا اور انھیں ظلم وزیادتی کا نشانہ بنانا اور ان سے معافی نہ مانگنا انسان کی نیکیوں کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ ؟ )) ’’ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے ؟

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا : (( اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَّا دِرْہَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعَ ))

’’ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی اور ساز وسامان ۔ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِیْ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکَاۃٍ ، وَیَأْتِیْ قَدْ شَتَمَ ہٰذَا ، وَقَذَفَ ہٰذَا ، وَأَکَلَ مَالَ ہٰذَا ، وَسَفَکَ دَمَ ہٰذَا ، وَضَرَبَ ہٰذَا ، فَیُعْطیٰ ہٰذَا مِن حَسَنَاتِہٖ، وَہٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ، فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْضیٰ مَا عَلَیْہِ ، أُخِذَ مِنْ خَطَایَاہُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ، ثُمَّ طُرِحَ فِیْ النَّارِ)) صحیح مسلم :2581

’’ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکاۃ لیکر آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر بہتان باندھا ہو گا، کسی کا مال کھالیا ہو گا ، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ لہٰذا ان میں سے ہر ایک کو اس کے حق کے بقدر اس کی نیکیاں دی جائیں گی۔ اور اگر ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ لے کراس کی گردن میں ڈال دئیے جائیں گے اورپھر اسے جہنم رسید کردیا جائے گا ۔ ‘‘

اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے بندوں کی حق تلفی کرے ، پھروہ اپنی زندگی میں ان سے ان حق تلفیوں کو معاف نہ کروائے ، تو قیامت کے روز عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اُس کی نیکیوں کو لے کر اُن لوگوں

میں بانٹ دے جن کی اس نے حق تلفی کی تھی ۔ پھر بھی اگر ان کے حقوق پورے نہیں ہونگے تو اُن کے گناہوں کو اِس پر ڈال دیاجائے گا اور پھر اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ

لہٰذا حقوق العباد کے سلسلے میں کسی قسم کی غفلت نہیں برتنی چاہئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ مَظْلَمَۃٌ لِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ أَوْ شَیْئٍ فلْیٍَتَحَلَّلْہُ مِنْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَّلَا دِرْہَمٌ ، وَإِنْ کَانَ لَہُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْہُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِہٖ ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ)) صحیح البخاری :2449 و6534

’’ جس کسی کے پاس اس کے بھائی کا حق ہو اس کی عزت سے یا کسی اور چیز سے ‘ تو وہ آج ہی اس سے آزاد ہو جائے ( یعنی یا تو وہ حق اسے ادا کردے یا اسے اس سے معاف کروا لے ۔) اس دن کے آنے سے پہلے جب نہ دینار ہو گا نہ درہم ۔ اور اگر اس کے پاس نیک اعمال ہو نگے تو اس کے حق کے بقدر اس سے نیک اعمال لے لئے جائیں گے ۔ اور اگر نیکیاں نہیں ہو نگی تو صاحبِ حق کی بعض برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی ۔ ‘‘

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ بِیَمِیْنِہٖ فَقَدْ أَوْجَبَ اللّٰہُ لَہُ النَّارَ وَحَرَّمَ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ ))

’’ جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کی حق تلفی کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے جہنم کو واجب کردیتا ہے اور جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘

ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! (( وَإِنْ کَانَ شَیْئًا یَسِیْرًا )) اگرچہ کوئی ہلکی سی چیز ہی کیوں نہ ہو ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَإِنْ قَضِیْبًا مِنْ أَرَاک ))

’’ اگرچہ وہ ایک مسواک کی چھڑی کیوں نہ ہو ۔ ‘‘ صحیح مسلم :137

یعنی اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا چھوٹا سا حق بھی مارے تو اللہ تعالی اس پر جہنم کو واجب اور جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ نسأل اللہ العفو والعافیۃ

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان تمام امور سے بچنے کی توفیق دے جو کہ اعمال ِ صالحہ اور نیکیوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں ۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین