اللہ تعالٰی کی ضمانت حاصل کریں

چند ایسے اعمال کا تذکرہ کہ جنہیں بجا لانے سے اللہ تعالٰی کی ضمانت اور حفاظت حاصل ہوتی ہے

 

01.ایمان لانا

وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏.(آل عمران 139)

اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔

عن فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا زَعِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَاجَرَ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا زَعِيمٌ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلَمْ يَدَعْ لِلْخَيْرِ مَطْلَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مِنَ الشَّرِّ مَهْرَبًا يَمُوتُ حَيْثُ شَاءَ أَنْ يَمُوتَ .(نسائی 3135)

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو مجھ پر ایمان لایا، اور میری اطاعت کی، اور ہجرت کی، تو میں اس کے لیے جنت کے احاطے ( فصیل ) میں ایک گھر اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں۔ اور میں اس شخص کے لیے بھی جو مجھ پر دل سے ایمان لائے، اور میری اطاعت کرے، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرے ضمانت لیتا ہوں جنت کے گرد و نواح میں ( فصیل کے اندر ) ایک گھر کا، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا اور جنت کے بلند بالا خانوں ( منزلوں ) میں سے بھی ایک گھر ( اونچی منزل ) کا۔ جس نے یہ سب کیا ( یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد ) اس نے خیر کے طلب کی کوئی جگہ نہ چھوڑی اور نہ ہی شر سے بچنے کی کوئی جگہ جہاں مرنا چاہے مرے“

مومنوں کو نجات دینا اللہ پر حق ہے

ثُمَّ نُنَجِّىۡ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ كَذٰلِكَ‌ۚ حَقًّا عَلَيۡنَا نُـنۡجِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ.(یونس 103)

پھر ہم اپنے رسولوں کو نجات دیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان لائے، اسی طرح ہم پر حق ہے کہ ہم مومنوں کو نجات بخشیں۔

مومنوں کی مدد اللہ پر حق ہے

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوۡمِهِمۡ فَجَآءُوۡهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَانْتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِيۡنَ اَجۡرَمُوۡا ‌ؕ وَكَانَ حَقًّا عَلَيۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ.(روم 47)

اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے، پھر ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنھوں نے جرم کیا اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔

ایمان کی مٹھاس تین چیزوں میں ہے

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "”ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ””. (بخاری 16)

وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔

02. لوگوں سے نہ مانگنا

‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ تَكَفًَلَ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ ؟ فَقَالَ ثَوْبَانُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا.(ابو داؤد 1643)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟ ، ثوبان نے کہا: میں ( ضمانت دیتا ہوں ) ، چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے

فَکَانَ ثَوْبَانُ یَقَعُ َسْوُطُہ وَہُوَ رَاکِبٌ فَلَا یَقُوْلُ لِأَحَدٍ نَاوِلْنِیْہِ حَتّٰی یَنْزِلَ فَیَتَنَاوَلَہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۷۴۴)

جب سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سواری پر سوار ہوتے اور ان کی لاٹھی گر جاتی تو وہ کسی سے نہیں کہتے تھے کہ وہ ان کو اٹھا کر دے دے، بلکہ خود سواری سے اتر کر اس کو اٹھاتے تھے۔

مسند احمد 3539

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ (ترمذی 2516)

تو جب بھی سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور تو جب بھی مدد مانگے تو اللہ ہی سے مدد مانگ

03.فجر کی نماز پڑھنا

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ، فَلَا يَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ فَيُدْرِكَهُ فَيَكُبَّهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ» (مسلم 1493)

حضرت جندب بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے مروی ہے ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی و ہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ( امان ) میں ہے ۔ تو ایسانہ ہو کہ ( ایسے شخص کو کسی طرح نقصان پہنچانے کی بناپر ) اللہ تعالیٰ تم ( میں سے کسی شخص ) سے اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ کرے ، پھر وہ اسے پکڑ لے ، پھر اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ۔ ‘ ‘

۔ (۱۱۸۵)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ صَلّٰی صَلَاۃَ الصُّبْحِ فَلَہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ فَلَا تُخْفِرُوْا اللّٰہَ ذِمَّتَہُ، فَاِنَّہُ مَنْ أَخْفَرَ ذِمَّتَہُ طَلَبَہُ اللّٰہُ حَتّٰی یُکِبَّہُ عَلٰی وَجْہِہِ۔)) (مسند أحمد: ۵۸۹۸)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جس نے نمازِ فجر ادا کر لی، پس اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ضمانت ہے، پس تم اللہ تعالیٰ کی ضمانت کو نہ توڑنا اور جس نے اس کی ضمانت کو توڑ دیا تو وہ اس کو طلب کرے گا اوراس کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دے گا۔

مسند احمد 1185

04.مسجد، جہاد اور حج کی طرف سفر کرنا

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-: رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلَى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللهِ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا (السلسلۃ الصحیحۃ 609)

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص اللہ كی ضمانت میں ہیں، وہ شخص جو اللہ كی مساجدمیں سے كسی مسجد كی طرف نكلا ، اور وہ شخص جو اللہ كے راستے میں جہاد كے لئے نكلا اور وہ شخص جو حج كرنے كے لئے نكلا۔

05.اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا

وَمَنۡ يُّهَاجِرۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يَجِدۡ فِى الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا كَثِيۡرًا وَّسَعَةً‌ ؕ وَمَنۡ يَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَيۡتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ثُمَّ يُدۡرِكۡهُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا (نساء 100)

اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بیشک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دار السلام کی طرف منتقل ہونا، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تا قیامت باقی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

أَنَا زَعِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَاجَرَ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ ([ ابن أبی حاتم : ٣؍٣٢٨، ح : ٥٨٨٨، حسن ])

”جو مجھ پر ایمان لایا، اور میری اطاعت کی، اور ہجرت کی، تو میں اس کے لیے جنت کے احاطے ( فصیل ) میں ایک گھر اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں

خالد بن حزام (رض) حبشہ کی طرف ہجرت کر کے نکلے، انھیں ایک سانپ نے ڈس لیا تو ان کے بارے میں یہ آیت اتری : ( و من یخرج من بیتہ )

سو آدمیوں کو قتل کر کے ہجرت کرنے والے شخص کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے۔

اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنی چاہیے، امام مالک (رض) فرماتے ہیں : ” کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ “ علی ہذا القیاس جس علاقے میں حلال روزی نہ ملتی ہو، یا دین میں فتنے کا خوف ہو وہاں سے بھی ہجرت کرنی چاہیے۔ (قرطبی)

( تفسير القرآن الكريم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

( اَنَا بَرِئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ )[ أبو داوٗد، الجہاد، باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود : ٢٦٤٥ ]

” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو۔ “

06.حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑنا

07.مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولنا

08.اچھا اخلاق اپنانا

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ مَرفُوعاً: أَنَا زَعِيمُ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا

ببیت فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا

ببیت فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ. (السلسلۃ الصحیحۃ 302)

ابو امامہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ میں اس شخص کے لئے جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے اگرچہ حق پر بھی ہو

اور اس شخص کے لئے جنت کے وسط میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو مزاح کے طور پر بھی جھوٹ نہ بولے

اور جو اپنے اخلاق کو اچھا کرلے اس کے لئے جنت کے اعلےٰ درجے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔

09.زبان اور شرمگاہ کی حفاظت

‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "”مَنْ تَوَكَّلَ لِي مَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏تَوَكَّلْتُ لَهُ بِالْجَنَّةِ””. (بخاری 6807)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان یعنی ( شرمگاہ ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان ( یعنی زبان ) کی ضمانت دے دی تو میں اسے جنت میں جانے کا بھروسہ دلاتا ہوں۔“

10.گفتگو میں سچ بولنا

11.وعدہ پورا کرنا

12.امانت لوٹانا

13.شرمگاہ کی حفاظت کرنا

14.نظروں کو جھکانا

15.اپنے ہاتھوں کو دوسروں کو تکلیف پہچانے سے روکے رکھنا

عَنْ عُبَادَةَ مَرْفُوْعاً: اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُم الْجَنَّةَ اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ. (السلسلۃ الصحیحۃ 30)

عبادہ سے مرفوعا مروی ہے کہ تم اپنی طرف سے مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں، جب بات کرو تو سچ بولو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب تمہیں امانت دی جائے تو ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهلي، قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌يَقُولُ: اكْفُلُوا لِي بِسِتٍّ أَكْفُلْ لَكُمِ الْجَنَّةَ: إِذَا حَدَّثَ أَحَدُكُمْ فَلا يَكْذِبْ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ فَلا يَخُنْ، وَإِذَا وَعَدَ فَلا يُخْلِفْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ.۔( السلسلۃ الصحیحۃ 1329)

 ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: مجھے چھ چیزوں كی ضمانت دو میں تمہیں جنت كی ضمانت دیتا ہوں۔جب تم میں سے كوئی شخص بات كرے تو جھوٹ مت بولے، اور جب اس كے پاس امانت ركھی جائے تو خیانت نہ كرے، اور جب وعدہ كرے تو وعدہ خلافی نہ كرے، اپنی نگاہیں نیچی ركھو، اپنے ہاتھ روكے ركھو، اور اپنی شرمگاہوں كی حفاظت كرو

16.جہاد فی سبیل اللہ

اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ (توبہ 111)

بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقینا ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے ؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

بعض علماء نے فرمایا کہ جہاد کی اس سے بہتر اور اس سے بڑھ کر مؤثر ترغیب آپ کسی آیت میں نہیں پائیں گے، کیونکہ اسے ایک سودے اور معاہدے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو سودا رب العزت کے ساتھ ہے۔ سودے کا سامان مومنوں کی جانیں اور مال ہیں اور قیمت اس کی اتنی قیمتی اور بےمثال ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک آیا۔ یہ سودا اور معاہدہ صرف اس پر نہیں کہ وہ قتل کیے جائیں گے تو قیمت ملے گی، بلکہ اللہ کے دین کی نصرت اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے وہ کفار کو قتل کریں گے تب بھی یہی قیمت ملے گی۔ پھر اس معاہدے کی باقاعدہ تسجیل (رجسٹری) آسمانی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن میں کی گئی، اس سے بڑھ کر سودے کی پختگی کا تحریری ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کا سچا پکا عہد قرار دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنا عہد کون پورا کرنے والا ہے۔ سو اس کا ادھار دوسرے تمام نقدوں سے بڑھ کر ہے، پھر اس کا ادھار وعدہ جنت یقینی ہے

( تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَضَمَّنَ اللهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا جِهَادًا فِي سَبِيلِي، وَإِيمَانًا بِي، وَتَصْدِيقًا بِرُسُلِي، فَهُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ أَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ، نَائِلًا مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا مِنْ كَلْمٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللهِ، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهِ حِينَ كُلِمَ، لَوْنُهُ لَوْنُ دَمٍ، وَرِيحُهُ مِسْكٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مَا قَعَدْتُ خِلَافَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ لَا أَجِدُ سَعَةً فَأَحْمِلَهُمْ، وَلَا يَجِدُونَ سَعَةً، وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي أَغْزُو فِي سَبِيلِ اللهِ فَأُقْتَلُ، ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ، ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ» (مسلم 4859)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے خود ( ایسے شخص کی ) ضمانت دی ہے کہ جو شخص اس کے راستے میں نکلا ، میرے راستے میں جہاد ، میرے ساتھ ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے سوا اور کسی چیز نے اسے گھر سے نہیں نکالا ، اس کی مجھ پر ضمانت ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا ، یا پھر اسے اس کی اسی قیام گاہ میں واپس لے آؤں گا جس سے وہ ( میری خاطر ) نکلا تھا ، جو اجر اور غنیمت اس نے حاصل کی وہ بھی اسے حاصل ہو گی ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگایا جاتا ہے ( تو زخم کھانے والا ) قیامت کے دن اسی حالت میں آئے گا جس حالت میں اس کو زخم لگا تھا ، اس ( زخم ) کا رنگ خون کا ہو گا اور خوشبو کستوری کی ، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی بھی لشکر سے مختلف رویہ اپناتے ہوئے ( گھر میں ) نہ بیٹھتا ، لیکن میرے پاس اتنی وسعت نہیں ہوتی کہ میں سب مسلمانوں کو سواریاں مہیا کر سکوں اور نہ ہی ان ( سب ) کے پاس اتنی وسعت ہوتی ہے اور یہ بات ان کو بہت شاق گزرتی ہے کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں ۔ اس ذات کی قسم کس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر قتل کر دیا جاؤں اور پھر جہاد کروں ، پھر قتل کر دیا جاؤں ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "”تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ جَاهَدَ فِي سَبِيلِهِ لَا يُخْرِجُهُ مِنْ بَيْتِهِ إِلَّا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصْدِيقُ كَلِمَتِهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ””. (7463بخاری) ‏‏‏‏‏‏ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : أحلت لکم الغنائم : ٣١٢٣ ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور اپنے گھر سے صرف اس غرض سے نکلا کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضمانت لے لیتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا پھر ثواب اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر واپس کرے گا۔“

حمید(بن ہلال) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے طفاوہ قبیلے کا کہ ایک آدمی تھا جو ہمارے پاس سے گزراکرتا تھا وہ قبیلے والوں کے پاس آیا اور انہیں بتانے لگا کہ میں اپنے ایک قافلے میں مدینے آیا، ہم نے اپنا سامان بیچ دیا، پھر میں کہنے لگا: میں اس شخص کی طرف جاتا ہوں اور اپنے پیچھے والوں کے لئے اس کی خبر لاتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ مجھے ایک گھر دکھانے لگے، کہےا لگے:ایک عورت اس گھر میں تھی(یعنی مدینے کے ایک گھر میں) وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک سریہ (وہ لڑائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے صحابی کو سپہ سالار لشکر بنا کر بھیجیں) میں نکلی، اوراس نے اپنے ریوڑ میں بارہ بکریاں اور تکلا جس سے وہ سوت کاتی تھی یا بننے کا کام کرتی تھی۔ چھوڑا (واپس آئی تو) ان بکریوں میں سے ایک بکری اور تکلا گم پایا۔ وہ کہنے لگی: اے میرے رب تو نے اس شخص کے لئے ضمانت دی ہے جو تیرے راستے میں نکلتا ہے کہ تو اس کے پیچھے گھر بار کی حفاظت کرے گا، میرے ریوڑ میں سے ایک بکری اورکوچ گم ہے۔ میں تجھے واسطہ دیتی ہوں کہ میری بکری اورکوچ واپس لوٹا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی شدت مناجات کا ذکر کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بکری اور اس جیسی ایک اوربکری، اورایک تکلا اور اس جیسا دوسرا تکلا واپس مل گیا، اگر چاہو تو اس سے پوچھ لو

السلسلۃ الصحیحۃ 2061

محمد بن کعب قرظی سے مروی ہے کہ کوفہ کے ہمارے ایک جوان نے سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں بھتیجے، اس نے پوچھا: تمہارا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا رویہ اور برتاؤ ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان دنون سخت مشقت میں تھے، تو اس جوان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم آپ کے زمانہ کو پالیتے تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زمین پر نہ چلنے دیتے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھاتے تو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے بھتیجے میں نے ہم صحابہ کو خندق کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کون ہے جو اُٹھ کر جا کر دیکھ کر آئے کہ اب دشمن کیا کر رہا ہے؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط (ضمانت) فرمایا کہ وہ واپس آئے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کون ہے جو جا کر دشمن کو دیکھ کر آئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط، ضمانت فرمایا کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو۔ لیکن دشمن کے خوف کی شدت، بھوک کی شدت اور سردی کی شدت کی وجہ سے کوئی بھی نہ اُٹھا، جب کوئی بھی نہ اُٹھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا چوں کہ آپ نے مجھے ہی خاص طور پر بلایا تھا اس لیے میرے لیے اُٹھے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تم جا کر دشمن کے افراد کے اندر گھس جاؤ۔ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اور تم ہمارے پاس واپس آنے تک کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا، حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں جا کر ان میں شامل ہو گیا، تیز آندھی اور اللہ کے لشکران کی تباہی مچا رہے تھے، تیز آندھی کی وجہ سے نہ ان کی دیگیں ٹھہرتی تھیں نہ آگ نہ خیمے۔ اسی دوران ابو سفیان بن حرب نے کھڑے ہو کر کہا اے قریش! ہر آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کون بیٹھا ہوا ہے؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، پھر ابو سفیان نے کہا اے جماعت ِ قریش! اب تم اس مقام پر قرار نہیں کر سکتے۔ سارے گھوڑے ہلاک ہو گئے ہیں۔اور بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے انہوں نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہمیں انتہائی ناگوار گزرا اور تیز آندھی کی صورت حال بھی تم دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی قسم! ہماری دیگیں کہیں ٹھہر نہیں رہیں۔ آگ جلتی نہیں اور خیمے بھی نہیں ٹھہر رہے۔ تم کوچ کی تیاری کرو۔ میں تو جا رہا ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف اُٹھ گیا جس کے پاؤں کو رسی سے باندھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا، اسے مارا اس نے اس کی رسی کو کھولا نہیں تھا، اس لیے اونٹ نے تین بار کود کر اُٹھنے کی کوشس کی، تاہم وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ واپس آنے تک وہاں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے کا عہد نہ ہوتا تو میں چاہتا تو اسے ایک ہی تیر سے قتل کر سکتا تھا۔ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا، آپ اس وقت اپنی کسی اہلیہ کی منقش اونی چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے خیمے میںداخل کر کے چادر کا ایک پہلو میرے اوپر دے دیا۔ آپ چادر ہی میں تھے۔ آپ نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کی اور جب بنو غطفان نے قریش کی ساری کار گزاری سنی تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو اپنے وطن کی طرف موڑ لیا

مسند احمد 10770

مغیرہ بن شعبہ (رض) اور ان کے ساتھی مجاہدین ایران میں جہاد کے لیے گئے تو کسریٰ کے جرنیل نے مسلمانوں کے سفیر مغیرہ بن شعبہ (رض) سے پوچھا : ” تم لوگ کیا ہو ؟ “ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کا تعارف کرانے کے بعد فرمایا : ” ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہمارے رب کا پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو قتل کردیا جائے گا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں جائے گا جو کبھی کسی کے دیکھنے میں نہیں آئیں اور جو ہم میں سے باقی رہے گا وہ تمہاری گردنوں کا مالک بنے گا۔ “

[ بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ ۔۔ : ٣١٥٩ ]