اللہ تعالیٰ شاکر ہیں

 

قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت شاکر اور شکور بیان ہوئی ہے

صفت شاکر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء : 147)

اور اللہ ہمیشہ سے قدر کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

صفت شکور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ (الشورى : 23)

یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ایسی ذات ہے کہ اپنی بات ماننے والوں، اطاعت کرنے والوں اور نیکی کے کام کرنے والوں کی محنت، قربانی اور جدوجہد کی لاج رکھتا ہے، قیمت لگاتا ہے، صلہ اور اچھا بدلہ دیتا ہے

ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص اللہ کے لیے کوئی نیکی کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی قیمت نہ لگائیں یا اسے نظر انداز کردیں

چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

مرغ کی بانگ اور رب کائنات کی عزت نوازی

مرغ ایک پرندہ ہے، سحری کے وقت بانگ دینا اس کی فطرت ہے، اس کی بانگ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عبادت گزاروں کو تہجد کے وقت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور وہ تہجد اور فجر کی نماز کے لیے اٹھ جاتے ہیں

میرے شاکر اور شکور رب نے اپنی شریعت میں ایک قانون بنا دیا اپنے نبی کی زبانی کہلوایا :

"لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ ؛ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ ” (سنن أبي داود|5101 ،حكم الحديث: صحيح

مرغ کو گالی نہ دیا کرو اس لیے کہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے

سبحان اللہ، اس حدیث مبارکہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدردانی معلوم ہوئی وہاں ہمارے لیے انتہائی خوشی کی خبر یہ ہے کہ جو رب ایک مرغ کی ایک نماز کے لیے اٹھانے والی کوشش کی اتنی قیمت لگاتا ہے وہ پانچ نمازوں کے لیے آذان دینے والے بندے کی کتنی قیمت لگاتا ہوگا

مینڈک کی پھونک اور میرے رب کی طرف سے اس کی قدردانی

محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (۸۳۹۲) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ الْوَزَغُ يَنْفُخُ فِيْهِ فَنَهَی عَنْ قَتْلِ هٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ هٰذَا ]

’’مینڈک ابراہیم علیہ السلام سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘

غور کیجیے مینڈک ایک چھوٹا سا جانور ہے اس کی پھونک کوئی قوت نہیں رکھتی اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے بھڑکائی ہوئی آگ سے اس کا کوئی مقابلہ و موازنہ نہیں بنتا ہے وہ آگ ایسی تھی کہ مینڈک کی ہزار پھونکیں بھی اسے بُجھا نہیں سکتی تھیں مگر مینڈک نے اسے بجھانے کی اپنی سی کوشش کی، میرے رب نے اس حقیر سی کوشش کی یہ قیمت لگائی کہ قیامت تک مینڈک کو قتل کرنے سے منع کردیا

ہدہد کی ٹینشن اور رب کائنات کی قدردانی

یہ ایک پرندہ ہے، اس کا نام ہدہد ہے، اڑتا ہوا ایک قوم کے پاس پہنچتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ وہ قوم خالقِ کائنات کے مقابلے میں کسی اور کو پوج رہی ہے، یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، کمزور تھا، کچھ نہیں کرسکتا تھا مگر ایک فکر لے کر واپس آیا، اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کو ساری داستان سنا دی

اس پرندے نے اس قوم کا نہ کوئی بندہ قتل کیا، نہ ان کے خلاف لشکر کشی کی، محض توحید کی حمیت اور غیرت میں وقت کے نبی تک اطلاع پہنچائی، میرے رب نے اتنی سی کوشش کی یہ قیمت لگائی کہ اپنے قرآن میں ہدہد کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے قیامت تک وفا کی اعلیٰ مثال بنا کر پیش کر دیا

(وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ)

اصحاب کہف کی چوکیداری کی وجہ سے کتے کا تذکرہ تاقیامت باقی رکھا گیا

کتا ایک ایسا جانور ہے کہ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لاَ تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيْرُ ] [بخاری، اللباس، باب التصاویر : ۵۹۴۹]

’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو۔‘‘

لیکن جب وہی کتا چند نیک افراد کی چوکیداری کے لیے ان کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ نے ناصرف یہ کہ اسے محلِ مدح میں بیان کیا بلکہ تاقیامت اس کا تذکرہ اچھی ناموری کے ساتھ باقی رکھا

فرمایا

وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ (الکہف :18)

اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے۔

انسان کی محنت اور اللہ تعالیٰ کی اجرت

سوچیے کہ جو رب مرغ کی بانگ، مینڈک کی پھونک، ہدہد کی ذہنی فکر، اور کتے کی پہرے داری کی اتنی لاج رکھتا ہے، کیا وہ ایک انسان کی نمازوں کے لیے تگ و دو، روزے کی بھوک پیاس، جہاد کے زخم، حصولِ تعلیم کی تکلیفوں، اطاعتِ الہی کی مشقتوں اور اعلاء کلمۃ اللہ کی کوششوں کو یونہی ضائع جانے دے گا؟

نہیں، بلکہ اس کا پیغام ہے

وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا (الإنسان : 22)

اور تمھاری کوشش ہمیشہ قدر کی ہوئی ہے۔

اور فرمایا :

فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ (الأنبياء : 94)

پس جو شخص کچھ نیک اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی کوئی نا قدری نہیں اور یقینا ہم اس کے لیے لکھنے والے ہیں۔

میرے رب کا فرمان سنو

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (البقرة :158)

اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر دان ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔

اور فرمایا :

لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ (فاطر : 30)

تاکہ وہ انھیں ان کے اجر پور ے پورے دے اور اپنے فضل سے انھیں زیادہ بھی دے، بلا شبہ وہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے ۔

اور فرمایا :

إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (التغابن : 17)

اگر تم اللہ کو قرض دو گے، اچھا قرض تو وہ اسے تمھارے لیے کئی گنا کر دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان، بے حد بردبارہے۔

اور فرمایا :

وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (الإسراء : 19)

اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدرکی ہوئی ہے۔

قریب المرگ نوجوان کا اپنی ماں سے مکالمہ

ایک نوجوان کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی رونے لگی

اس نے کہا

اے ماں تو کیوں روتی ہے ؟

مجھے بتا "اگر اللہ تعالیٰ میرا حساب آپ کے ذمے لگا دے تو آپ میرے ساتھ کیسا سلوک کروگی”

ماں نے کہا

بیٹا میں تجھے معاف کر دوں گی

بیٹے نے کہا

تو اے ماں پھر میرا رب تو تجھ سے بھی زیادہ میرے ساتھ محبت کرتا ہے

ماں کی محبت کی مثال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ»

کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا

«لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا» (بخاری ،5999،صحيح مسلم ( 2754 )

کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے

میرے مولا کی رحیمی و کریمی

یحییٰ بن معاذ (رحمہ الله )کے سامنے ایک آدمی نے یہ آیت پڑھی:

فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى (طه : 44)

پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔

یحییٰ یہ سن کر رونے لگے، پھر فرمایا:

الٰہی! تیرا یہ نرمی کا انداز اس شخص کے بارے میں ہے جو خود کو(أنا ربكم الأعلى) کہتا تھا

تو بھلا، اس کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالم ہو گا کہ جو شب و روز سبحان ربي الأعلى کہتا ہے

(تفسير البغوي: 3/263)

میرے رب کا اعلان سنیں

فرمایا :

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الحجر : 49)

میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔

روزے دار کے منہ کی بو اور قدر کی انتہا

کبھی سنا کہ کسی ٹوٹ کر چاہنے والے نے کہا ہو کہ مجھے محبوب کے منہ سے نکلنے والی بو بہت اچھی لگتی ہے، ہرگز نہیں

مگر قربان جائیں، محبت، قدر اور وفا کی انتہا ہو گئی جب میرے سوہنے رب نے یہ بات بتائی :

لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ (صحيح البخاري |1894

کہ مجھے میرے روزے دار بندے کے منہ سے نکلنے والی بو کستوری سے زیادہ پسند ہے

میں اپنے قدردان رب کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اس کے بعد محبت کی انتہا ہے اور دنیا اس سے بڑھ کر کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی

گھوڑے کی لید اور قیمت لگانے کی اعلیٰ مثال

گھوڑے کی لید، بھلا اس کی کیا اوقات ہے؟ گندی اور بدبودار ہوتی ہے

مگر قیمتیں لگانے والے اللہ رب العزت پر قربان جائیں، اگر کسی مجاہد نے جہاد کی نیت سے، اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے، دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لیے گھوڑا پالا تو اللہ تعالیٰ اس گھوڑے کی لید اور پیشاپ کو بھی ضائع نہیں کرتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :‏‏‏‏

مَنِ احْتَبَسَ فَرَسًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِيمَانًا بِاللَّهِ وَتَصْدِيقًا لِوَعْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ شِبَعُهُ وَرِيُّهُ وَبَوْلُهُ وَرَوْثُهُ حَسَنَاتٍ فِي مِيزَانِهِ .

بخاری و مسلم، نسائی 3612

”جو شخص اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے گھوڑا پالے اور اللہ پر اس کا پورا ایمان ہو اور اللہ کے وعدوں پر اسے پختہ یقین ہو تو اس گھوڑے کی آسودگی، اس کی سیرابی، اس کا پیشاب اور اس کا گوبر سب نیکیاں بنا کر اس کے میزان میں رکھ دی جائیں گی“۔

ایک واقعہ

زفر بن ہذیل امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں قرآن مجید حفظ کیا تھا

ان کی موت کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا

ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا حال ہے

تو انہوں نے کہا

‏لولا السّنتَين لَهَلَك زفر!! ". [شرح مسند أبي حنيفة (١/٤٥)

اگر میری زندگی کے آخری دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا

ذرات کی قیمت لگانے والا

دنیا کا ایک اصول ہے، چھوٹی چھوٹی چیزوں کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے، اے ٹی ایم سے پیسے نکلوائیں تو 5 سو سے چھوٹا نوٹ نہیں نکلتا، کسی چیز کی قیمت اعشاریہ میں چلی جائے تو اعشاریہ سے اوپر والے فگر کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی

مگر

قربان جائیں، نیکیوں کی قیمت لگانے والے رب العزت پر کہ چھوٹی سے چھوٹی ذرہ برابر نیکی کی بھی قدر کرتا ہے

فرمایا :

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (الزلزلة : 7)

تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ ". (صحيح مسلم |2626

کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھو

سمندر کا مالک ہے لیکن آنسو کا قطرہ دیکھنا چاہتا ہے

سمندروں، دریاؤں، ڈیموں،بیراجوں،نہروں، ندیوں، نالوں اور چشموں کا مالک ہے دنیا جہاں کے پانیوں کے ذخیرے اس کی ملکیت میں ہیں مگر محبت کی اعلی مثال دیکھیے کہ بندہ مومن کی آنکھ سے نکلنے والے مکھی کے پر کے برابر قطرہءِ آنسو کو دیکھتا ہے اور اس ایک قطرے سے جوش مارتے ہوئے جہنم کو ٹھنڈا کر دیتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ : عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ” (سنن الترمذي |1639،حكم الحديث: صحيح)

وہ تو معاف کر دیتا ہے

وہ تو کتے کو پانی پلانے والے کو معاف کر دیتا ہے

اسے بھی معاف کردیا جس کے ننانوے رجسٹر گناہوں سے بھرے پڑے تھے مگر صرف کلمہ توحید کی وجہ سے معافی نامہ لکھ دیا

اسے بھی معاف کر دیا جس نے سو بندوں کو قتل کر دیا تھا

خوشی میں الٹ الفاظ کہنے والے کو بھی معاف کر دیا

اپنی لاش کی راکھ بنوا کر اڑانے، بہانے اور بکھیرنے والے کو بھی معاف کر دیا

کتنا خیال رکھتا ہے

نیکی کا ارادہ ہی کرلو تو قیمت لگا دیتا ہے

اور اگر اس ارادے کو عملی جامہ پہنا دو ریٹ دس گنا کردیتا ہے

اور کبھی ستر تو کبھی سات سو گنا ریٹ بڑھا دیتا ہے اور کبھی اس سے بھی اوپر لے جاتا ہے

جبکہ

برائی کے خیال پر پکڑتا نہیں ہے

اور اگر اس خیال کو عملی جامہ پہنا دیا جائے تو گناہ لکھنے سے پہلے فرشتوں کو روک کر توبہ کا انتظار کرتا ہے

کافی انتظار کے بعد ایک گناہ کے بدلے ایک ہی لکھتا ہے

پھر بھی توبہ کا انتظار کرتا ہے

اگر کبھی عرصے بعد توبہ کر لے تو پچھلے سبھی گناہوں کو نہ صرف مٹاتا ہے بلکہ نیکیوں میں بدل دیتا ہے

اگر نیکیاں اور گناہ برابر ہوں تو پھر بھی نہیں پکڑتا

ہاں اگر گناہ نیکیوں سے بھاری ہوں تو قانون ہے کہ پکڑتا ہے مگر پھر بھی چاہے تو معاف کر دیتا ہے

وہ اعلی ظرف ہے، باریک حساب میں نہیں جاتا

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا : حدیث "من نوقش الحساب عُذّب” (جس کا حساب میں مناقشہ ہوا، اسے عذاب دیا جائے گا) کا کیا معنی ہے؟ تو آپ نے فرمایا : ”نقش کا معنی ایک ایک چیز کی پوچھ تاچھ ہے۔“ پھر فرمایا : ”خوش ہو جاؤ، اعلی ظرف کبھی ایک ایک چیز کا حساب نہیں کیا کرتا۔

(المجالسة وجواهر العلم للدينوري : ٣)

یعنی امام صاحب کی مراد یہ تھی کہ بہت کم لوگ ہوں گے جن کی نوبت مناقشے تک پہنچے گی اور اس بنا پر وہ مستحقِ عذاب قرار پائیں گے۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم کا معاملہ فرمائیں گے، ان شاء اللہ۔ واللہ اعلم!

کھجور کا ٹکڑا دو، جہنم سے بچ جاؤ

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظيم

کیا شان ہے میرے رب کی، کس قدر شاکر ہے، کتنا قدردان ہے، کبھی ایک قطرہ آنسو سے تو کبھی ایک ٹکڑا کھجور سے، غیض و غضب میں بپھری ہوئی جہنم کو ٹھنڈا کر رہا ہے

اپنے نبی کی زبانی اعلان کروادیا

:”اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ”. صحيح البخاري |1417

جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کو صدقہ کرکے

ایک رات کو ہزار مہینوں سے بہتر بنا دیا

قدر دانی کی انتہا ہے کہ وقتاً فوقتاً کچھ پیکجز رکھ دیے تاکہ تھوڑی نیکی سے زیادہ اجر حاصل کر سکیں

قدر کی رات کو ہی لے لیں اکیلی رات کو ہزار مہینوں سے بہتر بنا دیا

فرمایا

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر : 3)

قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔

عرفہ کے ایک روزے کو دو سال اور عاشوراء کے ایک روزے کو ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا

رمضان اور شوال کے چھتیس روزوں کو پورے سال کے روزوں کے برابر بنا دیا

سورہ اخلاص کو ثلث قرآن کے برابر اور قرآن کے ایک ایک حرف کو دس دس نیکیوں کے برابر بنا دیا

پہلے پچاس نمازیں فرض کیں پھر پانچ باقی رکھ کر انہیں ہی پچاس کے برابر قرار دیا اور پھر ان پانچ میں سے بھی ہر ایک کو 27 گنا اضافے کے ساتھ قبول کیا

اونٹنی کے دودھ دھونے کے وقت برابر بھی کوئی اس کی راہ میں جہاد کرلیتا ہے تو جنت کا یقینی مستحق بن جاتا ہے

کبھی سوچا واش روم سے نکلنے اور مغفرت کی دعا کی کیا مناسبت ہے؟

مہربانی، لطف و کرم اور قدردانی کا کمال دیکھیں قضائے حاجت سے فارغ ہو کر بندہ باہر نکل رہا ہے اس وقت جو دعا سکھائی گئی ہے وہ مغفرت اور بخشش طلب کرنے کی دعا ہے

متبادر الذہن بات یہ تھی کہ کھانا ہضم ہو کر نکلا ہے تو کوئی حمد و شکر کے کلمات ہوتے

مگر

قدر دان اور مہربان پروردگار کی مشیت شاید یہ ہے کہ میرا بندہ ابھی ابھی غیر ضروری بوجھ سے ہلکا ہوا ہے اس کی طبیعت فریش ہوئی ہے ہوش و حواس قائم ہیں ابھی ہی معافی مانگ لے، زبان سے غفرانک کے الفاظ ادا کر دے تو میں اسے معاف کر دوں

تم میرے گھر میں چڑیا کے گھونسلے برابر حصہ شامل کرو میں تمہیں اپنی جنت میں عالی شان محل بنا کر دوں گا

یہ بھی اسی شاکر، شکور، غافر اور غفور اللہ رب العزت کا اعلان ہے

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (ابن ماجة ،738)

’’جس نے اللہ کے لئے قطات کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرے گا۔‘‘

ایک بندے کو پانچ مرتبہ پھانسی کی سزا کیوں

ہمارے شیخ یوسف طیبی حفظہ اللہ نے بڑی عمدہ مثال بیان کی ہے کہتے ہیں بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ جج مجرم کو 5 مرتبہ پھانسی کی سزا سنا دیتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ بندہ ایک ہے ایک پھانسی سے ہی مرجائے گا، پانچ مرتبہ پھانسی دینے کا کیا مطلب ہے؟ وہ اس لیے کہ جج چاہتا ہے یہ بڑا مجرم ہے، اسے کسی صورت بچنا نہیں چاہیے صدر یا وزیراعظم اپنے خصوصی اختیار سے اگر ایک دو معافیاں دے بھی دیں تو باقی پھانسیوں میں پکڑا جائے گا

اب اس مثال کو الٹ کر کے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کو سمجھیں

ایک ہی بندے کو کئی آپشنز کے ذریعے جنت میں داخل کیا جا رہا ہے

جہاد کرے گا تو جنت میں داخل ہو گا

زکوٰۃ دے گا تو جنت میں داخل ہو گا

روزے رکھے گا تو جنت میں داخل ہو گا

اچھے اخلاق والا ہوگا تو جنت میں داخل ہو گا

والدین کی خدمت کرے گا تو جنت میں داخل ہو گا

بندہ تو ایک ہی ہے ایک ہی بندے کا بار بار ایڈمیشن تو نہیں ہوتا تو پھر یہ کیا بات ہوئی؟

دراصل یہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ کہ جنت میں داخلے کے اوصاف رکھ دیے ہیں کسی ایک میں کمی رہ گئی تو دوسرے کی وجہ سے داخلہ ہو جائے گا