اللہ کی طرف رغبت کرو

 

وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ (الشرح : 8)

اور اپنے رب ہی کی طرف پس رغبت کر۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 56)

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔

رمضان آتا ہے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ……. وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ (ابن ماجہ)

جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے

تو ایک منادی اعلان کرتا ہے :

"اے نیکیوں کے متلاشی! آگے بڑھ، اور اے برائیوں کے متلاشی! ٹھہر جا”

نیک اعمال کے اجر بڑھ گئے ہیں

صرف نیکیوں میں آگے بڑھنے کا ہی اعلان نہیں ہوا بلکہ نیکیوں کے ریٹ بھی بڑھا دیے گئے ہیں

بعض اعمال کا تو نام لے کر بتادیا گیا ہے کہ ان کے اجر بڑھ گئے ہیں

جیسے یہ کہ رمضان میں عمرہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے برابر ہے

رمضان کے روزے باقی دنوں کے روزوں سے افضل ہیں

رمضان کا قیام اللیل عام دنوں کے قیام اللیل سے بہتر ہے

رمضان میں قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے

اور جن اعمال کا نام نہیں لیا گیا ان کے اجر بڑھنے کی طرف عموماً اشارہ کردیا گیا ہے

جیسے یہ کہ رمضان بابرکت مہینہ ہے اور ظاہر ہے یہ برکت سبھی اعمال کو شامل ہے

اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تلاوت اور سخاوت کی رفتار زیادہ کردیا کرتے تھے

نیکی کا موقع ہے کہیں ضائع نہ ہو جائے

یہ رمضان ہے ہماری زندگیوں میں آ چکا ہے نیکیوں کا موسم بہار ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادات اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کا اعلان ہو چکا ہے ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں

خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إِذَا فَتَحَ أَحَدُكُم بَابَ خَيْرٍ، فَلْيُسْرِعْ إِلَيْهِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَتَى يُغْلَقُ عَنْهُ. [سير أعلام النبلاء ٤/٥٤٠ ]

جب تم میں سے کوئی خیر کا دروازہ کھولنے لگے تو اس کی طرف جلدی کرے ، وہ نہیں جانتا کہ کس وقت وہ بند کر دیا جائے گا

فجر کی سنتیں اس لیے لمبی پڑھ رہا ہوں کہ ہمیں موقع ہی اب ملا ہے

شيخ سعد الشثري حفظه الله فرماتے ہیں :

میں نے حرمِ مکی میں ایک شخص کو دیکھا جس نے فجر کی سنتیں خاصی لمبی پڑھیں۔ میں نے سلام کے بعد اسے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ فجر کی سنتیں بہت مختصر پڑھا کرتے تھے۔ وہ شخص مسکرا کر کہنے لگا :

”آپ درست کہتے ہیں، لیکن میں ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں ہم خوف کے باعث سکون سے نماز نہیں پڑھ سکتے، ہمیں ہر وقت اپنا یا اپنے اہلِ خانہ کا ڈر رہتا ہے۔ یہاں آ کر مجھے نماز اطمینان سے پڑھنے کا موقع نصیب ہوا ہے، تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔“

صبح کے موقعے کو شام تک اور شام کے موقعے کو صبح تک مؤخر نہ کرو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

"إِذَا أَمْسَيْتَ فَلا تَنْتَظِرِ الصَّباحَ، وإِذَا أَصْبَحْتَ فَلا تَنْتَظِرِ المَساءَ، وخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لمَرَضِكَ، ومِنْ حياتِك لِمَوتِكَ” (

رواه البخاري)

جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار مت کر

اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار مت کر

اور اپنی صحت سے اپنی بیماری اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لیے تیاری کر

اپنی طاقت کے مطابق جمعہ پڑھنے کی کوشش

امام شافعی کے شاگردِ رشید ابو یعقوب البويطی – رحمهما الله – کو خلقِ قرآن کے فتنے میں جیل میں ڈالا گیا اور جیل ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے بارے میں آتا ہے :

ہر جمعے جب اذان ہوا کرتی تو نہاتے، کپڑے بدلتے اور جیل کے دروازے پر پہنچ جاتے۔ داروغہ انہیں واپس بھیج دیا کرتا۔ آپ فرماتے : ”اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میں نے تیرے داعی کی پکار پر لبیک کہا مگر انہوں نے مجھے روک دیا۔“

(طبقات الفقهاء للشيرازي : ٩٨/١)

نماز باجماعت رہ جاتی تو داڑھی کو پکڑ کر کھینچے اور روتے

محمد بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

” ﺭﺃﻳﺖ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺇﺫﺍ ﻓﺎﺗﺘﻪ ﺍﻟﺼَّﻼﺓ ﻓﻲ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺃﺧﺬ ﺑﻠﺤﻴﺘﻪ ﻭﺑﻜﻰ .” [ ﺍﻟﺤﻠﻴﺔ ‏: ( ٦ / ١٢٦ ) ‏] .

میں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اگر کبھی نماز باجماعت رہ جاتی تو اپنی داڑھی کو پکڑ لیتے اور رونے لگ جاتے

رمضان کے اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھانے کی دعا کریں

"اللَّهُمَّ ارْزُقْني فيه الجِدَّ والاجتِهادَ والقُوَّةَ والنَّشاطَ، وأعِذْني فيه من السَّآمةِ والفَترةِ والكَسَلِ والنُّعاسِ” (الدعاء للطبراني : ٩١٤، إسناده صحيح)

”اے اللہ! اس مہینے میں مجھے (عبادات میں) جد و جہد، قوت اور نشاط عطا فرما، اور بوریت، تھکاوٹ، سستی اور نیند سے پناہ میں رکھ۔“

رب تعالیٰ کو عبادت گزاروں کی کمی نہیں ہے

اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے جو عبادت کا مطالبہ کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مفاد نہیں ہے یہ درحقیقت انسانوں کے ہی فائدہ کے لیے ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے رب تعالیٰ کی رحمت کے مستحق بن جائیں

دنیا جہاں کی ہر چیز حتی کہ ان کے سایے بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ (النحل : 48)

اور کیا انھوں نے اس کو نہیں دیکھا جسے اللہ نے پیدا کیا ہے، جو بھی چیز ہو کہ اس کے سائے دائیں طرف سے اور بائیں طرفوں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں، اس حال میں کہ وہ عاجز ہیں۔

وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (النحل : 49)

اور اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتی ہے جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، کوئی بھی چلنے والا (جانور) ہو اور فرشتے بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

لاتعداد فرشتے ہر وقت رب تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں

کتنی زیادہ تعداد میں فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں اس کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا

هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ (بخاری،3207)

کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔

اور

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنِّي أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيْهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلّٰهِ، وَاللّٰهِ! لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيْلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيْرًا ] [ ترمذي، الزھد: ۲۳۱۲ و صححہ الألباني ]

’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چر چرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر جگہ نہیں مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اس میں اپنی پیشانی اللہ کے لیے سجدے میں رکھے ہوئے ہے۔ قسم ہے اللہ کی! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔‘‘

انسان، اللہ کی عبادت نہ بھی کریں تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے غني

جس کا مطلب ہے بے پرواہ، یعنی اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج اور ضرورت مند نہیں ہے

حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا

(صحيح مسلم |2577)

میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔

عبادت سے اللہ کا نہیں انسان کا فائدہ ہوتا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

” يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ”

(ترمذي ،2466 صحيح

ابن آدم! تومیری عبادت کے لیے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ استغناء وبے نیازی سے بھردوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تومیں تیرا دل مشغولیت سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا’

جنت پانے کے لیے نیک اعمال کی مشکلات میں کودنا لازم ہے

شيخ صالح الفوزان حفظه الله فرماتے ہیں :

الجنّة لا تنال بالكسل والنوم والراحة وإنما تنال بالتعب في الأعمال الصالحة كلمات رمضانية 7-9-1437

جنت سُستی، نیند اور آرام سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ عمل صالح کی مشقت سے حاصل ہوتی ہے۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

{ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا }

امام ابن المبارك رحمه الله فرماتے ہیں:

"من أراد النظر إلى وجه خالقه فليعمل عملا صالحا ولا يخبر به أحدا”.(اللالكائي (٢٣٥/٣).

جو شخص اپنے خالق کے چہرے کا دیدار کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے نیک اعمال کرے اور اور اس کی کسی کو خبر نہ دے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی عبادت کرتے کہ آپ کے قدم مبارک سوجھ جایا کرتے

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ

کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا پنڈلیوں پر ورم آجاتا

جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے :

” أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ". صحيح البخاري، بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ،1130

کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”

صحابہ کا تراویح پڑھنے کا شوق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک) رمضان کی نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔

امابعد! فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا

تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ،

فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ (بخاری 1908)

چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی

لاٹھیوں کا سہارا لے کر قیام کرتے

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں

فرماتے ہیں :

وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ .

(موطأ مالك | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ |302، إسناده صحيح)

اور قاری صاحب سو سو آیات پڑھا کرتے تھے حتی کہ لمبے قیام کی وجہ سے ہم لوگ اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ فجر تک چلتا تھا

صحابہ کا نوافل کی ادائیگی کے لئے ستونوں کے پیچھے بھاگنا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

«لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ المَغْرِبِ» (بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ،503)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ مغرب ( کی اذان ) کے وقت ستونوں کی طرف لپکتے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے زخموں سے خون نکلنے کے باوجود نماز پڑھی

عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر لگا تو میں آپ کے کے پاس گیا صبح کی نماز کا وقت ہوا تو آپ کو نماز کا کہا گیا تو آپ نے فرمایا :

نَعَمْ، وَلَا حَظَّ فِي الْإِسْلَامِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ.

جی ہاں (نماز تو ضرور پڑھوں گا) کیونکہ جس نے نماز چھوڑ دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں

فَصَلَّى عُمَرُ وَجُرْحُهُ يَثْعَبُ دَمًا (موطأ مالك | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ |93)

پھر آپ نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ آپ کے زخموں سے خون نکل رہا تھا

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی اجازت مانگنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

مجھے بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ(ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات(پورا) قرآن پڑھتے ہو؟”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! جی ہاں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

"تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔”

میں نے عرض کی :

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے،تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے،اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے،”

(آخر میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !داود علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔”

فرمایا:

"قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیاکرو۔

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر دس دن میں پڑھ لیاکرو۔

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے،تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے،اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے

مسلم، كِتَابُ الصِّيَامِ،2730

مسجد سے دور ہونے کے باوجود نماز باجماعت نہیں چھوٹتی تھی

ابی بن کعب صلی اللہ سے روایت ہے :

ایک آدمی تھا میں نہیں جانتا کہ کسی اور شخص کا گھر اس سے زیادہ دور ہو، اس سے کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی۔

میں نے اس سے کہا:

اگر تو ایک گدھا خرید لے جس پر تو اندھیرے میں اور گرمی کی شدت میں سوار ہو کر آیا کرے اس نے جواب دیا:

مَا يَسُرُّني أَنَّ مَنْزِلِى إِلى جَنْبِ الْمَسْجِدِ إِنِّى أُرِيدُ أَنْ يُكْتَبَ لِي مَمْشَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَرُجُوعِى إِذَا رَجَعْتُ إِلَى أَهْلِ.

مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میراگھر مسجد کے پہلو میں ہو ( اس لئے کہ ) میں تو یہ چاہتا ہوں کہ (دور سے ) میرا مسجد کی طرف چل کر جانا اور پھر وہاں سے میرا لوٹنا، جب میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹوں، یہ سب کچھ میرے حساب میں لکھا جائے۔

رسول اللہ علیم نے (اس کی یہ بات سن کر ) فرمایا :

"قَدْ جَمَعَ اللهُ لكَ ذلِكَ كُلَّهُ” (مسلم، 663)

اللہ تعالیٰ نے یہ سب تیرے لئے جمع فرما دیا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے

إِنَّ لَكَ مَا احْتَسَبْتَ

بلاشبہ تیرے لئے وہ ثواب ہے جس کا تو نے ارادہ کیا ہے۔

*ابن عباس رضی اللہ عنہ سفر میں بھی قیام اللیل کیا کرتے تھے *

سیدنا ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ نبویہ تک سفر کیا

فكان يقوم نصف الليل فيقرأ القرآن حرفاً حرفاً ، ثم يبكي حتى تسمع له نشيجاً . (مختصر قيام الليل للمروزي ص١٣١)

وہ آدھی رات کو اٹھ کر قیام میں حرف بحرف قرآن کریم کی تلاوت فرماتے پھر روتے حتی کہ انکی سسکیوں کی آواز سنائی دیتی

بڑے عالم کی بڑی عبادت

امام ابراھیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سعید بن جبیر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان جیسا عالم نہیں دیکھا گیا۔

اور امام خصیف رحمہ اللہ کا بیان ھے کہ

امام مجاھد رحمہ اللہ علم قرآن میں

امام عطاء رحمہ اللہ مسائل حج میں

امام طاوس رحمہ اللہ حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔

اور سب کے علوم کو جمع کیا جائے تو امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ ان سے زیادہ علم والے تھے۔

عبداللہ بن مسلم رحمہ اللہ کا بیان ھے جب سعید نماز کیلئے کھڑے ھوتے تو گویا جیسے لکڑی کا ایک تنا ھو۔

قاسم بن ابی ایوب کہتے ہیں راتوں کو قیام اللیل میں کثرت سے رونے کیوجہ سے سعید بن جبیر کی آنکھیں بھینگی ہو گئ تھیں۔ (سیر اعلام التابعین ص ٦٢)

بڑھاپے کے باوجود قیام میں ایک ہزار آیات تلاوت کرتے

عظیم تابعی ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ اپنی موت سے دو سال قبل کافی کمزور ہو گئے وہ کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتے تھے انہیں پکڑ کر کھڑا کیا جاتا جب وہ مکمل کھڑے ہو جاتے تو قیام کی حالت میں ایک ہزار آیت کی تلاوت فرماتے

– سير أعلام النبلاء ( ٣٩٧/٥) –

روزہ رکھ کر کپڑا بیچتے

‏صام داوود بن أبي هند أربعين سنة

"لا يعلم به أهله”

كان خزازاً يحمل معه غداءه

فيتصدق به في الطريق.

سير أعلام النبلاء(6/378)

امام داوود بن هند رحمه الله نے چالیس سال روزے رکھے جس سے انکے اہل خانہ بھی لا علم تھے وہ کپڑا فروش تھے دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ اٹھا لیتے جسے وہ راستے میں صدقہ کر دیتے

جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے کسی نماز کا وقت اس حالت میں نہیں آیا کہ میں نے وضو نہ کررکھا ہو

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَا أُقِيِّمَتِ الصَّلَوةُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا وَأَنَا عَلَى وُضُوه]

الاصابہ (۳۸۸/۴) حضرت عدی بن حاتم

” جب سے میں اسلام لا یا ہر نماز کے وقت باوضور رہتا تھا“۔

صرف اس دن تکبیر اولی فوت ہوئی تھی جس دن میری والدہ کی وفات ہوئی تھی

محمد بن سماعۃ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :

مكثت أربعين سنة لم تفتني التكبيرة الأولى إلا يوم ماتت أمي.

– سير أعلام النبلاء (١٠/٤٦٤) –

چالیس برس میری تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی سواے ایک دن جس میں میری ماں کا انتقال ہوا!

چالیس سال گزر گئے کہ وہ زوال کے وقت مسجد میں موجود ہوتے

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے بارے فرماتے ہیں:

إنه لم يفته الزوال في المسجد أربعين سنة

[السير 9/181]‎

چالیس سال میں کوئی وقت زوال ایسا نہیں تھا جس میں وہ مسجد میں موجود نہ ہوں

چالیس سالوں سے نماز باجماعت نہ چھوٹی

سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

” ﻣﺎ ﻓﺎﺗﺘﻨﻲ ﺍﻟﺼَّﻼﺓ ﻓﻲ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻣﻨﺬ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ .”

مجھ سے چالیس سالوں سے نماز باجماعت نہیں چھوٹی

اور فرماتے ہیں :

” ﻣﺎ ﺃﺫﻥ ﺍﻟﻤﺆﺫﻥ ﻣﻨﺬ ﺛﻼﺛﻴﻦ ﺳﻨﺔ ﺇﻻ ﻭﺃﻧﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ .”

[ ﺍﻟﺴﻴﺮ ‏: ( ٤ / ٢٢١ ) ‏]

تیس سال گزر گئے ہیں جب بھی آذان ہوتی ہے میں مسجد میں ہوتا ہوں

پچاس سال تک تکبیر اولی قضاء نہیں ہوئی

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ کم و بیش پچاس سال تک حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی تکبیر اولی قضاء نہیں ہوئی

الاعتصام 21 جون 1985

حضرت امام گوندلوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ذوقِ عبادت کی دولت سے خوب خوب نوازا تھا ۔آپ کی روحانی کیفیت بڑی بلند تھی۔ نماز کا وقت قریب آتا تو آپ بے چین ہو جاتے۔ ہمیشہ اذان سے ذرا پہلے مصلی پر جا کر بیٹھ جاتے۔ تکبیر اولی کے فوت ہونے کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔

(مقالات مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ :393)

نیکیوں میں آگے بڑھو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (المائدہ :48)

پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو

جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے دوڑو

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران : 133)

اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

اور فرمایا :

سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد : 21)

اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے، وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

آگے بڑھنے والے ہی اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں

فرمایا :

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (الواقعة : 10)

اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔

أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ (الواقعة : 11)

یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں۔

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (الواقعة : 12)

نعمت کے باغوں میں۔

جیسا ہدف ویسی رفتار

طلبِ رزق کے لیے فرمایا :

فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ (الملك : 15)

سو اس کے کندھوں پر چلو اور اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ

نماز کے لیے فرمایا :

فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (الجمعة : 09)

اللہ کے ذکر کی طرف لپکو

جنت کے لیے فرمایا :

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ

اور خود اپنے لیے فرمایا :

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ()

پس دوڑو اللہ کی طرف

لغت سے ذوق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ عام چال کو "مشی” کہا جاتا ہے

تھوڑی رفتار تیز ہوجائے جیسا کہ صفا و مروہ کے درمیان ہوتی ہے تو اسے "سعي” کہتے ہیں

اور اس سے بھی تیز ہوجائے تو اسے "سرعۃ” کہتے ہیں

اور اس سے بھی تیز رفتار ہو تو اسے "فرار” سے تعبیر کیا جاتا ہے

اگر آپ یہ کرسکیں کہ کوئی بھی آپ سے آگے نہ نکلے تو ضرور کریں

وہیب بن ورد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إن استطعـــت ألا يسبقك الى الله أحـــد فافعل (لطائف المعارف ص 244)

اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتے ہوئے کوئی شخص آپ سے آگے نہ نکلے تو یہ کام کر گزریں

سال گزرنے سے پہلے ہی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہوں

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

سَأَلَ عَبَّاسُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِل فَرَخْصَ لَهُ فِي ذَلِكَ 0سنن أبي داود | كِتَابُ الزَّكَاةِ | 1624)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سال گزرنے سے قبل زکوۃ ادا کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کو رخصت دے دی

اے اللہ! میں جلدی اس لیے آیا ہوں تاکہ تو میرے ساتھ راضی ہو جائے

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور موسیٰ علیہ السلام سے طور کی دائیں جانب میں آنا اور موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عطا کرنا طے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کے ساتھ آنے کے بجائے ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرکے انھیں طور کی طرف سفر جاری رکھنے کا حکم دیا اور خود اپنے رب سے کلام اور ملاقات کے شوق میں نہایت تیزی کے ساتھ وعدے کے مقام پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مناجات اور تورات عطا کرنے کے بعد پوچھا:

وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَى (طه : 83)

اور تجھے تیری قوم سے جلد کیا چیزلے آئی اے موسیٰ!؟

تو موسی علیہ السلام نے کہا:

قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى (طه : 84)

کہا وہ یہ میرے نشان قدم پر ہیں اور میں تیری طرف جلدی آگیا اے میرے رب! تاکہ تو خوش ہو جائے۔

آذان سے پہلے کیوں وضو کر رہی ہو

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

میں نے ایک بڑھیا کو دیکھا جو ظہر سے چند منٹ پہلے وضو کر رہی تھی میں نے اس سے پوچھا کیا اذان ہو گئی ہے ؟

تو اس نے کہا :

أنا أذهب إلى اللہ قبل أن ینادینی (التبصرۃ 131)

میں اپنے رب کی طرف اس کے بلانے سے پہلے جانا چاہتی ہوں

نماز کا احترام یہ ہے کہ اقامت سے پہلے نماز کے لیے پہنچا جائے

سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں :

إن من توقیر الصلوۃ أن تأتي قبل الإقامة (صفة الصفوة 235/2)

نماز کی تعظیم یہ ہے کہ آپ اقامت سے پہلے آئیں

جنت میں قدموں کی آواز کیوں سنائی دی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا

(( يَا بِلاَلُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الإِسْلاَمِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الجَنَّةِ ))

اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا، فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ (بخاری ،كِتَابُ التَّهَجُّدِ،1149)

میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی

میں نے کبھی بھی وہ رکعتیں نہیں چھوڑیں

ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیم سے سنا آپ فرمارہے تھے :

مَنْ صَلَّى اثْنَتي عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِي لَهُ بِهِنَّ بَيْتُ فِي الْجَنَّةِ.]

” جو ایک دن اور رات میں بارہ رکعتیں ( چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد ، دو مغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعد اور دو رکعتیں نماز فجر سے پہلے ) ادا کرے اس کے لیے جنت میں ایک محل بنادیا جاتا ہے“

ام حبیبہ کا فرماتی ہیں:

[ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ ] (صحيح مسلم ،728)

” جب سے میں نے یہ حدیث رسول اللہ سے سنی تب سے اب تک میں نے

(راوی حدیث ) حضرت عنبسہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب سے میں نے یہ حدیث ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے سنی تب سے میں نے بھی یہ سنتیں نہیں چھوڑیں

عمرو بن اوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حضرت عنبسہ رحمہ اللہ سے یہ حدیث سنی ہے تب سے میں نے بھی یہ سنتیں نہیں چھوڑیں۔

نعمان بن سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سے ہم نے عمرو بن اوس سے سنا ہے تب سے میں نے بھی یہ سنتیں نہیں چھوڑ ہیں ۔

جنگ کی رات بھی وظیفہ نہیں چھوڑا

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور آپ سے ایک خادم مانگا تھا

تو آپ نے فرمایا:

«أَلاَ أُخْبِرُكِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْهُ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ عِنْدَ مَنَامِكِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ»

کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہو ۔ سوتے وقت تینتیس ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس ( 33 ) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس ( 34 ) مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا :

فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ

کہ پھر میں نے ان کلموں کو کبھی نہیں چھوڑا ۔

ان سے پوچھا گیا جنگ صفین کی راتوں میں بھی نہیں؟

کہا :

وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ (بخاری، كِتَابُ النَّفَقَاتِ،بَابُ خَادِمِ المَرْأَةِ5362)

کہ صفین کی راتوں میں بھی نہیں

میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔

حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں :

ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا :

اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا ، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ اور تسبیح اللہ ہی کے لیے ہے صبح و شام

رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :

فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے ؟

لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللہ کےرسول ! میں ہوں آپ ﷺ نے فرمایا:

«عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ»

مجھے ان پر بہت حیرت ہوئی ، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔

ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا :

«فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ» (صحيح مسلم: ١٣٥٨)

میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی، اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔