امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو

=============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا [النساء : 58]

بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا اللہ تمھیں یہ بہت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

اور فرماتے ہیں

فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ [البقرة : 283]

تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ادا کرے

امانتوں کی پاسداری، کامیاب مومنین کا وصف ہے

فرمایا :

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ [المؤمنون : 8]

اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔

ایک قلم کی امانت

"عبدالله ابن مبارک(رحمه اللّٰه) نے شام میں ایک شخص سے قلم مستعار لیا ۔ واپس لوٹانا بھول گئے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا ۔ "مرو” پہنچے تو یاد آیا کہ قلم لوٹانا بھول چکا ہوں ۔ وہیں سے واپس ہو لئے(تقریبا 1881 کلومیٹر) اور شام جا کر قلم لوٹایا ۔” (سیر اعلام النبلاء للذھبي رحمه اللّٰه : ٣٧٤/٧)

امانت پہچانے کی حیرت انگیز کوشش

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہوجائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہوکر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کروہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں [بخاري كِتَابُ الزَّكَاةِ، 1498]

امانت داری کی انتہا دیکھیں کہ کوئی سونا لینے کو تیار نہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ، ایک شخص نےدوسرے شخص سےمکان خریدا اورمکان کےخریدار کواس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سےوہ مکان اس نےخریدا تھا، اس سے اس نے کہا :

خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ

بھائی گھڑا لےجاؤ۔ کیونکہ میں نےتم سے گھر خریدا ہےسونا نہیں خریدا تھا

لیکن پہلے مالک نےکہا :

إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا [بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ : 3472]

کہ میں نےگھر کوان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جواس کے اندر موجودہوں ۔

یہ دونوں ایک تیسرے شخص کےپاس اپنامقدمہ لےگئے ۔ فیصلہ کرنےوالے نےان سےپوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہاکہ میرا ایک لڑکا ہے اوردوسرے نےکہا میری ایک لڑکی ہے۔فیصلہ کرنے والے نےان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سےنکاح کردو سونا انہیں پرخرچ کردو اورخیرات بھی کردو

ابو زید اعجاز شہید رحمہ اللہ کی امانت داری

ہمارا ایک بھائی مقبوضہ وادی میں غاصب فوج کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوگیا اللہ تعالیٰ بھائی کی شہادت قبول فرمائے ابو زید اعجاز شہید رحمہ اللہ ان کا نام تھا ایک دفعہ سفر میں تھے گاڑی میں سوار ہوئے جہاں پہنچنا تھا وہاں تک جتنا کرایہ بنتا تھا اس سے کم پیسے جیب میں تھے تو جب اتنا سفر طے کر لیا کہ جتنے پیسے جیب میں تھے تو نیچے اتر گئے اور باقی ماندہ 5، 7 کلومیٹر سفر پیدل طے کیا

بھائیوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ہے اگلا 5، 7 کلومیٹر سفر رہ گیا تھا گاڑی والوں سے بات کرلیتا تو انہوں نے ویسے ہی مان جانا تھا

کہنے لگے جتنے پیسے تھے اتنا سفر کرلیا تھا مزید سفر کرکے گاڑی کے مالک کے مال میں خیانت نہیں کرسکتا تھا

جو آپ سے خیانت کرے، آپ اس کے ساتھ بھی امانت داری کریں

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ [ابوداؤد ،کِتَابُ الْإِجَارَةِ :3535]

” جو تجھے امین بنائے ، تو اس کی امانت اسے ادا کر دے اور جو تیری خیانت کرے ، تو اس کی خیانت نہ کر ۔ “

امام احمد اور حاکم وقت سے امانت داری کی اعلیٰ مثال

ابو عبداللہ السلمی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے لکھتے ہیں کہ انہیں عمارہ بن حمزہ کے گھر نظر بند کردیا گیا تو گھر والوں نے بیڑیاں کھلی ہونے کی وجہ سے ان کے پاؤں سے اتار دیں اور لوگوں نے امام صاحب سے کہا کہ نکل جاؤ، کہیں گم، چھپ جاؤ

کہنے لگے اگر ہمیں بیڑیوں کے بغیر ہی قید کیا ہوتا تو بھی ہم حاکم کی اجازت کے بغیر نہ نکلتے

(السنہ لعبد اللہ بن أحمد بن حنبل رحمہ اللہ )

انبیاء کرام علیہم السلام اور امانت داری

امانت داری کا وصف تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں نظر آتا ہے

خدیجہ رضی اللہ عنھا کا مال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت

جس طرح آج ہمارے خدمت والے بھائی، لوگوں کا مال لے کر متاثرہ علاقوں کی طرف جا رہے ہیں

اسی طرح

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،خدیجہ رضی اللہ عنھا کا مال لے کر تجارت کی غرض سے نکلے تو ایسی شاندار امانت و دیانت کا مظاہرہ کیا کہ

خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی کا سبب بن گیا

خدیجہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مثالی کردار سے متاثر ہو کر پیغام بھیجا اور فرمایا :

انی قد رغبت فیک لقرابتک وسطتک فی قومک وامانتک وحسن خلقک وصدق حدیثک

[ابن ھشام 189/1]

مجھے چند باتوں کی وجہ سے آپ سے (نکاح میں) رغبت ہے

1 اس لیے کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں

2 اور آپ اپنی قوم میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں

3 اور آپ امانت دار ہیں

4 اور آپ کا اخلاق بہت اچھا ہے

5 اور آپ سچ بات کہتے ہیں

قاتلوں کی امانتوں کی فکر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے امانت دار تھے کہ مکے کے لوگ آپ کو صادق و امین کہا کرتے تھے

اور جس رات آپ نے ہجرت کی، اس رات حالت یہ تھی کہ جن لوگوں نے گھر سے باہر آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور آپ کو شہید کرنے کا پکا پروگرام بنائے بیٹھے تھے، آپ گھر کے اندر انہی لوگوں کی امانتوں کے بارے پریشان ہورہے تھے وہ واپس کیسے کرنی ہیں

بالآخر ساری امانتیں علی رضی اللہ عنہ کو پکڑا کر اور ان کے مالکوں تک واپس کرنے کی ڈیوٹی لگا کر خود ہجرت کی راہوں پہ چل نکلے (السیرۃ النبویہ لابن ھشام 485/1)

ہرقل کے سامنے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی گواہی

ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہرقل نے مجھے پوچھا تھا کہ وہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں، جب میں نے وہ باتیں بتائیں تو کہنے لگا :

فَزَعَمْتَ: «أَنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصِّدْقِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ»، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ [بخاری ،كِتَابُ الشَّهَادَاتِ: 2681]

تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز ، سچائی ، عفت ، عہد کے پورا کرنے اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ تو (سن لو کہ) یہ نبی کی صفات ہیں

صدقے کی ایک کھجور اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری

خدمت کمیٹیوں والے بھائی راشن پیک تیار کرتے وقت اس حدیث کو ضرور سامنے رکھیں

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي ثُمَّ أَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً فَأُلْقِيهَا [مسلم’ كِتَابُ الزَّكَاةِ :2476]

میں اپنے گھر لوٹتا ہوں اور اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہو ئی پا تا ہوں میں اسے کھا نے کے لیے اٹھا تا ہوں پھر ڈرتا ہوں کہ یہ صدقہ نہ ہو تو اسے پھینک دیتا ہوں

نوح علیہ السلام کی امانت داری

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 106]

جب ان سے ان کے بھائی نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 107]

بے شک میں تمھارے لیے  ایک امانت دار رسول ہوں۔

ھود علیہ السلام کی امانت داری

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 124]

جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 125]

بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

صالح علیہ السلام کی امانت داری

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 142]

جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 143]

بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

لوط علیہ السلام کی امانت داری

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 161]

جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 162]

بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

شعیب علیہ السلام کی امانت داری

إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 177]

جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 178]

بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

موسی علیہ السلام کی امانت داری

أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الدخان : 18]

یہ کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

اجتماعی مال، راشن، کپڑے اور پیسوں پر مقرر امانت دار خزانچی کا انعام

سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے

الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ [ابوداؤد ،كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ : 2936]

” حق کے ساتھ صدقات جمع کرنے والا ایسے ہے جیسے کہ مجاہد فی سبیل اللہ حتیٰ کہ وہ گھر لوٹ آئے ۔“

متاثرین کے نام پر اکٹھا کیا ہوا مال اگر پوری امانت داری سے تقسیم کریں گے تو تقسیم کرنے والوں کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملتا ہے

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ [بخاری ،كِتَابُ الإِجَارَةِ 2060]

امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔

اپنے عہدے اور ذمہ داری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی سزا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا [الإسراء : 34]

اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: ” هَدَايَا الْعُمَّالِ غُلُولٌ ” (حم) 23649 ، وصححه الألباني في الإرواء: 2622، وصَحِيحِ الْجَامِع

اپنی تنظیم یا متعلقہ ادارے سے تنخواہ لینے کے بعد (ناجائز طریقے سے) مزید پیسے رکھنا حرام ہیں

سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

مَنْ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ [ابوداؤد ،كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ:2943]

” جسے ہم کسی کام پر متعین کریں اور اسے اس پر تنخواہ بھی دیں ، تو جو وہ اس سے مزید لے گا وہ خیانت ہو گی ۔“

اس کا مطلب ہے کہ جسے ہم کسی ڈیوٹی پر مقرر کریں اور اسکی تنخواہ بھی لگائیں پھر وہ اپنی ڈیوٹی یا عہدے کی بنیاد پر لوگوں کی کسی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت یا کرپشن وغیرہ کی صورت میں تنخواہ کے علاوہ مزید پیسے بٹورے گا تو خائن کہلائے گا

زکوٰۃ و صدقات، پر مقرر ایک عامل کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن الاتیہ کو بنی سلیم کے صدقہ کی وصولیابی کے لیے عامل بنا یا ۔ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( وصولیابی کر کے ) آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب طلب فرمایا تو انہوں نے کہا یہ تو آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھے رہے ‘ اگر تم سچے ہو تو وہاں بھی تمہارے پاس ہدیہ آتا ۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا ۔ آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا ۔ اما بعد ! میں کچھ لوگوں کو بعض ان کاموں کے لیے عامل بنا تا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں ‘ پھر تم میں سے کوئی ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا رہا تا کہ وہیں اس کا ہدیہ پہنچ جاتا ۔ پس خدا کا قسم تم میں سے کوئی اگر اس مال میں سے کوئی چیز لے گا ۔ ہشام نے آگے کا مضمون اس طرح بیان کیا کہ بلا حق کے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس طرح لائے گا کہ وہ اس کو اٹھائے ہوئے ہوگا ۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں اسے پہچان لوں گا جو اللہ کے پاس وہ شخص لے کر آئے گا ۔ اونٹ جو آواز نکال رہا ہوگا یا گائے جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی ۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی اور فرمایا کیا میں نے پہنچادیا۔ (بخاري، كِتَابُ الأَحْكَامِ،7197)

مسلمانوں کے کسی بھی اجتماعی کام کی ذمہ داری ایک امانت ہے جس کے متعلق پوچھا جائے گا

حضرت ابوذر رضی اللہ بیان کرتے ہیں میں نےعرض کی:

اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟

آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:

يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا [مسلم،كِتَابُ الْإِمَارَةِ :4719]

"ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔ (وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا

قیامت کے دن یہ ذمہ داری شرمندگی اور رسوائی کا باعث تب بنے گی اگر اسے ناجائز استعمال کیا جائے مثال کے طور پر جج یا پولیس افسران اپنے عہدے کے بل بوتے پر چوروں کا ساتھ دیں تو یہ رسوائی ہے

فرمایا

وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا [النساء : 105]

اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ

[بخاري ،كِتَابُ الْإِيمَانِ :363]

کوئی ایسا بندہ جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے ۔‘‘

بکریوں کے نگران چرواہے کی امانت داری

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا

اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو

اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے

اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے

اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں

اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے

چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا

فأين الله ؟؟؟

تو پھر اللہ کہاں ہے

(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)

اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے

فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟

اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے

پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں

[ صفة الصفوة (١٨٨/٢) شعب الإيمان للبیھقی 5291 مختصر العلو للألباني وسندہ حسن ]

چرواہے کے واقعہ سے حاصل ہونے والا سبق

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح اس چرواہے کے پاس وہ بکریاں امانت تھیں

بالکل اسی طرح متاثرین کے لیے اکٹھا ہونے والا فنڈ، کپڑے، جوتے ،پیسے،راشن الغرض جو بھی اکٹھا ہو، وہ سب ہمارے پاس متاثرین کی امانت ہے

اگر کبھی اس مال میں خرد برد یا کرپشن کرنے کو دل چاہے تو فوراً یہ کہہ کر جھٹک دیں کہ این اللہ اللہ کہاں ہے

اور قرآن کی یہ آیت پڑھیں

أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى [العلق : 14]

تو کیا اس نے یہ نہ جانا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

خیانت کرنے والوں کی مذمت

اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی زہن میں رکھیں کہ خیانت کرنے والوں کا، اللہ تعالیٰ کے ہاں کتنا برا مقام ہے

فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [الأنفال : 27]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جب کہ تم جانتے ہو۔

خائن، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں

فرمایا

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ [الأنفال : 58]

بے شک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

خائن، منافق ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ  [بخاري ،كِتَابُ الإِيمَانِ:33]

منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے

کرپشن کرنے والا، ایمان سے خالی ہوتا ہے

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کم ہی کوئی خطبہ دیا مگر اس میں فرمایا :

[ لاَ اِيْمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَةَ لَهُ وَلاَ دِيْنَ لِمَنْ لاَّ عَهْدَ لَهُ ] [ أحمد : 135/3، ح : ۱۲۳۸۳، و حسنہ شعیب الأرنؤوط ۔ ابن حبان : ۱۹۴ ]

’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس کی کوئی امانت نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس کا کوئی عہد نہیں۔‘‘

شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ کی امانت داری

آپ کے زہد و ورع کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی تدریس یا امامت سے غیر حاضر رہتے، اپنی غیر حاضری کی مقدار کا حساب لگاتے اور پھر اس کے بقدر تنخواہ گھٹا دیتے، چاہے غیر حاضری کنتی ہی مختصر کیوں نہ ہو اس کا معاوضہ ہر گز قبول نہ کرتے، حتی کہ اگر کبھی سعودی کبار علماء کونسل کی میٹنگوں میں شرکت کے لئے غیر حاضر ہونا پڑتا تو بھی جتنے لیکچرز چھوٹتے تھے ان کی تنخوہیں مدیر الجامعہ یا عمید الكليہ کو لوٹا دیتے تھے۔

اور جب بھی معہد (المعهد العلمي بعنيزة) میں ڈیوٹی کے اوقات میں چند منٹ تاخیر سے پہنچتے، اس تاخیر کو حاضری رجسٹر میں درج کر لیتے اور اس کے سامنے "بغير عذر” لکھ دیتے یعنی کہ یہ تاخیر بلا کسی ایسے عذر کے ہوئی ہے جس کا تعلق معہد کے امور سے ہو۔

عجیب بات یہ ہے آپ جب بھی اپنے قلم میں "معہد” یا "جامعہ” کا انک ڈال کر استعمال کرتے گھر جانے کے وقت اسے انڈیل کر دوبارہ دوات میں رکھ دیتے اور فرماتے یہ "معہد” کی روشنائی ہے ہمارے لئے باہر اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے

رزق حلال سے پرورش پائی

امام بخاری کے وراق ابو جعفر محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں امام صاحب کے والد کی وفات کے وقت ان کے قریب تھا کہ وہ کہہ رہے تھے میں نے ایک درھم حرام تو کیا شبے کا بھی اپنے اور اپنی اولاد کے پیٹ میں داخل نہیں کیا

ذمہ داری سونپنے کے لیے ڈگری سے زیادہ امانت داری ضروری ہے

سب سے بہتر شخص جسے اجرت، نوکری یا کسی عہدے پر رکھا جائے وہ ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو۔ یہ ہے وہ قاعدہ جو کسی شخص کو ذمہ داری دیتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت میں یہ دونوں صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر کام کی اہلیت اور قوت رکھتا ہے تو امانت میں کمزور ہے اور اگر امین ہے تو قوت و اہلیت نہیں رکھتا۔ آج کل حکومتیں کسی عہدے پر مقرر کرنے سے پہلے امتحانات اور انٹرویو کے ذریعے سے اہلیت کا اندازہ تو کرتی ہیں مگر امانت کا نہیں، نتیجہ بے حساب بد دیانتی اور خیانت ہے، جس نے مسلمان ملکوں کی معیشت اور معاشرت دونوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

عفریت نے نوکری حاصل کرنے کے لیے اپنی ڈگری یا صلاحیت کے ساتھ ساتھ امانت داری کا حوالہ دیا

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ [النمل : 39]

جنوں میں سے ایک طاقت ور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقینا پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔

یوسف علیہ السلام نے وزیر خزانہ بننے کے لیے اپنی مہارت کے ساتھ ساتھ امانت داری کا حوالہ دیا

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ [يوسف : 55]

اس نے کہا مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دے، بے شک میں پوری طرح حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔

ایک عورت نے موسیٰ علیہ السلام کی ڈیوٹی کی سفارش کی تو ان کی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کی امانت داری کا حوالہ دیا

قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [القصص : 26]

دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کی کامیاب ذمہ داری بیان کرتے ہوئے ان کی امانت داری کا حوالہ دیا

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [الشعراء : 193]

جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [التكوير : 19]

بے شک یہ یقینا ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کاقول ہے جو بہت معزز ہے۔

ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [التكوير : 20]

بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔

مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [التكوير : 21]

وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔

صلاحیت اور امانت داری کے امتزاج کا رزلٹ

اگر مختلف عہدوں اور ڈیوٹیوں پر فائز کرتے وقت، عہدے کے مطابق قابلیت، ڈگریز، کے ساتھ ساتھ اسناد کی سی وی میں امانت داری بھی لازمی قرار دی جائے تو صداقت و امامت کے بے شمار مناظر دیکھنے کو ملیں

گوندلوی صاحب کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کیا کرتے تھے

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ، اپنے استاد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ وقت کے اتنے پابند تھے کہ روزانہ سائیکل پر اپنے گھر سے مدرسہ میں آتے جاتے تو آپ کی مستقل روٹین اور وقت کی پابندی، اس قدر تھی کہ انہیں دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم ٹھیک کرلیا کرتے تھے

استاد جی چھتوی صاحب رحمہ اللہ کی روٹین

استاد محترم عتیق اللہ سلفی صاحب حفظہ اللہ استاد جی چھتوی صاحب کی وفات پر فرمارھے تھے کہ انھوں نے بائیس سال ستیانہ میں دوران تدریس ایک بھی چھٹی نہ کی (حتی کہ ایک دن ایسا بھی ہوا کہ آن جناب کی بیٹی فوت ہو گئی میت کی تجہیز کی وجہ سے جنازہ میں ابھی وقت باقی تھا تو فارغ وقت میں جامعہ آ کر پیریڈ پڑھانے لگے)