امت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار

 

قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (توبة : 128)

بلاشبہ یقینا تمھارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔

01.میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (ابو داؤد ٨)

یقیناً میں تمہارے لیے باپ کی جگہ پر ہوں اور تمہیں سکھاتا ہوں

02.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لیے بہت رحم کرنے والے ہیں

فرمانِ باری تعالی ہے:

{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} [الفتح : 29]

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت رحمدل ہیں

اللہ تعالی نے آپکو ساری مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء : 107

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے۔

اللہ تعالی نے آپکو مؤمنین کیلئے خصوصی طور پر رحمت بنا کر ارسال کیا ہے:

{وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ} [التوبة : 61]

اور آپ مؤمنوں کیلئے رحمت ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے لیے انتہائی نرم دل ہیں

فرمایا

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ (آل عمران : 159)

پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے

03.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ہوا دین بھی بہت آسان دین ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایسا دین لائے جس میں کوئی مشکل نہیں، نہایت آسان اور سادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اِنِّيْ اُرْسِلْتُ بِحَنِيْفِيَّةٍ سَمْحَةٍ ] [ أحمد : 116/6، ح : ۲۴۹۰۸، عن عائشۃرضی اللہ عنھا ، قال شعیب الأرنؤوط وغیرہ حدیث قوی، إسنادہ حسن ]

’’مجھے حنیفی (ابراہیم حنیف والی) آسان شریعت دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ أَحَبُّ الدِّيْنِ إِلَی اللّٰهِ الْحَنِيْفِيَّةُ السَّمْحَةُ ][ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر، قبل ح : ۳۹، تعلیقًا ]

’’اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب آسان حنیفی دین ہے۔‘‘

اور فرمایا :

[ اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ ] [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ۳۹ ]

’’دین آسان ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث ہے :

[ لاَ ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ] [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۵۰ ]

یعنی نہ ابتداءً نقصان پہنچانا جائز ہے نہ بدلے میں نقصان پہنچانا

04.مسواک کی مشقت کے ڈر سے مسواک کا حکم نہ دیا *

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ (بخاری 887)

اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا

لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ (بخاری و مسلم)

05.معراج کے موقع پر امت کی بہترین سفارت کاری

معراج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب اللہ تعالیٰ سے پچاس نمازوں کا حکم لے کر آرہے تھے تو موسی علیہ السلام نے فرمایا

(ان امتک لا تطیق)

آپ کی امت پچاس نمازیں ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھ پائے گی

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم امت کی آسانی کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں اور بالآخر نمازیں پچاس سے پانچ باقی رہ گئیں

قاضی سلمان منصور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالِ عبودیت اور وفورِ شوقِ عبادت کے سامنے تو پچاس نمازوں کی کثرت بھی کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی

(اس لیے) اگر موسی علیہ السلام (ان امتک لا تطیق) کے فقرے کا استعمال نہ فرماتے اور حضور کو کسی اور دلیل سے التماس تخفیف پر مائل کرنا چاہتے تو وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکتے

رحمۃ للعالمین از قاضی سلمان رحمہ اللہ ج3، ص76

06.نماز عشاءکی تاخیر کی مشقت سے امت کو بچا لیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ ( مسجد ہی میں ) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے ‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا ”نماز“

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا

فَقَالَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا هَكَذَا (بخاری)

اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔

ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا (بخاری)

07.آپ کمزور اور ضعیف لوگوں کی وجہ سے لمبی نماز پڑھانے سے اجتناب کرتے تھے

بسا اوقات آپ نماز صرف اس لیے مختصر پڑھاتے تھے کہ ماں اور بچے کو مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:

إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ (بخاری) میں نماز شروع کرتے وقت لمبی نماز کا ارادہ کرتا ہوں، لیکن بچوں کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر کر لیتا ہوں، کیونکہ مجھے علم ہے کہ اس کی ماں بچے کے رونے کی وجہ سے شدید پریشان ہوتی ہے)

آپ نے فرمایا

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ مِنْهُمْ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ (بخاري 671)

جب تم میں سے کوئی، لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ لوگوں میں کمزور، بیمار اور بوڑھے سبھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے

08.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے امت پر فرضیت کے ڈر سے تراویح کی جماعت چھوڑ دی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔

امابعد! فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا

تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ،

فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ (بخاری 1908)

چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی

09.آپ نے امت کی پریشانی دیکھ کر روزہ افطار کردیا

ایک جہادی سفر میں جب دیکھا کہ لوگ روزے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہیں تو سب کے سامنے کھڑے ہو کر روزہ کھول دیا تاکہ لوگ پریشان نہ ہوں (بخاری)

10.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک سوال کا جواب محض اس لیے نہ دیا کہ کہیں مسئولہ چیز امت پر فرض نہ ہو جائے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا اورفرمایا :

أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا

لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہذا حج کرو۔

فَقَالَ رَجُلٌ أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا

ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا ہر سال حج کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، حتی کہ صحابی نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ (مسلم 1337)

تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم یہ نہ کرسکتے ۔ پھر فرمایا: جو چیز میں تم کو بتانا چھوڑ دوں اس بارے میں تم بھی مجھ سے سوال نہ کیا کرو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے زیادہ سوال کرنے اور ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے، لہذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو رک جاو (سوال جواب مت کیا کرو)۔

11.امت پر آسانی کرتے ہوئے طواف کے سب پھیروں میں تیز دوڑنے کا حکم نہ دیا

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا

قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ وَقَدْ وَهَنَهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ (بخاری ،كِتَابُ الحَجِّ،بَابٌ: كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الرَّمَلِ،1602)

کہ ( عمرۃ القضاء ھ میں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ ) تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب ( مدینہ منورہ ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل ( تیز چلنا جس سے اظہار قوت ہو ) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں اس لیے کہ ان پر آسانی ہو۔

12.بسا اوقات صرف اس لیے جہاد پر نہ جاتے کہ میرے نکلنے کی وجہ سے میرے فدائیین پریشان ہونگے

فرمایا

وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ (بخاري)

اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی جہادی قافلے سے پیچھے نہ رہتا میں تو چاہتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ (مسلم)

13.ہر روز وعظ نہ کرتے مبادا لوگ اکتاہٹ میں پڑ جائیں

حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت فرمایا کریں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور میں پندونصیحت میں تمہارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں

كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا (صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ)

جس طرح نبی ﷺ وعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تاکہ ہم اُکتا نہ جائیں۔

حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وعظ و نصیحت کے شیڈول کے متعلق فرمایا:

«يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ، كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» (صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ)

نبی ﷺ ہمارے اُکتا جانے کے اندیشے سے ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع و محل کا خیال رکھتے تھے۔

14.آپ نے امت کو نقصان سے بچانے کے لیے برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے منع کر دیا

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر، 3722)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔

” ثلمة ” سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے

مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو،

اس میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں

اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہو گی

وہاں سے مشروب نکل کر چہرے اور کپڑوں پر گرے گاجو کہ تکلیف اور اذیت کا سبب بنے گا

ٹوٹی ہوئی جگہ سے برتن کی دھلائی اچھی طرح سے نہیں ہو پاتی اور اسکا پانی وغیرہ صاف نہیں رہتا،اور وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی وصفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے،

ٹوٹی ہوئی جگہ سے مشروب پیتے وقت چوٹ بھی لگ سکتی ہے

ٹوٹی ہوئی جگہ سے کوئی کچرا یا برتن کا ذرہ پیٹ میں داخل ہو سکتا ہے

15.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دفاع امت کے لیے راتوں کو اٹھ پہرہ دیا کرتے

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ(بخاری 2908

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔

16.آسمان پر آندھی اور بادل دیکھ کر امت کے لیے پریشان ہو جاتے

جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے۔ رسول کریم کے چہرہ میں غم و فکر کے آثار نمایاں ہوتے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالتِ غم جاتی رہتی۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے آپ سے اِس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا

إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلَى أُمَّتِي

کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا (قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری اُمّت پر مسلط کیا گیا ہو۔ (صحیح مسلم کتاب صلوة الاستسقاء )

17.امت کے لیے تین دعائیں

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي

أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا

وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا

وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا(مسلم 2890)

میں نے اپنے رب سے تین ( چیزیں ) مانگیں ۔ اس نے دو مجھے عطا فرمادیں اور ایک مجھ سے روک لی ۔ میں نے اپنے رب سے یہ مانگا کہ وہ میری ( پوری ) امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرے تو اس نے مجھے یہ چیز عطا فرمادی اور میں نے اس سے مانگا کہ وہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے تو اس نے یہ ( بھی ) مجھے عطافرمادی اور میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ ان کی آپس میں جنگ نہ ہو تو اس نے یہ ( بات ) مجھ سے روک لی

18.حکمرانوں کو نصیحت کرتے کہ میری امت پر سختی نہیں کرنی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا مانگی

اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ (مسلم 1828)

اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا حاکم مقرر ہوا پھر اس نے ان پر سختی کی توتو بھی اس پر سختی کر

اور

جو میری امت کے کسی معاملے کا حاکم مقرر ہوا پھر اس نے ان پر نرمی کی تو تو بھی اس پر نرمی کر

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا اور فرمایا :

«يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا بخاری 4526

تم دونوں آسانی پیدا کرنا ، مشکل میں نہ ڈالنا ، خوشخبری دینا ، دور نہ بھگانا ، آپس میں اتفاق رکھنا ، اختلاف نہ کرنا۔

نیز آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہمیشہ تلقین فرماتے :

[ يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا ] [ بخاری، الأدب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : یسروا ولا تعسروا : ۶۱۲۵ ]

’’آسانی کرو، تنگی مت کرو۔‘‘

19.آپ کو امت کے ایمان نہ لانے کی شدید پریشانی رہتی تھی

آپ کو اصلاح امت کی فکر اس قدر شدید رہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الکہف 6)

پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔

اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا،

آپ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ میری امت کفر اختیار کرکے دنیا میں حیوانوں سے بدتر زندگی گزارے پھر آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے ، اس فکر میں آپ گھلتے چلے جا رہے تھے اتنا کہ اللہ تعالیٰ کو اسے تسلی دلانا پڑتی ہے

دوسری جگہ ارشاد فرمایا

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (لقمان : 23)

اور جس نے کفر کیا تو اس کا کفر تجھے غم میں نہ ڈالے، ہماری ہی طرف ان کا لوٹ کر آنا ہے، پھر ہم انھیں بتائیں گے جو کچھ انھوں نے کیا۔ بے شک اللہ سینوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا [إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَائَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهٰذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِيْ تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيْهَا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ، فَيَقْتَحِمْنَ فِيْهَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِيْهَا ] [بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي : ۶۴۸۳۔ مسلم : 2284/16 ]

’’میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، جب اس نے اس کے اردگرد کو روشن کر دیا تو پروانے اور اس قسم کے جانور اس آگ میں گرنے لگے۔ وہ اس میں گرتے تھے اور وہ شخص انھیں روکتا تھا اور وہ اس سے زبردستی آگ میں گھستے تھے۔ تو میں آگ سے بچانے کے لیے تمھاری کمروں کو پکڑنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گھستے ہو۔‘‘

آپ کی صفت {’’ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ ‘‘} کا بھی یہی مطلب ہے کہ رات دن آپ کی یہی کوشش ہے اور اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے تم دوزخ سے بچ جاؤ اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کر لو۔

20.یہودی بچے کے اسلام کی فکر

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

ایک یہودی لڑکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا:

أَسْلِمْ

مسلمان ہوجا۔

اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا

أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

( کیا مضائقہ ہے )

ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ(بخاری 1356)

شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا

22.طائف کے لوگوں کے ایمان کی فکر

ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بے ہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں؟ تو فرمایا: ’’مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘

[ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین… : ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ] ¤

22.آپ لوگوں کے بوجھ اتارتے تھے

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صفت یہ بیان کی ہے

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف : 157)

اور وہ ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

آپ کی اسی کے متعلق خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں

كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ

اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

23.مقروض میت کا قرض میرے ذمے

حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسولِ کریم نے فرمایا کہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ اُس کے وارثوں کو خواہ وہ کوئی بھی ہوں ملنا چاہئے اور جو مومن قرض یا (محتاج) عیال چھوڑ جائے تو چاہئے کہ قرض خواہ یا عیال میرے پاس آئیں کیونکہ میں اُس کا ولی و متکفل ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب فی الاستقراض باب الصلوة عن من ترک الدنیا)

24.یاسر الشریک کی بہترین مثال آپ اپنی باری پر پیدل چلنے کو ہی ترجیح دیتے تھے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

بدر کے دن ہم میں سے ہر تین افراد کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا حضرت علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں کہتے

نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ

کہ اے اللہ کے رسول آپ کی باری پر بھی ہم ہی چلیں گے تو آپ انہیں جوابا ارشاد فرماتے

مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنْ الْأَجْرِ مِنْكُمَا (مسند احمد)

نہ تو تم دونوں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہو اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ مجھے اجر کی ضرورت نہیں ہے

25.یوم الملحمة کو یوم المرحمۃ میں تبدیل کر دیا

فتح مكہ كے دن جب مسلمان مكہ شہر ميں داخل ہوۓ تو فتح كا ايك پرچم ہاتھ ميں لئے ہوۓ حضرت "سعد ابن عبادہ چيخ” كر كہہ رہے تهے:«اليوم يوم الملحمة…؛ آج روز جنگ ہے۔ جب رسول اكرم نے يہ سنا تو انكو معزول كرنے كا فرمان جاري كيا اور ان سے پرچم كو ليكر دوسرے كو دے ديا تاكہ اس نعرہ كے بجاۓ يہ نعرہ لگايا جاۓ:«اليوم يوم المرحمة…؛ آج رحمت اور معاف كرنے كا دن ہے (فتح الباري 8/8 ح 4280)

6️⃣2️⃣ ====نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ایک دیہاتی امتی سے پیار

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص کا نام زاہر تھا اور وہ دیہات سے نبی ﷺ کے لئے تحفہ لاتا تھا، جب وہ واپس جانے کا ارادہ کرتا تو نبی ﷺ بھی اسے تحفے تحائف دیتے تھے۔

نبی ﷺ نے فرمایا: زاہر ہمارا بادیہ (دیہاتی) ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔

رسول اللہ ﷺ اس سے محبت کرتے تھے، حالانکہ وہ شخص خوبصورت نہیں تھا۔

ایک دن وہ اپنا سامان بیچ رہا تھا کہ نبی ﷺ تشریف لائے تو اس کے پیچھے سے اس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔

وہ آپ کو دیکھ نہیں رہا تھا، لہٰذا کہنے لگا: یہ کون ہے؟ مجھے چھوڑ دے۔

پھر جب اس نے چہرہ پھیرا تو نبی ﷺ کو پہچان لیا اوراپنی پشت نبی ﷺ کے سینے سے ملانے لگا۔

نبی ﷺ فرمانے لگے: اس بندے کو کون خریدتا ہے؟

تو اس آدمی نے کہا: یارسول اللہ! آپ مجھے بہت کم قیمت پائیں گے۔

تو نبی ﷺ نے فرمایا: لیکن تو اللہ کے نزدیک کم قیمت نہیں، یا فرمایا: تُو اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہے۔

شمائل ترمذی (238) ،صحیح ابن حبان (2276) سندہ صحیح

27.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم امت کی بخشش کیلئے فکر مند رہتے

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ آیت تلاوت فرمائی: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي} [إبراهيم : 36]

پروردگار! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اب جو میری اتباع کرے وہ میرا ہے

اور عیسی علیہ السلام کا یہ مقولہ تلاوت فرمایا:

{إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [المائدة : 118]

اگر توں انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔

پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے، اور کہا:

اللَّهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي

(یا اللہ! میری امت! میری امت!) پھر آپ زار و قطار رونے لگے، تو اللہ تعالی نے جبریل سے کہا: "جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور پوچھو: "آپ کس لیے رو رہے ہیں؟”-تیرا رب پہلے ہی جانتا ہے- تو جبریل علیہ الصلاۃ و السلام نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اور آپ نے جواب دیا، یہ جواب جبریل نے اللہ تعالی کو بتلایا -اللہ کو جواب کا پہلے ہی علم تھا-، پھر اللہ تعالی نے جبریل سے فرمایا: "جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور کہہ دو:

إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ

ہم آپکو آپکی امت کے بارے میں راضی کر دینگے ، آپکو ناراض نہیں کرینگے” مسلم 202

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ حدیث اس امت کیلئے پر امید احادیث میں سے ایک ہے، یا اس سے بڑھ کر امید والی حدیث کوئی نہیں ہے”

28.آپ نے اپنی ایک دعا امت کی سفارش کے لیے محفوظ کی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا ، فَاسْتُجِيبَ فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (بخاری 6305)

کہ ہر نبی نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔

آپ نے فرمایا

خَيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ و بين ان يدخل نصف امتی الجنة فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ (ابن ماجه، کتاب الزهد)

’’مجھے شفاعت اور نصف امت جنت میں داخل کرنے کے درمیان اختیار دیا گیا، (کہ چاہے تو آدھی امت بخشوا لیں، چاہے شفاعت کا اختیار لے لیں) میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا ہے۔ ‘‘

29.آپ شفاعت کبری کریں گے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے ”شکر گزار بندہ“ ( عبد شکور ) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے ( راوی ) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے ( صرف ) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے (بخاری 4712)

ہمارے لیے سبق

اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بڑھ چڑھ کر پیار اور محبت کرنا چاہیئے

غیروں کی تہذیب، سٹائل اور طریقوں کی بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہذیب اپنانے کی کوشش کریں

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ