اُمت محمدیہ کی خصوصیات
اہم عناصرِ خطبہ :
01.  امت محمدیہ کے فضائل
02.  دنیا میں امت محمدیہ کی خصوصیات
03. آخرت میں امت محمدیہ کی خصوصیات
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! یوں تو اللہ رب العزت کے ہم پر بے شمار احسانات اور اس کی ان گنت نعمتیں ہیں ،  جن کا ہم جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے ، تاہم اُس کا ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں نبی آخر الزمان حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت میں شامل فرمایا ، جو کہ سب سے افضل اور سب سے بہتر امت ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ﴾  البقرۃ2 :143
’’ اور اسی طرح ہم نے تمھیں ( اے مسلمانو ! ) ایک معتدل اور بہترین امت بنایا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا :  ﴿ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ﴾   آل عمران3 : 110
’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ ‘‘
اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( أَنْتُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِیْنَ أُمَّۃً ،أَنْتُمْ خَیْرُہَا وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ))    جامع الترمذی :3001،سنن ابن ماجہ : 4288 ۔ وحسنہ الألبانی
’’ تمھارے ساتھ امتوں کی تعداد ستر پوری ہوگئی  ہے ۔ تم سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز امت ہو ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے اِس آیت مبارکہ کی تفسیر یوں کی :
(( خَیْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ ، تَأْتُوْنَ بِہِمْ فِی السَّلَاسِلِ فِیْ أَعْنَاقِہِمْ،حَتّٰی یَدْخُلُوْا فِی الْإِسْلَامِ))      صحیح البخاری :4557
’’ تم لوگوں کیلئے بہترین لوگ ہو ۔ تم انھیں اس حالت میں لاتے ہو کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوتے ہیں ، حتی کہ وہ اسلام قبول کرلیں ۔ ‘‘ یعنی قبول ِاسلام سے ان کے طوق اتر جاتے ہیں ۔
اور سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
((  أُعْطِیْتُ مَا لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَائِ ))’’ مجھے وہ خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کی گئیں ۔ ‘‘
تو ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! وہ کونسی ہیں ؟
تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
((نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ ، وَأُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ الْأَرْضِ ، وَسُمِّیْتُ أَحْمَدَ ، وَجُعِلَ  التُّرَابُ لِیْ طَہُوْرًا ، وَجُعِلَتْ أُمَّتِیْ خَیْرَ الْأُمَمِ ))   مسند أحمد :763، 1361۔ وحسنہ الأرنؤوط
’’ رعب ودبدبہ کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، زمین کی چابیاں مجھے عطا کی گئی ہیں ، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لئے طہارت کا ذریعہ بنایا گیا ہے اور میری امت کو سب سے بہتر امت بنایا گیا ہے ۔ ‘‘
اب تک ہم نے جتنے دلائل ذکر کئے ہیں ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ امت محمدیہ سابقہ تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے ۔
یاد رہے کہ اِس امت کا دوسری امتوں سے افضل امت ہونا اِس کے دین ( اسلام ) کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ یہ امت اللہ اور اس کے رسول جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور اللہ کی کتاب ( قرآن مجید ) پر ایمان رکھتی ہے ۔ جبکہ دیگر قومیں نہ اللہ تعالی کو مانتی ہیں ، نہ اس کے رسول جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مانتی ہیں اور نہ ہی اللہ کی کتاب قرآن مجید کو تسلیم کرتی ہیں ۔ اِس لئے وہ یہ افضلیت حاصل نہیں کر سکیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾   المنافقون63 :8
’’ اور عزت تو صرف اللہ کیلئے ، اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے اور مومنوں کیلئے ہی ہے ، لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘
اور سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا تھا :
(( إِنَّا کُنَّا أَذَلَّ قَوْمٍ فَأَعَزَّنَا اللّٰہُ بِہَذَا الدِّیْنِ ، فَمَہْمَا نَبْتَغِی الْعِزَّۃَ فِیْ غَیْرِہٖ أَذَلَّنَا اللّٰہُ ))
’’ ہم ذلیل ترین قوم تھے ، پھر اللہ تعالی نے ہمیں اِس دین ( اسلام ) کے ذریعے عزت بخشی ، چنانچہ اس کو چھوڑ کر ہم جہاں سے بھی عزت کے طلبگار ہونگے ، اللہ تعالی ہمیں ذلیل کرکے چھوڑے گا ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ یہود ونصاری کو یہ اعلی مرتبہ حاصل نہیں ہو سکا ۔ اور چونکہ انھوں نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا اس لئے اللہ تعالی نے یہود کو  ’ مغضوب علیہم ‘قرار دیا ( یعنی جن پر غضب کیا گیا  اور ان پر ذلت ورسوائی کو مسلط کردیا گیا )  اور نصاری کو ’ضالین ‘( یعنی گمراہ قوم ) قرار دیا ۔
یہود ونصاری نے دعوی کیا تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور چہیتے لوگ ہیں اور سب سے افضل امت ہیں ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے اس دعوے کو ٹھکرا دیا ۔
اللہ تعالی کا فرما ن ہے : ﴿ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ﴾  المائدۃ5 :18
’’ اور یہود ونصاری نے کہا : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ! آپ کہہ دیجئے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر وہ تمھیں تمھارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے ؟ بلکہ ( حقیقت یہ ہے کہ ) تم اس کی مخلوق میں سے عام انسان ہو ۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے ۔ اور آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ، سب کا مالک اللہ ہی ہے ۔ اور اسی کی طرف سب کو جاناہے ۔ ‘‘
آئیے اب اِس امت محمدیہ کی خصوصیات قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں ، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ امت دیگر امتوں سے افضل ترین امت ہے ۔
01. مکمل دین
اِس امت کی بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کا دین مکمل ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلَامَ دِیْنًا﴾  المائدۃ5 : 3
’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔‘‘
دین کو مکمل کرنا اس امت پر اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے ، ورنہ اگر اللہ تعالی  اسے نامکمل چھوڑ دیتا
تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔
اللہ رب العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ یہود کو ہو گیا تھا ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا : ﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلَامَ دِیْنًا ﴾
 تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ ‘‘   صحیح البخاری :45، صحیح مسلم : 3017
02. دین میں آسانیاں
اِس امت کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کا دین آسان ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں ہے ۔اور اِس کے متعدد دلائل موجود ہیں ، ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں :
01. اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾  الحج22 :78
’’ اس نے تمھیں چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ ‘‘
02. اسی طرح تیمم کی اجازت دے کر اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾   المائدۃ5 :6
’’ اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو ۔ ‘‘
03. اسی طرح فرمایا :  ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ﴾   النساء4 :28
’’ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کرے ۔ اور انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے ۔ ‘‘
04. اسی طرح مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دے کر اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾   البقرۃ2 :185
’’ اللہ تعالی تمھارے ساتھ آسانی کا برتاؤ چاہتا ہے ، تنگی کا نہیں چاہتا ۔ ‘‘
05. اللہ  تعالی نے اپنے پیارے نبی جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے اِس امت سے وہ بوجھ اتار دئیے اور وہ بندشیں کھول دیں جن میں پہلی امتیں جکڑی ہوئی تھیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالأَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ﴾  الاعراف 7:157
’’ جو لوگ رسول اور نبی ٔ امی کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ  اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں  وہ انھیں نیک باتوں کا حکم دیتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں ، پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اوران لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو ان سے دور کرتے ہیں ۔ ‘‘
آئیے اس کی کچھ مثالیں ذکر کرتے ہیں ، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت سے بڑے بڑے بوجھ اتار دئیے ہیں :
01.۔ بنو اسرائیل میں کسی کے کپڑے پر پیشاب لگتا تو اسے اس جگہ کو قینچی سے کاٹنا پڑتا ۔ یہ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں ۔ جبکہ صحیح مسلم میں ہے کہ کسی کی جلد پر پیشاب لگتا تو اسے اُس جگہ کو قینچی سے کاٹنا پڑتا ۔ اور مسند احمد میں ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
(( إِنَّ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ کَانَ أَحَدُہُمْ إِذَا أَصَابَہُ الشَّیْئُ مِنَ الْبَوْلِ قَرَضَہُ بِالْمَقَارِیْضِ))   صحیح البخاری :226، صحیح مسلم :273، مسند أحمد :19729۔ وصححہ الأرنؤوط
’’ بنو اسرائیل میں سے کسی کو تھوڑا سا پیشاب لگتا تو وہ اُس جگہ کو قینچیوں سے کاٹ دیتا ۔ ‘‘
یہ بہت بڑا بوجھ تھا بنو اسرائیل پر ، جسے اللہ تعالی نے اِس امت سے اتار دیا اور جہاں پیشاب لگے اسے کاٹنے کا نہیں بلکہ صرف پانی سے دھونے کا حکم دیا ۔
02. یہودیوں میں جب کسی خاتون کے مخصوص ایام شروع ہوتے تو وہ اس کے ساتھ نہ کھاتے پیتے تھے اور نہ ہی اس کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے تھے ، بلکہ اسے الگ کر دیتے تھے ۔ جبکہ ہماری شریعت میں یہ ہے
 کہ آپ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹ سکتے ہیں ، جماع کے سوا اس سے ہر قسم کا استمتاع بھی کرسکتے ہیں ۔ اور اس کے ہاتھوں سے بنا ہوا کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔  صحیح مسلم :302
03. بنو اسرائیل کی شریعت میں قتل کے بدلے قتل ہی تھا ۔ جبکہ امت محمدیہ کی شریعت میں اللہ تعالی نے دیت کی بھی رخصت دے دی ۔
04. بنو اسرائیل میں کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا تو اس کے گھر کے دروازے پر وہ گناہ اور اس کا کفارہ لکھ دیا جاتا ، جس سے اس کی رسوائی ہوتی ۔ جبکہ امت محمدیہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔
05. بنو اسرائیل میں جو شخص روزوں کے دوران رات کو سو جاتا تو اس کے بعد اسے کھانے پینے کی اجازت نہ ہوتی ، یہاں تک کہ اگلے روز غروب آفتاب تک اسے انتظار کرنا پڑتا ۔ جبکہ امت محمدیہ کو اللہ تعالی نے صبح صادق تک کھانے پینے کی رخصت دی  ہے ۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کی شریعت میں وہ آسانیاں رکھی ہیں جو پہلی امتوں کی شریعتوں میں نہ تھیں ۔
03.  غنیمت کامال حلال ہے    04.  مٹی کو پاکیزگی کا ذریعہ بنایا گیا ہے
05. زمین کو سجدہ گاہ بنایا گیا ہے ۔
ان تینوں خصوصیات کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں بیان فرمایا :
(( أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِیْ : کَانَ کُلُّ نَبِیٍّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً ، وَبُعِثْتُ إِلٰی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَیِّبَۃً طَہُوْرًا وَّمَسْجِدًا ، فَأَیُّمَا رَجُلٍ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ صَلّٰی حَیْثُ کَانَ ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَیْنَ یَدَیْ مَسِیْرَۃِ شَہْرٍ، وَأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ))   صحیح البخاری :438،صحیح مسلم  :521واللفظ لہ
  ’’ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں : پہلی یہ کہ ہر نبی کو اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف بھیجا گیا ہے ۔ دوسری یہ کہ میرے لئے غنیمتوں کا مال حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی کیلئے  حلال نہیں کیا گیا تھا ۔تیسری یہ کہ زمین کو میرے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ اور مسجد بنایا گیا ہے ۔ لہذا جہاں کہیں نماز کا وقت ہو جائے انسان وہیں نماز ادا کر لے ۔ چوتھی یہ
 کہ میں جب ایک ماہ کی مسافت پر دشمن سے دور ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ دشمن کے دل میں میرا رعب ودبدبہ بٹھا دیتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ مجھے ( روزِ قیامت ) شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ‘‘
اِس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ
٭ اللہ تعالی نے اِس امت محمدیہ کیلئے غنیمت کا مال حلال کردیا ، جبکہ پہلی امتوں کیلئے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا ۔ وہ لوگ غنیمتوں کو ایک جگہ پر جمع کردیتے تھے ، پھر اگر آسمان سے آگ آکر انھیں کھا لیتی تو یہ قبولیت کی علامت ہوتی ۔
٭ اسی طرح اللہ تعالی نے خصوصا اِس امت کیلئے مٹی کو پاکیزگی کا ذریعہ  بنا دیا ، چنانچہ پانی نہ ملنے کی شکل میں ، یا پانی کے استعمال سے ضرر واقع ہونے کی شکل میں تیمم کی اجازت دے کر اللہ تعالی نے اِس امت پر بہت بڑا احسان فرمایا ۔
٭اسی طرح پوری زمین کو سجدہ گاہ بنانے کی بھی رخصت دے دی ، چنانچہ جہاں کہیں نماز کا وقت ہو مسلمان وہیں نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اُس کیلئے ضروری نہیں کہ اگر وہ کہیں جنگل میں ہے ، یا فضاؤں میں سفر کر رہا ہے ، یا کشتی پر سوار ہے ، تو وہ مسجد کو ڈھونڈے اور نماز ادا کرے ، بلکہ جہاں ہے وہیں نماز ادا کر سکتا ہے ۔ جبکہ پہلی امتوں کے لوگ نماز کیلئے مخصوص کئے گئے مقامات پر ہی نماز پڑھ سکتے تھے ۔
06. بھول چوک ، دل کے خیالات اور جبر واکراہ معاف
 اللہ تعالی نے  اِس امت کے لوگوں کی بھول چوک ، دل کے خیالات ووساوس اور جبر واکراہ کو معاف کردیا ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
((إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ )) صحیح البخاری :5269
’’ بے شک اللہ تعالی نے میری امت کے دل کے خیالات اور وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک وہ عمل نہ کرے یا گفتگو نہ کرے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ ))   سنن ابن ماجہ :2043 ۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی نے میرے لئے میری امت کی غلطی ، بھول اور جس چیز پر وہ مجبور کردئیے جائیں اسے معاف کردیا ہے ۔ ‘‘
07. امت محمدیہ پوری کی پوری ہلاک نہیں ہوگی
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
(( سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِیْہَا ثَلَاثَ خِصَالٍ ، فَأَعْطَانِی  اثْنَتَیْنِ ، وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَۃً ))
’’میں نے اس نماز میں اپنے رب عز وجل سے تین چیزیں مانگیں ، تو اس نے مجھے دو دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ ‘‘
01. (( سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُہْلِکَنَا بِمَا أَہْلَکَ بِہِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’میں نے اپنے رب عز وجل سے دعا کی کہ وہ ہمیں اُس چیز کے ساتھ ہلاک نہ کرے جس کے ساتھ اس نے پہلی امتوں کو ہلاک کیا ،( یعنی ایسا عذاب نازل نہ کرے کہ پوری امت ہی ہلاک ہو جائے  جیساکہ قوم نوح ، قوم عاد ، قوم ثمود وغیرہ ہلاک ہوئیں ) تو اس نے میری یہ دعا قبول کرلی ہے ۔ ‘‘
02. (( وَسَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُظْہِرَ عَلَیْنَا عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِنَا ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’اور میں نے اپنے رب عز وجل سے دعا کی کہ وہ ہمارے اوپرکسی ایسے دشمن کو غلبہ نہ دے جو ہم میں سے نہ ہو ،( یعنی ایسے  نہ ہو کہ کافر پوری امت اسلامیہ پر غالب آجائیں )  تو اس نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی ہے ۔ ‘‘
03. (( وَسَأَلْتُ رَبِّیْ أَنْ لَّا یَلْبِسَنَا شِیَعًا ، فَمَنَعَنِیْہَا )) سنن النسائی : 1638۔ وصححہ الألبانی، مسند أحمد :21091۔ وصححہ الأرنوؤط
’’اور میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم نہ کرے ، تو اس نے میری یہ دعا قبول نہیں کی ۔ ‘‘
اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
(( سَأَلْتُ رَبِّیْ ثَلَاثًا فَأَعْطَانِیْ ثِنْتَیْنِ وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَۃً ))
’’میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا ، تو اس نے مجھے دو عطا کردی ہیں اور ایک نہیں دی ۔ ‘‘
((سَأَلْتُ رَبِّیْ أَن لَّا یُہْلِکَ أُمَّتِیْ بِالسَّنَۃِ ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط سالی کے ساتھ ہلاک نہ کرے ، تو اس نے میری یہ دعا قبول کر لی ہے۔ ‘‘
(( وَسَأَلْتُہُ أَن لَّا یُہْلِکَ أُمَّتِیْ بِالْغَرَقِ ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’ اور میں نے اللہ تعالی سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرے ۔ تو اس نے میری
یہ دعا بھی قبول کر لی ہے۔ ‘‘
(( وَسَأَلْتُہُ أَن لَّا یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ ، فَمَنَعَنِیْہَا))   صحیح مسلم : 2890
’’اور میں نے اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ میرے امتی آپس میں نہ لڑیں اور ان کے درمیان مخالفت نہ ہو ، تو اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول نہیں کی ۔ ‘‘
08. امت محمدیہ پوری کی پوری گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی
رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  (( إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَجَارَ أُمَّتِیْ أَنْ تَجْتَمِعَ عَلٰی ضَلَالَۃٍ ))    صححہ الألبانی فی صحیح الجامع : 1786، والصحیحۃ :1331
’’بے شک اللہ تعالی نے میری امت کو اِس بات سے پناہ دے دی ہے کہ وہ پوری کی پوری گمراہی پر جمع ہو۔ ‘‘
اِس امت کا ایک گروہ ضرور حق پر قائم رہے گا ۔ جیسا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس گروہ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ
(( لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ، لَا یَضُرُّہُمْ مَّنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہِ وَہُمْ کَذَلِکَ ))    صحیح مسلم : 1920
’’ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہتے ہوئے (  دلائل وبراہین کے ساتھ ) غالب رہے گا ، جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ بدستور اسی حالت میں ہونگے۔‘‘
امام ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ  ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کہتے ہیں کہ اس گروہ سے مراد اصحاب الحدیث ہیں ۔ بلکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ
(( إِن لَّمْ یَکُونُوا أَہْلَ الْحَدِیْثِ فَلَا أَدْرِیْ مَنْ ہُمْ ؟ ))
’’اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا وہ کون لوگ ہیں ؟ ‘‘
09. امت محمدیہ امت ِ مرحومہ ہے یعنی خصوصی طور پر رحم کی گئی امت ہے
رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :
(( أُمَّتِیْ ہَذِہٖ أُمَّۃٌ مَرْحُوْمَۃٌ ، لَیْسَ عَلَیْہَا عَذَابٌ فِی الْآخِرَۃِ ، عَذَابُہَا فِی الدُّنْیَا الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالْقَتْلُ))    سنن أبی داؤد : 4278 ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :959
’’ میری یہ امت ایسی امت ہے کہ جس پر رحم کیا گیا ہے ۔ اِس پر آخرت میں عذاب نہیں ہوگا ۔ دنیا میں اس کا عذاب فتنوں ، زلزلوں اور قتل وغارت گری کے ساتھ ہوگا ۔ ‘‘
10. امت محمدیہ کی صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح ہیں
حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
((فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلَاثٍ : جُعِلَتْ صُفُوْفُنَا کَصُفُوْفِ الْمَلَائِکَۃِ ، وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ کُلُّہَا مَسْجِدًا وَجُعِلَتْ تُرْبَتُہَا لَنَا طَہُوْرًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَائَ))    صحیح مسلم :522
’’ہمیں لوگوں پر تین چیزوں کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے : ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں ۔ اور پوری زمین کو ہمارے لئے سجدہ گاہ بنایا گیا ہے اور جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی کو ہمارے لئے  طہارت کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ مسلم کی اِس روایت میں تیسری چیز ذکر نہیں کی گئی ، جبکہ مسند احمد کی روایت میں تیسری چیز یہ ہے :
((وَأُعْطِیْتُ ہَذِہِ الْآیَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَۃِ مِنْ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ،لَمْ یُعْطَہَا نَبِیٌّ قَبْلِیْ))   مسند أحمد :23299۔ صححہ الأرنؤوط ، والألبانی فی الصحیحۃ :1482
’’ اور مجھے سورۃ البقرۃ کی یہ آخری آیات عرش باری تعالی کے نیچے والے خزانے سے دی گئی ہیں ، مجھے سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ ‘‘
11. امت محمدیہ دوسری امتوں کی نسبت کم عمل کرکے زیادہ اجر وثواب لینے والی ہے ۔
 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّمَا أَجَلُکُمْ فِیْ أَجَلِ مَنْ خَلَا مِنَ الْأُمَمِ مَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ إِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ ))
  ’’ تمھاری مدت سابقہ امتوں کی مدت کے مقابلے میں اتنی ہے جتنی نمازِ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک ہوتی ہے ۔‘‘
پھرنبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کی وضاحت یوں فرمائی :
’’ تمھاری اور یہود ونصاری کی مثال ایسے ہے جیسا کہ ایک آدمی کچھ مزدور لے آئے اور کہے : صبح سے دوپہر تک ایک قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟ تو یہودیوں نے ایک ایک قیراط پر دوپہر تک مزدوری کی ۔ پھر اس نے کہا : اب دوپہر سے نمازِ عصر تک ایک قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟ تو نصاری نے دوپہر سے نمازِ عصر تک ایک ایک قیراط پر مزدوری کی ۔  پھر اس نے کہا : اب نمازِ عصر سے غروبِ آفتاب تک دو قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَا فَأَنْتُمُ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ مِنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ إِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلٰی قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ ، أَلَا لَکُمُ الْأَجْرُ مَرَّتَیْنِ ))
’’خبردار ! وہ تم ہی ہو جنھوں نے نمازِ عصر سے غروبِ آفتاب تک دو دو قیراط پر مزدوری کی ، خبردار ! تمھارا اجر دوگنا ہے ۔  ‘‘
(( فَغَضِبَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارَی فَقَالُوْا : َنحْنُ أَکْثَرُ عَملًا وَأَقَلُّ عَطَائً ))
’’ چنانچہ یہود ونصاری غضبناک ہو کر کہنے لگے : ہم نے زیادہ مزدوری کی تھی لیکن ہمیں اجر کم ملا ۔‘‘
 تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ((ہَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِنْ حَقِّکُمْ شَیْئًا ؟ ))
’’ کیا میں نے تمہارا حق مار ا اور تم پر ظلم کیا ہے ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : نہیں ۔
تو  اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (( فَإِنَّہُ فَضْلِیْ أُعْطِیْہِ مَنْ شِئْتُ))   صحیح البخاری :3459
’’تو یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں عطا کروں ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی اِس امت کو کم وقت میں دوگنا اجر عطا فرماتا ہے ۔
ویسے بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک ارشاد کے مطابق   اِس امت کے لوگوں کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہو گی ۔ اور یہ عمر سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں کے مقابلے میں کم ہے ۔ لیکن اللہ تعالی نے اِس امت کو بعض ایسے مواسم خیر عطا کردئیے ہیں ، جن میں کم عمل کرکے بہت زیادہ اجر وثواب حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا لیلۃ القدر کی عبادت ہزار مہینوں ( یعنی تراسی سال کی عبادت  )سے افضل ہے ۔ اسی طرح بعض ایسے مقدس مقامات ہیں جہاں عبادت کا اجر وثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ مثلا مکہ مکرمہ میں مسجد حرام ہے جس میں ایک نماز دوسری مساجد میں ادا کی گئی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے ، سوائے مسجد نبوی کے ۔  یعنی مسجد حرام کی ایک نماز تقریبا چون سال کی عام نمازوں سے افضل ہے ۔
12. اللہ تعالی نے یوم ِ جمعہ کی طرف امت محمدیہ کی راہنمائی فرمائی
13.  امت محمدیہ آخری امت ہے لیکن قیامت کے روز سب سے آگے ہوگی اور سب سے پہلے اسی امت کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا
حضرت ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
((نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، بَیْدَ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ ، وَہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْہِمْ فَاخْتَلَفُوْا  فِیْہِ ، فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہُ ، فَہُمْ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ ، فَالْیَہُوْدُ غَدًا ، وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ))     صحیح البخاری :3486،صحیح مسلم :855
’’ ہم آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے روز ہم سبقت لے جائیں گے ، تاہم انھیں ( پہلی امتوں کو ) ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی ۔ اور یہی ( یومِ جمعہ ) ہی وہ دن ہے کہ جو ان پر فرض کیا گیاتو انھوں نے اس کے متعلق آپس میں اختلاف کیا ۔ اور اللہ تعالی نے ہماری اس کیلئے خاص طور پر راہنمائی فرمائی ۔  تو وہ اس میں ہمارے تابع ہیں ، لہذا یہودیوں کا ( عید کا) دن کل ( ہفتہ کو ) اور نصاری کا اس سے اگلے دن (اتوار کو ) آئے گا ۔ ‘‘
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا :
(( أَضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمُعَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا ، فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ ، وَکَانَ لِلنَّصَارَی یَوْمُ الْأَحَدِ ، فَجَائَ اللّٰہُ بِنَا ، فَہَدَانَا اللّٰہُ لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالْأَحَدَ، وَکَذَلِکَ ہُمْ تَبَعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، نَحْنُ الْآخِرُوْنَ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا ، وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، الْمَقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ))     صحیح مسلم : 856
 ’’ اللہ تعالی نے ہم سے پہلے لوگوں کو جمعہ سے محروم رکھا ، چنانچہ یہودیوں کیلئے ہفتہ اور نصاری کیلئے اتوار کا دن تھا ۔ پھر اللہ تعالی ہمیں لے آیا اور اس نے ہماری یومِ جمعہ کی طرف راہنمائی فرمائی ۔ اور اس نے ( ایام کی ترتیب اس طرح بنائی کہ ) پہلے جمعہ ، پھر ہفتہ اور اس کے بعد اتوار ۔ اور اسی طرح وہ قیامت کے روز بھی ہمارے پیچھے ہی ہونگے ۔ ہم دنیا میں آئے تو آخر میں ہیں لیکن قیامت کے روز ہم پہلے ہونگے ۔ اور تمام امتوں میں سب سے پہلے ہمارے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔ ‘‘
عزیزان گرامی ! ہم نے اب تک امت محمدیہ کی جتنی خصوصیات ذکر کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اِس امت پر بڑے بڑے احسانات کئے ہیں اور اسے بڑے بڑے انعامات سے نوازا ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دین اسلام پر قائم ودائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔
دوسرا خطبہ
محترم سامعین ! پہلے خطبے میں ہم نے امت محمدیہ کی وہ خصوصیات ذکر کیں جن کا تعلق اِس دنیا سے ہے ، سوائے آخری خصوصیت کے کہ جس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے ۔ آئیے اب امت محمدیہ کی قیامت کے دن سے متعلق مزید خصوصیات ذکر کرتے ہیں ۔
14. امت محمدیہ کے اعضائے وضو قیامت کے روز چمک رہے ہوں گے ۔
حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  قبرستان تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا :
(( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ ))
’’ اے مومنوں کی  جماعت ! تم پر سلامتی ہو ۔ اور ہم بھی ان شاء اللہ تم لوگوں سے ملنے والے ہیں۔ ‘‘
پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : (( وَدِدتُّ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا إِخْوَانَنَا ))
’’ میرا دل چاہتا ہے کہ کاش ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا ! ‘‘
صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : (( أَوَ لَسْنَا إِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟))
یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟
تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
(( أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ ، وَإِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ ))
’’ تم تو میرے ساتھی ہو  اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے ۔ ‘‘
صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : (( کَیْفَ تَعْرِفُ مَن لَّمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟))
 یا رسول اللہ ! جو آپ کی امت میں سے ابھی نہیں آیا ، اسے آپ کیسے پہچانیں گے ؟
تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : (( أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَہُ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ  خَیْلٍ دُہْمٍ بُہْمٍ أَلَا یَعْرِفُ خَیْلَہُ ؟))
’’ تمھارا کیا خیال ہے ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان ایک آدمی کے ایسے گھوڑے ہوں جن کے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں چمک رہی ہوں ، تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا ؟ ‘
صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول !
تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ((فَإِنَّہُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْئِ ،وَأَنَا فَرَطُہُمْ عَلَی الْحَوْضِ ))    صحیح مسلم : 249
’’ تو میرے امتی اِس طرح آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے ۔ اور میں حوض پر ان کا استقبال کروں گا ۔ ‘‘
15.سب سے پہلے امت ِ محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) کا حساب ہو گا
 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
((نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ،یُقَالُ : أَیْنَ الْأُمَّۃُ الْأُمِّیَّۃُ وَنَبِیُّہَا؟ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ))   سنن ابن ماجہ : 4290 ۔ وصححہ الألبانی
  ’’ ہم امتوں میں آخری امت ہیں لیکن حساب سب سے پہلے ہماری امت کا ہو گا ۔ کہا جائے گا : کہاں ہے اُمّی امت اور اس کا نبی ؟ تو ہم اگرچہ آخری ہیں لیکن ( روزِ قیامت ) سب سے آگے ہو نگے ۔ ‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
((فَتَفَرَّجُ لَنَا الْأُمَمُ عَنْ طَرِیْقِنَا ، فَنَمْضِیْ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوْئِ، فَتَقَوْلُ الْأُمَمُ: کَادَتْ ہٰذِہٖ الْأُمَّۃُ أَنْ تَکُوْنَ أَنْبِیَائَ کُلَّہَا ))    مسند أحمد: 4/330: 2546 وقال محققہ : حسن لغیرہ
’’ امتیں ہمارے راستے سے ہٹ جائیں گی ، لہذا ہم آگے بڑھ جائیں گے اور وضو کے نشانات کی وجہ سے ہمارے ہاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہونگے ۔ چنانچہ امتیں کہیں گی : قریب تھا کہ اس امت کے تمام لوگ انبیاء ہوتے۔‘‘
16. انبیاء  علیہم السلام  کے حق میں امت ِمحمدیہ کی گواہی
 حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’ قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہو گا ، دوسرا نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف دو آدمی ہو نگے اور ایک اور نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف تین افراد ہو نگے ۔ اسی طرح اور انبیاء آئیں گے اور ان کے ساتھ اس سے زیادہ افراد ہو نگے یا کم ۔ چنانچہ ہر نبی سے کہا جائے گا : کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟
 وہ جواب دے گا : جی ہاں ۔ پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا اس نے تمھیں
 اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟   وہ کہیں گے : نہیں۔ تو نبی سے کہا جائے گا : تمھارا گواہ کون ہے ؟
 وہ کہے گا : محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) او ران کی امت ۔ پھر امت ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو بلایا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نبی نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟   وہ کہیں گے : جی ہاں
 اللہ تعالی کہے گا : تمھیں اس بات کا کیسے پتہ چلا ؟
 وہ کہیں گے : ہمیں ہمارے نبی نے اس بات کی خبر دی تھی کہ ان سے پہلے تمام انبیاء  علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا ۔  تو ہم نے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔
 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾  ’’ ہم نے اسی طرح تمھیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں ۔ ‘‘   سنن ابن ماجہ  : 4284۔ وصححہ الألبانی
17. پل صراط کو سب سے پہلے ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کی امت کے لوگ عبور کریں گے
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد کرامی ہے : (( وَیُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ فَأَکُوْنُ أَنَا وَأُمَّتِیْ أَوَّلَ مَن یُّجِیْزُہَا))   صحیح البخاری :7437، صحیح مسلم :182
’’ اور جہنم کے اوپر پل صراط پھیلائی جائے گی ۔ پھر میں اور میری امت کے لوگ سب سے پہلے اسے عبور کریں گے ۔ ‘‘
18. زیادہ تر اہل جنت امت ِمحمدیہ میں سے ہو نگے
حضرت عبد اللہ   رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
(( أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَکُوْنُوْا رُبْعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ ))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو گے ؟‘‘
حضرت عبد اللہ   رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے ( خوشی کے مارے ) اللہ اکبر کہا ۔
پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :(( أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَکُوْنُوْا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم اہل جنت کا تیسراحصہ ہو گے ؟‘‘
حضرت عبد اللہ کہتے ہیں : ہم نے ( خوشی کے مارے ) پھر اللہ اکبر کہا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا شَطْرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ))
’’ میں اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ تم اہلِ جنت کا آدھا حصہ ہو گے۔ ‘‘
میں تمھیں عنقریب اس کے بارے میں خبر دوں گا ، مسلمان کافروں کے مقابلے میں ایسے ہونگے جیسے ایک سیاہ رنگ کے بیل پر ایک سفید رنگ کا بال ہو۔  یا ( آپ نے فرمایا : ) جیسے سفید رنگ کے بیل پر ایک سیاہ رنگ کا بال ہو ۔ ‘‘ صحیح البخاری:6528،صحیح مسلم:221  ۔ واللفظ لمسلم
اسی طرح  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : (( أَہْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُوْنَ وَمِائَۃُ صَفٍّ ، ثَمَانُوْنَ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ وَأَرْبَعُوْنَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ ))   سنن ابن ماجہ : 4289 ۔ وصححہ الألبانی
’’ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہونگی ، اسی (۸۰)صفیں صرف اِس امت سے اور چالیس دوسری تمام امتوں سے۔‘‘
19. امت محمدیہ کے چار ارب نوے کروڑ افراد اور ان کے علاوہ مزید بے شمار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے
حضرت ابن عباس   رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’ مجھ پر ( سابقہ ) امتیں پیش کی گئیں ۔چنانچہ میں نے ایک نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ محض چند افراد (دس سے کم ) ہیں ۔ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک دو آدمی ہیں ۔ اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ۔ پھر اچانک مجھے ایک بہت بڑی جماعت دکھلائی گئی ۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہی میری امت ہے۔  تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے ۔ آپ ذرا اس افق کی جانب دیکھئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک سوادِ عظیم ( لوگوں کا بہت بڑا گروہ ) نظر آیا۔ پھر مجھے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے افق کی جانب دیکھیں ۔ میں نے دیکھا تو ایک اور سوادِ عظیم نظر آیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہو ئے اور اپنے گھر میں چلے گئے ۔  تو لوگ  ( صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم ) ان سترہزار افراد
 کے متعلق غور وخوض کرنے لگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ ہو نگے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں ، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام کی حالت میں ہوئی اور انھوں نے کبھی شرک نہیں کیا ۔ کچھ لوگوں نے کچھ اور آراء بھی ظاہر کیں ۔ اچانک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   تشریف لے آئے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا : تم کس چیز کے بارے میں غور کر رہے ہو ؟ تو لوگوں نے آپ کو بتایا کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ ستر ہزار افراد کون ہو نگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو ں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : (( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَرْقُوْنَ ، وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ ، وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ))
’’ یہ وہ لوگ ہو نگے جو نہ (غیر شرعی ) دم کرتے تھے اور نہ ( غیر شرعی ) دم کرواتے تھے ۔ اورنہ وہ بد شگونی لیتے تھے۔اور وہ صرف اپنے رب تعالی پر ہی توکل کرتے تھے ۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت عکاشۃ بن محصن  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہو ئے اور کہا : آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : تم انہی میں سے ہو ۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : میرے لئے بھی دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ((سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ )) ’’عکاشۃ رضی اللہ عنہ  تم سے سبقت لے گئے ہیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری: 3410 و5705 و5752 ،صحیح مسلم :220
ایک روایت میں ہے جس کے راوی  حضرت عمران بن حصین   رضی اللہ عنہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر ہزار افراد کی صفات یوں بیان فرمائیں:(( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ، وَ لَا یَکْتَوُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )) صحیح مسلم : 218
 ’’ وہ دم نہیں کرواتے ، شگون نہیں لیتے ، آگ سے اپنا جسم نہیں داغتے اور صرف اپنے رب تعالی پر ہی توکل کرتے ہیں ۔‘‘
جبکہ حضرت ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا  :
((وَعَدَنِیْ رَبِّیْ أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِیْ سَبْعِیْنَ أَلْفًا َلا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ ، مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُوْنَ أَلْفًا ، وَثَلَاثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِ رَبِّیْ)) سنن ابن ماجہ : 4286۔ وصححہ الألبانی
’’ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا جن پر نہ حساب ہو گا اور نہ عذاب ۔ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار افراد اورہو نگے اور اس کے علاوہ تین چُلُّو میرے رب کی چلووں میں سے ۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ، ہمارے والدین ، ہمارے بیوی بچے اور بہن بھائیوں کو بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائے جنھیں وہ اپنے فضل وکرم کے ساتھ بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا ۔ آمین ۔۔۔۔۔۔۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین