امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے تربیتی فیصلے، مشورے اور اقدامات

===========

01.  عمر رضی اللہ عنہ شرعی معاملات کے حوالے سے صحابہ کرام میں سب سے سخت تھے

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجراح ۔ [ترمذي  صحیح]

میری امت میں سے سب سے رحم دل ابوبکر ہیں

اللہ کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں

سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں

سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے معاذ بن جبل ہیں

فرائض کو سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں

سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں

اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں

02.   عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کے سامنے بند باندھنے والا دروازہ تھے

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم میں سے کس کو فتنوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ھے

پھر کہا میری مراد وہ فتنے ہیں جو سمندر کی موجوں کی طرح ہونگے

میں نے کہا

 مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا [بخاري 525]

اے امیر المومنین آپ کو ان فتنوں سے کیا ڈر ھے آپ کے اور ان کے درمیان تو ایک بند دروازہ ھے

حدیث کے راوی کہتے ہیں ہم نے حذیفہ سے پوچھا کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے تو آپ نے کہا ہاں ایسے جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے انہیں ایک حدیث سنا رکھی تھی جو کہ فضولیات میں سے نہیں تھی

پھر آپ نے کہا اس دروازے سے مراد وہ عمر ہی ہیں

03. آپ اتنے با رعب تھے کہ شیطان آپ کو دیکھ کرراستہ تبدیل کر لیا کرتا تھا

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ [بخاری 3294]

اے خطاب کے بیٹے

اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے ، تو جھٹ وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ کے رعب کی ایک مثال

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن آپ کے رعب اور ھیبت کی وجہ سے مسلسل ایک سال تک وہ مسئلہ نہ پوچھ سکا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا

مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ  [مسلم 4913]

 ایک آیت کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے ایک سال تک میں تردد میں رہا ، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا ۔ آخر وہ حج کے لئے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہولیا ، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لئے وہ پیلوکے درخت میں گئے ۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین ! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے متفقہ منصوبہ بنایا تھا ؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لئے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو ، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہوگا تو تمہیں بتادیا کروں گا ۔

آپ کے رعب کی وجہ سے قریش کی عورتیں پردوں کے پیچھے چھپنے لگیں

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی سوالات کررہی تھیں کثرت سوالات کی وجہ سے ان کی آوازیں نبی کریم کی آوازوں سے بلند ہو رہی تھیں

اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے تو وہ عورتیں جلدی جلدی پردوں کے پیچھے چھپنے لگیں اور آپ نے دیکھا کہ نبی علیہ السلام مسکرا رہے ہیں

تو نبی علیہ السلام فرمانے لگے

عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي لَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ تَبَادَرْنَ الْحِجَابَ

مجھے تعجب ہے ان عورتوں پر میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو جلدی سے پردوں کے پیچھے چھپنے لگیں

تو آپ نے کہا

  أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ

اے اللہ کے رسول آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ عورتیں آپ سے ڈریں

پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں سے مخاطب ہو کر کہا

 يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَمْ تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اے اپنی جان کی دشمنو کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ سے نہیں ڈرتی ہو

تو وہ کہنے لگیں

 إِنَّكَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  [بخاری]

آپ رسول اللہ سے زیادہ سخت ہیں

انس رضی اللہ عنہ کو اپنے غلام سیرین کے ساتھ مکاتبت نہ کرنے کی وجہ سے درہ سے مارا

أَنَّ سِيرِينَ سَأَلَ أَنَسًا الْمُكَاتَبَةَ، وَكَانَ كَثِيرَ الْمَالِ، فَأَبَى، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : كَاتِبْهُ. فَأَبَى، فَضَرَبَهُ بِالدِّرَّةِ، وَيَتْلُو عُمَرُ : { فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا } فَكَاتَبَهُ. [بخاري 2559]

جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ان کی بہن نوحہ کرنے لگی جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا اور گھر میں جو عورتیں جمع تھیں سب کو تتر بتر کردیا

بَابُ إِخْرَاجِ أَهْلِ الْمَعَاصِي وَالْخُصُومِ مِنَ الْبُيُوتِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ. وَقَدْ أَخْرَجَ عُمَرُ أُخْتَ أَبِي بَكْرٍ حِينَ نَاحَتْ  كِتَابٌ : فِي الْخُصُومَاتُ  | بَابُ إِخْرَاجِ أَهْلِ الْمَعَاصِي.

04. عمر رضی اللہ عنہ کے بعض تربیتی مشوروں سے قرآن کی مطابقت

عمر رضی اللہ عنہ کی قرآن سے موافقات کی تعداد 18 ھے

دیکھئیے تفسیر القرآن الکریم سورہ بقرہ آیت نمبر 125از شیخنا عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا مشورہ

آپ نے مشورہ دیا کہ اے اللہ کے رسول اگر آپ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں تو بہتر ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [البقرة : 125]

[ بخاري، الصلاۃ، باب ما جاء في القبلۃ… :402 ]

امھات المؤمنين کے پردے کا مشورہ

آپ نے مشورہ دیا کہ اے اللہ کے رسول آپ کے پاس نیک و بد ہر قسم کے لوگ آتے رہتے ہیں سو اگر آپ امھات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں تو بہتر ہوگا

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [الأحزاب : 53]

 اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے ۔

[ بخاري، الصلاۃ، باب ما جاء في القبلۃ… : 402 ]

امھات المؤمنين کو نبی علیہ السلام کے ناپسندیدہ کاموں سے باز رہنے کی تلقین

 انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

 ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں غیرت (رشک و رقابت) میں آپ کے خلاف اکٹھی ہوگئیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں طلاق دے دیں تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں دے دے

تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘

عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا [التحريم : 5]

اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔

[ بخاري، التفسیر، باب : «عسی ربہ إن طلقکن…» : ۴۹۱۶ ]

منافق اور مشرک کا جنازہ نہ پڑھنے کا مشورہ

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی فوت ہوا تو اس کا بیٹا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ مجھے اپنی قمیص دیجیے کہ میں اسے اس میں کفن دوں اور آپ اس پر جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا فرمائیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص دی اور فرمایا : ’’مجھے اطلاع دینا، تاکہ میں اس کا جنازہ پڑھوں۔‘‘ اس نے اطلاع دی اور جب آپ نے اس پر جنازے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا

 يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ

اے اللہ کے رسول کیا آپ ابن ابی کا جنازہ پڑھائیں گے حالانکہ اس نے اس اس طرح کی باتیں کہی ہیں( آپ کی اس کی اسلام دشمنی پر مبنی کئی باتیں دھرائیں)

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا دیا ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وحی آگئ

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ [التوبة : 84]  [ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من الصلوۃ علی المنافقین… : ۱۳۶۶۔ مسلم : ۲۴۰۰]

اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔

بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ اور قرآن

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ فرمایا

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ ان سے فدیہ لے لیا جائے۔‘‘

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول !  آپ ان کو ہمارے حوالے کیجیے، تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے اختیار فرمائی

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دوسرے دن میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی

 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’میں اس فیصلے کے مشورے کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمھارے ساتھیوں نے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق دیا تھا، اب میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی قریب تھا۔‘‘ اور آپ کے قریب ایک درخت تھا۔‘‘

 اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ [الأنفال : 67] [مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر … : ۱۷۶۳ ]

05.   عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سستی اور بدعملی سے بچانے کے لیے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک حدیث بیان کرنے سے منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی موافقت کی

ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ کو راستے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ملے انہوں نے دو جوتے اٹھا رکھے تھے آپ نے پوچھا یہ کیا ہے تو کہنے لگے

هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ

 یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ میں ہر اس شخص کوجنت کی خوشخبری سناؤں جو یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے

یہ سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ وہ پیچھے جا گرے اور کہا کہ جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس چلے جاؤ وہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور جا کر سارا واقعہ سنا دیا عمر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے پہنچ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے فرمایا

اے عمر تو نے ایسا کیوں کیا تو آپ نے کہا

 يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ نَعَمْ

اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا ہے کہ ہر اس شخص کوجنت کی خوشخبری سناؤجو یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ھاں میں نے ہی بھیجا ہے

تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے

 فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلِّهِمْ  [مسلم 147]

آپ ایسا نہ کریں مجھے خدشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے آپ انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے انہیں چھوڑ دیں

06. عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملے میں انصار کی تربیت کرتے ہیں

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو انصار کہنے لگے

 مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ

 ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک امیر تمہارا ہوگا

 یہ سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور کہا

أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ ۔ [نسائی778، مسند احمد حسن لذاتہ]

کیا تم جانتے نہیں ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پس اب تم میں سے کون پسند کرے گا کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے انہوں نے کہا ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہم ابوبکر سے آگے بڑھیں

07. عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جمع القرآن کا مشورہ دیا

جب جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظ و قراء شہید ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ ابو بكر کے پاس آئے اور قرآن جمع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا

 إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ

جنگ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر مزید جگہوں میں ایسا ہوا تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا لہذا آپ قرآن کو جمع کرنے کا اھتمام کریں

ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے

 كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں وہ کام کیسے کروں جو نبی علیہ السلام نے نہیں کیا

تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا

 هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ

قسم اللہ کی یہ خیر ھے

ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ۔ [بخاري 4679]

عمر مسلسل میرے ساتھ تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے وہی سمجھا جو عمر کہہ رہے تھے

08. عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کو نماز کی دعوت و تربیت دیتے ہیں

عمر رضی اللہ عنہ رات کو اٹھ کر جتنی اللہ چاہتا نماز پڑھتے یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ باقی رہ جاتا تو گھر والوں کو بھی اٹھاتے اور کہتے

 الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ [موطا إمام مالک]

نماز پڑھو، نماز پڑھو

پھر یہ آیت تلاوت کرتے

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى ۔[طه : 132]

اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔

09.  عمر رضی اللہ عنہ جس کام سے لوگوں کو منع کرتے اپنے گھر والوں کو اس سے بھی زیادہ سختی سے منع کرتے

سالم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ جب لوگوں کو کسی کام سے منع فرماتے تواپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور کہتے

   «إِنِّي نَهَيْتُ النَّاسَ كَذَا وَكَذَا , أَوَ إِنَّ النَّاسَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْكُمْ نَظَرَ الطَّيْرِ إِلَى اللَّحْمِ , وَايْمُ اللَّهِ , لَا أَجِدُ أَحَدًا مِنْكُمْ فَعَلَهُ إِلَّا أَضْعَفْتُ لَهُ الْعُقُوبَةَ ضِعْفَيْنِ» [مصنف ابن ابی شیبہ٣٠٦٤٣]

میں نے لوگوں کو فلاں فلاں کام سے منع کیا ہے اور  لوگ تمہاری طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے پرندے گوشت کی طرف دیکھتے ہیں

اللہ کی قسم میں نے تم میں سے کسی کو اگر یہی کام کرتے دیکھ لیا تو اسے دھری سزا دوں گا

10.   لوگوں کو شرک سے بچانے اور توحید پر قائم رکھنے کے لیے حجر اسود سے مخاطب ہوتے ہیں

 عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے

 إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ [بخاري]

میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ھے جو نفع دیتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں

 انما قال ذلک عمر لان الناس کانوا حدیثی عہد بعبادۃ الاصنام فخشی عمزان یظن الجہال ان استلام الحجر من باب تعظیم بعض الاحجار کما کانت العرب تفعل فی الجاہلیۃ فاراد عمران یعلم الناس ان استلامہ اتباع لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا کان الحجر ینفع ویضر بذاتہ کما کانت الجاہلیۃ تعتقدہ فی الاوثان [فتح الباری]

یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجر اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیساگ عہد جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے

11.   عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو قبر پرستی کے فتنے سے بچانے کی خاطر ایک نعش کے لیے تیرہ قبریں کھودنے کا حکم دیا

جب مسلمانوں نے ایران کا شہر تستر فتح کیا تو وہاں دانیال علیہ السلام کی قبر ملی تو اس کے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو آپ نے جوابا لکھا کہ دن میں تیرہ قبریں کھدواؤ اور رات میں ان میں سے کسی ایک میں ان کی لاش دفن کر دو اور ان کی قبر پر خوب مٹی ڈال دو تاکہ لوگ اس سے( قبر پرستی) کے فتنے میں نہ پڑ جائیں

[مصنف ابن ابی شیبہ، دلائل النبوۃ للبیھقی الطبقات لابن سعد]

12.  عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو شجر پرستی کے فتنے سے بچانے کے لیے بیعت رضوان کا درخت کٹوا دیا

ابن سعد صحیح سند کے ساتھ نافع سے بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس آتے ہیں جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور اس کے پاس نماز پڑھتے ہیں آپ نے ان کی گرفت کی آئندہ کیلئے متنبہ کیا اور درخت کاٹنے کا حکم دے دیا چنانچہ وہ درخت کاٹ دیا گیا

[طبقات ابن سعد]

13. عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں شور کرنے والوں کی تربیت کرتے ہیں

صحیح مسلم میں حدیث ھے

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا،

تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔

دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری ( افضل ہے)۔

ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔

تو عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور تمھارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا،

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔[التوبة : 19] [مسلم 1879]

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدِ حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

طائف سے آئے ہوئے دو شخص مسجد میں شور کررہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے اُنہیں ڈانٹ پلائی

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں مسجد میں کھڑا تھا کہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دو آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ جب میں انہیں لے آیا تو آپ نے ان سے پوچھا

مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا

تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو

 وہ کہنے لگے

مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ

ہم طائف سے آئے ہیں

آپ نے کہا

  لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [بخاري 470]

اگر تم اسی شہر کے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا اس وجہ سے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو

14.  عمر رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے میں احتیاط کی تربیت کیا کرتے تھے

ایک دفعہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ

تین مرتبہ اجازت مانگو اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کوئی گواہ پیش کرو ورنہ میں آپ کو سزا دوں گا

 فَذَهَبَ أَبُو مُوسَى

پھر ابو موسیٰ چلے گئے تو عمر وہاں موجود لوگوں سے کہنے لگے

اگر تو انہیں کوئی گواہ مل گیا تو تم شام کو انہیں ممبر کے پاس پاؤ گے اور اگر نہ ملا تو پھر نہیں پاؤ گے

شام ہوئی تو وہ ابوالطفیل کو اور ایک روایت میں ہے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے کر آ گئے جنہوں نے گواہی دی کہ ہم نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے  [مسلم 5633]

ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا کہ

مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي السِّقْطِ

کس نے نبی علیہ السلام کو پیٹ میں بچے کی دیت کے متعلق فیصلہ کرتے سنا ہے

مغیرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے

أَنَا سَمِعْتُهُ قَضَى فِيهِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ

میں نے آپ کو سنا ہے آپ نے اس کی دیت کا فیصلہ ایک غلام یا ایک لونڈی کیا تھا

تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا

ائْتِ مَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ عَلَى هَذَا

اس پر کوئی گواہ پیش کرو

محمد بن مسلمہ کہنے لگے

أَنَا أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ هَذَا

میں نبی علیہ السلام سے اسی طرح کی بات کی گواہی دیتا [بخاري]

15. عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مارکیٹ میں لوگوں کی تربیت کرتے ہیں

مالک بن اوس کہتے ہیں ایک دفعہ میں مارکیٹ گیا اور میں نے اعلان کیا کہ کون ھے جو میرے ساتھ سونے کے بدلے چاندی کی تجارت کرے

طلحہ بن عبید اللہ کہنے لگے اپنا سونا ہمیں دے دو جب ہمارا خادم آئے گا تو ہم تجھے چاندی دے دیں گے

عمر رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے آپ نے فرمایا

 كَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ

قسم اللہ کی ایسا ہرگز نہیں ہوگا یا تو اسے ابھی نقد چاندی دو یا پھر اس کا سونا واپس کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

 الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ

چاندی کی سونے کے بدلے تجارت کرنا سود ھے ہاں اگر نقد و نقد ہو تو جائز ہے

اور گندم کی گندم کے بدلے تجارت کرنا سود ھے ھاں اگر نقد و نقد ہو تو جائز ہے

اور جو کی جو کے بدلے اور کھجور کی کھجور کے بدلے تجارت کرنا سود ھے ھاں اگر نقدو نقد ہو تو جائز ہے۔ [مسلم وترمذی]

عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے

 لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ [ترمذي]

ہماری مارکیٹ میں صرف وہی تجارت کرے جو دین کی سمجھ رکھتا ہو

16. عمر رضی اللہ عنہ، لوگوں کو کفائت شعاری سکھانے کے لئے روزانہ گوشت کھانے سے منع کیا کرتے تھے

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ذبیحہ خانہ( سلاٹر ہاؤس )آتے تھے اس وقت مدینہ میں وہی ایک ذبیحہ خانہ تھا آپ کے پاس درہ ہوتا تھا اگر آپ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتے دیکھتے تو اسے درہ لگاتے اور کہتے کیا تم اپنے شکم کو اپنے پڑوسی اور چچا زاد بھائی کے لیے سمیٹ نہیں سکتے….

[الدور السياسي، مناقب امیر المومنین لابن الجوزي، سیرت عمر بن الخطاب للصلابی]

17.  عمر رضی اللہ عنہ  گودنے (جسم میں نیل بھرنے) سے منع کرتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو گودنے( جسم میں نیل بھرنے) کا کام کیا کرتی تھی

تو آپ نے کہا کس نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے

ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے کھڑے ہو کر حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 لَا تَشِمْنَ وَلَا تَسْتَوْشِمْنَ [بخاری 5946]

گودنے کا کام نہ کرو اور نہ گدواؤ

 18.عمر رضی اللہ عنہ، لوگوں کو پر تکلف کھانوں، عجمی طرز کے فیشنز اور سہل پسندی سے دور رہنے کا درس دیا کرتے تھے

ابو عثمان تابعی کہتے ہیں عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ نے آذربائیجان سے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے پرتکلف کھانہ بھیجا، میدے کی روٹیوں کے اوپر شوربا اور شوربے کے اوپر مکھن تھا آپ نے کھانہ لانے والوں سے پوچھا کہ کیا وہاں تمام مہاجرین اسی طرح کے کھانے کھاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ صرف امیر المومنین کے لیے خاص طور پر بھیجا گیا ہے، تو آپ نے عتبہ کے نام خط لکھا

 يَا عُتْبَةُ بْنَ فَرْقَدٍ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَدِّكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أَبِيكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أُمِّكَ فَأَشْبِعْ الْمُسْلِمِينَ فِي رِحَالِهِمْ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْهُ فِي رَحْلِكَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ وَلَبُوسَ الْحَرِيرَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ [مسلم]

اےعتبہ بن فرقد!تمھارے پاس جو مال ہے وہ نہ تمھاری کمائی سے ہے،نہ تمھارے ماں باپ کی کمائی سے،مسلمانوں کو ان کی رہائش گاہوں میں وہی کھانا  پیٹ بھرکے کھلاؤ جس سے اپنی رہائش گاہ میں تم خود  پیٹ بھرتے ہو اور تم لوگ عیش وعشرت سے مشرکین کے لباس اور ریشم کے پہناؤوں سے دور رہنا،کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ریشم کے پہناوے سے منع فرمایا ہے

وفی روایۃ

قَالَ اتَّزِرُوا وَارْتَدُوا وَانْتَعِلُوا وَأَلْقُوا الْخِفَافَ وَالسَّرَاوِيلَاتِ وَأَلْقُوا الرُّكُبَ وَانْزُوا نَزْوًا وَعَلَيْكُمْ بِالْمَعَدِّيَّةِ وَارْمُوا الْأَغْرَاضَ وَذَرُوا التَّنَعُّمَ وَزِيَّ الْعَجَمِ وَإِيَّاكُمْ وَالْحَرِيرَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ وَقَالَ لَا تَلْبَسُوا مِنْ الْحَرِيرِ إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعَيْهِ

[ المصدر : تخريج المسند لشاكر | الصفحة أو الرقم : 1/153 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح]

تہ بند باندھو، چادریں اوڑھ لو، سخت جوتے پہنو، نرم جوتے اور شلواریں پہننا چھوڑ دو( اس دور میں شلوار پہننا فیشن ، تکلف اور عجمی طرز سمجھی جاتی تھی )گھوڑے پر سوار ہونے والی رکاب (پائیدان) کاٹ دو اور جمپ لے کر سوار ہوا کرو معد بن عدنان کی طرح کا سخت لباس پہنو، تیر اندازی کرو،

نازو نعم اور عجمی طرز زندگی چھوڑ دو،

اور ریشم پہننے سے بچو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہننے سے منع کیا ہے

اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا :

 وعليكم بالشمس فإنها حمام العرب……… واخشوشنوا [ مسند ابی عوانہ، السنن الکبری للبیھقی، إسناده صحیح، انساب الاشراف للبلاذری]

 دھوپ میں کام کیا کرو کیونکہ وہ عربوں کا حمام ہے،اور (جسمانی طور پر ) سخت کھردرے بن جاؤ

19.   عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو بلا ضرورت اونچی عمارتیں بنانے سے منع کیا کرتے تھے

آپ رضی اللہ عنہ، لوگوں کو بلا ضرورت اونچی اونچی اور فخریہ عمارتیں بنانے سے منع کیا کرتے تھے

ایک دفعہ کوفہ اور بصرہ میں مجاہدین کے بانسوں سے بنے ہوئے چھپروں میں آگ لگ گئی صرف بصرہ میں اسی80 سے زائد چھپر جل گئے لوگ بہت پریشان ہوئے انہوں نے وفد کی شکل میں امیر المومنین سےملاقات کی اور پکی اینٹوں کے مکانات بنانے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا ٹھیک ہے تم ایسا کرلو یعنی اینٹوں کے مکانات بنا لو لیکن تین کمروں سے زیادہ نہ بنانا اور نہ ہی بہت اونچے بنانا، سنت کو لازم پکڑو اور حد اعتدال سے باہر نہ نکلو…

[ تاریخ الطبری 16/5 بحوالہ سیدنا عمر شخصیت اور کارنامے از صلابی]

20.  عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے لیے لیٹ آنے والے کی سرزنش کرتے ہیں

ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ جمعہ کے دن عمر رضی اللہ عنہ کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اصحابِ نبی اور مہاجرین اولین میں سے ایک شخص مسجد میں داخل ہوا

فَنَادَاهُ عُمَرُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ

عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آواز دے کر کہا جمعہ کے لیے آنے کا یہ کون سا وقت ھے

انہوں نے کہا

 إِنِّي شُغِلْتُ فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ التَّأْذِينَ فَلَمْ أَزِدْ أَنْ تَوَضَّأْت

میں کسی کام میں مصروف تھا  اپنے گھر بھی نہیں جا سکا اور جب میں نے آذان سنی تو صرف وضوء کیا اور مسجد آگیا ہوں

ُ آپ نے غصے سے کہا

وَالْوُضُوءُ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ

اچھا صرف وضوء ہی کیا ہے جبکہ تجھے پتا بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے [بخاری]

21.  عمر رضی اللہ عنہ نے زلزلہ آنے پر لوگوں کو نصیحت کی

سیدہ صفیہ بنت ابی عبید بيان کرتی ہیں کہ:

زُلزِلَت الأرضُ على عهد عُمر حتى اصطفَقَت السُّرُر، فخطبَ عُمرُ الناسَ فقال: "أحدَثتُم، لقد عجَّلتُم، لئن عادَت لأخرُجنَّ من بين أظهُركم”.

 وفي روايةٍ قال:

"ما كانت هذه الزلزلةُ إلا عند شيءٍ أحدَثتُموه، والذي نفسِي بيدِه؛ إن عادَت لا أُساكِنُكم فيها أبدًا”؛ [ رواه ابن أبي شيبة.]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں  اتنا شدید زلزلہ آیا کہ پلنگ آپس میں ٹکرا گئے ،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئےارشاد فرمایا: تم نے نئے نئےکام ایجاد کئے، یقیناً تم نے بہت جلدی کی۔اور اگر وہ چیزیں دوبارہ آگئیں تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

یہ زلزلہ تو جبھی آتا ہے جب تم  لوگ (دین میں) کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا (مصنف ابنِ ابی شیبہ)

(یعنی بد عقیدگی ، بدعت و بد اعمالی زلزلوں کا بنیادی سبب ہیں)

22. عمر رضی اللہ عنہ صوبوں کے گورنروں کی خوب تربیت کیا کرتے تھے

 ابو فراس کہتے ہیں ہمیں عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ خطبہ دیا اور کہا

 إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ عُمَّالِي لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ أُقِصُّهُ مِنْهُ [ابوداؤد]

میں تمہاری طرف اپنے عمال اس لیے نہیں بھیجتا ہوں کہ وہ تمہیں ماریں اور تمہارے مالوں پر قبضہ کر لیں اگر کسی کے ساتھ ایسا ہو تو وہ اپنا معاملہ میرے پاس لے آئے میں اسے بدلہ لے کر دوں گا

آپ رضی اللہ عنہ، صوبوں کے گورنروں کو پرتکلف سہولیات اور زیب و زینت سے منع کیا کرتے تھے

شام کے گورنر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کھانہ کھانے گئے تو دیکھا کہ کچھ پردے لٹک رہے ہیں، آپ انہیں پھاڑنے لگے اور کہتے تیرا برا ہو کیا تم دیواروں کو وہ کپڑا پہناتے ہو کہ جس کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے انسانوں کو ضرورت ہے…

[تاریخ المدینہ 832/3،الولاية علی البلدان 128/2]

عياض بن غنم رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنایا تو انہوں نے وہاں اپنے لیے ایک اعلی قسم کا حمام بنایا، عمر رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو آپ نے انہیں بلا کر دو ماہ کے لیے بیت المال کی بکریاں چرانے پر مقرر کر دیا…

[الولاية علی البلدان 130/2]

موطا امام مالک میں ھے آپ نے گورنروں کی طرف نمازوں کے اوقات لکھ کر بھیجے

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ: ” إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ. فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ. وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ، ثُمَّ كَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّهْرَ، إِذَا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا، إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ [ص: ٧] مِثْلَهُ. وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ ". وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ

عمر رضی اللہ عنہ گورنروں سے شرائط طے کیا کرتے تھغیر عربی النسل گھوڑے پر سوار نہیں ہونگے

میدے کی روٹی نہیں کھائیں گے

باریک لباس نہیں پہنیں گے

مسلمانوں کی ضروریات کے سامنے اپنے گھر کا دروازہ بند نہیں کرو گے

پھر فرماتے اے اللہ تو گواہ رہ

[سیرت عمر از صلابی ص520]

منی لانڈرنگ اور کرپشن سے روکنے کے لیے گورنروں کو تجارت سے منع کردیتے

ان کی تقرری سے پہلے ان کے اموال و جائیداد کی پڑتال کرلیتے تاکہ عہدہ سنبھالنے کے بعد آمدنی میں غیر معمولی زیادتی پر محاسبہ کیا جا سکے پھر اگر وہ کہتا کہ یہ میری تجارت کی وجہ سے ھے تو آپ اسے قبول نہ کرتے اور کہتے کہ میں نے تجھے گورنر بنا کر بھیجا تھا تاجر بنا کر نہیں بھیجا

[الصلابی ص520]

گورنروں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب کبھی واپس مدینہ منورہ آنا ہو تو شہر میں دن کے وقت داخل ہوں رات کو داخل نہ ہوں آپ کا مقصد یہ تھا کہ وہ جو کچھ بھی مال و اسباب لے کر آئیں وہ سامنے رہے اور اس کے متعلق استفسار و احتساب آسان رہے [صلابی ص 544]

عمر رضی اللہ عنہ نے حج کے اجتماع کو جنرل اسمبلی یا کھلی کچہری میں تبدیل کر رکھا تھا اور یہ اعلان کر رکھا تھا کہ جس کسی کو بھی اپنے گورنر سے کوئی شکایت ہے تو وہ حج کے لیے آئے اور سب کے سامنے اپنی شکایت بیان کرے

23. عمر رضی اللہ عنہ غیر مسلموں کو عھدے دینے سے منع کیا کرتے تھے

ابن ابی حاتم میں صحیح سند کے ساتھ ذکر  ہے کہ عمر بن خطاب (رض) سے کہا گیا کہ اہل حیرہ سے ایک نوجوان راز محفوظ رکھنے والا، کاتب ہے، آپ اسے کاتب (سیکرٹری) رکھ لیں۔

تو آپ نے فرمایا :

 ” پھر تو میں مومنوں کے سوا ” بطانۃ “ (راز دار) بنانے والا ہوں گا۔ “

 [ ابن أبی حاتم : ٣؍١٤٧، ح : ٤٠٨٧ ]

ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں :

 ” میں نے عمر (رض) سے کہا، میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے۔ “

تو انھوں نے فرمایا :

” اللہ تجھے مارے، یہ تم نے کیا کیا ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا :

 ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ ) [ المائدۃ : ٥١ ]

 ” تم نے کسی مسلمان کو کیوں نہیں رکھا ؟ “

میں نے عرض کی :  ” اے امیر المومنین ! مجھے اس کی کتابت سے غرض ہے، اس کا دین اس کے لیے ہے۔ “

عمر (رض) نے فرمایا : ” جب اللہ نے انھیں رسوا کردیا ہے تو میں ان کی تکریم نہیں کرسکتا، جب اللہ نے انھیں ذلیل کیا ہے تو میں انھیں عزت نہیں دے سکتا، جب اللہ نے انھیں دور کردیا ہے، تو میں انھیں قریب نہیں کرسکتا۔ “

[ السنن الکبریٰ للبیہقی : ١٠؍١٢٧، ح : ٢٠٤٠٩]

” اس لیے انتظامی امور میں کسی منافق یا غیر مسلم (ذمی) کو متعین کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے راز فاش ہونے کا خطرہ ہے

24. عمر رضی اللہ عنہ بستر مرگ پر بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے رہے

جب آپ کے پیٹ میں خنجر لگا تو حالت یہ تھی کہ جو کچھ بھی کھاتے اور پیتے تھے وہ سب پیٹ کے راستے باہر نکل جاتا تھا

شدت کی تکلیف تھی

لوگ آپ کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے

اسی حالت میں ایک نوجوان آپ کی عیادت کے لیے آیا تھوڑی دیر بیٹھا پھر واپس جانے کے لیے اٹھا تو آپ نے دیکھا کہ اس کی چادر زمین کو چھو رہی تھی

یہ دیکھ کر آپ نے کہا

رُدُّوا عَلَيَّ الْغُلَامَ

اس جوان کو واپس بلاؤ

 پھر اسے کہا

  يَا ابْنَ أَخِي ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ وَأَتْقَى لِرَبِّكَ

 اے میرے بھائی کے بیٹے اپنا کپڑا اٹھاؤ اس سے آپ کا کپڑا بھی دیر تک باقی رہے گا اور یہ اللہ رب العزت سے زیادہ ڈرنے والی بات ہے  [بخاري]

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر لگا تو آپ کی بیٹی حفصہ اور صہیب رضی اللہ عنہما نوحہ کرنے لگے آپ نے انہیں منع کرتے ہوئے کہا

 يَا حَفْصَةُ أَمَا سَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ وَعَوَّلَ عَلَيْهِ صُهَيْبٌ فَقَالَ عُمَرُ يَا صُهَيْبُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ [مسلم]

عول کا معنی ہے نوحہ کرنا

جس کی موت پر نوحہ کیا گیا وہ عذاب دیا جائے گا

25. عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سخت قانون لاگو کرتے ہوئے کہا اگر ایک شخص کے قتل میں پورا قبیلہ شریک ہوا تو پورے قبیلے کو قتل کیا جائے گا

ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک لڑکا پراسرار طریقے سے قتل ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا

  لَوِاشْتَرَكَ فِيهَا أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ

اگر اس کے قتل میں صنعاء کے تمام لوگ شامل ہوئے تو میں سب کو قصاصا قتل کردوں گا [بخاری]

26.   عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نکاحِ متعہ سے منع کرتے ہوئے سخت سزا مقرر کی

آپ نے کہا

فَلَنْ أُوتَى بِرَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً إِلَى أَجَلٍ إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ [مسلم]

اگر کوئی ایسا آدمی پکڑا گیا جس نے متعین مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کیا تو میں اسے رجم کروں گا

27.  عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق علی رضی اللہ عنہ کے تاثرات

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب عمر رضی اللہ عنہ کی میت کو چارپائی پر رکھا گیا تو میں اس کے پاس کھڑا تھا لوگ آپ کے لیے دعائیں کررہے تھے اچانک ایک شخص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے

علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا

مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

اے عمر آپ کے بعد روئے زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے متعلق مجھے پسند ہو کہ میں اس جیسے اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کروں

مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں کے ساتھ ملائے گا

کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ

میں ابوبکر اور عمر گئے

میں ابو بکر اور عمر داخل ہوئے

میں ابوبکر اور عمر نکلے

بخاري 3685