انبیاء کرام علیہم السلام کا سیاسی کردار

==============

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ  (بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،3455)

بنی اسرائیل کےانبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتےتھے،جب بھی ان کاکوئی نبی ہلاک ہوجاتا تو وہ دوسرے ان کی جگہ  آموجود ہوتے،لیکن یادر رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے کا۔ہاں میرےنائب ہوں گے اوربہت ہوں گے ۔صحابہ نےعرض کیا کہ ان کےمتعلق آپ کاہمیں کیا حکم ہے۔آپ نےفرمایا کہ سب سےپہلے جس سے بیعت کرلو ، بس اسی کی وفاداری پرقائم رہو اوران کاجوحق ہےاس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالی  ان سے قیامت کےدن ان کی رعایا کےبارےمیں سوال کرےگا

سیاست کا مطلب ہے :

 کسی معاشرے یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہو۔  (نهايه، لابن اثير)

انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کی یہی سیاست تھی

نوح علیہ السلام نے

جہاں لوگوں کو ( اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا)کے ذریعے ایک رب کی طرف دعوت دی وہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے اور امت کے وسیع تر مفاد کے لیے

(وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ) [هود : 38]

اور وہ کشتی بناتا رہا

اور زمینی حیات کے بقاء کے لیے

 قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ [هود : 40]

 ہم نے کہا اس میں ہر چیز میں سے دو قسمیں (نر و مادہ) دونوں کو اور اپنے گھر والوں کو سوار کر لے

کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے رہتی دنیا تک حفاظتی اقدامات کا بہترین نمونہ چھوڑا بلکہ اپنی کشتی میں چند مومنین کو جمع کرکے بقاءِ نسلِ انسانی کا ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا کہ آدمِ ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے

داؤد علیہ السلام

 اگر ایک طرف کتاب کی تعلیم و تعلم سے منسلک نظر آتے ہیں

 وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا [النساء : 163]

 اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔

تو دوسری طرف جنگی سازوسامان دفاعی ہتھیار اور آلاتِ حرب و ضرب کی تیاری بلکہ ایجاد میں مصروف ملتے ہیں

وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ [الأنبياء : 80]

اور ہم نے اسے تمھارے لیے زرہ بنانا سکھایا، تاکہ وہ تمھاری لڑائی سے تمھارا بچاؤ کرے۔ تو کیا تم شکر کرنے والے ہو؟

چنانچہ آپ نہایت ہلکی اور عمدہ زرہیں بنانے کے موجد ہیں۔ آپ کے لیے سب سے پہلے لوہے کی بھٹی ایجاد کرنے، اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور سب سے پہلے زرہیں بنانے کا اور اس بات کا شرف بھی کچھ کم نہیں کہ بعد میں آنے والوں نے انھی سے یہ ہنر حاصل کیے

سورہ سبا میں ہے اللہ تعالیٰ نے داود علیہ السلام کو حکم دیا

أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [سبأ : 11]

یہ کہ کشادہ زرہیں بنا اور کڑیاں جوڑنے میں اندازہ رکھ

 وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ کا مطلب ہے چھوٹی بڑی نہ ہوں، نہ ایسی کھلی ہوں کہ جوڑ زیادہ حرکت کرتے رہیں، نہ اتنی تنگ ہوں یا کیل اتنے موٹے ہوں کہ آدمی انھیں پہن کر حرکت ہی نہ کر سکے۔ بلکہ ہر کڑی اور ہر جوڑ جسم میں اس کی جگہ درست بیٹھے اور آپس میں صحیح طریقے سے مرتب ہو

قرآن میں جہاں

  داؤد علیہ السلام کے معجزات کا تذکرہ ملتا ہے

وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ [انبیاء 79]

اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کومسخر کر دیا، جو تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی

وہاں یہ تذکرہ بھی ضرور ملتا ہے کہ آپ قومی و ملی دفاع و بقا کے لیے حاکم وقت کے ساتھ مل کر دشمن سے برسرپیکار رہے، آپ بہترین جنگی کمانڈر اور دشمن کے لیے موت کا پیغام تھے

 وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ [البقرة : 251]

 اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا

جہاں  داؤ علیہ السلام ایک بہت بڑے عالم نظر آتے ہیں

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا [النمل 15]

اور بلاشبہ یقینا ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا

وہاں بیٹھکوں، پنچائیتوں، جرگوں، ثالثی مصالحتی کونسلوں اور عدالتوں میں لوگوں کے متنازعہ مسائل کے فیصلے کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ  [ص 26]

اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر

*داؤد اور سلیمان علیہما السلام

لوگوں کے مسائل حل کیا کرتے تھے*

جس کی ایک مثال  قرآن میں ہے

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ [الأنبياء : 78]

اور داؤد اور سلیمان کو، جب وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے، جب اس میں لوگوں کی بکریاں رات چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے۔

 ابن جریر نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا :

 ’’یہ انگور کی بیلیں تھیں جن کے گچھے نکل چکے تھے، جنھیں بھیڑ بکریوں نے اجاڑ دیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام نے فیصلہ فرمایا کہ بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں کے مالک کو دے دی جائیں، تو سلیمان علیہ السلام نے کہا : ’’اے اللہ کے نبی! اس کا فیصلہ اور ہے۔‘‘ انھوں نے پوچھا : ’’وہ کیا ہے؟‘‘ عرض کی: ’’آپ انگور کی بیلیں بھیڑ بکریوں والے کے حوالے کر دیں، وہ ان کی نگہداشت کرے جب تک وہ دوبارہ پہلے جیسی نہ ہو جائیں اور بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں والے کے حوالے کر دیں، وہ اس وقت تک ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور جب انگوروں کی بیلیں پہلی حالت پر لوٹ آئیں تو آپ انگوروں کی بیلیں اس کے مالک کے سپرد اور بھیڑ بکریاں اس کے مالک کے سپرد کر دیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا۔‘‘  [ مستدرک : 588/2، ح : ۴۱۳۸ ]

دوسری مثال  حدیث میں بیان ہوئی ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان علیہ السلام کے کمال فہم و ذکاوت کا ایک اور واقعہ روایت کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

  ’’دو عورتیں تھیں جن کے پاس ان کے بیٹے تھے۔ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا۔ وہ اپنی ساتھی عورت سے کہنے لگی کہ وہ تو تمھارا بیٹا لے گیا ہے۔ دوسری کہنے لگی، وہ تمھارا بیٹا ہی لے گیا ہے۔ چنانچہ وہ دونوں فیصلے کے لیے داؤد علیہ السلام کے پاس گئیں۔ انھوں نے اس کا فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا۔ دونوں جاتے ہوئے سلیمان بن داؤد علیھما السلام کے پاس سے گزریں تو انھیں یہ بات بتائی، انھوں نے فرمایا : ’’میرے پاس چاقو لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان چیر دوں۔‘‘ تو چھوٹی نے کہا : ’’ایسا نہ کریں، اللہ آپ پر رحم کرے، یہ اسی کا بیٹا ہے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے اس کا فیصلہ چھوٹی کے حق میں کر دیا۔‘‘

[بخاري، الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی : « ووھبنا لداوٗد سلیمان … » : ۳۴۲۷۔ مسلم : ۱۷۲۰۔ نسائی : ۵۴۰۵ ]

سلیمان علیہ السلام نے

جہاں اپنے ایک خط میں

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ * أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ)

لکھ کر غیر مسلم اقوام کو اسلام کی دعوت پیش کی

اور قرآن نے جہاں

 ان کے پرندوں کی بولیاں سمجھنے، ہواؤں کے تابع ہونے، اور جنوں کے مسخر ہونے کا تذکرہ کیا ہے

وہاں

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام فنِ تعمیر، صنعت کاری اور انڈسٹریل پروجیکٹس کے نہ صرف ماہر تھے بلکہ اس کے فروغ کے لیے بھی کوشاں تھے

يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ [سبا، 13]

وہ اس کے لیے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عمارتیں اور مجسّمے اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں

اس آیت میں (ما یشاء) کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ سلیمان علیہ السلام کے پاس ان تعمیری منصوبوں کی مزدوری کے لیے بڑے بڑے طاقت ور جن اور انسان موجود تھے لیکن اصل مینجر، پلینر، ڈیزائنر، ماسٹر مائنڈ اور انجینئر خود سلیمان علیہ السلام ہی تھے

جنگی ضروریات کی تیاری اور فراہمی سے انھیں خاص دلچسپی تھی چنانچہ گھوڑوں کی دوڑ کرواتے ہر قسم کا عمارتی سامان پتھر، مرمر، لکڑی اور لوہا وغیرہ مہیا کرتے اور ان کے ساتھ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے۔ ان عمارتوں میں مسجد اقصیٰ کی عمارت بھی شامل تھی

سلیمان علیہ السلام اپنی افواج اور عوام کا کھانہ پکانے کے لیے تانبے کی یا پہاڑوں کو تراش کر پتھر کی اتنی بڑی بڑی دیگیں تیار کرواتے تھے جو ایک ہی جگہ جمی رہتیں۔ انھیں اٹھا کر دوسری جگہ لے جایا نہیں جا سکتا تھا۔ ان میں سے ہر دیگ میں ہزاروں آدمیوں کا کھانا پکتا تھا اور اتنے بڑے بڑے لگن یا تھال بناتے تھے جو حوضوں کی طرح لمبے چوڑے ہوتے، جن پر ایک وقت میں بہت سے آدمی کھانا کھا لیتے تھے

موسی علیہ السلام اور سیاست

موسی علیہ السلام اگر ایک طرف

 فرعون کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے ہوئے

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا [الشعراء : 24]

کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تعارف کروارہے تھے

تو دوسری طرف

 فرعون اور اس کے حواریوں کے سامنے پوری شدومد کے ساتھ اپنی قوم کا مقدمہ بھی لڑ رہے تھے

موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں (فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ)[طه : 47]

 تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے

کہہ کر نہ صرف یہ کہ قوم کی آزادی کی جنگ لڑی بلکہ  وَلَا تُعَذِّبْهُمْ  کا جملہ بول کر فرعونیوں کے ظالمانہ چہرے کو بے نقاب بھی کیا

اگر ایک طرف قوم کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے رہتے تھے

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو

 دوسری طرف

فرعونی مظالم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں

اور یوں موسی علیہ السلام اپنی قوم میں ایسے مقبول، مضبوط اور عوامی  لیڈر کے طور پر تسلیم ہوئے کہ جب اللہ تعالی نے قوم سمیت ہجرت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا

فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ [الدخان : 23]

پس میرے بندوں کو رات کے کسی حصے میں لے جا،بے شک تم پیچھا کیے جانے والے ہو۔

تو موسی علیہ السلام نے پورے مصر کے بنی اسرائیل کے لیے ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کردی جس پر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون کی سلطنت (مصر) سے نکل جانے کے لیے رات کو روانہ ہوگئے۔

لیکن آفرین ہے موسی علیہ السلام کی قیادت پر، کیا کمال قیادت تھی اتنے بڑے ملک سے اپنی قوم کے ایک ایک فرد کو اکٹھا کیا اور پھر سب کو لے کر چل نکلے

 باوجود اس کے کہ وہ لوگ فرعونیوں کے گھروں بازاروں اور کھیتوں میں کام کرتے تھے مگر فرعونیوں کو اس عظیم منصوبے کی کانوں کان خبر نہ ہوسکی اور انہیں پتہ ہی تب چلا جب یہ سارے لوگ راتوں رات نکل چکے تھے

معلوم ہوا موسی بہت زبردست لیڈر تھے اور قوم میں ان کی بات کو سنجیدگی اور اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا

موسی علیہ السلام جہاں

 قوم کو بچھڑے کی پوجا کی بنا پر ڈانٹتے ہوئے ملتے ہیں

 وہاں

 اسی قوم کو سمندر اور فرعونی افواج کے درمیان پھنسے ہوئے حالتِ خوف میں مبتلاء دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں

 كَلَّا‌‌ ۚ اِنَّ مَعِىَ رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ

الشعراء – آیت 62

موسی علیہ السلام کی سیرت میں ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا معاشرتی پہلو بخوبی نظر آتا ہے

قبطی اور بنی اسرائیلی کے درمیان لڑائی ہوتے دیکھی تو کمزور اسرائیلی کی مدد کے لیے آگے بڑھے

شائد کسی کے دل میں اعتراض پیدا ہو کہ اسرائیلی چونکہ موسی کی قوم سے تھا اس لیے مدد کرنا ضروری سمجھا

لیکن ہم عرض کرتے ہیں کہ انبیاء کا کردار قومیت کی بجائے انسانیت کے گرد گھومتا ہے ورنہ مدین کی دو کمزور عورتیں نہ تو قوم موسی سے تعلق رکھتی تھیں اور نہ ہی دیگر چرواہوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت تھی مگر کلیم اللہ کو دیکھیں کہ بھوکا، تھکا، پردیسی مسافر، بے لوث ہوکر جانوروں کو پانی پلانے کی خاطر کنویں سے بھاری ڈول کھینچ لاتا ہے

کبھی پیاسی قوم کیلئے لاٹھی مار کر پتھر سے پانی نکال رہے ہیں

کبھی پھنسی قوم کے لیے لاٹھی مار کر دریا میں راستے بنارہے ہیں

کبھی مُکَّا مار کر ظالم کو مظلوم سے پَرے دھکیل رہے ہیں

کبھی بوکا کھینچ کر پیاسے جانوروں کو سیراب کررہے ہیں

خضر علیہ السلام  بھی اللہ کے نبی تھے

معاشرے سے ربط، حالات پر نظر، عوام کے خیر خواہ اور ماحول سے ایسے باخبر کہ سمندر کی باتیں ملاحوں سے زیادہ معلوم تھیں

کشتی پر سوار ہوئے تو یہ جانتے ہوئے کہ دوسری جانب کا حاکم غاصب ہے، کشتی میں سوراخ کر دیا تاکہ مساکین کا روزگار متاثر نہ ہو

ایک بستی میں مقیم ہوئے تو باوجود اس کے کہ انہوں نے مانگے سے بھی کھانہ پانی تک نہیں دیا

 بھوکے بھی تھے پیاسے بھی تھے

 پردیسی بھی تھے اجنبی بھی تھے

 تھکے بھی تھے

مگر حالت یہ تھی کہ مانند مزدور تعمیرِ دیوار میں مصروف ہوگئے فقط اس لیے کہ اُس کے نیچے یتیم بچوں کا خزانہ چھپا ہوا تھا

یوسف علیہ السلام

یوسف علیہ السلام انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں ایک نمایاں پیغمبر کی حیثیت رکھتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثال حسن عطا کر رکھا تھا اور کمال یہ تھا کہ حسن کے باوجود عفت و عصمت کے پیکر ہونے میں بھی بے نظیر تھے

خوابوں کی تعبیر میں مہارت رکھتے تھے خلوت و جلوت میں اللہ سے ڈرنے والے تھے

آپ کی زندگی اور سیرت طیبہ سے

 ایک طرف ہمیں یہ ملتا ہے کہ آپ جیل کے قیدیوں کو

يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ  [يوسف : 39]

اے قید خانے کے دو ساتھیو! کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے؟

کے بہترین انداز میں توحید الہی کی دعوت دے رہے ہیں

تو دوسری طرف

 ایسے بھی ہوتا ہے کہ وہی یوسف علیہ السلام اپنے خاص علم تعبیرالرؤیا کے ذریعے نہ صرف جیل کے قیدیوں بلکہ بادشاہِ وقت کی پریشانی کا تدارک کررہے ہیں

یوسف علیہ السلام بیک وقت داعی، مبلغ، معبر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ماہر معاشیات بھی تھے

آپ نے جب یہ بھانپ لیا کہ آئندہ میری قوم کو شدید قحط سالی سے واسطہ پڑنے والا ہے تو یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے اندر ایسے حالات کا سامنا کرنے کی استعداد نہیں ہے فوراً اپنے آپ کو نگرانِ خزانہ بنائے جانے کے لیے پیش کیا

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ [يوسف : 55]

اس نے کہا مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دے، بے شک میں پوری طرح حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔

پھر

إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ

مگر تھوڑا سا وہ جو تم کھالو

کے کُلیے سے

قوم کو فضول خرچی سے بچنے اور میانہ روی بلکہ گزارے کے کھانے پر قانع رہنے کی تربیت دیتے ہیں تاکہ پہلے سات سالوں سے اگلے سات سالوں کے لئے کچھ بچایا جا سکے

پھر یہیں پر بس نہیں کردی جمع شدہ خوراک کو محفوظ کرنا الگ سے ایک مسئلہ تھا چونکہ سات سال کا عرصہ لمبا پیریڈ ہے اتنے وقت میں کھانے پینے کی اشیاء ایکسپائر ہوجاتی ہیں ذخیرہ شدہ خوراک کے ضائع ہونے کا امکان تھا آج تک کوئی کولڈ اسٹور یا گودام ایسا ایجاد نہیں ہو سکا جس میں کسی خوراک کو سات سال تک محفوظ رکھنے کی اہلیت ہو

مگر ترکیبِ یوسفی ملاحظہ فرمائیں

آپ نے حکم دیا

فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ

تو جو کاٹو اسے اس کے خوشے میں رہنے دو،

سبحان اللہ، قحط سالی کے بے رحم اژدھا کے سامنے پڑی قوم کے لیے آج سے ہزاروں سال پہلے یوسف علیہ السلام نے گندم کو گھن، سسری اور کیڑے وغیرہ سے محفوظ رکھنے کا ایسا بہترین طریقہ بتایا کہ جدید ترین ماہرین بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

اور اس پر مستزاد یہ کہ ہر طبقہ کے لوگوں تک ترسیلِ خوراک کا انتظام ایسے اسلوب سے مرتب کیا کہ سات سالوں میں بھوک کی وجہ سے کسی ایک انسان کی موت بھی واقع نہیں ہوئی آج جدید اور فاسٹ دنیا اتنا عظیم الشان معاشی پراجیکٹ پیش کرنے سے قاصر ہے

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

کامیابی کے جتنے عنوان ہیں سب اللہ کے رسول سے منسلک ہیں، آپ نے زندگی کے ہر پہلو تعلیم ، ترقی ، قانون، اخلاق ، سماج ، محنت ، صفائی وغیرہ اور سب سے زیادہ ذاتی کردار کا ایک معیار بتایا اور ان خوبیوں کی مالک ایک قوم بنائی

اور یہی وہ معیار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہترین نمونہ قرار دیا

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [احزاب، 21]

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدنیا کے سامنے ایک الگ سیاسی طرز زندگی رکھا، جس میں دنیوی شاہانہ اسٹائل کے بجائے دعوت و اصلاح  اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا، لیکن اس بے تکلفی اور سادگی میں ایسا دبدبہ تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر آپ کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا

یہی وہ امتیازی وصف ہے جسے آپ نے نصرت بالرعب سے تعبیر کیا

مجھے اپنے نبی کی نبوت سے قبل 40 سالہ زندگی میں ایک طرف

امانت، صداقت اور دیانت نظر آتی ہے

ایسی صداقت کہ کوہ صفا پر کھڑے ہوتے ہیں تو قوم سے پوچھتے ہیں، اے میری قوم کے لوگوچالیس سالہ زندگی میں میری زبان سے کبھی جھوٹ سنا ہے  تو سب بیک آواز نفی میں جواب دیتے ہیں

عفت و عصمت اور شرم و حیا کے ایسے عظیم پیکر کے کنواری پردہ نشین عورتیں بھی آپ سے حیا کا سبق سیکھتی تھیں

دوسری طرف

چوری، ڈاکے، رہزنی اور بدامنی کے تدارک کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں

نصرالمظلوم کے لیے کوشاں ہیں مکے کے ایک ایک سردار کے پاس جاکر ملاقاتیں کرتے ہیں اور آمادہ کرتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کی جائے اور ظالم کو روکا جائے سب کو ایک حویلی میں اکٹھا کرتے ہیں مختلف معاہدوں پر دستخط لیتے ہیں تاریخ آج بھی اس معاہدے کو حلف الفضول کے نام سے یاد کرتی ہے

قربان جاؤں کیسے بے لوث لیڈر تھے معاہدے کے اصل روحِ رواں خود تھے لیکن معاہدے کے نام کی جو تختی بنی، سجی،اور لکھی گئی وہ (حلف الفضول) یعنی سرداروں کے نام کی تھی تاکہ اور کچھ نہیں تو نام کی خاطر ہی میرے ساتھ وابستہ رہیں اور اسی بہانے یہ معاہدہ قائم و دائم رہے

میرے نبی جس قوم میں مبعوث ہوئے تھے وہ نہ صرف یہ کہ امی قوم تھی بلکہ قومًا لُدَّا کے لقب سے ملقب تھی

ایسی جھگڑالو کہ ساری دنیا کی دولت خرچ کرنے سے بھی ان کے درمیان اتحاد و یگانگت امر محال تھا

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا

 لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ  [انفال، 63]

 اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا

مگر قربان جائیں سوہنے نبی کی حسن تدبیر پر کہ کیسے ان شتربانوں کو جہاں بان بنا دیا صدیوں سے بکھرے ہوئے وحشی، اجڈ اور تہذیب و تمدن سے عاری قبائلِ متنافرہ کو چند سالوں میں ایسے یکجا کیا کہ وہی جو الالد الخصم تھے جسد واحد بن کر بنیانِ مرصوص کا منظر پیش کرنے لگے

مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا

قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

قرآن میں دیکھتے ہیں تو جہاں

 نظر آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بالمعروف نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور لوگوں کو حلال اور حرام کے متعلق بتا رہے ہیں

 وہاں

 آپ ایک سیاسی، سماجی اور سوشل ذمہ دار کی حیثیت سے لوگوں کے بوجھ ہلکے کرنے، طوق اتارنے اور دکھ درد بانٹنے کی ذمہ داری بحسن خوبی نبھا رہے ہیں

 وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ [الأعراف : 157]

 اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔

اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ نے انہی اوصاف کی گواہی میں فرمایا تھا

إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ  (بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ،3)

 آپ اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

مولانا حالی کے بقول

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا  غریبوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولا

میرے نبی کی سیرت میں اہل مکہ کو دعوتِ توحید (لا الہ الا اللہ) کا سنہری باب موجود ہے اسی دعوت کی بنا پر کفار مکہ آپ کی جان کے درپے ہو چکے تھے

مگر پھر بھی جان کے ان دشمنوں کے ساتھ تعلقات کی کیفیت یہ تھی کہ جس رات آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا اور آپ کی گرفتاری پر 100 اونٹ انعام رکھا گیا تھا

اسی رات آپ اس فکر میں تھے کہ ان کی امانتیں ان تک واپس لوٹانے کا انتظام کیونکر ممکن ہے بالآخر چاروں طرف منڈلاتے خطرات کے بیچوں بیچ اپنے چچازاد بھائی کو یہ ذمہ داری تفویض کرتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے

 ایک بار پھر سیاست  کی تعریف دہرائے دیتا ہوں

تاکہ آپ کی سیاسی زندگی سمجھنے میں آسانی رہے

کسی معاشرے یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہو۔  (نهايه، لابن اثير)

آپ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کی عوام کئی طرح کے مسائل سے دوچار تھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط پانچ چھے سال کی قلیل مدت میں ان سب مسائل کا حل پیش کر دیا

مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا پہلے دن ہی اس عظیم منصوبہ کی بنیاد رکھ دی تعمیرِ مسجد میں ایک عام مزدور کی طرح حصہ لیا

یہ مسجد جہاں نماز، روزے، وضو اور طہارت کے مسائل سکھانے کا مرکز تھی وہاں اسی مسجد میں بیٹھ کر تسخیرِ عالم، دفاعِ مدینہ، فلاح انسانیت، سوشل کرائمز کی بیخ کنی، نصرالمظلوم، اور انسداد دہشت گردی کی مشاورت بھی ہوتی تھی

اگر اسی مسجد سے حج و عمرے کے قافلے نکلتے تھے تو یہی وہ مسجد تھی جہاں سے جہادی لشکر مُشَکَّل ہوتے تھے

مدینہ میں واٹر سپلائی کا مسئلہ بنا پورے شہر میں ایک ہی کنواں تھا اور وہ بھی یہودی کے قبضہ میں تھا قوم کی پریشانی دیکھ کر نبی الرحمۃ کنویں کو خریدنے اور وقف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں آپ کے کہنے پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کنواں خریدا اور لوگوں کے لئے فی سبیل اللہ وقف کر دیا

بھوکوں کے لیے تگ ودو کرتے تھے کمزوروں کی مدد کرتے تھے یتیموں کا خیال رکھتے تھے مسکینوں پر دست شفقت رکھتے تھے

آپ نے اعلان کر رکھا تھا اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو اس قرضے کی ادائیگی میں خود کروں گا لیکن اگر کوئی فوت ہو جائے اور ورثے میں جائیداد مال و متاع چھوڑ جائے تو میں اس سے کچھ بھی نہیں لوں گا

معاشرے سے مضبوط تعلق کی حالت یہ تھی کہ لوگ اپنے اور اپنی اولاد کے رشتے طے کرنے کے لئے مشورہ کیا کرتے تھے

غلاموں کے ساتھ مکاتبت کے لئے ترغیب دیا کرتے تھے اور جو غلام مکاتبت کرتا اس کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے

بچوں کے حالات وواقعات اور مسائل سے بھی خوب واقف رہتے تھے حتی کہ یہودیوں کا ایک بچہ بیمار ہو گیا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چھوٹے بچے کی تیمارداری کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے

جانوروں کی بھوک پیاس اور ضروریات کا خیال رکھتے جانور کی طاقت سے زیادہ لوڈنگ نہ ہونے دیتے

 انہیں کھلانے پلانے اور آرام پہنچانے کی ترغیب دیتے

مدینہ میں رہتے ہوئے یہود کی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہود کو ایک معاہدے کے ذریعے پابند کر لیا

مدینہ تشریف لائے تو دیکھا اوس اور خزرج یہودیوں کے سودی جال میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں سالہا سال سے مقروض چلتی آئی قوم کو ایسے احسن طریقے سے سود کے چنگل سے آزاد کیا کہ بڑے بڑے معیشت دان دھنگ رہ گئے

کسی رات مدینہ میں کچھ آہٹ ہوئی، سمجھا گیا شاید دشمن حملہ آور ہوا چاہتا ہے  لوگ ابھی دفاع کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور سے ایک شاہ سوار گھوڑے کی ننگی پشت پر دوڑتا ہواقریب آیا لوگوں نے دیکھا تو حیرانگی کی انتہا ہوگئی کوئی عام شخصیت نہیں تھی بلکہ جناب محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے   گھبراہٹ زدہ امت کو دلاسہ دینے لگے کہ ڈرو نہیں،ڈرو نہیں آرام سے سو جاؤ آرام سے سوجاؤ دشمن کا کوئی خطرہ نہیں ہے میں سرحد کا چکر لگا آیا ہوں [بخاری 2908]

اسے کہتے ہیں نڈر اور بے لوث قیادت

 آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اسی میں استراحتِ شب فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے کرتے

نرم دل اتنے کہ خدمت کرنے والے انس (رضی اللہ عنہ) کو دس سالوں میں ایک بار بھی اف تک نہیں کہا

مگر

معاشرتی امن و استحکام کے لیے ایسے سخت گیر کہ مخزومیہ سارقہ کی سفارش کے لیے آنے والے بڑے بڑے قدآوروں کو شدید رد عمل دیتے ہوئے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا

پیمانہ ایسا باریک رکھا کہ انصاف کے راستے میں سفارش، رشوت اور اقربہ پروری کے تمام دروازے بند کر دیئے

فرمایا

 وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا  (بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،3475)

 اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

میرے نبی کا کمالِ عبودیت اور وفورِ شوقِ عبادت دیکھئیے

 نوافل کا اہتمام اور طوالتِ قیام اس قدر زیادہ  حتیٰ کہ

تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ

 آپ کے قدم پھٹ جاتے

اماں جی عائشہ رضی اللہ عنہا استفسار کرتیں تو جواب ملتا

أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أَكُوْنَ عَبْدًا شَكُوْرًا؟

’’تو کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟‘‘  (بخاري، ۴۸۳۷)

مگر

 جب غیرملکی وفد ملنے کے لیے آیا تو مختلف قومی، ملی، سیاسی اورعسکری امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ظہر کے بعد کے نوافل عصر کے بعد ادا کر رہے ہیں

میرے نبی صلح حدیبیہ کے موقع پر بعض اپنے ساتھیوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی کفار کی سخت سے سخت شرائط کو تسلیم کرتے رہے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آپ انتہائی پریشرائزڈ ہوں

بہت سے لوگ انگشت بدندان تھے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کفار کی ہر شرط تسلیم کیے جا رہے ہیں

مگر میرے نبی کی دور رس نگاہیں  ہر صورت اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی تھیں

پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد لوگوں نے دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے اس صلح کے خوشگوار اثرات دیکھے تو وہ بھی مطمئن ہو گئے اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاسی وعسکری مہارت میں یدطولی رکھتے ہیں

اللہ تعالی نے اس معاہدے کے انعقاد کو فتح مبین قرار دیا

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا [الفتح : 1]

بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔

انٹر نیشنل سطح پر عالمی امن قائم رکھنے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم حکام کی طرف خطوط لکھے اور انہیں نقطہ اشتراک پر جمع ہونے کی دعوت دی

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ  [آل عمران : 64]

کہہ دے اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان برابر ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں۔

اہم توجہ

لیکن ان سب کے باوجود انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کی عبادت، تقوی، خدا خوفی اور تعلق باللہ میں ذرا بھر بھی فرق نہ آنے دیا

سیاست کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ سیاست دان بن کر مروجہ ملکی سیاست کے تمام ناجائز طریقوں کو قبول کر لیا جائے اور وہ سبھی رنگ ڈھنگ اپنا لیئے جائیں جو کسی مذہب بیزار اور خوف خدا سے عاری سیاسی جماعت یا شخص میں نظر آتے ہیں

سیاست اگر انبیاء کی سنت ہے تو اس کا طریقہ کار بھی انہیں سے ہی سیکھنا ہوگا جیسا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام  جب معاشروں میں تشریف لائے تو ان کے معاشرے ہر طرح کی غلاظت برائی اور نافرمانی سے لتھڑے ہوئے تھے لیکن انبیاء کی سیاست، فہم و فراست سے لبریز کمال سیاست تھی کہ معاشرے کی آلودگی میں آلودہ ہونے کے بجائے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے معاشرے کو سیدھی راہ پر گامزن کیا

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ  [الأنعام : 90]

یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر

 رسول اللہ ﷺ چونکہ سلسلہ نبوت میں آخری نبی ہیں اس لیے اب یہ ذمہ داری علمائے کرام کی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ملک کا انتظام کریں اور عوام کی رہنمائی کریں۔

اور یاد رہے کہ سیاست میں آنے کے بعد علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔

نوٹ

اس تحریر کا مروجہ جمہوری سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں اور انبیاء کی سیاست میں زمین و آسمان کا فرق ہے