انسانی عقل کا تقاضہ ہے کہ فیصلے کا ایک دن ضرور قائم ہونا چاہئے

 

جو عبرت سے نہیں سمجھے

دلائل بھی نہ مانے تو

قیامت خود بتائے گی

قیامت کیوں ضروری تھی

پہلا واقعہ

سانگلہ ہل میں ایک عورت کا سات، آٹھ سالہ بیٹا کسی ظالم نے اغواء کرلیا اب وہ بے چاری اپنے بیٹے کی جدائی میں ذھنی توازن کھو بیٹھی ہے وہ کمزور ہے اس کے پاس پیسہ ہے نہ ہی عہدہ دنیا میں اس کا کوئی بس نہیں چل رہا ایسے ہی اس کی ساری زندگی بیت جائے گی

جبکہ قاتل طاقت ور ہے اس کے پاس پیسہ بھی ہے عہدہ بھی ہے وہ مزے سے دندناتا پھر رہا ہے

دوسرا واقعہ

پسرور سے ایک شخص اپنی تھوڑی بہت جائیداد بیچ کر تین چار سال تک بیرون ملک میں حلال پیسہ کماتا رہا جب اپنے وطن واپس لوٹتا ہے تو راستے میں ڈاکو اس کی چار سال کی کمائی لوٹ لیتے ہیں وہ بے چارہ مجبور ہے کچھ کر نہیں سکتا ڈاکو مضبوط ہیں انہیں ہاتھ ڈالنا مشکل کام ہے

سوائے رونے کے کچھ نہیں کرسکتا چار سال کی محنت کھائی میں جا گری سارے ارمان یوں کے توں رہ گئے

تیسرا واقعہ

جڑانوالہ میں ایک شخص نے اپنا ایک مقدمہ عدالت میں درج کر رکھا ہے کسی کے ساتھ زمین کا تنازع ہے 1993 سے کیس لڑ رہا ہے تاہنوز کیس چل رہا ہے 27 سال بیت گئے ہیں فیصلہ نہیں ہورہا شائد اتنی رقم کی زمین نہ ہو جتنے پیسے اوپر لگا چکا ہے مستقل قریب میں بھی کیس حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا

چوتھا واقعہ

سیالکوٹ کے دو بھائیوں کا واقعہ ہے دوسرے گاؤں میں کرکٹ کھیلنے گئے کسی نے افواہ اڑا دی کہ ڈاکو ہیں گاؤں والے طیش میں آگئے دونوں کو پکڑ لیا گیا پھر جس کے ہاتھ جو لگا اس نے اسی سے مارنا شروع کر دیا وہ بے چارے اپنی صفائی پیش کرتے مگر بپھرے ہوئے مجمع میں کسی نے کچھ نہ سنا سرعام مارا گیا سب کے سامنے مارا گیا وڈیو بھی بنی قاتلوں کے چہرے صاف دکھائی دیتے تھے

مقتولین کی ماں انصاف کے لیے دہائی دیتی رہی مگر کچھ بھی حاصل نہ ہوا

پانچواں واقعہ

پانچ چھ سال کا بچہ ہے اپنے بابا سے بہت پیار کرتا ہے باپ کو بھی بیٹے سے بہت محبت ہے بیٹے کی ہر خواہش باپ پوری کرتا ہے ہنسی خوشی زندگی بسر ہورہی ہے دونوں کی آپس میں اس قدر محبت ہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے

اچانک ایک سانحہ رونما ہوتا ہے بیٹے کے سامنے باپ کو قتل کر دیا جاتا ہے ناحق قتل ہوتا ہے بیٹا باپ کی نعمت اور شفقت سے مستقل محروم ہو گیا اب اسے پوری دنیا کی دولت بھی تھما دی جائے تو باپ کی کمی پوری نہیں ہو سکتی اب وہ ساٹھ، ستر سال یا جتنا عرصہ بھی جیئے گا پل پل پر باپ کو یاد کرے گا مگر مل نہیں سکے گا

عقل سلیم بھی یہی کہتی ہے کہ بدلے کا ایک دن ضرور قائم ہونا چاہئے

ایسے حالات میں عقلِ سلیم اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ضرور عدل و انصاف کا کوئی ایسا دن ہونا چاہیے کہ

جس دن __اس بچے کی اپنے باپ سے ملاقات ہوسکے

جس دن __ہر مجرم کو خود عدالت میں حاضر ہونا پڑے

جس دن __مضبوط عدالتی بیلف مجرموں کو پیش کرے

جس دن __ہر مجرم اپنا فیصلہ خود وصول کرے

جس دن __کوئی مجرم عدالت سے بھاگ نہ سکے

جس دن __کوئی مجرم چھپ نہ سکے

جس دن __ناموں میں شبہ نہ ہو سکے

جس دن __کیس سب کے سامنے اوپن ہوں

جس دن __غائبانہ بند کمرے میں فیصلے نہ ہوں

جس دن __کوئی کیس بھولا ہوا نہ رہ سکے

جس دن __کسی قسم کی بھول چوک نہ ہو

جس دن __فیصلہ میرٹ پر ہو

جس دن __انصاف میں تاخیر و تاریخ نہ ہو

جس دن __منصف کو بے بس نہ کیا جا سکے

جس دن __منصف سب سے زیادہ طاقتور ہو

جس دن __فیصلے میں ردو بدل نہ کیا جا سکے

جس دن __رشتہ داری کام نہ آ سکے

جس دن __دوستی کام نہ آ سکے

جس دن __پیسہ اور فدیہ کام نہ آ سکے

جس دن __رشوت اور تعلق کام نہ آسکے

جس دن __مظلوم کی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکے

جس دن __جھوٹ نہ بولا جا سکے

یہی وہ دن ہے جسے قیامت کا دن کہا جاتا ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اکثر لوگ جزا کے بغیر فوت ہو جاتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ اس کا نام ہی ’’یوم الدین‘‘ (جزا کا دن) ہے، کیونکہ اگر وہ نیک و بد کو جزا نہ دے تو یہ ظلم ہے، جب کہ وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں۔

قیامت اسی لیے قائم کی جائے گی تاکہ ہرشخص کو اس کے کیئے کا بدلہ دیا جا سکے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (طه : 15)

یقینا قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔

فرمایا :

« اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى» [ القیامۃ : ۳۶ ]

’’کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘

اس کا ایک نام "یوم الدین” بھی ہے

یعنی بدلے کا دن

فرمایا

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : 4)

بدلے کے دن کا مالک ہے۔

اور اسی کو فیصلے کا دن بھی کہا جاتا ہے

فرمایا

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ (الدخان : 40)

یقینا فیصلے کا دن ان سب کا مقرر وقت ہے۔

اللہ تعالیٰ پانچ قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے گا اور اسے کوئی روک نہیں سکتا

فرمایا

وَالطُّورِ (الطور : 1)

قسم ہے طور کی!

وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ (الطور : 2)

اور ایک کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے!

فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ (الطور : 3)

ایسے ورق میں جو کھلا ہوا ہے۔

وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ (الطور : 4)

اور آباد گھر کی!

وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ (الطور : 5)

اور اونچی اٹھائی ہوئی چھت کی!

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ (الطور : 6)

اور لبا لب بھرے ہوئے سمندر کی!

إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (الطور : 7)

کہ یقینا تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے ۔

مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ (الطور : 8)

اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔

يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا (الطور : 9)

جس دن آسمان لرزے گا، سخت لرزنا۔

وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا (الطور : 10)

اور پہاڑ چلیں گے، بہت چلنا۔

فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (الطور : 11)

تو اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔

الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ (الطور : 12)

وہ جو فضول بحث میں کھیل رہے ہیں۔

يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا (الطور : 13)

جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، سخت دھکیلا جانا۔

هَذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (الطور : 14)

یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے۔

أَفَسِحْرٌ هَذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ (الطور : 15)

تو کیا یہ جادو ہے، یا تم نہیں دیکھ رہے؟

اللہ تعالیٰ اپنی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ قیامت ضرور آئے گی

فرمایا

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (سبأ : 3)

اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔کہہ دے کیوں نہیں، قسم ہے میرے رب کی! وہ تم پر ضرور ہی آئے گی، ( اس رب کی قسم ہے) جو سب چھپی چیزیں جاننے والا ہے ! اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی کوئی چیز ہے اور نہ بڑی مگرایک واضح کتاب میں ہے۔

سورۂ یونس کی ایک آیت ہے :

« وَ يَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ » [ یونس : ۵۳ ]

’’اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے؟ تو کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم! یقینا یہ ضرور سچ ہے اور تم ہر گز عاجز کرنے والے نہیں ہو۔‘‘

سورۂ تغابن میں ہے :

« زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ » [ التغابن : ۷ ]

’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں؟ میرے رب کی قسم! تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔‘‘

آخرت کی عدالت اور فیصلے کی کیفیت کیا ہوگی

جس دن ہر مجرم کو خود عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا اور وکیل سے کام نہیں چلے گا

فرمایا

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (يس : 32)

اور نہیں ہیں وہ سب مگر اکٹھے ہمارے پاس حاضر کیے جانے والے ہیں۔

حاضری اتنی سخت ہوگی کہ کوئی انسان عدالت سے غیر حاضر نہیں ہوسکے گا

‏*جس دن مضبوط عدالتی بیلف(فرشتے)ہانکتےہوئے عدالت میں پیش کریں گے*

وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا (مريم : 86)

اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانک کر لے جائیں گے۔

فرمایا

وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ (ق : 21)

اور ہر شخص آئے گا، اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا ہے۔

ہانکنے والا رب العزت کی عدالت تک لا کر چھوڑے گا

وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ (ق : 23)

اور اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا یہ ہے وہ جو میرے پاس تیار ہے۔

یعنی وہ فرشتہ جو اسے ہانک کر محشر میں لانے پر مقرر تھا کہے گا، اے رب! وہ مجرم جسے لانے پر تو نے مجھے مقرر فرمایا تھا یہ میرے پاس حاضری کے لیے تیار ہے اور وہ فرشتہ جو شہادت کے لیے ساتھ تھا کہے گا، اس کے متعلق جس جس شہادت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے جو میرے پاس تیار ہے۔

ہر کوئی اپنا فیصلہ خود ہی وصول کرے گا

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ (الحاقة : 19)

سو جسے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا لو پکڑو، میرا اعمال نامہ پڑھو۔

اور

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ (الحاقة : 25)

اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔

اور

وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (الكهف : 49)

اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیںگے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا

جس دن کوئی مجرم عدالت سے بھاگ نہ سکے

فرمایا

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (الرحمن : 33)

اے جن و انس کی جماعت! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، کسی غلبے کے سوا نہیں نکلو گے۔

يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ (القيامة : 10)

انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

كَلَّا لَا وَزَرَ (القيامة : 11)

ہرگز نہیں، پناہ کی جگہ کوئی نہیں۔

إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ (القيامة : 12)

اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔

يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (القيامة : 13)

اس دن انسان کو بتایا جائے گا جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا۔

وَلَوْ تَرَى إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (سبأ : 51)

اور کاش! تو دیکھے جب وہ گھبرا جائیں گے، پھر بچ نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور وہ قریب جگہ سے پکڑلیے جائیں گے۔

جس دن کوئی مجرم چھپ نہ سکے

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (لقمان : 16)

اے میرے چھوٹے بیٹے! بے شک کوئی چیز اگر رائی کے دانے کے وزن کی ہو ، پس کسی چٹان میں ہو، یا آسمانوں میں، یا زمین میں تو اسے اللہ لے آئے گا ، بلاشبہ اللہ بڑا باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔

لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (سبا : 3)

اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی کوئی چیز ہے اور نہ بڑی مگرایک واضح کتاب میں ہے

وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ (الإنفطار : 16)

اور وہ اس سے کبھی غائب ہونے والے نہیں ہیں۔

‏*جس دن کوئی بھول چوک نہیں ہوگی*

‏فرمایا

وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا (سورة مريم 64)

تمہارا رب ب بھولنے والا نہیں۔

جس دن ایسے کیس بھی کھلیں گے جنہیں انسان بھول چکا ہوگا

فرمایا

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المجادلة : 6)

جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا، پھر انھیں بتا ئے گا جو انھوں نے کیا۔ اللہ نے اسے محفوظ رکھا اور وہ اسے بھول گئے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

یہ اس سوال کا جواب ہے کہ ہزاروں لاکھوں سالوں کے بعد اگر سب لوگوں کو زندہ کر بھی لیا گیا تو انھوں نے جو کچھ کیا اسے مدتیں گزر چکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ اتنی بے شمار مخلوق کے بے شمار اعمال انھیں کیسے بتائے گا؟ فرمایا وہ اپنا کیا ہوا بے شک بھول چکے ہوں، مگر اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ محفوظ کر رکھا ہے

جس دن کیس کی مکمل تفصیلات بالکل اوپن ہوں گی

فرمایا

وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (الإسراء : 13)

اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔

جس دن فیصلہ میرٹ پر ہوگا

فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (الأنبياء : 47)

اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

‏ جس دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا

‏ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق 29)

اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں۔

جس دن تاریخ پہ تاریخ نہیں دی جائے گی بلکہ ایک ہی دن میں فیصلہ کیا جائے گا

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (المعارج : 4)

فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، ( وہ عذاب ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔

جس دن فیصلے میں کوئی ردوبدل نہیں ہوگا

فرمایا

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (ق : 29)

میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں بندوں پر ہرگز کوئی ظلم ڈھانے والا نہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کرتے یا کہتے ہیں وہ ہوتا ہی حق ہے تو پھر تبدیلی کیسے

قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ (ص : 84)

فرمایا پھر حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔

جس دن منصف کو بے بس نہ کیا جا سکے

ایسا نہیں کہ احتجاج کرتے ہوئے یا کسی جلسہ عام سے اپنی پاور شو کے ذریعے یا کسی پریس کانفرنس کے سہارے جیسے دنیاوی عدالتوں کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کو بے بس کیا جاسکے

فرمایا

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (العنكبوت : 22)

اور نہ تم کسی طرح زمین میں عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ اللہ کے سوا تمھارا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔

جس دن منصف ہی سب سے زیادہ قوی ہو

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا

يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ (بخاري 4534

اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں زمین کو پکڑ لیں گے اور آسمان کو لپیٹ لیں گے پھر فرمائیں گے میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں زمین کے بادشاہ

جس دن رشتہ داری بھی کام نہیں آئے گی

فرمایا

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (المؤمنون : 101)

پھر جب صور میں پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ کوئی رشتے ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

جیسا کہ فرمایا :

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (عبس : 34)

جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔

وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (عبس : 35)

اور اپنی ماں اور اپنے باپ (سے).

وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (عبس : 36)

اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔

لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (عبس : 37)

اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے ( دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔

جس دن کوئی دوستی کام نہیں آئے گی

دوستی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا (المعارج : 10)

اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا۔

اور فرمایا

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (الدخان :41)

جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

اور فرمایا

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (الزخرف : 67)

سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔

اور فرمایا

يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا (الفرقان : 28)

ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔

جس دن کوئی پیسہ اور فدیہ کام نہیں آئے گا

فرمایا :

يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (المعارج : 11)

حالانکہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے۔ مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔

وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (المعارج : 12)

اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو۔

وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (المعارج : 13)

اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔

وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ (المعارج : 14)

اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔

كَلَّا إِنَّهَا لَظَى (المعارج : 15)

ہرگز نہیں! یقینا وہ (جہنم) ایک شعلہ مارنے والی آگ ہے۔

اور فرمایا

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (الشعراء : 88)

جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔

جس دن مظلوم کی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لَتُؤَدَّنَّ الْحُقُوْقُ إِلٰی أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰي يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ] [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۸۲ ]

’’قیامت کے دن حق والوں کو ان کے حقوق ہر صورت ادا کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔‘‘

حدیث مفلس

جس دن اللہ تعالیٰ کے فرشتے مجرموں کے متعلق رپورٹ کریں گے

یوں تو اللہ تعالیٰ عالم الغيب ہیں اور اپنے کامل علم سے سب کچھ جانتے ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایک سسٹم وضع کررکھا ہے

کراما کاتبین

اس سے مراد اعمال کی کاؤنٹنگ کرنے والے فرشتے ہیں

فرمایا

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (الإنفطار : 109

حالانکہ بلاشبہ تم پر یقینا نگہبان (مقرر) ہیں۔

كِرَامًا كَاتِبِينَ (الإنفطار : 11)

جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔

يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (الإنفطار : 12)

وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

سورہ ق میں ہے

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (ق : 17)

جب (اس کے ہر قول و فعل کو) دو لینے والے لیتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق : 18)

وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگران ہوتا ہے۔

کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو انسانوں کے متعلق رپورٹ کرے گی

فرمایا

وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (الفتح : 7)

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اورزمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَ حَتّٰی يُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرُهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ ]

[ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 84/3، ح : ۱۱۷۹۸ ]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘

کھانے کا لقمہ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

[ وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ] [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۵۷۹ ]

’’ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔‘‘

جس دن مجرم جھوٹ نہیں بول سکیں گے اور ان کے اپنے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (يس : 65)

آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

اس آیت میں ہاتھوں اور پاؤں کے بولنے اور شہادت دینے کا ذکر ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر جسم کے دوسرے اعضا کے بولنے کا بھی ذکر ہے، چنانچہ فرمایا :

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (فصلت : 20)

یہاں تک کہ جوں ہی اس کے پاس پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (فصلت : 21)

اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔

اور فرمایا :

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النور : 24)

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ اچانک ہنس دیے اور فرمایا :

’’جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں؟‘‘

ہم نے کہا :

’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَلَمْ تُجِرْنِيْ مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ يَقُوْلُ بَلٰی، قَالَ فَيَقُوْلُ فَإِنِّيْ لَا أُجِيْزُ عَلٰی نَفْسِيْ إِلَّا شَاهِدًا مِنِّيْ، قَالَ فَيَقُوْلُ كَفٰی بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيْدًا وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِيْنَ شُهُوْدًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلٰی فِيْهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِيْ قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلّٰی بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ قَالَ فَيَقُوْلُ بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ ]

[مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر : ۲۹۶۹ ]

’’میں بندے کی اپنے رب سے گفتگو پر ہنسا ہوں (جو وہ قیامت کے دن کرے گا)، وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا؟‘‘ وہ فرمائے گا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ کہے گا : ’’میں اپنے سوا کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا (میرا بدن میرا اپنا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں)۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’آج تیری ذات ہی تیرے خلاف بطور گواہ کافی ہے اور کراماً کاتبین گواہ کافی ہیں۔‘‘ چنانچہ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے جسم کے اعضا سے کہا جائے گا : ’’بولو!‘‘ تو وہ اس کے سارے اعمال بول کر بتائیں گے، پھر اسے بولنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا : ’’تمھارا ستیاناس ہو اور تم (مجھ سے) دور ہو جاؤ، میں تو تمھارا ہی دفاع کر رہا تھا۔‘‘

فیس بک کی دوستی کہیں آپ کو یوم آخرت پر ایمان لانے سے روک نہ دے

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس نے جہاں پوری دنیا کو ایک ویلج میں تبدیل کر دیا ہے اور دور دراز کے لوگوں کو باہم قریب کردیا ہے وہاں ایک نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ کچے ذہن کے مسلمانوں کو کفار، ملحدین اور اسلام مخالف بیانیہ رکھنے والے افراد کی گفتگو کا بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے کتنے مسلم نوجوان ایسے ہیں جو اپنے ہی مسلمہ عقائد کے خلاف ذہن بنا لیتے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (طه : 15)

یقینا قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى (طہ : 16)

سو تجھے اس سے وہ شخص کہیں روک نہ دے جو اس پر یقین نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے، پس تو ہلاک ہو جائے گا۔

’’جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ جم غفیر ہیں، کیونکہ کفار کے لیے قیامت کو تسلیم کرنے سے زیادہ مشکل کوئی چیز نہیں، نہ ہی وہ اس سے زیادہ کسی چیز کا انکار کرتے ہیں۔ سو ایسا ہر گز نہ ہو کہ ان کی طرف سے آنے والے شکوک و شبھات کی کثرت اور ان کی بہت بڑی تعداد تمھیں شک میں مبتلا کر دے اور ان کی کثرت تمھارے قدم پھسلنے کا باعث بن جائے۔ یاد رکھو کہ وہ جس قدر بھی تعداد میں زیادہ ہوں وہ صرف اور صرف اپنی خواہش نفس کے پیچھے چل رہے ہیں، کسی دلیل و برہان کے پیچھے نہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (ھود:17)

سو تو اس کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ، یقینا یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا جواب

فرمایا :

« اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى» [ القیامۃ : ۳۶ ]

’’کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المؤمنون : 115)

تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟

یعنی پھر کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش کرنے اور مزے لوٹنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اور فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہو ئے نہیں بنایا۔

یہ منکرین قیامت کے اعتراض کا عقلی جواب ہے کہ اگر سب لوگوں کو زندہ کرکے ان سے باز پرس کا اور نیک و بد کی جزا و سزا کا کوئی دن نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی عظیم کائنات محض کھیلنے کے لیے بنائی ہے، اس کا کوئی مقصد نہیں، اس کے ہاں نیک و بد اور ظالم و مظلوم برابر ہیں، نہ اس کے ہاں عدل ہے نہ حکمت۔ فرمایا ایسا نہیں ہے، ہم نے آسمان و زمین کو حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور قیامت قائم کرنا ہماری حکمت اور عدل کا تقاضا ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے، اس لیے آخرت کی تیاری سے غافل ہیں۔