اِسلام میں خواتین کا مقام اور پردہ

اہم عناصرِ خطبہ :

01.خاتونِ جاہلیت اور خاتونِ اسلام ۔۔۔ایک مقارنہ

02.عبادات کے اجر وثواب میں مرد وعورت دونوں یکساں ہیں

03.عورت کی فطری کمزوریوں میں بعض رخصتیں

04.عورت کے تحفظ کیلئے اسلام کے چند مخصوص احکام :

٭ گھروں میں استقرار ٭مردوزن کا اختلاط حرام

٭بے پردگی حرام ٭ پردہ کی فرضیت قرآن وحدیث کی روشنی میں

پہلا خطبہ

برادرانِ اسلام !

ایک عرصہ سے مغربی ذرائع ابلاغ اور مغرب زدہ افراد اور تنظیموں کی طرف سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام نے عورت کو کچھ نہیں دیا اور اسے اس کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے حالانکہ یہ محض ایک جھوٹ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ کیونکہ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے وہ اسے کسی دوسرے مذہب سے نہیں ملا ۔ تو آئیے ان کے اس جھوٹے دعوے کا جائزہ لیں اور سب سے پہلے جاہلیت کے زمانے کی عورت اور خاتونِ اسلام کے درمیان موازنہ کر لیں تاکہ یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو جائے کہ پہلے زمانے میں عورت کتنی حقیر سمجھی جاتی تھی اور اسلام نے اسے کتنا بلند مقام عطا کیا ۔

01.جاہلیت میں لڑکی کا وجود عار تصور کیا جاتا اور اسے زندہ در گور کردیا جاتا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ . یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ أَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلاَ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾ (النحل16 59-58)

’’ اور ان میں سے کسی کو جب لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے ۔جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے ۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے۔ آہ ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی حالت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی شخص کوجب اس کے گھر میں بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ کالا سیاہ ہو جاتا اور وہ مارے شرم کے لوگوں سے چھپتا پھرتا اور غم میں نڈھال ہو کر سوچتا رہتا کہ اب اس لڑکی کے وجود کو ذلت ورسوائی کے ساتھ برداشت کرلے یا اسے زندہ در گور کر دے !

امام بغوی کہتے ہیں : ’’ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کیلئے کہیں دور دراز بھیج دیتا ۔ اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب چھ سال کی ہو جاتی تووہ پہلے کسی جنگل میں جا کر ایک گڑھا کھودتا ، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال ( یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا : اس گڑھے کے اندر دیکھو ۔ چنانچہ وہ اسے دیکھنے کیلئے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا ، وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا ۔‘‘ (معالم التنزیل:25/5)

یہ تھا زمانۂ جاہلیت میں کسی عورت کا مقام کہ اس کا وجود ہی عار تصور کیا جاتا اور اسے زندہ در گور کردیا جاتا ۔ جبکہ اسلام نے گھر میں بیٹی کی پیدائش کو باعث ِ برکت قرار دیا اور اسے زندہ درگور کرنا حرام کردیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْأُمَّہَاتِ،وَوَأْدَ الْبَنَاتِ )) (صحیح البخاری ۔الإستقراض باب ما ینہی عن إضاعۃ المال :2408،صحیح مسلم : الأقضیۃ باب النہی عن کثرۃ المسائل :1715)

’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنا اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا حرام کردیا ہے ۔ ‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

(( مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ )) (صحیح البخاری،الزکاۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ :1418۔ واللفظ لہ،صحیح مسلم ،البر والصلۃ باب فضل الإحسان إلی البنات 2629)

’’ جس شخص کو اِن بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمائش میں ڈالا جاتا ہے پھر وہ ان سے اچھائی کرتا ہے تو یہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اس حدیث میں ’’ اچھائی ‘‘ سے مراد ہر قسم کی اچھائی ہے ۔یعنی اس کی پرورش اچھی طرح سے کرے ، اس سے اچھا سلوک کرے اور اس کی تعلیم وتربیت کا اہتمام اچھے انداز سے کرے۔ پھر جب وہ جوان ہو جائے تواس کی شادی کیلئے ایک اچھے اور پابندِ اسلام خاوند کا انتخاب کرے۔

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ )) وَضَمَّ أَصَابِعَہُ (صحیح مسلم:2631)

’’ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو وہ اورمیں قیامت کے دن ایسے ہو ں گے جیسے میری یہ انگلیاں ہیں۔ ‘‘

اور سنن ترمذی وغیرہ میں اس روایت کے الفاظ یوں ہیں :

(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ دَخَلْتُ أَنَا وَہُوَ الْجَنَّۃَ کَہَاتَیْنِ )) وَأَشَارَ بِأُصْبَعَیْہِ (سنن الترمذی،البر والصلۃ،باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات:1914،وہو فی الصحیحۃ :297،وفی صحیح الترمذی للألبانی:179/2)

’’ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں جنت میں ایسے داخل ہو نگے جیسے میری یہ دو انگلیاں ہیں ۔ ‘‘

برادرانِ اسلام ! عورت اگر ماں ہو تو اسلام نے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی ترغیب دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد سب سے پہلے ماں باپ کا حق بیان کیا ہے ، پھر دوسروں کے حقوق کا تذکرہ کیا ہے۔ اور بار بار والدین سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی ہے اور انھیں جھڑکنے حتی کہ اف تک کہنے سے منع فرمایا ہے ۔

اورر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک شخص نے سوال کیا کہ لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں ۔ اس نے کہا : پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھاری ماں۔ اس نے کہا: پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں ۔ اس نے کہا : پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارا باپ ۔ ‘‘ (صحیح البخاری،الأدب باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ :5971، مسلم: 2548)

اس کے علاوہ اور کئی احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں جن میں خصوصا ماں کا حق نمایاں کرکے بیان کیا گیا ہے ۔

اور عورت اگر بیوی ہو تو اسلام نے اس کے حقوق کی بھی پاسداری کی ہے ۔ مثلا:

01.نکاح کیلئے اس سے اجازت طلب کی جائے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( لَا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتّٰی تُسْتَأْمَرَ ، وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ ))

’’کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے ۔ اور کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے ۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کنواری لڑکی کی اجازت کیسے ہو گی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی۔ ‘‘ (صحیح البخاری ۔ النکاح باب لا ینکح الأب وغیرہ …5136 )

02.اسے اس کا مہرادا کیا جائے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَآتُوْا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً ﴾ (النساء4 :4)

’’ اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دو ۔ ‘‘

03.اسے نان ونفقہ مہیا کیا جائے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدانِ عرفات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :(( فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ،وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَنْ لَّا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَہُوْنَہُ ۔۔۔وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ )) (صحیح مسلم،الحج،باب حجۃ النبی  صلي الله عليه وسلم:1218)

’’ تم عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے اور انھیں اللہ کے کلمہ کے ذریعہ اپنے لئے حلال کیا ہے ۔ اور تمھارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ

آنے دیں جنھیں تم نا پسند کرو ۔۔۔۔۔۔اور ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انھیں معروف طریقے کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرو ۔‘‘

04.اس کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق بودوباش رکھی جائے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰی أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴾ (النساء4 :19)

اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودو باش رکھو ۔ گو تم انھیں نا پسند کرو لیکن عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت سی بھلائی کر دے ۔ ‘‘

اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہٖ ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِیْ )) (سنن الترمذی،المناقب،باب فضل أزواج النبی صلي الله عليه وسلم:3895،سنن ابن ماجہ:1977،ابن حبان :4177 وہو فی صحیح الجامع:3314 والصحیحۃ:285)

’’ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے اہل کیلئے بہتر ہو اور میں تم سب کی نسبت اپنے اہل کیلئے زیادہ بہتر ہوں ۔ ‘‘

05.بیوی کا حق بھی خاوند کے حق کی طرح ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ﴾ (البقرۃ2:228)

’’ اور معروف طریقے کے مطابق عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں ۔ ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ ‘‘

06.اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں عدل وانصاف کیا جائے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَلاَّ تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء4 :3)

’’ لیکن اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ تم ان میں عدل وانصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی ۔ یہ اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم بے انصافی کے مرتکب نہیں ہو گے ۔ ‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( مَنْ کاَنَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلیٰ اِحْدَاہُمَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہُ مَائِلٌ)) (سنن أبی داؤد،النکاح باب فی القسم بین النساء:2133،سنن الترمذی،النکاح باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر:1141، وصححہ الألبانی)

’’ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک ہی کی طرف مائل ہوا ( اور دوسری کو نظر انداز کردیا) تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ ساقط ہو گا۔ ‘‘

07.موت کے بعد بھی بیوی سے وفا کی جائے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر کبھی اتنی غیرت نہیں آئی جتنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی حالانکہ میں نے انھیں نہیں دیکھا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے ۔ اور بعض اوقات بکری ذبح کرتے تو اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں میں بھی بھیجا کرتے ۔ اس پر میں کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیتی کہ شاید دنیا میں اور کوئی عورت ہی نہیں ہے سوائے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے فضائل ذکر کرتے اور فرماتے : ’’میری اولاد بھی اسی سے ہوئی ہے۔‘‘ (صحیح البخاری،مناقب الأنصار باب تزویج النبی صلي الله عليه وسلم خدیجۃ وفضلہا:3818، صحیح مسلم:2437)

برادران اسلام !

بیٹی ، ماں اور بیوی کے حقوق کے متعلق قرآن وحدیث کی جو نصوص ہم نے ذکر کی ہیں ایک طرف انھیں سامنے رکھیں اور دوسری جانب زمانۂ جاہلیت کی عورت کی حالت کوبھی مد نظر رکھیں تو اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں کتنا بڑا مقام دیا ہے اور اس کی کس طرح سے تکریم اور عزت افزائی کی ہے !

02.زمانۂ جاہلیت کی عورت وراثت سے محروم تھی

زمانۂ جاہلیت میں لوگ صرف مردوں کو وراثت کا حقدار سمجھتے تھے اور عورتوں اور بچوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

﴿ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا﴾ (النساء4 :7)

’’ والدین اور قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑجائیں اس میں مردوں کا حصہ ہوتا ہے ۔ اور والدین اور قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑ جائیں اس میں عورتوں کا بھی حصہ ہوتا ہے چاہے مال تھوڑا ہو یا زیادہ ۔ اور یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘

چنانچہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت کا حقدار قرار دیا اور اسے اس سے محروم نہیں کیا ۔ ترکہ میں عورت کو کتنا حصہ دیا گیا ہے اس کی تفصیل سورۃ النساء کے دوسرے رکوع میں موجود ہے ۔

03.باپ کی بیوی کو اس کی موت کے بعد حلال سمجھا جاتا تھا

زمانۂ جاہلیت میں ایک بیٹا اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کی بیوی ( اپنی سوتیلی ماں ) سے نکاح کرلیتا تھا جبکہ اسلام نے اسے حرام کردیا اور اسے بدکاری ، غضب کا موجب اور بدترین شیوہ قرار دیا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ مِّنَ النِّسَائِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا وَّسَائَ سَبِیْلاً ﴾  (النساء 4:22)

’’ اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمھارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گذر چکا ہے ۔ یہ بے حیائی کا کام ، بغض کا سبب اور بڑی بری راہ ہے ۔ ‘‘

تو یہ بھی اسلام میں عورت کی تکریم کی ایک واضح دلیل ہے ۔

04.دو بہنوں سے بیک وقت نکاح

زمانۂ جاہلیت میں دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کرنا درست تھا جبکہ اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ ۔۔۔۔وَأَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ﴾ (النساء4 :23)

’’ تم پر حرام کردی گئی ہیں تمھاری مائیں ۔۔۔ اور دو بہنوں کو (ایک شخص کے نکاح میں ) جمع کرنا بھی حرام ہے الا یہ کہ جو (عہدِ جاہلیت میں ) گذر چکا ۔ ‘‘

05.ایامِ حیض میں عورت کو الگ تھلگ کر دیا جاتا

زمانۂ جاہلیت میں عورت کے مخصوص ایام شروع ہوتے تو اسے بالکل الگ تھلگ کر دیا جاتا۔ اس کا خاوند نہ اس کے ساتھ کھاتا اور نہ اسے اپنے بستر پر آنے دیتا جبکہ اسلام نے عورت کے ساتھ اس ناروا سلوک کو ناجائز قرار دیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے مخصوص ایام میں ان کے ساتھ کھاتے پیتے ، ان سے خدمت لیتے اور ان کے ساتھ آرام فرماتے۔ صرف ایک چیز جسے اسلام نے ان ایام میں حرام قرار دیا وہ ہے بیوی سے صحبت۔ اس کے علاوہ باقی تمام معاملات کو جائز قرار دیا گیا ۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جب حیض کی حالت میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہ بند سے اوپر ان سے مقاربت کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:294)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ایک برتن سے پانی پیتی ، پھر میں وہی ( بچا ہوا ) پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی تو آپ بھی برتن کی اسی جگہ پر منہ رکھ کر پانی پیتے جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا ۔ اور میں حیض ہی کی حالت میں کھانے کے دوران اپنے دانتوں کے ساتھ ایک ہڈی سے کچھ گوشت توڑتی ، پھر وہی ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتی تو آپ بھی اسی جگہ پر منہ رکھ کرگوشت توڑتے جہاں سے میں نے توڑا ہوتا۔ (صحیح مسلم:300)

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت مخصوص ایام میں ہوتی تو وہ اپنے گھروں میں نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی اس سے مجامعت کرتے ۔ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:﴿ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذیً فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ۔۔۔ الخ ﴾ (البقرۃ 2: 222)

’’ اور وہ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں ، توآپ انہیں بتا دیجئے کہ وہ گندگی ہے۔ لہٰذا حالتِ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا النِّکَاحَ)) ’’ تم سب کچھ کر سکتے ہو سوائے ہم بستری کے ۔ ‘‘ (صحیح مسلم :302)

ان پانچ نکات کی روشنی میں آپ کو خوب اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اسلام نے عورت کو کتنا اونچا مقام دیا ہے ۔ اس لئے مغربی ذرائع ابلاغ کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر قطعاً اس احساس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ اسلام نے عورت کو محروم کر دیا ہے اور اس سے اس کے بنیادی حقوق سلب کر لئے ہیں کیونکہ یہ محض ایک افتراء اور

جھوٹ ہے اور اس کی حقیقت ہماری اب تک کی گذارشات میں واضح ہو چکی ہے ۔

عبادات کے اجر وثواب میں مرد وعورت دونوں یکساں ہیں

برادرانِ اسلام ! یہ بات توپہلے واضح ہو چکی ہے کہ جو مقام و مرتبہ اسلام نے عورت کو دیا ہے اور جس طرح اسلام نے اس کی عصمت کے تحفظ کیلئے قوانین اور ضابطے وضع کئے ہیں ایسا کسی اور دین میں نہیں ہے۔ تاہم اپنی ماؤں بہنوں کے مزید اطمینا ن کیلئے ہم عرض کرتے ہیں کہ عبادات کے اجرو ثواب کا اور جنت کی نعمتوں کا جہاں مردوں سے وعدہ کیا گیا ہے وہاں عورتوں کو بھی یکساں طور پر اس میں شریک کیا گیا ہے ۔

چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:﴿ فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ﴾ (آل عمران 3 195)

’’ پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی کہ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ضائع نہیں کرتا ، تم سب آپس میں برابر ہو ۔ ‘‘

یعنی اجرو ثواب میں تمھارے درمیان مساوات ہے اور مرد وعورت میں کوئی فرق نہیں ۔

اور فرمایا : ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کاَنُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (النحل16:97)

’’ جو کوئی مرد ہو یا عورت نیک کام کرے گا بشرطیکہ با ایمان ہو ہم اسے یقینی طور پر پاکیزہ اور عمدہ زندگی عطاکریں گے اور انھیں ان کے اعمال سے زیادہ اچھا بدلہ دیں گے ۔ ‘‘

اسی طرح سورۃ الأحزاب میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتَاتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقَاتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرَاتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (الأحزاب33 :35)

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی

عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ ‘‘

عورت کی فطری کمزوریوں میں بعض رخصتیں

ذرا غور فرمائیں ! اسلام نے عورت کی فطری کمزوریوں اور اس کی بعض مجبوریوں کے پیشِ نظر اسے کئی احکامات میں رخصت بھی دی ہے۔ مثلا :

01.حیض ونفاس کے ایام میں خاتونِ اسلام کو نماز اور روزے معاف ہیں ۔

02.حیض ونفاس کے مخصوص ایام میں جو نمازیں رہ جاتی ہیں ان کی قضا بھی نہیں ہے۔ صرف روزوں کی قضا لازم ہے ۔

03.حمل اور رضاعت کے ایام میں ( کمزوری اور مجبوری ہو تو ) عورت کو روزے قضا کرنے کی رخصت دی گئی ہے ۔

04.حالت ِ حیض میں طوافِ وداع جو واجباتِ حج میں سے ہے معاف ہو جاتا ہے ۔

تو یہ رخصتیں بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام نے عورت کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا اور نہ ہی اس پر ظلم کیا ہے ۔ بلکہ اس کی فطری مجبوریوں کا خیال رکھا گیا ہے اور اسے اس کی طاقت سے زیادہ کسی امر کا مکلف نہیں کیا گیا۔ لہٰذاخواتینِ اسلام کو بھی ان اسلامی تعلیمات کو بسروچشم قبول کر لینا چاہئے جو خود انہی کی عصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

عورت کے تحفظ کے لیے اسلام کے چند مخصوص احکام

برادرانِ اسلام ! عورت کی عزت وحرمت کے تحفظ کیلئے اور اسے مریض دل قسم کے لوگوں کے شر سے بچانے کیلئے اسلام نے عورت کیلئے چند قوانین مقرر کئے ہیں ۔ ہم یہ قوانین ذکر کرنے سے پہلے اپنی مسلمان ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ دنیا وآخرت میں ان کی بھلائی دین ِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے ۔ اور ان کی کامیابی وکامرانی اسلام کے ان ضابطوں اور اصولوں کو عملی جامہ پہنانے میں ہے جو کہ خود

انہی کے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَمَا کاَنَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِیْنًا﴾ (الأحزاب33 :36)

’’ اور ( دیکھو ) کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا ۔ ( یاد رکھو ) جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا ۔ ‘‘

اسی طرح ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے ذمہ دار ہیں اور قیامت کے روز ان سے ان کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِیْ أَہْلِہٖ وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِہَا وَہِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِہَا۔۔ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ )) (صحیح البخاری،الجمعۃ باب الجمعۃ فی القری والمدن:893،صحیح مسلم:1829)

’’ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی ۔ لہٰذا وقت کا حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ اور آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔۔۔ سو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ‘‘

لہٰذا مسلمانو ! اس ذمہ داری کا احساس کرو اور اپنی بیویوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو ان اسلامی تعلیمات کا پابند بناؤ جو کہ ان کے تحفظ کیلئے مشروع کی گئی ہیں ۔ اور وہ یہ ہیں :

01.گھروں میں استقرار

خواتینِ اسلام کیلئے اللہ تعالیٰ نے جو خاص ضابطے مقرر کئے ہیں ان میں سے ایک اہم ضابطہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں ہی میں ٹھہری رہیں اور بغیر ضروری حاجت کے گھروں سے باہر نہ جائیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ۔۔۔۔﴾ (الأحزاب 33 :33)

’’ اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت کا دائرۂ عمل گھر کی چاردیواری کے اندر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مسجد میں باجماعت نماز ، جمعہ اور جہاد جیسی اہم عبادات سے مستثنی کیا گیا ہے ۔ اوراسے اکیلے سفر کرنے سے منع کردیا گیا ہے بلکہ حج بیت اللہ جیسے اہم فریضۂ الٰہی کی ادائیگی کیلئے بھی سفر کرنے کی صرف اس صورت میں اسے اجازت دی گئی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم موجود ہو ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بنیادی طور پر عورت کی جائے قرار اس کا گھر ہے اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے نکلنا اس کیلئے درست نہیں ہے ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ ، فَإِذَاخَرَجَتِ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہَا وَہِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِہَا )) (ابن حبان:413/12: 5599وصحح إسنادہ الأرناؤط،وأخرج الجزء الأول منہ الترمذی :1773وصحح إسنادہ الشیخ الألبانی فی المشکاۃ :3109)

’’ خاتون ستر ( چھپانے کی چیز ) ہے ۔ اس لئے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہو تی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ‘‘

گھر چونکہ عورت کا اصل ٹھکانہ ہے اس لئے کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اجازت طلب کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ گھروں کی عزت وحرمت محفوظ رہے اور شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں ۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی آنکھ پھوڑنے کی اجازت دی ہے جو بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں جھانک کر دیکھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گھر اور چاردیواری کی حرمت کا تحفظ کتنی اہمیت کا حامل ہے !

اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی اس نماز کو افضل قرار دیا ہے جسے وہ اپنے گھر کے اندر ادا کرے ۔

چنانچہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مسجد نبوی میں ) نماز پڑھنے کی رغبت ظاہر کی تو آپ نے فرمایا :’’ مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو لیکن گھر میں نماز پڑھنا تمھارے لئے بہتر ہے ۔‘‘

اس کے بعد حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر کے اندرونی کمرہ کے ایک نہایت تاریک کونے میں اپنے لئے جائے نماز بنا لی ۔ پھر وہ ساری زندگی اسی پر نماز پڑھتی رہیں۔ (أحمد:371/6،ابن حبان:596/5:2217قال الألبانی فی صحیح الترغیب:حسن لغیرہ)

تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور بغیر کسی ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلے۔

02.مردو زن کا اختلاط حرام

آج کل ’’ حقوقِ نسواں ‘‘ کے تحفظ کے دعویدارگمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہوئے یہ دعوت دے رہے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے اور کسی بھی میدان میں انھیں مردوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے ! حالانکہ یہ دعوت عورتوں کو بربادی کی طرف دھکیلنے کے برابر ہے کیونکہ اس کے پیچھے دعویداروں کا مقصد عورتوں کی ترقی نہیں بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ مردوں کیلئے عورتوں کو شکار کرنا آسان ہو جائے اور جو شخص جب چاہے ، جہاں چاہے اور جسے چاہے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر کے اس کی عزت کو تار تار کردے جیسا کہ بصد افسوس آج کل ہو رہا ہے ۔

ہماری بہنوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مردوں کیلئے سب سے خطرناک فتنہ قرار دیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی مردکسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ بنا بریں عورتوں کا مردوں سے اختلاط عورت اور مرد دونوں کیلئے باعثِ فتنہ ہے ۔ اور اس سے دونوں کا دین وایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام دروازوں کو بند کردیا ہے جو مردو زن کے اختلاط کی طرف لے جاتے ہیں ۔ مثلا :

01.عورت کو اللہ تعالیٰ نے غیرمحرم مرد کے ساتھ پست اور نرم آواز میں بات کرنے سے منع فرما دیا ہے تاکہ کوئی مریض دل شخص اس کے متعلق شک وشبہ کا اظہار نہ کرے ۔ لہٰذا جب نرم لب ولہجہ میں بات تک کرنے کی اجازت نہیں ہے تو مردو زن کے اختلاط کو کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے ! (الأحزاب33 :32)

02.اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں کو اجنبی عورتوں سے اپنی نظروں کو جھکانے کا اور اسی طرح مومنہ عورتوں کو بھی اجنبی مردوں سے اپنی نظروں کو جھکانے کا حکم دیا ہے ۔ (النور24 :31-30)

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم عورتوں کو دیکھنا آنکھوں کا زنا قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

’’ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ، زبان کا زنا بات چیت کرنا ہے ، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے ۔‘‘ (متفق علیہ)

لہٰذا جب غیر محرم مرد وعورت کا ایک دوسرے کو دیکھنا ہی حرام ہے تو ان کی آپس میں میل ملاقات اور گھومنا پھرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے !

03.جو خواتین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتیں اور وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹنے لگتیں تو انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیا کرتے تھے کہ

(( اِسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّہُ لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیْقَ ( وَسَطَہَا ) عَلَیْکُنَّ بِحَافَاتِ الطَّرِیْقِ)) فَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَلْصَقُ بِالْجِدَارِ حَتّٰی إِنَّ ثَوْبَہَا لَیَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوْقِہَا (سنن أبی داؤد:5272 وصححہ الشیخ الألبانی فی الصحیحۃ :856)

’’ تم ایک طرف ہٹ جاؤ کیونکہ تمھارے لئے جائز نہیں کہ تم راستے کے عین درمیان میں چلو ۔ تم پر لازم ہے کہ تم راستے کے کناروں پر چلو ۔‘‘ اس پر وہ خواتین دیوار کے ساتھ چمٹ کر چلتی تھیں حتی کہ ان کی چادریں (جن سے انھوں نے پردہ کیا ہوتا) دیواروں سے اٹک جاتی تھیں۔

تو آپ اندازہ فرمائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز تک ادا کرنے کے بعد گھروں کو واپس لوٹنے والی عورتوں کو مردوں کے راستے سے دور رہنے کی تلقین فرمائی تو عام طور پر مردو عورت کا اختلاط کیسے درست ہوسکتا ہے !

04.حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ تم ( غیر محرم ) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کرو ‘‘ تو ایک انصاری نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ’ الحمو‘ یعنی خاوند کے بھائی (دیور ) کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دیور موت ہے۔‘‘ (صحیح البخاری،النکاح باب لا یخلون رجل بامرأۃ:5232،مسلم،الأدب: 2083)

اس حدیث میں ذرا غور کریں کہ جب دیور ( خاوند کا بھائی ) اپنی بھابھی کیلئے موت ہے تو عام مرد وعورت کا آپس میں اختلاط کتنا خطرناک ہو سکتا ہے !

05.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ،وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ )) (صحیح البخاری،الحج باب حج النساء :2862،صحیح مسلم،الحج :1341)

’’ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے ، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے ۔ اور اسی طرح کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا:اے اللہ کے رسول!میری بیوی حج کے لیے روانہ

ہو گئی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ کے لیے لکھ لیا گیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ۔ ‘‘

یہ دلائل اس بات کے ثبوت کیلئے کافی ہیں کہ مردو زن کا اختلاط قطعا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمان خواتین کو مغرب زدہ لوگوں کے فریب میں نہیں آنا چاہئے اور قرآن وحدیث کے ان واضح دلائل کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دینا چاہئے۔

03.بے پردگی حرام ہے

بناؤ سنگھار کرکے اور بے پردہ ہو کر گھروں سے نکلنا خواتین پر حرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے :

﴿ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُوْلیٰ ۔۔۔۔﴾ (الأحزاب33 :339

’’ اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو ۔ ‘‘

یعنی اگر تمھیں کسی ضرورت کے پیشِ نظر گھروں سے باہر نکلنا پڑے تو اس طرح مت نکلو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کی عورتیں بناؤ سنگھار کو ظاہر کرتے ہوئے نکلتی تھیں ، بلکہ خوشبو لگائے بغیراور مکمل با پردہ ہو کر گھروں سے باہر جایا کرو ۔اس آیت میں تبرج سے منع کیا گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ

01.عورت بے پردہ ہو کر غیر محرم مردوں کے سامنے نہ آئے ۔

02.اور نیم عریاں لباس پہنے ہوئے اپنی زینت یا اعضاء زینت میں سے کوئی عضو ان کے سامنے ظاہر نہ کرے ۔

03.اور مٹک مٹک کر نہ چلے جس سے مردوں کی جنسی خواہش بھڑک اٹھے ۔

04.اور وہ غیر محرم مردوں سے نرم اور پست آواز میں گفتگو نہ کرے جس سے ان کے دلوں میں برے خیالات پیدا ہوں ۔

05.اور وہ غیر محرم مردوں سے مصافحہ نہ کرے اور ان کے ساتھ اختلاط سے پرہیز کرے ۔

یہ تمام صورتیں اس تبرج میں شامل ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ایمان والی خواتین کو منع کردیا ہے اور اسے جاہلیت کے اعمال میں سے ایک عمل قرار دیا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَائِ اللاَّتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ وَأَنْ یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ﴾ (النور24:60)

’’ اور وہ بوڑھی عورتیں جنھیں نکاح کی خواہش نہ رہی ہوان کیلئے گناہ کی بات نہیں کہ وہ اپنی اوڑھنی یا برقعہ وغیرہ اتار دیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھریں۔ اور اس سے بھی پرہیز کریں تو ان کیلئے بہتر ہے ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمررسیدہ خواتین کو غیر محرم مردوں کے سامنے اوڑھنی یا برقعہ وغیرہ اتارنے کی اجازت دی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا بناؤ سنگھار ظاہر نہ ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر ان کا بناؤ سنگھار ظاہر ہوتا ہو تو انہیں بھی چادر یا برقعہ وغیرہ اتارنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے فورا بعد یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس سے بھی پرہیز کریں یعنی برقعہ وغیرہ نہ اتاریں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ لہٰذا جب عمر رسیدہ خواتین کو بناؤ سنگھار کے اظہار کی اجازت نہیں او ران کیلئے برقعہ پہننا بہتر ہے توجوان عورتوں کو اس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ خوشبو سے معطر ہو کر اور مکمل میک اپ کئے ہوئے بغیر پردہ کے پھرتی رہیں!

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بناؤ سنگھار ظاہر کرنے والی خواتین کو ان الفاظ میں سخت وعید سنائی ہے :

’’ دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے ۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے ۔ اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ ہوں گی۔ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور تکبر سے مٹک کر چلنے والی ہوں گی ، ان کے سر اونٹوں کی کہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہوں گے ۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی ۔ ‘‘ (صحیح مسلم ۔الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون :2128)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْقَوْمِ لِیَجِدُوْا رِیْحَہَا فَہِیَ زَانِیَۃٌ )) (سنن أبی داؤد،الترجل باب فی طیب المرأۃ:4167، سنن الترمذی،الإستئذان باب ما جاء فی کراہیۃ خروج المرأۃ متعطرۃ:2937،سنن النسائی،الزینۃ باب ما یکرہ للنساء من الطیب:5126)

’’ جو عورت خوشبو لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے تاکہ وہ اس کی خوشبو محسوس کر سکیں تو وہ بد کار عورت ہے ۔ ‘‘

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بناؤ سنگھار کو ظاہر کرتے ہوئے اوربے پردہ ہو کر گھروں سے باہر نکلنا

کبیرہ گناہ ہے ۔

04. پردہ کرنا فرض ہے

خواتینِ اسلام پر اپنے پورے جسم کا پردہ کرنا فرض ہے جس کی فرضیت کے دلائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔ جبکہ مغرب زدہ لوگ پردے کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں اور ان کا دعوی یہ ہے کہ پردہ اسلام کے اوائل میں تو درست تھا ، اب یہ قابلِ عمل نہیں رہا ! حالانکہ تمام ائمۂ دین ، علماء کرام اور مجتہدین امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن وسنت کے احکامات تاقیامت باقی ہیں ۔ اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قیامت تک کے لوگوں کیلئے ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی قیامت تک کے لوگوں کیلئے ہے اور اس میں کوئی رد وبدل نہیں ہو سکتا ۔ پھر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم نازل ہونے کے بعد تمام خواتینِ اسلام نے اس حکم کی پابندی کی ، چنانچہ وہ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں اور جب کسی ضرورت کے پیشِ نظر گھر سے باہر جاتیں تو مکمل با پردہ ہو کر جاتیں۔پھر مسلمان خواتین کا یہ عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اورپھر تابعین رحمہ اللہ کے عہد میں بھی جاری رہا ۔ اور یہی وہ زمانے ہیں جن کے بہترین زمانہ ہونے کی شہادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔ پھر اس کے بعد بھی یہ مبارک عمل کبھی منقطع نہیں ہوا حتی کہ چودھویں صدی ہجری میں جب خلافتِ اسلامیہ کا خاتمہ ہوا ، امتِ مسلمہ بصد افسوس چھوٹے چھوٹے ملکوں میں منقسم ہو گئی اور مغربی افکار کی نشرواشاعت کا آغاز ہوا تو اکثر مسلمان خواتین نے پردے کو خیر باد کہہ دیا اورآہستہ آہستہ بیشتر اسلامی ممالک میں بے حیائی اور عریانی نے حیااور غیرت کی جگہ لے لی ۔ لہٰذا پردہ دورِ حاضر کے علماء کی اختراع نہیں بلکہ یہ اسلام کی بہترین صدیوں میں بھی تھا اور اس کے بعد بھی کئی صدیوں تک جاری رہا ۔ اس لئے اسے رجعت پسندی یا دقیانوسیت قرار دینا ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کا ازالہ کرنا ازحدضروری ہے ۔

برادرانِ اسلام ! اب آپ فرضیتِ پردہ کے متعلق واضح دلائل سماعت فرمائیں تاکہ آپ کو یہ معلو م ہو کہ پردہ قرآن وحدیث سے ایک ثابت شدہ حکم ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتینِ اسلام کو اس کا پابند کیا ہے اور یہی پاکباز خواتین کا شیوہ اور طرزِ عمل رہا ہے ۔

01.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ﴾ (الأحزاب33 :53)

’’ اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو ۔ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی ہے ۔ ‘‘

یہ آیت ’’ آیۃ الحجاب ‘‘ یعنی ’ پردے کی آیت ‘ کے نام سے معروف ہے کیونکہ پردے کی فرضیت کے متعلق یہ پہلی آیت تھی اور یہ ماہِ ذو القعدہ ۵؁ھ میں نازل ہوئی ۔ اِس کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی : اے اللہ کے رسول ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں تو کاش آپ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو پردہ کرنے کا حکم دیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (صحیح البخاری:4790)

یہ آیت اگرچہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے بارے میں نازل ہوئی لیکن اس میں پردے کا حکم تمام خواتین ِ اسلام کیلئے تھا اور اب تک ہے اور اسی طرح رہے گاکیونکہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو پردہ کرنے کا حکم دیا وہاں تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی خواتین کو اس پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا اورپردہ کرنے کی جو حکمت اس آیت میں ذکر گئی ہے کہ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی ہے ،یہی حکمت اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں پردہ کرنے کا حکم عام ہے اور اس میں تمام خواتینِ اسلام شامل ہیں، کیونکہ جب پردہ کرنے سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن جیسی پاکباز خواتین کے دل پاکیزہ رہیں گے تو باقی خواتین کیلئے تو اس پر عمل کرنا اور بھی ضروری ہو گا تاکہ ان کے دلوں میں بھی پاکیزگی آئے ۔

02.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنیٰ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ ﴾ (الأحزاب33 :59)

’’ اے نبی ! اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی ، پھر انھیں ستایا نہیں جائے گا ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور آپ کی صاحبزادیوں سمیت تمام خواتینِ اسلام کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک بڑی چادر کے ذریعے سر سے لیکر پاؤں تک مکمل پردہ کیا کریں اور اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اس سے ان کی پہچان ہو جائے گی کہ یہ شریف گھرانوں کی باعزت اور باحیا خواتین ہیں۔ اس لئے کوئی شخص انھیں ستانے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اِس آیت سے معلوم ہوا کہ پردہ کرنا شرافت اور حیاء کی علامت اور بے پردگی بے حیائی کی علامت ہے ۔

اسی طرح اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ چہرہ سمیت پورے جسم کا پردہ کرنا فرض ہے کیونکہ عربی زبان میں ( جلباب ) اس کھلی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم ڈھک جائے اور بالکل یہی معنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اور صحابیات رضی اللہ عنہن نے بھی اس آیت سے اخذ کیا تھا۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

’’ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصار کی خواتین گھونگٹ بنائے ہوئے گھروں سے اس طرح نکلتی تھیں کہ گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں اور انھوں نے سیاہ رنگ کی چادریں اوڑھ رکھی ہوتی تھیں۔ ‘‘ (مصنف عبد الرزاق)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں :

’’ اللہ تعالیٰ انصاری خواتین پر رحم فرمائے ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انھوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر ان سے اپنے چہرے ڈھانپ لئے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یوں باوقار انداز میں نماز پڑھتیں کہ جیسے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں۔ ‘‘ (ابن مردویہ)

اسی طرح اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ پردہ کرنے کا حکم تمام خواتینِ اسلام کیلئے ہے نہ کہ صرف امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کیلئے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ جہاں اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں وہاں دیگر مومنوں کی تمام خواتین کو بھی اس کا حکم دیں ۔

3۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَائِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ أُوْلِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلیٰ عَوْرَاتِ النِّسَائِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ﴾ (النور24 :31)

’’ایمان والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اپنی عزت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگھار کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے ، یا اپنے باپ کے،یا اپنے خسر کے،یا اپنے لڑکوں کے،یا اپنے خاوندکے لڑکوں کے ، یا اپنے بھائیوں کے،یااپنے بھتیجوں کے ، یا اپنے بھانجوں کے،یا اپنے میل جول کی عورتوں کے،یا اپنے غلاموں کے،یا ایسے نوکرطرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔ ‘‘

اس آیت میں کئی باتیں انتہائی توجہ کے قابل ہیں :

01.اللہ تعالیٰ نے ایمان والی خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کریں ۔ اور یہ بغیر پردہ کے ممکن نہیں کیونکہ جب پردہ نہیں ہو گا تو مرد بے پردہ عورت کی طرف متوجہ ہو گا ، نظریں ملیں گی اور پھر انجام عورت کی بے عزتی ہو گا ۔ اِس طرح پردہ کرنے سے عزت کا تحفظ ہوتا ہے اور بے پردگی سے ایسا نہیں ہو سکتا ۔

02.اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت ( بناؤ سنگھار ) ظاہر کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے اس زینت کے جو مجبورا یا خود بخود ظاہر ہو جائے ۔اس سے ثابت ہوا کہ پردہ کرنا عورت پر فرض ہے کیونکہ بغیر پردہ کے زینت کو چھپانا ممکن نہیں ۔ اسی طرح اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ چہرے کا پردہ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ زیب وزینت کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے ، لہٰذا اسے چھپانا لازم ہے ۔

03.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خواتین اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔ یعنی اپنا سر ، چہرہ ، گردن اور سینہ اچھی طرح سے چھپا کر رکھیں۔

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں:(( یَرْحَمُ اللّٰہُ نِسَائَ الْمُہَاجِرَاتِ الْأُوَل، لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ﴿وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ﴾شَقَّقْنَ مُرُوطَہُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِہَا)) (صحیح البخاری،تفسیر القرآن باب قولہ ( وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ۔۔) :4758)

’’ اللہ تعالیٰ اولین مہاجرین کی عورتوں پر رحم فرمائے ، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو انھوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر اپنے چہروں کو چھپا لیا ۔‘‘

اور ابن ابی حاتم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے ، ان کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے قریشی خواتین کی فضیلت کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگیں : ہاں ٹھیک ہے قریشی خواتین فضیلت والی ہیں لیکن میں نے انصاری خواتین سے زیادہ افضل خواتین نہیں دیکھیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی سب سے زیادہ تصدیق کرنے والی اور اس پر سب سے زیادہ مضبوط ایمان والی ہیں ۔ چنانچہ جب سورۃ النور میں یہ حکم نازل ہوا(وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ ) یعنی وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈ الے رکھیں تو ان کے مردوں نے انہیں یہ حکم پڑھ کر سنایا ۔ اس پر وہ صبح کے وقت جب نماز پڑھنے کیلئے گئیں تو اپنی چادروں کے ساتھ یوں گھونگٹ بنا کر گئیں کہ جیسے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں ۔ ‘‘ (فتح الباری:490/8)

اس سے معلوم ہوا کہ ان خواتین ِ اسلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو فورا عملی جامہ پہنایا اور اس کی تعمیل میں کسی حیل وحجت سے کام نہ لیا ۔ کاش آج کی خواتین بھی اسی جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہرہ کریں ۔

04.اللہ تعالیٰ نے خواتین کو پاؤں مار کر چلنے سے بھی منع فرمایا تاکہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر نہ ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے خوبصورت لباس کو ظاہر کرنا، زیورات پہن کر اور خوب میک اپ وغیرہ کرکے اپنے حسن کی نمائش کرنا اور غیر محرم مردوں کو دعوتِ نظارہ دینا یہ سب عورتوں پر حرام ہے ۔

دوسرا خطبہ

سامعین گرامی ! قرآن مجید سے فرضیت ِ پردہ کے دلائل کا تذکرہ سننے کے بعد آئیے اب حدیثِ نبوی سے بھی اس کے دلائل سماعت کر لیجئے :

04.فرضیت ِ پردہ کی چوتھی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو بیان کرتی ہیں کہ :

(کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم مُحْرِمَاتٌ،فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا،فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ) (سنن أبی داؤد:1833،سنن ابن ماجہ:2935وضعفہ الألبانی ولکن لہ شاہد من حدیث أسماء وفاطمۃ)

’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں ، جب مرد ہمارے سامنے آتے تو ہم میں سے ہر خاتون اپنی کھلی چادر کو اپنے سر سے چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھی اور جب وہ گذر جاتے تو ہم اپنی چادر ہٹا لیتیں ۔ ‘‘

اس حدیث میں پردے کی فرضیت کا واضح ثبوت موجود ہے کیونکہ پردہ فرض تھا تو تبھی وہ پاکباز خواتین حالتِ احرام میں بھی غیر محرم مردوں کے سامنے آنے پر اپنے چہروں کو چھپا لیا کرتی تھیں ۔ اِس سے اس بات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب احرام کی حالت میں وہ اس قدر پردے کی پابندی کرتی تھیں تو اس کے علاوہ باقی ایام میں وہ کس قدر اس کی پابندی کرتی ہو نگی !

نیز اس میں اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ چہرے کا پردہ کرنا لازمی امر ہے کیونکہ جب احرام کی حالت میں غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ ننگا رکھنے کی اجازت نہیں تو کسی اور حالت میں چہرے کو ننگا رکھنا کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے !

اور کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ ایسا تو محض امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہی کرتی تھیں جنھیں پردہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ باقی صحابیات رضی اللہ عنہن بھی اسی طرح ہی کیا کرتی تھیں۔جیسا کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ ہم (غیر محرم ) مردوں سے اپنے چہرے چھپا لیا کرتی تھیں۔ ‘‘ (ابن خزیمہ، الحاکم : صحیح علی شرط الشیخین)

05.واقعۂ افک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :

’’ صفوان پردے کا حکم نازل ہونے سے قبل مجھے دیکھا کرتا تھا ۔ اس نے جب مجھے پہچانا تو إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگا ۔ اس پر میں بیدار ہو گئی اور میں نے فورا اپنی چادر سے اپنا چہرہ چھپا لیا ۔‘‘ (صحیح البخاری وصحیح مسلم)

06.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ ( کُنَّ نِسَائُ الْمُؤْمِنَاتِ یَشْہَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَاۃَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِہِنَّ ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ إِلٰی بُیُوْتِہِنَّ حِیْنَ یَقْضِیْنَ الصَّلاۃَ ، لَا یَعْرِفُہُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ ) (صحیح البخاری:578 وصحیح مسلم :645)

’’ مومنہ عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کر تی تھیں۔ پھر نماز ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس پلٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا ۔‘‘

یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پردہ کرنا تمام خواتینِ اسلام پر فرض ہے اور یہی اوائلِ اسلام سے پاکباز خواتین کا شیوہ رہا ہے ۔

07.حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام خواتین کو عیدگاہ میں آنے کا حکم دیا تو بعض عورتوں نے کہا : ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لِتُلْبِسْہَا أُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا )) (صحیح البخاری:324،صحیح مسلم :890)

’’اسے اس کی بہن چادر پہنائے ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تمام خواتین اپنے چہروں سمیت پورے جسم کا پردہ کرتی تھیں ، اور یہ بھی کہ کسی خاتون کیلئے جائز نہیں کہ وہ بغیر پردہ کے گھر سے باہر نکلے کیونکہ اگر بغیر پردہ کے گھر سے نکلنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم ان خواتین کو ضرور اجازت دے دیتے جن کے پاس پردہ کرنے کیلئے چادریں نہیں ہوتی تھیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کہ جس خاتون کے پاس چادر نہ ہو اسے اس کی بہن چادر پہنائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر پردہ کے گھر سے نکلنا عورت پر حرام ہے ۔

08.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ جَرَّ ثَوبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ))

’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ گھسیٹے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا ۔‘‘

یہ سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( فَکَیْفَ یَصْنَعْنَ النِّسَائُ بِذُیُوْلِہِنَّ )

عورتیں اپنی چادروں کے کناروں کا کیا کریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( یُرْخِیْنَ شِبْرًا) ’’ ایک بالشت تک لٹکا لیا کریں۔ ‘‘ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : (( إِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُہُنَّ)) تب تو پیر ننگے ہو جائیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 🙁 فَیُرْخِیْنَہُ ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ ) ’’وہ ایک ہاتھ تک انھیں لٹکا لیا کریں ، اِس سے زیادہ نہیں۔ ‘‘ (سنن الترمذی :1731: حسن صحیح ۔ وصححہ الألبانی)

اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کہ اس وقت کی پاکباز خواتین کس قدر پورے جسم کے پردے کا خیال کرتی تھیں کہ انھیں اپنے پاؤں تک کو ننگا کرنا گوارا نہ تھا ، جبکہ اس دور کی خواتین پاؤں تو کیا پنڈلیوں بلکہ گھٹنوں تک اپنی ٹانگیں ننگی کرکے پھرتی رہتی ہیں اور انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمان عورتوں کو ہدایت دے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

برادرانِ اسلام ! ہم نے اب تک فرضیتِ پردہ کے جو دلائل ذکر کئے ہیں اگر آپ نے ان دلائل کو بغور سن لیا ہے تو اب ذرا اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا اس کے بعد بھی کسی خاتون کیلئے جائز ہے کہ وہ پردہ کئے بغیر گھر سے باہر نکلے ؟ اپنا لباس ، اپنے زیورات اور اپنی زیب وزینت کو غیر محرم مردوں کے سامنے ظاہر کرکے انھیں دعوتِ نظارہ دیتی رہے ؟ کیا یہ دلائل جاننے کے بعد بھی کسی سرپرست یا والدین کیلئے یہ درست ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی یا بیٹی یا بہن کو پردہ کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت دے ؟ کیا قرآن وحدیث کی ان واضح تعلیمات کو جاننے کے بعد یہ ضروری نہیں ہو جاتا کہ خواتینِ اسلام سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے فورا ان پر عمل در آمد کریں اور پردے کی پابندی شروع کردیں ؟ اور کیا والدین کیلئے ضروری نہیں ہو جاتا کہ وہ ابتداء ہی سے اپنی بیٹیوں کو پردے کا پابند بنائیں تاکہ وہ بڑی ہو کر بھی اس کی پابندی کرتی رہیں؟

ہم اپنے غیور بھائیوں اور لائقِ احترام ماؤں اور بہنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور سب مل کر مغرب کے گمراہ کن افکار کا مقابلہ کریں اور اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو عفت وپاکدامنی کا تاج پہنا کر انھیں بے پردگی،اختلاط اور عریانی سے محفوظ رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے اَحکامات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین