اچھی اور بری صحبت کے اثرات

سچے لوگوں کے ساتھی بننے کے متعلق حکم الہی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (التوبة : 119)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

دو اینٹوں کی مثال

ایک آدمی نے دو اینٹیں لی ایک اینٹ کو مسجد میں لگا دیا..

اور ایک اینٹ بیت الخلا میں لگا دی

اینٹیں ایک جیسی

بنانے والا اک جیسا

لگانے والا بھی ایک ہی آدمی

لیکن ایک کی نسبت مسجد سے ہوئی اور ایک کی نسبت بیت الخلا سے

جس اینٹ کی نسبت بیت الخلا سے ہوئی

وہاں ہم ننگے پاوں بھی رکھنا پسند نہیں کرتے

اور جس اینٹ کی نسبت بیت اللہ سے ہوئی

وہاں ہم اپنی پیشانیاں ٹیکتے پھرتے ہیں

دونوں کے رتبے میں فرق کیوں ہوا

قیمت ایک تھی چیز بھی ایک تھی

ایک ہی طریقے سے دونوں اینٹ ایک انسان نے لگائی بھی

فرق صرف یہ تھا کہ دونوں کی نسبت الگ الگ تھی

اپنی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رکھئیں

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رکھیں

یقینا بہت فرق پڑے گا اللہ والوں کی محفل اور اللہ والوں سے نسبت اللہ تک پہنچا دیتی ہے.

دوستی، صحبت، مجلس اور تعلقات کے ماحول پر کیسے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں

مرغے اور گدھے کی صحبت میں فرق

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا» (بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابٌ: خَيْرُ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ،3303)

جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو ، کیوں کہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیو ںکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے

اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیک لوگوں کی صحبت میں دعا کرنا مستحب ہے۔ کیوں کہ قبول ہونے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔

سیدنا زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ, فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ (ابوداؤد ،كِتَابُ النَّومِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي الدِّيكِ وَالْبَهَائِمِ،5101صحیح)

” مرغ کو گالی مت دیا کرو ، اس لیے کہ یہ نماز کے لیے جگاتا ہے ۔ “

گھوڑوں اور بکریوں کی صحبت میں فرق

بکریوں کی طبعیت میں چونکہ نرمی ہوتی ہے اس لیے بکریوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسان کی طبیعت نرم ہوتی ہے اور اونٹوں اور گھوڑوں کی طبیعت میں چونکہ نخرا، سختی اور شیخی ہوتی ہے اس لئے ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں بھی فخر اور تکبر پیدا ہوتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«رَأْسُ الكُفْرِ نَحْوَ المَشْرِقِ، وَالفَخْرُ وَالخُيَلاَءُ فِي أَهْلِ الخَيْلِ وَالإِبِلِ، وَالفَدَّادِينَ أَهْلِ الوَبَرِ، وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الغَنَمِ» (بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابٌ: خَيْرُ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ،3301)

کفر کی چوٹی مشرق میں ہے اور فخر اور تکبر کرنا گھوڑے والوں ، اونٹ والوں اور زمینداروں میں ہوتا ہے جو ( عموماً ) گاوں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور بکری والوں میں دل جمعی ہوتی ہے ۔

درندوں کی کھال کے قالین وغیرہ استعمال کرنے سے منع فرمایا

حضرت ابوملیح بن اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے

نَہٰی عَنْ جُلُوْدِ السَّبَاعِ ۔

رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَاؤُدَ وَالنَّسَائِیُّ

درندوں کی کھال استعمال کرنے سے منع فرمایاہے۔

وَزَادَ التِّرْمِذِیُّ وَالدَّارِمِیُّ :

ترمذی اور دارمی نے اس حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیاہے

اَنْ تُفْتَرَشَ

(صحیح)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال نیچے بچھانے سے منع فرمایاہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ خونخوار درندوں سے بنی ہوئی اشیاء کی صحبت کا انسان کی طبیعت پر یہ برا اثر پڑتا ہے کہ اس کے اندر بھی درندگی کے اوصاف در آتے ہیں

مردوں پر ریشم اور سونے کے زیورات حرام قرار دینے میں حکمت

سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے

أَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ وَأَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي۔ (ابو داؤد، كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابٌ فِي الْحَرِيرِ لِلنِّسَاءِ،4057)

ریشم لیا اور اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور سونا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا ‘ پھر فرمایا ” بلاشبہ یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ “

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چونکہ نرم اور ملائم ہیں یا نرمی کو لازم ہیں لہذا ان کے استعمال سے مردوں کی طبیعت میں نزاکت، آرام پسندی، کمزوری اور بزدلی پیدا ہو گی

جیسا کہ اللہ نے یہی بات عورت کے متعلق زیوارت کے استعمال کی وجہ سے بیان کی ہے

فرمایا

أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ۔ (الزخرف : 18)

اور کیا (اس نے اسے رحمان کی اولاد قرار دیا ہے) جس کی پرورش زیور میں کی جاتی ہے اور وہ جھگڑے میں بات واضح کرنے والی نہیں؟

اصحاب کہف کی چوکیداری کی وجہ سے کتے کا تذکرہ تاقیامت باقی رکھا گیا

کتا ایک ایسا جانور ہے کہ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لاَ تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيْرُ ]۔ [ بخاری، اللباس، باب التصاویر : ۵۹۴۹ ]

’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو۔‘‘

لیکن جب وہی کتا چند نیک افراد کی چوکیداری کے لیے ان کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ نے صحبت صالحین کی وجہ سے ناصرف یہ کہ محل مدح میں اس کا تذکرہ کیا بلکہ تاقیامت اس کی یاد زندہ کردی

فرمایا

وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ۔ (الکہف :18)

اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ محبت کی وجہ سے ایک جانور کی جان بخشی اور دشمنی کی وجہ سے دوسرے کے قتل کا حکم

ام شریک رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا اور فرمایا :

[ وَكَانَ يَنْفُخُ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ]۔ [ بخاري، الأنبیاء، باب قولہ تعالٰی: « واتخذ اللہ إبراہیم خلیلا… » : ۳۳۵۹ ]

’’یہ ابراہیم علیہ السلام پر پھونکیں مارتی تھی۔‘‘

محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (۸۳۹۲) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ الْوَزَغُ يَنْفُخُ فِيْهِ فَنَهَی عَنْ قَتْلِ هٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ هٰذَا ]

’’مینڈک ابراہیم علیہ السلام سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘

اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

[ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِ ]۔ [ بخاري : ۳۳۰۶ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے(چھپکلی کو) قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘

اچھے اور برے دوست کی مثال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَ نَافِخِ الْكِيْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُّحْذِيَكَ وَ إِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا طَيِّبَةً، وَ نَافِخُ الْكِيْرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيْحًا خَبِيْثَةً ]۔ [ بخاري، الذبائح و الصید، باب المسک : ۵۵۳۴، عن أبي موسٰی رضی اللہ عنہ ]

’’نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی ہے، کستوری رکھنے والا یا تو تجھے عطیہ دے دے گا، یا تو اس سے خرید لے گا، یا اس سے عمدہ خوشبو پاتا رہے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا، یا تو اس سے گندی بو پاتا رہے گا۔‘‘

نیک لوگوں کی صحبت کی تمنا کیجئے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ۔ (المائدة : 84)

اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ (پر) اور اس چیز پر ایمان نہ لائیں جو حق میں سے ہمارے پاس آئی ہے اور یہ طمع نہ رکھیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ داخل کر لے گا۔

نیک لوگوں کے پیچھے چلنے اور ان کے ساتھی بننے کی دعا سکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یوں تعلیم دی ہے

فرمایا

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔ (الفاتحة : 6)

ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔ (الفاتحة : 7)

ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔

مومن کے علاوہ کسی اور کو اپنا ساتھی نہ بناؤ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا :

لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ۔ (ترمذی ،ابْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي صُحْبَةِ الْمُؤْمِنِ،2395)

مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے

سچے لوگوں کے ساتھی بننے کے متعلق حکم الہی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔ (التوبة : 119)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

ہر آدمی قیامت کے دن اپنے دوستوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ»۔ (بخاري ،بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،6168)

تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو

اور ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ»۔ (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،6168)

انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے

سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (ابو داؤد، كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابٌ فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ،4031حسن)

” جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا ۔ “

متقی لوگ قیامت کے دن اپنے دوستوں کی سفارش کریں گے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ۔ (الزخرف : 67)

سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"جب اہل جنت، جنت میں داخل کیے جائیں گے اور وہ وہاں ان لوگوں کو نہیں پائیں گے جن کے ساتھ وہ دنیا میں خیر کے کاموں پر ہوا کرتے تھے، تو وہ ان کے بارے میں رب العزت سے سوال کریں گے، اور کہیں گے

"اے ہمارے رب! ہمارے بھائی ہوا کرتے تھے جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے۔ ہم انہیں یہاں نہیں دیکھتے۔؟

تو اللہ عزوجل و تعالی فرمائیں گے،

(جاؤ آگ سے انہیں نکال لاؤ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے)

حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:

مؤمن دوست بنانے میں کثرت سے کام لو، کیونکہ قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت (کرنے کا اختیار) ہوگا۔

وفادار دوست : وہ ہے جو تمہارے ساتھ جنت تک جائے!

ابن جوزي رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اگر تم جنت میں مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ تو میرے بارے میں سوال کرنا

پھر کہنا

"اے ہمارے رب! تیرا فلاں بندہ ہمیں تیری یاد دلاتا تھا۔

پھر آپ رحمہ اللہ رو دئیے

اللہ تعالی وسیع رحمت نازل فرمائے

جہنمی خواہش کریں گے کہ کاش ہمارا کوئی نیک دوست ہوتا جو ہماری سفارش کرتا اور ہمیں چھڑا لیتا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا جہنمی لوگ کہیں گے

وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ۔ (الشعراء : 99)

اور ہمیں گمراہ نہیں کیا مگر ان مجرموں نے۔

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِينَ۔ (الشعراء : 100)

اب نہ ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والے ہیں۔

وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ۔ (الشعراء : 101)

اور نہ کوئی دلی دوست۔

یعنی کفار کا قیامت کے دن کوئی دلی دوست ہو گا نہ رشتے دار، سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، جب کہ مومنوں کے دوست انبیاء، فرشتے اور تمام مومن ہوں گے

دوست انسان کی پہچان ہوتے ہیں لہذا اچھے لوگوں کو دوست بنائیں

عدي بن زيد نے کہا ہے

إِذَا كُنْتَ فِي قَوْمٍ فَصَاحِبْ خَيَارَهُمْ

وَلَا تُصَاحِبِ الأَرْدَى فَتَرْدَى مَعَ الرَّدِي

عَنِ المَرءِ لاَ تَسْأَلْ وَاسئَلْ عَنْ قَرِينِهِ

فَكُلّ قَرِينٍ بالمُقَارِنِ يَقْتَدِي

جب تولوگوں کے درمیان ہو تو ان میں بہترشخص کو اپنا ساتھی بنا،اور یاد رکھ کہ خراب اوربدمزاج انسان کو اپنا ساتھی اوردوست نہ بنانا،چونکہ اس سے دوستی تیری خرابی کا باعث بنے گی۔

آدمی کے بارے میں معلومات نہ لے بلکہ اس کے دوست یا ساتھی کے بارے میں معلومات لے

چونکہ ہر دوست اور ساتھی اپنے ہم جولیوں کی اتباع کرتا ہے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

«اعْتَبِرُوا النَّاسَ بِأَخْدَانِهِمْ»۔ [الطبراني ,المعجم الكبير للطبراني8919 ,9/187]

لوگوں کو ان کے دوستوں سے پہچانو

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے

آدمی کو خوب سوچ سمجھ کر دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلرَّجُلُ عَلٰی دِيْنِ خَلِيْلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُّخَالِلُ ]۔ [ أبوداوٗد، الأدب، باب من یؤمر أن یجالس : ۴۸۳۳، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ و حسنہ الألباني ]

’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے دلی دوست بنا رہا ہے۔‘‘

مربہ اور سرکہ کی مثال

کچھ گاجریں خریدیں ان میں سے آدھی پانی اور چینی میں ڈال دیں اور آدھی پانی اور نمک میں ڈال دیں

کچھ دنوں کے بعد آپ دیکھیں گے گے کہ پہلے والی مربہ اوربعدوالی سرکہ بن چکی ہیں

گاجر وہی ہے لیکن ماحول تبدیل ہوا ہے

پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ نیک بنیں تو نیک لوگوں کے ساتھ رہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ برے بنیں نے تو برے لوگوں کے ساتھ رہیں

یہودی کے بیٹے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت فائدہ دے گئی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

ایک یہودی لڑکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا:

أَسْلِمْ

مسلمان ہوجا۔

اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا

أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

( کیا مضائقہ ہے )

ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ

شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔ (بخاری 1356)

پیغمبر کا بیٹا اور بیوی ہونے کے باوجود بری صحبت لے ڈوبی

نوح علیہ السلام کے بیٹے اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اعزاز سے نوازا تھا

اور کو پیغمبر کا بیٹا بنایا تو دوسری کو پیغمبر کی بیوی بنایا

مگر افسوس کہ دونوں کے تعلقات اور مراسم برے لوگوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دونوں دھتکار دیئے گئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو برے دوست جہنم لے گئے

صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا

مامون الرشید کو خلق قرآن پر قائل کرنے والا اس کا ایک دوست ہی تھا

یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل اور فصیح و بلیغ آدمی تھا معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اپنی قابلیت کی وجہ سے مامون کے دماغ پر چھا گیا اور اسکو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی ترویج و اشاعت پر آمادہ کیا اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔ اس عقیدے کی اشاعت کی جانی چاہیے

مامون نے روم و ایران اور ہندوستان وغیرہ سے منطق و فلسفہ کی کتابیں جمع کیں اور ان کے ترجمے کراۓ ان کی اشاعت ہوئی جس کی وجہ سے طرح طرح کے شکوک وشبہات عوام میں پیدا ہونے لگے

شیعہ استاد کی صحبت کا اثر

"ملک محمد سبحان(صوفی محمد عبداللہ کے دادا) اور ان کے بیٹے قادر بخش فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ ملک قادر بخش کے ایک لڑکے ملک محمد رمضان اور داماد منشی محمد دین نے شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔

وہ اس طرح کہ ایک شخص ماسٹر برکت علی سے جو شیعہ تھے، یہ ٹیوشن پڑھا کرتے تھے؛ ان سے متاثر ہو کر یہ بھی شیعہ ہو گئے۔

ملک قادر بخش نے ان کو بہت سمجھایا، سختی بھی کی، لیکن یی شیعہ ہی رہے۔

ان دونوں کی اولاد میں سے بھی زیادہ افراد شیعہ ہی۔*

صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ

حیات، خدمات، آثار

اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کی اچھی باتوں سے بھی دور ہی رہیں

خلیفہ مامون کے واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف یہ کہ بدعقیدہ لوگوں کی صحبت سے دور رہنا چاہئے بلکہ ان کی کتب سے بھی بچ کر رہیں

امام احمد رحمه الله حارث محاسبي جیسے زاہد كى اچھی اچھی خشوع وزهد والى كتابوں سے سختى سے منع كرتے

اسی طرح محدث كبير إمام ابوزرعة الرازي رحمه الله وغيرهم اور دیگر کہتے جس کیلئے كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم اور سلف كى كتب میں ہدایت نہیں اسکو ان بدعتيوں کی کتابوں سے کہاں ہدایت مل سکتی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ۔ (المائدة : 77)

اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔

اہل بدعت، آیاتِ الہی میں کجی کے متلاشی اور ظالم لوگوں کی دوستی سے پرہیز کریں

فرمایا

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ۔ (الأنعام : 68)

اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔

یعنی جب تم ایسے لوگوں کی مجلس دیکھو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کا مذاق اڑا رہے ہوں، یا عملاً ان کی بے قدری کر رہے ہوں، یا وہ اہل بدعت ہوں جو اپنی بے جا تاویلوں اور تحریفات سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں، یا ان پر نکتہ چینی کر رہے ہوں اور الٹے سیدھے معنی پہنا کر ان کا مذاق اڑا رہے ہوں، تو اس مجلس سے اس وقت تک کنارہ کرو جب تک وہ دوسری باتوں میں مشغول نہ ہو جائیں اور اگر شیطان کے بھلانے سے اس مجلس میں بیٹھ ہی جاؤ تو یاد آنے کے بعد ان ظالموں کی مجلس میں بیٹھے نہ رہو۔

اہل بدعت کی صحبت اس صحبت سے بھی کئی درجے بدتر ہے جس میں گناہوں کا علانیہ ارتکاب ہو رہا ہو، خصوصاً اس شخص کے لیے جو علمی اور ذہنی طور پر پختہ نہ ہو اور بدعتیوں کی غلط تاویلوں کی غلطی سمجھنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔

سورہ نساء میں ہے

فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ۔ (النساء، آیت 140)

تو ان کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ بے شک تم بھی اس وقت ان جیسے ہو۔

برے شخص کی صحبت اس کے مرنے کے بعد بھی ناقابل قبول قرار

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ۔ (بخاری ،كِتَابُ الجَنَائِزِ،بَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ،1315)

کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو

اپنے آپ کو فاحش قسم کےلوگوں کی بری صحبت سے دور رکھیں

اپنی عزت، دین، ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کے لئے ہمیں ان تمام دوستوں، سوسائٹیز، مقامات اور اشیاءسے دوری اختیار کرنی چاہئے جو فتنہ وفساد کا باعث بن سکتی ہیں

جیسے بازار، مخرب اخلاق میگزین اور رسائل، حیا سوز فلمیں، ٹی وی چینلز، انٹر نیٹ کے ویب سائٹس اور عریاں اشتہارات وغیرہ وغیرہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ۔ (ترمذي /2378)

آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ، اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے

لہذا ایسی مجالس، دوستیاں اور سوسائٹیز ، بالخصوص غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہونے سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا جائے جہاں زنا کاری اور بدکاری کو گناہ نہیں سمجھا جاتا

اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو تو بری دوستی کا نتیجہ کتنا مہلک ہے۔

سورہ صافات میں اللہ تعالیٰ نے جنتی لوگوں کی مجالس کا تذکرہ کیا ہے کہ جنتی جنت میں لگی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے دنیا میں گزرے ہوئے حالات و واقعات پوچھیں گے اور سنائیں گے

ان میں سے ایک جنتی کہے گا، دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا، جو مرنے کے بعد اٹھنے کا منکر تھا، وہ مذاق کرتے ہوئے انکار کے طور پر کہا کرتا تھا کہ کیا واقعی تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے جیسی بعید از عقل بات کو مانتے ہیں، کیا جب ہم مرکر مٹی اور ہڈیاں ہو گئے تو کیا واقعی ہمیں ہمارے اعمال کی جزا دی جائے گی؟

پھر وہ مومن اپنے جنتی ساتھیوں اور ہم نشینوں سے کہے گا، کیا تم جہنم میں جھانکو گے، شاید وہ کہیں نظر آجائے تو دیکھیں کس حال میں ہے؟

چنانچہ وہ مومن اپنے دوستوں کے ساتھ جھانکے گا تو قیامت کے اس منکر کو بھڑکتی ہوئی آگ کے وسط میں دیکھے گا۔

پھر وہ اسے مخاطب کر کے کہے گا، اللہ کی قسم ! یقینا تو قریب تھا کہ مجھے راہ راست سے بہکا کر ہلاک کر دیتا۔

اس ساری گفتگو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے

فرمایا

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ۔ (الصافات : 50)

پھر ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔

قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ۔ (الصافات : 51)

ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا بے شک میں، میرا ایک ساتھی تھا۔

يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ۔ (الصافات : 52)

وہ کہا کرتا تھا کہ کیا واقعی تو بھی ماننے والوں میں سے ہے۔

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ۔ (الصافات : 53)

کیا جب ہم مر گئے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہو گئے تو کیا واقعی ہم ضرور جزا دیے جانے والے ہیں؟

قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ۔ (الصافات : 54)

کہے گا کیا تم جھانک کر دیکھنے والے ہو؟

فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ۔ (الصافات : 55)

پس وہ جھانکے گا تو اسے بھڑکتی آگ کے وسط میں دیکھے گا۔

قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ۔ (الصافات : 56)

کہے گا اللہ کی قسم! یقینا تو قریب تھا کہ مجھے ہلاک ہی کر دے۔

وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ۔ (الصافات : 57)

اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو یقینا میں بھی ان میں ہوتا جو حاضر کیے گئے ہیں۔

برا دوست عذاب الہی کی ایک شکل ہے

جب کوئی شخص دنیا کی زیب و زینت میں ہمہ تن مشغول ہو جاتا ہے اور اللہ کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے،تو فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں اور شیطان اور غلط دوست اس سے چمٹ جاتے ہیں، جو اسے ہر برائی میں مبتلا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔

فرمایا

وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ۔ (الزخرف: 36)

اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ۔ (الزخرف : 37)

اور بے شک وہ ضرور انھیں اصل راستے سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ۔

حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ۔ (الزخرف : 38)

یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیا ن دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، پس وہ برا ساتھی ہے۔

وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ۔ (الزخرف : 39)

اور آج یہ بات تمھیں ہرگز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔

قیامت کے دن انسان خواہش کرے گاکاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا

فرمایا

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا۔ (الفرقان : 27)

اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، کہے گا اے کاش! میں رسول کے ساتھ کچھ راستہ اختیار کرتا۔

يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا۔ (الفرقان : 28)

ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔

لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا۔ (الفرقان : 29)

بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔

ہر ایسے شخص، مجلس اور ماحول سے دور رہیں جہاں ایمان خطرے میں پڑنے کا امکان ہو

سیدنا عمران بن حصین ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ, فَلْيَنْأَ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ, فَيَتَّبِعُهُ مِمَّا يَبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ۔ (ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ،بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ،4319 صحیح)

” جو شخص دجال کے متعلق سنے تو اس سے دور رہے ‘ اللہ کی قسم ! آدمی اس کے پاس آئے گا جب کہ وہ سمجھتا ہو گا کہ وہ صاحب ایمان ہے ‘ مگر ان شبہات کی بنا پر جو اس کی طرف سے اٹھائے جائیں گے ‘ اس کی اتباع کر بیٹھے گا ۔ “

امام مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں

إنك أن تَنقُلَ الحجارة مع الأبرار؛

خيرٌ من أن تأكل الحلوى مع الفجَّار ۔ « روضة العقلاء صفحة 100»

آپ نیک لوگوں کے ساتھ پتھر منتقل کریں یقیناً یہ آپ کے لئے برے لوگوں کے ساتھ مٹھائی کھانے سے کہیں بہتر ہے