ایسے نیک اعمال جو ترازو میں بہت وزن رکھتے ہیں

 

وَنَضَعُ الۡمَوَازِيۡنَ الۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ فَلَا تُظۡلَمُ نَـفۡسٌ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِثۡقَالَ حَبَّةٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَيۡنَا بِهَا‌ ؕ وَكَفٰى بِنَا حٰسِبِيۡنَ (الانبیاء_47)

اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

قیامت کے دن اللہ تعالٰی انسانوں کا حساب کرنے کے لیے ترازو رکھیں گے جن میں اچھے اور برے اعمال کا وزن کیا جائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، . (مسلم 445)

’’بےشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور نہ سونا اس کے شایان شان ہے ، وہ میزان کے پلڑوں کو جھکاتا اور اوپر اٹھاتا ہے ، رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ،

کفار کے اعمال تو ویسے ہی رائیگاں چلے جائیں گے ان کا کچھ بھی وزن نہیں کیا جائے گا

جیسا کہ قرآن میں موجود ہے

اُولٰۤٮِٕكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَلِقَآٮِٕهٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فَلَا نُقِيۡمُ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَزۡنًـا (الکہف_105)

یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

اور حدیث میں آتا ہے

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

‏‏‏‏ "”إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اقْرَءُوا

( فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا) سورة الكهف آية 105″”، ‏‏‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو «فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا‏» ”قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے۔“

ہاں البتہ مومنین کے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا اور

قیامت کے دن اہل ایمان کو ان کی برائیوں کی سزا تب ملے گی جب یہ شرطیں موجود ہوں

01.گناہ کبیرہ ہوں۔ (دیکھیے نسائ : ٣١)

02.ان سے توبہ کئے بغیر فوت ہوجائیں۔

03.ان کی نیکیاں میزان میں بھاری نہ ہو سکیں۔

04.ان کے حق میں کوئی سفارش قبول نہ ہو۔

05.ان کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جس سے وہ مغفرت کے مستحق ہوچکے ہوں، مثلاً اہل بدر۔

06.اللہ تعالیٰ نے وہ گناہ معاف نہ کیا ہو، کیونکہ گناہ گار مومن اللہ کی مرضی پر ہے، وہ چاہے تو اسے عذاب دے، چاہے تو بخش دے۔

( تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں کبیرہ گناہوں سے بچنےاور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اللہ تعالٰی ہماری نیکیاں میزان میں بھاری فرمائے

اللہ تعالٰی ہمارے حق میں کسی کی سفارش قبول فرمائے

اللہ تعالٰی اپنی خاص رحمت سے ہماری بخشش فرمائے

آئیے آج ہم قیامت کے دن نیکیوں اور برائیوں کو تولنے، ماپنے اور وزن کرنے والے ترازو کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کریں اور ایسے اعمال کا تذکرہ کریں جن کی وجہ سے ترازو میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا*

وہ ترازو ایسا ہو گا کہ اس میں ذرہ برابر اعمال بھی تولے جائیں گے کوئی نیکی چھوڑی جائے گی نہ ہی کوئی برائی چھوڑی جائے گی

فرمایا

فَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرًا يَّرَهٗ

وَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ( الزلزال_7،8)

” تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ “

۔” ذرۃ “ بکھرے ہوئے غبار کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ جو روشن دان میں سورج کی شعاعوں سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ چھوٹی چیوٹنی کو بھی ” ذرہ “ کہتے ہیں کافر ہو یا مسلمان، ذرہ بھر نیکی کی ہوگی تو دیکھ لے گا اور ذرہ بھر برائی کی ہوگی تو دیکھ لے گا، اعمال کے دفتر سے کوئی چیز غائب نہیں ہوگی۔

( تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

دوسری آیت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا

يٰبُنَىَّ اِنَّهَاۤ اِنۡ تَكُ مِثۡقَالَ حَبَّةٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَكُنۡ فِىۡ صَخۡرَةٍ اَوۡ فِى السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِى الۡاَرۡضِ يَاۡتِ بِهَا اللّٰهُ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيۡفٌ خَبِيۡرٌ (لقمان_16)

اے میرے چھوٹے بیٹے ! بیشک کوئی چیز اگر رائی کے دانے کے وزن کی ہو، پس کسی چٹان میں ہو، یا آسمانوں میں، یا زمین میں تو اسے اللہ لے آئے گا، بلا شبہ اللہ بڑا باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔

سورۃ الکہف میں ارشاد ہے

وَوُضِعَ الۡكِتٰبُ فَتَرَى الۡمُجۡرِمِيۡنَ مُشۡفِقِيۡنَ مِمَّا فِيۡهِ وَ يَقُوۡلُوۡنَ يٰوَيۡلَـتَـنَا مَالِ هٰذَا الۡـكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيۡرَةً وَّلَا كَبِيۡرَةً اِلَّاۤ اَحۡصٰٮهَا‌ ۚ وَوَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا‌ ؕ وَ لَا يَظۡلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا (الکہف_49)

اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی ! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے، اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائینگے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

ترازو میں نیکیاں بھاری ہونگیں تو کامیابی اور ہلکی رہ گئیں تو نا کامی ہوگی

فرمایا

وَالۡوَزۡنُ يَوۡمَٮِٕذِ اۨلۡحَـقُّ‌ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏

وَمَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤٮِٕكَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ بِمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَظۡلِمُوۡنَ (الأعراف 7،8)

اور اس دن وزن حق ہے، پھر وہ شخص کہ اس کے پلڑے بھاری ہوگئے، تو وہی کامیاب ہونے والے ہیں

اور وہ شخص کہ اس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔

أعمال کے تول کی کیفیت

کچھ اہل علم نے کہا کہ وہ کاغذ تولے جائیں گے جن میں عمل لکھے ہوں گے۔ بعض نے کہا کہ ان اعمال کو جسم دے کر وہ جسم تولے جائیں گے۔ بعض نے کہا کہ اس عمل والے کو تولا جائے گا۔

حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” تینوں صورتیں ممکن ہیں اور آیات و احادیث میں ہر ایک کی تائید ملتی ہے۔ “

چوتھی صورت یہ ہے کہ خود عمل تو لے جائیں گے، کیونکہ ان کا وجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا

( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ ) [ الکہف : ٤٩ ]

” اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے۔ “ اور فرمایا :

( وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ) [ الأنبیاء : ٤٧ ]

” اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے۔ “

*اب تو جدید سائنس نے دنیا ہی میں یہ مسئلہ حل کردیا ہے، ہوا میں تحلیل ہوجانے والی آوازوں اور اعمال کا سارا نقشہ اور ختم ہونے والی چیزوں کا وزن سب کچھ انسان کے ہاتھوں ظاہر ہو رہا ہے۔

[ وللہ المثل الاعلی ]

مگر ماننے کا لطف اس وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات عقل میں آئے یا نہ آئے اسے من و عن تسلیم کیا جائے اور اسی کا نام اسلام ہے، سائنس سے ثابت ہونے کے بعد کسی نے مانا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو کیا مانا ؟

( تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

سنن ابی داؤد کی شرح عون المعبود میں لکھا ہے

يوضع ميزان يوم القيامة يوزن به الصحائف التي يكون مكتوبا فيها أعمال العباد ، وله كفتان إحداهما للحسنات والأخرى للسيئات( عون المعبود)

قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا جس میں وہ رجسٹر تولے جائیں گے جن میں لوگوں کے اعمال لکھے ہوئے ہونگے اور اس ترازو کے دو پلڑے ہونگے ایک نیکیوں کا پلڑا اور دوسرا برائیوں کا پلڑا

إنسان اپنی برائیاں دیکھ کر کیا خواہش کرے گا

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

يَوۡمَ تَجِدُ كُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَيۡرٍ مُّحۡضَرًا ۖۚ ۛ وَّمَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ ۚۛ  تَوَدُّ لَوۡ اَنَّ بَيۡنَهَا وَبَيۡنَهٗۤ اَمَدًاۢ بَعِيۡدًا ‌ؕ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ‌ؕ وَاللّٰهُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ(آل عمران_30)

جس دن ہر شخص حاضر کیا ہوا پائے گا جو اس نے نیکی میں سے کیا اور وہ بھی جو اس نے برائی میں سے کیا، چاہے گا کاش ! اس کے درمیان اور اس کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ بندوں سے بےحد نرمی کرنے والا ہے۔

(وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ *

وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ *

يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ *

مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ۜ *

هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ *

خُذُوهُ فَغُلُّوهُ) (الحآقه25 – 30)

اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا

اور میں نہ جانتا میرا حساب کیا ہے۔جاتا۔

اے کاش کہ وہ ( موت) کام تمام کردینے والی ہوتی۔

میرا مال میرے کسی کام نہ آیا۔

میری حکومت مجھ سے برباد ہوگئی

چند ایسے اعمال کا تذکرہ جنہیں بجا لانے سے ترازو وزنی ہوگا

یوں تو کوئی بھی نیکی اپنا خاص وزن اور حجم رکھتی ہے اور نیکی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کا ترازو میں وزن ہوگا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لَا تَحْقِرَنَّ مِنْ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ (مسلم 6690)

” نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو ، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے ( مسلمان ) بھائی کو کھلتے ہوئے چہرے سے ملو ۔ "

بعض أعمال ایسے ہیں جن کے وزن، حجم اور بڑھوتری کا خاص تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے

01.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ

کا ذکر کرنا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "”كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ‏‏‏‏‏‏ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، ‏‏‏‏‏‏حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ””. (بخاری 6682)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو پر ( آخرت میں ) بھاری ہیں اور اللہ رحمن کے یہاں پسندیدہ ہیں وہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده،‏‏‏‏ سبحان الله العظيم‏ ‏‏.» ۔

02.

لاحول ولاقوةإلابالله کا ورد کرنا

فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ فَقُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (مسلم 6862)

” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عبدالہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کا پتہ نہ بتاؤں؟ ” میں نے کہا : کیوں نہیں ، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : ” لا حول ولا قوة الا بالله ” کہا کرو ۔ "

03.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ

یہ کلمات اگر تین تین مرتبہ کہے جائیں تو ان کا وزن کئی گھنٹوں کی عبادت سے زیادہ ہے

عَنْ جُوَيْرِيَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى وَهِيَ جَالِسَةٌ فَقَالَ مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا قَالَتْ نَعَمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ (مسلم 6913)

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صبح سویرے ان کے ہاں سے باہر تشریف لے گئے ، اس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ میں تھیں ، پھر دن چڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ ( اسی طرح ) بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ نے فرمایا : ” تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ ” انہوں نے عرض کی : جی ہاں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے ( ہاں سے جانے کے ) بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں ، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں : ” سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته ” پاکیزگی ہے اللہ کی اور اس کی تعریف کے ساتھ ، جتنی اس کی مخلوق کی گنتی ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے ۔ "

04.

لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ

کا ذکر کرنا

05.

نیک اولاد کی وفات پر اجر کی امید کرتے ہوئے صبر کرنا

اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ:

((بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ مَا اَثْقَلَھُنَّ فِیْ الْمِیْزَانِ:

(وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قَالَ رَجُلٌ: مَا ھُنَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: )

لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،

وَالْوَلَدُالصَّالِحُ،یُتَوَفّٰی فَیَحْتَسِبُہُ وَالِدُہُ۔))(مسند احمد: ۱۸۲۴۴) السلسلۃ الصحیحۃ 2524

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واہ، واہ، کیا بات ہے پانچ چیزوں کی، وہ کتنی بھاری ہیں ترازو میں۔ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ،سُبْحَانَ اللّٰہِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہ (مسند احمد 9624)

.ِاور نیک بیٹا، جو فوت ہو جائے اور اس کے والدین ثواب کی نیت سے صبر کریں۔

اسی طرح ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (مسلم 223)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مکمل وضو کرنا نصف ایمان ہے

اور «الحمد لله» میزان کو ( ثواب سے ) بھر دیتا ہے،

اور «سبحان الله»، «الله أكبر» آسمان و زمین کو ( ثواب سے ) بھر دیتے ہیں

اسی طرح نیک اولاد کی وفات پر صبر کرتے ہوئے اجر کی امید رکھنا

یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں

نمبر ایک، حدیث کے الفاظ ہیں( الولد الصالح )اس کا مطلب ہے کہ ایک تو یہاں بڑی اولاد یا بڑے بچوں کی بات ہورہی ہے دوسرے نیک اولاد کی بات ہے

اس لیے ہمیں اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری اولاد نیک ہے یا نہیں اور اولاد کی تربیت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان کا عمل جاری رہتا ہے اگر اس کی اولاد نیک ہو تو

جیسا کہ حدیث میں آتا ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (مسلم 4223)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے ( وہ منقطع نہیں ہوتے ) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے

نمبر دو یہ کہ اجر کی امید رکھتے ہوئے صبر کیا جائے لیکن صبر یہ نہیں ہے کہ جب رو رو کر اور واویلا مچا مچا کر تھک جائیں تو پھر کہیں ہمارا تو صبر ہی ہے بلکہ صدمے اور مصیبت کے آغاز میں ہی صبر کریں

حدیث میں آتا ہے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ قَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ أَوْ قَالَ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ)مسلم 2140(

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ” ( حقیقی ) صبر پہلے صدمے یا صدمے کے آغاز ہی میں ہوتا ہے ۔

06.

شہادتین کا اقرار

لا الہ الا اللہ

اور

محمد رسول اللہ

کا اقرار بہت زیادہ وزن رکھتا ہے

حدیث میں بیان ہوا ہے

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ ثُمَّ يَقُولُ أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ أَفَلَكَ عُذْرٌ فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولُ احْضُرْ وَزْنَكَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ فَقَالَ إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ(ترمذی 2639)

۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا، اس کے ننانویں اعمال نامے پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نگاہ جاتی ہے، پھر پروردگار اس سے فرمائے گا : ” کیا تم ان میں سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو ؟ “ وہ عرض کرے گا : ” نہیں۔ “ پھر پروردگار فرمائے گا : ” تمہاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور آج تم سے کوئی بےانصافی نہیں کی جائے گی۔ “ پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس پر ” أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ “ درج ہوگا۔ وہ عرض کرے گا : ” بھلا یہ ایک پرزہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گا ؟ “ حکم ہوگا کہ تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا (لہٰذا صبر کرو) پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا ایک پرزہ دوسرے پلڑے میں، تو وہ دفتر ہلکے ہوجائیں گے اور وہ پرزہ بھاری ہوگا اور اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔ “

[ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت۔۔ : ٢٦٣٩۔ ابن ماجہ : ٤٣٠٠۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١؍٢٦١ ]

شہادتین کی اہمیت کو اس بات سے سمجھئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا سے کہا اگر آپ کلمہ پڑھ لیں تو میں آپ کی بخشش کے لیے اس کی بنیاد پر اللہ تعالٰی سے بحث کروں گا

حدیث سنئیے

لَمَّا حَضَرَتْ أَ بَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ، دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ،

فَقَالَ: ((أَ یْ عَمِّ! قُلْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أُحَاجُّ بِہَا لَکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔))

فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ: یَا أَ بَا طَالِبٍ! أَ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ قَالَ: فَلَمْ یَزَالَایُکَلِّمَانِہِ حَتّٰی قَالَ آخِرَ شَیْئٍ کَلَّمَہُمْ بِہِ: عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ) (بخاری و مسلم)

جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس داخل ہوئے، جبکہ اس کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، یہ ایسا کلمہ ہے کہ میں اس کے ذریعہ آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بحث مباحثہ کروں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کر جاؤ گے، وہ یہی بات دوہراتے رہے اور ورغلاتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر (مر رہا) ہے

07.

اچھا اخلاق

ترازو میں وزنی اعمال میں ایک عمل( حسن اخلاق )بھی ہے

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏

مَا مِنْ شَيْءٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ (ابو داؤد 4799)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( قیامت کے دن ) میزان میں خوش خلقی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہو گی ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ

فَقَالَ تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ (ترمذی 2004)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا تو آپ نے فرمایا

اللہ کا تقوی

اور اچھا اخلاق

اگر انسان کے مرنے کے بعد لوگ اس کے اچھے اخلاق کی تعریف کریں تو اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "”مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَجَبَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَجَبَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ مَا وَجَبَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ””. (بخاری)

صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا ‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔

عن أنس قال: لقي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أبا ذر، فقال: يا أبا ذر، أَلا أَدُلُكَ عَلَى خَصْلَتَينِ هُمَا أَخَفُ عَلَى الظَهَر، وَأَثْقَلُ فِي المِيزَانِ مِن غَيرِهما؟ قَالَ: بَلَى، يَا رَسول الله قَال: «عَلَيكَ بحُسنِ الخُلُقِ، وَطُولِ الصَمْتِ، فَوالذي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَمِلَ الخَلَائِقُ بِمِثْلِهِما.

انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: ابو ذر ! کیا میں تمہیں دو خصلتوں کے بارے مںَ نہ بتاؤں جو پشت پر ہلکی (یعنی کرنے میں آسان) اور (میزان میں)دوسروں سے بھاری ہونگی؟ ابو ذر نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق اور طویل خاموشی کو لازم کر لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مخلوق نے ان دونوں جیسا کوئی عمل نہیں کیا

Al-Silsila-tus-Sahiha#202

08.

جہادی گھوڑا

جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے گھوڑا رکھنے کی وجہ سے ترازو بہت بھاری ہوگا

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنِ احْتَبَسَ فَرَسًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِيمَانًا بِاللَّهِ وَتَصْدِيقًا لِوَعْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ شِبَعُهُ وَرِيُّهُ وَبَوْلُهُ وَرَوْثُهُ حَسَنَاتٍ فِي مِيزَانِهِ .(بخاری و مسلم، نسائی 3612)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے گھوڑا پالے اور اللہ پر اس کا پورا ایمان ہو اور اللہ کے وعدوں پر اسے پختہ یقین ہو تو اس گھوڑے کی آسودگی، اس کی سیرابی، اس کا پیشاب اور اس کا گوبر سب نیکیاں بنا کر اس کے میزان میں رکھ دی جائیں گی“۔

دوسری حدیث میں آتا ہے

فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ أَرْوَاثُهَا وَآثَارُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَهَا كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ (بخاری 2860)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا……….. جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب کا باعث ہے یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کی نیت سے اسے پالتا ہے پھر جہاں خوب چری ہوتی ہے یا ( یہ فرمایا کہ ) کسی شاداب جگہ اس کی رسی کو خوب لمبی کر کے باندھتا ہے ( تاکہ چاروں طرف چر سکے ) تو گھوڑا اس کی چری کی جگہ سے یا اس شاداب جگہ سے اپنی رسی میں بندھا ہوا جو کچھ بھی کھاتا پیتا ہے مالک کو اس کی وجہ سے نیکیاں ملتی ہیں اور اگر وہ گھوڑا اپنی رسی تڑا کر ایک زغن یا دو زغن لگائے تو اس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانوں میں بھی مالک کے لیے نیکیاں ہیں اور اگر وہ گھوڑا نہر سے گزرے اور اس میں سے پانی پی لے تو اگرچہ مالک نے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو پھر بھی اس سے اسے نیکیاں ملتی ہیں

جہادی گھوڑا رکھنا حکمِ الہی ہے

فرمایا

وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ (الأنفال_60)

اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کرسکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمہاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

گھوڑوں میں برکت، خیر، اجر اور غنیمت رکھ دی گئی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ "”الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ””. (بخاری 3119)

”گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک خیر و برکت ( آخرت میں ) اور غنیمت ( دنیا میں ) بندھی ہوئی ہے۔“

گھر میں گھوڑا رکھئیے، کتا نہیں

مغرب کی اندھی تقلید، فیشن اور جہالت کی انتہا دیکھیں کہ آج لوگ اپنے گھروں میں بابرکت جانور گھوڑے کی بجائے کتا رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں

حالانکہ کے گھوڑے میں فوائد ہی فوائد ہیں جبکہ کتا سراسر باعث نقصان ہے

گھوڑا رکھنے سے قیامت کے دن نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا

جبکہ

کتا رکھنے سے نیکیوں والا پلڑا ہلکا ہوگا

ترمذی کی ایک حدیث میں ہے:

من اتخذ کلبًا إلاّ کلب ماشیة أو صید أو زرع انتقص من أجرہ کل یوم قیراط (ترمذی، رقم: ۱۴۹، باب ما جاء من أمسک کلبا الخ)

یعنی جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا

اسی طرح بخاری میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تدخل الملائکة بیتًا فیہ صورة ولا کلب (البخاری، رقم: ۴۰۰۲، ۵/۱۸، بیروت)

یعنی رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا

09.

صدقہ کیجئیے

اللہ کی راہ میں کیا ہوا صدقہ، چاہے وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، قیامت تک مسلسل بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وزن اور حجم میں پہاڑوں سے بھی زیادہ ہو جاتا

( وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ) [ البقرۃ : ٢٧٦ ]

” اللہ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ “

فرمایا

وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ (روم_39)

اور جو کچھ تم زکوٰۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔

اور فرمایا :

(مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) [ البقرۃ : ٢٤٥ ]

” کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے۔ “

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

( لَا یَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ إِلَّا أَخَذَہَا اللّٰہُ بِیَمِیْنِہِ فَیُرَبِّیْہَا کَمَا یُرَبِّيْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ أَوْ قَلُوْصَہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتھا : ٦٤؍١٠١٤ ]

” کوئی شخص پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی کرتا ہے تو رحمٰن اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے مالک کے لیے اس کو پالتا بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑی کے بچے کو یا اونٹنی کے بچے کو پالتا بڑھاتا ہے، حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے یا اس سے بھی بڑی۔ “

10. مسلمان بھائی کا جنازہ پڑھیں

اگر کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھنا فرض ہوتا ہے اور یہ فوت شدہ کا باقی مسلمانوں پر حق ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مسلمان کے مسلمان پر چھے حقوق ہیں

چھٹا حق آپ نے یہ بیان کیا کہ

إذا مات فاتبعہ( مسلم )

جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے

جنازہ پڑھنے سے بہت بڑے پہاڑ جیسی بڑی اور وزنی نیکی ملتی ہے اور اگر مکمل تدفین تک ساتھ رہیں تو دو بہت بڑے بڑے پہاڑوں جیسی وزنی اور بڑی نیکیاں ملتی ہیں

حدیث میں موجود ہے

‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "”مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ فَلَهُ قِيرَاطٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ””،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ وَمَا الْقِيرَاطَانِ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ. (بخاری 1325)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جنازہ میں شرکت کی پھر نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا کہ دو عظیم پہاڑوں کے برابر۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین