ایصال ثواب اور جاری رہنے والے اعمال

 

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی اور جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔

اس سے مراد ان کی زندگی میں یا ان کی موت کے بعد دوسرے لوگوں کے وہ اچھے یا برے اعمال ہیں جن کا سبب یہ بنے اور ان کے کسی قول یا فعل یا ان کی کسی حالت کی وجہ سے دوسرے لوگوں نے وہ اعمال اختیار کیے۔ چنانچہ لوگوں نے ان کی دعوت، نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر یا جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے یا ان کے پڑھانے یا تصنیف کی وجہ سے ان کی زندگی میں یا موت کے بعد جو نیک عمل کیے، یا انھوں نے کوئی مسجد، مدرسہ یا لوگوں کے فائدے کی کوئی چیز بنا دی، جس سے ان کی موت کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے، سب ان کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ یہی حال ان برے اعمال کا ہے جو ان کی وجہ سے ان کی زندگی میں یا موت کے بعد لوگوں نے کیے، وہ بھی ان کے نامہ اعمال میں درج ہوں گے

(بعض وہ اعمال جو انسان خود کرتا ھے لیکن اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں )

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (الكهف : 46)

مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔

جاری رہنے والی چند نیکیاں

01. صدقہ جاریہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ ] [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان … : ۱۶۳۱ ]

’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، صدقہ جاریہ سے، یا اس علم سے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، یا نیک اولاد سے جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ (بخاري)

”جس نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی خیرات کی اور اللہ تک حلال کمائی ہی کی خیرات پہنچتی ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کر لیتا ہے اور خیرات کرنے والے کے لیے اسے اس طرح بڑھاتا رہتا ہے جیسے کوئی تم میں سے اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ برابر ہو جاتی ہے۔“

02. نيك اولاد

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَنَّى لِي هَذِهِ فَيَقُولُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ(مسند احمد وابن ماجه)

بے شک اللہ تعالیٰ یقیناً جنت میں نیک بندے کا درجہ بلند کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے اے میرے رب یہ میرے لیے کیسے ہوا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تیرے لیے تیرے لیے تیرے بیٹے کے استغفار کرنے کی وجہ سے

 "فوت شدگان کو تحفہ بھیجا کریں!”

 نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

’’إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَنَّى لِي هَذِهِ؟ فَيَقُولُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ!‘‘ |[ مسند أحمد : ١٠٦١٠، إسناده حسن ]|

"بیشک ﷲ عز وجل جنت میں نیک انسان کا درجہ بلند کر دیتا ہے. وہ شخص پوچھتا ہے: یارب! یہ کس بات کا بدلہ ہے؟ ﷲ تعالی فرماتا ہے: تمہارے بیٹے کی تمہارے لیے بخشش طلب کرنے کا نتیجہ ہے۔”

مؤرخ تقي الدين المقریزي رحمه الله کی اہلیہ جوانی میں فوت ہو گئیں. وہ اُن کے حالات لکھتے ہوئے کہتے ہیں :

’’… وكنت أكثر الاستغفار لها فأُريتُها في المنام، فقلت لها: يا أم محمد! الذي أرسله إليكِ يصل -أي الاستغفار- ؟! قالت: نعم، في كل يوم تصل هديتك إليَّ. ثم بكت وقالت: قد علمتَ أني عاجزة عن مكافأتك!‘‘ |[ درر العقود الفريدة : ٧٩/٣ ]|

"میں اس کی بخشش کیلیے کثرت سے دعا کیا کرتا تھا. ایک دن میں نے اسے خواب میں دیکھا تو پوچھا :

اے ام محمد! جو کچھ میں آپ کو بھیجتا ہوں (یعنی جو استغفار کرتا ہوں)، وہ آپ تک پہنچتا ہے؟

کہنے لگی : جی روزانہ آپ کا ہدیہ مجھے پہنچتا ہے. پھر وہ رو پڑی اور کہا: آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے اس تحفے کا بدلہ چکانے سے قاصر ہوں!”

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ ] [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان … : ۱۶۳۱ ]

’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، صدقہ جاریہ سے، یا اس علم سے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، یا نیک اولاد سے جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

بچوں کو فاتحہ ہی پڑھا دو

امام سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ابو منصور بغدادی کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا : اللہ ذوالجلال نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انہوں نے فرمایا : اپنے بچوں کو سورت فاتحہ سکھانے کی وجہ سے اس نے مجھے معاف کر دیا

[ طبقات القراء – ابن الجَزري ٢ / ١٠٥ ]

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے باپ کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات اور حج وغیرہ کرنے کے متعلق پوچھا کہ کیا اسے کچھ فائدہ ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ (ابو داود)

اگر وہ مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے کوئی غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو یہ اسے پہنچتے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ(مسلم)

جو کسی خیر کے کام میں رہنمائی کرتا ہے تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا اس کام کے کرنے والے کو ملتا ہے

03. علم سكهانا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ

أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ (ابن ماجه)

افضل صدقہ یہ ہے کہ مسلمان آدمی کوئی علم سیکھے پھر وہی علم اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ (ابن ماجه 242)

مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا ۔

‏قال ابن القيم – رحمه الله تعالىٰ – :

و من تأمل أحوال أئمة الإسلام

كأئمة الحديث و الفقه كيف هُم تحت التراب و هُم في العالمين كأنهم أحياءٌ بينهم لم يَفقِدُوا منهم إلا صُوَرَهم و إلا فذِكرهم و حديثهم و الثناء عليهم غير منقطع و هذه هي الحياة حقا . (مفتاح دار السعادة (١٣٩)

حقیقی زندگی

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں

جوشخص ائمہ اسلام محدثین وفقہائے کرام کے حالات سے واقف ہے وہ جانتاہے کہ ائمہ کرام منومٹی تلے دبے ہونے کے باوجود ہمارے درمیان اس طرح موجود ہیں جیسے زندہ ہوں صرف انکے چہرے ہم سے اوجھل ہیں انکا تذکرہ خیر, انکی باتیں, اور انکی تعریف کبھی ختم نہیں ہونے والی اوریہ ہی حقیقی زندگی ہے

04. سنت یااچھاطریقہ جاری کرنا

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ] [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ… : ۱۰۱۷ ]

’’جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ (یعنی کتاب و سنت کی کوئی بات) جاری کرے اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا اجر ہے اور ان لوگوں کے عمل کا بھی جو اس کے بعد کریں، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں سے کچھ کم ہو اور جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ (یعنی کتاب و سنت کے خلاف یا کوئی بدعت) جاری کرے اس پر اپنے گناہ کا بوجھ ہو گا اور ان کے گناہ کا بھی جو اس کے بعد کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں سے کچھ کم ہو۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا (مسلم)

05. سرحد كا پہرہ دینا

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عز وجل : ١٩١٣، عن سلمان الفارسی (رض) ]

” اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا پہرا دینا ایک مہینے کے قیام اور صیام سے بہت رہے اور اگر اس حالت میں مجاہد فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا اور اس کے مطابق اس کا رزق بھی جاری رہے گا، نیز وہ آزمائش سے بھی محفوظ رہے گا۔ “

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا [ بخاری، الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ : ٢٨٩٢، عن سہل بن سعد (رض) ]

” اللہ کے راستے میں ایک دن (سرحدوں پر) پہرا دینا دنیا اور دنیا میں جو کچھ موجود ہے، اس سب سے بہتر ہے۔ “

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ الْمَيِّتِ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الْمُرَابِطَ فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ (ابو داود)

ہر میت کا عمل ختم ہو جاتا ہے سوائے سرحد پر پہرے داروں کے پس بے شک قیامت کے دن تک ان کا عمل بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے بھی محفوظ رہتے ہیں

06.درخت لگانا

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (بخاري ومسلم 3973)

ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی مسلمان نہیں جو درخت لگائے یا کاشت کاری کرے ، پھر اس سے کوئی پرندہ ، انسان یا چوپایہ کھائے مگر اس کے بدلے میں اس کے لیے صدقہ ہو گا۔

لیث نے ہمیں ابوزبیر سے خبر دی ، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے نخلستان میں تشریف لے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں ، کسی مسلمان نے یا کافر نے؟ انہوں نے عرض کی : بلکہ مسلمان نے ۔ تو آپ نے فرمایا : جو مسلمان درخت لگاتا ہے یا کاشت کاری کرتا ہے ، پھر اس میں سے انسان ، چوپایہ یا کوئی بھی ( جانور ) کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔

(مسلم 3969

عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَكَلَتْ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ (مسلم)

مسلم کے لگائے ہوئے درخت میں سے

کچھ کھایا جائے تو اس کے لیے صدقہ ہے

کچھ چرایا جائے تو بھی صدقہ ہے

کوئی درندہ کھا جائے تو بھی صدقہ ہے

کوئی پرندہ کھا جائے تو بھی صدقہ ہے

اس میں سے کوئی کچھ لے جائے تو بھی صدقہ ہے

(میت کو فائدہ پہنچانے والے بعض وہ اعمال جو دوسرے لوگ کرتے ہیں )

_______

01. میت کیلیے دعا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (الحشر : 10)

اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو ان کے بعد آئیں گے اور کہیں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے۔ اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

موت کی خبر سنتے ہی استغفار کریں

أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى لَهُمْ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ۔ (بخاری 1327)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی ‘ اسی دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے اللہ سے مغفرت چاہو۔

حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ (مسلم 6929)

مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے ، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے : آمین ، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے ، اس وقت ان کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں تو آپ نے انھیں بند کردیا ، پھر فرمایا :

إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ

جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھاکرتی ہے ۔

فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ

اس پر انکے گھر کے کچھ لوگ چلا کر ر ونے لگے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ

تم اپنے لئے بھلائی کے علاوہ اور کوئی دعا نہ کرو کیونکہ تم جو کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ (مسلم 920)

اے اللہ!ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مغفرت فرما ، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجات بلند فرما اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو اس کا جانشین بن اور اے جہانوں کے پالنے والے!ہمیں اور اس کو بخش دے ، اس کے لئے اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کے لئے اس ( قبر ) میں روشنی کردے ۔

02. جنازه پڑھیں

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَا مِنْ مَيِّتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ مِائَةً كُلُّهُمْ يَشْفَعُونَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ(مسلم)

جس میت پر سو مسلمان آدمی جنازہ پڑھیں اور وہ سب کے سب اس کی بخشش کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول کر لی جاتی ہے

ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمْ اللَّهُ فِيهِ (مسلم)

کوئی مسلمان آدمی فوت ہو جائے پھر اس کے جنازے میں ایسے چالیس افراد کھڑے ہوں جو اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش قبول کرلیتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جنازہ پڑھایا تو آپ نے یہ دعا کی

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ(ابو داؤد ترمذي)

ایک اور دعا

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ(مسلم)

ایک اور دعا

اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبُّهَا وَأَنْتَ خَلَقْتَهَا وَأَنْتَ هَدَيْتَهَا لِلْإِسْلَامِ وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهَا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّهَا وَعَلَانِيَتِهَا جِئْنَا شُفَعَاءَ فَاغْفِرْ لَهَا (مسند احمد ابو داود)

ایک اور دعا

اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (ابو داؤد ابن ماجه)

03. دفن کرنے کے بعد دعا کریں

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس (کی قبر) پر کھڑے ہو کر فرماتے

اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ (ابوداود)

اپنے بھائی کے لیے بخشش طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے پوچھا جا رہا ہے

يقول ابن الجوزي رحمه الله :

كنت يوما من الأيام نائما فى المسجد، فاستيقظت على صوت جنازة قد دخلت، فقلت سأصلي عليها، فصليت، ثم قلت : سأذهب لأدفنه معهم.

ابن الجوزي لايعرف الميت ولم ير وجهه يوما.

يقول : فلما انتهى الناس من الدفن انصرفوا جميعا، فتعجبت، وبقيت وحدي، فجلست عند القبر، ثم قلت :

يارب، هذا ضيف قد جاء عندك، أنا لا أعرفه، يارب هذا الضيف لو جاء عندي أنا وأنا لا أعرفه لأكرمته، فكيف بك أنت وأنت أكرم الأكرمين.

يقول : ثم خرجت، وعدت إلى المسجد، ونمت، وكنت على سفر،

فرأيت فى منامي رجلا بحلة بيضاء، فقال لى : أأنت الذى دعوت الله لي؟،

فقلت له : من أنت؟

قال : أنا الذي دعوت له عند القبر، والله لقد غفر الله لي بدعوتك.

اللهم سخر لنا من عبادك المخلصين من يدعو لنا بصدق وإخلاص فتجيب دعاءه وأنت المجيب

لو استغنى امرؤ عن الصحبة لأغنى الله عنها نبيه وصفيه محمداً ﷺ ليلة الهجرة، لكن الله ﷻ خلد هذه العلاقة العظيمة في كتابه الكريم :

{ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا }

فالصحبة من أعظم النعم وقد قيل :

سلامٌ على الدنيا إذا لم يكن بها

صديقاً صدوقاً صادق الوعد منصفا

فاللهم كن لأحبتي حبيبا، ولدعائهم مجيبا، واجعل لهم من رحمتك وكرمك حظا ونصيباً۔ امين يارب العالمين.

و لکم مني يا أحبتي سلاما يفوح مسكاً وطيباً

04. عام دنوں میں قبرستان جاکر دعا کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان آتے تو فرماتے:

السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ لَنَا وَلَكُمْ (نسائي 2042)

”اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم ( عنقریب ) تم سے ملنے والے ہیں، تم ہمارے پیش رو ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی درخواست کرتا ہوں“۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا : ۔ ۔ ۔ جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے پاس ہوتی تو ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بقیع ( کے قبرستان میں ) تشریف لے جاتے اور فرماتے :

السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ (مسلم 2255)

اے ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اللہ کی سلامتی ہو ، کل کے بارے میں تم سے جس کا وعدہ کیا جاتا تھا ، وہ تم تک پہنچ گیا ۔ تم کو ( قیامت ) تک مہلت دے دی گئی اور ہم بھی ، اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں ۔ اے اللہ!بقیع غرقد ( میں رہنے ) والوں کو بخش دے ۔ قتیبہ نے ( اپنی روایت ) میں واتاكم ( تم تک پہنچ گیا ) نہیں کہا ۔ ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بقیع کے قبرستان کی طرف نکل جایا کرتے تھے اور ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے میں نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا

إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَدْعُوَ لَهُمْ (مسند احمد)

مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے دعا کروں

اپنے مرحوم والدین کے لیے دعا کیا کریں

عثمان بن سودہ الطفاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ

جب میری والدہ کی وفات ہوئی تو میں ہر جمعے ان کی قبر پر آ کر ان کے لیے دعا اور استغفار کیا کرتا تھا اور صرف اپنی والدہ ہی نہیں بلکہ دیگر فوت شدگان کے لیے بھی دعا کرتا.

ایک روز خواب میں والدہ کی زیارت ہوئی تو میں نے پوچھا:

امی جان! آپ کیسی ہیں؟

تو انہوں نے بتلایا کہ اللہ کا بہت ہی کرم ہے. اس نے مجھے نرم و گداز بستر اور باریک و دبیز ریشم کے تکیے دے رکھے ہیں.

میں نے پوچھا: کیا اور بھی کسی چیز کی ضروت ہے؟

تو میری والدہ نے کہا:

ہاں، بس یہی ضرورت ہے کہ تم دعا کرنے آتے رہا کرو اور یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ کرنا، کیونکہ تم جب بھی آتے ہو تو مجھے (راحت و آرام کی) بشارت ملتی ہے، اور مجھے باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا بیٹا تم سے ملنے کے لیے آیا ہے. یہ سن کر مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے اور میرے ارد گرد کے فوت شدگان بھی خوش ہو جاتے ہیں (یعنی انہیں بھی تمہاری دعا سے راحت ملتی ہے).

(صفة الصفوة لابن الجوزي: 253/2)

05.میت کی طرف سے روزے اور حج ادا کریں

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :

مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔

( حجۃ اللہ البالغہ )

سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ‘ انہوں نے عرض کیا کہ

إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ

میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اقْضِهِ عَنْهَا (بخاري 2761)

ان کی طرف سے نذر پوری کر دے۔

ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ ( ادائیگی سے پہلے ہی ) وفات پا گئیں۔

أَفَأَحُجُّ عَنْهَا

کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَةً اقْضُوا اللَّهَ فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ (بخاری 7315)

ہاں ان کی طرف سے حج کر لو۔ تمہارا کیا خیال ہے، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے پورا کرتیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس قرض کو بھی پورا کر جو اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس قرض کا پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر ایک عورت نے اپنی فوت شدہ والدہ کے متعلق پوچھا :

يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کے ذمے ا یک ماہ کےروزے تھے ، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

صُومِي عَنْهَا

تم ان کی طرف سے روزے رکھو ۔

قَالَتْ إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا

اس نے پوچھا : انھوں نے کبھی حج نہیں کیا تھا ، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حُجِّي عَنْهَا (مسلم 2697)

تم ان کی طرف سے حج کرو ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

أَنَّ امْرَأَةً رَكِبَتْ الْبَحْرَ فَنَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ أَنْ تَصُومَ شَهْرًا فَنَجَّاهَا اللَّهُ فَلَمْ تَصُمْ حَتَّى مَاتَتْ فَجَاءَتْ ابْنَتُهَا أَوْ أُخْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَصُومَ عَنْهَا (ابو داؤد 3308)

ایک عورت بحری سفر پر نکلی اس نے نذر مانی کہ اگر وہ بخیریت پہنچ گئی تو وہ مہینے بھر کا روزہ رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے بخیریت پہنچا دیا مگر روزہ نہ رکھ پائی تھی کہ موت آ گئی، تو اس کی بیٹی یا بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( مسئلہ پوچھنے ) آئی تو اس کی جانب سے آپ نے اسے روزے رکھنے کا حکم دیا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ (بخاري 1952)

اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا

إِنَّهُ كَانَ عَلَى أُمِّهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا

میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے کیا میں اس کی جانب سے رکھ دوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ

اگر تمہاری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟

اس نے کہا:

نَعَمْ

ہاں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى

(ابو داؤد 3310)

اللہ کا قرض تو اور بھی زیادہ ادا کئے جانے کا مستحق ہے ۔

06.میت کی طرف سے صدقه كریں

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا (بخاري(2760) و مسلم)

ایک صحابی ( سعد بن عبادہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہو گئی ‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر۔

سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ!

إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا

میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

قَالَ نَعَمْ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا

فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا (بخاري 2756)

کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا پھل دار نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا وَلَمْ يُوصِ فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ (مسلم)

07. میت کی طرف اس کا قرض ادا كریں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ (ترمذي ابن ماجه)

مومن کی جان اس پر قرضہ کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ قرض ادا کر دیا جائے

سعد بن اطول رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی وفات پا گئے، اور ( ترکہ میں ) تین سو درہم اور بال بچے چھوڑے، میں نے چاہا کہ ان درہموں کو ان کے بال بچوں پر صرف کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ أَخَاكَ مُحْتَبَسٌ بِدَيْنِهِ فَاقْضِ عَنْهُ

تمہارا بھائی اپنے قرض کے بدلے قید ہے، اس کا قرض ادا کرو

انہوں نے کہا: اللہ کے رسول!

قَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ

میں نے ان کی طرف سے سارے قرض ادا کر دئیے ہیں، سوائے ان دو درہموں کے جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیا ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فَأَعْطِهَا فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ (ابن ماجه 2433)

اس کو بھی ادا کر دو اس لیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ (نسائى)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جائے اور اس کے ذمے کچھ قرض ہو تو وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ اس کی طرف قرض ادا کر دیا جائے

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ہم نے اسے غسل دیا اور خوشبو لگائی، پھر ہم اسے لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی نمازجنازہ ادا فرمائیں۔ ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا کہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں، آپ چند قدم چل کررک گئے اور فرمایا:

أَعَلَيْهِ دَيْنٌ

کیا اس پر قرض ہے؟

ہم نے کہا: جی ہاں، دودینار ہیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو واپس چل پڑے،پھر سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی اور ہم دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دودیناروں کی ذمہ داری لے لی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

أُحِقَّ الْغَرِيمُ وَبَرِئَ مِنْهُمَا الْمَيِّتُ

کیا اب قر ض خواہ تجھ سے یہ حق طلب کرے گا اور میت اس سے بری ہو گئی ہے؟

سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نمازجنازہ ادا کی۔ ایک دن کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ دیناروں کا کیا بنا؟ سیدناابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابھی کل تو وہ فوت ہوا ہے، پھر وہ لوٹے اور اگلے دن ان کی ادائیگی کر کے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان کو ادا کر دیا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

الْآنَ بَرَدَتْ عَلَيْهِ جِلْدُهُ (مسند احمد(6069) ونسائى واللفظ لأحمد)

اب اس کی جلد ٹھنڈی ہوئی ہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ