بدعات سے اجتناب ضروری ہے

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبَكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ﴾ (سورة آل عمران آیت:31)۔

ترجمہ: کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

نیز دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَفَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ (سوره نساء آیت:65)

ترجمہ: سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ أَحدَثَ فِي أَمرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدُّ. (متفق عليه)

(صحیح بخاری ، کتاب الصلح باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود. صحیح مسلم: کتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور.)

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس دین میں سے نہ ہو تو وہ بات مردود ہے۔

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيسَ عَلَيهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ. (أخرجه مسلم)

(صحیح مسلم كتاب الأقضية باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا عمل نہیں ہے پس وہ عمل مردود ہے۔

عَن العِربَاض بنِ سَارِيَةَ رضى اللهُ عنهُ قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ذَاتَ يَوم ثُمَّ أَقبَلَ عَلَيْنَا فوَعَظَنَا مَوعِظَةً بَلِيْغَةً، ذَرَفَتْ مِنهَا العُيُوْنُ ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا القُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ هَذِهِ مَوعِظَةٌ مُوَدِّع فَإِذَا تعهَد إِلَيْنَا ، فَقَالَ: أُوصِيكُم بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عبدًا حَبشِيًّا، فَإِنَّه مَن يَعِشَ مِنْكُم بِعدِى فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُم بِسُنَّتِي وَسُنَّةَ الخُلُفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ المَهْدِيِّيْن تَمَسكُوا بِهَا وَعَضُوا عَلَيْهَا بالنَّوَاجِذ، وإيَّاكُم وَمُحْدَثَاتِ الأمور فإنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَ كُل بِدْعَةٍ

ضَلَالَةٌ. (أخرجه أبو داود والترمذي)

)سنن أبو داود، كتاب السنة، باب في لزوم السنة، وسنن ترمذی ابواب العلم باب ما جاء في الأخذ بالسنة وإجتناب البدعة، وقال حسن صحيح، ج : 2676، وصححه الألباني في صحيح سنن الترمذي: (2676)

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک جامع وعظ فرمایا جس سے ہماری آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور قلوب تھرا گئے۔ ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ کا خطبہ ایسا لگا جیسے الوداعی خطبہ ہو ، آپ ہمیں وصیت کیجئے آپ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں تقوی کی وصیت کرتا ہوں ، اور اگر تمہارے اوپر کوئی کالا حبشی حاکم مقرر ہو جائے تو اس کی بھی اطاعت کرنا ۔ اور جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف پائے گا نہیں تمہارے اوپر ہماری سخت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کا اختیار کرنا، ضروری ہے، اسے مضبوطی ( دانتوں ) سے پکڑے رکھو اورنئی چیزوں ( بدعتوں ) سے بچو اس لئے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

وَعَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَطَبَ يَقُولُ: إِنَّ خَيرَ الحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيرَ الهَدىِ هَدىُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الأُمُورِ مُحدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدعَة ضَلَالَة ، (أخرجه مسلم)

(صحيح مسلم: كتاب الجمعة، باب تحقيق الصلاة والخطبة.)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بھی میں خطبہ دیتے تو فرماتے کہ سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر راستہ محمد ے کا راستہ ہے اور دنیا میں نئی باتیں ایجاد کرنی بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

تشریح:

بدعت کے لغوی معنی کسی ایسی چیز کو ایجاد کرنا جس کی کوئی مثال نہ ملتی ہو ، اور اصطلاحی معنی دین میں نئی عبادت ایجاد کرنا جس کی شریعت میں کوئی اصل اور دلیل نہ ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو بدعت سے ڈرایا ہے کیونکہ بدعت ایک ایسا اساس عمل ہے جو انسان کو گمراہی کی دعوت دیتا ہے اور پھر انسان جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ اسلام نے عبادت ے تعلق سے دو قاعدے متعین کے ہیں اگر ان قاعدوں پر عمل کیا جائے تو عبادت قبول ہوگی اور انسان بدعت سے بچ جائے گا۔ پہلا قاعدہ یہ ہے کہ خالص اللہ تعالی کی عبادت کی جائے اور دوسرا قائد و یہ ہے کہ عبادت میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی جائے پس ہر وہ عبادت جو اللہ تعالی کے لئے خالص نہ ہو اور نہ ہی اس میں رسول اللہ ﷺ کی متابعت ہو اور نہ ہی آپ ﷺ نے اس کی اجازت دی ہو تو وہ عبادت غیر مقبول ہوگی ۔ اللہ تعالی ہمیں بدعت سے محفوظ رکھے اور سنت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فوائد:

٭ دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا بدعت ہے۔

٭ تمام قسم کی بدعت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ وہ برائی اور گمراہی ہے۔

٭اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا حصول صرف رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں مضمر ہے۔