بد شگونی، فال گیری، کاہن، نجومی اور جادوگر سے غیب کی خبریں پوچھنے،کی شرعی حیثیت

 

قُلْ لَّاۤ اَمۡلِكُ لِنَفۡسِىۡ نَـفۡعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ‌ ؕ وَلَوۡ كُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ لَاسۡتَكۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَيۡرِ ۖ ‌ۛۚ وَمَا مَسَّنِىَ السُّۤوۡءُ‌ ‌ۛۚ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِيۡرٌ وَّبَشِيۡرٌ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ ۞ (اعراف 188)

کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ ” (مسند احمد:۲/۴۲۹،والمستدرک حاکم:۱/۸۔و سنن الکبری للبیہقی:۸/۱۳)

’’جو شخص کسی نجومی اور کاہن کےپاس جائےاوراس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدﷺکا انکار کر دیا‘‘

تمہید

عصر حاضر میں ستارہ پرستی, کہانت، فال گیری، بدشگونی اور غیب کی خبروں کے جھوٹے دعوے عروج پر ہیں جگہ جگہ ایسے عامل، باوے اور پروفیسر ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں جو لوگوں کو آنے والے دنوں کی خبریں سنانے کا دعوٰی کرتے ہیں انہیں کی طرف سے اخبارات ومجلات اور دوسرے جدید وسائل ابلاغ (ریڈیو، ٹیلیویژن، انٹرنیٹ) میں ستاروں کی چال سے متعلق مستقل صفحات یا معلومات شائع کی جاتی ہیں ، جو برج کے نام سے مشہور ہیں ، اور اس پر سال بھر کے برج کا نقشہ ہوتا ہے، جیسے شیر، بچھو، بیل وغیرہ، اور ہر برج کے آگے اس میں جو کچھ واقع ہوگا وہ لکھا ہوتا ہے،مثلاً جب مرد عورت کی پیدائش فلاں برج میں ہوگی تو اس سے کہا جائے گا کہ تمہیں فلاں فلاں مہینے میں یہ اور یہ حاصل ہوگا، اسی طرح کاہن اور نجومی آدمی کی کنڈلی نکال کر اور اس کا زائچہ بنا کر کرتے ہیں،

مثال کے طور پر

کہا جاتا ہے کہ آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا

اس ہفتے کے کون سے دن آپ کو خوشی ملے گی

کس دن سفر میں نکلنا نقصان دہ ہوگا

آپ کا آئیندہ سال کیسا گزرے گا

سال 2019آپ کے لیے کیسا رہے گا

اس سال آپ کا کاروبار کیسا رہے گا

آپ کی شادی کس مہینے ہوگی

اسی طرح اگر کسی کے گھر، دکان، ڈیرے اور دفتر وغیرہ سے کوئی چیز چوری ہوجائے تو وہ لوگ چور کا سراغ لگانے کے لیے بھی اسی طرح کے نجومیوں اور جادو گروں کا رخ کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا چور ڈھونڈ کر دیا جائے

آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس طرح کے امور اور معاملات کے لیے شریعتِ اسلامیہ میں کیا احکامات جاری کئے گئے ہیں

01.

فال گیری کے ذریعے قسمت اور غیب کی خبریں معلوم کرنا

یہ قبیح رسم آج ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے ترقی کرتی جا رہی ہے بہت سے لوگ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس طرح کی فال گیری سے تعاون لیتے ہیں اکثر نجومیوں نے اپنے پاس فال گیری کے لیے طوطے رکھے ہوتے ہیں طوطے کے سامنے( ہاں )اور( ناں)والی پرچیاں رکھ کر انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ کون سی پرچی اٹھاتا ہے اگر طوطا اپنی چونچ سے( ہاں)والی پرچی اٹھا لے تو مطلوبہ کام کر لیا جاتا ہے بصورت دیگر اس سے اجتناب کیا جاتا ہے

گویا اس طرح سے اللہ تعالٰی کی صفت( عالم الغیب) کا عقیدہ جزوی طور پر ایک نجومی اور اس کے طوطے میں مان لیا جاتا ہے جو کہ ہر صورت قابل مذمت اور حرام کام ہے

اگر دیکھا جائے تو بالکل یہی کام زمانہ جاہلیت میں بت پرست مشرکین کیا کرتے تھے انہوں نے بھی قسمت معلوم کرنے کے لیے ہبل بت کے پاس تیر رکھے ہوتے تھے حتی کہ خانہ کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی تصویروں کے ہاتھوں میں بھی تیر تھمائے ہوئے تھے، بلکہ وہ لوگ اپنے ساتھ بھی قسمت آزمائی کے یہ تھیلے رکھ لیتے تھے، جیسا کہ سراقہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعاقب کرتے ہوئے ان تیروں سے فال نکالی تھی۔ ان میں سے کسی پر ” اِفْعَلْ “ ( کرلو) لکھا ہوتا، کسی پر ” لَا تَفْعَلْ “ (مت کرو) لکھا ہوتا اور کوئی خالی ہوتا۔ قسمت معلوم کرنے والا تیر نکالتا، جو حکم نکلتا اس پر عمل کرتا، اگر خالی تیر نکلتا تو دوبارہ تیر نکالتا۔

ان کے اسی فعل کو اللہ تعالٰی نے حرام قرار دیا ہے

فرمایا

حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةُ……….. وَاَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ‌ ؕ ذٰلِكُمۡ فِسۡقٌ‌ (المائدہ 3)

تم پر مردار حرام کیا گیا ہے……….. اور یہ بھی حرام ہے کہ تم تیروں کے ساتھ قسمت معلوم کرو۔ یہ سراسر( اللہ تعالٰی )کی نافرمانی ہے

الغرض اس قسم کے تمام کام، خواہ انھیں فال نامہ کہا جائے یا استخارہ یا کسی نجومی سے پوچھا جائے حرام ہیں، شرک ہیں کیونکہ غیب تو اللہ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں، مسنون استخارے میں اس چیز کا وجود ہی نہیں ہے

اسی طرح قرآن مجید میں دوسرے مقام پر فال گیری کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞ (المائدہ 90)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔

مگر افسوس کہ جس فال گیری کی مذمت قرآن بیان کرتا ہے بعض لوگوں نے اسی قرآن کے آخری صفحات میں فال گیری کا ایک صفحہ شامل کرکے قرآن کے حکموں کو قرآن کی جلد کے اندر ہی پامال کر دیا

پھر قرآن چھاپنے والے اداروں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ ایک تعویذ نقش قرآنی کی شکل میں بنا کر اس کے نیچے من گھڑت بات بھی لکھ دی کہ یہ والا تعویذ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کے گلے میں باندھا کرتے تھے۔ اتنی من گھڑت بات قرآن کی جلد کے اندر لکھتے ہوئے بھی ان اداروں کو خوف خدا نہیں ہوتا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو جو انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں؟ مختلف کمپنیوں کے شائع کردہ قرآنی نسخوں کے آخر میں فالنامے کا ایک صفحہ شامل ہے ۔

مختلف قسم کی جنتریوں میں شائع ہونے والے فالنامے بھی اسی قبیح قسم میں شامل ہیں

02.

کسی سے بدشگونی لینا یا کسی کو منحوس سمجھنا

مثلاًٍ بلی گزر گئی تو یہ ہوجائے گا۔

فلاں ستارہ نظر آگیا تو یہ قسمت بگڑ جائے گی۔

چاند گرہن ہوگیا تو ایسا ہوجائے گا،

سورج گرہن ہوگیا تو ویسا ہوجائے گا

گھر کی دیوار پر کوا کائیں کائیں کرے تو مہمان آنے والا ہے

الو کے بولنے سے مصیبت آتی ہے

اسی طرح دنوں اور مہینوں کے بارے نحوست کا عقیدہ رکھنا، جیسا کہ اکثر لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منگل کے دن اور صفر کے مہینے میں سفر کرنا باعث نقصان ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ محرم کے ساتھ ساتھ صفر میں بھی شادی نہیں کرتے، سمجھتے ہیں کہ محرم سوگ کا اور صفر نحوست کا مہینہ ہے حالانکہ شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جسے منحوس قرار دیتے ہوئے شادی سے منع کیا گیا ہو

رسول اللہﷺنے فرمایا:

’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الطب،باب لا ھامۃ،ح:۵۷۵۷ ،وصحیح مسلم،کتاب اسلام،ح:۲۲۲۰)

’’کوئی بیماری متعدی نہیں،بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔نہ الو کا بولنا(کوئی برا اثر رکھتا ہے)اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے‘‘

: نیز نبی کریمﷺکا یہ ارشاد ہے:

’’الطِّيَرَةُ شِرْكٌ‘‘ (سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۹)

’’بد شگونی( نحوست پکڑنا )شرک ہے‘‘

قبیصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ الْعِيَافَۃ، وَالطَّرْقَ، وَالطِّيَرَۃ مِنَ الجِبْتِ) (سنن ابی داود، الکھانۃ والتطیر، باب فی الخط وزجر الطیر، ح:3907)

’’پرندوں کو اڑا کر فال لینا، زمین پر لکیریں کھینچنا (علم رمل)اور کسی چیز کو دیکھ کر بد فالی (بد شگونی)لینا، یہ سب جادو کی اقسام ہیں۔‘‘

بد فالی کے خیالات و وساوس سے بچنے کی دعا:

جس شخص کے دل میں بدشگونی وغیرہ کا احساس اور خیال پیدا ہواسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

((اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ)) (سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۰،جامع ترمذی،کتاب السیر،باب ماجاء فی الطیرۃ،ح:۱۶۱۴)

’’اے اللہ تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دور نہیں کر سکتا اور تیری مدد کے بغیر ہمیں نہ بھلائی کی طاقت ہےاور نہ برائی سے بچنے کی ہمت‘‘

نیز یہ دعا بھی پڑھے:

اَللَّھُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَ لَا اِلَہٰ غَیْرُکَ (مسند احمد:۲/۲۲۰۔البانی رح نے صحیح کہا ہے)

’’یا اللہ تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے شگون کے سوا کوئی شگون نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں

ان امور کا بھی اہتمام کر نا چاہیے:

01.بد شگونی کے نقصان سے آگاہی حاصل کی جائے

02.اپنے نفس کے خلاف جہاد کیا جائے

03.اللہ عز وجل سے حسن ظن کیا جائے

04.استخارہ کا عمل خود کیا جائے

03. کاہن، نجومی یا عراف کے پاس جانا

غیب کی خبریں بتانے والوں کی مختلف اقسام

01.جو شخص جنوں کے ذریعے غیب کی باتیں بتائے،اسے ’’کاہن‘‘کہا جاتا ہے

02.زمیں میں لکیریں کھینچ کر غیبی امور کی خبر دینے والا’’رمال‘‘کہلاتا ہے

03.جو ستاروں کے ذریعے غیب کی خبر دے اسے ’’منجم‘‘یا نجومی کہتے ہیں۔

04.پوشیدہ ذرائع سے گمشدہ اور مسروقہ چیزوں کا پتہ بتانے والے شخص کو عراف کا نام دیا جاتا ہے۔

چونکہ یہ سب بظاہر غائب دانی کا دعوی کرتے ہیں جوکہ خالص اللہ تعالٰی کی صفت ہے لہذا ان سب امور کے شرک ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانا اور ان سے کچھ دریافت کرنا یا ان کی تصدیق کرنا حرام کام ہے

اس کی دلیل رسول معظمﷺکا یہ فرمان ہے:

مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح مسلم،کتاب السلام،باب تحریم الکھافۃ واتیان الکھافۃ،ح:۲۲۳۰)

’’جس نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ دریافت کیا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی‘‘

یہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی ان کے پاس جاکر باتیں پوچھے لیکن ان کی تصدیق نہ کرے۔اس کا حکم یہ ہےکہ یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہےاور ایسا کرنے والے کی نماز چالیس روز تک قبول نہیں ہو گی

دوسری صورت یہ ہےکہ ان سے کوئی چیز دریافت کرےاورپھر اسے سچا سمجھے۔

اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محمدﷺپر نازل شدہ دین سے کفر ہے۔

اس کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:

مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ ” (مسند احمد:۲/۴۲۹،والمستدرک حاکم:۱/۸۔و سنن الکبری للبیہقی:۸/۱۳)

’’جو شخص کسی نجومی اور کاہن کےپاس جائےاوراس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدﷺکا انکار کر دیا‘‘

ستاروں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے یا آنیوالے دنوں میں نفع و نقصان کا اندیشہ ظاہر کرنے والوں کے متعلق

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَنِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ مِّنَ النُّجُومِ، فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃ مِّنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ) (سنن ابی داود، الکھانۃ و الطیر، باب فی النجوم، ح:3905)

’’جس نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا، اس نے اسی قدر جادو سیکھا۔ جتنا زیادہ سیکھتا جائے، اس کی وجہ سے( جادو کے )گناہ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔‘‘

اور جادو کی سزا کے متعلق ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ثَلَاثَۃ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ: مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَقَاطِعُ الرَّحِمِ، وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ.) (مسند احمد:3/ 399 وموارد الظمان الی زوائد ابن حبان، ح:1381)

’’تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے :

01.عادی شراب خور

02.قطع رحمی کرنے والا

03.اور جادو کی تصدیق کرنے والا

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

کاہن بات کرتے اور بتاتے وقت یوں اظہار کرتا ہے گویا وہ یہ باتیں اپنے علم کی بنیادپر کہہ رہا ہے۔ اس سے سامع دھوکا کھاجاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اسے یہ علم جنات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر کمزور عقیدہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کاہنوں کے پاس خصوصی علم اور فن ہے اور وہ اللہ تعالی کے ولی ہیں۔ اس لیے وہ مستقبل کے احوال سے واقف ہیں

فتاوی ابن تیمیہ:173/35

ایک نجومی کی یاواگوئیاں اور عقل والوں کے لیے اسباق

. 1998،اور 1999میں یسین وٹو نام کے ایک مشہور نجومی نے چند جھوٹی پشین گوئیاں کی تھیں جو ملک کی تمام بڑی اخبارات میں شائع بھی ہوئی تھیں لیکن اللہ تعالٰی نے اسے بہت جلد رسوا کیا تھا

اس نے کہا تھا کہ

01.نواز شریف اپنا موجودہ دور حکومت مکمل کریں گے

02.مارشل لاء کا دور دور تک امکان نہیں ہے

03.مسئلہ کشمیر نواز شریف کے دور میں ہی حل ہوگا

04.عمران خان اور جمائمہ میں کبھی علیحدگی نہیں ہوگی

05.شریعت بل اسی سال منظور ہو جائے گا

پھر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا کہ

نواز شریف اپنا دور حکومت پورا نہ کر سکے

پرویز مشرف نے مارشل لاء لاگو کردیا

مسئلہ کشمیر آج تک حل نہ ہو سکا

عمران اور جمائمہ میں علیحدگی ہوگئی

شریعت بل منظور نہ ہو سکا

یہ ہے ان کاہنوں اور نجومیوں کی اصلیت، دراصل یہ انکے اٹکل پچو ہوتے ہیں تیر نشانے پہ لگ جائے تو لگ جائے نہ لگے تو نہ سہی اتفاقاً کوئی پشین گوئی سچ ثابت ہو گئی تو گڈی چڑ جائے گی نہ ہوئی تو کون پوچھنے والا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں چور پکڑنا مشکل ہو گیا

آج لوگ چوری کا سراغ لگانے کے لئے نجومیوں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں غیبی امور کے ماہر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے نجومی اور جادوگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں پرِکاہ کی حیثیت نہیں رکھتے

عہد نبوی میں ہونے والا چوری کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ جب اصل چور ڈھونڈنے مشکل ہو گئے اور بالآخر وحی کے ذریعے معلوم ہوا

ترمذی میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے اسے حسن کہا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ بشر، بشیر اور مبشر تین بھائی تھے، جو ابیرق یا طعمہ بن ابیرق کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا کہ ان میں سے بشیر کی کنیت ابو طعمہ تھی، یہ لوگ مدینہ کے قبیلہ بنو ظفر سے تھے۔ ان میں بشیر سب سے بدتر تھا، یہ شخص منافق تھا اور مسلمانوں کی ہجو کر کے وہ شعر دوسروں کے نام لگا دیتا تھا۔ یہ غریب فاقہ زدہ لوگ تھے اور رفاعہ بن زید کے ہمسائے تھے۔ ایک دفعہ شام سے ایک قافلہ میدہ لے کر آیا تو رفاعہ بن زید نے اس میں سے ایک بوری خرید لی۔ مدینہ کے لوگ آٹا کھاتے تھے، رہا میدہ تو وہ گھر کے بڑے آدمیوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا تھا۔ رفاعہ نے وہ میدہ اپنے اسلحہ کے سٹور میں اسلحہ کے ساتھ محفوظ کردیا۔ ابیرق کے بیٹوں نے سٹور میں نقب لگا کر میدہ اور اسلحہ چرا لیا۔ صبح ہوئی تو رفاعہ نے اپنا اسلحہ اور میدہ نقب لگا کر چرانے کی بات اپنے بھتیجے قتادہ بن نعمان کے ساتھ کی۔ اب اس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ اس رات ابیرق کے بیٹوں نے آگ جلائی تھی اور شاید انھوں نے رفاعہ کے میدہ ہی سے کھانا تیار کیا ہو۔ جب ابیرق کے بیٹوں کا راز فاش ہوگیا تو انھوں نے چوری کا وہ اسلحہ وغیرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دیا اور ان کے قبیلے بنو ظفر کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہلے ہی آ کر شکایت کردی کہ رفاعہ بن زید اور اس کے بھتیجے نے ہمارے ایک گھر والوں پر، جو ایمان دار اور نیک لوگ ہیں، چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے بلا دلیل ایمان دار نیک لوگوں پر چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ “ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہی سمجھ لیا تھا کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں اور چور نہیں ہیں کیونکہ ان لوگوں نے مشہور کردیا کہ مسروقہ سامان یہودی کے گھر سے نکلا ہے،

تو اس پر یہ آیات اتریں۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِتَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰٮكَ اللّٰهُ‌ ؕ وَلَا تَكُنۡ لِّـلۡخَآٮِٕنِيۡنَ خَصِيۡمًا (نساء 105)

بیشک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔

[ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة النساء : ٣٠٣٦ ]

اس آیت مبارکہ کے الفاظ( وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗئنین خَصِيْمًا ): سے مراد ابیرق کے بیٹے ہیں کہ آپ ان کی حمایت نہ کریں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ تھی کہ ” آپ ان خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں۔ “

اب ذرا اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ کیجئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم غیب کی خبریں معلوم کرنے سے قاصر ہیں تو کوئی عامل، نجومی، باوا، کاہن یا عراف کیسے غیبی امور سے واقف ہوسکتا ہے

کیا نقصان سے بچنے کے لیے ما فوق الأسباب طریقوں سے پیشگی معلومات حاصل کرنا ممکن ہے

آپ نے اکثر یہ جملے سنے ہوں گے

01.آئیں ہم سے استخارہ کروائیں

02.پوچھئے کالے علم کے ماہر سے

03.آنے والی بلاؤں کا پہلے سے قلع قمع کیجئے

04.کل کیا ہونے والا ہے

05.اس مہینے آپ کو کوئی خوشخبری ملنے والی ہے

لیکن

یہ سب باتیں شیطانی مغالطے، دجل اور جھوٹ ہیں نفع و نقصان کے متعلق ایڈوانس معلوم کرنا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے اگر ایسا ممکن ہوتا تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ضرور اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو بہت سے ایسے نقصانات سے محفوظ رکھ پاتے جو کسی فیصلے کے نتیجے میں سامنے آئے تھے

جیسا کہ غزوہ احد کے زخم، شہادتیں اور نقصانات

بیئر معونہ کے ستر شہدائے کرام

بکری کا زہریلہ گوشت کھانا

طائف کی طرف سفر کرنا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگنا

وغیرہ وغیرہ

یہ سب واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ نفع و نقصان کا ایڈوانس سراغ لگانا انسانی طاقت سے باہر ہے

اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں

قُلْ لَّاۤ اَمۡلِكُ لِنَفۡسِىۡ نَـفۡعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ‌ ؕ وَلَوۡ كُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ لَاسۡتَكۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَيۡرِ ۖ ‌ۛۚ وَمَا مَسَّنِىَ السُّۤوۡءُ‌ ‌ۛۚ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِيۡرٌ وَّبَشِيۡرٌ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ (الأعراف 188)

کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔

یعنی میں غیب دان نہیں ہوں، اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جنھیں میں پیشگی سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔

اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تمام عالم کے سردار ہیں، اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو، نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے، یا غیب کی کوئی بات بتائے

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود افضل المرسلین ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے تھے، کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔

ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا :

( مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ أحدا ) ۔۔ : ٧٣٨٠، ٤٨٥٥ ]

” جو شخص تجھے یہ کہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے اس نے جھوٹ کہا۔ “

جب سید الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب نہ ہوا تو دوسروں کا ذکر کیا ہے

اور جب رسول غیب دان نہ ٹھہرے تو پھر کوئی پیر، شہید، ولی، مجذوب، سالک یا عالم و عابد کیسے غیب دان ہوسکتا ہے ؟

اور کاہن، نجومی اور رمل والے کس شمار و قطار میں ہیں ؟

غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالٰی کا خاصہ ہے

قرآن میں ہے

وَعِنۡدَهٗ مَفَاتِحُ الۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ‌ؕ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ‌ؕ وَمَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ (الأنعام 59)

اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔

یعنی خلق میں سے کسی ایک کو بھی غیبی امور کا علم نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجومی یا پنڈت یا رمال اور جفار جو اپنی غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو آئندہ پیش آنے والی باتیں بتاتے ہیں، وہ سب جھوٹے اور ٹھگ ہیں اور ان کے پاس جانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” غیب کی کنجیاں پانچ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ ) [ لقمان : ٣٤ ]

” بیشک اللہ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ “

[ بخاری، التفسیر، باب : (وعندہ مفاتح الغیب۔۔ ) : ٤٦٢٧ ]

اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں

قُلْ لَّا يَعۡلَمُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَيۡبَ اِلَّا اللّٰهُ‌ؕ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ (النمل 65)

کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قمیص کی روانگی کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آگئی، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں پڑے ہوئے یوسف (علیہ السلام) کی خبر نہ ہوسکی اور سال ہا سال تک رونے کی وجہ سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مگر علم اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے معراج کروا دیا، مگر جوتوں پر لگی گندگی کا علم اسی وقت ہوا جب جبریل (علیہ السلام) نے آکر نماز میں بتایا۔

جب انبیاء و اولیاء غیب نہیں جانتے تو کاہن، رمال، جفار، جوتشی، جعلی استخارے کر کے آئندہ کی خبریں بتانے والے اور چوریاں بتانے والے عالم الغیب کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ سب لوگ جھوٹے و دغا باز ہیں۔ آسمان سے سنی ہوئی کوئی بات سچی نکل آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کا بازار چمکاتے رہتے ہیں

ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری

ایسی صورت میں اس طرح کی شرکیات وکفریات پر نکیر ضروری ہے، اور غیب، جادو اور ستاروں کی تاثیر کی معرفت کے مدعیان کا ہر سطح پر رد ضروری ہے، اس لئے کہ ستارہ پرستی کا تعلق جادو سے ہے، اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ یہ چیز نہ تواس کے گھر داخل ہو، نہ اس کامطالعہ کرے،اور نہ ہی ایسی چیزوں میں دلچسپی رکھے اس لئے کہ ایسا کرنا کاہن کی طرف بغیر اس پر نکیر کئے ہوئے رجوع ہوتا ہے، گویا کہ اس نے اس سلسلے میں کاہن سے سوال کیا، تو ایسی صورت میں اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہ ہوں گی، اور اگر برجوں اور ستاروں کی چالوں کی تصدیق کردی تو رسالت محمدیہ کا انکار کیا، تو ہر مسلمان بھائی کو اس طرح کے کبیرہ گناہ والے اعمال وافعال سے اپنے اور اپنے اہل وعیال اور خاندان والوں کو دور رکھنا چاہئے کہ اس سے کفر اور شرک میں پڑنے کا خطرہ ہے

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین