*بعض اسلامی احکامات کے مشاہداتی مناظر*

 

انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے انسان علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ (مسند أحمد |2447،صحیح)

کسی چیز کے متعلق کوئی خبر سننا اس چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کی طرح نہیں ہوسکتا

01.*موسی علیہ السلام کی مثال*

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب موسی علیہ السلام کو بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کے بعد بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ہے تو موسی علیہ السلام نے (غصے میں آئے مگر)تورات کی تختیاں نہ پھینکیں

لیکن جب قوم کے پاس آکر انہیں بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو (غصے میں آکر) تختیاں پھینک دیں اور وہ ٹوٹ گئیں

مسند أحمد |2447،صحیح

02. *اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟*

ابراہیم علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے، ایمان و عقیدہ کی پختگی میں ایک مثال تھے، ایسے مضبوط کہ ساری دنیا ایک طرف مگر اکیلے خلیل دوسری طرف تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی کو نمونہ قرار دیا ہے، عزم و ہمت کی ایسی داستان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیل اللہ کا لقب ملتا ہے

اور ہاں اس بات پر بھی آپ کا عقیدہ سو فیصد مضبوط تھا کہ اللہ تعالیٰ، لوگوں کو مارنے کے بعد زندہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے مگر انھوں نے آنکھوں سے دیکھ لینا چاہا

فرمایا :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة : 260)

اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ فرمایا اور کیا تو نے یقین نہیں کیا؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔ فرمایا پھر چار پرندے پکڑ اور انھیں اپنے ساتھ مانوس کر لے، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے، پھر انھیں بلا، دوڑتے ہوئے تیرے پاس آجائیں گے اور جان لے کہ اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔

03. *اربوں کھربوں لوگ بیک وقت رب تعالیٰ کی زیارت کیسے کریں گے*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا ] [ بخاري، التوحید : 7435 ]

’’تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے ۔‘‘

صحیح بخاری میں 7437 نمبر پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا :

’’یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟‘‘

اور مسند أحمد 16206 نمبر روایت میں ہے آپ سے پوچھا گیا :

وَكَيْفَ وَنَحْنُ مِلْءَ الْأَرْضِ، وَهُوَ شَخْصٌ وَاحِدٌ نَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَيَنْظُرُ إِلَيْنَا ؟

ہم اللہ تعالیٰ کو کیسے دیکھ سکیں گے جبکہ ہم اتنے زیادہ ہوں گے کہ ہم سے زمین بھری ہوگی اور اللہ تعالیٰ تو ایک ذات ہے؟

گویا سوال کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذہنوں میں رؤیۃ باری تعالیٰ سے متعلق ایک عجیب تصور تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ کو دیکھتے وقت بھیڑ، رَش اور دھکم پیل کا منظر بپا ہوجائے گا

*عینی مشاہدہ*

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عینی اور مشاہداتی مثال دیتے ہوئے فرمایا :

[ هَلْ تُضَارُّوْنَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قَالُوْا لاَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ فَهَلْ تُضَارُّوْنَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُوْنَهَا سَحَابٌ؟ قَالُوْا لاَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! قَالَ فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذٰلِكَ ] [ بخاري، التوحید : 7437۔ مسلم : 182 ]

’’کیا تمھیں چودھویں کا چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ ‘‘

انھوں نے کہا:

’’نہیں، اے اللہ کے رسول!‘‘

فرمایا :

’’کیا تمھیں سورج دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے جس کے سامنے بادل کی رکاوٹ بھی نہ ہو؟‘‘

انھوں نے کہا:

’’نہیں، اے اللہ کے رسول!‘‘

فرمایا:

’’(یقین رکھو کہ) تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے۔‘‘

04. *آنکھ جھپکنے سے پہلے سینکڑوں میل دور سے تخت لے آئے*

سلیمان علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے ملکہ سبا کا تخت اٹھا کر لانا تھا اور بہت جلد لانا تھا سلیمان علیہ السلام نے کہا کون لائے گا

تو

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (النمل : 39)

جنوں میں سے ایک طاقت ور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقینا پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔

ایک اور، جو پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتار اور طاقتور تھا

قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ (النمل : 40)

اس نے کہا جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔

*عینی مشاہدہ*

چونکہ یہ واقعہ ہمارے قرآن مجید میں بیان ہوا ہے لھذا ہمیں اس پر سو فیصد یقین ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ واقعی آنکھ جھپکنے سے پہلے وہ تخت سینکڑوں میل دور سے سلیمان علیہ السلام کے پاس لا حاضر کیا گیا تھا

مگر

بقول ابراهيم علیہ السلام (لیطمئن قلبی) ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں آج سے سو سال پہلے اگر کسی شخص کو یہ بات بتائی جاتی کہ ایک لمحہ میں ہزاروں لاکھوں میل دور تصویر پہنچ جاتی ہے تو شاید کوئی نہ مانتا جبکہ آج واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر کمیونیکیشن آلات کے زریعے یہ چیز عام ہے اور ہرکوئی دیکھ رہا ہے آج امریکہ سے پاکستان میں ایک تصویر منگوانی ہوتو ایک لمحہ بھی نہیں لگتا

05. *اپنے تختوں پر بیٹھے بیٹھے کھربوں میل گہری جہنم کے وسط میں کیسے جھانکیں گے*

جنت میں بیٹھے لوگ، ایک دوسرے سے دنیا میں گزرے ہوئے حالات و واقعات پوچھیں اور سنائیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا، دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا، جو مرنے کے بعد اٹھنے کا منکر تھا تو کیا تم جہنم میں جھانک کر دیکھو گے، شاید وہ کہیں نظر آجائے تاکہ ہم دیکھیں کہ وہ کس حال میں ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ (الصافات : 55)

پس وہ جھانکے گا تو اسے بھڑکتی آگ کے وسط میں دیکھے گا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ وہ جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے بیٹھے ہی کھربوں میل لمبی، چوڑی اور گہری جہنم کے وسط میں دیکھ لیں گے

جیسا کہ فرمایا :

«فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ

عَلَى الْاَرَآئِكِ يَنْظُرُوْنَ

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ » [ المطففین : ۳۴ تا ۳۶ ]

’’ سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔ تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔ کیا کافروں کو اس کا بدلا دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟‘‘

*سوال یہ ہے کہ*

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2844 کے مطابق جہنم اتنی گہری ہے کہ اس کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے تو اسے جہنم کی تہہ تک پہنچنے میں 70 سال لگیں گے، گویا کہ کم از کم 35 سال بعد جہنم کا وسط آئے گا، تو جنتی لوگ اپنی جنت اور تختوں پہ بیٹھے کروڑوں میل گہری جہنم کے وسط میں کیسے دیکھ لیں گے؟

*عيني مشاهدہ*

جدید دور میں ہم اس بات کا عینی مشاہدہ کرتے ہیں کہ موبائل کے ذریعے دور دراز ممالک میں بذریعہ لائیو اور وڈیو کال، جھانکنا بہت آسان ہو چکا ہے آج کا انسان اپنے گھر میں اپنے بیڈ روم میں بیٹھا لاکھوں میل دور جھانک رہا ہوتا ہے

06. *اربوں، کھربوں انسانوں کو منہ مانگی ڈیمانڈ عطا کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کمی کیوں نہیں آتی*

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی کہ اس نے فرمایا :

[ يَا عِبَادِيْ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَ آخِرَكُمْ، وَ إِنْسَكُمْ وَ جِنَّكُمْ، قَامُوْا فِيْ صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ، فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذٰلِكَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ] [مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۷۷ ]

’’اے میرے بندو! اگر تمھارے اول اور تمھارے آخر اور تمھارے انس اور تمھارے جن ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو دے دوں جو اس نے مانگا، تو یہ میرے مُلک میں سے اتنا ہی کم کرے گا جتنا ایک سوئی جب سمندر میں داخل کی جائے۔‘‘

*عینی مشاھدہ*

اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی مثل دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے لیکن صرف سمجھنے کی خاطر ایک مشاہدہ دیکھتے ہیں

کسی کے موبائل میں مختلف قسم کی ایک ہزار کتابیں موجود ہیں اور 40 ہزار لوگوں کی ڈیمانڈ آتی ہے کہ ہمیں فلاں فلاں کتاب سینڈ کردیں، وہ بندہ ہر شخص کو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق کتابیں سینڈ کردیتا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس کے اپنے موبائل ڈیٹا میں کوئی کمی نہیں ہوتی

یا ایک استاد اپنے ہزاروں شاگردوں میں اپنا علم منتقل کرتا ہے ہر شاگرد اپنی اپنی بساط کے مطابق استاد محترم سے فیض یاب ہوتا ہے لیکن استاد کے علم میں کوئی کمی نہیں ہوتی

یہ محض سمجھنے کے لیے مثال ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی صفت اس سے کہیں بلند و برتر ہے

وللہ المثل الاعلی

07. *12 گھنٹے کا دن 50 ہزار سال کا کیسے بن جائے گا*

اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی طوالت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (المعارج : 4)

فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، ( وہ عذاب ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔

اور یاد رہے کہ یہ مدت دنیاوی حساب کے مطابق ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ حَتّٰی يَحْكُمَ اللّٰهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمََّا تَعُدُّوْنَ ] [أبو داوٗد، الزکاۃ،: ۱۶۵۸۔ مسلم : ۹۸۷ ]

’’یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھاری گنتی سے پچاس ہزار سال ہے۔‘‘

*دن اور رات کیسے بنتے ہیں*

ہماری زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اس دوران اس کی رفتار 66600 میل فی گھنٹہ ہوتی ھے ۔ اور اسی دوران اپنے محور کے گرد تقریباً 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہوتی ہے اور اس کا یہ چکر 24 گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے

زمین کی اس گردش کے دوران اس کا جو حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے اس پر دن اور دوسرے حصے پر رات ہوتی ہے

*دن کو لمبا کرنے کا عینی مشاہدہ*

کسی دکان میں چوری ہوجاتی ہے

کھیل کے میدان میں کھلاڑی آؤٹ ہو جاتا ہے

سڑک پہ ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے

اطراف میں لگے کیمروں سے وڈیو بن جاتی ہے

چوری، آؤٹ یا ایکسیڈنٹ کا دورانیہ بمشکل آدھ، پون منٹ ہوتا ہے

بعد میں تحقیق کی غرض اور چور کی شناخت کے لیے اسی دورانیے کو سلو موشن (آہستہ رفتار) میں لا کر پانچ منٹ تک لمبا کردیا جاتا ہے آدھ منٹ کی موومنٹ(حرکت) پانچ منٹ تک لمبی کردی جاتی ہے

تو رب تعالیٰ کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ زمین کی چوبیس گھنٹے والی گردش کو سلو موشن میں لا کر 50 ہزار سال تک لمبا کردے اور یوں دن لمبا ہوجائے

*دوسرا مشاہدہ*

اور ویسے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سردیوں میں دس گھنٹے والا دن گرمیوں میں 17 گھنٹے تک چلا جاتا ہے تو جو رب العزت دنیا میں 7 گھنٹے لمبا کرسکتا ہے وہ روز قیامت بھی کرسکتا ہے

08. *جنت کی ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو ساری دنیا روشن ہوجائے*

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلٰی أَهْلِ الْأَرْضِ لَأَضَاعَتْ مَا بَيْنَهُمَا وَلَمَلَأَتْهُ رِيْحًا] [بخاري، الجھاد و السیر، باب حور العین وصفتہن: ۲۷۹۶ ]

’’ اور اگر اہلِ جنت کی کوئی عورت زمین والوں کی طرف جھانک لے تو زمین و آسمان کے درمیان کا سارا حصہ روشن ہو جائے اور یہ سارا خلا خوشبو سے بھر جائے۔‘‘

*عینی مشاہدہ*

ہم اپنی آنکھوں سے ہر روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں

ایک سورج مشرق سے نکل کر زمین کی طرف جھانکتا ہے تو ساری زمین روشن ہوجاتی ہے

اور

ایک چاند رات کو جھانکتا ہے تو اندھیری رات چاندنی میں تبدیل ہوجاتی ہے

تو جو رب العزت، ایک سورج اور ایک چاند کو یہ قوت اور صلاحیت دے سکتا ہے وہ ایک حور میں بھی ایسی خاصیت پیدا کرسکتا ہے

09. *قبر کی مٹی سارے جسم کو کھا جاتی ہے مگر دُم کی ہڈی کا ایک پرزہ نہیں کھاتی*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ ، مِنْهُ خُلِقَ، وَفِيهِ يُرَكَّبُ ". (صحيح مسلم، كِتَابٌ : الْفِتَنُ،2955)

"دمچی کی ہڈی کے آخری سرے کے سوا، ابن آدم(کے پورے جسم) کو مٹی کھالے گی۔اسی سے انسان پیدا کیا گیا اور اسی(آخری سرے) سے پھر (اسے جوڑ کر) اکھٹا کیا جائے گا۔”

*عینی مشاہدہ*

یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی ساخت اور ڈھانچے سے بنے ہوئے باقی اجزاء تو قبر کی مٹی میں گھل مل کر ختم ہو جائیں لیکن ایک پرزہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود باقی رہے اس میں کیا خصوصیت ہے کہ قبر کی مٹی میں وہ کیوں نہیں گھلتا؟

تو اسے سمجھنے کے لیے جہاز کے بلیک باکس کی مثال بہترین ہے

ہوائی جہازوں میں نارنجی یا لال رنگ کا ایک آلہ نصب ہوتا ہے جو پرواز کی تمام معلومات کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس ریکارڈر کو ’بلیک باکس‘ کہا جاتا ہے۔

اس کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اسے کسی حادثے انتہائی گرمی، سردی یا آگ سے بھی نقصان نہیں ہوتا۔

آگ میں جلنے کی صورت میں یہ 11 سو ڈگری تک درجہ حرارت کو ایک گھنٹے سے زائد وقت کے لیے برداشت کر سکتا ہے جبکہ پانی میں گِرنے کی صورت میں 6 ہزار میٹر گہرے پانی کا دباؤ بھی برداشت کر سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی طیارہ کسی حادثے کا شکار ہو کر تباہ ہوتا ہے تو تحقیقاتی ٹیمیں وہاں پہنچ کر سب سے پہلے بلیک باکس کو ہی تلاش کرتی ہیں

تو جس طرح سارا طیارہ تباہ ہو جاتا ہے جل جاتا ہے لیکن بلیک باکس نہیں جلتا تو ایسے ہی یہ بھی ممکن ہے کہ سارا جسم جل، سڑ، گھل جائے لیکن دمچی کی ہڈی خراب نہ ہو

10. *بڑے بڑے پھل اور درخت*

جنت کے درختوں کا حجم بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيْرُ الرَّاكِبُ فِيْ ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ يَقْطَعُهَا] [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : « و ظل ممدود » : ۴۸۸۱ ]

’’جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال چلتا رہے گا۔‘‘

قرب قیامت یاجوج ماجوج کے خاتمے کے بعد زمین کی برکات بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی )برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا”۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373))

*عینی مشاہدہ*

انسانی تاریخ صدیوں سے دیکھتی آرہی ہے کہ لہسن کی ایک تُری بمشکل 5 گرام اور پورا گنڈا بمشکل 40 گرام کا ہوتا ہے اور ایک ٹائم کے کھانے میں کم و بیش آٹھ دس تُریاں ڈالی جاتی ہیں مگر اب لہسن کا ایسا بھیج تیار کر لیا گیا ہے کہ اس کا ایک گنڈا آدھ پون کلو کا ہے اور ایک تُری ہی آٹھ دس کے برابر ہے

اور اسی طرح ہم یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اگر ایک ایکڑ زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی تو اب سو من نکالتی ہے

ایک ایک سیزن میں دو دو فصلیں تیار ہونے لگی ہیں

ایسی کھاد اور سپرے تیار ہو چکی ہے کہ راتوں رات کھیرے، سبزیاں اور ترکاریاں تیار ہونے لگی ہیں

11. *ایک لمحے میں بیٹا عطا کردیا جائے گا*

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلْمُؤْمِنُ إِذَا اشْتَهَی الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ، كَانَ حَمْلُهُ وَوَضْعُهُ وَسِنُّهُ فِيْ سَاعَةٍ وَّاحِدَةٍ، كَمَا يَشْتَهِيْ ] [ ابن ماجہ، الزھد، باب صفۃ الجنۃ : ۴۳۳۸، وقال الألباني صحیح ]

’’مومن جب جنت میں اولاد چاہے گا تو اس کا حمل اور وضع حمل اور اس کا بڑا ہونا ایک گھڑی میں ہو جائے گا، اس کی خواہش کے مطابق۔‘‘

*عینی مشاہدہ*

ایک وقت تھا کہ دو کلو کا مرغا چھے مہینے سے کم وقت میں تیار نہیں ہوتا تھا

لیکن اب اللہ تعالٰی کی قدرت دیکھئیے صرف 32 سے 40 دن کے درمیان ڈیڑھ، دو کلو کا مرغا تیار ہو جاتا ہے

اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اتنی عقل اور صلاحیت دے سکتا ہے کہ وہ چھ ماہ میں تیار ہونے والی چیز کو سوا مہینے میں تیار کرسکتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس بات پر کیوں قادر نہیں ہے کہ وہ آٹھ نو ماہ میں تیار ہونے والی چیز کو ایک لمحے میں تیار کرسکے؟

12. *جنت میں پیشاپ پاخانہ*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُوْنَ فِيْهَا وَيَشْرَبُوْنَ وَلَا يَتْفِلُوْنَ وَلاَ يَبُوْلُوْنَ وَلاَ يَتَغَوَّطُوْنَ وَلاَ يَمْتَخِطُوْنَ

’’جنتی جنت میں کھائیں گے اور پییں گے، وہ نہ تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔‘‘

صحابہ نے پوچھا :

فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟

’’جو کھانا وہ کھائیں گے وہ کہاں جائے گا؟‘‘

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :

جُشَاءٌ وَ رَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُوْنَ التَّسْبِيْحَ وَالتَّحْمِيْدَ كَمَا يُلْهَمُوْنَ النَّفَسَ [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، ۲۸۳۵]

’’بس ڈکار آئے گا اور پسینا آئے گا جس سے مشک (کستوری) کی خوشبو آئے گی (اور ان کا کھانا تحلیل ہو جائے گا)۔ (ان کے دلوں میں اور ان کی زبانوں پر) تسبیح اور حمد خود بخود بے اختیار جاری ہو گی جس طرح سانس خود بخود جاری ہوتا ہے۔‘‘

*عینی مشاہدہ*

ریشم کا کیڑہ شہتوت کھاتا ہے تو ریشم کا دھاگہ بنتا ہے

ہرن شہتوت کھاتی ہے تو کستوری اور مینگنی بنتی ہے

بکری شہتوت کھاتی ہے تو دودھ اور مینگنی بنتی ہے

شہد کی مکھی شہتوت چوستی ہے تو شہد بنتا ہے

لھذا

جنتی جنت کا پھل کھائیں گے تو کستوری کی خوشبو والا پسینہ پیدا ہونے میں کون سی اچھنبے کی بات ہے؟

اسی طرح ہم اپنی آنکھوں سے روزانہ دیکھتے ہیں کہ انسان جتنا کھاتا ہے اتنا نکالتا نہیں ہے اگر ایک وقت میں دو کلو کھانا کھایا ہے تو پاخانہ اس سے آدھا بھی نہیں ہوتا اور ایسے ہی اگر ایک لیٹر پانی پیا ہے تو پیشاپ آدھ لیٹر بھی نہیں ہوتا

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو رب العزت، آدھے کھانے اور پینے کو جسم کے اندر ہی گھلا ملا سکتا ہے وہ سارے کو بھی جزوِ بدن بنانے پر قادر ہے