بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا

 

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (الشرح : 4)

اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر شہرت اور ناموری عطا کی ہے اس قدر نہ آج تک کسی کو ملی اور نہ ہی ملے گی

دنیا میں آنے سے پہلے، دنیا میں آ کر، عالم برزخ میں اور پھر روز قیامت، ہر جگہ اور ہر زمانے میں آپ کا ثانی کوئی نہیں ملتا

اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشرق و مغرب تک آپ کی حکومت پھیلا دی، کلمۂ شہادت، اذان، اقامت اور خطبہ و تشہد وغیرہ میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت فرض ہے، کوئی وقت ایسا نہیں جس میں کہیں نہ کہیں آپ کا ذکر خیر نہ ہو رہا ہو۔

انتہائے مشرق سے انتہائے مغرب تک دنیا میں ہر وقت اور ہر لمحے بغیر کسی وقفے کے کہیں نہ کہیں آذان پنجگانہ کی صورت میں اشھد أن محمدا رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہوتی ہے

کیا رفعتِ ذکر کی اس سے اونچی کوئی مثال ملتی ہے؟؟؟

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا

مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب بڑھائے تجھے اللّٰہ تعالیٰ تیرا

عالم أرواح میں رفع ذکر

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعتِ شان کے کیا کہنے ہیں ابھی آپ دنیا میں تشریف نہ لائے تھے بلکہ ابھی تک سبھی انسان عالم أرواح میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک مجلس منعقد کی اور اس مجلس میں اپنے محبوب نبی کا تذکرہ کرتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام سے ایک عہد لیا جسے قرآن نے یوں بیان کیا

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران : 81)

اور جب اللہ نے سب نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب و حکمت میں سے جو کچھ تمھیں دوں، پھر تمھارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لائو گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا؟ انھوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو گواہ رہو اور تمھارے ساتھ میں بھی گواہوں سے ہوں۔

انبیاء کرام علیہم السلام میں رفع ذکر

انبیاء کرام علیہم السلام سے آپ کا تعارف تو عالم ارواح میں ہی ہو چکا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا خواب

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں اپنے متعلق بتائیں، تو آپ نے فرمایا :

’’میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور میری والدہ کو جب میرا حمل ٹھہرا تو انھوں نے دیکھا کہ ان (کے بدن) سے ایک نور نکلا جس سے بصریٰ روشن ہو گیا اور بصریٰ شام کی سرزمین سے ہے۔‘‘

(مستدرك : ۲؍۶00، ح : ۴۱۷4)

اسے امام حاکم نے روایت کیا

امام ذہبی نے صحیح کہنے میں ان کی موافقت کی۔

شیخ البانی نے اسے صحیح کہا۔

[سلسله الصحيحه : ۱۵۴۵]

دعاء ابراهيم

حدیث میں ابراهيم علیہ السلام کی جس دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے :

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : 129)

اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

بشارت عیسیٰ

حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کی جس بشارت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے :

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (الصف : 6)

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں،جو میرے بعد آئے گا،اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کرآیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔

سبحان اللہ عیسیٰ علیہ السلام نے تو نام لے کر تذکرہ کیا، دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس کی پیدائش سے بھی ہزاروں سال پہلے اس کا نام لے لے کر اس کا تذکرہ کیا گیا ہو

بیت المقدس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاء بننے کا شرف حاصل ہوا

انبیاء کرام علیہم السلام کے مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کی مناسبت سے ہی یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ آپ کو امام الأنبياء ہونے کا شرف بھی حاصل ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا :

دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجُمِعَ لِيَ الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَام، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ (سنن النسائي |450)

پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا۔ وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام جمع کیے گئے تھے، چنانچہ مجھے جبریل علیہ السلام نے آگے کر دیا۔ میں نے ان کی امامت کی۔ پھر مجھے لے کر قریبی (پہلے) آسمان کی طرف چڑھے۔

اس روایت کی سند میں کلام ہے بعض علماء نے تو اسے منکر تک لکھا ہے مگر صحیح مسلم کی درج ذیل روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے

صحيح مسلم کی اردو مکتبہ شاملہ کے مطابق 430 نمبر روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں ۔ اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور (وہاں ) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں ، آپ نے اپنی ذات مراد لی ، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی

زمین و آسمان کے درمیان ہر چیز میں تذکرہ

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ﺇﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﺷﻲء ﺑﻴﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻭاﻷﺭﺽ، ﺇﻻ و ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻧﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، غير ﻋﺎﺻﻲ اﻟﺠﻦ ﻭاﻹﻧﺲ

مصنف ابن أبي شيبة:(٣١٧١٩) واللفظ له،مسند أحمد:(١٤٣٣٣)

زمین وآسمان کے درمیان موجود ہر چیز جانتی ہے کہ یقینا میں الله كا رسول ہوں سواے نافرمان جنوں اور انسانوں کے

نباتات و جمادات میں تذكرہ

ہمارے نبی کی شہرت اور تذکرہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی موجود تھا

علی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں : خرجت مع النبی صلی الله عليه وسلم فجعل لا یمر علی حجر و لا شجر الا سلم عليه۔

طبرانی أوسط:(5431) سندہ حسن لذاتہ۔

کہ میں نبی رحمت صلی الله عليه وسلم کے ساتھ باہر نکلتا تو جس بھی درخت اور پتھر کے پاس سے گذر ہوتا تو وہ درخت اور پتھر آپ صلی الله عليه وسلم کو سلام پیش کرتے۔

مکے کا ایک پتھر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ ". (مسلم كِتَابُ الْفَضَائِلُ |2277)

میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں ہے، وہ مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں

درختوں نے آپ کو چھپا لیا

جابر رضی الله عنه کہتے ہیں :

رسول الله صلی الله عليه وسلم رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے

مگر آپ کو وہاں بطور پردہ کوئی

چیز نظر نہ آئی ۔آپ صلی الله

علیہ وسلم نے ادھر، ادھر دیکھا

تو وادی کے کنارے پر آپ صلی الله

عليه وسلم کو دو درخت نظر آے جو ایک دوسرے سے خاصے

فاصلے پر تھے آپ صلی الله عليه وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنی کو پکڑا اور فرمایا : تو میرے لیے الله کے حکم سے مطیع ہو جا تو درخت آپ کے پیچھے یوں چل دیا جیسے نکیل

ڈالا اونٹ چلتا ہے۔آدھا فاصلہ طے ہو گیا تو آپ صلی الله عليه وسلم نے دوسرے درخت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اب وہ دونوں درخت حکم الہی سے آپس میں مل گئے تو آپ صلی الله عليه وسلم ان کے پردے میں قضاے حاجت سے فارغ ہوئے تو وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے ۔

صحیح مسلم :3012 ۔

لکڑی کا ستون رونے لگا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک انصاری عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز کیوں نہ بنوا دوں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے وقت بیٹھا کریں۔ کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تمہاری مرضی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب منبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے تیار کیا۔ تو جمعہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھے تو اس کھجور کی لکڑی سے رونے کی آواز آنے لگی۔ جس پر ٹیک دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ لپٹ جائے گی۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے سینے سے سے لگا لیا۔ اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہی تھی جسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سنا کرتی تھی اس لیے روئی (صحيح البخاري | 2095)

اہل کتاب میں تذکرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی اہل کتاب اپنی کتابوں اور مجلسوں میں آپ کے متعلق لکھتے، پڑھتے، سنتے، سناتے چلے آ رہے تھے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ (الأعراف : 157)

جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں

عیسائی راہب کی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے پیش گوئی

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے آخری عیسائی پادری استاد نے فوت ہوتے وقت آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو نشانیاں بیان کیں وہ درج ذیل ہیں :

01.اسے دینِ ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا

02.. وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا

03.اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حرّوں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔

04.وہ ہدیہ (یعنی بطورِ تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا

05.صدقہ نہیں کھائے گا

06.اور اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ ختمِ نبوّت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔

سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:

پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔

رواه ابن في السيرة و ابو نعيم في الدلائل و كذا ابن سعد و البيهقي كما في الخصائص الكبري للسيوطي (١/٤٨) و علق البخاري بعضه

و قال الشيخ الالباني : اسناده صحيح . صحيح السيرة لابن كثير . ص ٧٠

مہر نبوت کیسی تھی

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :

رَأَيْتُ خَاتَمًا فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ (مسلم : 2344)

کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر میں مہر کو دیکھا ہے۔ وہ کبوتری کے انڈے جیسی تھی۔

سنن ترمذی میں ہے :

بَیْنَ کَتِفَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ترمذی : 3644)

یعنی وہ مہر کمر میں دو کندھوں کے درمیان تھی

ایک عیسائی مصنف کی کتاب

طامس کارلائل کودیکھو یہ ایک پکا عیسائی ہے اور سارے انگلستان میں تاریخ و زبان دانی کی وجہ سے بہت مشہور ہے وہ ہیروز آف ہیروز نامی کتاب لکھنے بیٹھتا ہے تو گروہ انبیاء میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا انتخاب کرتا ہے

کیا وہ موسی علیہ السلام کے معجزات سے ناواقف ہے؟ کیا وہ داؤد علیہ السلام کو نہیں جانتا؟

بحوالہ رحمۃ للعالمین از قاضی سلمان منصور پوری رحمہ اللہ

ایک یہودی مصنف

ایک اور یہودی مصنف ہے وہ ایک کتاب لکھتا ہے جس کا نام ہے دنیا کے 100 عظیم انسان سب سے پہلے، سر فہرست جس مبارک ہستی کا نام آتا ہے وہ کوئی اور نہیں وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

یہودیوں میں تذکرہ

وہ آخری نبی کا انتظار کیا کرتے تھے

تفسیر طبری میں ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوتے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! نبی آخر الزماں جلد ظاہر ہوں، تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں۔

بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے ساتھ مل کر اوس اور خزرج پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انھوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا اور ان سب باتوں کا انکار کر دیا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے، تو معاذ بن جبل اور بشر بن معرور اور داؤد بن سلمہ رضی اللہ عنھم نے ان سے کہا : ’’اے یہود کی جماعت! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہو جاؤ ! تم تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ مل کر ہم پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب ہم شرک میں گرفتار تھے اور تم ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اللہ کے آخری نبی مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ کی نشانیاں بیان کیا کرتے تھے۔‘‘ تو سلام بن مشنکم، جو بنو نضیر میں سے تھا، اس نے کہا : ’’وہ ہمارے پاس کوئی چیز نہیں لائے جسے ہم پہچانتے ہوں اور یہ وہ نہیں جو ہم تمھیں بتایا کرتے تھے۔‘‘

[ طبری۔ ابن أبی حاتم بسند حسن : 238/1، ح : ۹۰۸ ]

نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ذکر اتنا بلند ہے کہ آپ کی رسالت آفاقی اور عالمگیر ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبأ : 28)

اورہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الأعراف : 158)

کہہ دے :اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

” وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ” (صحيح البخاري |335)

ہر نبی اپنی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے سب لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا

آپ کا دین ہر گھر میں داخل ہو کر رہے گا

مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: لاَ يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ بَيْتِ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ كَلِمَةَ الإِسْلاَمِ بِعِزِّ عَزِيزٍ ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ ، يُعِزَّهُمُ اللَّهُ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا أَوْ يُذِلُّهُمْ فَلاَ يَدِينُوا لَهَا. (المستدرك للحاكم (4/ 430)،8324-)

و صححہ ھو والذھبی

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ.

کہ زمین کی پشت پر نہ کوئی اینٹ کا مکان اور نہ پشم کا (خیمہ) باقی رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت بخشے گا تو وہ اس میں داخل ہو جائیں گے، یا انھیں ذلیل کرے گا تو اس کے تحت ہو جائیں گے۔

عالم برزخ میں رفع ذکر*

مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(میت کو قبر میں دفنانے کے بعد)

اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتے ہیں :

مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ ؟

یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوت کیا گیا تھا، وہ کون ہے؟

اگر وہ مومن ہو تو جواب دیتا ہے:

هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (مسند احمد : 11000)

وہ اللہ کے رسول ہیں

آخرت میں رفع ذکر

قیامت کے دن آپ کی امت کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی

سیاسی دنیا میں یہ چلتا ہے کہ جس کے پاس ووٹ زیادہ ہوتے ہیں اسے بڑی پزیرائی ملتی ہے کہ اس کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے

سبحان اللہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جتنے فالورز، ویوز، اور ٹوٹ کر چاہنے والے ہمارے نبی کے ہیں کسی اور کے نہیں ہیں

قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دن آپ کی امت کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی

انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَنَا أَكْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح مسلم :196)

قیامت کے دن سب سے زیادہ پیروکار میرے ہوں گے

اور فرمایا :

لَمْ يُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَا صُدِّقْتُ، وَإِنَّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيًّا مَا يُصَدِّقُهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ ". (صحيح مسلم : 196)

’’ انبیاء میں سے کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری کی گئی ۔ اور بلاشبہ انبیاء میں ایسا بھی نبی ہوگا جن کی امت (دعوت) میں سے ایک شخص ہی ان کی تصدیق کرتا ہو گا۔‘‘

اور فرمایا :

فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ ” (سنن أبي داود | 2050 ،صحيح)

میں (تمہاری کثرت تعداد کی وجہ سے) دوسری امتوں کے مقابلے میں تم پر فخر کروں گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أهل الجنة عشرون ومائة صف ؛ ثمانون منها من هذه الأمة، وأربعون من سائر الأمم ". (سنن الترمذي : 2546،حكم الحديث: صحيح)

جنت والوں کی 120 صفیں ہونگیں، جن میں سے 80 صفیں میری امت کی اور باقی 40 صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی

مقام محمود، ایک ایسا انعام کہ کروڑوں اربوں انسانوں میں سے صرف آپ کو ہی ملے گا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (الإسراء : 79)

اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’مقام محمود‘‘ جو صرف ایک ہی شخص کو ملے گا اور جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے، وہ مقام شفاعت ہے، جس پرسب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے۔ ایک شفاعت میدان محشر کی تنگی سے خلاصی دلا کر حساب کتاب شروع کرنے کی عام شفاعت ہے کہ اس پر سب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے اور ایک اپنی امت کے لیے خاص شفاعت ہے جس پر پوری امت آپ کی احسان مند ہو گی اور تعریف کرے گی۔آپ کے نام ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ کی شان اس وقت پوری طرح ظاہر ہو گی۔

تفسیر القرآن الكريم

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگ گروہوں کی شکل میں ہوں گے، ہر امت اپنے نبی کا پیچھا کرے گی کہ اے فلاں! آپ سفارش کیجیے، یہاں تک کہ آخر میں شفاعت (کی درخواست) نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گی تو یہ وہ دن ہے جب اللہ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔

[ بخاری : 4818 ]

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی اجازت ملے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ ". (صحيح مسلم |2278)

” میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول ہوگی۔”

آپ شفاعت کبری کریں گے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی

لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟۔

چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

پھر سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں۔ نوح علیہ السلام بھی اسی طرح کی بات کریں گے اور کہیں گے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے، ابراہیم علیہ السلام بھی اسی طرح کی بات کریں گے اور کہیں گے ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔

سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام بھی وہی بات کہیں گے پھر کہیں گے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! ہماری شفاعت کیجئے، عیسیٰ بھی وہی کہیں گے نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔

سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے

بخاری 4712

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کی اجازت ملے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند أحمد |21737،حسن)

قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے ہی سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی

میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم : |2278)

میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔

اور بخاری میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحيح البخاري |4712)

میں قیامت کے دن سب لوگوں کا سردار ہوں گا

قیامت کے دن سب انبیاء کرام علیہم السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمٗ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي (سنن الترمذي |3148)

میرے ہاتھ میں حمد (وشکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر ) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے امام اور خطیب ہوں گے

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ ". (ابن ماجہ : 4314 حكم الحديث: حسن ،سنن ترمذی : 3613، صحیح)

جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اوراس پرمجھے) کوئی گھمنڈنہیں

شدید پیاس والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حوض کوثر دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان کو بہت اونچا کردیا

فرمایا :

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ(الكوثر : 1)

بلاشبہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی۔

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ بَيْنَمَا أَنَا أَسِيْرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ، قُلْتُ مَا هٰذَا يَا جِبْرِيْلُ !؟ قَالَ هٰذَا الْكَوْثَرُ الَّذِيْ أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِيْبُهُ أَوْ طِيْنُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ ] [ بخاري : 6581 ]

’’میں جنت میں چلا جا رہا تھا تو اچانک ایک نہر آگئی جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے کہا : ’’اے جبریل! یہ کیا ہے؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔‘‘ پھر دیکھا تو اس کی خوشبو یا مٹی مہکنے والی کستوری کی طرح تھی۔‘‘

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

نہر کوثر جنت میں ہے اور حوض کوثر محشر کے میدان میں ہوگا، بعض اوقات اس پر بھی نہر کوثر کا لفظ آتا ہے، کیونکہ اس حوض میں بھی جنت کے دوپرنالوں سے پانی گر رہا ہوگا۔ گویا حوض کا اصل بھی جنت والی نہر کوثر ہے۔

پل صراط سے سب سے پہلے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزریں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَيُضْرَبُ جِسْرُ جَهَنَّمَ

جہنم کا پل رکھا جائے گا .

” فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ (صحيح بخاری :6573)

تو سب سے پہلے میں ہی اسے عبور کروں گا

تمام انسانوں میں سب سے پہلے آپ ہی جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ ". (صحیح مسلم:196)

میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَسْتَفْتِحُ

’’میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا او ردروازہ کھلواؤں گا۔

جنت کا دربان پوچھے گا:

مَنْ أَنْتَ ؟

آپ کون ہیں؟

میں جواب دوں گا:

مُحَمَّدٌ

وہ کہے گا :

بِكَ أُمِرْتُ، لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ ". (صحيح مسلم : 197)

مجھے آپ ہی کےبارےمیں حکم ملا تھا ( کہ ) آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔‘‘

سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ (مسند أحمد : 12469)

قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں بھی میں ہی داخل ہوں گا