تحفۂ معراج
نماز آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون
اہم عناصر خطبہ :
01. فرضیت نماز
02۔ اہمیت ِ نماز
03۔ فضائل نماز
04۔ تارکِ نماز کی سزا اور اس کا حکم
برادرانِ اسلام !
آج کے خطبۂ جمعہ میں ( ان شاء اللہ تعالیٰ ) ایک ایسے عمل کے بارے میں بات ہو گی جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہے اور کوئی مسلمان جب دنیا کی پریشانیوں اور اس کے غموں سے نڈھال ہوکر اُس عمل کیلئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جائے تو پریشانیوں اور غموں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور اسے حقیقی اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے ۔۔۔۔ اور وہ عمل ہے نماز جسے اللہ تعالیٰ نے ہر مکلف مسلمان پر فرض کیا ہے اوراس کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باقی ( فرض ) اعمال اللہ تعالیٰ نے زمین پر فرض کیے جبکہ نماز اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں بلا کرآسمانوں سے اوپر جہاں تک اللہ نے چاہا وہاں فرض کی ۔
جیسا کہ قصۂ معراج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( ۔۔۔۔۔ فَأَوْحَى اللهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ "، قَالَ: ” فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ "، قَالَ: ” فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، ۔۔۔۔))
’’ پھراللہ تعالیٰ نے جو کچھ وحی کرنا چاہا میری طرف وحی کیا ، چنانچہ اس نے مجھ پر ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کیں ۔ پھرمیں حضرت موسی علیہ السلام کی طرف اترا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا :آپ کے رب نے آپ پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں انھوں نے کہا : آپ اپنے رب کی طرف واپس لوٹ جائیے اوران سے تخفیف کا سوال کیجئے کیونکہ آپ کی امت پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کا امتحان لے چکا ہوں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ میں اپنے رب کی طرف واپس لوٹ گیا اور میں نے کہا : اے میرے رب ! میری امت پر تخفیف کر دیجئے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کردیں ۔ اس کے بعد میں دوبارہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور انھیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دی ہیں تو انھوں نے کہا : آپ کی امت اب بھی طاقت نہیں رکھتی ، اس لئے آپ دوبارہ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اور ان سے تخفیف کی التجا کیجئے !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسی علیہ السلام کے درمیان بار بار آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے محمد ! یہ دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کیلئے دس ( نمازوں کا ثواب ) ہے ۔ یوں (اجر کے لحاظ سے ) یہ پچاس ہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر خصوصی فضل وکرم فرمایا اور فرض نمازوں کی تعداد پچاس سے پانچ کردی ۔ تاہم اجر وثواب کے اعتبار سے وہ پچاس ہی کے برابر ہیں۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم پر شکر گذار ہونا چاہئے اور اس کا شکر اس طرح ادا ہوگا کہ ہم پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتے رہیں اور ان کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کریں ۔
اہمیت نماز
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کا ذکر بار بار اور مختلف انداز سے فرمایا ہے ۔
کہیں اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴿٤٣﴾ (سورة البقرة ٤٣‏)
’’ نماز قائم کرو اور زکاۃ دیتے رہو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ‎﴿٥﴾ (سورة البينة ‎٥)
’’انہیں محض اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں ، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔ اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ پانچوں نمازیں ہمیشہ پابندی کے ساتھ اور نماز کی شروط اور ارکان و واجبات کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرتے رہو اور بغیرعذر شرعی کے ایک نماز بھی نہ چھوڑو ۔اور کہیں اللہ تعالیٰ تمام نمازوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے :
﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ‎﴿٢٣٨﴾ (سورة البقرة ٢٣٨‏)
’’ اپنی سب نمازوں کی حفاظت کرو ، خاص طور پر درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو ۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کی حفاظت کرنے یعنی انھیں ہمیشہ پڑھتے رہنے کی تلقین کی ہے، خاص طور پر درمیانی یعنی عصر کی نماز کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو تمام نمازیں ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہئے ! اور کہیں اللہ تعالیٰ نمازیں ہمیشہ پڑھتے رہنے اور گھر والوں کو بھی اس کا حکم دیتے رہنے کا فرمان جاری فرماتا ہے:
﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ‎﴿١٣٢﴾ (سورة طه ١٣٢)
’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے ، وہ تو ہم خود آپ کو دیتے ہیں اور انجام ( اہلِ ) تقوی ہی کیلئے ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے نمازیں ہمیشہ پڑھنے کا صرف حکم ہی نہیں دیا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ جنت میں انہی لوگوں کی عزت افزائی کی جائے گی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿إِلَّا الْمُصَلِّينَ ‎﴿٢٢﴾‏ الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ ۔۔۔۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ أُولَٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ ‎﴿٣٥﴾ (سورة المعارج ٢٢ تا ٢٣۔٣٤ تا ٣٥)
’’ مگر نماز ادا کرنے والے جو ہمیشہ اپنی نماز پر قائم رہتے ہیں ۔۔۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ، یہی لوگ عزت واکرام کے ساتھ جنتوں میں رہیں گے ۔ ‘‘

اور کہیں اللہ تعالیٰ نمازیں ہمیشہ ادا کرنے والے مومنوں کو جنت الفردوس کے وارث قرار دیتے ہوئے یوں فرماتا ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎﴿٤﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎﴿٥﴾‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎﴿٦﴾‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ‎﴿٧﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ‎﴿٩﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‎﴿١١﴾ (سورة المؤمنون ١ تا١١﴾‏
’’ایمان والے لوگ کامیاب ہو گئے جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیںاور بے ہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں۔ جو زکاۃ ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اور کنیزوں کے جو ان کے قبضہ میں ہوں کیونکہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی ملامت نہیں ، البتہ ان کے سوا جو کوئی اور ذریعہ تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور عہدو پیمان کا پاس رکھتے ہیں اور جو اپنی نمازوں پر محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ایسے ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘ اور کہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نماز قائم کرنے والوں کو یوں بشارت سناتا ہے :
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎﴿٢٧٧﴾ (سورة البقرة ٢٧٧)
’’ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ، نماز قائم کرتے رہے اور زکاۃ ادا کرتے رہے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ۔ انھیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ ‘‘
اور کہیں اللہ تعالیٰ سچے مومنوں کی صفات کے ضمن میں اقامت ِ نماز کا تذکرہ یوں فرماتا ہے :
 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿٣﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ‎﴿٤﴾ (سورة الأنفال ٢ تا ٤)
’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘ کہیں وہ متقین کی صفات کے ضمن میں نماز قائم کرنے والوں کو ہدایت یافتہ اور کامیابی پانے والے قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:
الم ‎﴿١﴾‏ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ‎﴿٤﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٥﴾ (سورة البقرة ١تا ٥)
’’الم * یہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ، اس میں متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انھیں جو دیا اس سے ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔ نیز وہ آپ کی طرف نازل شدہ ( وحی ) پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ( نازل شدہ ) ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ ‘‘

اور کہیں اللہ تعالیٰ عاجزی کرنے والوں کی صفات کے ضمن میں نماز قائم کرنے والوں کا ذکر فرماتے ہوئے انھیں یوں بشارت دیتا ہے :
﴿فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ‎﴿٣٤﴾‏ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿٣٥﴾(سورة الحج ٣٤ تا ‎٣٥‏)
’’ تمہارا معبود ( برحق ) صرف ایک ہے ، لہٰذا اسی کے فرمانبردار بنو ۔ اور آپ عاجزی کرنے والوں کو بشارت دیجئے جو کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں ۔ اور کوئی مصیبت پہنچے تو اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عاجزی وانکساری کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پانچوں نمازیں ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے ، ورنہ اگر وہ نمازوں سے غافل رہتا ہو یا ان میں سستی کرتا ہو تو وہ یہ سمجھ لے کہ گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑا سمجھتا ہے ۔ اور یہ بھی تکبر ہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے من مانی کرے اور مرضی کے مطابق نماز پڑھے ۔ اور اس طرح کا تکبر اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کے دل میں ہو تو وہ ہر گز جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ نماز اللہ کے نزدیک اس قدراہم ہے کہ اس نے نماز کو ایمان کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎﴿١٤٣﴾ (سورة البقرة ١٤٣)
’’ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ اور وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
جن لوگوں نے تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں پڑھی تھیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تمہارے ایمان یعنی تمہاری ان نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا جو تم نے تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی جانب منہ کرکے پڑھی تھیں ۔ تو اس میں اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا جو اس کی عظمت واہمیت کی دلیل ہے ۔
ہم نے نماز کی اہمیت کے متعلق قرآن مجید کی بعض آیات ذکر کی ہیں ، ورنہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارشادات بہت زیادہ ہیں بلکہ ارکان اسلام میں سے نماز ہی وہ رکن ہے کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں سب سے زیادہ کیا گیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اس فریضۂ اسلام کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے اور کسی بھی حالت میں اسے چھوڑنا نہیں چاہیے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بار بار نماز کی اہمیت کو اجاگر فرمایا بلکہ نماز قائم کرنے ، یعنی اسے ہمیشہ پڑھتے رہنے کو اسلام کا بنیادی رکن اور فریضہ قرار دیا ۔
جیسا کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ؤرَسُولُه ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ بيت اللَّهِ ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.)) (متفق عليه)
’’دین ِ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا ، حجِ بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ۔‘‘ اسی لئے جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو آپ ان سے اس بات کا عہد لیتے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ ہمیشہ ادا کرتے رہیں ۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ )) (صحيح مسلم 56 صحيح البخاري524)
یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر بیعت کی کہ میں ہمیشہ نماز قائم رکھوں گا ، زکاۃ دیتا رہوں گا اور ہرمسلمان سے خیرخواہی کرتا رہوں گا ۔ اور نماز کی عظیم قدر ومنزلت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سب سے آخری وصیت بھی نماز کے متعلق ہی فرمائی ۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُس مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا بار بار یہ ارشاد فرماتے رہے :
(( الصَّلَاةَ ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ )) (سنن ابن ماجه:1625 صحیح (الألباني)
’’ نماز ہمیشہ پڑھتے رہنا اور اپنے غلاموں کے حقوق ادا کرتے رہنا ۔ ‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ برابر کہتے رہے یہاں تک کہ (شدت مرض کی وجہ سے)آپ کی زبان پر ان کا جاری ہونا مشکل ہو گیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( كَانَ آخِرُ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ )) (سنن ابن ماجه : 2698 صحیح (الألباني)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام یہ تھا : ’’ نماز کا خیال رکھنا اورغلاموں کے حقوق ادا کرتے رہنا ۔ ‘‘
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت پرعمل کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو پانچوں نمازوں کی پابندی کرنی چاہیے اور ان میں کسی قسم کی غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو انہیں چند ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
((إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ )) (صحيح مسلم:19)
’’ تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو ، اس لیے تم انھیں ( سب سے پہلے ) اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو انھیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ بات بھی تسلیم کرلیں تو انھیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان میں سے مالداروں سے وصول کرکے انہی میں سے جو فقراء ہیں ان میں لوٹا دی جائے گی اور اگر وہ اس میں بھی تمھاری فرمانبرداری کریں تو ان کے نفیس مالوں سے بچنا اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا ، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ۔ ‘‘

اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل ِ نجد میں سے ایک شخص ‘ جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی گنگناہٹ تو سنی جا سکتی تھی لیکن وہ جوکچھ کہتا تھا اسے سمجھنا مشکل تھا ‘ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب قریب آیا تو اچانک اس نے اسلام کے بارے میں سوال کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((خمس صَلَواتٍ في اليوم واللَّيلة )) ’’ دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنی ہیں ‘‘ اس نے کہا : ان کے علاوہ کوئی اور نماز بھی فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لا ، إلا أن تَطَّوَّعَ )) ’’ نہیں ، مگر یہ کہ تم نفل نماز پڑھو ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وصيام شهر رمضان )) ’’ اور رمضان کے روزے بھی رکھنے ہیں ۔ ‘‘ اس نے کہا : کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے فرض ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لا ، إلا أن تَطَّوَّعَ )) ’’ نہیں ، مگر یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکاۃ کی فرضیت سے آگاہ کیا تواس نے کہا : کیا اس کے علاوہ کوئی اور چیز بھی (مال میں ) فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) ’’ نہیں ، مگر یہ کہ تم نفلی صدقہ کرو ۔ ‘‘ بعد ازاں وہ آدمی جاتے ہوئے کہنے لگا:(( والله لا أَزيد على هذا ولا أنْقُص منه ))’’ اللہ کی قسم ! میں اس پر نہ اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی کروں گا ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفْلَح إن صَدَق ))’’ اگر یہ واقعتا ایسا ہی کرتا رہا تو کامیاب ہو جائے گا ۔ ‘‘ ( متفق عليه )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سچے دین کا سب سے اہم فریضہ دن اور رات کی پانچ نمازیں ہیں ، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سارے لوگ ‘ جو اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے ہیں وہ اس پہلو اور سب سے اہم فریضے سے ہی غافل ہیں نہ خود اس کی پروا کرتے ہیں اور نہ اپنی اولاد کو اس کا پابند بناتے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کے بچے کو ‘ اگر وہ نماز نہ پڑھے تو سزا دینے کا حکم دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ )) ( سنن أبي داؤد 495 )
’’ تمھارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انھیں اس پر سزا دو۔‘‘

سو ہمیں خود بھی پابندِ نماز ہونا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی بچپن سے ہی اس کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر بھی اسلام کے اس سب سے اہم فریضہ پر کار بند رہ سکیں ۔ ایک حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں پابندی کے ساتھ پڑھنے والے مسلمان کو اس بات کی بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا ۔ جیسا کہ حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

((خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ، لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ, كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ )) ( سنن أبي داؤد: 1420 صحیح (الألباني)
’’ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں ، لہٰذا جو شخص انھیں اس طرح ادا کرے گا کہ اس نے ان میں سے کسی نماز کو ہلکا سمجھتے ہوئے ضائع نہ کیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا ۔ اور جو شخص انھیں ادا نہیں کرے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ، اگر وہ چاہے گا تو اسے عذاب دے گا اور اگر وہ چاہے گا تو اسے جنت میں داخل کردے گا ۔ ‘‘

ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔ اور جب ستون نہ رہے تو کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی ، اسی طرح نماز نہ پڑھی جائے تو دین بھی باقی نہیں رہتا !
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((۔۔۔۔ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ۔۔۔۔)) ( جامع الترمذي 2616 صحیح (الألباني)
’’ معاملے کی جڑ اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے ۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے اسی نماز کا حساب لیا جائے گا ، اگر بندہ اس کے حساب میں کامیاب ہو گیا تو وہ باقی اعمال میں بھی کامیاب ہو جائے گا ۔ اور اگر اس کے حساب میں ناکام ہوگیا تو باقی اعمال میں بھی ناکام ہو جائے گا ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((۔۔۔ أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الصَّلَاةُ ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِهِ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِهِ ۔))
’’ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا ، اگر نماز درست نکلی تو باقی تمام اعمال بھی درست نکلیں گے ۔ اور اگر نماز فاسد نکلی تو باقی تمام اعمال بھی فاسد نکلیں گے ۔ ‘‘ دوسری روایت میں فرمایا:
(( يُنظُرُ في صلاته ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ۔)) (السلسلة الصحيحة:1358)
’’ اس کی نماز میں دیکھا جائے گا ، اگر وہ ٹھیک ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گا ۔ اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ ذلیل وخوار اور خسارے والا ہو گا ۔ ‘‘
نماز کے فضائل :
1 ۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ‎﴿٤٥﴾ ( سورة العنكبوت ‎٤٥)
’’ ( اے نبی ! ) اس کتاب کی تلاوت کیجئے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے ۔ اور نماز قائم کیجیے ، نماز یقینا بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے ۔ ‘‘
2 ۔ ۔نماز شہادتین کے بعد سب سے افضل عمل ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ( أيُّ العَمَلِ أحَبُّ إلى اللَّهِ؟؟) اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کونسا عمل محبوب ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( الصَّلاةُ علَى وقْتِها ،)) ’’ بروقت نماز ادا کرنا ۔ ‘‘ میں نے پوچھا : پھر کونسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( ثُمَّ برُّ الوالِدَيْنِ )) ’’ والدین سے نیکی کرنا ۔ ‘‘ میں نے کہا : پھر کونسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( الجِهادُ في سَبيلِ اللَّهِ ،)) ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘‘
3 ۔ نماز صغیرہ گناہوں کو دھو دیتی ہے اور اگر کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے توپانچ نمازیں درمیان والے صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث موجود ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((أَرَأَيْتُمْ لو أنَّ نَهْرًا ببَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ منه كُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هلْ يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ ؟ قالوا: لا يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ، قالَ: فَذلكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بهِنَّ الخَطَايَا)) (مسلم 667)
’’بھلا بتاؤ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرلیا کرے تو کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ، ذرا بھی نہیں رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((الصَّلَواتُ الخَمسُ ، والجُمُعةُ إلى الجُمُعةِ، ورَمَضانُ إلى رَمَضانَ ؛ مُكَفِّراتٌ ما بَينَهُنَّ إذا اجتُنِبَ الكَبائِرُ ۔)) (مسلم 233)
’’ پانچ نمازیں ، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ، اور ایک ماہِ رمضان دوسرے ماہِ رمضان تک ، درمیان والے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں ، بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے ۔ ‘‘
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((لَا يَتَوَضَّأُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ فَيُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي تَلِيهَا )) (صحيح مسلم: 227)
’’ کوئی مسلمان آدمی جب اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر کوئی نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ان گناہوں کو معاف کردیتا ہے جو اس کے اور بعد میں آنے والی نماز کے درمیان ہوتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ )) ( صحيح مسلم:228 )
’’ جب کسی فرض نماز کا وقت شروع ہوجائے اور مسلمان آدمی اس کے لیے اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر اس میں انتہائی خشوع وخضوع اختیار کرے اور اس میں رکوع مکمل اطمینان سے کرے تو وہ نماز اس کے لیے پہلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے ، بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔ اور یہ فضیلت قیامت تک کے لیے ہے ۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((تحترِقونَ تحترِقونَ ، فإذا صلَّيتُم الصُّبحَ غَسَلَتْها ، ثمَّ تحترِقونَ تحترِقونَ ، فإذا صلَّيتُم الظُّهرَ غَسَلَتْها ، ثمَّ تحترِقونَ تحترِقونَ ، فإذا صلَّيتُم العصرَ غَسَلَتْها ، ثمَّ تحترِقونَ تحترِقونَ ، فإذا صلَّيتُم المَغربَ غَسَلَتْها ، ثمَّ تحترِقونَ تحترِقونَ ، فإذا صلَّيتُم العِشاءَ غَسَلَتْها ، ثمَّ تنامونَ فلا يُكْتَبُ عليكُم حتَّى تستَيقِظُوا))( صحيح الترغيب 357 )
’’ تم ( گناہوں میں ) جل رہے ہو ، تم ( گناہوں میں ) جل رہے ہو ، پھر جب تم فجر کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انھیں (یعنی تمہارے گناہوں کو) دھو دیتی ہے ۔ پھر تم ( گناہوں میں ) جلتے ہو ، تم (گناہوں میں)جلتے ہو، پھر جب تم نماز ظہر ادا کرتے ہو تو وہ انھیں دھو دیتی ہے ۔ پھر تم( گناہوں میں ) جلتے ہو ، تم ( گناہوں میں ) جلتے ہو، پھر جب تم نمازعصر ادا کرتے ہو تو وہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر تم (گناہوں میں) جلتے ہو، تم (گناہوں میں) جلتے ہو، پھر جب تم نماز مغرب ادا کرتے ہو تو وہ انھیں دھو دیتی ہے ۔ پھر تم ( گناہوں میں ) جلتے ہو ، تم ( گناہوں میں) جلتے ہو، پھر جب تم نمازعشاء ادا کرتے ہو تو وہ انھیں دھو دیتی ہے ۔ پھر جب تم سو جاتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا ، یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ ۔ ‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إنّ المسلمَ يصلِّي وخَطاياهُ مرفوعةٌ على رأسِه، كلّما سجَدَ تحاتَّت عنه، فيفرُغُ من صلاتِه؛ وقد تحاتَّت خطاياهُ )) ( صحيح الترغيب 362 )
’’ بے شک ایک مسلمان جب نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر پر بلند کردئیے جاتے ہیں ، پھر جب وہ سجدہ کرتا ہے تو ہر سجدے کے ساتھ اس کے گناہ اس سے گرتے ہیں ۔ اور جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے تمام گناہ گر چکے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کر لیا ہے جس پر حد واجب ہوتی ہے ، لہٰذا آپ مجھ پر وہ حد نافذ کریں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی کہ کون سے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور کیسے کیا ہے ۔ اس کے بعد جب نماز کا وقت ہوا تو اس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے دوبارہ وہی بات کی ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ‏‏أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا ؟ )) ’’ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی پڑھی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ )) (صحيح البخاري 6823)
’’ جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے ۔ ‘‘
4 ۔ نماز نمازی کے لیے دنیا وآخرت میں نور کا باعث ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
((مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ وَلَا بُرْهَانٌ وَلَا نَجَاةٌ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ، وَفِرْعَوْنَ، وَهَامَانَ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ )) ( رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ )
’’ جو شخص نماز ہمیشہ پڑھتا رہے تو نماز اس کے لیے نور ، دلیل اور روزِ قیامت باعث ِ نجات ہوگی ۔ اور جو شخص اسے ہمیشہ نہ پڑھے وہ اس کے لیے نہ نور ہوتی ہے اور نہ دلیل بنے گی اور نہ ہی اس کے لیے باعث ِ نجات ہوگی ۔ اور وہ قیامت کے روز قارون ، فرعون ، ہامان اور ابی بن خلف ( جیسے بد نصیبوں ) کے ساتھ ہوگا ۔ ‘‘
اورحضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَة )) ( سنن أبي داؤد 561 )
’’ اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ انھیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا ۔ ‘‘
5 ۔ نماز کے لیے چل کر جانے سے ایک ایک قدم پر گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى بَيْتٍ مَنْ بُيُوتِ اللهِ لِيَقْضِيَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللهِ، كَانَتْ خَطْوَتَاهُ إِحْدَاهُمَا تَحُطُّ خَطِيئَةً، وَالْأُخْرَى تَرْفَعُ دَرَجَةً )) ( صحيح مسلم : 666 )
’’ جوشخص اپنے گھر میں وضو کرے ، پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی طرف روانہ ہو جائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کو ادا کرنا ہو تو اس کے دو قدموں میں سے ایک قدم ایک گناہ کومٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند کرتا ہے ۔ ‘‘ دوسری روایت میں یوں ارشاد فرمایا:
((إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ يَرْفَعْ قَدَمَهُ الْيُمْنَى، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ حَسَنَةً، وَلَمْ يَضَعْ قَدَمَهُ الْيُسْرَى، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ سَيِّئَةً ۔۔۔۔۔۔)) ( سنن أبي داؤد : 563 )
’’ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر وہ مسجد کی طرف چلا جائے تو دایاں قدم اٹھانے پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور بایاں قدم رکھنے پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹادیتا ہے۔ ‘‘
6 ۔ نمازی جب بھی مسجد میں جاتا ہے تو اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی تیار کی جاتی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ، أَوْ رَاحَ، أَعَدَّ اللهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ نُزُلًا، كُلَّمَا غَدَا، أَوْ رَاحَ )) ( صحيح مسلم:669 )
’’ جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد میں جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے ، وہ جب بھی جائے صبح کو یا شام کو۔‘‘
7 ۔ نمازی کے لیے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَصَلَاتِهِ فِي سُوقِهِ، بِضْعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، وَذَلِكَ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ، فَلَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ كَانَ فِي الصَّلَاةِ مَا كَانَتِ الصَّلَاةُ هِيَ تَحْبِسُهُ، وَالْمَلَائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، يَقُولُونَ: اللهُمَّ ارْحَمْهُ، اللهُمَّ اغْفِرْلَهُ، اللهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ، مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ )) ( صحيح مسلم: 649 )
’’ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب اس نماز سے بیس سے زیادہ گنا بڑھ جاتا ہے جسے وہ گھر میں یا بازار میں اکیلے پڑھے اور یہ اس طرح کہ جب کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر مسجد میں صرف نماز پڑھنے کی نیت سے آئے ، نماز کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہ ہو تو اس کے ایک ایک قدم پر اس کا ایک درجہ بلند ہوتا اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے ، پھرجب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ ایسے ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو ۔ اور وہ جب تک اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : اے اللہ! اس پر رحم فرما ، اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما ، اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما ۔ وہ بدستور اسی طرح دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ کسی کو اذیت نہ دے یا اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے۔ ‘‘
8 ۔ نمازی کو اس حاجی کا ثواب ملتا ہے جس نے احرام باندھا ہوا ہو۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ ۔۔۔۔۔)) ( سنن أبي داؤد 558 )
’’ جو آدمی اپنے گھر سے باوضو ہو کر فرض نماز کے لیے جاتا ہے تو اس کا ثواب اس حاجی کا سا ہوتا ہے جس نے احرام باندھا ہوا ہو ۔ ‘‘
9 ۔ نماز گناہوں کی آگ کو بجھاتی ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلَكًا يُنَادِي عِنْدَ كُلِّ صَلاةٍ : يَا بَنِي آدَمَ ، قُومُوا إِلَى نِيرَانِكُمُ الَّتِي أَوْ قَدْتُمُوهَا عَلَى أَنْفُسِكِمْ فَأَطْفِئُوهَا ۔۔۔۔۔)) (معجم الصغير للطبراني : 326)
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو ہر نماز کے وقت پکار کر کہتا ہے : اے بنو آدم ! کھڑے ہو جاؤ اور اپنی اس آگ کو بجھا دو جو تم نے ( اپنے گناہوں کے ذریعے ) جلائی ہے ۔ ‘‘
10 ۔ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ پڑھنے والا شخص صدیقین اور شہداء میں سے ہے ۔
حضرت عمرو بن مرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے ، اگر میں اس بات کی گواہی دوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برجق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے علاوہ میں پانچوں نمازیں پڑھتا رہوں ، زکاۃ ادا کرتا رہوں اور رمضان المبارک کے روزے بھی رکھتا رہوں اور اس کا قیام بھی کرتا رہوں تو میں کن لوگوں میں سے ہوں گا ؟
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( مِنَ الصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ)) ’’ تم صدیقین اور شہداء میں سے ہوگے ۔ ‘‘
11 ۔ نماز آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ , وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ۔)) ( سنن نسائي 3391 )
’’ مجھے دنیا کی دو چیزیں محبوب ہیں : عورتیں اور خوشبو ۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اقامت ِ نماز کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرماتے :
((يَا بِلَالُ ، أَقِمْ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا )) ( سنن أبي داؤد: 4985 )
’’ اے بلال ! نماز کی اقامت کہو اور اس کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ ‘‘
جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے اور اس کا عذاب انتہائی سنگین ہے
آئیے اب نمازیں ضائع کرنے ان کی ادائیگی میں سستی کرنے انھیں بے وقت ادا کرنے اور انھیں بالکل ترک کرنے والوں کے انجام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کے ارشادات سن لیجئے ۔
اللہ تعالیٰ نمازیں ضائع کرنے والوں کو یوں جہنم کی وعید سناتا ہے :
﴿فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾ ( سورة مريم 59 )
’’ پھر ان کے بعد ان کی نالائق اولاد ان کی جانشین بنی ، جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے، وہ عنقریب ہلاکت سے دو چار ہوں گے ( یا جہنم کی ایک وادی غیّ میں جگہ پائیں گے ۔ ) ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ( غیّ ) کے بارے میں کہتے ہیں :
((وَھُوَ نَھْرٌ فِيْ جَھَنَّمَ،خَبِیْثُ الطَّعْمِ،بَعِیْدُ الْقَعْرِ)) ( كتاب الصلاة لإبن القيم , ص 40 )
’’ وہ جہنم میں ایک نہر ہے جس کا ذائقہ انتہائی گندا اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے ۔ ‘‘
نمازوں کے مقرر کردہ اوقات کی پروا کیے بغیر انھیں اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والوں کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتا ہے :
﴿ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ‎﴿٥﴾ ( سورة الماعون 4 تا 5 )
’’ پھر ایسے نمازیوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں ۔ ‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نمازیوں کو ہلاکت وبربادی ( یا جہنم کی ایک وادی ) کی وعید سنائی ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن اس کے مقرر کردہ وقت کی پروا نہیں کرتے اور جب دل چاہتا ہے اسے ادا کرتے ہیں ، کبھی وقت پر پڑھ لیتے ہیں اور کبھی بے وقت پڑھتے ہیں ۔ لہٰذا ان آیات مبارکہ سے ان لوگوں کو درسِ عبرت لینا چاہیے جن کی عادت ہی ہمیشہ تاخیر سے نماز پڑھنا ہے ، خصوصا فجر ، ظہر اور عصر کی نمازیں کہ جنہیں ہمیشہ آخری وقت میں یا کبھی وقت گذر جانے کے بعد پڑھتے ہیں !!
قیامت کے روز بے نمازوں کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ عَنِ الْمُجْرِمِينَ ‎﴿٤١﴾‏ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ‎﴿٤٢﴾‏ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ‎﴿٤٣﴾‏ ۔ ( ‎سورة المدثر 40 تا 43 )
’’ وہ جنتوں میں پوچھیں گے مجرموں سے ، تمہیں جہنم میں کونسی چیز لے گئی ؟ وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جب اہلِ جنت اہلِ جہنم سے سوال کریں گے کہ تمہیں جہنم میں کونسا عمل لے گیا ؟ تو وہ اپنا سب سے پہلا جرم یہ بتائیں گے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز نہ پڑھنا جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ، والعیاذ باللہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نمازوں کی ادائیگی میں سستی کرنے والوں کو منافقوں کی بعض صفات کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا ‎﴿١٤٢﴾ ‎( سورة النساء 142 )
’’ یہ منافق اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں جبکہ اللہ ہی انھیں دھوکے کا ( بدلہ دینے والا ) ہے ۔ اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھلانے کے لیے ( نماز ادا کرتے ہیں ) اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔ ‘‘
جو آیات مبارکہ ہم نے ابھی ذکر کی ہیں ان میں بے نماز کو یا نمازوں کی ادائیگی میں سستی کرنے والے شخص کو سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنا کفر اور بہت بڑا گناہ ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ۔ ( ابن ماجه 1078 )
آدمی اور کفر کے درمیان فرق نماز کو چھوڑنا ہے ۔ سنن ترمذی کی روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں :
بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ۔ (جامع الترمذي 2618 )
’’ کفر اور ایمان کے درمیان فرق نماز کو چھوڑنا ہے ۔ ‘‘
حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ”. ( ابن ماجه 1079 )
’’ ہمارے اور ان ( کافروں)کے درمیان عہد نماز ہے ، لہٰذا جو شخص اسے چھوڑ دے اس نے یقینا کفر کیا ۔ ‘‘
امام ابو عبد اللہ المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے ترکِ نماز پر سخت وعید سنائی ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس بات کی تاکید کی ہے کہ تارکِ نماز ایمان سے خارج ہو جاتا ہے ۔ نیز کفر اور ایمان کے درمیان سوائے نماز کے بندوں کے اعمال میں سے کسی عمل کو علامت کے طور پر بیان نہیں کیا گیا ۔ یعنی نماز ہی کو نشانی بنایا گیا ہے ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ۔ ‘‘
اور حضرت عبداللہ بن شقیق العقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنْ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ ۔ ( جامع الترمذي 2622 )
’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے ، سوائے نماز کے ۔ ‘‘

امام منذری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے سلف صالحین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والا شخص ‘ یہاں تک کہ اس کا وقت چلا جائے کافر ہے ، ان میں حضرت عمر بن خطاب ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ ائمۂ کرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، عبد اللہ بن مبارک ، نخعی ، حکم بن عتیبہ ، ایوب سختیانی ، ابو داؤد طیالسی ، ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب وغیرہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسے کفر ہی تصور کرتے تھے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے چھوڑنے والے کو انتہائی سنگین عذاب کی وعید سنائی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ۔
اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا تشرك بالله شيئا وإن عذبت وحرقت أطع والديك وإن أخرجاك من مالك ومن كل شيء هو لك لا تترك الصلاة متعمدا فإن من ترك الصلاة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله ۔ ( الترغيب والترهيب 5691 )
’’ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کبھی شرک نہ کرنا اگرچہ تمہیں عذاب دیا جائے اور تمہیں جلا دیا جائے ۔ اور اپنے والدین کی فرمانبرداری کرتے رہنا اگرچہ وہ تمہیں تمہارے مال سے اور تمہاری ہر چیز سے نکال دیں ۔ اورکبھی جان بوجھ کر نماز مت چھوڑنا کیونکہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ بری الذمہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
یہی تاکیدی حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو بھی دیا تھ ا۔ فرض نماز سے سوئے رہنے والے شخص کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جس عذاب میں مبتلا دیکھا اسے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں سنیے ۔
حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر پوچھتے کہ آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کردیتے ۔ پھر ایک دن آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول یہی سوال کیا تو ہم نے جواب دیا : نہیں ، ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے ، انھوں نے مجھے اٹھایا اور کہنے لگے : چلیں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو اپنی گدی کے بل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ایک آدمی اس کے قریب کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں ایک پتھر تھا اور وہ اس کے ساتھ اس کے سر کو کچل رہا تھا ۔ وہ جیسے ہی پتھر اس کے سر پر مارتا پتھر لڑھک جاتا ۔ اور جب تک وہ اسے اٹھا کر واپس آتا اس کا سر پھر جڑ چکا ہوتا اور اپنی اصلی حالت میں واپس آ چکا ہوتا ۔ تو یہ پھر اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے ان دونوں سے کہا : سبحان اللہ ! یہ دونوں آدمی کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا: آگے چلیں ۔ تو ہم آگے چلے گئے ۔۔۔۔ انھوں نے کہا :
أَمَّا الرَّجُلُ الْأَوَّلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفُضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ ۔ ‌( صحيح البخاري 7047 )
یعنی ’’ رہا وہ پہلا شخص جس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ شخص تھا جو قرآن پڑھتا تو تھا لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور فرض نماز سے سویا رہتا تھا ۔ ‘‘ امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ جان بوجھ کر فرض نماز کو چھوڑنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اس کا گناہ اللہ کے نزدیک قتل کرنے ، مال لوٹنے ، بد کاری اور شراب نوشی سے بھی بڑا ہے۔ اور تارکِ نماز اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ، سزا اور دنیا اور آخرت میں رسوائی کی زد میں ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے تمام اعمال کو لکھا کرتے تھے کہ میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے ، کیونکہ جو شخص اس کی حفاظت کرتا رہے وہ اپنے دین کو محفوظ کر لیتا ہے ۔ اور جو اسے ضائع کردے وہ اس کے علاوہ باقی فرائضِ اسلام کو زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ اور وہ شخص جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دین ِ اسلام کے سب سے اہم فریضہ پر کاربند رہنے اور اسے ہمیشہ پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
عزیزان گرامی ! پہلے خطبہ میں آپ نے تحفۂ معراج یعنی پانچ نمازوں کی فرضیت ، اہمیت اور فضائل کے بارے میں چند گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں سماعت کیں ، اسی طرح آپ نے یہ بھی سنا کہ عمداً نماز چھوڑنا کتنا بڑا گناہ ہے اور تارک ِ نماز کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ۔ اور جب ہم عام مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے مسلمان یا تو اس فریضۂ دین سے بالکل غافل ہیں ۔۔۔۔۔ اور ایسے لوگ یقینا انتہائی خطرناک راہ پر چل رہے ہیں اور انھیں اس سے فوری طور پر توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے ۔۔۔۔ یا پھر اس سے بالکل غافل تو نہیں ، تاہم وہ اسے اپنی منشاء کے مطابق ادا کرتے ہیں ، کبھی تمام نمازیں پڑھ لیتے ہیں اور کبھی کوئی نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی وقت پر پڑھتے ہیں اور کبھی بے وقت پڑھتے ہیں ، کبھی مساجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھتے ہیں اور کبھی بغیر کسی شرعی عذر کے اپنے گھر میں ہی پڑھ لیتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں کو بھی اپنا یہ طرزِ عمل فوری طور پر تبدیل کرنا چاہیے اور ان پر لازم ہے کہ وہ تمام نمازیں ان کے اول وقت میں باجماعت ادا کریں ۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے مسلمان باقی نمازیں تو بر وقت ادا کرتے ہیں لیکن ان کی فجر کی نماز بستر پر ہی ضائع ہو جاتی ہے ، اسی طرح عصر کی نماز بھی ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ان دونوں نمازوں کو ہمیشہ بر وقت ادا کرنے والے آدمی کو جنت کی خوشخبری دی ہے ۔
حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ صَلَّى البَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ۔ ‌( صحيح البخاري 574 )
’’ جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں ( فجر وعصر ) پڑھتا رہے وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘نیز فرمایا:
لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ، وَقَبْلَ غُرُوبِهَا – يَعْنِي الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ ۔ ( صحيح مسلم 634 )
’’ وہ شخص جہنم میں ہرگز داخل نہ ہو گا جو طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروب ِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھتا رہے ‘‘ یعنی فجر وعصر کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتا رہے ۔
اور جو شخص فجر کی نماز کے وقت سویا رہے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب ہم پہلے خطبہ میں بیان کر چکے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حالت میں دیکھا کہ اس کے سر کو کچلا جا رہا تھا ‘ والعیاذ باللہ۔
اور جہاں تک نمازِ عصر کا تعلق ہے توا س کے تارک کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاَةُ العَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ ۔ ( صحيح البخاري 552 )
’’ جس آدمی کی نمازِ عصر فوت ہو جائے ، گویا اس سے اس کے گھر والوں اور اس کے مال کو سلب کر لیا گیا ۔‘‘
ایک روایت میں ہے : مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ۔ ‌( صحيح البخاري 553 )
’’ جو شخص نمازِ عصر چھوڑ دے اس کے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘ اور بعض لوگ نمازِ عشاء اور نمازِ فجر سے غفلت کرتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے بارے میں فرمایا کہ ان پر یہ دونوں نمازیں انتہائی بھاری ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ ‌أَثْقَلَ صَلَاةٍ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ وَصَلَاةُ الْفَجْرِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا ۔۔۔۔ ( متفق عليه )
’’ بے شک منافقوں پر سب سے بھاری نماز ‘ نمازِ عشاء اور نمازِ فجر ہے ۔ اور اگر انھیں معلوم ہو جاتا کہ ان دونوں میں کتنا اجر ہے تو وہ گھٹنوں کے بل چل کر بھی یہ نمازیں ادا کرنے کے لیے ضرور حاضر ہوتے … ‘‘
لہٰذا مومن کے شایان شان نہیں کہ وہ ان نمازوں کو اپنے لیے بوجھل تصور کرتے ہوئے ان میں سستی کرے ، بلکہ انھیں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے لیے باعث ِ نجات سمجھتے ہوئے ان پر مداومت کرے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ‎﴿٤٥﴾‏ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿٤٦﴾۔ ( ‎45 تا 46 )
’’ تم صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور بلا شبہ یہ نماز بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ ‘‘

اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ ہمیں ان عاجزی کرنے والوں میں ہی شامل فرمائے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر یقین رکھتے ہوئے توحید کے بعد سب سے اہم فریضۂ اسلام ( نماز ) کی ادائیگی کا مکمل اہتمام کرتے اور اسے ہمیشہ ادا کرتے رہتے ہیں ۔ آمین