تذکرہ چند قربانیوں کا

ابھی چند دن پہلے عید قربان کا عظیم دن گزرا ہے پوری دنیا میں موجود فرزندانِ اسلام نے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور ذبح کیے ہیں

لیکن یہ ایک ادنیٰ سی قربانی ہے

اللہ تعالیٰ ہم سے اس بھی بڑی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں

دین اسلام کی داستان قربانیوں سے بھری پڑی ہے

اور یہ قربانیاں ہی فوز و فلاح اور امت کی بقا کا راستہ ہیں

عید قربان ہمیں یہ پیغام دہ کر گئی ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو اور اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے سب کچھ قربان کر دینے کی ضرورت ہو اور دوسری طرف ماں باپ اور خویش و اقارب کی محبت ہو اور دنیا کے دوسرے تعلقات یا مفادات و خطرات اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر مصلحت سے بے پروا ہو کر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرے اور کوئی دنیوی مفاد یا خطرہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اسے اللہ کا حکم ماننے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے باز رکھ سکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی وقت عذاب آ سکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة : 24)

کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

[ بخاری، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الإیمان : ۱۵، عن أنس رضی اللہ عنہ]

جذبہ ایمان کا عجیب منظر جب بیٹے نے باپ کا راستہ روک لیا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :

’’ایک بار ہم ایک لشکر میں تھے تو ایک مہاجر آدمی نے ایک انصاری کو اس کے پیچھے کی جانب لات مار دی۔‘‘ تو انصاری نے کہا : ’’او انصاریو!‘‘ اور مہاجر نے کہا : ’’او مہاجرو!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا : ’’جاہلیت کی اس پکار کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے پیچھے کی جانب لات مار دی ہے، تو آپ نے فرمایا : ’’اس (جاہلیت کی پکار) کو چھوڑ دو، کیونکہ یہ بہت بدبو دار ہے۔‘‘ یہ بات عبداللہ بن اُبی نے سنی تو کہنے لگا : ’’انھوں نے ایسا کیا ہے؟ یاد رکھو! اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس سے ضرور نکال باہر کرے گا۔‘‘ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے رہنے دو، لوگ یہ بات نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ اور انصار مہاجرین سے زیادہ تھے جب وہ مدینہ میں آئے، پھر بعد میں مہاجرین زیادہ ہوگئے۔‘‘

[بخاري، التفسیر، باب قولہ : «سواء علیھم أستغفرت لھم » : ۴۹۰۵ ]

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی یہی حدیث ترمذی میں ہے وہاں اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :

[ فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ : وَاللّٰهِ ! لاَ تَنْقَلِبُ حَتّٰی تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيْلُ وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْعَزِيْزُ فَفَعَلَ ] [ترمذي، تفسیر القرآن، سورۃ المنافقون : ۳۳۱۵، وقال الألباني صحیح ]

’’تو اس (عبداللہ بن اُبی) کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : ’’اللہ کی قسم! تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عزیز ہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔‘‘

نفاذِ حدود کے سامنے بیٹی کی محبت قربان کرنے کا نبوی عزم

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں

أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا (بخاري 3475)

مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جائو، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء : 135)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جائو، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچائو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح با خبر ہے۔

دفاعِ حدیث کی خاطر قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینے والے

حفاظت دین کے لیے ہمارے اسلاف اپنےاقربہ کی پرواہ بھی نہیں کیا کرتے تھے

چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں

علي بن المديني رحمہ اللہ کی اپنے باپ کے خلاف گواہی

قال في أبيه :أنه ضعيف.

انہوں نے اپنے باپ کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف تھا

(ميزان الاعتدال ) ٢/ ٤١٠،(المجروحين ) ٢/ ١٥.

وكيع بن الجراح اپنے باپ کے متعلق محتاط رہتے

كان اذا روى عن أبيه قرن معه أخر لأن والده كان على بيت المال.

وکیع جب اپنے باپ سے روایت کرتے تو اس کے ساتھ کوئی اور راوی بھی ملاتے کیونکہ ان کا باپ بیت المال کا نگران تھا

(فتح المغيث)٣/٣٢٢.

أبو داود السجستاني کی اپنے بیٹے کے خلاف حق گوئی

قال في إبنه عبد الله : كذاب.

انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کے متعلق فرمایا کہ وہ کذاب یعنی جھوٹا تھا

(ميزان الاعتدال ) ٢/ ٤٣٣.

شعبة بن حجاج کا اپنے بیٹے پر جرح کرنا

قال في إبنه سعد : سميت ولدي سعدا فما سعد ولا أفلح.

انہوں نے اپنے بیٹے سعد کے متعلق فرمایا

میں نے اپنے بیٹے کا نام سعد رکھا لیکن وہ سعد یعنی خوشبخت ہوا نہ ہی کامیاب

(ميزان الاعتدال ) ٢/ ١٢٢.

زيد بن أبي أنيسة اپنے بھائی کی جرح کرتے ہیں

قال في أخيه يحي: لاتكتب عن أخي فإنه كذاب

انہوں نے اپنے بھائی یحییٰ کے متعلق فرمایا

میرے بھائی سے روایات نہ لی جائیں کیونکہ وہ جھوٹا ہے

.(ميزان الاعتدال ) ٤/٣٦٤.

جرير بن حميد الضبي کا اپنے بھائی پر تبصرہ

قال في أخيه أنس : لا يكتب عنه فإنه يكذب في كلام الناس.

انہوں نے اپنے بھائی انس کے متعلق فرمایا

اس سے روایات نہ لکھی جائیں کیونکہ وہ لوگوں سے بھی جھوٹ بولتا ہے

(الجرح والتعديل )١/٢٨٩.

شعبة بن حجاج اپنے سسرالی رشتہ دار کے بارے فرماتے ہیں

قال في ختنه هشام بن حسان القردوسي:لو حابيت أحدا لحابيت هشام بن حسان كان ختني ولم يكن يحفظ.

انہوں نے اپنے سسرالی رشتہ دار ھشام بن حسان کے متعلق فرمایا

اگر میں نے کسی راوی کے متعلق نرم گوشہ اختیار کرنا ہوتا تو اپنے سسرالی رشتہ دار ھشام کے متعلق نرم گوشہ اختیار کرتا وہ میرا سسرالی رشتہ دار ہے لیکن روایات یاد نہیں رکھتا تھا

(ميزان الاعتدال )٤/-٢٩٦ ٢٩٥.

أبو العروبة الحراني اپنی والدہ کے ماموں کے متعلق فرماتے ہیں

قال في الحسين بن أبي السري العسقلاني : هو خال أمي؛ وهوكذاب.

انہوں نے حسین بن ابی السری عسقلانی کے متعلق فرمایا وہ میرے والدہ کا ماموں ہے اور کذاب ہے

(ميزان الاعتدال ) ١/ ٥٦٣.

یحییٰ بن معین، محمد بن عثمان بن أبي شيبة سے فرمانے لگے "آپ کا چچا ضعیف ہے

امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں

سألت يحي بن معين عن عمي القاسم ابن محمد: فقال لي عمك ضعيف يا ابن أخي.

میں نے یحییٰ بن معین سے اپنے چچا قاسم بن محمد کے متعلق پوچھا

تو انہوں نے مجھے فرمایا

اے بھتیجے تیرا چچا ضعیف

(ميزان الاعتدال ) ٣/ ٣٧٩.

– مسلمة بن قاسم اپنے ایک دوست کی تضعیف کرتے ہیں

قال في العباس بن محبوب ابن شاصونة: ضعيف الحديث لا يكتب حديثه وكان لي صديقا

انہوں نے عباس بن محبوب کے متعلق فرمایا

وہ حدیث میں ضعیف ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جا سکتی جبکہ وہ میرا دوست ہے

(لسان الميزان ) ٣ / ٢٩٧.

محدثین کی اس بےباک حق گوئی پر امام بیھقی رحمہ اللہ کا تبصرہ

امام بیھقی رحمہ اللہ نے فرمایا

( ومن أمعن النظر في اجتهاد أهل الحفظ في معرفة أحوال الرواة ومايقبل من الأخبار ومايرد علم أنهم لم يألوا جهدا في ذلك حتى كان الابن يقدح في أبيه إذا عثر منه على ما يوجب رد خبره ؛ والأب في ولده ؛ والأخ في أخيه ؛ لاتأخذه في الله لومة لائم ولا تمنعه في ذلك شجنة رحم ولاصلة مال والحكايات عنهم في ذلك كثيرة).

جو کوئی شخص راویوں کے حالات کی معرفت اور ان کی روایات کو قبول اور رد کرنے کے متعلق حفاظ ائمہ کی محنت میں غور و فکر کرے گا تو وہ جان لے گا انہوں نے اس سلسلے میں جانفشانی کرنے میں ذرا بھر کوتاہی نہیں بھرتی یہاں تک کہ بیٹا جب اپنے باپ میں کوئی ایسی چیز دیکھ لیتا جس سے اس کی روایت قابلِ قبول نہ رہتی تو وہ اس کی جرح کیا کرتا تھا اور اسی طرح باپ اپنے بیٹے کی اور بھائی اپنے بھائی کی

انہیں اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی تھی

اور نہ ہی انہیں اس سلسلے میں رشتہ داروں کی چاپلوسی یا مال کی طمع روک سکتی تھی

اور ان کی اس طرح کی حکایات بہت زیادہ ہیں

(دلائل النبوة ) ١/٧٤].

اپنے خلاف لکھی گئی کتاب پر خود ہی مقدمہ لکھا

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی كتاب "تاريخ الإسلام” علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، نامور عراقی محقق شیخ بشار عواد معروف حفظہ اللہ نے اس کتاب کی عمدہ تحقیق کی ہے، محقق موصوف نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی شخصیت اور کتاب کے منہج کے متعلق "الذهبي ومنهجه في كتاب تاريخ الإسلام” کے نام سے ایک مستقل کتاب بھی ترتیب دی تھی، جس کے متعلق شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ نے ایک مقام پر لکھا ہے:

‏”خيرُ كتابٍ قرأتُه للمعاصرين على الإطلاق؛ هو كتاب (الذهبيّ ومنهجه في كتاب تاريخ الإسلام)”.

یعنی “(حافظ ذہبی سے متعلق) معاصر اہلِ علم کی کتب میں یہ کتاب سب سے بہتر ہے”۔

لیکن شیخ بشار کا یہ کام آج سے چالیس سال پرانا ہے، دن بدن وسائل کی جو فراوانی حاصل ہوتی جارہی ہے، وہ اس دور میں شیخ کو حاصل نہ تھی، اس بنا پر کتاب کے بعض مندرجات کی دوبارہ تحقیق کی بجا طور پر ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔

حال ہی میں شیخ بشار کے ایک شاگرد اور کئی کتب کے محقق استاذ ابو عبداللہ حسین بن عکاشہ حفظہ اللہ نے شیخ کی اس کتاب پر استدراک کرتے ہوئے "النكت الذهبية – نكت على كتاب الذهبي ومنهجه في تاريخ الإسلام” سے موسوم کتاب شائع کی ہے، جس میں استاذ کے ادب واحترام کا دامن تھامتے ہوئے نہایت دیانت کے ساتھ کتاب کا جائزہ لے کر اس میں دَر آئی اغلاط کی تحقیق وتصویب کی ہے۔

قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ اپنی کتاب کے بعض مباحث پر نقد کے سلسلے میں لکھی گئی اس کتاب پر شیخ بشار عواد نے خود مقدمہ لکھ کر مؤلف کو ان کی تحقیق کی داد دی ہے، اس عمل میں شاگرد کی حوصلہ افزائی کے پہلو کے ساتھ علمی نقد وجرح کے حوالے سے اہلِ علم وطلبہ علم کے لیے وسعتِ ظرفی کا نمایاں درس بھی ہے اور علمی اختلاف میں آداب کی رعایت کا ایک اعلی نمونہ بھی!

دوران جنگ بارود کی بارش میں علمی مشغلہ جاری رکھتے ہوئے

مشہور محقق دکتور بشار عواد کی بات یاد آرہی ہے کہ کس طرح وہ خوف ودھشت کے عالم میں بھی اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے تھے

دکتور موصوف لکھتے ہیں:

”كنت أقابل هذا المجلد مع تلميذي الدكتور مصطفي الأعظمي بدارنا ببغداد إبان العدوان الأمريكي الغادر علي العراق في ربيع سنة 2003 م ، والكهرباء مقطوعة ، والقنابل تتساقط بالقرب منا ، والدار تهتز من شدتها وكثرتها….“

”میں اس جلد (تاريخ الاسلام للذهبي کی پندرہویں جلد) کا (اصل مخطوطہ سے ) مقابلہ اپنے شاگرد دکتور مصطفی اعظمی کے ساتھ بغداد میں اپنے گھر پرکررہا تھا ، یہ سن 2003ء کی بات ہے جب امریکہ نے عراق کو اپنی بھیانک جارحیت کا نشانہ بنا رکھا تھا ، شہر سے لائٹ کٹی ہوئی تھی ، بم ہمارے قریب ہی گررہے تھے ، اور ہمارا گھر بمباری کی شدت اور کثرت سے لرز رہا تھا“

[الرد حول ما أثير علي تحقيق التمهيد لابن عبدالبر: ص4]

حفاظت دین کے لیے ہمارے اسلاف اپنے ہی اقربہ سے ٹکرا گئے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (الحج : 19)

یہ دو جھگڑنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جاچکے ، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

پہلا غزوہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو بدو جنگ ہوئی غزوۂ بدر تھا، جس میں سب سے پہلے میدان میں نکلنے والے حمزہ بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم تھے، جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے تھے۔

چنانچہ اس آیت کا اولین مصداق یہی تین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں۔

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے :

[ أَنَّهٗ كَانَ يُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ هٰذِهِ الْآيَةَ :

«هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ »

نَزَلَتْ فِيْ حَمْزَةَ وَصَاحِبَيْهِ وَعُتْبَةَ وَصَاحِبَيْهِ يَوْمَ بَرَزُوْا فِيْ يَوْمِ بَدْرٍ ]

’’وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ آیت :

« هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ » [ بخاري، التفسیر، باب: « ھذان خصمان …» : ۴۷۴۳۔ مسلم : ۳۰۳۳ ]

ان چھ آدمیوں حمزہ اور ان کے دو ساتھی، عقبہ اور اس کے دو ساتھیوں کے بارے میں اتری تھی جو بدر کے دن ایک دوسرے کے مقابلے میں نکلے تھے۔‘‘

اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

’’میں پہلا شخص ہوں جو قیامت کے دن اس جھگڑے کے لیے رحمان کے سامنے دونوں زانوؤں کے بل بیٹھوں گا اور اپنا مقدمہ پیش کروں گا۔‘‘

[ بخاري، التفسیر، باب: « ھٰذان خصمان اختصموا في ربھم » : ۴۷۴۴ ]

ان تینوں حضرات کے بعد قیامت تک آنے والے وہ تمام مجاہد بھی اس آیت میں شامل ہیں جنھوں نے توحید کی خاطر کفار سے جہاد کیا یا کریں گے۔

عمر رضی اللہ عنہ کا مشورہ کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے مشرک رشتہ دار کو قتل کرے

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر میں) جب قیدی گرفتار کر لیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے متعلق تمھاری کیا رائے ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’میں نے کہا، اے اللہ کے رسول !

میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کیجیے، تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل کو علی کے حوالے کیجیے، تاکہ وہ اس کی گردن اڑائیں اور میرے حوالے فلاں کو کیجیے، تاکہ میں اس کی گردن اڑاؤں، اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے سرغنے اور اس کے سردار ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے اختیار فرمائی اور میری رائے اختیار نہیں کی،

اللہ تعالیٰ، عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے کی تائید کرتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الأنفال : 67)

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

پھر جب دوسرے دن کی صبح ہوئی، میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔

میں نے کہا اے اللہ کے رسول! مجھے بھی بتائیے آپ اور آپ کے دوست کیوں رو رہے ہیں، تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو میں بھی روؤں، ورنہ کم از کم آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے والی صورت ہی بنا لوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’میں اس فیصلے کے مشورے کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمھارے ساتھیوں نے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق دیا تھا، اب میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی قریب تھا۔‘‘

اور آپ کے قریب ایک درخت تھا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :

«مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ» [ الأنفال : ۶۷] [مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر … : ۱۷۶۳ ]

علماء و محدثین کی حصول علم کے لیے محنتیں

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ

كان الصحابي حكيم بن حزام رضي الله عنه من أشراف قريش

وكان يطلب العلم عند الصحابي : معاذ بن جبل -رضي الله عنه-

رغم أنه كان أكبر من معاذ بخمسين سنة❗

فقيل له :

أنت تتعلم على يد هذا الغلام ؟

فقال : إنما أهلكنا التكبر .

صحابیِ رسول حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ساداتِ قریش میں سے تھے اور آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس علم حاصل کیا کرتے تھے

باوجود اس بات کے کہ وہ معاذ سے پچاس سال بڑے تھے

ان سے کہا گیا کہ آپ اس لڑکے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں

تو انہوں نے فرمایا

(اس میں حرج ہی کیا ہے) ہمیں تکبر نے ہلاک کردیا ہے

الآداب الشرعية لابن مفلح ٢/٢١٥

امام بخاری رحمہ اللہ کی محنت شاقہ

‏حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

” وقد كان البخاريُّ يستيقظُ في الليلةِ الواحدة من نومه ، فيوقد السراج ويكتب الفائدة تمر بخاطره ، ثم يطفئ سراجه ، ثم يقوم مرة أخرى وأخرى ، حتى كان يتعدد منه ذلك قريباً من عشرين مرة ” [البداية والنهاية (11/31)]

"امام بخاری رحمہ اللہ ایک ہی رات میں جب ذہن میں کوئی بات آتی تو اپنی نیند سے بیدار ہوتے چراغ روشن کرتے اور وہ بات لکھتے پھر اس چراغ بجھا دیتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے حتی کہ ایسا تقریباً بیس مرتبہ کرتے”

ابن الجوزی رحمہ اللہ نے 340 کتب لکھیں

اور اس کے پیچھے 50 ہزار جلدوں کا وسیع مطالعہ ہے

(فضیلة الشيخ علامہ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ تعالی)

قال الإمام ابن الجوزي – ﮼رحمه ﮼الله -:

.” ما أشبع من مطالعة الكتب، وإذا رأيت

كتـابًا لـم أره؛ فكـأني وقـعـتُ على كـنز ".

. صيد الخاطر لابن الجوزي (84)

امام ابن الجوزي رحمه الله فرماتے ہیں میں مطالعہ کتب سے سیر (دل نہیں بھرتا )نہیں ہوتا جب مجھے کوئی نئی کتاب نظر آتی ہے تو مجھے لگتا ہے میرے ہاتھ خزانہ لگ گیا ہے

استاذِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

دوران ترجمہ پچیس اردو اور فارسی تراجم میرے زیرِ نظر رہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ بعض مفاہیم کی تعیین کے لیے مجھے کتنی ہی عربی کتب، یعنی تفسیر، حدیث، لغت، ادب اور بلاغت کی کتابوں کی ورق گردانی کرنا پڑی اللہ کا بے حد و حساب شکر ہے جس نے اس کام کی توفیق بخشی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا

تفسیر القرآن الکریم ص16ج1

ایک طالب علم کی خودداری کا عظیم واقعہ

استاذِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

بندہ(عبد السلام) عرض کرتا ہے کہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم رحمہ اللہ نے مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا واقعہ سنایا کہ وہ ان دنوں فیروز پور کے ایک گاؤں ’’لکھوکی ‘‘ میں پڑھتے تھے، والد فوت ہو چکے تھے،گھر میں غربت تھی اور سردی کے موسم میں قمیص بھی نہیں تھی۔ فرماتے تھے کہ میں نے وہ چھ ماہ قمیص کے بغیر دوہر (دوہرا کھیس) لپیٹ کر گزار دیے، کسی کو پتا تک نہیں چلنے دیا کہ میرے پاس قمیص نہیں، پھر والدہ نے روئی وغیرہ کی چنائی سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھیجی تو انھوں نے قمیص بنائی۔

[اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ]

ایک لاکھ احادیث لکھنے کا اعزاز

‏جاء عن الحافظ أبو أسامة حمَّاد بن أسامة :

كتبتُ بأصبعيَّ هاتين مئةَ ألف حديث.

حافظ ابو اسامہ حماد بن اسامہ فرماتے ہیں

میں نے اپنی ان دو انگلیوں کے ساتھ ایک لاکھ احادیث لکھی ہیں

انظر: ميزان الاعتدال (2138)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وفات تک لکھتے رہے

‏قال عبدالله بن أحمد بن حنبل:

"ما زال القلم في يد أبي حتى مات”.

آپ کے بیٹے عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں

"قلم، ہمیشہ میرے باپ کے ہاتھ میں ہی رہی یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے "

[الكفاية، ص187].

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج صدیاں بیت گئیں اور حدیث کی کتاب مسند امام احمد ہمارے پاس موجود ہے جو کہ حدیث نبوی کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی

وسئل سهل بن عبد الله التُّسْتَري:

إلى متى يكتب الرجل الحديث؟

قال: "حتى يموت ويُصبّ باقي حِبْره في قبره”.

سھل بن عبداللہ تستری سے پوچھا گیا

آدمی کتنی عمر تک حدیث لکھ سکتا ہے

انہوں نے فرمایا

یہاں تک کہ اسے موت آ جائے اور اس کی باقی سیاہی (روشنائی) اس کی قبر پر پھینک دی جائے

[سير أعلام النبلاء 13/ 330]

امام کسائی رحمہ اللہ آخری عمر میں علم حاصل کرتے ہیں

‏ الإمام الكسائي رحمه الله

‏ كان راعياً للغنم حتى بلغ ٤٠ عاماً وفى يوم من الأيام وهو يسير رأى أمّا تحث ابنها على الذهاب إلى الحلقة لحفظ القرآن

‏والولد لا يريد الذهاب

امام کِسائی رحمہ اللہ بکریوں کے چرواہے تھے حتی کہ چالیس سال عمر ہوگئ ایک دن چل رہے تھے کہ انہوں نے ایک ماں کو دیکھا جو اپنے بیٹے کو حفظ قرآن کی کلاس میں جانے کا کہہ رہی تھی جبکہ بیٹا کلاس میں جانا نہیں چاہتا تھا

‏فقالت لابنها : يا بني اذهب إلى الحلقة لتتعلم حتى إذا كبرت لا تكون مثل هذا الراعي !!

‏تو اس عورت نے اپنے بیٹے سے کہا :اے میرے بیٹے کلاس میں علم حاصل کرنے کے لیے چلا جا تاکہ جب تو بڑا ہوجائے تو اس چرواہے کی طرح نہ بنے

‏فقال الكسائى : أنا يضرب بى المثل في الجهل

‏فذهب فباع غنماته وانطلق إلى التعلم وتحصيله فأصبح:

‏إماماً فى اللغة

‏إماما فى القراءات

‏ويضرب به المثل في العلم وكبر الهمة

امام کِسائی نے( دل میں) کہا کہ میں تو جہالت میں ضرب المثل بن گیا ہوں پھر انہوں نے اپنی بکریاں بیچ دیں اور علم حاصل کرنے چل پڑے چنانچہ وہ لغت اور قرأت کے ایسے امام بن گئے کہ علم اور بلند ہمتی میں ان کی مثال دی جانے لگی

‏العمرُ ليس مقياس

‏فكثير من الصحابة دخل الإسلام بعدما كبر سنّه وصاروا مصابيح تضيء الدنيا.

یعنی عمر کوئی پیمانہ نہیں ہے

بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بڑی عمر میں اسلام میں داخل ہوئے پھر وہ ایسے چراغ بنے کہ دنیا کو روشن کرنے لگے

الجواهر و الدرر لابن حجر

حصول کتب کی خاطر ایک بیوہ سے نکاح

‏ﺗﺰﻭﺝ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭﺍﻫﻮَﻳْﻪ ﺃﺭﻣﻠﺔ ﻷﻥ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ ﻛﺘﺐ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ: ﻣﺎ ﺣﻤﻠﻚ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﺗُﻨﻜﺢ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﻟﻜﺘﺒﻬﺎ [ ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ ٧٠/١٠ ]

امام اسحــاق بن راھویـه رحمه اللّٰه نے ایک بیـوہ عـورت سے محـض اس لئے نکاح کیا کہ اُس کے پہلے شوہـر جو وفات پا گئے تھے اُن کے پاس امام شافعی رحمه اللّٰه کی کتابیـں تھیـں

|[ کتاب السیر للذھبي : ٧٠/١٠ ]|

چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم ” امام ابن الخشاب رحمہ اللہ ( متوفی 567 ھ ) جنہیں کتابوں سے حد درجہ عقیدت اور انہیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب 500 درہم میں خریدی۔ قیمت ادا کرنے کےلئے کوئی چیز نہ تھی۔ تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا۔ اس طرح سے اپنے شوق کی تکمیل کی۔

( ذیل طبقات الحنابلہ 251/2 )

دعوت وإصلاح کے لیے اسلاف امت کی عظیم قربانیاں

اس سلسلے میں سب بہترین مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے آپ برداشت ہی نہیں کرتے تھے کہ لوگ کفر اختیار کرکے دنیا میں حیوانوں سے بدتر زندگی گزاریں، پھر آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں، اس فکر میں آپ گھلتے جارہے تھے ، اتنا کہ اللہ تعالیٰ کو تسلی دلانا پڑتی ہے

فرمایا

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف : 6)

پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔

اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ ہوتا تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو "باخع نفسک” یعنی اپنی جان ہلاک کرنے والا کہا

ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بے ہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں؟

تو فرمایا:

’’مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘

[ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین… : ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ]

گلیات میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی جدوجہد

گلیات کے علاقے میں جائیں تو وہاں آپ کو ایوبیہ گلی، نتھیہ گلی اور کالاباغ میں اکثریت اہلحدیث لوگوں کی نظر آئے گی ایک دو مساجد کے علاوہ پورے علاقہ گلیات میں تقریباً تمام مساجد اہل حدیث کی مساجد ہیں

میں نے وہاں بعض احباب سے معلوم کیا کہ یہاں ماشاءاللہ بہت لوگ اہل حدیث ہیں اس کی کیا وجہ ہے یہ انقلاب کیسے آیا

تو لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے دوران جہاد کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور اس دوران وہ علاقے میں دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہے لوگوں کے پاس جاتے عقیدہ و منہج کے مسائل بیان کرتے ایک ایک بندے کی اصلاح کرتے دعوت و جہاد کے اس حسین مرکب کا نتیجہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ سب لوگ اللہ کی توفیق سے صحیح العقیدہ لوگ ہیں

شاہ صاحب نے جہاں ایک طرف جہاد کا عظیم الشان فریضہ سرانجام دیا تو وہاں ساتھ ہی درس وتدریس اور دعوت وإصلاح میں بھی خوب محنت کی بلکہ تصنیف کتب میں بھی نمایاں خدمات رکھتے ہیں شاہ صاحب کی مشہورِ زمانہ کتاب "تقویۃ الایمان” عقیدہ توحید کے موضوع پر بے مثال کتاب ہے ایک عرصہ بیت جانے کے باوجود یہ کتاب آج بھی لوگوں کے ایمان میں تقویت پیدا کررہی ہے اور اس کتاب سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہو رہی ہیں

گوجرانوالہ میں مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی عظیم خدمات

اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ اہل حدیث لوگ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں آباد ہیں

گوجرانوالہ شہر اور گردونواح کے دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں عظیم الشان اہل حدیث مساجد، مدارس اور مراکز قائم ہیں

بلکہ اہل حدیث کے ہاں اسے مدارس کا شہر بولا جاتا ہے

میں نے وہاں ایک پرانے جماعتی بزرگ سے پوچھا کہ اس شہر میں یہ انقلاب کیسے آیا کہ اتنی کثیر تعداد میں سلفی لوگ آباد ہیں تو وہ فرمانے لگے کہ اس میں بہت زیادہ محنت مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ہے

تذکرہ کچھ دیگر علماء کرام کی قربانیوں کا

اسی طرح علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ

مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ

مولانا پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ

اور امیر المجاہدین پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ تعالیٰ

کی دعوت و جہاد اور اصلاحِ معاشرہ میں خدمات ایک زریں عہد ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

علامہ احسان ایک عبقری شخصیت تھے نڈر، بے باک اور بارعب انسان تھے جب گرجتے تھے تو باطل کے ایوانوں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا

ایسے وقت میں اہل حدیث کا ڈنکے کی چوٹ پر تعارف کروانا کہ جب لوگ وہابیوں کی وجہ سے اپنی مسجدوں کو سرف، صابن اور پانی کے ساتھ دھویا کرتے تھے، یہ علامہ ہی کا کام تھا

تحریر اور تقریر کے شہسوار تھے آپ کی تصانیف اور تقاریر ایک انقلاب تھیں تھوڑے ہی وقت میں ملک کے طول وعرض میں مسلک اہلحدیث کی دعوت پہنچانے والے علامہ شہید ہی تھے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

علامہ کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے حافظ سعید کو کھڑا کیا

حافظ صاحب نے پیدل چل چل کر ، سائیکل، موٹر سائیکل اور پھر گاڑیوں کے ذریعے قریہ قریہ نگر نگر پروگرامز کیے، دن رات کی محنت شاقہ سے انقلاب کھڑا کیا

آپ کا نرم، دھیمہ اور حکمت سے بھرپور لہجہ مسلک اہلحدیث اور منہج محدثین کی اشاعت وترویج میں اپنی مثال آپ رہا

حافظ صاحب کی دعوت پر خاندانوں کے خاندان اہل حدیث ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں مساجدومدارس کا عظیم الشان نیٹ ورک پھیلا دیا عقیدہ توحید، رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الإمام اور رد بدعات کے لیے اکیس اکیس دن کے دو مختلف شارٹ کورسز خود حافظ صاحب اپنی نگرانی میں چلاتے رہے انہی کورسز میں ایسی کلاسیں بھی دیکھنے کو ملیں کہ ایک ایک کلاس میں اٹھارہ اٹھارہ سو افراد نے اہلحدیث ہونے کا اعتراف کیا

اتنا زبردست انقلاب کے ایڈوانی اور واجپائی جیسے دشمن بھی کہنے لگے کہ حافظ سعید پاکستان میں وہابی انقلاب لانا چاہتا ہے

ایک صاحب کہنے لگے اگر میں یہ کہوں کہ وطن عزیز پاکستان میں اللہ کی نصرت اور توفیق کے ساتھ اہل حدیث کا تعارف علامہ احسان رحمہ اللہ نے کروایا ہے اور اہل حدیث کی تعداد میں اضافہ حافظ سعید حفظہ اللہ نے کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا

حضرت حافظ عبد اللہ بہاولپوری رحمہ اللہ بہاولپور تشریف لائے تو وہاں صرف ایک اہل حدیث مسجد تھی اور جس دن فوت ہوئے اس دن اللہ کی توفیق اور حافظ صاحب کی محنتوں سے تیس اہل حدیث مساجد قائم ہوچکی تھیں

کیا یہ سب محنتوں قربانیوں اور صبر وثبات کے بغیر ممکن ہے ❓

مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ کے متعلق بہت سے احباب اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شیخوپورہ سے لیکر نارنگ منڈی تک (کم و بیش ایک طرف ستر کلو میٹر سفر بنتا ہے) علاقہ بھر میں پیدل جا جا کر پروگرام کیا کرتے تھے اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے اور مولانا کے دروس و خطبات کی وجہ سے ہزاروں لوگ بدعات و خرافات سے تائب ہو کر حلقہ بگوش توحید وسنۃ ہوئے

یادوں کاسفر۔۔۔۔۔۔۔اسلافِ امّت کی دعوتی تگ وتاز کا ایک منظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راقم الحروف ایک روزشیخ القرآن مولانامحمدحسین شیخوپوری علیہ الرحمہ کی خدمتِ اقدس میں باریاب تھا۔دعوتی میدان میں آنےوالی مشکلات کی بات ہورہی تھی۔میں نے گزارش کی اس معاملہ میں اپنا کوٸی واقعہ بیان فرماٸیے،آپ طرح دےگٸے،میں نےاصرارکیاتونظراندازکرگٸے،میں بھی بچّوں والی ضدپراُترآیا۔وہ جان گٸےکہ اب صرفِ نظر سےبات نہیں بنے گی۔توفرمانےلگے۔

” کسی دُورافتادہ گاٶں کےلوگ حافظ عبدالقادرروپڑی علیہ الرحمہ اور مجھ سے تقریرکاوعدہ لےگٸے۔ میں مقررہ دن مغرب سےکچھ وقت پہلے بتاٸےگٸے ”سٹاپ“پربس سےاُترا۔یہ ایک ویران سا سٹاپ تھا۔میں بتاٸے گٸےراستے پرپیدل چل پڑا۔یہ کوٸی باقاعدہ راستہ نہیں تھابلکہ ناہموارسی کچی پگڈنڈی تھی۔اڑھاٸی تین میل چلنے کے بعد چندکچےگھروں اورجھونپڑیوں پرمشتمل ایک گاٶں نما سی آبادی آ گٸی۔رات پھیل چکی تھی۔اندھیرے میں یہ آبادی اور بھی پُراسرارسی لگ رہی تھی۔میں نے ایک آدمی سے جلسے والے گاٶں کااتاپتاپُوچھاتو اس نےآگے ایک طرف اشارہ کرتےہوٸےکہا یہ گاٶں اس طرف ہے۔میں پھرچل دیا۔اتناہی فاصلہ پھر کیاتو پہلےوالےجیساایک اور گاٶں آگیا۔گاٶں کی نہ کوٸی گلی نہ کوچہ۔۔بےترتیب سی آبادی۔۔نہ کوٸی انسان۔۔ایک ہُو کاعالَم تھا۔میں نے ایک گھرسے آوازدےکر ایک شخص کو باہر بلایا۔اس سے جلسےوالےگاٶں کاپتاپُوچھا تواس نے یہ کہہ کرمجھےحیران کردیا کہ اس نام کے اس علاقےمیں چار گاٶں ہیں۔آپ کس کاپوچھ رہے ہیں؟۔ میں کیاجواب دیتا؟ دیہاتی علاقوں میں ایسا ممکن ہوتاہے۔ایک ہی نام کی متعدد آبادیاں ہوتی ہیں۔ان کی پہچان کےلیے ”خورد“اور”کلاں“کے یا”اُتاڑ“ اور ”ہٹھاڑ“ کےسابقے لاحقے استعمال کیےجاتےہیں۔لیکن یہاں اس قسم کاکوٸی امتیازی ”ردیف قافیہ“مجھے نہیں بتایاگیاتھا۔میں نے اہلحدیثوں کی مسجد اور جلسے کاپوچھا تو حضرت اس سےبھی لاعلم نکلے۔میں نے اس سے اس نام کے قریبی گاٶں کاراستہ پوچھااور اونچےنیچے راستے پرچل دیا۔باہرنکل کر میں نےچاروں طرف کان دھر کرمذکورہ جلسے کی آوازیں سننے کہ کوشش کی۔لیکن بےسود۔۔چلتے چلتے ایک چورراہاآگیا۔ مجھے کس طرف جاناہے؟میں وہاں رک گیا۔ایک دو لمحوں کے بعد دماغ میں ایک ترکیب سی آٸی۔میں نےجُھک کر کان زمین سےلگادیے۔آنکھیں بندکرلیں۔اب دھیمی دھیمی سی آوازوں نے میرا حوصلہ بڑھادیا۔میں نےمختلف ”پوز“ بنابناکر اندازہ لگالیا کہ جلسہ کس طرف ہورہاہے۔اللہ کانام لےکراس سمت روانہ ہوگیا۔اللہ جانتاہے کتنافاصلہ کیا۔اب لاٶڈسپیکر کی آواز کانوں پڑی۔پاٶں شل ہوچکےتھے۔گاٶں میں پہنچا تو حضرت حافظ صاحب کی خطابت اپنےعروج پرتھی۔میں نےسنا،حافظ صاحب میرے نہ آنے پرافسوس کااظہارکررہےتھے۔کیونکہ جس جلسے میں ہمیں خطاب کرناہوتاتھا،اس جگہ ہم وقت سےپہلے پہنچ جایاکرتےتھے۔منتظمین کوایڑیاں اٹھااٹھاکر راہیں تکنےکی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔جلسے کےبعد بھی ایک آدھ روز وہیں قیام ہوتاتھا۔اردگردکے لوگ آآکرمجلس جماٸےرکھتے تھے۔بعض اوقات جلسےمیں بیان کیےگٸےمساٸل پرلوگ اپنی تشفی چاہتے اور بسااوقات حضرت حافظ عبدالقارروپڑی ؒ کےمناظرانہ اندازِ تخاطب پردیگرمسالک کےلوگ تشریف لےآتےاورسوال وجواب کی نشست برپاہوجاتی۔ایسابھی ہوتاکہ وہیں پرمناظرے کی فضا بن جاتی اور حافظ صاحب کتاب وسنت سےدلاٸل کی برکھاکردیتے اورکٸی دن کے بعد فاتحانہ اندازسےگھرلَوٹتے۔۔۔۔۔بہرحال۔۔۔اس رات جب کہ لوگ میری آمد سے مایوس ہوچکےتھے۔میں اچانک جلسہ گاہ آپہنچا تو فضا نعرہ ہاٸےتکبیر سےگونج اٹھی۔رات اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔حافظ صاحب نے ماٸک،جلسہ گاہ اور سامعین وناظرین ایک تھکے ہوٸے خطیب کے حوالےکردیے۔ میں نے خطبہ شروع کیاتومحسوس ہوا میرےجسم کابندبند تھکن سےآزادہوچکاہے۔

۔۔۔۔ربنااغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان۔۔۔۔۔

( محمد سعید حویلی لکھا )

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلی سکون راحت اور خدمت کے لیے ان سے 44 سال چھوٹی اپنی بیٹی کا رشتہ انہیں عطا کردیا

اپنی بیٹی پر تہمت لگانے والے کا وظیفہ جاری رکھا

حضرت عائشہ (رض) پر جب منافقین نے تہمت لگائی تو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)

حضرت ابو بکر صدیق (رض) انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابو بکر صدیق (رض) کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

النور : 22

اس آیت میں ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا :

پروردگار! ”ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے” چنانچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے

صحیح بخاری، حدیث (4750)

اپنی جان کی قربانی مطلوبِ شریعت ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ ان بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔

البقرة : 207

کسی صاحب نے لکھا ہے کہ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی گفتگو تھی

دنبہ کی قربانی تو اس کا فدیہ تھی

ہمیں دنبہ یاد رہا گفتگو یاد نہیں رہی

عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :

’’آپ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :

’’اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

فرمایا :

’’اب اے عمر ! (تیرے ایمان کا معاملہ درست ہوا)۔‘‘

[ بخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۶۶۳۲ ]

انصار کی مہاجرین کے لیے قربانیاں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ بطور جاگیر ان کے لیے لکھ دیں۔ انھوں نے کہا : ’’جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم نہیں لیں گے۔‘‘

[ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم للأنصار : ’’اصبروا حتٰی تلقوني علی الحوض ‘‘ : ۳۷۹۴ ]

انصار کے دل میں مہاجرین کی ایسی محبت اور ہمدردی تھی کہ مہاجرین کو کوئی چیز دی جائے تو انصار کے دل میں اپنے لیے اس کی خواہش تک پیدا نہیں ہوتی تھی اس کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی چھوڑی ہوئی تمام زمینیں اور باغات مہاجرین کو دے دیے اور انصار نے بخوشی اسے قبول کیا

دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد اپنے مہاجر بھائی کے نکاح میں دینے کی پیش کش

سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنی ساری جائداد اور تمام مکانوں میں سے نصف کی اور دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد ان کے نکاح میں دینے کی پیش کش کی، جس پر انھوں نے انھیں برکت کی دعا دی مگر یہ پیش کش قبول نہ کی۔

(دیکھیے بخاری : 2029)

’’اے اللہ کے رسول! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجیے۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

’’اے اللہ کے رسول! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجیے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’نہیں۔‘‘

تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا :

’’تم ہماری جگہ محنت کرو گے اور ہم تمھیں پھلوں کی پیداوار میں شریک کر لیں گے۔‘‘

مہاجرین نے کہا:

’’ہم نے تمھاری بات سنی اور مان لی۔‘‘

[ بخاري، الحرث والمزارعۃ، باب إذا قال اکفني مؤونۃ النخل… : ۲۳۲۵ ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر میاں، بیوی اور بچوں نے رات خالی پیٹ گزار دی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيْفُ هٰذَا؟ ]

’’اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا؟‘‘

انصار میں سے ایک آدمی (جن کا نام ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھا :صحیح مسلم) نے کہا:

’’میں لے جاؤں گا۔‘‘

چنانچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔‘‘

اس نے کہا:

’’ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

اس نے کہا:

’’کھانا تیار کر لو، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دو۔‘‘

اس نے کھانا تیار کر لیا، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں، مگر انھوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ ضَحِكَ اللّٰهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا ]

’’آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔‘‘

تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

« وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ » [ الحشر: ۹ ]

’’اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘

[ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول اللّٰہ عزوجل: «و یؤثرون علی أنفسہم …» : ۳۷۹۸۔ مسلم : ۲۰۵۴ ]

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ