تربیت ِ اولاد

اہم عناصر خطبہ :

01.تربیت اولاد کی اہمیت وضرورت

02.حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں

03.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بچوں کی تربیت

04.اولاد پر شفقت

05.بچوں کو ان کا حق ملنا چاہئے

06. جائز کھیل کود07.تربیت اولاد کیلئے اہم امور

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! اولاد ماں باپ کے پاس امانت ہوتی ہے اور اس کی تربیت ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان کے بچے ان کی رعایا ہوتے ہیں اور وہ ان کے ذمہ دار ۔لہٰذا ان سے خیرخواہی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان کی اصلاح وتربیت کرنا ان پر واجب ہے ۔ اور والدین کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہئے کہ اولاد کیلئے محض کھانا پینا اور لباس مہیا کرنا ہی ان کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی واخلاقی تربیت کرنا بھی ان کا فریضہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُونَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم66 :6)

’’ اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔ اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں ۔ جو ارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتاہے وہ اسے بجا لاتے ہیں۔ ‘‘

اس آیت میں مومنوں کو ان کی اہم ذمہ داری یادکرائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کی بھی اصلاح وتربیت کا اہتمام کریں تاکہ وہ سب کے سب جہنم کے عذاب سے بچ سکیں ۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ،فَالْإِمَامُ رَاعٍ،وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِیْ أَہْلِہٖ،وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ،وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِہَا،وَہِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِہَا…فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ )) (صحیح البخاری،الجمعۃ باب الجمعۃ فی القری والمدن:893،صحیح مسلم:1829 )

’’ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی ۔لہٰذا وقت کا حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا اورہر آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ اورہر عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔۔۔ سو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کے متعلق جوابدہ ہو گا ۔‘‘

اس حدیث میں ہر شخص کو اس کے گھر والوں کا جن میں اس کے بیوی بچے شامل ہیں ذمہ دار، نگران اور محافظ بتلایا گیا ہے ۔ اور یہ کہ ہر ایک سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے کہاں تک ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا تھا !

اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

(( مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً ، یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَہُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِہٖ ، إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)) (صحیح البخاری:7150،صحیح مسلم :142)

’’ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ذمہ دار اور نگران بناتا ہے ، پھر وہ آخری دم تک اپنی رعیت سے دھوکہ کرتا رہتا ہے تواللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘

اس حدیث میں ہر ذمہ دار کو تنبیہ کی گئی ہے اور اسے یاد دلایا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو دیانتداری اور امانت کے ساتھ نبھائے ورنہ اگر اس کی موت اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہوئے آگئی تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔اور چونکہ والدین بھی اپنی اولاد کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ان کی اولاد ان کی رعیت ہوتی ہے اس لئے انھیں بھی اپنی اس رعیت کے ساتھ مکمل طور پر خیر خواہی کرنی چاہئے ۔ دنیاوی معاملات میں تو والدین اپنی اولاد کی خیرخواہی کا سوچتے ہی ہیں ، اسی طرح دینی اور اخروی معاملہ میں بھی اولاد سے خیرخواہی کرنا ان کا فرضِ منصبی ہے ۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلاَثٍ : صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ)) (صحیح مسلم :1631)

’’ جب انسان فوت ہو جاتا ہے کہ تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے : صدقہ جاریہ ، علمِ نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے۔‘‘

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کیلئے جاری رہتا ہے ۔ ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کیلئے دعا کرتی رہے ۔لہٰذا نیکی کے راستے کی طرف اپنی اولاد کی راہنمائی کرنا ، انھیں نیک وصالح بنانے کیلئے جدوجہد کرنا اور ان کی دینی تربیت کرنااز حد ضروری ہے ۔

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ،فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ وَ یُنَصِّرَانِہٖ وَ یُمَجِّسَانِہٖ )) (صحیح البخاری:1359،صحیح  مسلم:2658)

’’ ہر بچہ فطرت ( اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے ماں باپ چاہیں تو اسے یہودی بنا دیں ، چاہیں تو اسے نصرانی بنا دیں اور چاہیں تو اسے مجوسی بنا دیں ۔‘‘

اس حدیث کے مطابق ہر بچہ اپنی پیدائش کے وقت سلیم الفطرت ہوتا ہے ۔ اسلام دین ِ فطرت ہونے کی بناء پر اس کیلئے اس کی قبولیت آسان ہوتی ہے ۔ وہ شرک کے مقابلے میں توحید کو ، بدعت کے مقابلے میں سنت کو ، معصیت کے مقابلے میں اطاعت کو ، جھوٹ کے مقابلے میں سچ کو آسانی سے قبول کرتا ہے ۔ وہ فطری طور پر حق پسند ہوتا ہے ۔ اس کے بعد وہ ایسے رہتا ہے یا نہیں ؟ اس کا دارومدار ماں باپ کی تر بیت پر ہوتا ہے ۔ اگر ماں باپ اس کی اسلامی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور گھر کے ماحول کو دینی نقطۂ نظر سے اس کیلئے سازگار بناتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بچہ اپنی فطرت سے انحراف کر جائے اور سچا مسلمان نہ رہے ! اور اگر تربیت غلط ہو تو وہ یہودی ، نصرانی ، مجوسی وغیرہ ہو جاتا ہے ۔

حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں

حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں قرآن مجید میں ذکر کیا ہے اور ان میں تربیت ِ اولاد کے زریں اصول موجود ہیں ۔یہ مکمل دس نصیحتیں ہیں۔ آپ بھی سماعت فرما ئیں اور اپنے بچوں کو بھی سنائیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ وَہُوَ یَعِظُہُ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان31 :13)

’’ اور جب لقمان نے نصیحت کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا : میرے پیارے بچے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔ ‘‘

سب سے پہلے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع کیا اور اسے بہت بڑا ظلم قرار دیا ۔ اس لئے اپنی اولاد کی تربیت میں سب سے زیادہ عقیدے کی درستگی کو اہمیت دینی چاہئے۔ انھیں توحید کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھایا جائے اور انھیں شرک سے اور اس کی موجودہ تمام شکلوں سے ڈرایا جائے تاکہ وہ اس سے پرہیز کریں ۔ اور اولاد کو بتایا جائے کہ پوری کائنات کا خالق ومالک ، رزق دینے والا ، نفع ونقصان پہنچانے والا ، حاجت روا ، مشکل کشا اور داتا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس لئے اسی کو پکارا جائے ، اسی سے دعا مانگی جائے ، اسی سے تمام امیدیں وابستہ کی جائیں ، دل میں صرف اسی کا خوف ہو اور کسی فوت شدہ کا خوف نہ ہو ۔ اور اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اس کے علاوہ کسی اور پر قطعا بھروسہ نہ کیا جائے ۔

اس کے بعد دو آیات والدین سے حسن سلوک کے بارے میں ہیں :

﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَّفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ. وَإِن جَاہَدَاکَ عَلیٰ أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (لقمان31 :15-14)

’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ۔اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا ۔ اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے ۔یہ کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گذاری کر ( تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔تمھارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس پر میں تمھیں خبردار کروں گا ۔ ‘‘

ان دو آیات میں والدین سے حسن سلوک کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر والدین شرک کرنے کا یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی ۔ یہی بات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمائی :

(( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ ، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ )) (متفق علیہ)

’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ اطاعت تو صرف نیکی میں ہے ۔ ‘‘

پھر نصیحت کرتے ہوئے حضرت لقمان نے فرمایا :

﴿یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِیْ صَخْرَۃٍ أَوْ فِیْ السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ﴾ (لقمان31 :16)

’’ پیارے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو ، پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا ۔ اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔ ‘‘

اس میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو خبردار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چھوٹی بڑی نیکی اور اسی طرح ہر چھوٹی بڑی برائی کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اولاد کو ہمیشہ نیکیوں کی طرف ترغیب دیتے اور برائیوں سے ڈراتے رہنا چاہئے تاکہ ان کے دل میں نیکی کی محبت اور برائی سے نفرت پیدا ہو۔

اس کے بعد فرمایا : ﴿یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ (لقمان31 :17)

’’ اے میرے پیارے بیٹے ! تو نماز قام رکھنا ، اچھے کاموں کا حکم دیتے رہنا ، برے کاموں سے منع کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے اس پر صبر کرنا ۔ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے ۔ ‘‘

اس آیت میں کئی نصیحتیں ہیں ۔ سب سے پہلے اقامتِ نماز کا حکم ہے یعنی ہمیشہ نماز کی پابندی کرنا ۔لہٰذا اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہئے ۔ اور ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ عملی طور پر بچوں کو طہارت ، وضو اور نماز کا مکمل طریقہ سکھلائیں اور خود بھی نمازوں کی پابندی کیا کریں ورنہ اگر وہ بچوں کو تو نماز پڑھنے کا حکم دیں اور خود نہ پڑھیں تو اس سے بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ،وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِیْنَ )) (أحمد،أبوداؤد ۔ صحیح الجامع للألبانی:5868)

’’ تمھارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو ۔ اور جب دس سال کے ہو جائیں ( اور نماز نہ پڑھیں ) تو انھیں اس کی وجہ سے مارو ۔ ‘‘

پھر پانچویں اور چھٹی نصیحت نیکی کا حکم دینے ، برائی سے منع کرنے اور ہر مصیبت میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کے بارے میں ہے ۔لہٰذا بچوں کو اس بات کی تعلیم دینی چاہئے کہ جب وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ ہوں تو بے ہودہ گفتگو کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو نیکی کی طرف بلائیں اور برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ اور اگر ان پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ اسے برداشت کریں اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ۔

اس کے بعد حضرت لقمان نے نصیحت کرتے ہوئے کہا :

﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ٭وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ﴾ (لقمان31 :19-18)

’’اور لوگوں ( کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا تصور کرتے ہوئے ) ان سے منہ نہ موڑنا۔ اور زمین پر اترا کر نہ چلنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرنا ۔ اور اپنی آواز کو پست رکھناکیونکہ آوازوں میں سب سے بد تر آواز گدھوں کی آواز ہے ۔ ‘‘

یہ چار نصیحتیں بچوں کے اخلاق اور لوگوں کے ساتھ ان کے میل ملاپ اور گفتگو کرنے کے طریقوں کے بارے میں ہیں ۔ لہٰذا بچوں کی تربیت میں ان تمام باتوں کو اہمیت دینی چاہئے اور انھیں اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے اور گفتگو کرنے کے آداب سکھانے چاہئیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بچوں کی تربیت

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاشرے کے ہر فرد کیلئے معلم بنا کر مبعوث فرمایا ۔ چنانچہ آپ چھوٹوں بڑوں کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیا کرتے تھے ۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث کو روایت کیا گیا ہے لیکن ہم یہاں ایک جامع حدیث ذکر کریں گے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو چند بنیادی باتوں کی تعلیم دی تھی اور وہ باتیں آج بھی ہر بچے کی اسلامی تربیت کیلئے انتہائی ضروری ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

(( یَا غُلَامُ ! أَلَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ یَنْفَعُکَ اللّٰہُ بِہِنَّ؟))

’’ اے بچے ! میں تمھیں آج نفع بخش باتیں نہ بتاؤں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع پہنچائے گا ؟میں نے کہا :کیوں نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

01.(( اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ))

’’ تم اللہ ( کے دین کی ) حفاظت کرنا ( اس کے احکام پر عمل کرنا اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے بچنا ) اس طرح اللہ تعالیٰ تمھاری حفاظت کرے گا ۔ ‘‘

02.(( اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاہَکَ))

’’ تم اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز نہ کرنا اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرے گا ۔ ‘‘

03.(( إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ )) ’’ تم جب بھی مانگنا چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنا ۔ ‘‘

04.(( وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ ))

’’ اور جب بھی تمھیں مدد کی ضرورت ہو توصرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ۔ ‘‘

05.(( وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ،لَمْ یَنْفَعُوْکَ إلِاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ،وَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ))

’’ اور اس بات پر اچھی طرح سے یقین کر لو کہ اگر تمام لوگ مل کر تمھیں نفع پہنچانا چاہیں تو وہ تمھیں محض اتنا نفع پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمھارے حق میں لکھ رکھا ہے ۔ اور اگر وہ سب کے سب مل کر تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔ ہاں اللہ نے جو تیرا نقصان لکھ رکھا ہے تو وہ ہو کررہے گا ۔ ‘‘

06.(( رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ))

’’ قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔‘‘ ( یعنی تقدیریں لکھی جا چکی ہیں )

07.(( تَعَرَّفْ إِلَی اللّٰہِ فِیْ الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِیْ الشِّدَّۃِ ))’’ خوشحالی کے ایام میں اللہ تعالیٰ (کے حقوق ) پہچانتے رہو ، تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرے گا ۔ ‘‘

08.(( وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ)) ’’اور اس بات کو بھی اچھی طرح یاد کر لو کہ جو چیز تجھ سے چُوک گئی وہ تجھے ملنے والی نہ تھی ۔ اور جو تجھے مل گئی وہ تم سے چُوکنے والی نہ تھی ۔ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تجھ سے جوچیز روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی ۔ اور اللہ تعالیٰ تجھے جو چیز عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا ۔

09.(( وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْکَرْبِ))

’’ اور یہ بھی جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہر پریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے ۔ ‘‘

10. (( وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا )) ’’ اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی کو لاتی ہے ۔ ‘‘ (أحمد :2804 ۔ وصححہ الأرناؤط ۔ سنن الترمذی : 2516۔ وصححہ الألبانی)

یہ دس نصیحتیں بچوں اور بڑوں سب کیلئے انمول موتی ہیں ۔لہٰذا سب کو ان پر عمل کرنا چاہئے اور خصوصا بچوں کو تو یہ باتیں خوب یاد کرانی چاہئیں ۔

اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

حَرِّضْ بَنِیْکَ عَلَی الْآدَابِ فِیْ الصِّغَرِ کَیْمَا تَقِرَّ بِہِمْ عَیْنَاکَ فِیْ الْکِبَرِ

وَإِنَّمَا مَثَلُ الْآدَابِ تَجْمَعُہَا فِیْ عُنْفُوَانِ الصَّبَا کَالنَّقْشِ فِیْ الْحَجَرِ

’’ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی ادب سکھلاؤ تاکہ بڑے ہو کر وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں ۔ اور بچپن میں ادب سکھانا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش ہو ۔ ‘‘

اولاد پر شفقت

ماں باپ کو اپنے بچوں پر شفقت اور ان سے پیار کرنا چاہئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا تو ایک صحابی (حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ )نے کہا : میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے تو آج تک ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا اور فرمایا :

(( مَن لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ )) ’’ جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ۔ ‘‘ (صحیح البخاری :5997،وصحیح مسلم : 2318)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ کچھ دیہاتی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:ہاں۔ تو وہ کہنے لگے:اللہ کی قسم! ہم اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَوَ أَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللّٰہُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ )) (صحیح البخاری :5998،صحیح مسلم:2317)

’’ اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں سے رحمت کو کھینچ لیا ہے تو میں کیا کروں ؟ ‘‘

اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ اس دوران حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے ۔ انھوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور ان کے پیر پھسل رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو منبر سے نیچے اترے ۔ انھیں اٹھایا اور پھر منبر پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے : سچ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ﴿ إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ ﴾ یعنی ’’ تمھارے مال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں۔ ‘‘ میں نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو صبر نہ کر سکا ۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ جاری رکھا۔ (سنن أبی داؤد :1109، صحیح الجامع للألبانی :3757)

ان تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ اولاد کے ساتھ محبت وپیار کا اظہار کرکے انھیں اپنائیت کا احساس دلانا چاہئے اور ان سے نفرت کرنے کی بجائے شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہئے ۔

بچوں کو ان کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہئے

بچے خواہ چھوٹے کیوں نہ ہوں انھیں ان کا حق ملنا چاہئے ۔ اور انھیں چھوٹا سمجھ کر ان کے حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہئے ۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مشروب پیش کیا گیا ۔ آپ اس سے پی کر فارغ ہوئے تو ابھی مشروب بچا ہوا تھا ۔ آپ نے دیکھا کہ ان کی دائیں جانب ایک بچہ بیٹھا ہوا ہے اور بائیں جانب کچھ عمر رسیدہ لوگ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

(( أَتَأْذَنُ لِیْ أَنْ أُعْطِیَ ہٰؤُلَائِ ؟ ))

’’ کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ مشروب پہلے ان بڑوں کو پیش کروں ؟‘‘

بچہ کہنے لگا : (( وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! لَا أُوْثِرُ بِنَصِیْبِیْ مِنْکَ أَحَدًا)) (صحیح البخاری:5620، صحیح مسلم :2030)

اے اللہ کے رسول ! میں اپنے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

اولاد کو جائز کھیل کود کا موقعہ دینا چاہئے

اولاد کو خصوصا چھوٹے بچوں کو ہنسنے اور کھیلنے کودنے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں تاکہ ان کی ذہنی نشو و نما ہو سکے لیکن شرط یہ ہے کہ کھیل کود اور ہنسی مذاق حدودِ شریعت کے اندر ہوں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔ اور میرا ایک بھائی تھا جو ابھی سنِ شعور کو نہیں پہنچا تھا اور ایک چھوٹے سے پرندے کے ساتھ کھیلا کرتا تھا ۔ وہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتا تو آپ اس سے ( از راہِ مزاح ) کہا کرتے تھے :

(( یَا أَبَا عُمَیْر ! مَا فَعَلَ النُّغَیْر ؟ )) (صحیح البخاری:6129 ،صحیح مسلم :2150 )

’’ اے ابو عمیر ! وہ چھوٹے بلبل کا کیا بنا ؟‘‘

برادرانِ یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہا تھا :

﴿ أَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ﴾ (یوسف12:12)

’’ اسے کل ہمارے ساتھ بھیجیں تاکہ یہ خوب کھائے پئے اور کھیلے کودے ۔اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جائز کھیل کود اور تفریح پر کوئی پابندی نہیں ۔ اسی لئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے کھیل کود کی حد تک کوئی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ محض اتنا کہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کھیل کود میں مشغول ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے !

تربیتِ اولاد کیلئے اہم امور

تربیتِ اولاد کیلئے چند امور انتہائی ضروری ہیں اور وہ یہ ہیں :

01.اولاد کی تربیت کیلئے پہلا اہم امر یہ ہے کہ اولاد کو کلمہ طیبہ زبانی یاد کرایا جائے اور اس کا مفہوم اس کے ذہنوں میں اچھی طرح سے بٹھایا جائے۔

کلمہ طیبہ : لَا إِلٰہَ إلِاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا مفہوم ہے :

’’ اللہ تعالیٰ کے سوا اورکوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ ‘‘

کلمۂ توحید وہ کلمہ ہے جس کی طرف تمام انبیاء ورسل علیہم السلام دعوت دیتے رہے۔اوراس کے دو جز ہیں : (لا إلٰہ) اور (إلا اﷲ) پہلے جزو میں تمام معبودانِ باطلہ کی نفی ہے اور دوسرے جزو میں صرف اﷲ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے کا اثبات ہے۔گویا اس کلمے کا مفہوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا تمام معبودانِ باطلہ کا انکار کیا جائے اور صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کو تمام عبادات کا مستحق گردانا جائے۔ یہ مفہوم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے:

﴿وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ﴾ (البقرۃ2 :163)

’’ اور تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ ‘‘

پہلے جملے میں صرف ایک معبود کا اثبات ہے اور دوسرے جملے میں اﷲ تعالیٰ کے سوا باقی تمام معبودانِ باطلہ کی نفی کردی گئی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں معبود تو کئی ہوسکتے ہیں لیکن پوری کائنات کا معبودِ برحق صرف اﷲ تعالیٰ ہے ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول تسلیم کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ۔ ان کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ۔لہٰذا آپ کے بعد جس نے بھی نبوت کا دعوی کیا یا جو کرے گا وہ دجال اور کذاب ہے ۔

اس کلمہ پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہوئے آپ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے اور اسے اپنی زندگیوں میں ڈھالا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے انھیں کیا جائے اور جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان سے پرہیز کیا جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے جن امور کے واقع ہونے کی خبر دی ہے اور اسی طرح قبر اوریومِ آخرت کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا ہے ان سب کی تصدیق کی جائے ۔

02.اولاد کو بچپن ہی سے اسلام اور ارکانِ اسلام، اسی طرح ایمان اورارکانِ ایمان کے بارے میں تعلیم دی جائے اور انھیں یہ بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے ؟

اسلام کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک تصور کرتے ہوئے ، اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اور شرک سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے جھکا دینا ۔

اسی طرح بچوں کو ارکانِ ایمان کے متعلق یہ حدیث زبانی یاد کرائی جائے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰہَ إلِاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ،وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ،وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ بَیْتِ اللّٰہِ ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ)) (متفق علیہ)

’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا ، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔ ‘‘

پھر ایک ایک رکن بچوں کو الگ الگ یاد کرایا جائے :

پہلا رکن : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔

دوسرا رکن : نماز قائم کرنا ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلاَۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا﴾ (طہ20:132)

’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اسے پابندی سے ادا کرتے رہو۔ ‘‘

تیسرا رکن : زکاۃ ادا کرنا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ وَآتُواْ الزَّکَاۃَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ (البقرۃ2 :43)

’’اور نماز قائم کرو ، زکاۃ دو اورر کوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔ ‘‘

چوتھا رکن : رمضان کے روزے رکھنا ۔ ارشاد باری ہے :

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ2 :    183)

’’اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم تقوی اختیار کرو ۔ ‘‘

پانچواں رکن : حج بیت اللہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْْہِ سَبِیْلاً ﴾ (آل عمران3 :97)

’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اس گھر کا حج فرض کردیا ہے جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘

اسی طرح بچوں کو بتایا جائے کہ ایمان کیا ہے ؟

ایمان : دل کی تصدیق ، زبان کے اقرار اور اعضاء کے عمل کا نام ہے۔

پھر اس کے ار کان کے بارے میں بھی بچوں کو آگاہ کیا جائے جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:(( أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ،وَمَلَائِکَتِہٖ،وَکُتُبِہٖ،وَرُسُلِہٖ،وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ )) (صحیح مسلم :8)

’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ایمان لائے ، اس کے فرشتوں پر ایمان لائے ، اس کی کتابوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اس بات پر ایمان لائے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ‘‘

اس کے بعد ایک ایک رکن کے بارے میں انھیں آگاہ کیا جائے کہ

01.اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے اللہ کے وجود کو تسلیم کرنا اور اس بات پر پختہ یقین رکھنا کہ اللہ ہی ہمارا پروردگار اور خالق ومالک ہے اور وہی تمام تر عبادات کا مستحق ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِن دُونِہِ الْبَاطِلُ ﴾ (لقمان31 :30)

’’یہ ( نشانیاں اس لئے ہیں کہ تاکہ تم جان لو کہ ) اللہ تعالیٰ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جتنے معبودوں کو یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں ۔‘‘

02.فرشتوں پر ایمان لانے کا مفہوم ہے ان کے وجود کو ماننا اور اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ فرشتے اللہ کی نورانی اور غیبی مخلوق ہیں جو دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے احکام کو بجا لاتے ہیں۔ اور ان کی تعداد کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَہُ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ ٭ یُسَبِّحُونَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُونَ ﴾ (الأنبیاء21 :20-19)

’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔ اور جو ( فرشتے ) اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں ۔وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔‘‘

03.کتابوں پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ جن کتابوں کو اللہ نے آسمان سے اپنے انبیاء علیہم السلام پر اتارا انھیں برحق تسلیم کیا جائے اور ان کے ان احکام پر عمل کیا جائے جو منسوخ نہیں کئے گئے ۔

04.رسولوں پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ جن برگزیدہ شخصیات کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا اور ان پر وحی نازل کرکے انھیں دین اسلام کی تبلیغ کا حکم دیا ان کی نبوت ورسالت کو برحق تسلیم کیا جائے ۔ اور اس بات کا اقرار کیا جائے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اللہ کے بندے اور انسانوں میں سے انسان تھے۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کیا جائے جنھیں قیامت تک کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾ (النساء4:65)

’’ قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے یہ اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ ‘‘

05.روزِ قیامت پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس بات پر پختہ یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد قیامت کے روز زندہ ہونا ہے اور حساب وکتاب کیلئے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔اور قیامت کے روز دو ہی ٹھکانے ہوں گے: یا جنت یا جہنم ۔ مومنوں کیلئے جنت اور کافروں کیلئے جہنم ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ﴾ (التغابن64:7)

’’کافروں کا خیال ہے کہ انھیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ۔ آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور دوبارہ اٹھایا جائے گا ۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تمھیں یقینا خبردار کیا جائے گا اور یہ کام اللہ پر بالکل آسان ہے ۔ ‘‘

06.تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس بات کا اقرار کرنا کہ کائنات کی ہرچیز چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس کا علم اللہ کے پاس ہے ۔ ہر ہر کام لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ اور دنیا بھر میں کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَکُلَّ شَیْئٍ أَحْصَیْنَاہُ فِیْ إِمَامٍ مُّبِیْنٍ ﴾ (یس36:12)

’’اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔ ‘‘

03.والدین کو اولاد سے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تاکہ انھیں جھوٹ بولنے کی عادت نہ پڑے

حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے ، اس دوران میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا:میں تجھے کچھ دونگی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ماں سے پوچھا : تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا ؟ ماں نے کہا : میں نے اسے کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تُعْطِیْہِ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکَ کِذْبَۃً )) (یس36:12)

’’ خبردار ! اگر تو اسے کچھ نہ دیتی تو یہ تجھ پر جھوٹ لکھ دیا جاتا ۔ ‘‘

لہٰذا اولاد کے ساتھ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے اور اسے بھی سچ ہی بولنے کی تلقین کرنی چاہئے۔ اور اولاد کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ جھوٹ بولنا منافقوں کی نشانی ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَان )) (متفق علیہ)

’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں : وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا اور جب اسے کوئی امانت دی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے ۔ ‘‘

04.اولاد کو کھانے پینے کے آداب سے روشناس کرانا چاہئے ۔ چنانچہ اولاد کو سمجھایا جائے کہ بسم اللہ پڑھ کر دائیں ہاتھ سے کھائیں پیئیں اور آخر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔

حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور ایک دن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا ہوا تھا اور کھانے کے دوران میرا ہاتھ پلیٹ میں اِدھر اُدھر جا رہا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( یَا غُلَامُ ! سَمِّ اللّٰہَ ، وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ ، وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ )) (صحیح البخاری:5376 وصحیح مسلم :2022)

’’ اے بچے ! بسم اللہ پڑھو ، دائیں ہاتھ کے ساتھ کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ ‘‘حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے مطابق ہی کھاتا رہا ۔

05.اولاد میں عدل وانصاف کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ہر ایک کو ایک جیسی چیزیں لیکر دی جائیں ، ایسا نہیں کہ کسی کو تو اچھی چیزلیکر دیں اور کسی کو اس سے کم تر ۔ اور نہ ہی ایسا کہ کسی کو تو لیکر دیں اور کسی کو محروم کردیں ۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کچھ مال دینا چاہا تو میری والدہ نے کہا : جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہیں بناتے میں اس بات کو پسند نہیں کرتی ۔ چنانچہ میرے والد مجھے اپنے ساتھ لیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تم اپنی پوری اولاد کو اسی طرح مال دینا چاہتے ہو یا صرف اسے ہی دے رہے ہو ؟ تو میرے والد نے کہا : صرف اسے ہی دینا چاہتا ہوں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا فِیْ أَوْلَادِکُمْ ))

’’ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل وانصاف کرو ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنِّیْ لَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ )) ’’ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا ۔ ‘‘ (صحیح البخاری :2650،صحیح مسلم :1623)

06.اولاد کو گالی گلوچ ، فحش گوئی اور بے ہودہ گفتگو کرنے سے منع کرنا چاہئے۔

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( مِنَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ، یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ )) (متفق علیہ)

’’ اپنے والدین کو گالیاں دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ اِس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے اور وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اِس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔‘‘

گویا کسی کے ماں باپ کو گالیاں دینا اپنے ماں باپ کو گالیاں دینے کے مترادف ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے ۔

07.باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ماں کی فرمانبرداری کرنے اور اس سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرے۔اسی طرح ماں اپنی اولاد کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھائے کہ وہ اپنے باپ کی فرمانبرداری اور اس کا احترام کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے ۔ ہم اس سے پہلے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے ضمن میں یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے خصوصا والدہ سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔اس کے علاوہ اور کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے اس حق کی تاکید کی ہے اور والدین کو جھڑکنے بلکہ ان کے سامنے اف تک کرنے سے منع فرمایا ہے ۔

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی احادیث میں اطاعتِ والدین اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے ۔لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو والدین کی اطاعت کے بارے میں وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں ۔

08.اولاد کو صفائی کا خیال رکھنے کی تلقین کریں اور انھیں اس بات کی تعلیم دیں کہ وہ اپنا جسم ، اپنا لباس اور اپنا گھر صاف ستھرا رکھیں ۔کھانے سے پہلے اور اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو دھوئیں۔

09.والدین جہاں بچوں کی دنیاوی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں وہاں ان پر لازم ہے کہ وہ ان کی دینی تعلیم کا بھی اہتمام کریں بلکہ دنیاوی تعلیم کی نسبت دینی تعلیم کی اہمیت زیادہ ہے۔ کیونکہ دینی تعلیم سے آراستہ ہو کر اولاد اپنے والدین کیلئے دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی نفع بخش ہوگی اور اخروی نفع ہی زیادہ ہمارے مدِ نظر رہنا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بچوں کو قرآن مجید پڑھانا چاہئے ۔ اگر بچے پورا قرآن مجید حفظ کرلیں تو یہ تو بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ والدین کو قیامت کے روز انہی بچوں کی وجہ سے تاج پہنا یا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اور اگر بچے پورا قرآن مجید حفظ نہ کرسکیں تو کم از کم آخری پارہ ضرور یاد کروانا چاہئے۔ اس کے علاوہ بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث بھی یاد کروائی جائیں، انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بھی پڑھائی جائے اور اسلامی عقیدہ کی اہم معلومات اور دینی آداب وغیرہ سے بچوں کو آراستہ کیا جائے ۔

10.والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی بچیو ں کو بچپن ہی سے پردہ کرنے کی تعلیم دیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنیٰ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ﴾ (الأحزاب 33:59)

’’ اے نبی ! اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی ۔پھر انھیں ستایا نہیں جائے گا ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی صاحبزادیوں سمیت تمام خواتینِ اسلام کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک بڑی چادر کے ذریعے سر سے لیکر پاؤں تک مکمل پردہ کیا کریں ۔پھر اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اس سے ان کی پہچان ہو جائے گی کہ یہ شریف گھرانوں کی باعزت اور باحیا خواتین ہیں۔ اس لئے کوئی شخص انھیں ستانے کی جرأت نہیں کر سکے گا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ پردہ کرنا شرافت اور حیا کی علامت ہے اور اس کے برعکس بے پردگی بے حیائی کی علامت ہے !

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی اولاد کو نیک ، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! تربیت اولاد کی اہمیت وضرورت اور تربیت اولاد کیلئے چند ضروری امور جن پر ہم نے پہلے خطبہ میں گفتگو کی ہے ان کے ساتھ ساتھ چند اور ضروری امور کو بھی بچوں کی تربیت میں مد نظر رکھنا چاہئے :

11.اولاد کو فارغ اوقات میں فلم بینی اور فضول ڈائجسٹ پڑھنے سے منع کرنا چاہئے کہ جس میں سوائے جھوٹ کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ اس سے اخلاق وکردار کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بچے ضائع ہو جاتے ہیں۔ فارغ اوقات کو ان فضول چیزوں میں ضائع کرنے کی بجائے بچوں کو ترجمہ وتفسیرِ قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کے واقعات کا مطالعہ کرنے کی طرف ترغیب دلانی چاہئے اور انھیں ان موضوعات پر مفید کتب مہیا کرنی چاہئیں تاکہ وہ انہی سے استفادہ کریں ۔

12.اولاد کو بری صحبت سے بچانا از حد ضروری ہے کیونکہ زیادہ تر بچے بری صحبت سے ہی بگڑتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالسُّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ،فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُّحْذِیَکَ،وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ،وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً، وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّا أَنْ یُحَرِّقَ ثِیَابَکَ،وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًا خَبِیْثَۃً )) (صحیح البخاری،کتاب الذبائح والصید باب المسک :5534)

’’ اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری اٹھانے والے انسان اور بھٹی میں پھونکنے والے انسان کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا انسان یا تو آپ کو عطر ہدیۃً دے گا یا آپ اس سے خریدیں گے یا کم از کم آپ کو اس سے اچھی خوشبو ضرور آئے گی۔ اور بھٹی میں پھونکنے والا انسان یا آپ کے کپڑے جلا ڈالے گا یا کم از کم آپ کو اس سے بد بو ضرور آئے گی ۔ ‘‘

13.اولاد کو گانے سننے سے روکنا بھی بے حد ضروری امر ہے کیونکہ گانے سننے سے دل مردہ ہوجاتے ہیں اور اخلاق وعادات میں بگاڑ آ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِیْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ )) (صحیح البخاری : کتاب الأشربۃ باب ما جاء فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ)

’’ میری امت میں ایسے لوگ ضرور آئیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا لباس ، شراب نوشی اور موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے ۔ ‘‘

ان چار چیزوں کو حلال سمجھنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ حقیقت میں توحلال نہیں ہیں لیکن لوگ انھیں حلال تصور کر لیں گے ،اس سے ثابت ہوا کہ یہ حرام ہیں ۔ اور موسیقی کس قدر بری چیز ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زنا کاری اور شراب نوشی جیسے بڑے ہی بھیانک گناہوں کے ساتھ ذکر کیا ہے !

گانوں کی بجائے بچوں کو تلاوتِ قرآنِ مجید کرنے یا تلاوت سننے کی ترغیب دلانی چاہئے کہ اسی سے

درحقیقت سکون نصیب ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد13 : 28)

’’ خبر دار ! اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے ۔ ‘‘

14. اولاد کی اصلاح کیلئے عملی جد وجہد کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بڑی ہی اہم ہے اور وہ ہے ان کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ذکر کی ہے کہ وہ یوں دعا کرتے ہیں:﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا﴾ (الفرقان25 :74)

’’ اے ہمارے رب ! تو ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔ ‘‘یعنی ہمارے زیر کفالت افراد کو متقی بنا ۔

خصوصا وہ والدین جن کی اولاد بگڑ چکی ہو انھیں تو ضرور بالضرور اولاد کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ سے بار بار دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ ہدایت دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور اولاد کے حق میں والد کی دعا ان دعاؤں میں سے ہے جنھیں رد نہیں کیا جاتا اور انھیں یقینا قبول کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ یُسْتَجَابُ لَہُنَّ لَا شَکَّ فِیْہِنَّ:دَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ،وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَۃُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہٖ )) (صحیح الجامع للألبانی :3033)

’’ تین دعاؤں کو بلا شک قبول کیا جاتا ہے : مظلوم کی دعا ، مسافر کی دعا اور اولاد کے حق میں والد کی دعا ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی اولاد کو نیک وصالح بنائے اور انھیں دنیا وآخرت میں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ۔