تزکیہ نفس

==============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى  [الأعلى : 14]

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔

یہ سورہ اعلی کی 14 نمبر آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ کامیابی کے لیے ایک اھم چیز تزکیۃ النفس کی طرف رہنمائی کررہے ہیں

چونکہ اس سے پچھلی آیات میں جہنم کی بہت ہی خوفناک منظر کشی کی گئی ہے جوکہ دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے

جیسا کہ فرمایا

الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى [الأعلى : 12]

وہ جو سب سے بڑی آگ میں داخل ہو گا۔

ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى  [الأعلى : 13]

پھر وہ نہ اس میں مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔

ایسی خوفناک جہنم کے بندہ آگ میں جل رہا ہے سخت تکلیف میں مبتلا ہے اور اس پر مزید یہ کہ اسے موت بھی نہیں آ رہی کہ مر ہی جائے تو کم از کم جلنے کا احساس تو ختم ہو

اور پھر اس سزا میں کوئی وقفہ نہیں نہ ہی کوئی ہفتہ وار یا ماہانہ یا سالانہ چھٹی ہے

خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ  [آل عمران : 88]

ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے۔

اس لیے ضروری تھا کہ اس خوفناک جہنم سے بچنے کی کوئی تدبیر سجھائی جائے تاکہ بندے مارے خوف کے مایوس ہونے کی بجائے اپنی کامیابی کی راہ تلاش کریں

چناچہ نے فرمایا

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [الأعلى : 14]

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔

تزکیہ کا معنی

یہ باب زَكِّى يُزَكِّي (تفعيل) سے مصدر ہے جس کا معنی ہے "پاک کرنا” مطلب یہ کہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنا

جیسا کہ فرمایا

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا  [الشمس : 9]

 یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اسے پاک کرلیا۔

وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا [الشمس : 10]

اور یقینا وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔

اور باب تزكى يتزكى (تفعل) سے اس کا معنی ہے پاک ہونا مطلب یہ کہ گناہوں سے پاک ہو کر، بچ کر رہنا

جیسا کہ اس آیت میں ہے

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [الأعلى : 14]

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔

تزکیہ نفس کا پہلا طریقہ

اپنے نفس کو گناہوں سے بچا کر رکھنا

عثمان رضی اللہ عنہ کے گناہوں سے پاک صاف رہنے کا مثالی کردار

جناب ابوامامہ بن سہل بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا عثمان ؓ کے ہاں گئے جبکہ وہ اپنے گھر میں محصور تھے ۔ گھر میں ایک ایسی جگہ تھی کہ جو وہاں داخل ہوتا مقام بلاط پر بیٹھے لوگوں کی باتیں سن سکتا تھا ۔ چنانچہ سیدنا عثمان ؓ اس جگہ میں گئے اور پھر ہمارے پاس واپس آئے تو ان کا رنگ اڑا ہوا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ( بلوائی ) اب مجھے قتل کے دینے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں ۔

ہم نے کہا : امیر المؤمنین ! اللہ عزوجل ان کی جانب سے آپ کی کفایت کرے گا ۔

انہوں نے کہا : یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں ؟

میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ” کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ، سوائے اس کے کہ اس سے تین باتوں میں سے کوئی ایک صادر ہو : اسلام کے بعد کفر ‘ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا ‘ یا قصاص کے بغیر کسی کو قتل کر دینا ۔ “

فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي (أبو داؤد، كِتَابُ الدِّيَاتِ،بَابُ الْإِمَامِ يَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِي الدَّمِ،4502 صحیح)

اور اللہ کی قسم ! میں نے کبھی زنا نہیں کیا ‘ جاہلیت میں نہ اسلام لانے کے بعد ۔ اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا اس ( اسلام ) کے بدلے کوئی اور دین ہوتا ‘ اور میں نے کسی کو قتل بھی نہیں کیا ہے ‘ تو پھر یہ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں ؟

سبحان اللہ عثمان رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ان کے روشن کردار کی کس قدر ترجمانی کررہے ہیں کہ

فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ

وہ زمانہ جاہلیت کہ جب عورت منڈی کے مال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی

اور ایک عورت اچھا بچہ جننے کے لیے دس دس آدمیوں کے پاس جانے کی مجاز ہوتی تھی

اور لوگ اپنی بدکاری کی داستانیں فخریہ طور پر شعری انداز میں بیان کیا کرتے تھے

اور حد یہ تھی کہ رب تعالیٰ کے مقدس ترین گھر کعبۃ اللہ کا طواف بھی ننگے ہو کرکرنے میں حرج محسوس نہیں کی جاتی تھی

ایسے حالات میں ایک خوبصورت نوجوان کا بدکاری کی غلاظت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا تزکیۃ النفس کی معراج ہے

زمانہ جاہلیت سے ہی شراب ترک کر رکھی تھی

امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں :

عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ

سیدنا عثمان ؓ اور سیدنا ابوبکر ؓ نے دور جاہلیت ہی سے شراب چھوڑ دی تھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت و عصمت

اور یہی زمانہ جاہلیت تھا ہرطرف فحش منہ کھولے برائی کی طرف مائل کررہی تھی

مگر ایک خوبصورت اور کمال جسمانی قوت کا مالک جوان جو اپنی جوانی کے عروج سے گزر رہا تھا ایسا پاکباز اور پارسا کہ عرب کی کنواری لڑکیاں بھی اس سے حیاء کا درس لیتی تھیں

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنْ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا (بخاری ،كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ،3562)

پردہ نشیں کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے –

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ( زمانہ جاہلیت میں ) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو ( تاکہ پتھر اٹھا نے میں تکلیف نہ ہو ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بے ہوش ہو کر آپ زمین پر گرپڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔

(بخاری، كِتَابُ الحَجِّ، بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا،1582)

یوسف علیہ السلام اور تزکیہ نفس

اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو بے مثال حسن سے نوازا تھا۔

حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

[ وَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ ] [ مسلم، الإیمان، باب الإسراء … :۱۶۲]

’’انھیں حسن کا شطر عطا کیا گیا تھا۔‘‘

ہوا یہ کہ یوسف علیہ السلام کو حاکم وقت کی بیوی بند کمروں میں تنہائی میں جا کر برائی کی دعوت دینے لگی

اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟

(تفسير القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

لیکن ان سب کے باوجود یوسف علیہ السلام نے کتنی شاندار بات کہی

فرمایا

مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔

مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کا تزکیہ نفس

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد ( رضی اللہ عنھما ) کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔

کہنے لگی : ’’مرثد ہو؟‘‘

میں نے کہا : ’’مرثد ہوں۔‘‘

کہنے لگی : ’’مرحباً و اھلاً، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔‘‘

میں نے کہا : ’’عناق! اللہ نے زنا حرام کر دیا ہے۔‘‘

اس نے آواز دی، خیموں والو! یہ وہ آدمی ہے جو تمھارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔

چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہو گیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کر دیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے

[ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النور : ۳۱۷۷۔ نسائي : ۳۲۳۰۔ أبوداوٗد : ۲۰۵۱۔ مستدرک حاکم : 166/2، ح : ۲۷۰۱، و قال الألباني حسن الأسناد ]

دیکھیں برائی پر تمام تر قدرت رکھنے اور موقع میسر ہونے کے باوجود مرثد رضی اللہ عنہ نے کس طرح اپنی پاکدامنی خیال کیا

یہ ہوتا ہے تزکیہ نفس اور یہ ہے کامیابی کا راستہ

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [الأعلى : 14]

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے مقاصد میں سے ایک مقصد امت کا تزکیہ کرنا بھی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ [آل عمران : 164]

بلاشبہ یقینا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔

وَيُزَكِّيهِمْ کا مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو پاک کرتے ہیں

گناہوں سے، رب تعالیٰ کی معصیت سے، چوری ڈکیتی سے، جھوٹ فریب سے، ظلم زیادتی سے، فحش و بدکاری سے، کبائر اور منکرات سے

ایک طالب علم کا تزکیہ نفس اور اس کا انعام

ایک طالب علم کو جب قبر میں دفن کیا گیا تو اسکی قبر سے خوشبو آرہی تھی ۔اس طالب علم کے استاد میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس طالب علم کا ایسا کونسا عمل تھا؟

تو انہوں نے بتایا کہ یہ طالب علم دوسرے طلبہ کی طرح کسی کے گھر سے کھانا لینے جایا کرتا تھا۔اس گھر کی ایک لڑکی کے دل میں فتور پیدا ہوگیا۔ایک روز اسکے گھر والے کسی کی تعزیت پر گئے ہوئے تھے اور لڑکی گھر پر اکیلی تھی ۔جب یہ طالب علم حسب معمول انکے گھر کھانا لینے گیا تو لڑکی نے اندر بلالیا اور باہر کا دروازہ بند کرلیا۔

لڑکی نے دعوت گناہ دی اور کہا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تم پر تہمت لگا دوں گی۔لڑکے نے کہا*:مجھے قضائے حاجت کرنا ہے۔لڑکی نے چھت کی طرف اسے بھیج دیا۔اس نے بیت الخلاء سے فضلہ اٹھا کر اپنے جسم پر مل لیا۔وہ واپس آیا تو لڑکی نے شدید نفرت کا اظہار کیا اور فورا اسے گھر سے نکال دیا۔شدید سردی کا موسم تھا۔طالب علم نے مسجد میں آکر غسل کیا۔سردی سے کانپتے ہوئے اس نے مسجد میں ہی نماز تہجد پڑھی۔طالب علم سے اصل وجہ پوچھی تو ڈرتے ڈرتے تمام واقعہ سنایا۔اس طالب علم نے گناہ سے بچنے کیلئے اپنے جسم کو آلودہ کرلیا۔کچھ بعید نہیں کہ اللہ کو اسکا یہ عمل پسند آگیا ہو۔

(ماخوذ ”قبر کا بیان”از مولنا محمد اقبال کیلانی)

تزکیہ نفس کا دوسرا طریقہ

اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے نیک کام کرنا

عظیم ثقہ تابعی امام نافع مولی ابن عمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” أن ابن عمر، كان إذا فاتته صلاة العشاء في جماعة أحيى ليلته ” [كتاب المعجم لأبي يعلى الموصلي:١٨ بتحقيق المحدث إرشاد الحق الأثري ووثقه رجاله، حلية الأولياء لأبي نعيم:١/ ٣٠٣]

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جب عشاء کی نماز؛ جماعت سے رہ جاتی تو بقیہ ساری رات بیدار رہ کر عبادت میں گزارتے تھے۔

ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا ] [ مسند أحمد : 153/5، ح : ۲۱۴۱۲۔ ترمذی : ۱۹۸۷۔ صحیح الجامع : ۹۷، وحسنہ الألبانی ]

’’برائی کے بعد ساتھ ہی نیکی کر تو یہ اسے مٹا دے گی۔‘‘

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ [المؤمنون : 4]

اور وہی جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ

اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ جو اوپر بیان ہوا ہے

اور دوسرا ترجمہ یہ ہے :”اور وہی جو پاک ہونے کے لیے (نیک اعمال) کرتے ہیں”

یعنی تزکیہ نفس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہرممکن صورت تک گناہ سے بچا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ ہوجائے تو پھر اس کی معافی تلافی کے لیے اس کے متبادل کوئی نیکی یا کئی نیکیاں کی جائیں

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ [القصص : 54]

یہ لوگ ہیں جنھیں ان کا اجر دوہرا دیا جائے گا، اس کے بدلے کہ انھوں نے صبر کیا اور وہ بھلائی کے ساتھ برائی کو ہٹاتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہو جائے تو بعد میں نیک اعمال کر کے اس کا اثر ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں

جیسا کہ فرمایا :

« وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ » [ ھود : ۱۱۴ ]

’’اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘

اپنے گناہ سے پاک ہونے کے لیے لونڈی آزاد کردی

(معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے )کہا :میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی ‘ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں‘مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا)لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط)حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا:

«ائْتِنِي بِهَا»

’’اسے میرےپاس لے آؤ۔‘‘

میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا

آپ نےاس سے پوچھا:

«أَيْنَ اللهُ؟»

’’اللہ کہا ں ہے؟ ‘‘

اس نےکہا : آسمان میں۔

آپ نےپوچھا : «مَنْ أَنَا؟» ’’میں کون ہوں؟‘‘

اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں ۔

تو آپ نے فرمایا:«أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے

(مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ،1199)

نماز روزہ اور صدقہ کے ذریعے گناہوں کی معافی تلافی

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا

فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ (بخاری ،باب الصدقة تكفر الخطيئة، 1368)

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ [هود : 114]

اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہ یاد کرنے والوں کے لیے یاد دہانی ہے۔

اور جیسے اس آیت میں ہے

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى  [الليل : 17]

اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔

الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى [الليل : 18]

جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آنحضور نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔

أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ

کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ

کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا۔ یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد

(بخاری، كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ بَابُ إِذَا أَقَرَّ بِالحَدِّ وَلَمْ يُبَيِّنْ هَلْ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْتُرَ عَلَيْهِ6823)

ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ اور تزکیہ نفس

حضرت ماعز اسلمی صحابی مرتبہ میں اولیاءاللہ سے بھی بڑھ کر تھے۔ ان کا صبر واستقلال قابل صد تعریف ہے کہ اپنی خوشی سے زنا کی سزا قبول کی، سخت تکلیف برداشت کی اور جان دینی گوارا کی مگر آخرت کا عذاب پسند نہ کیا

مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑ لیا لیکن پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگئے ( اور زنا کا اقرار کیا ) پھر انہوں نے اپنے اوپر چار مرتبہ شہادت دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ، تم پاگل تو نہیں ہو ، کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، پھر آپ نے پوچھا کیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ہو چکی ہے

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید گاہ پر رجم کرنے کا حکم دیا ۔

(بخاری، كِتَابُ الطَّلاَقِبَابُ الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ وَالكُرْهِ، وَالسَّكْرَانِ وَالمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالغَلَطِ وَالنِّسْيَانِ فِي الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَيْرِهِ،5270)

عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک غلطی سے پاک ہونے کے لیے بہت سی نیکیاں کیں

صحیح بخاری کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ جب صلح حدیبیہ طے ہو چکی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے کہا، کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’تو ایسے میں ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یقینا میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ میں نے کہا : ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کیا میں نے تمھیں یہ بتایا تھا کہ ہم اسی سال اس میں جائیں گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یقینا اس میں جانے والے اور اس کا طواف کرنے والے ہو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، میں نے کہا : ’’اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’تو پھر ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’اے (اللہ کے) بندے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘ میں نے کہا: ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں جاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو تم یقینا اس میں جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ زہری کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :

فَعَمِلْتُ لِذٰلِكَ أَعْمَالاً [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد… : ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ]

’’پھر میں نے اس (جلد بازی کے کفارے) کے لیے کئی اعمال کیے۔‘‘

تزکیہ نفس کا تیسرا طریقہ

اپنے آپ کو گناہ کی تہمت سے بچانا

علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ( اعتکاف میں ) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اورجلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔

لیکن آپ نے فرمایا

تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ

ٹھہرو ! ادھر سنو ! یہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہیں ( جو میری بیوی ہیں )

ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

آپ نے فرمایا

إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُلْقِيَ فِي أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا (كِتَابُ الِاعْتِكَافِ،بَابُ زِيَارَةِ المَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي اعْتِكَافِهِ،2038)

کہ شیطان ( انسان کے جسم میں ) خون کی طرح دوڑتا ہے اورمجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی بات نہ ڈال دے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے تہمت سے بچنے کے لیے اشرفیاں سمندر میں پھینک دیں

امام بخاری رحمہ اللہ کے حالات زندگی میں مشہور واقعہ ہے کہ جب آپ بچپن میں حصول علم کے لیے سفر کررہے تھے آپ کے پاس کچھ سونے چاندی کی اشرفیاں تھیں باتوں باتوں میں آپ کے پاس بیٹھے کسی شخص کو پتہ چل گیا کہ اس لڑکے کے پاس اتنے پیسے ہیں اس کے دل میں امام صاحب کی اشرفیاں ہتھیانے کا منصوبہ بن گیا تو اس نے شور مچا دیا کہ میری اتنی رقم گم ہو گئی ہے (اس نے بالکل اتنی ہی رقم گم ہونے کا دعویٰ کیا جتنی امام صاحب کے پاس تھی)

جہاز کے مسافروں کی سرچنگ شروع ہو گئی

امام صاحب نے جب یہ سارا معاملہ دیکھا تو چپکے سے اپنی اشرفیاں سمندر میں پھینک دیں

بعد میں سرچنگ وغیرہ کے عمل سے فارغ ہو کر اس آدمی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے پاس جو اشرفیاں تھیں وہ کہاں گئیں تو آپ نے فرمایا اگرچہ وہ میری ہی تھیں اور میں نے چوری نہیں کی تھیں مگر مجھے خدشہ تھا کہ جب دوران سرچنگ یہ میری جیب سے نکلیں گیں تو پھر میرے لیے اپنی صفائی پیش کرنا مشکل ہو جائے گی اور خوامخواہ اپنی سفید چادر پر گناہ تو نہیں البتہ گناہ کی تہمت کا داغ لگ جائے گا

بکریوں کا چرواہا نفس کا تزکیہ کرتا ہے

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا

اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو

اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے ❓

اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے

اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں

اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے

چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا

فأين الله ؟؟؟

تو پھر اللہ کہاں ہے

(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)

اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے

فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟

اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے

پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں

[ صفة الصفوة (١٨٨/٢)

شعب الإيمان للبیھقی 5291

مختصر العلو للألباني

وسندہ حسن ]

نفس کا تزکیہ کرنا ہے نفس کو ذلیل نہیں کرنا

بعض لوگوں نے تزکیہ نفس کے خود ساختہ غیر شرعی طریقے ایجاد کر رکھے ہیں کہ جن پر چل کر وہ سمجھتے ہیں شاید ہم بہت بڑے زکی بن گئے ہیں

اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حرام کر لینا

کوئی اچھا کھانا نہیں کھاتے

پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے

سالہا سال نہاتے نہیں ہیں

ترک حیوانات جمالی و جلالی کے پراسس سے گزرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ جانور کا گوشت کھانا ہے اور نہ ہی جانور سے نکلی ہوئی کوئی چیز استعمال کرنی ہے یعنی نہ گوشت، نہ چربی، نہ دودھ، نہ دھی، نہ لسی اچھا پھر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ مسلسل تری والی چیزیں ترک کئے رکھنے سے دماغ پر خشکی چڑھ جاتی پھر وہ صاحب اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے تو لوگ کہتے جی واہ کیا پہنچی ہوئی سرکار ہے جی

جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ

تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟

التحریم : 1

اسی طرح بعض لوگ تارک دنیا ہوکر جنگلات میں رہنے لگتے ہیں ساری زندگی شادی نہیں کرتے والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے میل جھول نہیں کرتے اور مشکل مشکل لمبے لمبے وظائف اور عبادات کرتے ہیں

یہ سب کام بھی خلاف شریعت ہونے کی وجہ سے تزکیہ نفس کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کے طریقے سے ہٹ کر مردود ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ تین بندوں میں سے ایک نے کہا تھا ساری زندگی روزہ ہی رکھوں گا کبھی ناغہ نہیں کروں گا دوسرے نے کہا تھا ساری زندگی نماز ہی پڑھتا رہوں گا کبھی وقفہ نہیں کروں گا تیسرے نے کہا تھا پوری زندگی شادی نہیں کروں گا

یہ لوگ اپنی طرف سے تزکیہ نفس کا کام کررہے تھے مگر طریقہ غیر شرعی اور سنت سے ہٹ کر تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ ہم میں سے ہی نہیں

نفس کو کچلنے کا بہترین طریقہ تہجد کی نماز

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا [المزمل : 6]

بلاشبہ رات کو اٹھنا(نفس کو) کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے۔

نفس کو کچلنے کا بہترین طریقہ جہاد فی سبیل اللہ

جہاد فی سبیل اللہ کا رخ کریں پھر آپ دیکھیں گے کہ نفس کیسے کچلا جاتا ہے

جب گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی دشمن حملہ کرے گا موت سامنے نظر آ رہی ہوگی پیٹ پر پتھر باندھنے پڑھیں گے چوبیس گھنٹوں کے بعد ایک کھجور کھانے کو ملے گی پیدل چل چل کر تھکاوٹ سے چور ہوں گے تو پھر دیکھنا نفس کے سب کس بل کیسے سیدھے ہوتے ہیں اور کیسے اس کی اکڑ، فخر، شیخی اور تکبر رفو چکر ہوتے ہیں

تزکیہ کا فائدہ

پھر اسی تزکیہ کے نتیجے میں جو ملے گا وہ اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے

جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى [طه : 76]

ہمیشگی کے باغات، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔