توبہ اور استغفار ۔۔۔۔ فوائد وثمرات
اہم عناصر خطبہ:
01.بہترین خطاکار کون؟
02.گناہوں کے بوجھ کا احساس
03.مومنین کو توبہ کرنے کا حکم
04.توبہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے
05.وسعت ِرحمت ِالٰہی
06.قبولیت ِتوبہ کی شرائط
07.ثمرات ِتوبہ واستغفار
برادرانِ اسلام! ہم میں سے ہر شخص خطاکار اور گناہگار ہے لیکن خطاکاروں میں بہتر وہ ہے جو ہم میں سب سے زیادہ توبہ کرنے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا اور اُس سے صدق دل کے ساتھ بار بار معافی طلب کرنے والا ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) (سنن الترمذی:2499، سنن ابن ماجہ:4251۔ وحسنہ الألبانی) ’’حضرت آدم علیہ السلام کی ساری اولاد انتہائی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو سب سے زیادہ توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘ اور خطاکار انسان اپنی خطاؤں سے توبہ تب کرتا ہے جب وہ ان کا بوجھ محسوس کرتا ہے بلکہ سچا مومن تو ہوتا ہی وہ ہے جو خالق کائنات کی نافرمانی کرنے کے بعد اسے راضی کرنے کیليے بے تاب ہو جاتا ہے۔ اور گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے بچنے کیليے فورا اس سے معافی مانگ لیتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(إِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوْبَهُ کَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوْبَهُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلٰی أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَکَذَا)قَالَ أبُو شِہَاب: بِیَدِہٖ فَوْقَ أَنْفِهِ (صحیح البخاری:کتاب الدعوات،باب التوبۃ:6308) ’’ایک مومن اپنے گناہوں کو یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ یہ ابھی مجھ پر گر پڑے گا (اور میں ہلاک ہو جاؤں گا) جبکہ ایک فاجر اپنے گناہوں کو یوں محسوس کرتا ہے جیسے ایک مکھی اڑتے اڑتے اس کی ناک پر آکر بیٹھی اور اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور وہ اڑ کر چلی گئی۔‘‘ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم متعدد گناہ بار بار کرتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم اللہ ملک الملوک کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اس ليے ہم اس سے معافی مانگ کر اسے راضی کر لیں اور اس کے عذاب سے بچ جائیں۔ اور بہت سارے مسلمان بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے کہ جیسے انہیں ان گناہوں کے عذاب کا کوئی ڈر نہیں، مثلا درباروں مزاروں پر جا کر غیراللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں، ان کے نام کی نذر و نیاز پیش کرتے ہیں، انہیں حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے مانگتے ہیں، ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں یا انھیں اپنی حاجات کیليے اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ بناتے ہیں اور مشکلات میں ان کو پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ان شرکیہ افعال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں اور اللہ نہ کرے اگر اسی حالت میں وہ مر جائیں تو سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ (والعیاذ باللہ) اِس کے برعکس وہ اپنے اس طرز عمل پر بالکل مطمئن دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی موحد انھیں شرک سے ڈرائے اور عقیدۂ توحید کو اختیار کرنے کی نصیحت کرے تو وہ شرک سے براءت اور سچے دل سے توبہ کرنے کی بجائے اس کے گلے پڑ جاتے ہیں، یا کم از کم اسے مختلف القاب سے نوازتے ہوئے اس کی دعوت کو قابلِ اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح آپ بہت سارے مسلمانوں کو کئی بدعات میں اِس طرح منہمک پائیں گے کہ وہ انھیں دین کا لازمی حصہ تصور کرتے ہیں اور اگر کوئی متبع سنت انھیں دین میں بدعات ایجاد کرنے کی سنگینی پر متنبہ کرے اور انھیں اس بات سے آگاہ کرے کہ دین میں ہر نیا کام جس کا ثبوت قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہ ملتا ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے تو وہ توبہ اور استغفار کی بجائے اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی برا کام تھوڑا ہے، یہ تو نیکی کا کام ہے۔ گویا وہ ان بدعات پر یوں مطمئن نظر آتے ہیں کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی بجائے اس کو ناراض کر رہے ہیں اور قیامت کے روز جب یہ لوگ حوضِ کوثر کی طرف بڑھ رہے ہونگے تو انھیں دھکے دے کر پیچھے ہٹا دیا جائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں کہیں گے کہ ’’وہ لوگ دور چلے جائیں جنھوں نے میرے دین کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔‘‘ شرک وبدعت کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے جرائم ہیں جو آج مسلمانوں میں بری طرح رچ بس چکے ہیں اور مسلمان ان کے ایسے خوگر ہیں کہ انھیں گناہ ہی نہیں سمجھتے، مثلا پانچ فرض نمازوں کی عدم ادائیگی یا ان میں سستی اور غفلت کرنا، فرض روزے رکھنے اور زکاۃ دینے سے کنارہ کشی اختیارکرنا، استطاعت کے باوجود فریضۂ حج کی ادائیگی سے ٹال مٹول کرنا، والدین کی نافرمانی اور رشتہ داروں سے بد سلوکی کرنا، لین دین کے معاملات میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا اور فراڈ کرنا، جوے بازی، رشوت خوری اور سودی لین دین کرنا، مسلمانوں سے حسد کرنا، ان کے بارے میں بغض اور کینہ رکھنا وغیرہ ۔۔۔۔ یہ ایسے گناہ ہیں کہ انھیں انتہائی معمولی سمجھ کر ان کا ارتکاب کیا جاتا ہے چہ جائیکہ ان کا ارتکاب کرنے والے اپنے اندر ان کی حرارت محسوس کریں یا اپنے اوپر پہاڑ جیسا بوجھ تصور کریں یا اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے خوف کھائیں اور پھر اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے مغفرت طلب کریں اور اسے راضی کرکے اپنی اصلاح شروع کردیں!
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے دور کے لوگوں سے کہا کرتے تھے: (إِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ أَعْمَالًا هِیَ أَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ،إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلیٰ عَهْدِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم مِنَ الْمُوْبِقَاتِ) (صحیح البخاری:6492) ’’بے شک تم ایسے عمل کرتے ہو جو تمھاری نظروں میں بال سے بھی باریک (یعنی معمولی) ہیں جبکہ ہم انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مہلک گناہوں میں شمار کرتے تھے۔‘‘ یہ اس دور کی بات ہے جب حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے تربیت یافتہ لوگ (تابعین کرام رحمہ اللہ) موجود تھے اور یقینا وہ دور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے بہتر دور تھا اور اس میں وہ بڑے بڑے گناہ یا تو بالکل ناپید تھے یا انتہائی کم تھے جنھیں آج کے دور میں یا تو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا یا انتہائی معمولی سمجھ کر ان کا سر عام ارتکاب کیا جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے دور میں لوگوں کو جن معمولی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مہلک گناہوں میں شمار کیاکرتے تھے۔ اگر حضرت انس رضی اللہ عنہ آج کے دور میں ہوتے اور لوگوں کو شرک وبدعت، بدکاری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت،سودی لین دین اور فحاشی وعریانی جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا دیکھتے تو معلوم نہیں وہ کیا کہتے! اور جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تعلق ہے تو اس میں اگر کسی مسلمان سے کوئی بڑا گناہ سر زد ہو جاتا تو وہ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا جب تک وہ سچی توبہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو اُس گناہ کی سزا کیليے پیش نہ کر دیتا۔ اِس سلسلے میں تین واقعات ذکر کئے جاتے ہیں۔
01.حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی جو زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اللہ کی حد کو پامال کیا ہے لہٰذا آپ مجھ پر وہ حد قائم کریں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سر پرست کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ (أَحْسِنْ إِلَیْهَا،فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِیْ بِهَا) ’’اس سے اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جنم دے تو اسے میرے پاس لے آنا۔‘‘ چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے کپڑے اُس پر کس دئیے جائیں اور اسے رجم کردیا جائے۔ جب اسے رجم کی سزا دے دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ اس نے بدکاری کا ارتکاب کیا تھا! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِیْنَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ لَوَسِعَتْهُمْ،وَهَلْ وَجَدَتْ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلّٰہِ تَعَالیٰ) (صحیح مسلم:1696) ’’اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے اہلِ مدینہ کے ستر افراد میں تقسیم کیا جائے تو سب کیليے کافی ہو جائے۔ اِس سے اچھی توبہ کیا ہوسکتی ہے کہ اُس نے اپنی جان ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے قربان کردی۔‘‘
02.حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ،طَهِّرْنِی) ’’اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(وَیْحَكَ اِرْجِعْ فَاسْتَغْفِرِاللّٰہَ وَتُبْ إِلَیْهِ) ’’تم پر افسوس ہے، جاؤ اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کر لو۔‘‘ ماعز رضی اللہ عنہ تھوڑی دور گئے اور پھر واپس لوٹ آئے، دوبارہ کہا: (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ،طَهِّرْنِی) ’’اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پھر بھی وہی جواب دیا کہ جاؤ، اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کر لو۔ وہ تھوڑی دور جا کر پھر واپس لوٹ آئے اور پھر بھی یہی عرض کیا کہ اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار بھی انہیں وہی جواب دیا۔ اس کے بعد جب وہ چوتھی مرتبہ آئے اور وہی بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فِیْمَ أُطَهِّرُكَ؟) ’’تمھیں کس چیز سے پاک کروں؟‘‘ تو انھوں نے کہا: زنا سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا کہ کیا ان کا دماغی توازن ٹھیک ہے؟ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ ہاں ان کا دماغی توازن بالکل ٹھیک ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ انھوں نے کہیں شراب تو نہیں پی رکھی؟ چنانچہ ایک آدمی ان کے پاس گیا اور ان کے منہ کو سونگھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا کہ ان کے منہ سے شراب کی بو محسوس نہیں ہوتی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم نے واقعتا زنا کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر رجم کی سزا نافذ کرنے کا حکم صادر فرما دیا اور اُس کے مطابق ان پر یہ سزا نافذ کردی گئی۔ پھر لوگوں میں دو گروہ بن گئے۔ ایک نے کہا: ماعز ہلاک ہوگئے اور ان کے گناہوں نے انھیں گھیر لیا اور دوسرے نے کہا: ماعز کی توبہ سے اچھی توبہ کوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گذارش کی کہ مجھے پتھر مار مار کر قتل کردیں۔ بعد ازاں دو تین روز گذر گئے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں تشریف لائے، انہیں سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد فرمایا: (اِسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِك) ’’تم ماعز کیليے مغفرت کی دعا کرو۔‘‘ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دعا کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کو معاف کرے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ) ’’انھوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے لوگوں کے ایک گروہ میں تقسیم کیا جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔‘‘ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک غامدیہ عورت آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی پاک کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وَیْحَكِ اِرْجِعِیْ فَاسْتَغْفِرِی اللّٰہَ وَتُوْبِی إِلَیْهِ) ’’تم پر افسوس ہے، جاؤ اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرلو۔‘‘ اس نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھے بھی اُسی طرح واپس لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز کو لوٹا دیا تھا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے تمھارا کیا تعلق ہے؟ اس نے کہا: میں اسی سے ہی تو حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا وہ تم ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی نہیں، یہاں تک کہ تم بچے کو جنم دو۔‘‘ حضرت بریدہ کہتے ہیں: ایک انصاری صحابی نے اُس خاتون کی کفالت کی یہاں تک کہ اس نے بچہ جنم دے دیا۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اطلاع دی کہ اس خاتون نے بچہ جنم دے دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے ہم ابھی رجم نہیں کرتے کہ اس کے بچے کو اس طرح چھوڑ دیں اور اسے دودھ پلانے والا کوئی نہ ہو۔‘‘
تو ایک انصاری نے کہا: اے اللہ کے نبی! اس کی رضاعت میرے ذمے ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم صادر کردیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ بچہ جنم دینے کے فورا بعد وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے اپنے بچے کو کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپیٹا ہوا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اسے دودھ پلاؤ یہاں تک کہ یہ دودھ پینا چھوڑ دے ۔‘‘ چنانچہ وہ عورت چلی گئی، پھر کچھ عرصہ بعد واپس لوٹی تو اس کے بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس بچے نے دودھ چھوڑ دیا ہے اور اب کھانا کھانے کے قابل ہوگیا ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ایک مسلمان کے سپرد کر دیا اور خاتون کے بارے میں حکم صادر فرمایا کہ اس کے سینے تک کھدائی کرکے اسے رجم کر دیا جائے۔ چنانچہ لوگوں نے اسے رجم کیا۔ اسی دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آئے، ایک پتھر اٹھایا اور اس کے سر پہ دے مارا جس سے اس کے خون کے کچھ چھینٹے ان کے چہرے پر بھی آلگے۔ انھوں نے اسے برا بھلا کہا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَهْلًا یَا خَالِدُ،فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَهُ) (صحیح مسلم:1695) ’’خالد! ٹھہر جاؤ، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اِس نے ایسی توبہ کی ہے کہ ایک ٹیکس لینے والا ظالم بھی ایسی توبہ کرتا تو اسے بھی معاف کردیا جاتا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے دفن کردیا گیا۔ ان تینوں واقعات سے ثابت ہوا کہ اِس امت کے اولیں دور میں ’جو کہ سب سے بہتر دور تھا‘ اگر کسی مسلمان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہو جاتا تو وہ اپنے اوپر اس کے شدید بوجھ کو محسوس کرتا اور اس سے اپنے آپ کو پاک کرنے کیليے بے تاب ہوجاتا اور یہی ایک سچے مومن کی شان ہے کہ وہ گناہ کرنے کے بعد سچی توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیليے بے چین ہو جائے اور اس وقت تک اسے سکون حاصل نہ ہو جب تک وہ پے در پے حسنات کرکے اس گناہ کے داغ دھبوں کو صاف نہ کرلے۔
فرمان الٰہی ہے : {إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ} (ہود11:114) ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘ اور برائیوں کو اپنے نامۂ اعمال سے مٹانے کیليے سب سے پہلی نیکی توبہ واستغفار ہے۔
مومنوں کو توبہ واستغفار کا حکم
اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم دیا ہے۔
ارشاد باری ہے: {وَاسْتَغْفِرِاللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا} (النساء4 :106) ’’اور آپ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کیجئے، بے شک اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو بھی توبہ کرنے کا حکم دیا ہے: {وَتُوْبُوْا إِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا أَیُّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (النور24 :31) ’’اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ یعنی اگر مومنین سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس سے معافی طلب کرلیں تو دنیا وآخرت میں کامیابیاں ان کے قدم چومیں گی۔ نیز فرمایا :{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَی رَبُّکُمْ أَن یُکَفِّرَ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ یَوْمَ لَا یُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ یَسْعَی بَیْْنَ أَیْْدِیْهِمْ وَبِأَیْْمَانِهِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْرٌ} (التحریم66 :8)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی اور خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ مٹا دے اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اُس دن اللہ تعالیٰ نبی اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سچی توبہ کے چار فوائد ذکر فرمائے ہیں: پہلا گناہوں کی معافی، دوسرا ان جنتوں میں داخلہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، تیسرا روزِ قیامت کی رسوائی سے تحفظ اور چوتھا اُس روز ان کا نور جو ان کے آگے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ سارے مومنین اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اس سے معافی طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تعریف کرتا ہے جو اُس سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
ارشاد باری ہے: {الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.الصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالأَسْحَارِ} (آل عمران 3:17-16) ’’جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے، اس ليے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ جو صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرمانبرداری کرنے والے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: (یَا أَیُّهَا النَّاسُ تُوْبُوا إِلٰی رَبِّکُمْ،فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَأتُوبُ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْیَومِ مِائَةَ مَرَّۃٍ) (أحمد:17880، صحیح مسلم:2702) ’’اے لوگو! تم اپنے رب کی طرف توبہ کرتے رہا کرو۔ اللہ کی قسم! میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتے حالانکہ آپ امام الانبیاء ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اور زیادہ توبہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
توبہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے
جی ہاں! توبہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ حضرت حواء کو جب شیطان نے بہکایا اور وہ دونوں اس درخت کو چکھ بیٹھے جس کے قریب جانے سے انھیں منع کیا گیا تھا تو انھوں نے اعترافِ خطا کے ساتھ یوں توبہ کی:{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (الأعراف7:23) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
اور حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے لختِ جگر کو طوفان کی موجوں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا تو شفقت ِپدری سے متاثر ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کو پکار اٹھے کہ میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ بتاتے ہوئے کہ آپ کا بیٹا چونکہ آپ پر ایمان نہیں لایا اس ليے وہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے‘ آپ کو تنبیہ کی کہ جس بات کا آپکو علم نہیں اس کا سوال مت کیجئے ورنہ آپ نادانوں میں سے ہو جائیں گے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام نے فورا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے کہا: (رَبِّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِه عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُنْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ) (ہود11:47)
’’اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھے آغوشِ رحمت میں نہ لیا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔‘‘
اور حضرت موسی علیہ السلام نے جب ایک آدمی کو مکا مارا اور اس سے اس کی موت واقع ہوگئی تو فورا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یوں بخشش طلب کی:(رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ) (القصص28:16) ’’اے میرے رب! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے لہٰذا تو مجھے معاف کردے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا۔
اور جب حضرت داؤد علیہ السلام کو آزمایا گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ انھیں واقعتا آزمائش میں ڈالا گیا ہے تو فورا سجدے میں پڑ گئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے مغفرت طلب کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَظَنَّ دَاؤُدُ أَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأَنَابَ) (ص38:24) ’’اور داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انھیں آزمایا ہے، پس وہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے اور سجدے میں گر گئے اور ہماری طرف پوری طرح رجوع کیا۔‘‘
اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام نے بھی مچھلی کے پیٹ میں اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یوں معافی مانگی: (لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ) (الانبیاء21:87 ’’تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے تھا۔‘‘ اورجہاں تک امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ اس قدر کثرت سے استغفار اور توبہ کرتے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف ایک مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ دعا سو مرتبہ سنتے تھے: (رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ) (الصحیحۃ:556) ’’اے میرے رب! مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول فرما، یقینا تو ہی خوب توبہ قبول کرنے والا، بڑا معاف کرنے والا ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو استغفار اور توبہ کیليے ایک دعا سکھلائی اور انھیں ہر نماز میں اس کے پڑھنے کا حکم دیا جو یہ ہے:
(اَللّٰهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِی إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ) (صحیح البخاری:834،صحیح مسلم:2705) ’’اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں، لہٰذا تو مجھے اپنے فضل وکرم سے معاف کردے اور مجھ پر رحم کر۔ یقینا تو ہی بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ استغفار وتوبہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام کا ہی شیوہ نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر عقلمند اور تمام اہلِ دانش کی ایک اہم صفت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّهَارِ لَآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ.الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِِ. رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْإِیْمَانِ أَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ)(آل عمران 3:193-190) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش میں ان عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلووں کے بل لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو ہر عیب سے پاک ہے، پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب! تو جس کو جہنم میں داخل کر دے گا اس کو ذلیل ورسوا کردے گا اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا۔ اے ہمارے رب! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان لانے کیليے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب! لہٰذا تو ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہماری خطاؤں سے درگذر فرما اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ فوت کرنا۔‘‘
*اللہ تعالیٰ انتہائی معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے
جو چیز انسان کو بار بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے پر زیادہ آمادہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’غفور رحیم‘‘ ہے، توبہ قبول کرنے والا اور کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَلَمْ یَعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللّٰہَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ) (التوبۃ9 :104)
’’کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے! اور یقینا اللہ تعالیٰ ہی انتہائی توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: (وَهُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ.وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَیَزِیْدُهُم مِّن فَضْلِهِ) (الشوری 42:26-25) ’’اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے درگذر کرتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو (سب) جانتا ہے اور ایمان والوں اور نیکوکار لوگوں کی دعائیں قبول کرتا اور انھیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرتا ہے۔‘‘
*اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ومغفرت کا ذکرکرکے اپنے گناہگار بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ آؤ مجھ سے معافی مانگ لو، میں تمھارے سارے گناہ معاف کردوں گا۔
ارشاد باری ہے: (قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ) (الزمر39 :53) ’’آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جنھوں نے (گناہوں کا ارتکاب کر کے) اپنے اوپر زیادتی کی ہے! تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہی تو ہے جو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکین میں سے کئی لوگ ایسے تھے جنہوں نے بہت زیادہ قتل وغارت اور بدکاری کی تھی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ جس بات کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اچھی ہے لیکن یہ فرمائیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری توبہ قابل قبول ہے یا نہیں؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر القرطبی:228/8،ط دار الحدیث القاهرۃ) اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تو مشرکین اور قتل وغارت کرنے والوں کو بھی امید دلاتا ہے کہ اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلیں تو وہ انھیں معاف کردے گا اور ان سے راضی ہو جائے گا، چہ جائیکہ اس کی وحدانیت کو دل سے تسلیم کرنے والے اور اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس سے معافی مانگیں تو یقینا اللہ تعالیٰ انہیں بھی معاف کردے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو نصاری کو بھی‘ جو حضرت عیسی علیہ السلام کو اس کا بیٹا قرار دیتے اور اللہ تعالیٰ کو تین میں سے ایک تصور کرتے ہیں‘ توبہ واستغفار کی ترغیب دلاتا ہے اور فرماتا ہے: (لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوا إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَـهٍ إِلاَّ إِلَـهٌ وَّاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَهُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ. أَفَلاَ یَتُوبُونَ إِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ) (المائدۃ5:74-73) ’’بے شک ان لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا جنھوں نے کہا کہ اللہ تین (معبودوں) میں سے ایک ہے حالانکہ ایک معبود کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اگر وہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہیں آئیں گے تو ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب ہو گا۔ کیا وہ اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے اور اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے ؟ اور اللہ تو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔‘‘
*اللہ تعالیٰ ہراس شخص کو جو برائی کا ارتکاب کرے یقین دلاتا ہے کہ اگر وہ استغفار کر کے معافی مانگ لے تو میں ’’غفور رحیم‘‘ ہوں، اسے معاف کردوں گا۔
ارشاد باری ہے: (وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْئً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِاللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا)(النساء4:115) ’’جو شخص کوئی برائی کرے یا (گناہ کا ارتکاب کرکے) اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ کو انتہائی بخشنے والا، بے حد مہربان پائے گا۔‘‘
اور ایک حدیث قدسی میں ارشاد ہے: (یَاابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِی وَرَجَوْتَنِی غَفَرْتُ لَكَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْكَ وَلَا أُبَالِی، یَاابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُكَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِی غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِی، بَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ لَوْ أَتَیْتَنِی بِقُرَابِ الْأرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِی لَا تُشْرِكُ بِی شَیْئًا لَأتَیْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَۃً) (سنن الترمذی:3540 وصححہ الألبانی) ’’اے ابن آدم! اگر تو صرف مجھے پکارتا رہے اور تمام امیدیں مجھ سے وابستہ رکھے تو خواہ تم سے جو بھی گناہ سرزد ہوا ہو میں تمہیں معاف کرتا رہوں گا اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا اور اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم مجھ سے معافی طلب کرلو تو میں تمہیں معاف کر دونگا اورمیں کوئی پرواہ نہیں کرونگا اور اگر تو میرے پاس زمین کے برابر گناہ لیکر آئے، پھر تمھاری مجھ سے ملاقات اس حال میں ہو کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے تھے تو میں زمین کے برابر تجھے مغفرت سے نوازوں گا۔‘‘
اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّهَارِ،وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّهَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِهَا) (صحیح مسلم :2759) ’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنا دست ِرحمت رات کے وقت پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا شخص توبہ کر لے۔ اسی طرح دن کے وقت بھی اپنا دست ِرحمت پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا آدمی توبہ کرلے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔‘‘
*اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے بے حد خوش ہوتا ہے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (الَلّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ إِلَیْهِ مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلاَۃٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ، وَعَلَیْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَیِسَ مِنْهَا، فَأَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّهَا، قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَیْنَا هُوَ کَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَہُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ: اَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَبْدِیْ وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ) (صحیح مسلم:2747) ’’اللہ کا بندہ جب توبہ کرتا ہے تو وہ اس کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی صحراء میں اپنی سواری پر جا رہا ہو، پھر وہ چپکے سے کہیں چلی جائے اور اس پر اُس آدمی کے کھانے پینے کا سامان بھی ہو، پھر وہ اسے تلاش کرکر کے مایوس ہو جائے اور ایک درخت کے سائے تلے آکر لیٹ جائے اور وہ اپنی سواری سے بالکل مایوس ہوچکا ہو بلکہ اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا ہو] پھر اچانک وہ سواری اُس کے سامنے آکر کھڑی ہو جائے اور وہ اس کی نکیل کو تھام لے اور فرطِ مسرت میں اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل جائیں کہ اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب، یعنی شدید خوشی کے عالم میں وہ غلطی کر جائے۔‘‘ یعنی جتنی خوشی اِس آدمی کو سواری کے ملنے پر ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا کوئی گناہگار بندہ توبہ کرتا ہے۔
*اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا استغفار اتنا محبوب ہے کہ اگر وہ اسے ترک کردیں تو وہ ان کی جگہ پر ایسے لوگوں کو لے آئے جو استغفار کریں اور وہ انھیں معاف کردے۔
ارشاد نبوی ہے: (وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَهَبَ اللّٰہُ بِکُمْ، وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ، فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ،فَیَغْفِرُلَهُمْ) (صحیح مسلم :2749) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے (اور اللہ تعالیٰ سے معافی نہ مانگتے) تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کرکے دوسرے لوگوں کو لے آتا جو گناہ کرتے، پھراللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے تو وہ انھیں معاف کردیتا۔‘‘
*بسا اوقات اللہ تعالیٰ محض نیت ِتوبۂ صادقہ پرہی انسان کو معاف کردیتا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص نے ننانوے افراد کو قتل کردیا تھا، پھر اس نے دنیا میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو ایک پادری کی طرف اس کی راہنمائی کی گئی، چنانچہ وہ اس کے پاس آیا اور اسے آگاہ کیا کہ وہ ننانوے افراد کا قاتل ہے تو کیا اس کی توبہ کی کوئی صورت ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر ڈالا اورسو کی گنتی پوری کردی۔ پھر اس نے لوگوں سے دنیا کے کسی اور بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک عالم کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے اسے بتایا کہ وہ سو افراد کو قتل کر چکا ہے تو کیا اس کی توبہ کی کوئی شکل ہے؟ عالم نے کہا: ہاں، توبہ اور تمھارے درمیان کون حائل ہوسکتا ہے! تم ایسا کرو کہ فلاں علاقے میں چلے جاؤ، وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرتے رہو اور دیکھنا اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہ وہاں برے لوگ رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ چل پڑا یہاں تک کہ جب درمیان میں پہنچا تو اس کو موت آگئی، اب اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ دلی طور پر توبہ کرنے کیليے جا رہا تھا اور اللہ کی طرف متوجہ تھا۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا: اِس نے تو کبھی خیر کا کوئی کام کیا ہی نہ تھا۔ وہ بحث وتکرار کررہے تھے کہ ایک اور فرشتہ آدمی کی شکل میں آپہنچا۔ چنانچہ انھوں نے اسے اپنے درمیان فیصل تسلیم کر لیا۔ اُس نے کہا: (قِیْسُوْا مَا بَیْنَ الْأرْضَیْنِ: فَإِلٰی أَیَّتِهِمَا کَانَ أَدْنٰی فَهُوَ لَهُ) ’’تم دونوں مسافتوں کو ناپ لو۔ (جو اس نے طے کرلی تھی اور جو ابھی طے کرنا تھی) پھر جس کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کے انجام کا فیصلہ کیا جائے۔‘‘ لہٰذا انھوں نے جب دونوں مسافتوں کو ناپا تو وہ اُس مسافت کے زیادہ قریب تھا جو اس نے ابھی طے کرنا تھی۔ اس ليے اس کی روح کو رحمت کے فرشتے لے گئے۔‘‘ (صحیح البخاری:3470،صحیح مسلم: 2766)
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ (فَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی هَذِہٖ: أَنْ تَبَاعَدِیْ، وَإِلٰی هَذِہٖ: أَنْ تَقَرَّبِی) ’’اللہ تعالیٰ نے اُس زمین کو حکم دیاجسے وہ طے کر چکا تھا کہ تم بڑھ جاؤ، اور جسے اس نے ابھی طے کرنا تھا اس کو حکم دیاکہ تم سمٹ جاؤ۔‘‘ غور کیجئے کہ یہ آدمی سو افراد کا قاتل تھا اور اس نے کبھی خیر کا ایک عمل بھی نہ کیا تھا لیکن چونکہ سچی توبہ کے ارادے سے نکلا تھا اس ليے اللہ تعالیٰ نے اس کی نیت کے مطابق اس کی توبہ قبول کر لی اور اس کی روح کو رحمت کے فرشتوں کے سپرد کردیا۔
*نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ محض توبۂ صادقہ کی نیت کرنے پر ہی اپنے بندے کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کا بندہ جب ایک طرف اپنے گناہوں کو دیکھے اور دوسری طرف اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف پیدا ہوجائے تو وہ محض اسی بات پر ہی اسے معاف کردیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک آدمی نے بے انتہا گناہ کئے اور کبھی ایک نیک عمل بھی نہ کیا تھا، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں جب مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ لے کر آدھی خشکی میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں پھینک دینا۔ پس اللہ کی قسم! اگر میرے رب کے پاس قدرت ہوئی تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ چنانچہ اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خشک زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کی راکھ کو ایک جگہ پر جمع کردے اور اسی طرح سمندر کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ اس کی راکھ کو جمع کردے، بعد ازاں اس نے اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا: (لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟) ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ اس نے کہا: (مِنْ خَشْیَتِكَ یَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ) ’’اے میرے رب! محض تیرے ڈر کی وجہ سے اور تو اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘ (صحیح البخاری:7506 ، صحیح مسلم : 2755)
*اللہ تعالیٰ اس قدر غفور رحیم ہے کہ بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر ہی اپنے بندوں کو معاف کردیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی بِطَرِیْقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَی الطَّرِیْقِ فَأَخَّرَہُ، فَشَکَرَ اللّٰہُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ) (صحیح البخاری :652، صحیح مسلم :1914) ’’ایک آدمی ایک راستے پر چل کر جا رہا تھا کہ اس کو راستے پر ایک کانٹے دار ٹہنی ملی، اس نے اسے راستے پر سے ہٹا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس (چھوٹے سے عمل) کی قدر کی اور اس کی مغفرت کردی۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص ایک راستے پر چل کر جا رہا تھا کہ اسے شدید پیاس محسوس ہوئی، اسے ایک کنواں ملا، وہ اس میں اترا اور پانی نوش کرلیا۔ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو ہانپتے ہوئے دیکھا جو شدید پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا تھا، وہ (اپنے دل میں) کہنے لگا: پیاس نے اس کتے کا برا حال کر رکھا ہے جیسا کہ میرا برا حال تھا۔ پھر وہ دوبارہ کنویں میں اترا، اپنے موزے میں پانی بھرا، اسے اپنے منہ کے ساتھ پکڑ کر اوپر کو چڑھا اور باہر آکر کتے کو پانی پلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فَشَکَرَ اللّٰہُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ) ’’اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کردیا۔‘‘(صحیح البخاری :2363،صحیح مسلم :2244)
صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک زانیہ عورت نے ایک کتے کو دیکھا جو سخت گرم دن میں ایک کنویں کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا اور شدید پیاس کے عالم میں ہانپ رہا تھا۔ اس نے اپنا موزا اتارا اور اس کے ذریعے کنویں سے پانی کھینچا، پھر اسے پانی پلایا۔چنانچہ اُس کے اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کردیا گیا۔ (صحیح البخاری:3467،صحیح مسلم:2244)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی قدر دان، نہایت رحم کرنے والا اور بڑا ہی معاف کرنے والا ہے اور اپنے بندوں کے چھوٹے چھوٹے نیک اعمال پر بھی ان کی مغفرت کرنے والاہے۔
اسی سلسلے کی مزید دو احادیث سماعت کیجئے۔
01.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک بندے نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا، پھر اس نے دعا کرتے ہوئے کہا: (اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی) ’’اے اللہ! میرا گناہ معاف فرما۔‘‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
(أَذْنَبَ عَبْدِیْ ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ) ’’میرے بندے نے گناہ کا ارتکاب کیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرسکتا ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کرسکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ایک اور گناہ کیا، پھر توبہ کرتے ہوئے کہا:(أَیْ رَبِّ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی) ’’اے میرے رب! میرا گناہ معاف فرما۔‘‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہا: (أَذْنَبَ عَبْدِیْ ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ) ’’میرے بندے نے گناہ کا ارتکاب کیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرسکتا ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ پھر اس نے ایک اور گناہ کیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے کہا: (أَیْ رَبِّ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی) ’’اے میرے رب! میرا گناہ معاف فرما۔‘‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہا: (أَذْنَبَ عَبْدِیْ ذَنْبًا،فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ، اِعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ) ’’میرے بندے نے گناہ کا ارتکاب کیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرسکتا ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کرسکتا ہے، جاؤ اب جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا۔‘‘(صحیح البخاری :7507 ،صحیح مسلم :2758)
اس سے مقصود یہ ہے کہ اگر تم بار بار گناہ کرتے رہو اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو تو اللہ تعالیٰ تمھیں معاف کرتا رہے گا، گویا اللہ تعالیٰ کی معافی توبہ اور استغفار سے مشروط ہے۔ لہٰذا مسلمان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے تاکہ جب اس کا خاتمہ ہو تو اس حالت میں ہو کہ اس کے رب نے اسے معاف کردیا ہو۔
02.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ مومن کو روزِ قیامت اپنے قریب کرے گا یہاں تک کہ اس پر پردہ ڈال دے گا، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کروائے گا اور کہے گا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ تم نے فلاں گناہ کیا تھا؟ وہ کہے گا: ہاں میرے رب! مجھے معلوم ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (فَإِنِّی قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا وَإِنِّی أَغْفِرُهَا لَكَ الْیَوْم) ’’میں نے دنیا میں بھی تم پر پردہ پوشی کی تھی اور آج بھی تمھیں معاف کررہا ہوں۔‘‘ پھر اسے نیکیوں کا نامۂ اعمال دے دیا جائے گا۔ اور رہے کفار اور منافقین تو ساری کائنات کے سامنے پکار کر کہا جائے گا: یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا تھا۔‘‘ (صحیح البخاری:2441، صحیح مسلم :2768)
شروطِ قبولیت ِتوبہ
عزیزان گرامی! اب یہ بھی جان لیجئے کہ سچی توبہ کی کچھ شروط ہیں جن کے بغیر توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں، اور وہ کچھ یوں ہیں:
01.اخلاص، جو تمام عبادات کی قبولیت کیليے پہلی شرط ہے

چنانچہ تائب کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے توبہ کرنی چاہئے، کسی دنیاوی مفاد یا ذاتی مصلحت کے حصول کیليے نہیں، کیونکہ اگر وہ دنیاوی اغراض ومقاصد کیليے توبہ کرے گا تو ان کے پورا ہوتے ہی وہ اللہ تعالیٰ کے دین سے اعراض کر لے گا اور یہ سچی توبہ نہیں بلکہ جھوٹی توبہ ہے۔
02.ندامت وشرمندگی

یعنی تائب اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت وشرمندگی کا اظہا رکرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے جو اعترافِ گناہ کے بعد اس کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ شرمندہ ہو او راس سے معافی طلب کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگائی گئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا: (یَا عَائِشَةُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِی عَنْكِ کَذَا وَکَذَا، فَإِنْ کُنْتِ بَرِیْئَةً فَسَیُبَرِّئُكِ اللّٰہُ، وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِی اللّٰہَ وَتُوْبِی إِلَیْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ، تَابَ اللّٰہُ عَلَیْهِ)(صحیح مسلم:2770) ’’اے عائشہ! مجھے تمھارے بارے میں یہ یہ بات پہنچی ہے، پس اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تعالیٰ تمھاری بے گناہی ثابت کردے گا۔ اور اگر تم نے گناہ کر ہی لیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور اس کی جناب میں توبہ کر لو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔‘‘
03.ترک معاصی

یعنی تائب معاصی کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگا رہو، نہ یہ کہ وہ معاصی بھی کرتا رہے اور ساتھ ساتھ معافی بھی مانگتا رہے، مثلا ایک شخص اپنے سامنے جامِ شراب رکھ لے اور ایک ایک گھونٹ کر کے اس سے شراب نوشی بھی کرتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ’’أستغفر ﷲ‘‘ کا ورد بھی جاری رکھے، یا ایک شخص نے بنک یا کسی اور مالیاتی ادارے میں پیسے محدود منافع پر رکھے ہوئے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سودی لین دین پر اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتا ہو! یا ایک آدمی بے نماز ہو اور ترکِ نماز پر اصرار کرتے ہوئے وہ اپنے اس گناہ پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت بھی طلب کرتا ہو ۔۔۔۔۔ تو ایسے لوگوں کی توبہ نا قابل قبول ہے کیونکہ یہ تو گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مذاق ہے کہ زبان سے تو معافی مانگ رہے ہیں اور عمل سے انہی گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں جن پر وہ معافی کے طلبگار ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اَلْمُسْتَغْفِرُ مِنَ الذَّنْبِ وَهُوَ مُقِیْمٌ عَلَیْهِ کَالْمُسْتَهْزِیِٔ بِرَبِّهِ) (الضعیفۃ :616) ’’گناہ پر قائم رہتے ہوئے اس سے معافی مانگنے والا شخص ایسے ہے جیسے ایک آدمی اپنے رب کے ساتھ مذاق کر رہا ہو۔‘‘ یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے :(وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن یَّغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوا عَلَی مَا فَعَلُوا وَهُمْ یَعْلَمُونَ) (آلعمران3: 135) ’’جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں پر معافی طلب کرتے ہیں اور فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔‘‘ یعنی اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے‘ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ‘ تو وہ بلا تاخیر اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب کو یاد کرکے اس سے مغفرت طلب کرلیتے ہیں کیونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں جس سے مغفرت طلب کی جائے اور وہ جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اڑے نہیں رہتے بلکہ انہیں ترک کرکے اپنی اصلاح شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی جزاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(أُولٰـئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَۃٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِیْنَ فِیْهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ) ( آل عمران3: 136) ’’یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنے والوں کا اجر کیا ہی اچھا ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوئَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ) (النحل16:119)
’’جن لوگوں نے لا علمی کی بناء پر گناہ کا ارتکاب کیا، پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کی، تو یقینا آپ کا رب ان کیليے ان کی توبہ کے بعد بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ ترکِ معاصی اور اصلاحِ نفس توبۂ صادقہ کی بنیادی شرط ہے۔ اسی ليے فضیل بن عیاض رحمہ اللہ ترکِ معاصی کے بغیر استغفار کو کذابین (جھوٹوں) کی توبہ قرار دیتے تھے اور کہا کرتے تھے :(اِسْتِغْفَارٌ بِلَا إِقْلاَعٍ تَوْبَةُ الْکَذَّابِیْنَ) ’’گناہ چھوڑے بغیر استغفار کرنا جھوٹوں کی توبہ ہے۔‘‘
04.مستقبل میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا

یعنی تائب‘ توبہ کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں اس بات کا پختہ عہد کرے کہ وہ مستقبل میں ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ نہ صرف پختہ عہد کرے بلکہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد بھی طلب کرے کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر وہ کسی برائی سے بچ نہیں سکتا۔ اسی ليے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: (اَللّٰهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ، وَأَنْ تَغْفِرَلِی وَتَرْحَمَنِی، وَإِذَا أَرَدتَّ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِی إِلٰی حُبِّكَ) (سنن الترمذی:3235۔ وصححہ الألبانی)
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے نیکیاں کرنے، برائیاں چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق دے اور تو مجھے معاف فرما اور مجھ پر رحم کر۔ اور جب تو لوگوں کو کسی آزمائش میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس سے بچاتے ہوئے فوت کر دینا، میں تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والوں سے محبت اور تیری محبت کے قریب کرنے والے عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی کیا کرتے تھے: (اَللّٰهُمَّ اهْدِنِی لِأَحْسَنِ الْأَعْمَالِ وَأَحْسَنِ الْأَخْلاَقِ، لَا یَهْدِیْ لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَقِنِی سَیِّئَ الْأَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْأَخْلاَقِ، لَا یَقِی سَیِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ)(سنن النسائی:896۔ وصححہ الألبانی) ’’اے اللہ! مجھے سب سے اچھے اعمال اور سب سے بہتر اخلاق کی توفیق دے کیونکہ تیرے سوا ان کی توفیق دینے والا کوئی نہیں اور مجھے برے اعمال اور بری صفات سے بچا کیونکہ تیرے سوا ان سے بچانے والا کوئی نہیں۔‘‘
05.تائب‘ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے توبہ کرے
ہم اِس خطبہ کے آغاز میں عرض کر چکے ہیں کہ کسی مسلمان سے جیسے ہی گناہ سرزد ہو تووہ فورا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، اس سے معافی طلب کرے اور توبہ کومؤخر نہ کرے کیونکہ کسی انسان کے پاس کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ کب تک زندہ رہے گا اور چونکہ اس کی موت کسی بھی لمحے میں واقع ہوسکتی ہے اس ليے اسے موت سے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے فورا توبہ کرنی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اُس وقت توبہ کرے جب اس کا دروازہ ہی اس کیليے بند ہو جائے اور تب اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو رد کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِنَّ اللّٰہَ لَیَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ) (الترمذی :3537۔ صححہ الألبانی) ’’بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس کی روح حلق میں اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بندے کو موت کا فرشتہ نظر آرہا ہو اور اس کی آخری سانس حلق میں اٹکی ہوئی ہو تو اس وقت اس کی توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔
بالکل یہی مفہوم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: (إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السُّوْئَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِن قَرِیْبٍ فَأُولٰـئِكَ یَتُوبُ اللّٰہُ عَلَیْْهِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.وَلَیْْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الْآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوتُونَ وَهُمْ کُفَّارٌ أُولٰـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِیْمًا) (النساء4 18-17) ’’اللہ کے نزدیک صرف ان لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے جو نادانی میں گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، تو اللہ انہی کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا علم والا، بڑی حکمتوں والا ہے اور ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کرلی اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے جو حالتِ کفر میں مر جاتے ہیں، انہی لوگوں کیليے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے ڈوبتے ہوئے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو رد کرتے ہوئے فرمایا: (آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ) (یونس10:91-90) ’’تو اب ایمان لاتا ہے جبکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ توبہ کی قبولیت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ تائب‘ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے قبل توبہ کرے اور اس کی ایک صورت تو یہی ہے کہ اس کی موت اس کی آنکھوں کے سامنے ہو اور اس کی روح اس کے حلق میں اٹکی ہوئی ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، چنانچہ قیامت سے پہلے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اس کے بعد کسی کی توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگی۔
ارشاد نبوی ہے: (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِهَا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْهِ) (صحیح مسلم:2703)
’’جو شخص مغرب سے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کرے گا اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا۔‘‘
06.حقوق العباد کی ادائیگی
گناہوں کا تعلق اگر بندوں کے حقوق سے ہو تو ان کی معافی کیلئے شرط یہ ہے کہ انھیں ادا کیا جائے یا اصحاب الحقوق سے انھیں معاف کروا لیا جائے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبۂ صادقہ کی توفیق دے اور ہمارے گناہ معاف فرمائے۔
دوسرا خطبہ
استغفار اور سچی توبہ کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ ہم ان میں سے چند فوائد اختصار کے ساتھ عرض کرتے ہیں:
01.توبہ واستغفار سے گناہوں کے داغ دھبے دھل جاتے ہیں اور انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: (إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةً سَوْدَائَ فِی قَلْبِه، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَهُ، فَذَلِكَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ ﷲُ عَزَّوَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ: (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) (سنن الترمذی:3334۔حسن صحیح ،سنن ابن ماجۃ :4244۔حسنہ الألبانی) ’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اس گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کو دھو دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتی ہے۔ تو یہی وہ ’’رَین‘‘ (زنگ) ہے جس کا ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے۔
02.نہ صرف داغ دھبے دھل جاتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے شخص کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: (إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولٰئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (الفرقان25 :70) مگر جو شخص توبہ کرے، ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا، بے حد مہربان ہے۔‘‘
03.کثرت سے توبہ کرنے والا آدمی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے
فرمان الٰہی ہے: (إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ) (البقرۃ 2:222) ’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
04.چونکہ توبہ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتے ہیں اس ليے وہ انھیں خوشحال بنا دیتا ہے، انھیں اولاد اور مال عطا کرتا اور ان پر اپنی رحمت کی بارش نازل کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا.یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا.وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْهَارًا) (نوح71:12-10) ’’پس میں (نوح علیہ السلام)نے کہا: تم سب اپنے رب سے معافی مانگ لو، بلا شبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، مال اور بیٹوں سے تمھاری مدد کرے گا، تمھارے ليے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا۔‘‘
05.استغفار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب روک لیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ) (الأنفال8 :33) ’’اور جب تک وہ مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے، اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا۔‘‘
06.توبہ واستغفار کرنے والوں کیلئے فرشتے بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِه وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْْئٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ) (المؤمن 40:7) ’’جن فرشتوں نے عرش کو اٹھا رکھا ہے اور جو اس کے ارد گرد ہیں یہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں، اُس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کیليے دعائے استغفار کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے، لہٰذا تُو توبہ کرنے والوں کو معاف کر دے اور انھیں عذاب جہنم سے بچا۔‘‘
07.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(طُوْبٰی لِمَنْ وَجَدَ فِی صَحِیْفَتِهِ اسْتِغْفَارًا کَثِیْرًا)(صحیح الجامع:3930) ’’خوشخبری ہے اس شخص کیليے جو اپنے نامۂ اعمال میں بہت زیادہ استغفار پائے۔‘‘
لہٰذا ہمیں اپنے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار لکھوانا چاہئے۔ اوراستغفار کے سب سے بہتر الفاظ وہ ہیں جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الاستغفار قرار دیا ہے اور وہ یہ ہیں:
(اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِیْ، وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلٰی عَهْدِكَ، وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوْئُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ وَأَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ) (صحیح البخاری:6306،6323) ’’اے اللہ! تو میرا پروردگار ہے، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہوں، میں اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف اور اپنے گناہ گار ہونے کا اعتراف کرتا ہوں، لہٰذا تو مجھے معاف کردے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔‘‘
ارشاد نبوی ہے: ’’جو شخص اسے شام کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی رات میں اس کی موت آجائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور اسی طرح جو اسے صبح کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی دن اس کی موت آجائے تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا۔‘‘
اس کے علاوہ یہ الفاظ بھی بہت مفید ہیں: (أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِی لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْهِ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِی لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْهِ، غُفِرَ لَهُ وَإِنْ کَانَ قَدْ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ) (سنن أبی داؤد :1517۔وصححہ الألبانی) ’’جو شخص یہ دعا پڑھے (میں اُس اللہ سے معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے اور میں اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں) تو اسے معاف کردیا جاتا ہے اگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر کیوں نہ آیا ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے گناہوں کو معاف کرے اور ہماری توبہ قبول فرمائے۔آمین