توبہ کیسے کریں

 

توبہ کرنے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحريم: 8)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ

توبہ کرو اور کامیاب ہو جاؤ

فرمایا :

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [النور: 31]

اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

رب تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طه : 82)

اور بے شک میں یقینا اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔

اور فرمایا :

«نَبِّئْ عِبَادِيْۤ اَنِّيْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ»[ الحجر : ۴۹ ]

’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (النساء : 110)

اور جو بھی کوئی برا کام کرے، یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے وہ اللہ کوبے حد بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔

تعجب ہے کہ نہایت بخشنے والے رب کے ہوتے ہوئے لوگ توبہ کیوں نہیں کرتے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (المائدة : 74)

توکیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

میدان جنگ سے بھاگنے والے کی بھی معافی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ قَالَ : أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ، وَإِنْ كَانَ قَدْ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ ” (ابوداؤد 1517،صحيح)

جس نے "أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه” کہا تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو.

سفیان ثوری رحمہ اللہ کی انوکھی توبہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جیب میں ایک رقعہ – ہوتا تھے جسے وہ بار بار دیکھتے رہتے ایک دن وہ ان سے گر گیا؛ لوگوں نے اسے اٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا ” سفيان اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد رکھنا”

سير سلف الصالحين (1006)

فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : 46)

اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔

جو استغفار کرتا ہے اسے عذاب نہیں ہوگا

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں گمان کرتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو عذاب دے گا جو استغفار کرتا ہے

پوچھا گیا کیوں

تو کہنے لگے

اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب ہی دینا تھا تو پھر استغفار کا کیوں کہا

پھر یہ آیت پڑھی

وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الأنفال : 33)

اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔

بار بار توبہ اور بار بار معافی

اللہ تعالیٰ کا یہ بھی کرم ہے کہ بندہ جتنی بار بھی گناہ کرے، پھر اس کے بعد جتنی بار توبہ کرے وہ معاف فرما دیتا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ ] [ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب… : ۲۷۵۸ ]

’’ایک بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا، پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب!مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر ایک بار اور اس نے گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ (میرے بندے!) تو جو چاہے کر، میں نے تجھے بخش دیا۔‘‘

توبہ کرنے والے کا فخر

یحییٰ بن معاذ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :

” للتائب فخرٌ لا يعادله فخرٌ

فرحُ الله بتوبته ” . ( حلية الأولياء ١٠ /٥٩ )

توبہ کرنے والے کو ایسا فخر حاصل ہے کہ کوئی فخر اس کے مقابل نہیں ہو سکتا؛ اور وہ ہے: اللہ تعالیٰ کا اس کی توبہ پر خوش ہونا

آپ نے اپنی طرف سے خود ہی توبہ کرنی ہے کسی اور نے نہیں

امام یزید الرقاشی رحمہ اللہ اپنے آپ سے فرمایا کرتے تھے :

ويحك يا يزيد من ذا الذي يصلي عنك بعد الموت من ذا الذي يصوم عنك بعد الموت من ذا الذي يرضي عنك ربك بعد الموت [ العاقبة في ذكر الموت – الإشبيلي (1/40)]

افسوس ہے آپ پر اے یزید آپکے مرنے کے بعد کون ہے وہ جو آپ کی طرف سے نماز ادا کرے گا؟

کون ہے وہ جو آپ کے مرنے کے بعد آپکی طرف سے روزے رکھے گا؟

کون ہے وہ جو آپکے مرنے کے بعد آپ کی طرف سے آپ کے رب کو راضی کرے گا؟

لوگوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان صلح کروانے والا

توبہ کے مراحل

01. ندامت کا اظہار کرکے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلنَّدَمُ تَوْبَةٌ ] [ ابن ماجہ : ۴۲۵۲، وقال الألباني صحیح ]

’’ندامت توبہ ہے۔‘‘

02.جلدی ،فوراً توبہ کرلے

اتنی جلدی توبہ کریں کہ برا خیال آتے ہی اسے جھٹک دیں

فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (الأعراف : 201)

یقینا جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔

اور فرمایا :

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء : 17)

توبہ (جس کا قبول کرنا) اللہ کے ذمے (ہے) صرف ان لوگوں کی ہے جو جہالت سے برائی کرتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں، تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ پھر مہربان ہو جاتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

توبہ کو لیٹ نہ کریں کہ موت آ پہنچے اور پھر توبہ کرتے پھریں

قبرستان میں کتنے ایسے جوان مٹی کے سپرد ہوگئے ہیں جو یہی کہتے تھے کہ بس کرلیتے ہیں توبہ

اللہ فرماتے ہیں :

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (النساء : 189)

اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کر لی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ” [ ترمذی : ۳۵۳۷ وقال الألبانی حسن ]

’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔‘‘

عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:

اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ

پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو!

ان میں سے ایک یہ ہے

حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ( رواه الحاكم وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير (رقم 1077)

اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے

اور جیسے فرمایا :

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (المؤمنون : 99)

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو۔

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون : 100)

تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔

آخری وقت میں تو فرعون نے بھی توبہ کر لی تھی

مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

«آٰلْـٰٔنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْن» [ یونس : ۹۱ ]

’’کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔‘‘

یہ دھوکہ ہے کہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے

اگر کبھی قبرستان میں جانا ہو تو بہت سی قبریں ایسی بھی ملیں گی جن میں مدفون لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ ابھی تو ہم جوان ہیں ابھی تو لمبا عرصہ زندہ رہیں گے لیکن انہیں اچانک موت نے دبوچ لیا پھر جب آنکھ کھلی تو اندھیری قبر میں ہی کھلی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ : الصِّحَّةُ ، وَالْفَرَاغُ ( بخاری 6412)

” دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کے متعلق دھوکے میں ہیں، صحت اور فراغت۔“

03.اللہ تعالیٰ کے سامنے رونا شروع کر دیں

‏كان في وجه عمر بن الخطاب خطَّان أسودان من البكاء. (شعب الإيمان للبيهقي ٢٤٠/٢)

امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے چہرے پہ بہت زیادہ رونے کی وجہ سے دو سیاہ لکیریں پڑ گئی تھیں!

امام ابن الجوزي رحمه الله فرماتے ہیں :

شب کی تاریکیوں میں اللہ کے سامنے بیٹھو،” تو بچوں کا طریقہ اپناؤ؛ بچہ روتا ہے، اور پھر اپنی مراد پا کر رہتا ہے (المدهش : 219/1)

رونے والی آنکھ جہنم میں نہیں جائے گی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :

عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ( ترمذي ،1639 صحيح)

‘ دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اورایک وہ آنکھ جس نے راہ ِجہاد میں پہرہ دیتے ہوے رات گزاری ہو’

‏مالک ارض و سماء کی رحمت دیکھیں کہ سمندروں اور دریاؤں کا بادشاہ ہونے کے باوجود گناہ گار کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو کا دیکھنا چاہتا ہے

امام ابن منکدر رحمہ اللہ کے متعلق ہے

إذا بكى مسح وجهه ولحيته من دموعه ويقول:

بلغني أن النار لا تأكل موضعاً مسته الدموع. (سير أعلام النبلاء (٣٥٨/٥)

کہ جب روتے تھے تو اپنے چہرے اور داڑھی سے آنسو پونچھ کر فرماتے مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اس جگہ کو آگ نہیں کھاتی جسے آنسوؤں نے چھوا ہو

مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

البكـــــــاء على الخطيئة يحط الذنوب كما تحــط الـريح الورق اليابس. (الرقة والبكاء (٢٥)

گناہوں پر رونا انھیں یوں مٹا دیتا ہے جیسے ہوا خشک پتوں کو جھاڑ دیتی ہے!

ایک عربی شاعر نے کہا

يا رب إن عظُمت ذُنُوبي كَثرةً

فلقد علمتُ بأن عفوك أعظـــم

اے میرے رب! اگر میرے گناہ بہت زیادہ ہو گئے ہیں تو مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیری بخشش اس سے بھی زیادہ ہے

إن كان لا يرجوك إلا مُحسِــنٌ

فبمن يلوذُ و يستَجِيرُ المُجرِمُ

اگر تیری بخشش کی امید صرف نیک لوگوں کو ہی ہونی ہے تو پھر مجرم گناہگار کس کی پناہ لیں

أدعوك ربي كما أمرت تَضرُعـاً

فإذا رَدَدتَّ يدي فمن ذَا يَرحمُ

اے میرے رب! جس طرح تونے گڑگڑا کر دعا کرنے کا حکم دیا ہے میں اسی طرح تجھ سے مانگ رہا ہوں اگر تونے میرے ہاتھ خالی لوٹا دیے تو پھر کون ہے جو مجھ پر رحم کرے گا

مالي إليــك وسيلةٌ إلا الرَجَــــا

وجَميلُ عَطفِكَ ثم إني مُسلِــمُ

آپ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے امید، اور تیری خوبصورت نرمی کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے یا پھر یہ کہ میں مسلمان ہوں

04.آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلے

یوٹیوب پہ فلمیں دیکھ دیکھ کر تھک گیا تو کہہ دیا بس اب نہیں دیکھنی

مگر پرسوں ترسوں پھر دیکھنی شروع کر دیں

فرمایا :

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران : 135)

اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں۔

‏ ابن الجوزي رحمه الله فرماتے ہیں :

«ينبغي للعاقلِ أن يكونَ على خوفٍ من ذنوبه، وإن تابَ منها وبكى عليها».[صيد الخاطر ص 395]

عقل مند شخص کو اپنے گناہوں سے ڈرتے رہنا چاہیے اگرچہ وہ ان سے توبہ کرچکا ہو اور ان پر رو چکا ہو

05.گناہوں کو چھوڑ کر

جب گناہوں سے زبانی توبہ کرلی، معافی مانگ لی، اللہ تعالیٰ کے سامنے رو لیا تو پھر یہ بھی توبہ ہی میں شامل ہے کہ آئندہ بھی گناہوں کو چھوڑے رکھے برائی پر تمام تر قدرت اور موقع ہونے کے باوجود برائی نہ کرے ظاہراً اس برے کام میں نفع نظر آ رہا ہو پھر بھی نہ کرے

مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کا توبہ(اسلام قبول کرنے) کے بعد گناہ سے پکا بائیکاٹ

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد ( رضی اللہ عنھما ) کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔

کہنے لگی : ’’مرثد ہو؟‘‘

میں نے کہا : ’’مرثد ہوں۔‘‘

کہنے لگی : ’’مرحباً و اھلاً، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔‘‘

میں نے کہا : ’’عناق! اللہ نے زنا حرام کر دیا ہے۔‘‘

اس نے آواز دی، خیموں والو! یہ وہ آدمی ہے جو تمھارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔

چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہو گیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کر دیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے

[ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النور : ۳۱۷۷۔ نسائي : ۳۲۳۰۔ أبوداوٗد : ۲۰۵۱۔ مستدرک حاکم : 166/2، ح : ۲۷۰۱، و قال الألباني حسن الأسناد ]

دیکھیں برائی پر تمام تر قدرت رکھنے اور موقع میسر ہونے کے باوجود مرثد رضی اللہ عنہ نے کس طرح اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ ہونے سے بچائے رکھا

یہ ہوتی ہے توبۃ نصوحا

سو بندوں کے قاتل نے کیسے توبہ کی تھی

احادیثِ صحیحہ میں ننانوے آدمیوں کے بعد سوویں آدمی کے قاتل کی توبہ کا ذکر معروف ہے، جسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں موت آ گئی۔

[ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل، إن کثر قتلہ : ۲۷۶۶ ]

مگر یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس بندے نے صرف زبانی کلامی توبہ کی تھی یا عملی طور پر اپنے آپ کو قربان کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ہر قسم کے گناہوں بلکہ اپنی بہت سی چیزوں کو چھوڑ دیا تھا

ظاہر بات ہے کہ جو سو بندوں کا قاتل تھا وہ کوئی عام شخص نہیں تھا وہ کوئی پورا بدمعاش، ڈیرے ڈپے کا مالک، اچھی ٹھاٹھ باٹھ، نوکر چاکر، اور اثرورسوخ رکھنے والا شخص تھا کیونکہ کمزور آدمی کے لیے سو تو دور کی بات ہے ایک بندہ قتل کرنا بھی بہت مشکل کام ہوتا ہے مگر جب اس نے توبہ کی تو ایک تو یہ کہ گناہوں کی فکر لیے علماء کے دروازوں تک دوڑ دھوپ کرتا رہا اور دوسرا یہ کہ پھر اپنا علاقہ، وطن، کاروبار، نوکر چاکر، ڈیرہ ڈپہ اور اثر و رسوخ سب کچھ قربان کرکے نیک لوگوں کی تلاش میں چل نکلا

ایسے ہوتی ہے توبہ

06. ماضی میں سرزد ہونے والے گناہوں کے متبادل نیک اعمال کرکے

اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے نیک کام کرنا

عظیم ثقہ تابعی امام نافع مولی ابن عمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” أن ابن عمر، كان إذا فاتته صلاة العشاء في جماعة أحيى ليلته "

[كتاب المعجم لأبي يعلى الموصلي:١٨ بتحقيق المحدث إرشاد الحق الأثري ووثقه رجاله، حلية الأولياء لأبي نعيم:١/ ٣٠٣]

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی جب عشاء کی نماز؛ جماعت سے رہ جاتی تو بقیہ ساری رات بیدار رہ کر عبادت میں گزارتے تھے۔

ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا ] [ مسند أحمد : 153/5، ح : ۲۱۴۱۲۔ ترمذی : ۱۹۸۷۔ صحیح الجامع : ۹۷، وحسنہ الألبانی ]

’’برائی کے بعد ساتھ ہی نیکی کر تو یہ اسے مٹا دے گی۔‘‘

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ (المؤمنون : 4)

اور وہی جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ

اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ جو اوپر بیان ہوا ہے

اور دوسرا ترجمہ یہ ہے :”اور وہی جو پاک ہونے کے لیے (نیک اعمال) کرتے ہیں”

یعنی توبہ کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہرممکن صورت تک گناہ سے بچا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ ہوجائے تو پھر اس کی معافی تلافی کے لیے اس کے متبادل کوئی نیکی یا کئی نیکیاں کی جائیں

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (القصص : 54)

یہ لوگ ہیں جنھیں ان کا اجر دوہرا دیا جائے گا، اس کے بدلے کہ انھوں نے صبر کیا اور وہ بھلائی کے ساتھ برائی کو ہٹاتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہو جائے تو بعد میں نیک اعمال کر کے اس کا اثر ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں

جیسا کہ فرمایا :

« اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ » [ ھود : ۱۱۴ ]

’’بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘

اپنے گناہ سے پاک ہونے کے لیے لونڈی آزاد کردی

(معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے )کہا :

میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی ‘ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں‘مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا)لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط)حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا:

«ائْتِنِي بِهَا»

’’اسے میرےپاس لے آؤ۔‘‘

میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا

آپ نےاس سے پوچھا:

«أَيْنَ اللهُ؟»

’’اللہ کہا ں ہے؟ ‘‘

اس نےکہا : آسمان میں۔

آپ نےپوچھا : «مَنْ أَنَا؟» ’’میں کون ہوں؟‘‘

اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں ۔

تو آپ نے فرمایا:«أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے

(مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ،بَابُ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ،1199)

نماز روزہ اور صدقہ کے ذریعے گناہوں کی معافی تلافی

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا

فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ (بخاری ،باب الصدقة تكفر الخطيئة، 1368)

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

اور جیسے اس آیت میں ہے

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (الليل : 17)

اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔

الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (الليل : 18)

جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آنحضور نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔

أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ

کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ (بخاری،6823)

کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا۔ یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد

ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ اور توبہ

حضرت ماعز اسلمی صحابی مرتبہ میں اولیاءاللہ سے بھی بڑھ کر تھے۔ ان کا صبر واستقلال قابل صد تعریف ہے کہ اپنی خوشی سے زنا کی سزا قبول کی، سخت تکلیف برداشت کی اور جان دینی گوارا کی مگر آخرت کا عذاب پسند نہ کیا

مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑ لیا لیکن پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگئے ( اور زنا کا اقرار کیا ) پھر انہوں نے اپنے اوپر چار مرتبہ شہادت دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ، تم پاگل تو نہیں ہو ، کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، پھر آپ نے پوچھا کیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ہو چکی ہے

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید گاہ پر رجم کرنے کا حکم دیا ۔ (بخاری، كِتَابُ الطَّلاَقِ،5270)

عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک غلطی سے پاک ہونے کے لیے بہت سی نیکیاں کیں

صحیح بخاری کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ جب صلح حدیبیہ طے ہو چکی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے کہا، کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’تو ایسے میں ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یقینا میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میری مدد کرنے والا ہے۔‘‘ میں نے کہا : ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کیا میں نے تمھیں یہ بتایا تھا کہ ہم اسی سال اس میں جائیں گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یقینا اس میں جانے والے اور اس کا طواف کرنے والے ہو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، میں نے کہا : ’’اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے کہا : ’’تو پھر ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’اے (اللہ کے) بندے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘ میں نے کہا: ’’کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں جاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ انھوں نے کہا : ’’تو تم یقینا اس میں جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ زہری کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :

فَعَمِلْتُ لِذٰلِكَ أَعْمَالاً [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد… : ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ]

’’پھر میں نے اس (جلد بازی کے کفارے) کے لیے کئی اعمال کیے۔‘‘