توحید ربوبیت سے توحید الوہیت تک

اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الۡاَلۡبَابِ ۞ (آل عمران 190)

بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔

جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرماں روا کی پہچان ہوجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقیناً اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔

اور اس سے اللہ تعالی کی قوت اور شان و شوکت کا بھی خوب اندازہ ہوجاتا ھے کہ جب یہ نظام کائنات اتنا مضبوط ہے تو اسے چلانے والی ذات باری تعالی کتنی مضبوط ہوگی

اس میں عقلوں والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اکیلے مالک ہونے کی، اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کاریگری کی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حاکمیت کی بہت سی نشانیاں ہیں

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا

اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَالۡفُلۡكِ الَّتِىۡ تَجۡرِىۡ فِى الۡبَحۡرِ بِمَا يَنۡفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡيَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ کُلِّ دَآ بَّةٍ وَّتَصۡرِيۡفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ ۞ (البقرہ 164)

بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔

اس آئت مبارکہ کے آخری الفاظ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ پر غور کریں یہ الفاظ بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ اے عقل رکھنے والو خوب سمجھ لو کہ

آسمان و زمین کی تخلیق

دن اور رات کے بدلنے

کشتیوں کے چلنے

بارشوں کے برسنے

بنجر زمین کے زرخیز ہونے

آبادی کے پھیلنے

ہواوں کے پھرنے

اور بادلوں کے زمین و آسمان کے درمیان معلق ہونے کے پیچھے ضرور کسی مضبوط ذات کی کاریگری ھے اور وہ ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات ھے

اگر کسی کا ایمان اللہ کے متعلق تذبذب کا شکار ہو تو یہ اس کی بد قسمتی ھے

جیسا کہ فرمایا

ۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ ۞ (ابراہیم 10)

کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے ؟

علم تاریخ کے ماہر علامہ ابن خلدون نے "مقدمہ ابن خلدون” میں ایک بات بڑی پیاری بات لکهی ہے کہ "امور اخرت ومعاملات حشر ونشر وتقدیرات الھیہ اور کنہئہ نبوت کو میزان عقل میں نہیں تولا جاسکتا کیونکہ یہ عظیم الشان امور ہیں اور میزان عقل اتنی قوی نہیں کہ ان میں یہ سب امور وزن ہوسکیں –

ھاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالی پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور دلی اطمینان کے لیے نظام کائنات پر غورو خوض ضرور کرنا چاہیے انسان کو خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنے میں یہ چیزیں بہت مدد فراہم کرتی ہیں

جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام کے متعلق قرآن میں نقل ھے

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞ (البقره 260)

اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب ! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا اور کیا تو نے یقین نہیں کیا ؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کرلے۔ فرمایا پھر چار پرندے پکڑ اور انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے، پھر انھیں بلا، دوڑتے ہوئے تیرے پاس آجائیں گے اور جان لے کہ بیشک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور احکام ان کے پاس آتے رہتے تھے، ان کو مردوں کے جی اٹھنے میں کوئی شک نہ تھا مگر انھوں نے آنکھوں سے دیکھ لینا چاہا، انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (ابن کثیر )

توحید ربوبیت کے ذریعے توحید الوہیت کی پہچان کروانا خود اللہ رب العزت کی سنت اور طریقہ ھے

فرمایا

اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَاَنۡزَلَ لَـكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً‌ ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهۡجَةٍ‌ ۚ مَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُـنۡۢبِتُوۡا شَجَرَهَا ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ ؕ بَلۡ هُمۡ قَوۡمٌ يَّعۡدِلُوۡنَ ۞ (النمل 60)

(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمہارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے ؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔

اس آئت مبارکہ کے الفاظ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا پر غور کریں

یہ اس خیال کی تردید ہے جو انسان کے ذہن میں آجاتا ہے کہ زمین کو ہم بناتے ہیں، بیج ہم ڈالتے ہیں، پانی ہم دیتے ہیں، غرض یہ باغ اور کھیتیاں اگانے والے ہم ہیں۔

فرمایا، تمہارے بس ہی میں نہ تھا کہ تم ان باغات کے درخت اگاتے، یہ ہم ہیں جنھوں نے رونق اور خوبی والے یہ باغ اگائے ہیں،

جیسا کہ فرمایا :

(اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ) [ الواقعۃ : ٦٣ تا ٦٧ ]

” پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو ؟ کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کردیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ بیشک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔ بلکہ ہم بےنصیب ہیں۔ “

قرآن کی ایک اور آئت ہمیں پکڑ پکڑ کر کہہ رہی ہے کہ اے لوگو پہچانو تمہارا رب اور معبود کون ھے فرمایا

اَمَّنۡ جَعَلَ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنۡهٰرًا وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِىَ وَجَعَلَ بَيۡنَ الۡبَحۡرَيۡنِ حَاجِزًا‌ ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞ (النمل 61)

(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنادی ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے ؟ بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔

اے لوگو اس جملے

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا یا کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا۔

پر غور کرو اور دیکھو کہ زمین کیسے پانی کے اوپر ، ہوا میں معلق ہونے اور تیز رفتاری کے ساتھ دوڑنے کے باوجود ساکن اور ٹھہری ہوئی ھے

مفسر عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

ہماری زمین اپنے محور کے گرد تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور اس کا یہ چکر ٢٤ گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے

ہماری زمین سورج سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کے گرد بھی ایک سال میں ایک گردش پوری کرتی ہے، اس دوران اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ ہوتی ھے ۔

ان دونوں قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم محسوس تک نہیں کرسکتےکہ کبھی کوئی جھٹکا یا ہچکولا بھی لگا ہو ، بلکہ آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔

دنیا میں آج تک کوئ گاڑی یا جہاز ایسا ایجاد نہیں ہوا کہ جو اتنی تیز رفتاری سے چلے اور اس کے اندر بیٹھنے والوں کو ہچکولے نہ لگتے ہوں

یہ زمین کے جائے قرار ہونے کا ایک مفہوم ھے

اور صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلے ان گردشوں کی وجہ سے ہچکولے کھاتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیے کہ ہچکولے کھانا بند ہوگئی اور دوسری تمام اشیاء کے لیے قرار بن گئی۔

کہتے ہیں کہ صانع اپنی صنعت اور کاریگر اپنی کاریگری سے پہچانا جاتا ھے

غور کریں کہ اگر زمین ہمیشہ سورج کے سامنے رہتی تو زمین کے نصف حصہ پر تو ہمیشہ دن چڑھا رہتا اور باقی نصف پر ہمیشہ رات ہی رہتی، اس طرح پوری کی پوری زمین، نباتات اور سب جانداروں کے لیے بالکل ناکارہ ثابت ہوتی۔ اس لیے کہ نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشو و نما کے لیے جیسے دن کی ضرورت ہے ویسے ہی رات کی بھی ضرورت ہے۔

سائنس دانوں کا بیان ہے کہ زمین سے سورج تک خلائی راکٹ سے سفر کریں تو مستقل پرواز میں سات سال کی مدت درکار ہوگی ۔اور سورج کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ صانع اپنی صنعت سے پہچاناجاتاہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کریں کہ ایسی بھاری بھر کم چیز خلامیں کس کے کنٹرول سے قائم ہے ؟ آخر کس نے سورج کو زمین سے نو کروڑ تیرہ لاکھ کی بلندی پر پہنچایا ؟ کس کی قدرت سے سورج خلا میں معلق ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ حج میں اس کا جواب دے دیا ہے:

اللہ تعالی سماوی کائنات کو روکے ہوے ہے اور اپنے کنٹرول میں لئے ہوے ہے کہ وہ زمین پر گرنہ جائیں مگر جب اس کی اجازت ہوجاے گی تو زمین وآسمان باہم ٹکراجائیں گے، بیشک اللہ تعالی اپنے اس کنٹرول کے ذریعہ لوگوں پر رحمت وشفقت فرمارہاہے ۔ (سورة الحج

زمین سے سورج کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلے سے کم ہوتا تو تمام مخلوق گرمی کی شدت اور تپش سے مرجھا جاتی اور بالآخر ختم یا تباہ ہوجاتی اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو اتنی زیادہ سردی ہوتی کہ تمام تر مخلوق سردی سے ٹھٹھر جاتی اور بالآخر تباہ یا ہلاک ہوجاتی۔ اس طرح بھی یہ زمین مخلوق کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی

اسی طرح ہماری زمین سے اوپر پانچ چھ سو میل کی بلندی تک کثیف ہوا کا کرہ بنا کر زمین کو آفات سماوی یا فضائی سے محفوظ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً دو کروڑ شہاب ثاقب روزانہ ٣٠ میل فی سیکنڈ کی برق رفتاری سے ہماری زمین کا رخ کرتے ہوئے گرتے ہیں۔ جب وہ اس کرۂ ہوائی میں پہنچتے ہیں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے اور وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر بعض اوقات زیادہ بڑی جسامت والا شہاب زمین پر گر بھی پڑتا ہے اور زمین میں گہرا گڑھا ڈال دیتا ہے، لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے، جیسا اللہ کو منظور ہوتا ہے، عام حالات میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے گرد کرۂ ہوائی کا یہ انتظام نہ فرماتے تو زمین کبھی محفوظ جائے قرار نہیں بن سکتی تھی۔ “ (تیسیر القرآن)

اللہ تعالی کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فرمایا

وَجَعَلَ بَيۡنَ الۡبَحۡرَيۡنِ حَاجِزًا‌

اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنادی

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا

وَهُوَ الَّذِىۡ مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ هٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ وَّهٰذَا مِلۡحٌ‌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخًا وَّحِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ۞ (الفرقان 53)

اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا، یہ میٹھا ہے، پیاس بجھانے والا اور یہ نمکین ہے کڑوا اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط آڑ بنادی۔

اس کی ہم معنی آیت سورة رحمن میں ہے :

(مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ ) [ الرحمٰن : ١٩، ٢٠ ]

” اس نے دو سمندروں کو ملادیا، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے

دو سمندروں کو اس طرح ملانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس کا واضح مشاہدہ جزیروں پر ہوتا ہے، جہاں سمندر کے سخت نمکین پانی کے ساتھ ہی میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح زمین کے نیچے موجود پانی کے دو سمندر ہیں، جن میں سے ہر ایک کی رو دوسرے کی رو کے بالکل ساتھ چل رہی ہے، ایک جگہ نلکا لگائیں تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور بعض اوقات اس کے قریب ہی دوسرا نلکا لگانے سے نمکین پانی نکلتا ہے، حتیٰ کہ دیوار کی ایک طرف کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور دوسری طرف کا نمکین، نہ یہ اس کی نمکینی میں دخل دیتا ہے اور نہ وہ اس کی شیرینی میں۔ “

تفہیم القرآن میں ہے : ” خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب ” مرأۃ الممالک “ میں (جو سولھویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے) خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے، اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے انھی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی، بعد میں ” ظہران “ کے پاس کنویں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ “

اسی پانی کی نعمت کا احساس دلانے کے لئے ارشاد فرمایا

قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُكُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ يَّاۡتِيۡكُمۡ بِمَآءٍ مَّعِيۡنٍ  ۞ (الملک 30)

کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمہارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمہارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا ؟

اس آیت سے تعلق رکھنے والا ایک عجیب واقعہ صاحب کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے ، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ ( آمین) ۔

تفسیر القرآن الکریم از استاذنا الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالی

دن اور رات کی نعمت کا احساس دلانے کے لئے ارشاد فرمایا

قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمُ الَّيۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ مَنۡ اِلٰـهٌ غَيۡرُ اللّٰهِ يَاۡتِيۡكُمۡ بِضِيَآءٍ‌ؕاَفَلَا تَسۡمَعُوۡنَ ۞ (القصص آیت نمبر 71)

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی روشنی لے آئے ؟ تو کیا تم نہیں سنتے۔

قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمُ النَّهَارَ سَرۡمَدًا اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ مَنۡ اِلٰـهٌ غَيۡرُ اللّٰهِ يَاۡتِيۡكُمۡ بِلَيۡلٍ تَسۡكُنُوۡنَ فِيۡهِ‌ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ‏ ۞

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک دن کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی رات لے آئے، جس میں تم آرام کرو ؟ تو کیا تم نہیں دیکھتے۔

القصص آیت نمبر 72

وَلِلّٰهِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۞ (المنافقون آیت نمبر 7)

آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں

وَلِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ  ۞ (آل عمران 189)

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

آسمان اور زمین کی بادشاہی اور خزانوں کا اندازہ لگانے کے لیے سائنسدانوں کی اس تحقیق پر غور کریں

کائنات کی وسعت کا حال یہ ھے کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے، جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثوابت مشاہدہ کیے جا چکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج ہمارے سورج سے جسامت کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے، جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام قلب عقرب ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا، جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل ہے، گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے، روشنی کا یہ سفر آٹھ منٹ کا سفر ہے، گویا سورج ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر ہیں۔

یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا، وہ اللہ بہتر جانتا ہے

کائنات کی وسعت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اللہ تعالی کی وسعت اور قوةکا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا

فرمایا

*وسع کرسیه السموات والارض

یعنی اللہ تعالی کی کرسی اس ساری کائنات سے زیادہ وسیع ھے کہ جس کی پیمائش کرنے کے لیے تمہیں نوری سال کی اصطلاح ایجاد کرنا پڑی

اور اللہ تعالی کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک دوسرے سے کھربوں میل فاصلہ رکھنے والے ستاروں اور سیاروں پر مشتمل کائنات کو اللہ تعالی ایسے لپیٹ دیں گے جیسے کاتب اپنی کتب کو لپیٹ کر رکھ دیتا ھے

فرمایا

يَوۡمَ نَـطۡوِىۡ السَّمَآءَ كَطَـىِّ السِّجِلِّ لِلۡكُتُبِ‌ ؕ كَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِيۡدُهٗ‌ ؕ وَعۡدًا عَلَيۡنَا‌ ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيۡنَ ۞ (الانبیاء 104)

جس دن ہم آسمان کو کاتب کے کتابوں کو لپیٹنے کی طرح لپیٹ دیں گے۔ جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، یقینا ہم ہمیشہ (پورا) کرنے والے ہیں

دوسری آیت میں ہے

وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ) [ الزمر : ٦٧ ]

ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ (بخاری)

اللہ تعالی زمین کو مٹھی میں لیں گے اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ سے لپیٹ لیں گے پھر کہیں گے اے لوگو میں ہی بادشاہ ہوں کہاں ہیں دنیا کے بادشاہ

اللہ تعالی کا علم کس قدر وسیع ھے کہ پوری دنیا میں کسی درخت کا کوئی پتہ، زمین کی گہرائیوں میں کوئی دانہ اور نہ ہی کوئی خشک اور تر چیز ایسی ہے جو اللہ تعالی سے اوجھل ہو

فرمایا

وَعِنۡدَهٗ مَفَاتِحُ الۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ‌ؕ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ‌ؕ وَمَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞ (الانعام 59)

اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔

*اے لوگو

کیا اتنے عظیم الشان خالق و مالک کا حق نہیں بنتا کہ ہم اس کی عبادت کریں

اس کے کہنے پر روزہ رکھیں

اس کے کہنے پر نمازیں پڑھیں

اس کے کہنے پر مساجد کو آباد کریں*

مگر افسوس کہ انسان نے اللہ تعالی کی ویسے قدر ہی نہیں کی جیسے اس کی قدر کرنے کا حق ہے

فرمایا

وَمَا قَدَرُوْا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖ ‌ۖ ۞

اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، ۔

اتنی بڑی قوت، طاقت اور شان و شوکت کا مالک ساری کائنات کا رب ہمیں کہہ رہا ہے کہ اے لوگو تم پر روزے فرض کیے گئے مگر افسوس کہ ہم آگے سے ایک سو ایک نخرہ کرکے دکھاتے ہیں اور گویا اللہ رب العزت کو یہ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ حکم ہماری نازک طبعی پر بہت گراں گزرتا ھے

سچ بات تو یہ ھے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ھے کہ ہمیں چودہ، پندرہ گھنٹے کی بھوک اور پیاس برداشت کرنے والی ذات کتنی عظیم ذات ھے

اگر ہمیں اس بات کا احساس ہوتا تو شاید ہم خوشی سے ہی مر جاتے اور اپنے مقدر پر رشک کرتے کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ رب العزت کی طرف سے روزے رکھنے کا پیغام ملا ھے

لیکن اے غفلت میں زندگی گزارنے والے انسان یاد رکھنا کہ تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ھے

خود اللہ تعالی نے فرمایا

اِنَّ بَطۡشَ رَبِّكَ لَشَدِيۡدٌ ۞ (البروج 12)

بےشکتیرے رب کی پکڑ یقینا بہت سخت ہے۔

اور فرمایا

نَبِّئۡ عِبَادِىۡۤ اَنِّىۡۤ اَنَا الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُۙ ۞

وَاَنَّ عَذَابِىۡ هُوَ الۡعَذَابُ الۡاَلِيۡمُ ۞

میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بیشک میں ہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہوں۔

اور یہ بھی کہ بیشک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین