تکبر اور اس کی تباہ کاریاں

اہم عناصرِ خطبہ :

01.بڑائی صرف اللہ تعالی کیلئے

02. سابقہ اقوام اور تکبر

03. تکبر کی انواع واقسام

04.تکبر کے اسباب

05. حدیث نبوی میں تکبر کی وضاحت

06. تکبر کی مختلف صورتیں

07.تکبر کے خطرناک نتائج

08. تواضع ، عاجزی اورانکساری کی اہمیت وفضیلت

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! آج ہمارا موضوع ہے : ’ تکبر اور اس کی تباہ کاریاں ‘

لفظ تکبر ’کبر ‘ سے ہے اور اس کا معنی ہے : بڑائی ، جو کہ صرف اللہ تعالی کیلئے ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم گرامی ہے : المتکبر اور اس کا معنی ہے : بڑائی والا

اسی طرح اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم گرامی ہے : الکبیر اور اس کا معنی ہے : سب سے بڑا

اسی طرح اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم گرامی ہے : المتعال اور اس کا معنی ہے : بلند وبالا اور عالی شان والا

دیگر اسمائے حسنی کی طرح ان اسمائے مبارکہ میں بھی اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ اکیلا ہی ان کا مستحق ہے اور ہر قسم کی بڑائی وکبریائی اسی کیلئے خاص ہے۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ الجاثیۃ45 :37

’’ اور آسمانوں اور زمین میں کبریائی ( بڑائی ) اسی کیلئے ہے ۔ اور وہ زبردست اور بہت ہی حکمت والا ہے ۔‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (( یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی : اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِیْ وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِیْ، فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْہُمَا قَذَفْتُہُ فِی النَّارِ))

’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : کبریائی (بڑائی ) میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار بند ہے ۔ لہذا جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا ، تومیں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا ۔‘‘

وفی روایۃ :(( أَلْقَیْتُہُ فِی جَہَنَّمَ ))

دوسری روایت میں فرمایا : ’’میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد :4090، سنن ابن ماجہ :4174۔ وصححہ الألبانی

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ’بڑائی ‘ صرف اور صرف اللہ تعالی کیلئے ہے ۔ اور اس کا خاص لباس ہے ۔ اور جو شخص بھی اسے اللہ تعالی سے چھین کر خود پہننے کی کوشش کرے گا یعنی بڑا بننے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالی اسے جہنم کی آگ میں پھینک دے گا ۔ والعیاذ باللہ

سامعین کرام ! تکبر بد بختی کی چابی ہے ۔ یعنی بد بختی کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے ۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل ابلیس کی بد بختی کی ابتداء ہے ، جس نے اللہ تعالی کا حکم ماننے سے انکار کیا اور بڑائی کے زعم میں مبتلا ہو کر آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بہتر گرداننے لگا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت سے ہمیشہ کیلئے دھتکار دیا اور اسے قیامت تک کیلئے ملعون قرار دے دیا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ﴾ البقرۃ2 :34

’’ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں شامل ہوگیا ۔ ‘‘

پھر جب اللہ تعالی نے اس سے پوچھا کہ ﴿مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ﴾

’’ جب میں نے تمھیں حکم دیا تو تمھیں سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا ؟ ‘‘

تو اس نے کہا : ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ الأعراف7 :12

’’ میں اس سے ( آدم سے ) بہتر ہوں ،کیونکہ تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے ۔ ‘‘

تب اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْن﴾ الأعراف7 :13

’’ نیچے اتر یہاں سے ، تیرا حق نہ تھا کہ تو اس میں تکبر کرتا ، لہذا نکل جا ، تو ذلیل لوگوں میں سے ہے ۔ ‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ﴿ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ٭وَّ اِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ الحجر15 :34۔35

’’ اللہ تعالی نے کہا : تو نکل جا اس سے ، کیونکہ تو مردود ہے ۔ اور یوم جزا تک تجھ پر لعنت ہے ۔ ‘‘

اس سے معلوم ہواکہ بدبختی کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی کہ تکبر کے نتیجے میں تکبر کرنے والے شخص پر اللہ تعالی کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ اللہ تعالی کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے ۔

تکبر اور سابقہ اقوام

جب ہم پچھلی امتوں کے حالات وواقعات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے وہ لوگ جو تکبر کرتے تھے ، وہ اپنی طرف بھیجے گئے انبیاء ورسل علیہم السلام کی دعوت کو سب سے پہلے ٹھکراتے تھے اور اپنے اندر کمزور لوگوں کو بھی ان کی دعوت کو قبول کرنے سے منع کرتے تھے ۔

٭ چنانچہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت ِ توحید پیش کی اور فرمایا :

﴿اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ﴾ ہود11 :26

’’ تم اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو ۔ میں تمھارے اوپر المناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔ ‘‘

تو قوم کے سرداروں ، وڈیروں اور چوہدریوں کا جواب کیا تھا ؟

فرمایا : ﴿ فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ وَ مَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ م بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ﴾ ہود11: 27 ’’ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جواب دیا : ہم تو تجھے اپنے ہی جیسا آدمی خیال کرتے ہیں اور جو تیرے پیروکار ہیں وہ بادی النظر میں ہمیں ذلیل معلو م ہوتے ہیں ۔ اور ہم نہیں سمجھتے کہ تم لوگوں کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل ہے ۔ بلکہ ہم تو تمھیں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ ‘‘

٭ اور قوم عاد کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے :

﴿ فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ﴾

’’ رہی قوم عاد تو انھوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہنے لگے : ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ ‘‘

اللہ تعالی نے ان کی اس بات کا جواب یوں دیا :

﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَّکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ﴾ حم السجدۃ41 :15

’’ کیا انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ جس نے انھیں پیدا کیا ہے وہ ان سے یقینا زیادہ طاقتور ہے ۔ اور وہ ہماری

آیات کا انکار کرتے رہے ۔ ‘‘

٭اور قوم ثمود کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤمِنُوْنَ﴾ الأعراف7 :75

’’ ان( صالح علیہ السلام )کی قوم کے متکبر سرداروں نے ان کمزور لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لا چکے تھے ، ان سے کہا :کیا تمھیں یقینی علم ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے رسول ہے ؟تو انھوں نے کہا : جو کچھ انھیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم تو اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ ‘‘

چنانچہ متکبر سرداروں نے جواب دیا :﴿ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْن ﴾ الأعراف7 :76 ’’جس پر تم ایمان لائے ہو ہم تو اسے ماننے والے نہیں ۔ ‘‘

٭اسی طرح قوم مدین کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ﴾ الأعراف7 :88

’’ ان ( شعیب علیہ السلام ) کی قوم میں سے متکبر سرداروں نے کہا : شعیب ! ہم آپ کو اور جو لوگ آپ پر ایمان لا چکے ہیں ، ان سب کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے ۔ یا پھر تمھیں ہمارے دین میں واپس آنا ہو گا ۔ ‘‘

٭ اسی طرح بنو اسرائیل سے اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مبِمَا لاَ تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :87

’’ پھر جب کوئی رسول تمھارے پاس ایسی چیز لایا جو تمھاری خواہش کے خلاف تھی تو تم نے تکبر کیا ۔ چنانچہ تم نے رسولوں کے ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرڈالا ۔ ‘‘

٭ اسی طرح قارون ، فرعون اور ہامان کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ لَقَدْ جَآئَ ھُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا کَانُوْا سٰبِقِیْنَ ﴾ العنکبوت29 :39

’’ اور قارون ، فرعون اور ہامان ( کو بھی ہم نے ہلاک کیا ) جن کے پاس موسی ( علیہ السلام ) واضح معجزات لے کر

آئے ، مگر انھوں نے زمین میں تکبر کیا ۔ حالانکہ وہ ہم سے آگے نہیں جا سکتے تھے ۔ ‘‘

قارون نے اپنے بے شمار خزانوں کی بناء پر تکبر کیا اور اللہ کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن اس کے خزانے اسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے ۔ بلکہ اللہ تعالی نے اسے اور اس کے خزانوں کو زمین میں دھنسا دیا ۔

اور جہاں تک فرعون کا تعلق ہے تو وہ اپنی بادشاہت کی بناء پر تکبر کرتا تھا اور وہ اپنی قوم سے کہا کرتا تھا :

﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ﴾ النازعات79 :24 ’’ میں ہی تمھارا سب سے اونچا رب ہوں ۔ ‘‘

اور اس کے اور اس کے لشکر کے تکبر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَ اسْتَکْبَرَ ھُوَ وَ جُنُوْدُہٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ ﴾ القصص28 :39

’’اور فرعون اور اس کے لشکر نے زمین میں نا حق تکبر کیا اور انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ہمارے حضور واپس نہ لائے جائیں گے ۔ ‘‘

پھر اس کے اور اس کے لشکر کے انجام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

﴿ فَاَخَذْنٰہُ وَ جُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ قصص28:40

’’ چنانچہ ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑا اور انھیں سمندر میں پھینک دیا ۔ اب آپ دیکھ لیں کہ ان ظالموں کا انجام کیا ہوا ! ‘‘

سامعین کرام ! یہ حال تھا سابقہ اقوام کا ۔ جو ہم نے اس لئے بیان کیا ہے کہ ان لوگوں نے تکبر کا مظاہرہ کیا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انھیں مختلف عذابوں سے دو چار کیا ۔

٭ اسی طرح کفار مکہ کو جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ِتوحید پیش کی تو انھوں نے بھی تکبر کیا ۔ اللہ تعالی ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ اِِنَّہُمْ کَانُوْٓا اِِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْٓا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْن﴾ الصافات37 : 35۔36

’’ انھیں جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں اور کہتے ہیں : کیا ہم ایک مجنون شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں ؟ ‘‘

اللہ تعالی نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا : ﴿ بَلْ جَآئَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِیْن٭ اِِنَّکُمْ

لَذَآئِقُو الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ ﴾ الصافات37 :37۔ 38

’’ بلکہ وہ ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) حق کو لائے ہیں اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی ہے ۔ تمھیں ہی درد ناک عذاب چکھنا پڑے گا ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآئَنَا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا ﴾ الفرقان25 :21

’’ اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے ؟ یا ہم ہی اپنے رب کو دیکھ لیں ! یہ اپنے دلوں میں بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بڑی سرکشی میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰہُمْ اِِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ اِِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِیْہِ ﴾ غافر40:56

’’ جو لوگ بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں ، ان کے دلوں میں تکبر بھرا ہوتا ہے ، مگر وہ اس بڑائی کو پا نہیں سکتے ( جس کی آرزو رکھتے ہیں ) ‘‘

یہ تو مکہ کے کافروں کا حال تھا ۔

اس کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقوں کا سامنا کرنا پڑا جو ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا دعوی کرتے تھے لیکن اپنے دلوں میں کفر کو چھپاتے تھے اور کافروں سے خفیہ تعلقات استوار کرتے تھے ۔ اللہ تعالی ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

﴿وَاِِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُئُوْسَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ﴾ المنافقون63 :5

’’اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ آؤ تمھارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغفرت طلب کریں تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں اور آپ انھیں دیکھتے ہیں کہ وہ از راہ تکبر آنے سے رک جاتے ہیں ۔ ‘‘

محترم سامعین ! اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبر انتہائی سنگین جرم ہے ۔ جو سب سے پہلے ابلیس نے کیا ، پھر مختلف انبیاء علیہم السلام کی اقوام بھی اسی تکبر میں مبتلا ہوئیں ۔ حتی کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں نے بھی تکبر کا مظاہرہ کیا ۔ اور مدینہ منورہ میں منافقوں نے بھی اسی سنگین گناہ کا ارتکاب کیا ۔ معلوم ہوا کہ تکبر کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کا شیوہ ہے ۔ لہذا ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں

دیتا کہ وہ تکبر میں مبتلا ہو ۔ بلکہ مسلمان اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اور اسی طرح وہ رب کے بندوں کے سامنے بھی بڑائی اور فخر وغرور کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ تواضع سے کام لیتا ہے ۔

اللہ رب العزت نے جہاں تکبر کرنے والے لوگوں اور ان کے انجام کا ذکر کیا ہے وہاں اس سے بچنے والے لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے ۔ بلکہ اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر جاندار مخلوق اور فرشتے اللہ تعالی کو سجدہ کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے :

﴿ وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَ﴾ النحل16 : 49۔50

’’آسمانوں اور زمین میں جتنی جاندار مخلوق ہے اور فرشتے بھی ، سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور کبھی تکبر نہیں کرتے ۔ وہ اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر ہے ۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

خاص طور پر فرشتوں کے متعلق ارشاد فرمایا :

﴿وَ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَنْ عِنْدَہٗ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَ٭ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ ﴾ الأنبیاء21 :19 ۔20

’’ ارض وسماوات میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ۔ اور جو( فرشتے ) اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے اکڑتے نہیں ۔ اور نہ ہی وہ اکتاتے ہیں ۔ وہ دن رات اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور کبھی دم نہیں لیتے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

﴿ اِنَّمَا یُؤمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن٭ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ السجدۃ32 : 15۔17

’’ہماری آیات پر تو وہی ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے کیا چیزیں ان کیلئے چھپا کر رکھی گئی ہیں۔یہ ان کاموں کا بدلہ ہو گا جو وہ کیا کرتے تھے ۔ ‘‘

تکبر کی انواع واقسام

محترم سامعین ! تکبر کی تین انواع واقسام ہیں :

01. اللہ تعالی پر تکبر کرنا ۔ جیسا کہ فرعون اور نمرود نے اللہ تعالی پر تکبر کیا ، یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالی سے بڑا جانا اور اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ۔

02. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تکبر کرنا ۔ جیسا کہ کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکبر کیا اور اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر گردانا اور آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا ۔

اورحضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ کھانا کھانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کُلْ بِیَمِیْنِکَ )) ’’ اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ کھاؤ ۔ ‘‘

تو اس نے کہا : ((لَا أَسْتَطِیْعُ )) ’’ میں طاقت نہیں رکھتا ۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا اسْتَطَعْتَ ، مَا مَنَعَہُ إِلَّا الْکِبْرُ))

’’ تو کبھی طاقت نہ رکھے ۔ اسے صرف تکبر نے ہی میری بات ماننے سے منع کیا ہے ۔‘‘

چنانچہ وہ اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ اپنے منہ کی طرف کبھی نہ اٹھا سکا ۔ صحیح مسلم : 2021

03. اللہ کے بندوں پر تکبر کرنا ، یعنی اپنے آپ کو ان سے بہتر تصور کرنا اور انھیں حقیر سمجھنا ۔

اور جو شخص اللہ کے بندوں پر تکبر کرتا ہے ، وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں ۔

چنانچہ بعض لوگ رنگ ونسل اور خاندان کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ جاہ ومنصب کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ مال ودولت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ حسن وجمال کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ طاقت وقوت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ ذہانت وفطانت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ علم وبصیرت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ اعلی ڈگری کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ اچھی خطابت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ اچھی قراء ت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں ۔

الغرض یہ کہ تکبر کی وجہ کوئی بھی ہو ، یہ ہر حال میں برا ہے او ر اس کا انجام بھی برا ہی ہوتاہے ۔

حدیث نبوی میں تکبر کی وضاحت

لفظ ’ کبر ‘ یا تکبر کی ہم وضاحت کرچکے ہیں ۔ تاہم یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کی تشریح بزبان نبوت بھی سن لیں ۔

جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ))

’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو ۔‘‘

سامعین گرامی ! حدیث مکمل کرنے سے پہلے آپ ذرا غور کریں کہ تکبر کتنا سنگین گناہ ہے ! اِس قدر بڑا گناہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر پایا جاتا ہو اور وہ اُس سے توبہ کئے بغیر مر جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔والعیاذ باللہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ایک شخص نے کہا :

(( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَن یَّکُونَ ثَوبُہُ حَسَنًا وَنَعْلُہُ حَسَنًا ))

اے اللہ کے رسول ! بے شک ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ( تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، اَلْکِبْرُ بَطْرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )) صحیح مسلم : 91

’’ بے شک اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔ کبر حق کو ٹھکرا نے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ جب حضرت نوح علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور فرمایا :

(( آمُرُکَ بِاثْنَتَیْنِ وَأَنْہَاکَ عَنِ اثْنَتَیْنِ ))

’’ میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں ۔ ‘‘

(( آمُرُکَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَإِنَّ السَّمَاوٰتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ السَّبْعَ لَوْ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّۃٍ ، وَوُضِعَتْ لَا

إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فِیْ کَفَّۃٍ ، رَجَحَتْ بِہِنَّ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَلَوْ أَنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ السَّبْعَ کُنَّ حَلَقَۃً مُبْہَمَۃً إِلَّا قَصَمَتْہُنَّ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ))

’’میں تمہیں ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ) کے پڑھنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ والا پلڑا زیادہ وزنی ہو گا ۔ اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کسی بند دائرے میں ہوتے تو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ انھیں تباہ کردیتا ۔‘‘

((وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، فَإِنَّہَا صَلَاۃُ کُلِّ شَیْئٍ وَبِہَا یُرْزَقُ الْخَلْقُ ))

’’ اور میں تمہیں ( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ) کے پڑھنے کا حکم بھی دیتا ہوں کیونکہ یہ ہر چیز کی دعا ہے اور مخلوق کو اسی کے ذریعے رزق دیا جاتا ہے۔ ‘‘

(( وَأَنْہَاکَ عَنِ الشِّرْکِ وَالْکِبْرِ )) ’’او رمیں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں۔ ‘‘

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا کسی اور صحابی نے پوچھا کہ شرک توہم جانتے ہیں ، کبر کیا ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْکِبْرُ سَفَہُ الْحَقِّ وَغَمْصُ النَّاسِ ))’’ کبر حق کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے ۔ ‘‘ مسند أحمد :6583۔ وصححہ الأرناؤط وکذا الألبانی فی الصحیحۃ :134

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ تکبر دو چیزوں کا نام ہے :

01. حق کو ٹھکرانا ۔ یعنی جب کسی کو قرآن وحدیث کی روشنی میں حق بات کا پتہ چل جائے ، تو وہ اسے ٹھکرا دے اور اسے قبول کرنے سے انکار کردے ۔

اور ’ حق ‘ کیا چیز ہے ؟ ’ حق ‘ وہ ہے جسے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔ یعنی قرآن وسنت

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ ﴾ محمد47 :2

’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے اور اس پر ایمان لائے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا اور وہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے ، تو وہ ان کے گناہوں کو مٹا دے گا اور ان کے حال کو سنوار دے گا ۔ ‘‘

لہذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ’ حق ‘ یعنی قرآن وحدیث کے سامنے سرِ تسلیم خم کردے اور اپنے آپ کو اس کے سامنے جھکا کر اس پر عمل کرے اور اس سے راہ فرار اختیار نہ کرے ۔ ورنہ یہ بات یاد رکھے کہ جو شخص دانستہ طور پر ’ حق ‘ کو ٹھکراتا ہے ، اس کو اللہ تعالی نے دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ لقمان31 :7

’’ اور جب اس کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انھیں سنا ہی نہیں ، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں ۔ لہذا آپ اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے ۔ ‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ﴾ الأعراف7: 40

’’بلا شبہ جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ، ان کیلئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے ۔ اور ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں ۔ ‘‘

02. لوگوں کو حقیر سمجھنا

یعنی اپنے آپ کو لوگوں سے بہتر تصور کرتے ہوئے انھیں حقیر سمجھنا ۔ یقینا یہ بھی تکبر میں شامل ہے ۔

اور اسی لئے اللہ تعالی نے دوسروں کا مذاق اڑانے اور ایک دوسرے کوبرے القاب کے ساتھ ذکر کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾ الحجرات49 :11

’’ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگاؤ ا ور نہ ایک دوسرے کا بُرا لقب رکھو۔ ‘‘

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ، لَا یَظْلِمُہُ وََلَا یَخْذُلُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ ، اَلتَّقْوَی ہٰہُنَا ۔ وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ۔ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ :

دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ)) صحیح مسلم :2564

’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا ، اسے رسوا نہیں کرتااور اسے حقیر نہیں سمجھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بارے فرمایا : تقوی یہاں ہوتا ہے ۔ کسی آدمی کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے ۔ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔‘‘

تکبر کی مختلف صورتیں

سامعین گرامی ! حدیث نبوی کی روشنی میں تکبر کی وضاحت کرنے کے بعد اب ہم اس کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں ۔

01. اکڑ کر چلنا

زمین پر اکڑ کر چلنا اور فخر وغرور کا مظاہرہ کرنا تکبر ہے ۔ جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ﴾ لقمان31 : 18

’’اور لوگوں ( کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا تصور کرتے ہوئے ) ان سے منہ نہ موڑنا ۔ اور زمین پر اکڑکر نہ چلناکیونکہ اللہ تعالی تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَتَبَخْتَرُ ،یَمْشِیْ فِی بُرْدَیْہِ ، قَدْ أَعْجَبَتْہُ نَفْسُہُ ، فَخَسَفَ اللّٰہُ بِہِ الْأَرْضَ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیْہَا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) صحیح مسلم :2088

’’ ایک آدمی اپنی دو چادریں پہنے ہوئے اکڑ کرچل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا ہو چکا تھا ۔ اسی دوران اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ۔ چنانچہ وہ قیامت تک اس کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے گا ۔ ‘‘

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ تَعَظَّمَ فِی نَفْسِہٖ أَوِ اخْتَالَ فِی مِشْیَتِہٖ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ)) السلسلۃ الصحیحۃ : 543

’’ جو شخص اپنے آپ کو بڑا جانے یا اکڑ کر چلے تو وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا ۔ ‘‘

لہٰذا مسلمان کو اکڑکر چلنے سے بچنا چاہئے ۔ اور اسے عاجزی اور انکساری کے ساتھ زمین پر چلنا چاہئے ۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی صفات میں سے سب سے پہلی صفت یہ بیان فرمائی ہے :

﴿ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾ الفرقان25 :63

’’ اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں ۔ ‘‘

02. کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا

کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی تکبر ہی کی ایک صورت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

(( مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ))

’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کرتے ہوئے گھسیٹے اس کی طرف اللہ تعالی قیامت کے روز دیکھنا بھی گوارا نہ کرے گا ۔ ‘‘

تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا کپڑا ایک طرف سے نیچے کو ڈھلک جاتا ہے الا یہ کہ میں ہر وقت اس کا خیال رکھوں ، تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : (( إِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِکَ خُیَلَائَ )) ’’ آپ یقینا ایسا تکبر کے ساتھ نہیں کرتے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :3665

اِس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کہ اگر تکبر نہ ہو تو کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکایا جا سکتا ہے ، کیونکہ اِس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہر وقت اپنے کپڑے کا خیال رکھتے تھے ، مگر ان کے جسم کے نحیف ہونے کی وجہ سے کپڑا پھر بھی نیچے کو ڈھلک جاتا تھا ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا کہ آپ تکبر سے نہیں لٹکاتے ۔

اور ہم ان لوگوں سے پوچھنا چاہتے ہیں جو اِس حدیث کو دلیل بنا کر کپڑا اپنے ٹخنوں سے نیچے لٹکاتے ہیں کہ کیا وہ بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح اپنے کپڑے کا ہر وقت خیال رکھتے ہیں کہ کہیں وہ نیچے کو نہ ڈھلک جائے ؟

یاد رہے کہ بغیر تکبر کے بھی کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بہت بڑا گناہ ہے ۔ جس کی تائید حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے ہوتی ہے ، جو بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ)) صحیح البخاری :5787

’’ جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے ۔ ‘‘

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

((ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ ، وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))

’’ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا ۔ اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا ۔ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار کہے ۔ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ یقینا ذلیل وخوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے ۔ یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ ، وَالْمَنَّانُ ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ)) صحیح مسلم : 106

’’ اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ ‘‘

ان تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے ۔ لہذا جو کپڑا بھی نیچے پہنا ہوا ہو ، شلوار ہو یا چادر ، پائجامہ ہو یا پینٹ ، اسے ٹخنوں سے اوپر ہی رکھنا چاہئے نیچے نہیں لٹکانا چاہئے خواہ تکبر نہ بھی ہو ۔ اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ تکبر بھی ہو تو یہ اور زیادہ سنگین گناہ ہے ۔ اور اس کی سزا بھی بہت سخت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ خَسَفَ اللّٰہُ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْأرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) صحیح البخاری:5790

’’ ایک آدمی اپنے تہ بند کو گھسیٹ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے اسے دھنسا دیا ۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے گا ۔ ‘‘

03. خود پسندی میں مبتلا ہونا

جی ہاں ، اپنے حسن وجمال ، یا خوبصورت لباس ، یا مال ودولت ، یا ذہانت وفطانت کی بناء پر خود پسندی میں مبتلا ہونا بھی تکبر ہی کی ایک صورت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّۃٍ تُعْجِبُہُ نَفْسُہُ ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَہُ ، إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ)) صحیح البخاری:5789 صحیح مسلم : 2088

’’ ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا ،

اسی دوران اچانک اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا ۔‘‘

اس حدیث میں غور فرمائیں کہ یہ آدمی اپنے حسن وجمال اور خوبصورت لباس کی وجہ سے خود پسندی کا شکار ہو گیا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ۔ والعیاذ باللہ

04.یہ پسند کرنا کہ اسے دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جائیں !

جی ہاں ، یہ بھی تکبر ہی کی ایک علامت ہے ۔

ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ آئے تو انھیں دیکھ کر عبد اللہ بن زبیر اور ابن صفوان کھڑے ہو گئے ۔ تو انھوں نے کہا : بیٹھ جاؤ ، کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

(( مَنْ سَرَّہُ أن یَّتَمَثَّلَ لَہُ الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ )) جامع الترمذی : 2755۔ حسنہ الترمذی وصححہ الألبانی

’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ لوگ اس کیلئے ( تعظیماً)کھڑے ہو جائیں تو وہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے ۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناپسند تھی ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ((لَمْ یَکُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَکَانُوا إِذَا رَأَوْہُ لَمْ یَقُومُوا لِمَا یَعْلَمُوْنَ مِنْ کَرَاہِیَتِہٖ لِذَلِکَ)) جامع الترمذی : 2754 وصححہ الألبانی

’’ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص نہ تھا ، اِس کے باوجود وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ آپ کو نا پسند ہے ۔‘‘

آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو تکبر کی تمام صورتوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

محترم سامعین ! پہلے خطبہ میں ہم تکبر کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں کرچکے ہیں ۔ اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے تکبر کیا اس کا انجام کیا ہوا ! اور سابقہ اقوام میں سے جن لوگوں نے تکبر کیا اللہ تعالی نے انھیں کس طرح مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار کیا ! اسی طرح ہم یہ بھی ذکر کر چکے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو اور اسی پر اس کی موت آجائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔

آئیے اب تکبر کے برے انجام کے بارے میں مزید کچھ گزارشات بھی سماعت فر ما لیجئے ۔

01. تکبر کرنے والے شخص کی طرف اللہ تعالی دیکھنا بھی گوارا نہ کرے گا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ ،وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ : شَیْخٌ زَانٍ ، وَمَلِکٌ کَذَّابٌ ، وَعَائِلٌ مُسْتَکْبِرٌ)) صحیح مسلم :107

’’ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا ، نہ انھیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا ۔ بوڑھا زانی ، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر ۔‘‘

02. تکبر کرنے والے شخص کو قیامت کے دن ہر طرف سے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُونَ یَومَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِی صُوَرِ الرِّجَالِ ، یَغْشَاہُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ ، فَیُسَاقُونَ إِلٰی سِجْنٍ فِی جَہَنَّمَ یُسَمّٰی : بُولَسَ ، تَعْلُوہُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ ، یُسْقَونَ مِنْ عُصَارَۃِ أَہْلِ النَّارِ طِیْنَۃِ الْخَبَالِ)) جامع الترمذی :2492 وقال :حسن صحیح ، وحسنہ الألبانی

’’ تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ ان کی شکلیں آدمیوں کی ہونگی ، لیکن وہ (اپنی جسامت کے لحاظ سے )چینوٹیوں کی طرح ہونگے ، انھیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپ لے گی ۔ پھر انھیں جہنم کی ایک جیل جس کا نام ’بولس ‘ ہے ، میں لے جایا جائے گا ۔ جہاں ایسی شدید آگ ان پر غالب آئے گی جو خود آگ کو جلانے والی ہوگی ۔ اور وہاں انھیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والی پیب پلائی جائے گی ۔ ‘‘

03. تکبر کرنے والوں کو اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا

ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ دو صحابی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمرو بن

العاص رضی اللہ عنہ مروہ پر ملے ، کچھ دیر بات چیت کی ، پھر عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ چلے گئے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کردیا ۔ تو ایک آدمی نے پوچھا : ابو عبد الرحمن ! آپ کو کس بات نے رلایا ؟ تو انھوں نے کہا : مجھے اِس (عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ کَبَّہُ اللّٰہُ لِوَجْہِہٖ فِی النَّارِ )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :2909

’’ جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو اسے اللہ تعالی جہنم کی آگ میں اوندھے منہ گرائے گا ۔ ‘‘

محترم حضرات !

تکبر کے ان خطرناک اور سنگین نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو اس سے مکمل طور پر بچنا چاہئے ۔ نہ ہم زمین پر اکڑ کر چلیں ، نہ خود پسندی کا شکار ہوں ، نہ اپنے کپڑے ٹخنوں سے نیچے لٹکائیں ، نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے اپنے آپ کو بڑا گردانیں اور نہ ہی اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ہم تواضع ، عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کریں ۔ کیونکہ جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے عزت ، بلندی اور ترقی نصیب کرتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ)) صحیح مسلم :2588

’’ اور جو شخص بھی اللہ کیلئے تواضع اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالی یقینی طور پر بلندی ورفعت نصیب کرتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( یَقُولُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : مَنْ تَوَاضَعَ لِی ہٰکَذَا ۔ وَجَعَلَ یَزِیْدُ بَاطِنَ کَفِّہٖ إِلٰی الْأَرْضِ وَأَدْنَاہَا ۔ رَفَعْتُہُ ہٰکَذَا ۔ وَجَعَلَ بَاطِنَ کَفِّہٖ إِلَی السَّمَائِ)) مسند أحمد: 309۔ وصححہ الأرناؤط

’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے لئے اس طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی کا باطن زمین کی طرف اور مزید نیچے کی طرف جھکاتے ہوئے کہا) عاجزی اختیار کرتا ہے ، میں اس کو اس طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی کا باطن آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا) بلندی نصیب کروں گا ۔‘‘

تواضع ، عاجزی اور انکساری کا جو اعلی نمونہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر پیش فرمایا ہمیں بھی اس کی اتباع کرنی چاہئے ۔

چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب اور کمزور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی دعوت قبول کرتے تھے ۔

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سوتے تھے حتی کہ آپ کے کندھوں پر نشانات پڑ جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز بھی چٹائی پر ہی پڑھتے تھے ۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو کاموں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے ہوئے کپڑے کو خود سی لیا کرتے تھے ۔

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تعریف میں غلو کرنے سے منع فرماتے تھے ۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے کہ نیا آنے والا شخص آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچان سکتا ۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت کرتے تھے ۔ جنازوں اور تدفین اموات میں شرکت فرماتے تھے ۔

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے بیٹھ کر کھاتے تھے اور فرماتے تھے : میں ایک غلام کی طرح بیٹھتا اور غلام کی طرح کھاتا ہوں ۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی حتی الامکان مدد کرتے تھے ۔ اور ان سے ہمدردی اور محبت وپیار کا اظہار کرتے تھے ۔

لہذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔

محترم سامعین ! آئیے آج کے خطبۂ جمعہ کا اختتام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حدیثوں پر کرتے ہیں :

01. حارثہ بن وہب الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ کُلُّ ضَعِیْفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ ))

’’ کیا میں تمھیں اہل ِ جنت کی خبر نہ دوں ؟ ہر کمزور اور اللہ کی خاطر عاجزی وانکساری کرنے والا ، اگر وہ اللہ تعالی کو قسم دے تو وہ اس کی قسم کو پورا کردے ۔ ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَہْلِ النَّارِ ؟ کُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ )) صحیح البخاری:4918، صحیح مسلم :2853

’’ کیا میں تمھیں اہل ِ جہنم کی خبر نہ دوں ؟ ہر تند مزاج جھگڑالو ، اکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا ۔ ‘‘

02. ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ فَارَقَ الرُّوْحُ جَسَدَہُ وَہُوَ بَرِیٌٔ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّۃَ : اَلْکِبْرُ وَالدَّیْنُ وَالْغُلُولُ)) صحیح الجامع للألبانی :6411۔ ورواہ ابن ماجہ :2412۔ وصححہ الألبانی

’’ جس آدمی کی روح اس کے جسم سے اس حالت میں نکلے کہ وہ تین چیزوں سے بری ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا : تکبر ، قرض اور خیانت ۔ ‘‘

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو اہل جنت میں شامل فرمائے اور ہمیں جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین