جادو كي حقيقت

جادو كي حقيقت و شرعي حيثيت , جنات , جادو ,

اور نظر بد كا مؤثر اور شرعي طريقه علاج

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد ! فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [البقرة : 102]

اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں جابجا جادو کی حقیقت کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔ اور قرآن مجید فرقان حمید کے مطالعہ سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ جادو ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے جادوگر کسی قدر انسانوں کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور جادوگر کا یہ نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت، اللہ تعالیٰ کا اذن اور اجازت ہوگی تو جادوگر جادو کے ذریعے نقصان پہنچا سکے گا۔ جیسا کہ ماتحت الاسباب بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اذن او ر اجازت کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فرمایا:

وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ

[ جامع الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع حـ 2516]

اے معاذ! اگر امت ساری کی ساری تجھے نفع پہنچانے کےلیے جمع ہوجائے تو جو اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں لکھا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نفع یہ تجھے نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر یہ سارے کے سارے اکھٹے ہوجائیں کہ تجھے نقصان پہنچادیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیرےمقدر میں لکھ دیا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا ہے: وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ[الإنسان : 30] تمہاری چاہت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی چاہت کے اندر،تمہاری چاہت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی چاہت کے تحت اور اس کی منشاء ومرضی کے تابع ہے۔اور پھر جادو کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے تفصیلی طور پر اس بات کو واضح کی اور بیان فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی اس آیت میں جو میں نے آپ کے سامنے ابتدأًٍ تلاوت کی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: "وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ ” لوگ سلیمان u کی باتوں کو چھوڑ کر ان کی باتوں کے پیچھے چل پڑے جو سلیمانu کی دورحکومت میں پڑھی جاتی تھیں۔جو جادو سیکھا سکھایا جاتا تھایہ اس جادو کے پیچھے لگ گئے۔” وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ ” سلیمان uنے کفر نہیں کیا ۔جادو سیکھنا، جادو سکھانا، جادو کرنا، جادوکرانا کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو کفر قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ سلیمان u کے بارے میں لوگ آج کے دور میں، ہمارے اس دور میں بھی یہ عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں کہ سلیمان u جادو گروں کے بڑے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے فرمایا: "وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ” سلیمان u نے ایسا کوئی کفر نہیں کیا۔ "وَلَـكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ ” لیکن شیطانوں نے کفر کیا۔وہ کفر کیا تھا؟ ” يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ” لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔ پھر لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جادو نازل کیا ہے۔ جادو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اللہ نے اس کی بھی نفی فرمادی ۔ الہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ” بابل شہر میں ہاروت اور ماروت پر کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا۔ شیاطین کفر کرتے تھے، سلیمان u نے کفر نہیں کیا۔یہ شیاطین لوگوں کو جادو سکھا تے تھے۔اور "وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ ” ان دونوں ملکین ، دونوں فرشتوں، ہاروت اور ماروت کو جادو آتا تھا۔ شیاطین سے انہوں نے جادو سیکھا۔لوگ ان فرشتوں سے جادو سیکھنے لگ گئے۔ اور لوگ جاتے جادو سیکھنے کےلیے تو وہ کہتے: "إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ ” ہم تو مبتلائے آزمائش ہوچکے ہیں ، ” فَلاَ تَكْفُرْ” تو کفر نہ کر۔لیکن اس سب کے باوجود، تنبیہ ، نصیحت اور وعید کے باوجود۔” فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ” وہ ان دونوں سے کچھ ایسا کلام اور ایسا جادو سیکھتے کہ جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ” ان کو پتہ تھا کہ جو بھی یہ جادو سیکھے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ یعنی آخرت میں اس کےلیے نقصان ہی نقصان، عذاب ہی عذاب ہے۔ اور وہ ان سے ایسا کچھ سیکھتے کہ : ” مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ” جو ان کو نقصان دیتا تھا ، نفع نہیں پہنچاتا تھا۔” وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [البقرة : 102]” کاش کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے ، وہ سمجھ لیتے ، جان لیتےکہ جس چیز کے بدلے وہ بیچ رہے ہیں اپنی زندگی کو ، اور اپنی آخرت کو داؤ پر لگا رہے ہیں وہ چیز بہت بری ہے۔

اس آیت سے ایک تو یہ پتہ چلا کہ جادو کوئی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ "سحر”بولا ہے۔ جادو کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ کہ جادو کا وجود ہے۔ لفظ "سحر” کا معنی، لفظ جادو کا معنی مختلف لوگ مختلف کرتے ہیں۔ چلو جو بھی معنی جادو کا کرلو۔ لیکن بہرحال نفس جادو کوتو ماننا پڑے گا۔ پہلے جادو کو مانو گے تو کہو گے ناں کہ جادو کا مطلب شعبدہ بازی ہے، جادو سے مراد فلاں چیز ہے، جادو سے مراد فلاں چیز ہے، جس طرح آج کل کچھ گمراہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال نفس جادو کو، نفس سحر کو ، جادو کے وجود کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات بینات کا کفر لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ سحر سیکھتے اور سکھاتے تھے اور جادو تھی کیا چیز؟ آج کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جادو شعبدہ بازی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی وضاحت کردی کہ جادو ایسی چیز تھی کہ "مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ”جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کردیتے تھے۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے کہ جس کی بنا پر آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کا دماغ خراب ہوجاتا ہے وہ بیوی کو طلاق دے بیٹھتا ہے۔ یابیوی خاوند سے لڑنا شروع کردیتی ہے۔ ان کے حالات بگڑ جاتے ہیں۔ جادو کچھ ایسی چیز ہے۔ ” مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ” جس کے ذریعے وہ لوگ آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی اور تفریق ڈال دیتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے اس بیان اور وضاحت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جادو شعبدہ بازی نہیں ۔ میاں بیوی اکھٹے مل کر جائیں دونوں شعبدہ دیکھنے کےلیے، تو پھر کیا شعبدہ دیکھ کر وہ آپس میں لڑنے لگیں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ جادو کوئی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دلوں میں اختلاف پید ا ہوجاتا ہے۔ دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ یہ جادو کی حقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیان فرمادی ہے۔ اب جادو گر جادو کرنے کےلیے کیا کرتا ہے؟ ایک بزرگ بشیراحمد صاحب انہوں نے جادو سیکھا۔ جادو کرتے رہے ایک طویل عرصہ تک ، پھر اللہ نے انہیں توفیق دی، توبہ تائب ہوئے۔ توبہ تائب ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ساری سرگزشت سنائی اور بیان کی۔ اور بھی کئی ایک لوگوں کے واقعات ہیں۔ جو جادو گر تھے ، جادو کرتے تھے۔ توبہ تائب ہونے کے بعد انہوں نے بیان کیا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ مختصر سی بات ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ جادو سیکھنا، سکھانا، کرنا، کرانا کفر ہے۔ تو اس سے بندہ کو یہ سمجھ آ ہی جاتا ہے کہ جادو کوئی کفریہ کام ہے۔ اور یہ کفر ہی لوگ کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ جو تعویذ لکھتےہیں ، تعویذوں کے دائیں بائیں جانب، فرعون، نمرود، ہامان، قارون اور شداد کا نام لکھا ہوتا ہے۔ بہشتی زیور میں اشرف علی تھانوی اور کئی مقامات پر احمد رضا خان بریلوی نے بھی وہ کچھ تعویذات لکھے ہیں۔ نمبر لکھ لکھ کے ، وہاں بھی آپ کو ان کے نام مل جائیں گے۔ غیر اللہ سے، ابلیس سے بھی مدد مانگتے ہیں۔ تعویذ لکھتے ہیں ابلیس کا نام بھی لکھا ہوگا۔ غیر اللہ سے مدد مانگنا، شرک کرنا، کفر کرنا اور خالصتاً شیطان کی پوجا کرنا یہ جادو کےلیے ضروری ہے۔ اور بشیر صاحب کہتےہیں کہ جادوگر بننے کےلیے پہلا کام جو کرناپڑتا ہے وہ گندگی اور غلاظت کھانا ہے۔ جب تک غلاظت اور گندگی نہ کھائے وہ جادوگر نہیں بن سکتا۔ کہتے ہیں مجھے جادو سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ہماری بھی نوجوان نسل کو سیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھ لیں، ہپناٹزم سیکھ لیں، فلاں سیکھ لیں۔ یہ ساری جادو کی قسمیں ہیں۔ چلو قسمت کا حال معلوم کرنا آجائے، ہاتھ دیکھنا آجائے۔ پامسٹ بن جائیں۔ علم نجوم، علم رمل، علم جفر سیکھ لیں۔ یہ ساری جادو کی قسمیں ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ میں نے بڑے چلے لگائے ،بڑے وظیفے کیے، لیکن کسی وظیفے میں کوئی اثر ہی نہ ہو۔ ایک بڑا ہی کامل استاد مجھے ملا۔ کہنے لگا: نمازیں بھی پڑھتےہو اور جادو بھی سیکھتے ہو، یہ کام نہیں ہوگا۔ میں نے جادو سیکھنے کے شوق میں نمازیں چھوڑ دیں۔ قرآن کی تلاوت بھی چھوڑ دی، سارا کچھ چھوڑ دیا ، گندہ رہنے لگا، میرے جادو میں اثر ہونا شروع ہوگیا۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ جادوگر جنات کو قابو کرلیتے ہیں یہ قید والا بھی کوئی چکر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جادوگر ایک وظیفہ کرلیتا ہے ، وہ جو جنتر منتر اسے بتائے ہوتے ہیں ، شیطان کی جس میں پوجا ہوتی ہے، اللہ کے ساتھ خالصتاً شرک اور کفر ہوتا ہے۔ وہ کرنے کے بعد شیطان ابلیس بڑا راضی ہوتا ہے۔ وہ اپنے چمچوں اور چیلوں کو بھیجتا ہے کہ جاؤ او ر جو یہ بات کہتا ہے اس کی بات مانو۔ وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے چیلے اس کے پاس چھوڑ جاتے ہیں۔ان کا آپس میں معاہدہ ہوتا ہے کہ یہ تم نے کھانا ہے اور یہ نہیں کھانا ۔ اور یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا۔ تو اس معاہدے کے تحت وہ جادوگر بھی اور وہ چیلے بھی رہتے ہیں۔ پھر جادوگر جو ان کو کہتا ہے کرنے کےلیے وہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر جادوگر اس معاہدے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی کرے تو یہی جنات جن کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوتا ہے ، جس کو یہ اپنے مؤکل کہتا ہے ، اس کی گردن دبا دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ بھی ایک مرتبہ ایسا ہوا ، جنوں نےمجھے منع کیا تھا کہ تونے لہسن نہیں کھانا۔ ایک شادی پہ چلے گئے۔ اکثر تقریبات پر رشتہ داروں کی میں جاتا، جانا پڑتا تھا۔ لیکن کبھی وہاں سے کچھ کھایا نہیں۔ کیونکہ ہر کھانے میں لہسن وغیرہ تو ہوتا ہے ۔ ایک جگہ پر دوستوں کے اصرار پر میں نے ایک لقمہ لےکر منہ میں ڈالا ۔ ابھی وہ میرے حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ جنات نے میرے اوپر اٹیک کردیا کہ ہم نے تیرے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ تو نے یہ نہیں کھانا۔ کیوں کھا رہا ہے؟ وہ کہنے لگا : میں نے اور بھی کئی وظیفےکیے ہوئے تھے، کئی الٹے سیدھے جنتر منتر پڑھے ہوئے تھے۔دوسرے مؤکلوں کے ذریعے میں نے ان سے جان چھڑوائی ۔ یہ جن کو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قید کیا ہوتا ہے ، مگر حقیقتا قید نہیں ہوتے۔ یہ کوئی اور ہی سلسلہ ہے۔ خیر یہ جادوگروں کا ایک وتیرہ، انداز اور طریقہ کار ہے۔ تو وہ ان جنات سے مدد لیتے ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی اس بات کی وضاحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ جن میں فرماتے ہیں: "وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقاً” [الجن : 6] انسانوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو جنوں کو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی پنا ہ میں لے لو۔ وہ تو جنات انہیں اور زیادہ گمراہ کرتے ہیں۔ یہ انداز اور طریقہ کار ہوتاہے،اپناتے ہیں۔گمراہی کے اندرمبتلاہوتےہیں۔پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتےہیں: "رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ[الأنعام : 128] کہ یا اللہ! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ،انسان جنوں سے اور جن انسانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ کہ جادو کے زور پر اور جادو کے ذریعے وہ ایسا کچھ کرتے ہیں۔

جادو سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر

دین اسلام نے اس جادو اور ان جادوگروں سے بچنےکا ایک بہترین حل دیا ہے۔ وہ حل اور طریقہ کا ر یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جائے ، آیت الکرسی کی تلاوت کی جائے ہر نماز کے بعد، اسی طرح ہر نماز کے بعد معوذات پڑھی جائیں۔ رات کو سوتے وقت دونوں ہاتھوں کو جمع کرکے پھونک مار کر آخری تینوں سورتیں پڑھ کر پورے بدن پر پھیریں ، یہ عمل تین بارکریں، دونوں ہتھیلیاں پہلے جمع کریں ، ان میں پھونک ماریں ، پھونک مارنے کےبعد تینوں آخری سورتیں پڑھیں اور سارے بدن پر پھیر لیں۔ تیسری بار پھر اسی طرح کریں۔ یہ عمل کل تین مرتبہ کیاجائے گا۔ [ صحیح بخاري کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات (5018) ] اسی طرح صبح شام کے اذکار کریں۔اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو بندہ صبح کو سو مرتبہ پڑھ لے ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ” تو اس بندے پر جادو، جنات اور شیاطین کا شام تک کوئی اثر نہیں ہوتا۔ [جامع الترمذي ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل التسبیح والتکبیر والتہلیل (3468) ]

اسی طرح ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : ” أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ ” تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ [ مسند احمد 3/419 (15035) , مسند ابی یعلى 12/238]

اسی طرح اور بھی کئی وظائف اور طریقہ کار ہیں ۔وہ قرآن مجید کی تلاوت کو سن کر بھاگتے ہیں۔یہ جائز اور شرعی طریقہ اور علاج ہے جنات کو بھگانے کےلیے ، جادو کو توڑنے کےلیے۔ نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادوکیا۔ آپﷺ پر جادو کا اثر ہوا۔ کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریمﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا ۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا ۔[ صحیح البخاري کتاب الطب باب السحر (5763) صحیح مسلم کتاب السلام باب السحر (2189)]

صحیح احادیث پر منکرین حدیث کااعتراض اور اسکا جواب

اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا ہے: إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ[الحجر : 42] کہ اے شیطان ! میرے بندوں پر تیرا کوئی سلطان ، کوئی حکومت ، کوئی سلطنت، کوئی زور اور بس نہیں ہے۔ تو نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے سب بندوں سے مقرب بندے ہیں تو رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر کہاں سےہوگیا۔ یہ اعتراض کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس قاعدے اور اصول کے نتیجے میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ان روایات کا انکار کردیتے ہیں۔ جورسول اللہ ﷺ پر جادو ہونے کے متعلقہ ہیں۔ تو تھوڑی سی بات کی پہلے میں وضاحت کرچکا ہوں اور آپ سن چکے ہیں۔ کہ نبی کریم ﷺ کے تخیلات پر جادو کا اثر ہوا۔ وہ سمجھتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا ۔ نبی کے تخیلات پر جادو کا اثر ہوجانا قرآن سے ثابت ہے۔ فرعو ن کے جادوگروں نے اپنی رسیاں پھینکیں فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى [طه : 66] ان کی رسیاں اور ان کی چھوٹی چھوٹی لاٹھیاں جو جادوگروں نے پھینکی تھیں "يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ” موسیٰ u کو ان کے جادو کی وجہ سے یہ تخیل ہونے لگا "أَنَّهَا تَسْعَى” کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔سعی کہتے ہیں تیزی کے ساتھ چلنے کو۔ وہ تیزی کے ساتھ آگے کو بڑھتی ہوئیں، چلتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ تو معلوم ہوا کہ نبی کے تخیلات پر جادو اثر کرجاتا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بندوں پر شیطان کی سلطان نہیں ، اس مسئلہ کوبھی سمجھ لیں ذرا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ : إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ[الحجر : 42] جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا سلطان نہیں۔ سلطان کہتے ہیں حکومت کو ، سلطنت کو ، پورا کنٹرول ہونا۔ تو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ہاں شیطان کی طرف سےتھوڑا سا اثر بندوں پر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ ایک ہے تھوڑا سا اثر ہونا۔ اور ایک ہے پورے کا پورا شیطان کے نرغے میں آجانا۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ اگر ان دونوں باتوں کا فرق سمجھ آجائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے۔ نہ اللہ کے قرآن کی آیات میں او رنہ قرآن اور حدیث میں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ جو میرے بندے ہیں: إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ [الأعراف : 201] جب شیطان کی طرف سے ان کو کچھ بہلاو ا، پھسلاوا ہوتا ہے ، شیطان کی طر ف سے کوئی تھوڑا بہت اثر ہوجاتا ہے تو وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ [الأعراف : 201] اللہ تعالیٰ انہیں صاحب ِ بصیرت بنا دیتا ہے۔وہ شیطان کے نرغے سے نکل آتے ہیں۔ یعنی ان پر شیطان کا تھوڑا بہت اثر ہوجاتا ہے ، اللہ کے بندے وہ ہین کہ جب شیطان کا اثر ہوجائے ، فوراً نصیحت پکڑتے ہیں۔خود نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاص خطاب کرکے فرمایا ہے: "وإذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ” جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں خوض ، نکتہ چینیاں کرتے ہیں ، آپ ان سے اعراض کیجئے۔ "وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ” یہ قرآن ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے لہٰذا ختم، اب وہ اس آیت کا کیاکریں گے؟ یہاں بھی کچھ سوچ لیں ، سمجھ لیں ذرا۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ : "وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ” اگر تجھے شیطان بھلا دے "فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى” یاد آنے کے بعد اس ظالم قوم کے پاس آپ نے نہیں بیٹھنا۔ تو معلوم ہوا کہ شیطان نبی کریم ﷺ کو بھلا سکتا ہے۔ تو لبید بن الاعصم یہودی نے جو جادو کیا تھا وہ کیا تھا؟ کہ آپ کام کرلیتے ، بھول جاتے۔کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ اور آپ نے کام نہیں کیا ہوتا اور آپ بھول جاتے کہ شاید یہ کام میں نے کرلیا ہے۔ تو یہ بات تو اللہ نے قرآن میں بھی کہہ دی ہے۔ "وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ”سے دو باتیں ثابت ہوگئیں۔ نمبر ایک: شیطان نبی کریم ﷺ کو بھلوا سکتا ہے۔ نمبردو: نبی کریم ﷺ بھول سکتے ہیں۔ دونوں باتیں قرآن مجید فرقان حمید سے ثابت ہورہی ہیں۔ تو لہٰذا عبادا للہ پر ، انبیاء کرام پر، صلحائے کرام پر، اہل ایمان وتقویٰ پر شیطان کا تھوڑا بہت اثر ہوجانا قرآن مجید فرقان حمید سے ثابت ہے۔ اور جادو بھی شیطانی عمل ہے تو جادو کا بھی تھوڑا سا اثر ہوجانا قرآن مجید سے ثابت ہےکہ عباداللہ پر ، انبیائے کرام، صلوات اللہ علیہم اجمعین پر یہ اثر ہوسکتا ہے۔ جب انبیاء پر ہوسکتا ہے تودیگر اہل ایمان پر کیوں نہیں؟ پھر ، جادو کا یہ اثر اہل ایمان پر اس انداز میں نہیں ہوتا جس طرح اہل کفر پر ہوتا ہے۔ان کے اوپر تو شیطان کا پورا پورا بس اور داؤ چل جاتا ہے۔ اور وہ سنبھل ہی نہیں پاتے۔ اہل ایمان کے بارے میں اللہ نے صفت بیان کی ہے کہ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ [الأعراف : 201]شیطان کی طرف سے جب کبھی بھی ان کو چوکا لگتا ہے تو وہ فورا نصیحت حاصل کرلیتے ہیں۔ کہ ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہے ، کوئی ورد ، وظیفہ رہ گیا ہے۔ کوئی سستی کوتاہی ہوگئی ہے۔ فاذا ھم مبصرون۔ پھر وہ صاحب بصیرت بن جاتے ہیں۔ شیطان کا وار خالی چلا جاتا ہے۔ یہی وظیفہ لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک ولہ ولحمد وھو علی کل شیئ قدیر۔ سعودیہ کے ایک عالم ہیں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہےاسی جادو اور جنات کے حوالے سے۔ نام ان کا فی الحال ذہن سے نکل گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں ایک بچی پر دم کررہا تھا اس کے اندر شیطان اور جن تھا۔ وہ بولنے لگا۔ خیر! بحث وتکرار ہوئی اس نے کہا میں اس سے نکل کر تمہارے اندر داخل ہوتا ہوں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ، آجاؤ۔ ہمت ہے تو آؤ۔ بچی کو تھوڑی دیر سکون رہا پھر تھوڑی دیر بعد بچی تڑپنے لگ گئی۔ پھر اس کو بلوایا تو کہنے لگا کہ چونکہ آپ نے صبح کے وقت یہی وظیفہ کیا ہے لہٰذا میں آپ کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کی سچائی بھی متحقق ہوگئی، ثابت ہوگئی کہ جو شخص صبح سو بار یہ پڑھ لے وہ جنوں اور شیطانوں سے محفوظ رہتا ہے۔

جادو کا علاج بالغذا

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا [ صحیح بخاری کتاب الأطعمۃ باب العجوۃ (5445) ]۔ معلوم ہوا کہ میڈیکلی ، طبی طور پر بھی جادو کا علاج ہوسکتا ہے۔ طبی طور پھر بھی جادو کا علاج ہوتا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ بھی جادو کا علاج ہوتا ہے۔ تو جو جائز اور مشروع طریقہ کار ہے جادو کو کاٹنے اور توڑنے کا ہ اختیار کیا جائے۔

غیر مشروع طریقہائے علاج کی ہلاکت خیزیاں

آج کل بڑے، کالے،پیلے، چٹے، نیلے پھرتے ہیں، اپنے آپ کو عامل کہتے ہیں۔ سنیاسی باوے، بنگالہ دیش کے جنگلوں میں چلہ کاٹنے والے اور چالیس چالیس سال تک قبروں میں رہنے والے اور پتہ نہیں کیا کیاکرتے رہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان سنن ابی داؤد کے اندر موجود ہے کہ جو شخص ان کے پاس جاتا ہے اور ان کی باتوں کی تصدیق کردیتا ہے فقد کفر بما نزل علی محمدﷺ۔ اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ شریعت کا انکار کردیا ہے۔ [کتاب الطب باب فی الکاہن (3904)] اسی طرح صحیح مسلم میں یہ روایت آتی ہے کہ جو شخص ان کے پاس چلا گیا، جادوگر کے پاس، نجومی کے پاس، کاہن کے پاس، پامسٹ کے پاس، صرف چلا گیا۔ پچھلی حدیث میں کیا تھا کہ اس کی بات کی تصدیق کردی۔ اس حدیث میں کیا ہے کہ صرف چلا گیا ، اور اس سے کچھ پوچھ لیا "لم تقبل لہ صلاۃ اربعین یوما” [کتاب السلام باب تحریم الکہانۃ واتیان الکہان(2230)] چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ شیطان کا بہت بڑا جال ہے۔ جوجائے گا،پھنس جائے گا۔

جادو گروں کا طریقہ واردات

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ہر بندےکےساتھ ایک شیطان ہوتا ہے۔[صحیح مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار باب تحريش الشيطان وبعثه سراياه لفتنة الناس (2814)] وہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ تو جو بندہ ساری زندگی چوبیس گھنٹے آپ کے ساتھ گزارے وہ آپ کے سارے حالات وعادات کو پہچانتا ہوگا۔ جو جادوگر کے پاس جاتا ہے جادو کروانے والا۔ جادوگر اس کو پہلے ہی بتادیتا ہے کہ تو فلاں جگہ سے آیا ہے ، فلاں کام کےلیے آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہے۔ وہ پہنچی ہوئی سرکار نہیں ہوتی۔ وہ اپنے جن کے ذریعے تمہارے ساتھ لگے ہوئے جن سے سارا کچھ معلوم کرلیتا ہے۔ جسے ان جادوگروں کی زبان میں ہمزاد کہتے ہیں۔ وہ انسان کے ہمزاد سے سارا کچھ پوچھ لیتے ہیں۔ ہیں تو سارے بھائی بھائی۔وہ ہوتا ہے اس کو گمراہ کرنے کےلیے۔

جن شیاطین اور ان سے بچاؤ کا طریقہ

پوچھا نبی کریمﷺ سے کسی نے کہ کیا آپ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟فرمایا: ہاں!ہے لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری مدد کی ہے۔ وہ مطیع ہوگیا ہے ، مسلمان ہوگیا ہے۔(حوالہ سابقہ) فرمایا: "إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ” شیطان انسان کے رگ وپے میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔یہ ہروقت ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ بیت الخلاء میں اگر کوئی دعا پڑھ کر داخل نہیں ہوتا تو اس کو دیکھتا ہے ننگے کو۔فرمایا: ” سَتْرُ بَيْنَ أَعْيُنِ الْجِنِّ وَبَيْنَ عَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ إِذَا وَضَعَ أَحَدُهُمْ ثَوْبَهُ أَنْ يَقُولَ بِسْمِ اللَّهِ ".۔ شیطانوں کی آنکھوں اور بنی آدم کی شرمگاہوں کے درمیان پردہ یہ چیز ہے کہ بندہ جب بھی کپڑے اتارے تو بسم اللہ کہے ۔ [الفوائد لتمام الرازی 2/269] بیت الخلاء میں جاتے ہوئے یہ دعا سکھائی ہے نبی کریم ﷺ نے : بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ [مصنف ابن ابي شيبه 10/453]۔ اپنی بیوی سے مجامعت کرے تو یہ دعا پڑھے بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ۔ تو ہمبستری کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوگی شیطان اس کو ضرر نہیں پہنچائے گا۔ [صحیح بخاری کتاب الوضوء باب التسمیۃ على کل حال وعند الوقاع (141)] تو اولادوں کے نافرمان اور بگڑنے کی وجہ ہوسکتا ہے ایک یہ بھی ہو, جس کی طرف لوگ توجہ نہیں کرتے۔ خیر!

جنات کو بھگانے اور جادو کو توڑنے کے لیےضروری اقدامات

جادوگر جادوئی عمل کے ذریعے کچھ نہ کچھ کرلیتا ہے۔ اور اس کا توڑ او ر علاج وہ جو نبی کریمﷺ نے بتایا ہے۔ ہمارے برصغیر پاک وہند میں جادو کا بڑا زور ہے۔ اور کسی دور میں ہندوستان کو جادو نگری بھی کہا جاتا تھا۔ کہ یہاں پر مختلف قسم کے جادوگر ہیں۔ بڑے بڑے نجومی اور بڑے بڑے پامسٹ اور اس قسم کے لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بڑے عجیب وغریب انداز میں کسی کو دھونی دینا شروع کردیتے ہیں مرچوں کی۔ کسی کو کچھ کرتے ہیں ، کسی کو کچھ کرتے ہیں۔ تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے مطابق طریقہ کار اپنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان بیماریوں سے نجات دے دے گا۔ ہاں ہوسکتا ہے کہ آزمائش تھوڑی سی لمبی ہوجائے۔ ہر آدمی چاہتا ہے ناں کہ فی الفور شفا مل جائے۔فورا۔ اب فورا شفا کے چکر میں حرام دوائیاں بھی کھاتے ہیں۔ پتہ ہے کہ اس سیرپ میں الکوحل موجود ہے، گولیوں کی کوٹیج کےلیے الکوحل استعمال کرتے ہیں۔ پتہ ہے کہ کیپسول تیار کرتےہیں اور اس میں خنزیر کی چربی استعمال ہوتی ہے۔ لیکن کھاتے ہیں تاکہ جلد از جلد شفا یاب ہوجائیں۔تو اس جادو کے معاملہ میں بھی لوگ جلد از جلد شفا لینے کےلیے حرام طریقہ کا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔جادو کا علاج جادو سے۔ لوگوں کا ذہن بن چکا ہے کہ کالے علم کا توڑ جادو سے ہی ہوگا۔ کالے کی کاٹ کالے کے ذریعے ہی ہوگی۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔سب سے سخت ترین جادو تھا جو نبی کریمﷺ پر کیا گیا۔ کالے جادو کی خطرناک ترین قسم ، اس کو بارہ گرہی جادو کہتے ہیں۔ اس نے گیارہ یا بارہ گرہیں لگائی ہوئی تھیں جادو کرکرکے۔ تو یہی دو سورتیں نبی کریمﷺ نے پڑھیں اور جادو کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ جادو ختم ہوگیا۔ جس پر جادو ہوجائے وہ سورۃ بقرہ کی گھر میں تلاوت کرے۔ روزانہ ایک مرتبہ پوری سورہ بقرہ پڑھے۔ گھر میں سے ہر قسم کی جاندار کی تصویر کو ختم کردے۔ میوزک کی آواز نہ آئے گھر میں، گانے بجانے کی۔ گھر میں نمازوں کا اہتمام ہو، خواتین پردہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار ہوجائیں۔ اور جو طریقہ کار نبی کریمﷺ نے دیا ہے وہ اپنا لیں۔ جادو ختم ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے وقت تھوڑا سا طویل ہوجائے۔ مہینہ، دو مہینے، چھ مہینے ، سال تک چلتا رہے۔ ممکن ہے ، لیکن جوایک بہت بڑا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن یہ آزمائش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے۔

جادو اور نظر بد سے متعلق اہل باطل کے شبہات کا ازالہ

پچھلے درس میں اس کو واضح کیا جاچکا ہےکہ یہ استدراج کی قبیل سے ہے جادو۔ شیطان ، دجال یہ سارے استدراج کی قبیل سے ہیں۔ ان میں اہل ایمان کےلیے آزمائش ہوتی ہے ، بہت بڑی آزمائش۔ تو ان آزمائشوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ سے استعانت طلب کرنی چاہیے، مدد مانگنی اور طلب کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جادو اور نظر بد کو ماننا یعنی ان میں اثر کو ماننا کفر ہے۔ جو لوگ کہتےہیں کہ نظر بد کوئی شے نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ” نظر نیک ” کوئی شے ہے۔ یا تو وہ کہیں کہ نظر کوئی چیز نہیں۔نظر بد کو خاص کررہے ہیں ناں! نظر بد اگر کوئی شے نہیں تو نظر نیک کوئی چیز ہے؟ تو وہ بھی تو مافوق الاسباب میں داخل ہے۔ تو خیر یہ ایک علمی لطیفہ ہے۔ موٹی سی بات آپ سمجھیں۔ کہ جادو ہو یا نظر بد ، اس کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ چونکہ جادو اور نظر بد میں اثر ماننے والے نے یہ مان لیا ہے کہ نظر بد لگانے والا یا جادو کرنے والا بھی اللہ کے علاوہ کچھ نفع یا نقصان دے سکتا ہے ۔ جبکہ نفع ونقصان کا مالک تو اللہ رب العالمین ہے۔ لہٰذا اس نے جادوگرکو اللہ کے ساتھ شریک کردیا۔ لہٰذا یہ مشرک ہوگیا۔ یہ ایک بہت بڑا اشکال ہے جو پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمین والوں کے مولانا ڈاکٹر بشیر صاحب سے بھی ایک مرتبہ یہ بات ہوئی تھی۔ کوئی بیس پچیس منٹ کا مکالمہ ہوا تھا ، انہوں نے بھی یہ بات کی تھی۔ تو جو جواب میں نے انہیں دیا وہ آپ بھی سن لیں۔ ان سے میں نے عرض کی کہ نفع نقصان پہنچانا اللہ کا کام ہے اور جادوگر بھی نفع نقصان پہنچاتا ہے ، اس کو آپ شرک کہہ رہے ہیں۔ تو بتاؤ کہ شیطان دنیا میں ہے کہ نہیں؟ جى ہے۔ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے کہ نہىں؟ کہنے لگے ہاں جى لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ مىں نے ان سے عرض کى کہ جناب دىکھئے اللہ تعالىٰ قرآن مجىد مىں کہہ رہے ہىں کہ اللہ جس کو چاہے ہداىت دے،جس کو چاہے گمراہ کرے۔ گمراہ کرنا ، ہداىت دىنا کس کا کام ہے؟ اللہ تعالىٰ کا۔ اللہ تعالىٰ جس کو چاہتا ہے ہداىت دىتا ہے جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور آ پ کہہ رہے ہىں کہ شىطان بھى گمراہ کرتا ہے ۔ گمراہ کرنے والے کام مىں آپ نے شىطان کو اللہ کا شرىک بنا دىا ، لہٰذا آپ بھى مشرک۔ مان رہے ہىں کہ شىطان بندے کو گمراہ کرتا ہے۔ اور ىہ بھى مان رہے ہىں کہ اللہ نے قرآن مىں کہا ہے کہ جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئى ہداىت دىنے والا نہىں ہے۔ اور جس کو اللہ ہداىت دے دے اس کو گمراہ کرنے والا کوئى نہىں۔ مَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلاً [النساء : 88] جس کو اللہ گمراہ کردے اس کےلىے کوئى راستہ نہىں۔ مَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ[الأعراف : 186] جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو ہداىت کوئى نہىں دے سکتا۔ وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ [الزمر : 37] جس کو اللہ ہداىت دے دے اس کو کوئى گمراہ کرنے والا نہىں۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ شىطان گمراہ کرتا ہے۔شىطان کو بھى شرىک کردىا ناں اللہ کے۔ گمراہ کرنا مافوق الاسباب ہے ىا ماتحت الاسباب؟ مافوق الاسباب ہے ناں؟ تو شىطان مافوق الاسباب بندے کو گمراہ کررہا ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے: اوہ نہىں جى۔ شىطان کى مثال نہ دو۔ مىں نے انہىں بڑے پىار سے کہا: دىکھئے۔ جادو اىک شىطانى کام ہے۔ شىطانى عمل ہے۔ اس لىے شىطان کى مثال سے شىطانى کام کى وضاحت اپنے آپ ہوجائے گى۔ پھر مافوق الاسباب عیسى علىہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے ىا نہىں؟ اللہ تعالىٰ نے قرآن مىں کہا ہے: ” وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي”[المائدة : 110] مىرے حکم سے ساتھ تو مردوں کو زندہ کرتا تھا۔تو جادو کے بارے مىں بھى کىا کہا ہے: وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ” جادو کا اثر بھى اذن الٰہي کے بغىر نہىں۔ اور عیسى علىہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا بھى اذن الہٰي کے بغىر نہىں۔ اور شىطان کا بندے کو گمراہ کرنا بھى اذن الہٰي کے بغىر نہىں۔ باتىں تو تىنوں مشترک ہىں۔ تىنوں کے اندر قدر مشترک اذن الہٰي ہے۔ کہ شىطان بھى اللہ کى اجازت اور اذن کے بغىر گمراہ نہىں کرسکتا۔کىا اللہ تعالىٰ بندے کے گمراہ ہونے پرراضى ہے؟ نہىں۔ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ [الزمر : 7] اللہ تعالىٰ کفر پر راضى نہىں ہے۔ لىکن ڈھىل دى ہے۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [الأعراف : 183] ڈھىل دى ہے ، پکڑاللہ کى بڑى سخت ہے۔ عیسى علىہ السلام بھى مردوں کو زندہ کرتے ہىں۔ اعمى ،ابرص کو شفا بخشتے ہىں۔ پرندہ بناکر پھونک مارتے ہىں ، اڑنے لگتا ہے۔ قرآن مىں ہے۔ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِي [المائدة : 110] تو پرندوں جىسى شکل وصورت بناتا تھا ، پھر ان مىں پھونک مارتا تھا ، اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔ تو ىہ پرندہ بنانا مافوق الاسباب ہے ىا ماتحت الاسباب ؟ فوق الاسباب ہے ناں؟؟تو جو ىہ کہتا ہے کہ مافوق الاسباب جادوگر کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھ لىنا شرک اور کفر ہے تو ادھر اس آىت کا کىا جواب دے گا کہ عیسى علىہ السلام کو ىہ سارا کچھ مان کر کفر اور شرک کا مرتکب تو نہىں ہورہا؟ ذرا اپنے گرىبان مىں بھى جھانک کر دىکھ لے۔ شىطان کو گمراہى کا مالک سمجھ کر کہىں کفر وشرک کا مرتکب تو نہىں ہورہا؟ ذرا سوچنے اور غور کرنے کى بات ہے۔ تو حقىقت ىہ ہے کہ بات بىچاروں کى سمجھ مىں نہىں آئى۔ پچھلے درس مىں جو استدراج بىان کىا تھا اس کو سمجھنے کى ضرورت ہے۔ اس کو نہ سمجھنے کى وجہ سے ىہ گمراہى پىدا ہوئى ہے۔ عیسى علىہ السلام کو جو اللہ نے دىا وہ معجزہ ہے۔ شىطان جو گمراہ کرتا ہے وہ استدراج ہے۔ جادوگر جو کچھ کرتا ہے ىہ استدراج ہے۔ دجال جو آکر کرتب دکھائے گا ىہ استدراج ہے۔ اور ہے کىا؟ بإذن اللہ۔ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ۔ جادوگر لاکھ زور لگالے، اللہ کا اذن نہ ہوتو وہ کچھ نہىں کرسکتا۔ اور سىدھى سى بات ہے۔ ماتحت الاسباب سے آپ اس مثال کو سمجھ لىں۔ آپ دس گولىاں ماردىں کسى بندے کو۔ کىا بندہ مرجائے گا؟! اگر اللہ کا اذن ہوتو اىک گولى سے بھى بندہ مرجاتا ہے ۔ موسىٰ علىہ السلام نے تو صرف اىک مکا مارا تھا۔ فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ [القصص : 15] مکا مارنے سے بندہ مرتا ہے بھلا؟ لىکن موسىٰ علىہ السلام کے مکہ سے مرگىا۔ کئى واقعات آپ کو اىسے ملىں گے۔ بم بلاسٹ ہوتا ہے۔ جسم کا آدھا حصہ اُڑ جاتا ہے لىکن بندہ زندہ ہوتا ہے۔ کئى کئى گولىاں لگتى ہىں ، بندہ زندہ سلامت ہے! گولى مارنے والا گولى مارسکتا ہے اور کچھ نہىں کرسکتا۔ اس کو موت نہىں دے سکتا۔ اس کو موت کب آئے گى؟ باذن اللہ۔ اللہ چاہے گا توا س کو موت آئے گى، وگرنہ نہىں آئے گى۔اب اگر کوئى ىہ کہے کہ اللہ کے چاہنے سے موت آتى ہے لہٰذا مارتے رہو گولىاں۔ گولى مارنا جائز ہوجائے گا؟ نہىں۔ قاتل کا قتل کرنا ناجائز ہے۔ وہ سبب بنا ہے۔ اىسے ہى جادوگر کا جادو کرنا ناجائز ہے ، منع ہے۔ وہ سبب بنا ہے۔ قاتل کے فائر کرنے کے نتىجے مىں بندہ مرا ہے۔ وہ قاتل کى مشىت سے نہىں ، اللہ کے اذن سے مرا ہے۔ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ [التكوير : 29] قاتل چاہتا تھا مارنا۔ اللہ نے چاہا تو مرا ہے۔ اللہ نہ چاہتا تو وہ لاکھ کوشش کرتا ، نہ مرتا۔ ىہى مثال جادو کى ہے۔ جادوگر لاکھ چاہے کسى کو نقصان پہنچانا۔ اللہ چاہے گا تو نقصان پہنچے گا۔ وگرنہ نہىں۔

وحدت الوجود کےباطل عقیدہ کا رد

تو وہ مسئلہ بھى حل ہوگىا جو حلولى اور وجودى ، وحدت الوجود والے کھڑا کرتے ہىں۔ فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى [الأنفال : 17] ىہ آىت پىش کرتے ہىں ناں؟ کہ انسان اور اللہ اىک ہى چىز ہے۔ کہ اللہ قرآن مىں کہہ رہے ہىں کہ تم نے انہىں قتل نہىں کىا بلکہ اللہ نے قتل کىا تھا۔ وہ کہتے ہىں دىکھو ، تىر تو صحابہ کرام ماررہے تھے ناں! تو صحابہ کرام کے بارے مىں اللہ نے کہا کہ تم نے قتل نہىں کىا بلکہ اللہ نے قتل کىا ہے۔ تو بات ىہ ہے کہ صحابہ کرام نے صرف تىر پھىنکا تھا ، موت تقسىم ان کے اندر انہوں نے نہىں کى تھى۔ موت ان کو اللہ نے دى ہے۔ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى [الأنفال : 17] ىعنى جب آپ پھىنکتے ہىں تو آپ کا کام ہے پھىنک دىنا۔اور ہدف تک پہنچانا وہ کس کا کام ہے؟ اللہ کا۔ تو ان دونوں باتوں کے اندر فرق ہے۔ اگر ان دو نوں باتوں کا فرق سمجھ آجائے تو وہ وحدت الوجود، وحدت الشہود، اور حلول کے نظرىات کا بھى رد ہوجاتا ہے اور جادوکےمنکرىن کا بھى، معجزات کے منکرىن کا بھى، کرامات کے منکرىن کا بھى رد ہوجاتا ہے۔ بھئى ىہ سارے کا سار اللہ کے اذن کے تابع ہے۔ اللہ کا اذن ہوتا ہے تو جادوگر کے جادو مىں اثر ہوتا ہے وگرنہ کچھ بھى نہىں۔ مافوق الاسباب بھى اىسے ہے اور ماتحت الاسباب بھى اىسے ہے۔ اللہ تعالىٰ کے اذن اور اجازت کے بغىر کچھ بھى نہىں۔ جادو کے بارے مىں بھى ىہى ہے: ” وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ”

جادو سے متعلق منکرین حدیث کے دوسرے شبہہ کا ازالہ

پھر وہ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے کہ جادو کو ماننا کفر ہے۔شرک سے انہوں نے پىنترا بدلہ اور کفر کى جانب آگئے۔ مىں نے کہا : پہلے کفر ہونے کى دلىل تو پىش کرو۔ کىا دلىل ہے؟ کہنے لگے کہ جى اللہ نے کہا ہے: وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ ” سلىمان علىہ السلام نے کفر نہىں کىا۔ لفظ کفر عام ہے۔ مىں نے کہا : ىہاں تو مراد ہے جادو سىکھنے اور سکھانے کا ، کىونکہ آگے آىت مىں اسى کا ذکر ہے۔ سلىمان علىہ السلام نے ىہ کام نہىں کىا۔ کہنے لگے: نہىں، جادو کو ماننا، جادو کو سىکھنا، جادو کو دکھانا بھى کفر ہے۔ اب ىہاں پر بات ىہ ہے کہ لفظ جادو تو وہ بھى بول رہے ہىں کہ مانے توہوئے ہىں ناں! خىر، ىہ اىک بارىک بات ہے۔ مىں نے ان سے عرض کىا: اچھا ىہ بتائىے: شىطان دنىا مىں ہے کہ کوئى نہىں؟کہنے لگے: ہاں جى! شىطان تو ہے۔ آپ مانتے ہىں شىطان کو ؟ ہاں جى ! شىطان تو ہے۔ اچھا اىک منٹ ، پکے ہوجاؤ ذرا۔ مىں نے قرآن مجىد کى آىت تلاوت کردى ان کے سامنے۔ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [البقرة : 256] کہ جو بندہ طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر اىمان لائے ، اس آدمى نے اىمان کے مضبوط کڑے کو پکڑا ہے جو ٹوٹنے والا نہىں۔ اللہ نے حکم دىا طاغوت کا کفر کرو۔ اب اگر جادو کفرىہ کام ہے اور جادوکو ماننا بھى کفر ہے تو شىطان بھى چونکہ طاغوت ہے لہٰذا شىطان کو ماننا بھى کفر ہوگىا ناں؟ تو لہٰذا آپ پھر کافر بن گئے۔ مىں نے اتنى سى بات کى وہ کہنے لگے کہ آپ تو مناظرہ کرنے لگ گئے ہىں۔ ہم آپ کے گلے مىں ہار پہنادىتے ہىں، آپ جىت گئے ،ہم ہار گئے۔ ٹھىک ہے جى جاؤ جى جاؤ۔ پندرہ بىس منٹ کى سارى گفتگو ہے۔ بستى علی والہ کے لوگ ساتھ تھے ، ان کى خاطر گئے تھے وہاں پر۔ تو بہرحال ىہ کمزور سے دلائل ہىں۔ جو جادو کے رد مىں پىش کىے جاتے ہىں، تو قرآن مجىد کسى آىت کے خلاف جادو ىا نظر بد والى باتىں نہىں ہىں۔

جادو یا نظر بد کے برحق ہونے کا معنى

نبى کرىم ﷺ نے فرماىا: العین حق۔ نظر بد برحق ہے۔[صحیح بخاری کتاب الطب باب العین حق (5740)] برحق کا ىہ مطلب نہىں ہے کہ حق ہوگىا۔ کچھ لوگ ىہ سمجھتے ہىں کہ برحق کہہ دىا تو اوہو ىہ تو جائز ہوگىا۔ نہىں جائز نہىں ہوا۔ برحق کہنے کا معنى ىہ ہے کہ اس کے اندر اثر ہوتا ہے۔ نظر بد کے نتىجے مىں جس آدمى کو نظر لگى ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے۔ جادوگر کے جادو کے نتىجے مىں جس آدمى پر جادو کىاگىا ہے اس پر اثر ہوجاتا ہے ، ىہ معنى ہے برحق ہونے کا۔ ىہ نہىں کہ جادو کرنا جائز ہوگىا۔ جادو کرنا کفر ہے۔ جادوکروانا بھى کفر ہے۔ جادو سىکھنا بھى کفر ہے ، جادو سکھانا بھى کفر ہے۔ نظر بد سے بھى نبى کرىم ﷺ نے منع کىا ہے۔ فرماىا: جو چىز اچھى لگے تو ماشاء اللہ کہو۔

نظر بد سے بچاؤ کے لیے تمائم وغیرہ لٹکانے کا رواج

اور کئى نظر بد سے بچنے کےلىے کىا کرتے ہىں، نئى گاڑى خرىدتے ہىں تو آگے جوتا لٹکا لىتے ہىں۔ کىا ہے جى؟ نظر بد سے بچنا ہے۔ ىہ جوتا ان کو بچائے گا۔ وہ مولانا منظور صاحب کہتے ہوتے ہىں: جب بچہ پىدا ہوتو اس کے گلے مىں بھى جوتا لٹکالىا کرو۔ وہ بھى نىا نکلا ہے ناں! تاکہ وہ بھى نظر بد سے بچ جائے۔ کىا عجىب ہے۔ کئى لوگ نىا گھر بناتے ہىں تو اوپر کالى ہانڈى رکھ لىتے ہىں کہ ىہ کالا رنگ نظر بد سے بچا لے گا۔ انسان کو نظر بد سے بچانے کےلىے اس کا منہ کالا کردو تاکہ اس کو بھى نظر نہ لگے۔ عجىب ضعىف الاعتقادى ہے۔

نظر بد کا شرعی علاج

نبى کرىم ﷺ اپنے بىٹوں، اپنے نواسوں ، حسن وحسىن رضى اللہ عنہما کو دم کرتے اور فرماتےکہ تمہارے باپ ابراہىم علىہ السلام اپنے بىٹوں کو ىہى دم کىا کرتے تھے۔ وہ دم کىا تھا: أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ [ جامع ترمذی ابواب الطب ما جاء فی الرقیۃ من العین (2060)] ۔ ىہ دم کرو ، نظر بد کا بہترىن علاج ہے۔ معوذات کے اندر نظر بد کا علاج موجود ہے ۔ لوگ جائز طرىقے نہىں اپناتے ، الٹے الٹے کام شروع کردىتے ہىں۔

نظر سے بد بچاؤ کے لٹکائی جانے والی چیزوں کا حکم

کئىوں نے وہ کالى ٹاکىاں باندھى ہوتى ہىں گاڑى کے ساتھ، کئىوں نے اپنے ہاتھوں پر ىا پاؤں پرکالے رنگ کا دھاگا باندھا ہوتا ہے ، کىا ہے جى؟ نظر بد سے بچنے کےلىے۔ىہ دھاگے اور منکے، کڑے اور چھلے جو نظر بد سے بچنے کےلىے لٹکائے جاتے ہىں ىہ شرک ہىں۔ نبى کرىم ﷺ نے فرماىا: التَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ ۔ [سنن ابی داود کتاب الطب باب فی تعلیق التمائم (3883)] ىہ تمائم اور تولہ شرک ہىں۔

تمائم اور تعویذ میں فرق

تمائم کا معنى لوگ کردىتے ہىں تعوىذ۔ تمائم کا معنى تعوىذ نہىں ہے۔ تمائم کہتے ہىں ان چمڑے کے ٹکڑوں کو ىا ان دھاگوں کو جو بىمارى کے آنے سے پہلے باندھے جاتے ہىں، جس طرح نظر بد سے بچنے کےلىے لوگ باندھ دىتے ہىں ، لٹکالىتے ہىں۔ ىہ شرک ہے۔

تعویذات کا حکم

اور جو تعوىذ ہاتھ سے لکھا جاتا ہے ، اگر اس کے اندر کفرىہ اور شرکىہ عبارت ہے تو وہ بھى کفر اور شرک ہے۔ جس طرح کے مىں نے پہلے مثال دى کہ وہ ہامان ،فرعون ،شداد، ابلىس وغىرہ کے نام ہوتے ہىں تعوىذوں مىں ۔ اور پھر جو باتىں لکھى ہوتى ہىں ان پر کاٹا مارا ہوتا ہے۔بڑے عجىب وغرىب قسم کے تعوىذات لکھتے ہىں۔ کئىوں کے کھول کر دىکھتے ہىں۔ بڑے عجىب وغرىب ہوتے ہىں ۔کئىوں نے صرف لائنىں لگائى ہوتى ہىں، الٹی سیڈھی کہ اس کو گلے مىں لٹکالو کھولنا نہىں ہے اسے ۔ اور اگر تعوىذ کے اندر کفرىہ شرکىہ الفاظ نہىں ہے پھر بھى تعوىذ بدعت ہے ، حرام ہے ، ناجائز ہے۔ لىکن کفر ىا شرک نہىں۔ دونوں باتوں کے اندر فرق ہے۔ شرکىہ ہوتب بھى ناجائز ہے۔ شرکىہ تعوىذ نہ ہو تب بھى ناجائز ہے۔ لىکن اگر شرکىہ اور کفرىہ تعوىذ ہوگا تو بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔مرتد ہوجائے گا۔ لىکن اگر تعوىذ کفرىہ شرکىہ نہىں تو ہے وہ بھى حرام کام، ناجائز ہے۔ رب کى بغاوت اور نافرمانى ہے۔ اللہ کے عذاب کو دعوت دىنے والى با ت ہے۔ لىکن بہرحال اس تعوىذ کے نتىجے مىں بندہ دائرہ اسلام سے خارج نہىں ہوگا۔ جىسے زناکرنا ناجائز ہے ، حرام ہے ، کبىرہ گناہ ہے، اللہ کى بغاوت اور نافرمانى ہے۔ لىکن زناکار کىا کافر ہوجاتا ہے؟ نہىں۔ نبى ﷺ فرماتےہىں: لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ جب زانى زنا کرتا ہے، اس وقت وہ مومن نہىں ہوتا۔جب وہ اس فعل سے فارغ ہوتا ہے تو اس کا اىمان جو اس کے اوپر سائبان بن کر کھڑا ہوتا ہے ، اس کے اندر واپس آجاتا ہے۔ چور جب چورى کرتا ہے تو اس وقت اس کے اندر اىمان نہىں ہوتا ، جب وہ اس کا م سے فارغ ہوجاتا ہے تو اىمان اس کے اندر واپس آجاتا ہے۔[صحیح بخاری کتاب الحدود باب اثم الزناۃ (6810) ] ىہ اىمان کے واپس آنے کى وجہ ہوتى ہے کہ بندہ کو اس کا دل ملامت کرتا ہے کہ تو نے غلط کام کرلىا ہے۔ کبىرہ گناہ کىا ہے۔ تعوىذ کرنے ، کروانے، لکھنے ، لکھوانے والے نے اگرچہ قرآن کى آىت بھى لکھ کر دے ، پھر بھى کبىرہ گناہ ہے۔ نبى علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ىہ طرىقہ علاج ثابت ہى نہىں۔ جو جائز اور درست علاج ہے نظر بد کا، جائز اور درست علاج ہے جادو کا۔ وہ کرنا چاہىے ، اسے اپنانا چاہىے۔ ہمارے ہاں جو طرىقہ علاج چلے ہوئے ہىں ، وہ عموماً پہنچى ہوئى سرکارىں لوگوں کے جادو ٹونے کو دور کرتى ہىں۔ وہ بہرحال ناجائز اور غلط ہے۔

دم کرنا اور سیکھنا

آج کل لوگوں نے اس کو کمائى کا ذرىعہ بنالىا ہے۔ اب کىا کرتے ہىں کہ کسى کو سکھاتے نہىں ہىں۔ کوئى کہے کہ ہم بھى سىکھنا چاہتے ہىں کہ چلو جن ,جادو کو خود ہى ختم کرلىں ، وہ کہتے ہىں کہ بڑا مشکل کام ہے، پہلے دس سال لگاؤ ، ہمارى خدمت کرو۔ دو سال ىا سال لگاؤ ، پھر سکھائىں گے۔ نبى ﷺ نے کسى کو نہىں کہا۔دىکھئے وہ اىک آدمى، مشہور حدىث صحىح بخارى کے اندر،ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لىا، صحابہ کرام کا قافلہ وہاں سے گزرا ، انہوں نے سات مرتبہ، تىن مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھى۔ اور پڑھنے کے دوران جو لعاب منہ مىں جمع ہوا تھا وہ لگا دىا اس جگہ جہاں سانپ نے ڈنگ مارا تھا، اسے شفا مل گئى۔ چالىس بکرىاں اس دم کى اجرت انہوں نے لى ۔پھر نبى ﷺ سے آکر فتوى لىا کہ دم کرکے جو ہم نے اجرت لى ہے ،ىہ جائز ہے؟ فرماىا: إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ کہ جتنے کام کرکے دنىا کے کوئى اجرت لىتا ہے ان سارے کاموں مىن سے کتاب اللہ زىادہ حق دار ہے کہ اس پر اجرت لى جائے۔[صحیح بخاری کتاب الطب باب الشرط فی الرقیۃ بقطیع من الغنم (5737)]۔ اور پوچھا کہ تمہىں کس نے بتاىا: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ؟ کہ ىہ دم ہے؟ [صحیح بخاری کتاب الطب باب النفث فی الرقیۃ (5749) ] اور پھر اسى طرح وہ اىک آدمى پاگل ہوگىا ، سنن ابى داؤد مىں رواىت آتى ہے ، مغلوق العقل کى ، اىک صحابى نے تىن چار دن اس پر سورہ فاتحہ ہى پڑھ کر دم کىا۔ اللہ نے اس کو شفا دے دى, انہوں نے اسے ایک سو بکریاں دیں ۔ [کتاب الطب باب کیف الرقى (3896)] سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے، قرآن کى ماں ہے۔ بڑى شفا ہے اس کے اندر۔ کسى قسم کى کوئى بىمارى ہو، جادوہو، سانپ ، بچھو نےڈنگ مارا ہو، سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک ماردو، اللہ تعالىٰ شفا دے دىں گے۔ اىک آدمى آىا کہ مىرے پہلو کے اندر درد ہے۔ آپ ﷺ نے فرماىا؛ وہاں پر ہاتھ رکھو اور تىن مرتبہ پڑھو: بسم اللہ ، بسم اللہ، بسم اللہ اور سات مرتبہ پڑھو: أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ ۔ اس نے کہا: مىں نے اىس ہى کىا ، بىمارى ختم۔[ سنن ابی داودکتاب الطب باب کیف الرقى (3891)] ىہ چلے لگانا، الٹى سىدھى حرکتىں کرنا، اسلام مىں جائز نہىں ہىں۔ دىن بڑا آسان سا، سىدھا سادا سا دىن ہے۔ جو شخص پانچ وقت کى نماز پڑھتا ہے، صبح شام کے اذکار کرتا ہے، نماز کے بعد اذکار کرتا ہے۔ رات کو سوتے وقت اذکار کرتا ہے، وہ کسى بھى وقت قرآن کى کوئى بھى آىت پڑھ کر کسى کو پھونک مارے دے اللہ تعالىٰ شفا دىں گے۔ ىہ کوئى لمبے چوڑے وظىفے اور لمبے چوڑے کورس نہىں ہىں۔ اب نبى ﷺ پر جادو ہوا۔ کىا جبرائىل نے آکر کہا کہ پہلے آپ دو سورتوں کا چالىس دن تک چلہ لگاؤ؟ ہىں؟؟ پھر دم کرنا، پھر اثر پىدا ہوگا۔ اىسا کہا تھا؟ بالکل نہىں۔ کہا ىہ دو سورتىں ہىں ، ىہ اس کا علاج ہىں۔دم کىا، ختم، شىطان خود بتا دے گىا۔ ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ والى کتنى مشہور حدىث ہے۔ وہ بار بار آتا تھا ، چورى کرکے چلا جاتا تھا۔ نبى ﷺ نے فرماىا: وہ پھر آئے گا۔ وہ تىسرے دن پھر آگىا۔ کہنے لگا: اب مجھے چھوڑ دو۔ اىک طرىقہ بتاتا ہوں ،اس طرح کبھى نہىں آؤں گا۔ وہ کىا ہے جى؟ آىت الکرسى پڑھ لىا کرو۔ آکر رسول اللہ ﷺ کو بتاىا۔ آپ ﷺ نے فرماىا: تھا تو وہ بڑا جھوٹا ، لىکن بات سچى کرکے گىا ہے۔[صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ (3275)] تو کىا اس نے کہا تھا کہ پہلے چالىس دن چلہ لگاؤ؟ عشاء کى نماز کے بعد دائرہ لگا کر، قبرستان مىں جاکر ، آىت الکرسى کو پھر پڑھ کر دم کرو گے توپھر بچو گے۔ اىسى تو بات نہىں۔ کىا نبى ﷺ نے کوئى پابندى لگائى تھى؟ بالکل نہىں۔ کہا: کہ بندہ جھوٹا تھا بات سچى کہہ کرگىا ہے۔آىت الکرسى پڑھو،شىطان کى اىسى تىسى۔ دىن اسلام بڑا صا ف ستھرا اور سىدھا سا دىن ہے۔ تو اسلام نے جو احکامات دىتے ہىں انہىں سمجھنا اور اپنانا چاہىے۔ تو خلاصۂ کلام آج کى گفتگو کا ىہ ہے کہ

1. جادو کا وجود ہے۔

2. جادو کے ذرىعے نفع اور نقصان ہوجاتا ہے ۔

3. ىہ نفع او ر نقصان باذن اللہ ہوتا ہے۔

4. اللہ کے اذن اور اجازت کے بغىر کچھ بھى نہىں ہوسکتا۔

5. جادوکرنا، کرانا، سىکھنا، سکھانا کفر ہے۔

6. جادو کا وہ طرىقہ علاج جو شرىعت نے دىا ہے وہ کرنا چاہىے ، وہ جائز اور درست ہے۔ اور غىر شرعى طرىقے جادو کےلىے ہوں ىا جنات بھگانے کےلىے ، ان سے اجتناب ضرورى ہے۔

7. نظر بد اور جادو سے بچاؤ کے چند اىک مختصر طرىقہ کار ہىں ، سورۃ بقرہ کى تلاوت گھر مىں کى جائے، بے پردگى کو ، مىوزک کو ، عشقىہ گانوں کو گھر سے ختم کىا جائے، ٹىلىوىژن وغىرہ ہے اس کو نابود کىا جائے۔ اور گھر کے اندر صوم وصلوٰۃ کى پابندى کى جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ىہ سورۃ بقرہ کى تلاوت ہو ، صبح شام کے اذکار ہوں ، رات کو سونے کے اذکار ہوں۔ جادو کا اثر ختم ہوجائے گا۔ جنات ہوں گے تو وہ بھاگ جائىں گے۔ ىا وہ جو دعا آپ نے نبى ﷺ کى سنى ہے وہ بندہ پڑھ لے تو پھر بھى شىطان بھاگ جاتا ہے ، وہ صبح اور شام کو سو سو مرتبہ پڑھنے والا وظىفہ "لا الہ الا اللہ وحدہ لاشرىک لہ ، لہ الملک و لہ الحمد وہو على کل شىئ قدىر” ىہ پڑھ لىا جائے ىہ بھى جادو اور جنات کے علاج کے بڑا مؤثر اور بہترىن طرىقہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالىٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ سمجھنے اور عمل کرنےکى توفىق عطا فرمائے ۔

وما على الا البلاغ المبىن۔