جرائم کی روک تھام کا حل، نفاذِ حدود اللہ میں پنہاں ہے

===========

آج وطن عزیز پاکستان میں قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ، چوری ڈاکہ، عصمت دری اور اغواء کے واقعات معمول بن چکے ہیں

نظام عدل و انصاف مفلوج ہو کر رہ گیا بدمعاش مافیا سرعام دندناتا پھر رہا ہے خوف و ہراس کا عجیب سماں بندھ گیا ہے لوگ اپنے بچوں کو سکول وکالج بھیجتے وقت پریشان نظر آتے ہیں

حالیہ دنوں موٹر وے پر ایک عورت کے ساتھ پیش آنے والے معاملے نے میڈیا پر پھر سے یہ بحث شروع کر دی ہے کہ موجودہ بدامنی کو کیسے روکا جا سکتا ہے

اس سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ جملہ معاشرتی جرائم کی روک تھام کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ فی الفور حدود اللہ کا نظام لاگو کردیا جائے

ہم انسان ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اب ہم نے بہترین زندگی کیسے بسر کرنی ہے یہ بھی ہم نے اللہ سے ہی رہنمائی لینی ہے

جیسے کوئی انجینئر یا کاریگر کوئی مشین بناتا ہے تو وہی بہتر جانتا ہے کہ وہ مشین درست طریقے سے کیسے چل سکتی ہے اسی کی ھدایات کے مطابق مشین چلے گی درست رہ سکے گی ورنہ خراب ہو جائے گی

اسلام اللہ کا نازل کردہ دین ہے جو اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے لہذا اپنے معاشرتی امن وامان کے لیے بھی ہمیں اسلام ہی کی طرف لوٹنا پڑے گا

قصاص میں زندگی ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة : 179]

اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے اے عقلوں والو! تاکہ تم بچ جاؤ۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کی عظیم حکمت بیان فرمائی ہے، کہ قصاص میں زندگی ہے، اس لیے کہ جس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت رہے گی کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو قتل کردیا جائے گا، تو وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا، اسی طرح جب لوگ قاتل کو قتل ہوتا دیکھ لیں گے، تو دوسروں کو قتل کرنے سے خائف رہیں گے، لیکن اگر قتل کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوتی تو شاید شر کا وہ دروازہ بند نہ ہوتا جو قاتل کھول دیتا ہے۔ (تفسیر تیسیر الرحمن)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا  (ابن ماجة، كِتَابُ الْحُدُودِ،بَابُ إِقَامَةِ الْحُدُودِ2538)

زمین میں ایک (مجرم کو) حد لگانا زمین والوں کے لیے چالیس دن بارش برسنے سے بہتر ہے۔

عھد نبوی سے قبل اور بعد کے جرائم

عھد نبوی سے قبل دور جاہلیت میں نظر دوڑائیں قتل و غارت کا بازار گرم نظر آتا ہے اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔

بقول شاعر

کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

لبِ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

جُوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی شراب ان کی گھٹی میں گویاپڑی تھی

تعیش تھا غفلت تھی دیوانگی تھی

غرض ہرطرح انکی حالت بری تھی

بہت اسطرح انکو گزری تھیں صدیاں

کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں

لیکن اسی معاشرے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان تقوی اور للھیت کی بنیاد پر لوگوں کی ذھن سازی کرنے کے ساتھ ساتھ شرعی حدود کا نفاذ کیا تو ایسا مثالی معاشرہ بن کر ابھرا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی

بقول شاعر

مسِ خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا

عرب جس پہ قرنوں سےتھاجہل چھایا

پلٹ دی بس اک آن میں اسکی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا

ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا

سابقہ اقوام کی تباہی کی وجہ، حدود اللہ کو معطل کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيعِ وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ (كِتَابُ الحُدُودِ،بَابُ إِقَامَةِ الحُدُودِ عَلَى الشَّرِيفِ وَالوَضِيعِ6787)

تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے

براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کے پاس سے گزرے جس کا منہ کالا کیا ہوا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے

تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا اور فرمایا :

’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد ایسے ہی پاتے ہو؟‘‘

انھوں نے کہا : ’’ہاں!‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا :

’’میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی، کیا تم اپنی کتاب میں زنا کی حد ایسے ہی پاتے ہو؟‘‘

اس نے کہا : ’’نہیں! اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ ہم وہ (حد) رجم ہی پاتے ہیں، لیکن یہ کام (زنا) ہمارے بڑے لوگوں میں عام ہو گیا

(فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِيْفَ تَرَكْنَاهُ، وَإِذَا أَخَذْنَا الضَّعِيْفَ، أَقَمْنَا عَلَيْهِ الْحَدَّ)

تو ہم جب بڑے کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ تو ہم نے کہا، آؤ ہم کسی ایسی سزا پر متفق ہو جائیں جو ہم اونچے لوگوں اور کمزور لوگوں سب پر قائم کریں، تو ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنا مقرر کر دیا

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوْهُ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ]

’’اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا جب انھوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔‘‘

[مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ في الزنٰی : ۱۷۰۰ ]

اسلامی قوانین و حدود میں سب برابر ہیں

اہل جاہلیت میں ایک ظلم یہ پایا جاتا تھا کہ اگر ان کے کمزور قبیلے کی کوئی عورت کسی طاقت ور قبیلے کے کسی مرد کو قتل کر دیتی تو وہ قتل کرنے والی عورت کے بجائے اس قبیلے کے کسی بے گناہ مرد یا متعدد مردوں کو قتل کر دیتے۔ اسی طرح کسی کمزور قبیلے کا کوئی غلام کسی زور آور قبیلے کے کسی آزاد آدمی کو قتل کر دیتا تو وہ اس قاتل غلام کی جگہ اس قبیلے کے کسی بے گناہ آزاد ہی کو قتل کرنے پر اصرار کرتے، تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قتل کرنے والے کے بدلے میں اسی قاتل ہی کو قتل کیا جائے، کسی دوسرے کو نہیں، قاتل خواہ آزاد ہے یا غلام، مرد ہے یا عورت۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى [البقرة : 178]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے، آزاد (قاتل) کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام (قاتل) کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور (قاتلہ) عورت کے بدلے وہی (قاتلہ) عورت (قتل) ہوگی

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ ] [ أبو داوٗد، الجہاد، باب فی السریۃ ترد علی أھل العسکر :۲۷۵۱۔ أحمد : 123/1۔ نسائی : ۲۷۵۰۔ ح : ۹۹۵ ابن ماجہ : ۲۶۸۳، وقال الألبانی حسن صحیح ]

’’مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔‘‘

حدود اللہ میں کسی کو استثناء حاصل نہیں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا (بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،3475)

اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

نفاذ حدود کے سامنے کوئی سفارش، رشوت، پریشر یا قرابت رکاوٹ نہیں بننی چاہیے

عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ قریش کو مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا، جس نے چوری کی تھی، کہنے لگے :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کون بات کرے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اسامہ بن زید کے سوا کون یہ جرأت کرے گا۔‘‘

تو اسامہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰهِ؟ ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ، فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا ضَلَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا سَرَقَ الشَّرِيْفُ تَرَكُوْهُ، وَ إِذَا سَرَقَ الضَّعِيْفُ فِيْهِمْ أَقَامُوْا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللّٰهِ! لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ يَدَهَا ] [ بخاري، الحدود، باب کراھیۃ الشفاعۃ في الحد إذا رفع إلی السلطان : ۶۷۸۸۔ مسلم : ۱۶۸۸ ]

’’کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کر رہے ہو؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور خطبہ دیا، فرمایا : ’’لوگو! تم سے پہلے لوگ اسی لیے گمراہ ہو گئے کہ جب اونچا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی چوری کرتی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘

نفاذ حدود میں نرمی نہ کی جائے

وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [نور، 2]

اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔

حد نافذ کرنے میں تمھاری طرف سے کوئی نرمی یا ترس رکاوٹ نہ بنے۔

اور اگر ترس کھا کر حد نافذ نہ کی جائے، یا ترس کھا کر حد نہ لگانے کی سفارش کی جائے، یا اس قدر آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ حد کا مقصد ہی فوت ہو جائے تو یہ گناہ ہے ۔

بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرے پر ظلم ہے۔ پہلی امتوں پر حدود الٰہی میں نرمی ہی سے تباہی آئی۔

حدود سرعام نافذ کی جائیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

{ وَ لْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ:}

حدود کے نفاذ کے وقت مومنین کی ایک بڑی تعداد جمع ہونی چاہیئے

اللہ تعالیٰ کی حدود کے دو مقصد ہیں

ایک یہ کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے

دوسرا یہ کہ وہ اس کے لیے اور لوگوں کے لیے عبرت بنے تاکہ وہ اس جرم سے باز رہیں

جیسا کہ فرمایا :

« وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ»

[ المائدۃ : ۳۸ ]

’’اور جو چوری کرنے والا ہے اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔‘‘

چور کا کٹا ہوا ہاتھ عبرت کے لیے کافی ہے، اور زانی کے لیے حد لگاتے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونے کا حکم دیا، تاکہ باعث عبرت ہو۔ کوڑے مارتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی بجائے خود ایک سزا ہے، کیونکہ کوڑوں کی تکلیف تو ختم ہو جاتی ہے مگر رسوائی کا احساس جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے حد لگانے کی صورت میں اس بات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی کہ حد معطل کر دی جائے، یا اس میں کمی یا نرمی کی جائے۔

حدود اللہ کا عدم نفاذ خانہ جنگی کا باعث بنتا ہے

حدود اللہ کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ان پر وبائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَ يَتَخَيَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ، إِلَّا جَعَلَ اللّٰهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ ]

[ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۱۹۔ مستدرک حاکم : 540/4، ح : ۸۶۲۳، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب : ۲۱۸۷ ]

اور جن کے امراء اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی لڑائی آپس میں ڈال دیتا ہے۔‘‘

یہ نتیجہ حدود اللہ کو معطل کرنے کا ہے، جب کہ حدود اللہ قائم کرنے سے بے حساب برکتیں نازل ہوتی ہیں

فسادیوں کی سزا

معاشرے میں فساد پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت کڑی سزا مقرر کی ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [مائدہ 33]

ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔

ایک چرواہے کے قاتلوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شدید گرفت

یہ کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، لیکن وہاں کی آب و ہوا انھیں موافق نہ آئی اور وہ بیمار ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مدینہ سے باہر صدقہ کے اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب (ملا کر) پییں۔ یہ لوگ وہاں چلے گئے، تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور چرواہے کو قتل کر کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انھیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں، پھر انھیں دھوپ میں پھینک دیا گیا، یہاں تک کہ سب مر گئے۔

[ بخاری، الجہاد والسیر، باب إذا حرق المشرک المسلم ھل یحرق: ۳۰۱۸۔ مسلم : ۱۶۷۱ ]

مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انھوں نے چرواہے کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا۔

[ مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین : 1671/14]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیورات کی خاطر ایک بچی کو قتل کرنے والے یہودی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا

سیدنا انس (رض) فرماتے

أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ قِيلَ مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكِ أَفُلَانٌ أَفُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ  [بخاري]

ایک یہودی نے ایک مسلمان لڑکی کا جو زیور پہنے ہوئے تھی۔ محض زیور حاصل کرنے کے لیے سر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے اس کا سر کچلا ؟ فلاں نے یا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ جب قاتل یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے بتایا ہاں وہ یہودی نبی اکرم کے پاس لایا گیا۔ اس نے جرم کا اقرار کرلیا تو آپ نے بھی دو پتھروں کے درمیان اس کا سر رکھ کر کچلوا دیا۔

(مسلم۔ کتاب القسامہ۔ باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر)

(بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب سوال القاتل حتی یقرو الاقرار فی الحد۔ باب اقاد بحجر)

مسلم کے الفاظ

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا، ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي الْقَلِيبِ

اس یہودی نے انصار کی بچی کو زیورات چھیننے کے لیے قتل کیا پھر اسے ایک کنوے میں پھینکا تھا

مسلم ہی میں ھے

فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ، فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ [مسلم 4363]

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مر جانے تک پتھر مارنے کا حکم دیا ، چنانچہ اسے پتھر مارے گئے حتی کہ وہ مر گیا۔

اس یہودی نے بچی کے زیورات حاصل کرنے کے لیے اسے اغواء کیا پھر قتل کیا پھر اسے کنویں میں پھینکا مگر جب حد نافذ ہوئی تو کئی سال تک دوبارہ اس نوعیت کا واقعہ رونما نہ ہوا

کیا آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کے کانوں سے زیورات کھینچے نہیں جارہے؟

کیا آج بچوں کو قتل کرکے ان کی نعش ندی نالے دریاؤں میں پھینکی نہیں جاتی؟

کیا آج ہمارے معاشرے میں بچوں بڑوں اور تاجروں کے اغواء برائے تاوان نہیں ہورہے؟

کیا آج گاڑی چوری کرنے کے لیے ڈرائیوروں کو قتل کرنے کے واقعات نہیں ہورہے؟

کیا آج راہ چلتے مسافروں سے ان کے موبائل-فون چھینے نہیں جاتے؟

آج بھی ان مسائل کا وہی حل ہے جو کل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا

27 سال گزر گئے کیس لڑتے ہوئے

انصاف میں تاخیر قتلِ انصاف ہے

2017 کی بات ہے جڑانوالہ کے گاؤں ڈھیسیاں سے ایک جماعتی بھائی نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ زمین کے متعلق ہمارا ایک کیس 1993 سے چل رہا ہے عدالت کے چکر لگاتے ہوئے 27 سال گزر چکے ہیں ہنوز مسئلہ حل نہیں ہوا اور مستقبل قریب میں حل ہوتا ہوا نظر بھی نہیں آ رہا

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جتنی رقم کیس کے حوالے سے خرچ کر چکے ہیں زمیں کی قیمت شائد کہ اس سے کم ہو

آخر وہ کون سی گتھی ہے جو 27 سالوں میں جج صاحبان کو سمجھ نہیں آ رہی

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری عدالتیں خاموشی کے ساتھ عوام کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر اپنا حق لینا چاہتے ہو تو قانون ہاتھ میں لینا پڑے گا

سیالکوٹ کی ایک ماں کے دو بیٹے قتل ہوئے لیکن آج تک انصاف نہ مل سکا

2010 کی بات ہے سیالکوٹ کے نواحی علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا دن کی روشنی میں دو بھائیوں کو قتل کر دیا گیا دوسرے گاؤں کے لوگوں نے مل کر قتل کیا اینٹوں، پتھروں، ڈنڈوں اور جوتوں سے مارا، سرعام مارا، سب نے دیکھا وڈیو بنائی گئی قاتلوں کے چہرے نمایاں نظر آ رہے تھے مقتولین ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتے رہے مگر وحشی لوگوں نے ایک نہ سنی تڑپا تڑپا کر مارا

دونوں سگے بھائی تھے قتل ہوگئے ماں مقدمہ لڑنے کے لیے اٹھی کیس دائر کیا عدالتوں کی خاک چھانی مگر آج تک اپنے بیٹوں کا بدلہ لینے میں کامیاب نہ ہو سکی

تف ہے ایسے نظامِ عدل پر کہ جو سورج کی روشنی میں بنی ہوئی وڈیو اور بیسیوں عینی شاہدین کے باوجود قاتل پکڑنے میں ناکام ہے

عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پراسرار قتل اور آپ کا فیصلہ

عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک لڑکا قتل ہوگیا اس کے قاتل مل نہیں رہے تھے آپ نے سخت آرڈر جاری کرتے ہوئے فرمایا

لَوْ اشْتَرَكَ فِيهَا أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ

بخاري معلقا

اگر اس لڑکے کے قتل میں صنعاء کے سارے لوگ ملوث پائے گئے تو ان سب کو قتل کروں گا

اعضا کے قصاص کا حکم

اسلام میں انسان کے ایک ایک عضو کی حفاظت کا زبردست انتظام کیا گیا ہے

فرمایا :

«وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ » [ المائدۃ : ۴۵ ]

’’اور اس میں ہم نے ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلا ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

چور کے ہاتھ کاٹ دو

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [المائدة : 38]

اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

چادر چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا گیا

صفوان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

أَنَّهُ نَامَ فِي الْمَسْجِدِ وَتَوَسَّدَ رِدَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُخِذَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بِسَارِقِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ صَفْوَانُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ أُرِدْ هَذَا رِدَائِي عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ

[ ابن ماجہ، الحدود، باب من سرق من الحرز : ۲۵۹۵ قال الألبانی صحیح ]

وہ مسجد میں سو گئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،

چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا

صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا:

اللہ کے رسول! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لیے صدقہ ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا ؟

زانیہ مرد اور عورت کی حد

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [النور : 2]

جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔

عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلاً، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَ نَفْيُ سَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ ] [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی : ۱۶۹۰ ]

’’مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔‘‘

کتاب اللہ میں رجم کا حکم

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، سمجھا اور یاد کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر لوگوں پر لمبا زمانہ گزر گیا تو کوئی کہنے والا کہے کہ اللہ کی قسم! ہم اللہ کی کتاب میں رجم کو نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو ترک کرنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔

وَالرَّجْمُ فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ حَقٌّ عَلٰی مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الْاِعْتِرَافُ [بخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰی من الزنا إذا أحصنت : ۶۸۳۰ ]

رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے اس شخص پر جو شادی شدہ ہو، مرد ہو یا عورت، جب دلیل قائم ہو جائے، یا حمل ہو یا اعتراف ہو۔‘‘

حدود کی برکات

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا (ابن ماجة، كِتَابُ الْحُدُودِ،بَابُ إِقَامَةِ الْحُدُودِ2538)

زمین میں ایک (مجرم کو) حد لگانا زمین والوں کے لیے چالیس دن بارش برسنے سے بہتر ہے۔

حدود اللہ کی برکت سے ایمان و تقوی کا ایسا ماحول قائم ہوجاتا ہے کہ مجرم خودآکر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں

ماعز بن مالک (اسلمی) رضی اللہ عنہ

ماعز بن مالک (اسلمی) رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔” کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔” کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) اسی طرح فرمایا حتی کہ جب چوتھی بارر (یہی بات) ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟” انہوں نے کہا: زنا سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا اسے جنون ہے؟” تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ہے۔ تو آپ نے پوچھا: "کیا اس نے شراب پی ہے؟” اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کا منہ سونگھا تو اسے اس سے شراب کی بو نہ آئی۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے زنا کیا ہے؟” انہوں نے جواب دیا: جی ہاں (یہیں آپ نے اس سے اس واقعے کی تصدیق چاہی جو آپ تک پہنچا تھا) پھر آپ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا، چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہ بن گئے، کچھ کہنے والے یہ کہتے: وہ تباہ و برباد ہو گیا، اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا۔ اور کچھ کہنے والے یہ کہتے: ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں (ہو سکتی) کہ وہ (خود) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، پھر کہا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے۔ کہا: دو یا تین دن وہ (اختلاف کی) اسی کیفیت میں رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، وہ سب بیٹحے ہوئے تھے، آپ نے سلام کہا، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا: "ماعز بن مالک کے لیے بخشش مانگو۔” کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔”

(مسلم، كِتَابُ الْحُدُودِ،بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى4431)

غامدیہ عورت کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ازد قبیلے کی شاخ غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی:

اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔

تو آپ نے فرمایا: "تم پر افسوس! لوٹ جاؤ، اللہ سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔”

اس نے کہا: میرا خیال ہے آپ مجھے بھی بار بار لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا۔

آپ نے پوچھا: "وہ کیا بات ہے (جس میں تم تطہیر چاہتی ہو؟)”

اس نے کہا: وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہے۔

تو آپ نے (تاکیدا) پوچھا: کیا تم خود؟”

اس نے جواب دیا: جی ہاں،

تو آپ نے اسے فرمایا: "(جاؤ) یہاں تک کہ جو تمہارے پیٹ میں ہے اسے جنم دے دو۔”

کہا: تو انصار کے ایک آدمی نے اس کی کفالت کی حتی کہ اس نے بچے کو جنم دیا۔ کہا: تو وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ور کہنے لگا: غامدی عورت نے بچے کو جنم دے دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تب ہم (ابھی) اسے رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو کم سنی میں (اس طرح) نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اسے دودھ پلانے والا نہ ہو۔”

پھر انصار کا ایک آدمی کھڑا ہوا ور کہا: اے اللہ کے نبی! اس کی رضاعت میرے ذمے ہے۔

تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا

(مسلم، كِتَابُ الْحُدُودِ،بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى4431)

نورستان کا ایک واقعہ

ہمارے استاذ گرامی جناب قاری عنایت اللہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کا تعلق افغانستان کے علاقے نورستان سے ہے

وہاں شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ (جو اس وقت وہاں امیر جماعت تھے) نے بحمد اللہ گیارہ سال شرعی حدود قائم کی تھیں

شیخ محترم بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ کے پاس آئی اور آکر کہنے لگی کہ مجھے پاک کردیں میرے اوپر حد نافذ کریں مجھ سے بدکاری ہو گئی ہے

قصہ مختصر یہ کہ شیخ جمیل الرحمن نے اسے کہا کہ فلاں دن تشریف لائیں

فرماتے ہیں کہ جب مقررہ دن آیا تو وہ عورت غسل کرنے کے بعد خوشی خوشی محلے کی سب خواتین سے ملتی ہے ہر ایک سے معافی مانگتی ہے اور خوش ہو کر کہتی ہے آج میں پاک صاف ہو کر اپنے رب کے پاس جارہی ہوں

سبحان اللہ یہ ہے نفاذ حدود کی برکت ہے

اکیلی عورت کا سفر محفوظ رکھنے کے لیے نبوی فارمولا

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی ، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی ، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ ( جوکوفہ کے پاس ایک بستی ہے ) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ، البتہ اس کانام میں نے سنا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور ( مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا ۔ میں نے ( حیرت سے ) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوو¿ں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگارکھی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے ( تم پر ) کھولے جائیں گے ۔ میں ( حیرت میں ) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز ( ایران کا بادشاہ ) کسریٰ آپ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز ! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تویہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی ( جو اس کی زکوٰۃ ) قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایساآدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کرلے ، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جودن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میںملاقات کرے گا کہ درمیان میںکوئی ترجمان نہ ہوگا ( بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا ) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا ۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیاہو ؟ وہ عرض کرے گا بے شک تونے بھیجا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی ؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی ؟ وہ جواب دے گا بے شک تونے دیا تھا ۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیںطرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا ، عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرمارہے تھے کہ جہنم سے ڈرو ، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو ۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آسکے تو ( کسی سے ) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے ۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میںبیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور ( مکہ پہنچ کر ) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے ( ڈاکو وغیرہ ) کا ( راستے میں ) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے ۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لوگے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ( زکوٰۃ کا سونا چاندی ) بھر کر نکلے گا ( لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا ) مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا ، کہا ہم کو سعد ان بن بشر نے خبردی ، ان سے ابو مجاہد نے بیان کیا ، ان سے محل بن خلیفہ نے بیان کیا ، اور انہوں نے عدی رضی اللہ سنے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ، پھر یہی حدیث نقل کی جو اوپرمذکور ہوئی ۔

(بخاری، كِتَابُ المَنَاقِبِ، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ3595)

شاہ فیصل رحمہ اللہ کا امریکہ میں انٹرویو

آپ امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں کسی صحافی نے سوال کیا جناب آپ اپنے ملک میں جمہوریت کیوں نافذ نہیں کرتے ہو

تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی نظام میں تبدیلی تب لائی جاتی ہے جب وہ نظام انسانوں کی بھلائی اور حفاظت میں ناکام ہو جائے

اور ہمارے نظام حکومت اور اپنے نظام حکومت کا تقابل یہاں سے سمجھ لیجیے کہ پورے سعودی عرب میں مکمل ایک سال کے دوران اتنے جرائم سرزد نہیں ہوتے جتنے امریکہ کے ایک شہر نیویارک میں صرف ایک دن میں سرزد ہوتے ہیں

یہ سب حدود اللہ کے نفاذ کی برکت ہے بحوالہ مجلہ الدعوہ)

مسلم حکمران کا فرض

اسلامی معاشرے میں شرعی حدود کا نفاذ مسلم حکام کے فرائض میں شامل ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ [الحج : 41]

وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَ يَتَخَيَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ، إِلَّا جَعَلَ اللّٰهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ ]

[ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۱۹۔ مستدرک حاکم : 540/4، ح : ۸۶۲۳، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب : ۲۱۸۷ ]

اور جن کے امراء اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی لڑائی آپس میں ڈال دیتا ہے۔‘‘

کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہ کرنا کفر، ظلم اور فسق ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

یعنی جو شخص قرآن و حدیث کا انکار کر کے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے، ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

اور فرمایا

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

یعنی اگر قرآن و حدیث کا انکار تو نہیں کرتا مگر اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو یہ ظالم ہے۔

اور فرمایا

ِ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

یعنی جو اﷲ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہ نافرمان ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب میں اترا ہوا اﷲ کا حکم نہیں مانا۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب

آپ ہمارے اس ملک کے ذمہ دار ہیں اور اس رعایا کے مال و جان کی حفاظت آپ کے ذمے ہے آپ برسراقتدار ہیں آپ کے پاس وقت ہے طاقت بھی ہے ریاست مدینہ کی بات بھی کرتے ہیں تاخیر مت کیجئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ کی طرح بنائیں نفاذ حدود میں دیر مت کیجئے

جس رب نے آپ کو کرسی کا وارث بنایا ہے وہ اسے واپس بھی چھین سکتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ [بخاري 2278]

تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔

حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خون ناحق کا ضرور قصاص لے۔ خواہ مقتول کا کوئی وارث موجود ہو یا نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مقتول کے وارث تو ہوں مگر انہیں قصاص لینے میں کوئی دلچسپی نہ ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دنیوی مفادات کی خاطر یہ قتل ہی ورثا کے ایماء سے ہوا ہو۔ جو بھی صورت ہو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کو گرفتار کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچائے۔