جسم میرا مرضی میرے رب کی

جسم اللہ نے بنایا اور کیا ہی کمال بنایا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (الإنفطار : 6)

اے انسان! تجھے تیرے نہایت کرم والے رب کے متعلق کس چیز نے دھوکا دیا؟

الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (الإنفطار : 7)

وہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، پھر تجھے برابر کیا۔

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (الإنفطار : 8)

جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔

أی کا لفظ کمال کے لیے بھی آتا ہے اس لحاظ سے معنی ہوگا

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ

کمال خوبصورتی میں جیسے اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا

انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں بنایا

فرمایا

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين : 4)

بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔

سورہ تغابن میں ہے

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (التغابن : 3)

اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور اس نے تمھاری صورتیں بنائیں تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔

اس بہترین بناوٹ میں اس کی شکل و صورت کا حسن، اس کی عقل، اس کی فطرت پر پیدائش اور وہ سب کچھ شامل ہے جو کسی حیوان کو حاصل نہیں۔

انسان اور حیوان کے اجزاء ترکیبی میں مماثلت

وہ تمام اجزاء و اشیاء جو ایک انسان کے جسم میں موجود ہیں سبھی کے سبھی اسی رنگ و ساخت میں حیوانات میں بھی موجود ہیں

وہی پانی جو سب کی پیدائش میں بنیادی عنصر ہے

وہی سرخ رنگ کا خون

وہی سفید رنگ کی ہڈیاں

وہی حواس خمسہ

وہی احساسِ بھوک و پیاس

وہی دھوپ و چھاؤں کی تلاش

مگر

فرق صرف احسن تقویم کا ہے

فرق تخلیق، تسویہ، ترکیب اور تعدیل کا ہے

یہی وہ فرق ہے جس نے انسان کو مخدوم اور حیوان کو خادم بنا دیا

تھوڑی سی ترکیب بدلی تو ایک گدھا بن گیا اور دوسرا گدھے کا مالک، انسان بن گیا

اللہ تعالیٰ اگر یہ ترکیبی فرق نہ کرتے اور ہمیں بھی کسی جانور کی شکل میں پیدا کردیتے تو ہم اللہ رب العزت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے

اسی فرق کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے

فرمایا

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (النور : 45)

اور اللہ نے ہر چلنے والا (جاندار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

ذرا غور کیجئے جو جانور پیٹ کے بل چلتے ہیں ان کا خالق بھی وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کو پیٹ کے بل چلا دیتے تو کیا بنتا

اور جن جانوروں کی چار ٹانگیں ہیں ان کا خالق بھی وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کی چار، آٹھ یا سولہ ٹانگیں بنا دیتے تو کیسا محسوس ہوتا

مگر اے انسان! یاد رکھ یہ سب کچھ

صُنْعَ اللَّہ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل : 88)

اس اللہ کی کاری گری سے ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اس سے خوب باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

میٹھے اور کھارے پانی کا فارمولا

میٹھے اور کھارے پانی میں صرف ترکیب و تعديل کا فرق ہے ورنہ دونوں کے بنیادی اجزاء ایک ہی ہیں

دونوں ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتے ہیں

میٹھے پانی کا فارمولا H2O ہے

اور کھارے پانی کا فارمولا H2O2 ہے

صرف تعديل و ترکیب بدلنے سے ساخت، شناخت اور اہمیت تبدیل ہو گئی

ہیرے اور کوئلے کا فارمولا

ہیرے اور کوئلے میں بھی یہی فرق ہے دونوں کاربن سے بنتے ہیں دونوں کا فارمولا قریب قریب ایک ہے

مگر ترکیب و تعديل میں ہلکے سے تفاوت اور کمی بیشی سے اتنا فرق پڑا کہ ایک انتہائی گراں قدر اور دوسرا بہت ارزاں ٹھہرا

کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ فارمولا گریفائٹ(کوئلہ) ڈائمنڈ فارمولا (ہیرا) کے طور پر ایک ہی ہے، لیکن معدنیات مکمل طور پر مختلف ہیں؟

انسان اور حیوان کے بنیادی اجزاء کے ایک ہونے کے باوجود دونوں کے درمیان ایک بڑے فرق کی وجہ وہی ترکیب و تعديل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے

الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (الإنفطار : 7)

وہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، پھر تجھے برابر کیا۔

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (الإنفطار : 8)

جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔

اللہ تعالیٰ چاہیں تو انسانی اعضاء کو مفلوج کر سکتے ہیں

فرمایا

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَى قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ (الأنعام : 469)

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تمھاری سماعت اور تمھاری نگاہوں کو لے لے اور تمھارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمھیں یہ چیزیں لا دے؟ دیکھ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں، پھر وہ منہ موڑ لیتے ہیں۔

اور فرمایا

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ (يس : 66)

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی آنکھیں مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو کیسے دیکھیں گے؟

آنکھ کی پتلی نے جھپکنا چھوڑ دیا

اوناسس ایک یونانی تاجرتھا،

دنیاکی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا،

زیتون کا کاروبار کرتاتھا، اسے دنیا کے امیرترین شخص کا اعزاز حاصل تھا۔

اسکوایک عجیب بیماری لگی تھی، جس وجہ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے۔

یہان تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھاسکتے تھے

ڈاکٹروں نے آنکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگاکر اوپر چپکادیا تھا

رات کو جب آرم کرتےتوسولیشن اتاردیتے

توپلکیں خودبخود نیچے گرجاتییں، صبح پھر سولیشن لگادیتے، ایک دن ان سے سب سے بڑی خواہش پوچھی گئی تو کہا کہ

”صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھاسکوں چاہے

اس پرمیری ساری دولت ہی کیوں نہ خرچ ہوجاۓ“۔

اللّہ اکبر

صرف ایک بارپلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیاکا امیرترین شخص اپنی ساری دولت دیتاہے؟ ہم مفت میں ان گنت بار پلکیں خوداٹھاسکتے ہیں۔

دل ایک خودکارمشین کی طرح بغیرکسی چارجز کے دن میں

ایک لاکھ 3 ہزار (680) مرتبہ دھڑکتاہے، آنکھیں 1 کروڑ 10 لاکھ رنگ دیکھ سکتی ہیں،

زبان،کان، ناک، ہونٹ، دانت، ہاتھ، پاؤں

جگر، معدہ، دماغ، پھیپھڑے، پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ہیں۔

ایسے کریم رب کی ہر نعمت کا شکر کرنا، اسکو راضی کرنے کی پوری کوشش کرنا،

اوراسکا ہر وقت شکر کرناچاہیے…

اللّہ تعالی مجھے اور آپکو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،، آمین

اللہ تعالیٰ چاہیں تو انسانی شکل مسخ کر دیں

فرمایا

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ (يس : 67)

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں بدل دیں، پھر نہ وہ (آگے) چل سکیں اور نہ واپس آئیں۔

کتنے لوگ ہیں جو لقبی کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے چہرے کی شناخت تبدیل ہو جاتی ہے

کتنے لوگ ہیں جو بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں

کتنے لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر ہی عجیب الخلقت ہوتے ہیں

ایسے ہی بھینگا، نابینا، لنگڑا، ٹنڈا، کالا، ٹھگنا، توتلا، بہرا، گُھونگا، کبڑا سب اسی قبیل سے ہیں اور کامل الأعضاء انسانوں کے لیے سبق دے رہے ہیں کہ ہمارا رب اس بات پر بھی قادر ہے

اس لیے ہروقت اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہیں اور اکڑ کی بجائے عاجزی سے اس کا شکر ادا کرتے رہیں

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا

ایک ملحد کا عجیب واقعہ

صاحبِ کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ (الملك : 30)

کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟

تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین)

چکھنے کی حس جواب دے گئی

بالکل اسی طرح ایک بہت بڑے سیٹھ مالدار آدمی کی زبان کی چکھنے کی حس اللہ تعالی نے ختم کر دی اب اس کی زبان کوئی بھی ذائقہ محسوس نہیں کرتی تھی نہ میٹھا نہ پھیکا نہ کڑوا نہ نمکین، وہ جو بھی کھاتا بس کھاتا ہی تھا اسے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ میں کیا کھا رہا ہوں اس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا مگر اس کی وہ حس واپس نہ آ سکی

انسانی جسم، بڑھاپا اور انسان کی بے بسی

جو کہتے ہیں میرا جسم میری مرضی، ان کے لیے قابل غور بات یہ ہے کہ چند سال جوانی کے بعد ہر طرح کے اسباب و ذرائع اور وسائل استعمال کرنے کے باوجود جب بڑھاپا آتا ہے تو انسان کا اپنا جسم انسان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ (يس : 68)

اور جسے ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اسے بناوٹ میں الٹا کر دیتے ہیں، تو کیا یہ نہیں سمجھتے۔

بڑے بڑے پہلوان کہ جن کا پہلوانی میں ایک نام تھا مدمقابل پر لرزہ طاری کر دیا کرتے تھے جب بوڑھے ہوئے تو رعشے کی بیماری نے آن لیا اب ہاتھ اور گردن ایسے کانپ رہی ہے اور ٹانگیں ایسے لڑکھڑا رہی ہیں جیسے کوئی پانچ سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے

حتی کہ قضائے حاجت کے لیے بھی دوسروں کا محتاج بنا بیٹھا ہے تو پھر کہاں گیا وہ دعویٰ کہ میرا جسم میری مرضی

گویا بڑھاپے میں مبتلا کر کے اللہ تعالی کہنا چاہتے ہیں اے انسان جسم تیرا، مرضی میری

انسان کی بے بسی، کہ وہ اپنے نفس سے موت کو بھی نہیں ٹال سکتا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (آل عمران : 168)

کہہ دے پھر اپنے آپ سے موت کو ہٹا دینا، اگر تم سچے ہو۔

سورہ واقعہ میں ہے

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (الواقعة : 839)

پھر کیوں نہیں کہ جب وہ (جان) حلق کو پہنچ جاتی ہے۔

وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (الواقعة : 84)

اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (الواقعة : 85)

اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے۔

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (الواقعة : 86)

سو اگر تم (کسی کے) محکوم نہیں تو کیوں نہیں۔

تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الواقعة : 87)

تم اسے واپس لے آتے، اگر تم سچے ہو۔

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ

کا مطلب ہے کہ اگر تمہارے جسم پر تمہاری ہی مرضی ہے اور تم کسی کے محکوم نہیں اور نہ تم سے کوئی محاسبہ کرنے والا ہے اور تم خود ہی ہر طرح صاحب اختیار ہو، تو اگر تم سچے ہو تو نکلنے والی اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ تمھاری بے بسی سے ثابت ہوا کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے حکم کے پابند ہو، جب وہ لے جانا چاہے گا لے جائے گا اور جب زندہ کر کے محاسبے کے لیے اپنے سامنے کھڑا کرنا چاہے گا کر دے گا۔ اس لیے تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ اپنے جسم کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کرو

اسی کیفیت کی منظر کشی ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں کی ہے

كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (القيامة : 26)

ہرگز نہیں، ( وہ وقت یاد کرو) جب (جان) ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی۔

وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (القيامة : 27)

اور کہا جائے گا کون ہے دم کرنے والا؟

وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ (القيامة : 28)

اوروہ یقین کرلے گا کہ یہ جدائی ہے۔

وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (القيامة : 29)

اور پنڈلی، پنڈلی کے ساتھ لپٹ جائے گی۔

إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ (القيامة : 30)

اس دن تیرے رب ہی کی طرف روانگی ہے۔

سلیمان بن عبد الملک کا واقعہ

‏نظر سليمان بن عبد الملك بن مروان في المرآة ، فأعجب بنفسه فقال : أنا الملك الشاب ، فما دار عليه الشهر حتى مات

تاريخ الخلفاء للسيوطي [ص٣١٢]

ایک دفعہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک بن مروان رحمہ اللہ نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو اپنے آپ کو بڑا خوبصورت دیکھ کر خوش ہوئے اور کہنے لگے میں تو جوان بادشاہ ہوں

اس کے ٹھیک ایک مہینے بعد فوت ہو گئے

انسانی بے بسی کا ایک اور نمونہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (الإسراء : 37)

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ کبھی زمین کو پھاڑے گا اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔

انسانی جسم پر انسان کی مرضی اتنی ہے کہ پیاس اور پیشاپ کے ہاتھوں مجبور ہے

سماک بن حرب نے خلیفہ ہارون الرشید سے کہا اگر آپ سے ایک گھونٹ پانی روک لیا جائے تو آپ اس کو کتنی رقم کا خریدیں گے

انہوں نے کہا

بنصف ملكي

اپنی آدھی ملکیت کے بدلے

پھر جب انہوں نے پانی پی لیا تو اس نے پوچھا اب اگر اس پانی کا خروج یعنی پیشاپ روک دیا جائے تو یہ خروج کتنی رقم میں خریدیں گے

انہوں نے کہا

بجميع ملكي

اپنی ساری ملکیت کے بدلے

ابن سماک نے کہا

إن ملكاً قيمته شربة ماء لجدير ألا ينافس فيه .

ایسی ملکیت جس کی قیمت پانی کا صرف ایک گھونٹ ہو وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو کی جائے

پھر ہارون رونا شروع ہوگئے تو فضل بن ربیع نے ابن سماک کو اشارہ کیا اب تو یہاں سے چلا جا تو وہ چلے گئے

تاريخ الأمم والملوك- للطبري

انسانی جسم میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں

فرمایا

وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (الجاثية : 49)

اور تمھارے پیدا کرنے میں اور ان جاندار چیزوں میں جنھیں وہ پھیلاتا ہے، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو یقین رکھتے ہیں۔

اور فرمایا

وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الذاریات 21)

اور تمھارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے؟

دنیا کی کوئی ایک مشین، انجن یا بیٹری ایسی دکھائی جائے جو مسلسل اتنا عرصہ بغیر وقفے سے چلتی رہتی ہو جتنا عرصہ انسانی اعضاء کام کرتے رہتے ہیں

مثال کے طور پر ایک شخص کی عمر سو سال ہے تو مسلسل سو سال تک اس کا دل دھڑکتا ہی رہا اس کی آنکھیں جھپکتی ہی رہیں اس کے پھیپھڑے سکڑتے اور پھیلتے ہی رہے

مفسر کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’انسان کا اپنا وجود اور اس کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے، جو غذا کو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہو جائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں۔ اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے، جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی، کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے خارج کر دیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خورد بین کے بغیر نظر ہی نہیں آ سکتا، انھی کے ذریعے انسان کے جسم کے ہر حصے کو خون پہنچتا ہے۔ اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا فتور آ جائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ (پھر سننے، سونگھنے، چکھنے، سوچنے، سمجھنے، یاد رکھنے، محسوس کرنے، سونے، جاگنے، بولنے اور دوسرے بے شمار افعال کے نظام ہیں جن میں سے ہر ایک پر غور کیا جائے تو آدمی حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے) انسان کا جسم ابتدا ہی سے حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے، مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردۂ راز ہی میں ہیں۔‘‘ [ تیسیر القرآن ،بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ ]

انسانی تخلیق کا مقصد

اتنی شاندار، لطیف، عمدہ، عجب اور خوبصورت تخلیق کا کیا یہ مقصد تھا کہ یہ انسان اب بے لگام ہو کر جو چاہے کرتا چلا جائے اور اس حد تک پہنچ جائے کہ انتہائی قبیح دعویٰ میرا جسم میری مرضی کا علمبردار بنا پھرے!

نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے

فرمایا

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المؤمنون : 115)

تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟

تخلیق انسان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 56)

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔

اور فرمایا

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك : 2)

وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔

اے انسان تو اپنے خالق کا باغی کیسے بن سکتا ہے

فرمایا

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرة : 28)

تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمھیں زندگی بخشی، پھر وہ تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

سورہ کہف میں ہے

أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا (الكهف : 37)

کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر تجھے ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنا دیا۔

جس نے جسم بنایا مرضی اسی کی ہوگی

هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران : 6)

وہی ہے جو رحموں میں تمھاری صورت بناتا ہے، جس طرح چاہتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ اور لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ پر غور کیجیے تو خود بخود یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ جو صورت گری کرتا ہے وہی معبود ہوتا ہے

یعنی جو پیدا کرتا ہے اسی کی مرضی چلتی ہے

ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے تخلیق اور عبادت کو اکٹھا ذکر کیا ہے

فرمایا

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة : 21)

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔

حکمِ الہی کے بعد انسانی مرضی کا عمل دخل نہیں رہتا

فرمایا

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الأحزاب : 36)

اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔

جسم کے متعلق سوال ہوگا

فرمایا

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ (التكاثر : 8)

پھر یقینا تم اس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھے جاؤ گے۔

یعنی صحت و عافیت، کھانے پینے اور دوسری تمام نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا کہ ان کا کہاں تک شکر ادا کیا؟

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی لذت اور معمولی سے معمولی عافیت ایسی نہیں جس کے بارے میں سوال نہ ہو۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے اور ایک انصاری کے گھر آئے، اس نے مہمانی میں کھجوریں اور بکری کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے گوشت اور کھجوریں کھائیں اور اوپر سے شیریں پانی پیا۔ جب خوب سیر ہوچکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] [ مسلم، الأشربۃ، باب جواز استتباعہ غیرہ… : ۲۰۳۸ ]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم سے قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں ( بھی) سوال ہوگا۔‘‘

انسانی جسم کے ایک ایک عضو کے متعلق سوال کیا جائے گا

ہمارے جسم پر ہماری نہیں بلکہ اللہ کی مرضی چلنی چاہیے ورنہ ایک ایک عضو کا حساب دینا پڑے گا

فرمایا

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (الإسراء : 36)

اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔

حقیر مٹی اور نطفے سے پیدا ہونے والا انسان جھگڑتا ہے

حقیر نطفے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (المرسلات : 20)

کیا ہم نے تمھیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟

اور حقیر مٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (المؤمنون : 12)

اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔

پھر ان دو حقیر چیزوں سے بننے والے انسان کے جھگڑالو ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (النحل : 4)

اس نے انسان کو ایک قطرے سے پیدا کیا، پھر اچانک وہ کھلم کھلا بہت جھگڑنے والا ہے۔

اور فرمایا

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (یس : 77)

اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے۔

یہ بھی جگھڑے کی ہی ایک قسم ہے کہ انسان اپنے ہی پیدا کرنے والے کے قوانین کو نہ مانتے ہوئے کہنا شروع کر دے میرا جسم میری مرضی

حسن بصری رحمہ اللہ کا قول

حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:

"يا ابن آدم، كيف تتكبر؟ وأنت خرجت من سبيل البول مرتين”

( الزهد للإمام أحمد)

اے آدم کے بیٹے..! تو کیسے تکبر کرسکتا ہے حالانکہ تو دو دفعہ پیشاب والی جگہ سے نکلا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال بیان کرتے ہیں

بزق النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِيْ كَفِّهِ، ثُمَّ وَضَعَ أُصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنّٰی تُعْجِزُنِي ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هٰذِهِ، فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هٰذِهِ، وَأَشَارَ إِلٰی حَلْقِهِ، قُلْتَ أَتَصَدَّقُ، وَأَنّٰی أَوَانُ الصَّدَقَةِ؟ ] [ابن ماجہ، الوصایا، باب النھي عن الإمساک… : ۲۷۰۷، قال البوصیري صحیح وقال الألباني حسن ]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوکا، پھر اپنی شہادت کی انگلی اس پر رکھی اور فرمایا : ’’اللہ عز و جل فرماتا ہے، اے ابن آدم! تو مجھے کیسے عاجز کر سکتا ہے، حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے اور جب تیری جان یہاں پہنچ جاتی ہے (اور آپ نے حلق کی طرف اشارہ فرمایا) تو کہتا ہے، میں صدقہ کرتا ہوں، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں؟‘‘

قیامت کے دن یہی جسم اپنی مرضی کرتے ہوئے انسان کے خلاف گواہی دے گا

بعض مجرم قیامت کے دن اپنے جرم کا اقرار کرنے سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، وہ گواہوں کو جھٹلا دیں گے اور نامہ اعمال کو بھی درست نہیں مانیں گے، بلکہ اپنے بے گناہ ہونے کی قسمیں کھائیں گے اس وقت ان سے یہ معاملہ ہو گا

فرمایا

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (يس : 65)

آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

اور فرمایا :

« يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [ النور : ۲۴ ]

’’جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

اور فرمایا

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (فصلت : 20)

یہاں تک کہ جوں ہی اس کے پاس پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (فصلت : 21)

اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔

اللہ تعالیٰ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ میری حکومت میری مرضی

جیسا کہ سورۃ واقعہ میں ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ہم چاہیں تو سب کھیت ریزہ ریزہ کردیں

کیونکہ ہمارے کھیت ہماری مرضی

فرمایا

أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ (الواقعة : 63)

پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو؟

أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (الواقعة : 64)

کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں؟

لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ (الواقعة : 65)

اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کر دیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔

إِنَّا لَمُغْرَمُونَ (الواقعة : 66)

کہ بے شک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔

بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (الواقعة : 67)

بلکہ ہم بے نصیب ہیں۔

اور فرمایا ہم چاہیں تو پینے کے پانی کو سخت نمکین بنا دیں کیونکہ ہمارا پانی ہماری مرضی

فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ (الواقعة : 68)

پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟

أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (الواقعة : 69)

کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں؟

لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ (لواقعة : 70)

اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟

ہم چاہیں تو آگ یا اس کا ایندھن بجھا دیں کیونکہ ہماری آگ ہماری مرضی

فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ (الواقعة : 71)

پھر کیا تم نے دیکھی وہ آگ جو تم سلگاتے ہو؟

أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ (الواقعة : 72)

کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا، یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں؟

ایسے ہیں فرمایا ہم چاہیں تو ہمیشہ رات ہی رکھیں کبھی دن نہ لائیں کیونکہ ہماری رات ہماری مرضی

فرمایا

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَ (القصص : 71)

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمھارے پاس کوئی روشنی لے آئے؟ تو کیا تم نہیں سنتے۔

اور فرمایا ہم چاہیں تو ہمیشہ دن ہی رکھیں کبھی رات نہ لائیں کیونکہ ہمارا دن ہماری مرضی

فرمایا

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (القصص : 72)

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک دن کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمھارے پاس کوئی رات لے آئے، جس میں تم آرام کرو؟ تو کیا تم نہیں دیکھتے۔