جنت کا تذکرہ

سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے

یہود کے ایک عالم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا

فَمَنْ أَوَّلُ النَّاسِ إِجَازَةً

سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی اجازت کن لوگوں کو ملے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ (مسلم 315)

مہاجر، فقیر لوگ

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ هَلْ تَدْرُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ ؟ قَالُوْا اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُوْنَ الَّذِيْنَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُوْرُ وَيُتَّقٰی بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَ يَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَ حَاجَتُهُ فِيْ صَدْرِهِ، لاَ يَسْتَطِيْعُ لَهَا قَضَاءً

[ مسند أحمد : 168/2، ح : ۶۵۷۸۔ ابن حبان : ۷۴۲۱۔ قال شعیب الأرنؤط و إسنادہ جید ]

’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے، جن کے ذریعے سے سرحدیں محفوظ کی جاتی تھیں اور ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں باقی ہوتی تھی، وہ اسے پورا نہیں کر سکتا تھا

جنت سے باہر ہی جنت کی خوشبو

اہل جنت کو جنت کی نعمتیں جنت سے باہر ہی محسوس ہونا شروع ہو جائیں گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا (بخاری 2995)

جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے ۔

جنت سے باہر نکلنے والی نہر، کوثر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

ذَاكَ نَهْرٌ أَعْطَانِيهِ اللَّهُ (ترمذي 2542)

وہ ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«يَغُتُّ فِيهِ مِيزَابَانِ يَمُدَّانِهِ مِنَ الْجَنَّةِ، أَحَدُهُمَا مِنْ ذَهَبٍ، وَالْآخَرُ مِنْ وَرِقٍ» (مسلم ،كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَاب إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِفَاتِهِ، 5990)

” جنت سے دو پر نالے اس میں تیزی سے شامل ہو کر اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔ان میں سے ایک پرنالہ سونے کا ہے اور ایک چاندی کا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ قُلْتُ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِينُهُ أَوْ طِيبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ (بخاري 6581)

میں جنت میں چل رہا تھا کہ میں ایک نہر پر پہنچا اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی۔

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

حَوْضِي مَسِيرَةُ شَهْرٍ مَاؤُهُ أَبْيَضُ مِنْ اللَّبَنِ وَرِيحُهُ أَطْيَبُ مِنْ الْمِسْكِ وَكِيزَانُهُ كَنُجُومِ السَّمَاءِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا فَلَا يَظْمَأُ أَبَدًا

” میرا حوض ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوگا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہوگی اور اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے۔ جو شخص اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا وہ پھر کبھی بھی ( میدان محشرمیں ) پیاسا نہ ہوگا “ ۔

مَنْ وَرَدَهُ فَشَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا (مسلم 2299)

مختلف دروازوں سے داخل ہونے والے مختلف جنتی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :

[ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ، وَ بَابِ الرَّيَّانِ ] [بخاري، باب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب : ۳۶۶۶ ]

’’جو شخص نماز والوں سے ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو جہاد والوں سے ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو صدقہ والوں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے والوں سے ہو گا اسے روزے کے دروازے اور باب الریان (سیرابی کے دروازے) سے بلایا جائے گا۔‘‘

جنت کے دروازے کی چوڑائی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى( بخاري 4435)

اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اوربصریٰ میں ہے ۔

سات لاکھ افراد اکٹھے داخل ہونگے

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ شَكَّ فِي أَحَدِهِمَا مُتَمَاسِكِينَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ حَتَّى يَدْخُلَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ الْجَنَّةَ (بخاري 6177)

جنت میں میری امت کے سترہزار یا سات لاکھ ( راوی کو ان میں سے کسی ایک تعداد میں شک تھا ) آدمی اس طرح داخل ہوں گے کہ بعض بعض کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور اس طرح ان میں کے اگلے پچھلے سب جنت میں داخل ہوجائیں گے

جنت کے دربان فرشتوں کا سلام

وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (زمر، آیت 73)

اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔

جنت کے اندرونی فرشتوں کا سلام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (الرعد: 23)

اور فرشتے ہر دروازے میں سے ان پر داخل ہوں گے۔

سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد : 24)

سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا۔ سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے استقبالی سلام

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلام کہا جائے گا

قرآن میں ہے

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ (يس : 58)

سلام ہو۔ اس رب کی طرف سے کہا جائے گا جو بے حد مہربان ہے۔

جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی خوبصورتی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُوْرَتُهُمْ عَلٰی صُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ] [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۵ ]

’’پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے

جنت میں داخل ہونے والے دوسرے گروہ کی خوبصورتی

صحیح مسلم میں اسی حدیث میں ہے :

وَالَّتِيْ تَلِيْهَا عَلٰی أَضْوَإِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاء [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب أول زمرۃ تدخل الجنۃ : ۲۸۳۴ ]

اور اس کے بعد والی جماعت آسمان کے سب سے زیادہ روشن چمکدار ستارے کی طرح ہو گی

جنتی جنت میں داخل ہونگے تو ایسے محسوس کریں گے جیسے پہلے ہی سے جنت کی شناخت ہے

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أُذِنَ لَهُمْ فِيْ دُخُوْلِ الْجَنَّةِ، فَوَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَأَحَدُهُمْ أَهْدٰی بِمَنْزِلِهِ فِی الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا ]

[بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ:۶۵۳۵ ]

’’ انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ سو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! ان میں سے ہر ایک کو جنت میں اپنے گھر کا راستہ اس سے زیادہ معلوم ہو گا جتنا اسے دنیا میں اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا۔‘‘

حیران کن جنت

جنت میں چلتے جائیں گے چاروں طرف نظریں گھمائیں گے جنت کے ایسے عجائبات دیکھیں گے

مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری 3072)

جو پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھے ہوں گے نہ کسی کان نے سنے ہوں گے اور نہ ہی کسی بشر کے دل و دماغ میں ان کا خیال ہی آیا ہوگا

صاحب احسن التفاسیر لکھتے ہیں:

’’اگرچہ جنت میں کھانے پینے، پہننے اور برتنے کی جتنی چیزیں ہیں ان کے نام دنیا کی چیزوں سے ملتے ہیں، لیکن جنت کی چیزوں اور دنیا کی چیزوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً دنیا میں ایسا دودھ کہاں ہے جس کی ہمیشہ نہر بہتی ہو اور پھر دوسرے دن ہی وہ کھٹا نہ ہو جائے؟ وہ شہد کہاں ہے جس کی نہر بہتی ہو اور مکھیوں کی بھنکار اس میں جم جم کر نہ مرے اور ہوا سے خاک اور کوڑا کرکٹ اس پر نہ پڑے؟ اور وہ شراب کہاں ہے جس کی نہر ہو اور بدبو کے سبب سے اس نہر کے آس پاس کا راستہ کچھ دنوں میں بند نہ ہو جائے۔‘‘

پہلی ضیافت

ایک یہودی عالم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

فَمَا تُحْفَتُهُمْ حِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ

جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کو کیا پیش کیا جائےگا؟

تو آپ نے فرمایا:

زِيَادَةُ كَبِدِ النُّونِ

’’مچھلی کےجگر کا زائد حصہ ۔‘‘

اس نے کہا:

فَمَا غِذَاؤُهُمْ عَلَى إِثْرِهَا

اس کے بعد ان کا کھانا کیا ہوگا؟

آپ نے فرمایا:

يُنْحَرُ لَهُمْ ثَوْرُ الْجَنَّةِ الَّذِي كَانَ يَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِهَا

’’ان کے لیے جنت میں بیل ذبح کیا جائے گا جو اس کے اطراف میں چرتا پھرتا ہے ۔‘‘

اس نے کہا:

فَمَا شَرَابُهُمْ عَلَيْهِ

اس (کھانے) پر ان مشروب کیا ہو گا؟

آپ نے فرمایا:

مِنْ عَيْنٍ فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا (مسلم 716)

’’اس (جنت ) کے سلسبیل نامی چشمے سے ۔‘‘

جنت کی وسعت

جنت کتنی وسیع ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا (بخاری 4599)

جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکتا ہے اور پھر بھی اس کو طے نہ کرسکے گا ۔

جنت کی چوڑائی

فرمایا

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران : 133)

اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

آخری جنتی کو ملنے والی جنت کی وسعت

جنت کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں جانے والے شخص کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سے کہیں گے :

[ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا ] [ مسلم، الإیمان، باب آخر أھل النار خروجا : ۱۸۶ ]

’’تجھے دنیا اور دنیا کے دس گنا کے برابر دیا جاتا ہے۔‘‘

جنت کے درجات

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللّٰهُ لِلْمُجَاهِدِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ] [بخاري، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین في سبیل اللّٰہ : ۲۷۹۰ ]

’’جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار فرمائے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے‘‘

سنن ترمذی کی ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ (ترمذي 2528)

ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے

جنت کا تعمیراتی مٹیریل

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا :

’’یا رسول اللہ ! ہمیں جنت کے متعلق بتائیں کہ وہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟‘‘ فرمایا :

لَبِنَةُ ذَهَبٍ وَ لَبِنَةُ فِضَّةٍ، وَمِلاَطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ، وَ حَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوْتُ، وَ تُرَابُهَا الزَّعْفَرَانُ [ مسند أحمد : 305/2، ح : ۸۰۶۳، قال المحقق صحیح بطرقہ و شواہدہ ]

’’ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی، اس کا گارا مہکنے والی کستوری ہے، اس کی کنکریاں لؤلؤ اور یاقوت ہیں اور اس کی مٹی زعفران ہے۔

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ تُرَابُهَا الْمِسْكُ ] [بخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء؟ : ۳۴۹ ]

’’ اس کی مٹی کستوری ہے۔‘‘

جنت کے کمرے

علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرٰی ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُوْنِهَا وَ بُطُوْنُهَا مِنْ ظُهُوْرِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ!؟ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ أَدَامَ الصِّيَامَ وَ صَلّٰی لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ غرف الجنۃ : ۲۵۲۷، و قال الألباني حسن ]

’’جنت میں ایسے اونچے محل ہیں جن کے باہر کے حصے ان کے اندر کے حصوں سے اور اندر کے حصے باہر کے حصوں سے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ایک اعرابی نے اٹھ کر پوچھا : ’’اے اللہ کے نبی! وہ کن کے لیے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لیے جو پاکیزہ گفتگو کریں اور کھانا کھلائیں اور روزوں پر ہمیشگی کریں اور اللہ کے لیے نماز پڑھیں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘

جنت کے خیمے

عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ خَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّوْنَ مِيْلاً فِيْ كُلِّ زَاوِيَةٍ مِّنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِيْنَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُوْنَ ] [ بخاري، التفسیر، باب: «حور مقصورات في الخیام » : ۴۸۷۹ ]

’’جنت میں ایک خولدار موتی کا خیمہ ہے جس کا عرض ساٹھ میل ہے، اس کے ہر کونے میں ایک گھر والے ہیں جو دوسروں کو نہیں دیکھتے، مومن ان پر چکر لگائیں گے۔‘‘

جنت کے برتن،کنگھیاں اور انگیٹھیاں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

آنِيَتُهُمْ فِيْهَا الذَّهَبُ، أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَ مَجَامِرُهُمُ الْأُلُوَّةُ، [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۵ ]

اس میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی اور ان کی انگیٹھیاں ’’اُلُوَّه‘‘ (جل کر خوشبو دینے والی ایک لکڑی) کی ہوں گی

عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ ، آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيْهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيْهِمَا ] [ بخاری التفسیر، باب قولہ : « ومن دونھما جنتان » : ۴۸۷۸ ]

’’دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کا ہے‘‘

جنت کے قالین اور تخت

فرمایا

مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ (الرحمن : 76)

وہ ایسے قالینوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں جو سبز ہیں اور نادر، نفیس ہیں۔

اور فرمایا

عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ (الواقعة : 15)

سونے اور جواہر سے بُنے ہوئے تختوں پر (آرام کر رہے ہوں گے)۔

مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (الواقعة : 16)

ان پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے بیٹھنے والے (ہوں گے)۔

اور فرمایا

فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ (الغاشية : 13)

اس میں اونچے اونچے تخت ہیں ۔

وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌ (الغاشية : 14)

اور رکھے ہوئے آبخورے ہیں ۔

وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ (الغاشية : 15)

اور قطاروں میں لگے ہوئے گاؤ تکیے ہیں۔

وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ (الغاشية : 16)

اور بچھائے ہوئے مخملی قالین ہیں۔

جنت کی شراب

فرمایا

وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (دھر :21)

اور ان کا رب انھیں نہایت پاک شراب پلائے گا۔

اور فرمایا

يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (المطففين : 25)

انھیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہو گی۔

دنیا میں شراب نہایت بدبو دار ہوتی ہے، تلخ اور بدذائقہ ہوتی ہے۔ اس کے پینے سے آدمی عقل کھو بیٹھتا ہے، الٹیاں آتی ہیں اور جب نشہ ٹوٹتا ہے تو سر چکرانا اور درد شروع ہو جاتا ہے۔ جنت کی شراب میں دنیا کی شراب کی کوئی خرابی نہیں ہو گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ (الواقعة : 19)

وہ نہ اس سے درد سر میں مبتلا ہوں گے اور نہ بہکیں گے۔

اور فرمایا

بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ (الصافات : 46)

جو سفید ہو گی، پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی۔

لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ (الصافات : 47)

نہ اس میں کوئی درد سر ہوگا اور نہ وہ اس سے مدہوش کیے جائیں گے۔

جنت کی نہریں

واضح رہے کہ جنت کی تمام نہروں کا سرچشمہ عرش کے نیچے جنت الفردوس ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰهَ فَسَلُوْهُ الْفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَی الْجَنَّةِ، وَ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ ] [ بخاري، التوحید، باب : « و کان عرشہ علی الماء»… : ۷۴۲۳ ]

’’تو جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا سب سے بلند مقام ہے اور اس سے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘

اور معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَحْرَ الْمَاءِ وَ بَحْرَ الْعَسَلِ وَبَحْرَ اللَّبَنِ وَبَحْرَ الْخَمْرِ ثُمَّ تُشَقَّقُ الْأَنْهَارُ بَعْدُ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أنھار الجنۃ : ۲۵۷۱، و قال الترمذي و الألباني صحیح ] ’’جنت میں پانی کا سمندر ہے اور شہد کا سمندر ہے اور دودھ کا سمندر ہے اور شراب کا سمندر ہے، پھر بعد میں نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘

دنیا کا پانی کچھ عرصہ گزرنے پر اپنا رنگ، ذائقہ اور بو کی صفائی کھو بیٹھتا ہے

ایسے ہی اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے، اس کا ذائقہ ترش اور بد مزہ ہو جاتا ہے

ایسے ہی شہد دیر تک پڑا رہنے سے کھٹا ہو جاتا ہے، اس میں خمیر پیدا ہو جاتا ہے

لیکن جنت کے پانی، دودھ اور شہد کے متعلق فرمایا

فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى(محمد آیت 15)

اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں اور کئی نہریں دودھ کی ہیں، جس کا ذائقہ نہیں بدلا اور کئی نہریں شراب کی ہیں، جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہے اور کئی نہریں خوب صاف کیے ہوئے شہد کی ہیں۔

پھل اور گوشت

فرمایا

وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ (محمد :15)

اور ان کے لیے اس میں ہر قسم کے پھل ہیں

اور فرمایا

فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ (الواقعة : 28)

(وہ) ایسی بیریوں میںہوں گے جن کے کانٹے دور کیے ہوئے ہیں۔

وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ (الواقعة : 29)

اور ایسے کیلوں میں جو تہ بہ تہ لگے ہوئے ہیں۔

وَظِلٍّ مَمْدُودٍ (الواقعة : 30)

اور ایسے سائے میں جو خوب پھیلا ہوا ہے ۔

وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ (الواقعة : 31)

اور ایسے پانی میں جو گرایا جا رہا ہے۔

وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ (الواقعة : 32)

اور بہت زیادہ پھلوں میں۔

لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ (الواقعة : 33)

جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے کوئی روک ٹوک ہوگی۔

وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ (الواقعة : 349)

اور اونچے بستروں میں۔

وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ (الواقعة : 20)

اور ایسے پھل لے کر جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔

وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (الواقعة : 21)

اور پرندوں کا گوشت لے کر جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔

قال تعالى في وصف نعيم أهل الجنة: (وفاكهة مما يتخيرون ولحم طير مما يشتهون).

و قد أورد الإمام الفخر في تفسيره سؤالا، وهو لمَ خصّ الفاكهة بالتخيير، واللحم بالاشتهاء ؟!!

ثم أجاب عنه بجواب بديعٍ جدا، حاصله أن اللحم والفاكهة إذا حضرا عند الجائع فإنه يميل إلى اللحم، والفاكهة إنما تكون بعد الشبع، والجائع مشتهٍ، والشبعان مختارٌ، إن شاء أكل، وإن شاء ترك.

وهذا الجواب من اللطائف في تفسير الرازي التي قد لا تجدها عند غيره

سو آدمیوں کے برابر کھانا کھانے کی قوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان الرجل لیعطی قوۃ مأۃ رجل فی الاکل والشرب (طبرانی)

جنت میں ایک آدمی کو سو آدمیوں کے برابر کھانے پینے کی قوت دی جائے گی

نظام انہظام و اخراج

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُوْنَ فِيْهَا وَيَشْرَبُوْنَ وَلَا يَتْفِلُوْنَ وَلاَ يَبُوْلُوْنَ وَلاَ يَتَغَوَّطُوْنَ وَلاَ يَمْتَخِطُوْنَ

’’جنتی جنت میں کھائیں گے اور پییں گے، وہ نہ تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔‘‘

صحابہ نے پوچھا :

فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟

’’جو کھانا وہ کھائیں گے وہ کہاں جائے گا؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :

جُشَاءٌ وَ رَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُوْنَ التَّسْبِيْحَ وَالتَّحْمِيْدَ كَمَا يُلْهَمُوْنَ النَّفَسَ [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب في صفات الجنۃ وأھلھا…: ۲۸۳۵، عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما]

’’بس ڈکار آئے گا اور پسینا آئے گا جس سے مشک (کستوری) کی خوشبو آئے گی (اور ان کا کھانا تحلیل ہو جائے گا)۔ (ان کے دلوں میں اور ان کی زبانوں پر) تسبیح اور حمد خود بخود بے اختیار جاری ہو گی جس طرح سانس خود بخود جاری ہوتا ہے۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۵ ]

ان کا پسینہ کستوری ہو گا

خدمت کے لیے غلام

فرمایا

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا (الإنسان : 19)

اور ان کے اردگرد لڑکے گھوم رہے ہوں گے، جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، جب تو انھیں دیکھے گا تو انھیں بکھرے ہوئے موتی گمان کرے گا۔

مخلدون کا مطلب ہے وہ ہمیشہ بچے ہی رہیں گے، کیونکہ خدمت کے لیے بڑی عمر کے آدمی کے بجائے بچے زیادہ مستعد اور موزوں ہوتے ہیں اور انھیں خدمت کے لیے کوئی کام کہنے میں حجاب نہیں ہوتا۔

لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا کا مطلب ہے وہ اتنے خوبصورت ہوں گے کہ جب تم انھیں آتے جاتے دیکھو گے تو گمان کرو گے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ ان کی خدمت کے لیے ہر طرف پھیلے ہوئے ہونے کو موتیوں کے بکھرنے سے تشبیہ دی ہے

مزے کی بات ہے کہ وہ ان کے اپنے ہی بیٹے ہوں گے

فرمایا

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (الطور : 24)

اور ان پر چکر لگاتے رہیں گے انھی کے لڑکے، جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔

معلوم ہوا وہ لڑکے ان کے اپنے ہی بچے ہوں گے جو دنیا میں فوت ہو گئے یا جنت میں اگر کسی کو اولاد کی خواہش ہوئی، تو وہ بچے انھیں عطا کیے جائیں گے

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلْمُؤْمِنُ إِذَا اشْتَهَی الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ، كَانَ حَمْلُهُ وَوَضْعُهُ وَسِنُّهُ فِيْ سَاعَةٍ وَّاحِدَةٍ، كَمَا يَشْتَهِيْ ] [ ابن ماجہ، الزھد، باب صفۃ الجنۃ : ۴۳۳۸، وقال الألباني صحیح ]

’’مومن جب جنت میں اولاد چاہے گا تو اس کا حمل اور وضع حمل اور اس کا بڑا ہونا ایک گھڑی میں ہو جائے گا، اس کی خواہش کے مطابق۔‘‘

جنت میں کھیتی باڑی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يُحَدِّثُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ فَقَالَ لَهُ أَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ قَالَ فَبَذَرَ فَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ فَكَانَ أَمْثَالَ الْجِبَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْءٌ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ وَاللَّهِ لَا تَجِدُهُ إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ زَرْعٍ وَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاری، كِتَابُ المُزَارَعَةِبَابٌ،2348)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے…. ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا …. کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم ! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہ نہیں کرسکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم خدا کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا۔ کیوں کہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس با ت پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آگئی۔

جنت کی عورتیں

وَحُورٌ عِينٌ (الواقعة : 22)

اور( ان کے لیے وہاں) سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں ہیں ،جو فراخ آنکھوں والی ہیں۔

كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (الواقعة : 23)

چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی طرح۔

إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (الواقعة : 35)

بلاشبہ ہم نے ان( بستروں والی عورتوں) کو پیدا کیا، نئے سرے سے پیدا کرنا۔

فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا (الواقعة : 36)

پس ہم نے انھیں کنواریاں بنا دیا۔

عُرُبًا أَتْرَابًا (الواقعة : 37)

جو خاوندوں کی محبوب، ان کی ہم عمر ہیں۔

اور فرمایا

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (الرحمن : 56)

ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں، جنھیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ کسی جنّ نے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (الرحمن : 57)

تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟

كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن : 589)

گویا وہ(عورتیں) یاقوت اور مرجان ہیں۔

اور فرمایا

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ (الصافات : 48)

اور ان کے پاس نگاہ نیچے رکھنے والی، موٹی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔

كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ (الصافات : 49)

جیسے وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہوں۔

جمعہ بازار اور فوٹو اسٹوڈیو

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ فَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ فَتَحْثُو فِي وُجُوهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدْ ازْدَادُوا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُونَ وَأَنْتُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا (مسلم ،كِتَابُ الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَابٌ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ وَمَا يَنَالُونَ فِيهَا مِنَ النَّعِيمِ وَالْجَمَالِ،7146)

:” جنت میں ایک بازار ہے جس میں وہ(اہل جنت) ہر جمعہ کو آیا کریں گے تو(اس روز) شمال کی ایسی ہوا چلے گی جو ان سے چہروں پر اور ان کے کپڑوں پر پھیل جائےگی،وہ حسن اورزینت میں اوربڑھ جائیں گے،وہ اپنے گھروالوں کے پاس واپس آئیں گے تو وہ(بھی) حسن وجمال میں اور بڑھ گئے ہوں گے،ان کےگھر والے ان سے کہیں گے:اللہ کی قسم! ہمارے(ہاں سے جانے کے) بعد تمہارا حسن وجمال اور بڑھ گیا ہے۔وہ کہیں گے اور تم بھی ،اللہ کی قسم! ہمارے پیچھے تم لوگ بھی اور زیادہ خوبصورت حسین ہوگئے ہو۔”

اہل جنت کی باہمی گفتگو کا اسٹائل

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (يونس : 10)

ان کی دعا ان میں یہ ہوگی’’پاک ہے تو اے اللہ!‘‘ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

اہل جنت کے درمیان کوئی بغض و اختلاف نہیں ہوگا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ (اعراف : 43)

اور ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہوگا ہم نکال دیں گے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ وَ لَا تَبَاغُضَ، قُلُوْبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، يُسَبِّحُوْنَ اللّٰهَ بُكْرَةً وَ عَشِيًّا ] [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۵ ]

، ان میں نہ کوئی اختلاف ہوگا، نہ ایک دوسرے سے کوئی بغض ہو گا، ان کے دل ایک دل ہوں گے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔‘‘

جنتیوں کی باہم اٹھکھیلیاں

يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ (الطور : 23)

وہ اس میں ایک دوسرے سے شراب کا پیالہ چھینیں جھپٹیں گے، جس میں نہ بے ہودہ گوئی ہو گی اور نہ گناہ میں ڈالنا۔

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (يس : 559)

بے شک جنت کے رہنے والے آج ایک شغل میں خوش ہیں۔

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ (يس : 56)

وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں۔

جنتی بھوکا ہوگا نہ ننگا، پیاسا ہوگا نہ بے سایہ

دنیا میں بندے کو سب سے زیادہ روٹی، کپڑے اور مکان کی فکر ہوتی ہے

جنت میں یہ فکر بالکل نہیں ہوگی

فرمایا

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (طه : 118)

بے شک تیرے لیے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہوگا۔

وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (طه : 119)

اور یہ کہ تو اس میں نہ پیاسا ہو گا اور نہ دھوپ کھائے گا۔

جنتیوں کے قد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا (مسلم 2841)

ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہو گا آدم علیہ السلام کی(اسی) صورت پر ہوگا اور ان کی قامت (جنت میں)ساٹھ ہاتھ تھی

جنتیوں کی عمر

يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ جُرْدًا مُرْدًا مُكَحَّلِينَ أَبْنَاءَ ثَلَاثِينَ أَوْ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً (ترمذی ،ابْوَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي سِنِّ أَهْلِ الْجَنَّةِ،2545حسن)

جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے، وہ امرد ہوں گے، سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ اہل جنت سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گے

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ اللّٰهَ يَقُوْلُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَقُوْلُوْنَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِيْ يَدَيْكَ، فَيَقُوْلُ هَلْ رَضِيْتُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ وَ مَا لَنَا لاَ نَرْضٰی يَا رَبِّ! وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ؟ فَيَقُوْلُ أَلاَ أُعْطِيْكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ ؟ فَيَقُوْلُوْنَ يَا رَبِّ! وَ أَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِكَ ؟ فَيَقُوْلُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِيْ فَلاَ أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا ] [ بخاري، التوحید، باب کلام الرب مع أھل الجنۃ : ۷۵۱۸]

’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے کہے گا : ’’اے جنت والو!‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم حاضر ہیں اور ساری خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔‘‘ فرمائے گا : ’’کیا تم راضی ہو گئے؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہمیں کیا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں جب کہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کیا۔‘‘ فرمائے گا : ’’کیا میں تمھیں اس سے بھی افضل چیز نہ دوں؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’اے ہمارے رب! بھلا اس سے افضل چیز کیا ہے؟‘‘ فرمائے گا : ’’میں تمھیں اپنی رضا اور خوشنودی عطا کرتا ہوں، سو اس کے بعد میں کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔‘‘

ہمیشگی ہی ہمیشگی

ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ يُنَادِيْ مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوْتُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَهْرَمُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا ] [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب في دوام نعیم أھل الجنۃ… : ۲۸۳۷ ]

’’(اہلِ جنت کو) ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ تمھیں یہ نعمت حاصل ہے کہ تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے اور تمھیں یہ نعمت حاصل ہے کہ زندہ رہو گے کبھی نہیں مرو گے اور تمھیں یہ نعمت حاصل ہے کہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور تمھیں یہ نعمت حاصل ہے کہ خوش حال رہو گے کبھی خستہ حال نہیں ہو گے۔‘‘

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :

يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل: « و أنذرھم یوم الحسرۃ» : ۴۷۳۰ ]

اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ يَّدْخُلُهَا يَنْعَمُ وَ لَا يَبْأَسُ، وَ يَخْلُدُ وَ لَا يَمُوْتُ، لَا تَبْلٰی ثِيَابُهُ وَ لَا يَفْنٰی شَبَابُهُ [ مسند أحمد : 305/2، ح : ۸۰۶۳، قال المحقق صحیح بطرقہ و شواہدہ ]

’’جو اس میں داخل ہو گا خوش حال رہے گا، کبھی بدحال نہیں ہو گا، ہمیشہ زندہ رہے گا، کبھی فوت نہیں ہو گا، نہ اس کے کپڑے کبھی بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی جوانی ختم ہو گی۔‘‘

مختصر الفاظ میں جنت

کسی نے کہا مختصر الفاظ میں جنت کی تصویر کشی کرو

اس نے کہا

وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (فصلت : 31)

اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔

دوسرے نے کہا

ہوسکتا ہے بسااوقات جس چیز کو دل چاہتا ہو وہ طبیعت کے لیے موافق نہ ہو

پھر اس نے یہ آیت پڑھی

يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ (الدخان : 55)

وہ اس میں ہر پھل بے خوف ہو کر منگوا رہے ہوں گے۔

بے خوف ہو کر منگوانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں یہ فکر ہو گا کہ وہ چیز موجود نہ ہو، نہ یہ کہ قیمت کہاں سے ادا کریں گے، نہ یہ کہ ختم ہو جائے گی، نہ یہ کہ کھانے سے بدہضمی نہ ہو جائے، پھر نہ قبض کا خوف نہ اسہال کا۔

جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے

جنت کی یہ نعمت سب نعمتوں پر بھاری ہے کہ وہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ہوں گے اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگا

دیدار الہی

اور اس سے بھی بڑھ کر یہ نعمت ہوگی کہ رب تعالیٰ کا دیدار کروایا جائے گا

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (القيامة : 22)

اس دن کئی چہرے ترو تازہ ہوں گے۔

إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامة : 23)

اپنے رب کی طرف دیکھنے والے۔

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا ] [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : « وجوہ یومئذ ناضرۃ…» : ۷۴۳۵ ]

’’تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے ۔‘‘