جنت کے محلات کس کے لیے ؟

اہم عناصرِ خطبہ :

01. جنت کی نعمتیں انسانی تصور سے بھی بالا تر !

02. جنت کے محلات کا ثبوت

03. جنت کے محلات کا حقدار کون ؟

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! اللہ تعالی نے اہل ایمان کیلئے اور اپنے فرمانبردار بندوں کیلئے جنت تیار کی ہے ، جس میں ایسی ایسی نعمتیں ہونگی کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ان کے متعلق کسی کان نے سنا ہے ۔ بلکہ آنکھ کا دیکھنا اور کان کا سننا تو دور کی بات ، وہ تو ہمارے تصور سے بھی بالا تر ہیں ۔

ہمارے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ )) صحیح البخاری:3244، صحیح مسلم :2823

’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کے متعلق کوئی تصور پیدا ہوا ہے ۔ ‘‘

میرے بھائیو اور بہنو ! جنت میں زندگی ہمیشہ کیلئے ہوگی اور اس میں موت کبھی نہیں آئے گی ۔ ہمیشہ کیلئے صحت وتندرستی ہوگی اور بیماری کبھی نہیں آئے گی ۔ ہمیشہ کیلئے جوانی کا لطف ہوگا ، بڑھاپا کبھی نہیں آئے گا ۔ ہمیشہ کیلئے خوشحالی ہوگی اور بد حالی کبھی نہیں آئے گی ۔

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یُنَادِیْ مُنَادٍ))

’’ جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہے گا :

01. ((إِنَّ لَکُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوْتُوْا أَبَدًا))

’’تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ تم زندہ رہو گے ، تم پر موت کبھی نہیں آئے گی۔‘‘ ۲۔ ((وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا))

’’ اور یہ بھی کہ تم تندرست رہو گے ، کبھی بیمار نہیں ہو گے ۔‘‘۳۔ ((وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَہْرَمُوْا أَبَدًا))

’’ اسی طرح تم جوان رہو گے ، کبھی بوڑھے نہیں ہو گے ۔‘‘۴۔ (( وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا))

’’ اور تم خوشحال رہو گے اور کبھی بد حال نہیں ہو گے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2837

جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اس کے بڑے بڑے گھر اور قصور ومحلات ہیں ۔ اور ہر مسلمان کی دلی تمنا ہے کہ اسے ان گھروں اور قصور ومحلات میں سے ایک گھر اور قصر و محل ضرور مل جائے جس میں وہ رہائش پذیر ہو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَعْدَ اللّٰہِ لاَ یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ﴾ الزمر39 :20

صحیح البخاری

’’ ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کیلئے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ‘‘

اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ أَوْ أَتَیْتُ الْجَنَّۃَ ، فَاَبْصَرْتُ قَصْرًا ))

’’ میں جنت میں داخل ہوا یا میں جنت میں گیا تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا ۔‘‘

میں نے پوچھا :(( لِمَنْ ہٰذَا ؟)) ’’ یہ کس کا ہے؟ ‘‘

انھوں نے کہا : (( لِرَجُلٍ مِّنْ قُرَیشٍ)) ’’ یہ قریش کے ایک شخص کا ہے ۔ ‘‘

تو میں نے گمان کیا کہ شاید وہ میں ہوں ، اس لئے میں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟

انھوں نے کہا : عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا : (( فَأَرَدتُّ أَنْ أَدْخُلَہٗ ، فَلَمْ یَمْنَعْنِی إِلَّا عِلْمِیْ بِغَیْرَتِکَ))

’’ مجھے اس میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں تمھاری غیرت کو جانتا تھا ۔ ‘‘

تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ! أَوَ عَلَیْکَ أَغَارُ)) صحیح البخاری: 5226 و7024، صحیح مسلم :2394

یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی ! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا ؟ ‘‘

جبکہ جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُنِیْ فِی الْجَنَّۃِ ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَتَوَضَّأُ إِلٰی جَانِبِ قَصْرٍ))

’’ میں سویا ہوا تھا ، اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں ۔ پھر میں اچانک دیکھتا ہوں کہ ایک خاتون ایک محل کی ایک جانب وضو کر رہی ہے ۔‘‘

تو میں نے کہا : ( لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ ؟ ) ’’یہ محل کس کیلئے ہے ؟‘‘

فر شتوں نے جواب دیا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کیلئے ہے ۔ چنانچہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت یاد آگئی اور میں وہاں سے پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔ ‘‘ عمر رضی اللہ عنہ ( یہ سن کر ) رونے لگے اور کہا :

( أَعَلَیْکَ أَغَارُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ ) یا رسول اللہ ! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا ؟ صحیح البخاری :3242 ، صحیح مسلم :2395

یہ دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنت کے قصور ومحلات موجود ہیں ۔

ان محلات میں داخل ہونا اور ان میں رہائش پذیر ہونا ہر مومن اور ہر مومنہ کی آرزو ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہوجائے گا وہی درحقیقت کامران وکامیاب ہوگا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لاَ یَسْتَوِیٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾ الحشر59 :20

’’ جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں ۔ جنت والے ہی کامیاب ہونگے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ﴾ آل عمران3 :185

’’ پس جس شخص کو جہنم سے دور اورجنت میں داخل کردیا جائے گا تو وہی کامیاب ہوگا ۔ ‘‘

اور اسی لئے فرعون کی بیوی نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی : ﴿ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ التحریم66 :11

’’ اے میرے رب ! میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے دے ۔ ‘‘

سوال یہ ہے کہ جنت کے یہ قصور ومحلات کن لوگوں کیلئے تیار کئے گئے ہیں ؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو ان میں رہائش پذیر ہونے کے حقدار ہیں ؟ اور وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن کے سبب اللہ تعالی مومنوں کیلئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے ؟ یہی آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے ۔

تو آئیے ان حضرات کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں اللہ رب العزت اپنے فضل وکرم کے ساتھ جنت کے محلات نصیب کرے گا ۔ اللہم اجعلنا منہم ۔ اسی طرح ان اعمال کا بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے سبب اللہ تعالی اپنے بندوں کیلئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے ۔

01. اللہ تعالی پر ایمان لانے والے اور رسولوں کی تصدیق کرنے والے

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاؤَونَ أَہْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوقِہِمْ کَمَا یَتَرَاؤَونَ الْکَوْْکَبَ الدُّرِّیَّ الْغَابِرَ فِی الْأفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَہُمْ))

’’ بے شک اہلِ جنت اپنے اوپر بالا خانے والوں کو یوں دیکھیں گے جیسا کہ تم مشرق یا مغرب کے افق پر چمکتے اور غروب ہوتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہو ۔ یہ اس لئے ہو گا کہ ان کے درجات میں تفاضل ہو گا ۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! تِلْکَ مَنَازِلُ الْأنْبِیَائِ لَا یَبْلُغُہَا غَیْرُہُمْ ))

اے اللہ کے رسول ! وہ یقینا انبیاء کے گھر ہو نگے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا ؟

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، رِجَالٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَصَدَّقُوْا الْمُرْسَلِیْنَ)) صحیح البخاری:3256 ، صحیح مسلم :2831

’’کیوں نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ گھر ان لوگوں کے ہونگے جو اللہ پر ایمان لائے اور جنھوں نے رسولوں کی تصدیق کی ۔ ‘‘

اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی ہی کو ساری کائنات کا خالق ومالک مانیں ، اسی کو رازق سمجھیں اور اسی کو مدبر الامور تصور کریں ۔ اسی کو ’ داتا ‘ اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا ، اسی کو نفع ونقصان کا مالک ، اسی کو بگڑی بنانے والا ، اسی کو دستگیر اور اسی کو ’غوث اعظم‘ سمجھیں ۔ پھر اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کو معبود برحق

تسلیم کریں، اسی کیلئے تمام عبادات بجا لائیں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ اسی کی تعظیم کریں ، اسی پر توکل کریں ، اسی سے امیدیں وابستہ کریں ، اسی کا خوف کھائیں ، اسی کے سامنے جھکیں ، اسی کے سامنے رکوع وسجود کریں اور تمام عبادات میں اسے وحدہ لا شریک مانیں ۔

اور رسولوں کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صدق دل سے انبیائے کرام علیہم السلام کی نبوت پر ایمان لائیں اور انھیں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے مانیں ۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کو اللہ تعالی نے لوگوں کو اپنی توحید اور دین اسلام کی طرف دعوت دینے کیلئے اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کرنے کیلئے مبعوث فرمایا ۔ ان پر وحی نازل کی اور وہ شرعی احکام اتارے کہ جن پر عمل کرکے ان کے پیروکار دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۔

02. ایمان ، اسلام ، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ

یعنی جو شخص اللہ تعالی پر اس طرح ایمان لائے جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ فرائض اسلام پر عمل کرتا رہے ، اللہ کے دین کیلئے دار الکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنی پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کرے ، اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کا موقع آئے تو اس سے بھی پیچھے نہ رہے ، توایسے شخص کیلئے اللہ تعالی جنت میں گھر بنا دیتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَنَا زَعِیْمٌ ۔ وَالزَّعِیْمُ : الْحَمِیْلُ ۔ لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَأَسْلَمَ وَہَاجَرَ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ ))

’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجے میں ایک گھر اور جنت کے درمیانے درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو میرے اوپر ایمان لایا ، اسلام قبول کیا اور ہجرت کی ۔ ‘‘

((وَأَنَا زَعِیْمٌ لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَأَسْلَمَ وَجَاہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ، وَبِبَیْتٍ فِیْ أَعْلٰی غُرَفِ الْجَنَّۃِ ))

’’اسی طرح میں اس شخص کو بھی جنت کے ادنی درجے میں ایک گھر اور جنت کے درمیانے درجے میں ایک گھر اور جنت کے اونچے بالا خانوں میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو میرے اوپر ایمان لایا ، اسلام قبول کیا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا ۔‘‘

پھر فرمایا :

(( مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَلَمْ یَدَعْ لِلْخَیْرِ مَطْلَبًا وَلَا مِنَ الشَّرِّ مَہْرَبًا یَمُوتُ حَیْثُ شَائَ أَن یَّمُوتَ )) سنن النسائی : ۳۱۳۳ ۔ وصححہ الألبانی

’’جس نے یہ اعمال کئے ، پھر وہ خیر کے ہر عمل کو طلب کرتا رہا اور ہر برے عمل سے دور بھاگتا رہا تو اس کی موت وہاں آئے گی جہاں وہ چاہے گا ۔ ‘‘

اس حدیث میں غور کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایمان ، اسلام ، ہجرت اور جہاد کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی ذکر کردی کہ ہجرت وجہاد کرنے والا شخص ہر وقت کار ِ خیر کا طلبگار بھی ہو اور ہر برے کام سے اپنے دامن کو بچانے والا بھی ہو ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک وہ مومن جنت کے محلات کا مستحق ہے جو اپنی پوری زندگی اس طرح گزارے کہ اس کے اندر ہر عمل ِ خیر کا سچا جذبہ اور حرص ہو اور ہر بر ے عمل سے اپنا دامن پاک رکھتا ہو ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔

03. کھانا کھلانا ، نرم گفتگو کرنا ، مسلسل روزے رکھنا اور نماز تہجد پڑھتے رہنا

جی ہاں ، یہ وہ اعمال ہیں کہ جن کے کرنے والے شخص کیلئے اللہ تعالی نے خاص طور پر جنت کے بالاخانوں کو تیار کیا ہے۔

حضرت ابو مالک ا شعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا ، وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا))

’’ بے شک جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

(( أَعَدَّہَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَام))

’’انھیں اللہ تعالی نے اس شخص کیلئے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو۔ ‘‘

(( وَأَ لَانَ الْکَلَامَ )) ’’ بات نرمی سے کرتا ہو۔ ‘‘

(( وَتَابَعَ الصِّیَامَ )) ’’ مسلسل روزے رکھتا ہو ۔ ‘‘

((وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ)) رواہ احمد وابن حبان ۔صحیح الجامع للألبانی :2123 ورواہ الترمذی:1984عن علی بنحوہ وحسنہ الألبانی

’’ اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ‘‘

04. بیٹے کی وفات پر صبر کرنا

اگر اللہ تعالی کسی مومن کے لخت جگر کو واپس لے لے ، پھر وہ اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ، اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور ( إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ) پڑھ کر اللہ تعالی کی تقدیرپر رضامندی ظاہر کرے ۔ جزع وفزع نہ کرے ، واویلا نہ کرے ، سینہ کوبی اور ماتم نہ کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلَائِکَتِہٖ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِیْ ؟))

’’ جب کسی بندے کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا ؟‘‘

(( فَیَقُولُونَ : نَعَمْ )) ’’ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔‘‘(( فَیَقُولُ : قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ ؟))

اللہ تعالی فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے جگرگوشے کو فوت کردیا ؟

( فَیَقُولُونَ : نَعَمْ ) ’’ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔‘‘ (( فَیَقُولُ : مَاذَا قَالَ عَبْدِیْ؟ ))

’’اللہ تعالی پوچھتا ہے : تب میرے بندے نے کیا کہا ؟‘‘(( فَیَقُولُونَ : حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ ))

’’ وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) پڑھا ۔‘‘

(( فَیَقُولُ اللّٰہُ : اِبْنُوا لِعَبْدِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ )) جامع الترمذی :1021۔ وحسنہ الألبانی

’’ تو اللہ تعالی فرماتاہے : تم میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام رکھ دو : شکرانے کا گھر۔ ‘‘

05. فرض نمازوں سے پہلے یا بعد سنن ِ مؤکدہ پڑھنا

ہمارے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں سے پہلے اور ان کے بعد نفل نماز پڑھا کرتے تھے اور اس پر ہمیشگی کرتے تھے ۔ یعنی اسے کبھی بلا عذر ترک نہیں کرتے تھے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا ۔ اسی لئے اس نماز کو ’سنت مؤکدہ ‘کہا جاتا ہے ۔ اور اس نماز کو پڑھنے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ قیامت کے روز جس آدمی کی

فرض نمازوں میں کوئی کمی ہوگی تو اسے نفل نماز کے ذریعے پورا کیا جائے گا ۔ لہٰذا ہر مومن کو ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہنا چاہئے اور اسے دانستہ طور پر بلا عذر چھوڑنا نہیں چاہئے ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ : أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَہَا، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ ، وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ)) جامع الترمذی 415۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھے تو اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے : ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو ، مغرب کے بعد دو ، عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعا ت ۔ ‘‘

06. نماز ِ چاشت پڑھنا

نفل نمازوں میں سے ایک نماز ِچاشت ہے ۔ جس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر چاشت کی دو رکعتیں ہمیشہ پڑھتے رہنے کی وصیت فرمائی تھی ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے جسم میں موجود تین سو ساٹھ جوڑوں کی طرف سے صدقہ کرنا اس پر لازم ہوتا ہے ۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کی مختلف صورتیں بیان فرمائیں اور آخر میں فرمایا کہ اگر وہ چاشت کی دو رکعتیں پڑھ لے تو تین سو ساٹھ جوڑوں کی طرف سے صدقہ ادا ہوجاتا ہے ۔ اور اگر چاشت کی چار رکعتیں پڑھ لی جائیں تو اللہ تعالی پڑھنے والے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔

حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((مَنْ صَلَّی الضُّحٰی أَرْبَعًا ، وَقَبْلَ الْأُولٰی أَرْبَعًا ، بُنِیَ لَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ)) السلسلۃ الصحیحۃ :2349

’’ جو آدمی چاشت کے وقت چار رکعتیں پڑھے اور پہلی نماز ( نماز ظہر ) سے پہلے بھی چار رکعتیں پڑھے تو اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ اسی چاشت کی نماز کو صلاۃ الاوابین بھی کہا جاتا ہے ۔ صحیح الجامع للألبانی :7628

07.اللہ کی رضا کیلئے مسجد بنانا

روئے زمین پر سب سے افضل جگہ مسجد ہے ۔ اور اس کی فضیلت کیلئے یہی بات کافی ہے کہ یہ اللہ تعالی کا گھر کہلاتی ہے ۔ مسجد بنانا اور اسے آباد کرنا بہت بڑی نیکی ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مساجد کو بلند کرنے اور

ان میں اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ایسا کرنے والوں کو بہتر بدلہ دینے کا وعدہ کیا ہے ۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰہِ کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ أَوْ أَصْغَرَ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ)) سنن ابن ماجہ : 738۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے ( خواہ وہ ) پرندے کے گھونسلے کی مانند یا اس سے بھی چھوٹی کیوں نہ ہو تو اللہ اس کیلئے جنت میں گھر بنادیتا ہے ۔ ‘‘

08. مسجد کی توسیع کرنا

اگر کوئی شخص پوری مسجد نہ بنوا سکتا ہو تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی توسیع کرکے بھی جنت کا گھر حاصل کر سکتا ہے ۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جن دنوں اپنے گھر میں محصور تھے ، تب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض فضائل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا :

(( وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَن یَّشْتَرِی ہٰذِہِ الْبُقْعَۃَ فَیَزِیْدُہَا فِی الْمَسْجِدِ وَلَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ ، فَاشْتَرَیْتُہَا فَزِدتُّہَا فِی الْمَسْجِدِ)) مصنف ابن أبی شیبۃ :7 492/ ، السنۃ لابن أبی عاصم : 1107

’’ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو اس جگہ کو خریدے اور اسے مسجد میں شامل کردے ، اس کے بدلے میں اس کیلئے جنت کا ایک گھر ہے ۔ چنانچہ میں نے اسے خریدا اور مسجد میں شامل کردیا ۔ ‘‘

09. صف میں خالی جگہ پُر کرنا

نماز با جماعت میں صفیں برابر کرنا نماز کو مکمل کرنے میں شامل ہے ۔ یعنی نمازیوں کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ صفیں برابر نہ کریں ۔ اور صفیں اس وقت تک برابر نہیں ہو سکتیں جب تک نمازی مل کر نہ کھڑے ہوں ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو مل کر کھڑے ہونے اور اپنے درمیان خلا نہ چھوڑنے کا حکم دیتے تھے ۔ صف میں خالی جگہ کو پُر کرنا اتنا بڑا عمل ہے کہ جو شخص اس کیلئے قدم اٹھاتا اور خالی جگہ کو پُر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔

جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( مَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً ، وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ )) رواہ الطبرانی ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب :505

’’ جو شخص خالی جگہ کو پُر کرے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

10. دس مرتبہ سورت اخلاص پڑھنا

قرآن مجید کی جن سورتوں کی خصوصی طور پر فضیلت ثابت ہے ان میں سے ایک سورۃ الاخلاص ہے ۔ جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ ثلث القرآن ‘ یعنی قرآن کے تیسرے حصے کے برابر قرار دیا ہے ۔ اور یہ ایسی سورت ہے کہ جو شخص اس سے محبت کرتا ہو اور اسے بار بار پڑھتا ہو اس کیلئے اللہ تعالی جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ حَتّٰی یَخْتِمَہَا عَشْرَ مَرَّاتٍ ، بَنَی اللّٰہُ لَہٗ قَصْرًا فِی الْجَنَّۃِ))

’’ جو شخص مکمل سورتِ اخلاص دس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یا رسول اللہ ! تب تو میں یہ سورت بہت زیادہ پڑھوں گا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اَللّٰہُ أَکْثَرُ وَأَطْیَبُ ) ’’ اللہ اور زیادہ دینے والا اور بہت اچھا ہے ۔ ‘‘ السلسلۃ الصحیحۃ :589

میرے بھائیو اور بہنو ! اس عظیم الشان سورت کی محبت بندے کو جنت میں پہنچا دیتی ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں امامت کرتا تھا اور وہ جب بھی قراء ت شروع کرتا تو سورۃ الاخلاص سے کرتا ، پھر کوئی دوسری سورت پڑھتا ۔ اور وہ ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تھا۔ اس کے مقتدیوں نے کہا : تم ہمیشہ اسی سورت کے ساتھ قراء ت کی ابتداء کرتے ہو ، پھر تم سمجھتے ہو کہ یہ تمھیں کافی نہیں ہوتی ، اسی لئے تم مزید قراء ت کرتے ہو ! یا تو تم اسی کو پڑھا کرو ، یا پھر اس کو چھوڑ دو اور کوئی دوسری سورت پڑھا کرو ۔ اس نے کہا : میں اسے چھوڑنے والا نہیں ، اگر تمھیں پسند ہو تو میں امامت جاری رکھوں ! اور اگر تمھیں پسند نہ ہو تو میں امامت ترک کردیتا ہوں ! ان کے مقتدی حضرات انھیں اپنے میں سب سے بہتر سمجھتے تھے ، اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور ان کی جگہ پر امامت کرے ۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :

(( یَا فُلَانُ ! مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَفْعَلَ مَا یَأْمُرُکَ بِہٖ أَصْحَابُکَ ، وَمَا یَحْمِلُکَ عَلٰی لُزُومِ ہٰذِہِ السُّوْرَۃِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ ؟))

’’ اے فلاں آدمی ! تمھیں تمھارے مقتدی جس بات کا کہتے ہیں تم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ اور کونسی چیز ہے جو تمھیں اس سورت کو ہر رکعت میں پڑھنے پر آمادہ کرتی ہے ؟ ‘‘

تو اس نے کہا : ( إِنِّیْ أُحِبُّہَا )میں اس سورت ( قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ) سے محبت کرتا ہوں ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حُبُّکَ إِیَّاہَا أَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ )) صحیح البخاری :774م

’’ اُس سے تیری محبت نے ہی تجھے جنت میں داخل کردیا ہے ۔ ‘‘

اور جو شخص اِس عظیم الشان سورت سے محبت کرتا ہے ، اس سے اللہ تعالی محبت کرتا ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا ۔ چنانچہ وہ جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراء ت کا اختتام ﴿ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ﴾کے ساتھ کرتا ۔ پھر جب وہ لوگ واپس لوٹے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی بات کا تذکرہ کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( سَلُوہُ لِأَیِّ شَیْیٍٔ یَصْنَعُ ذَلِکَ )) ’’ اس سے پوچھو ، وہ اِس طرح کیوں کرتا تھا ؟ ‘‘

انھوں نے پوچھا تو اس نے کہا : (( لِأَنَّہَا صِفَۃُ الرَّحْمٰنِ وَأَ نَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِہَا ))

کیونکہ اس سورت میں رحمان کی صفات ہیں اور میں ان کی قراء ت کرنا پسند کرتا ہوں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَخْبِرُوہُ أَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّہٗ)) ’’ اسے بتا دو کہ اللہ تعالی بھی اس سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :7375، وصحیح مسلم :813

11. جھگڑے سے اجتناب کرنا

ہمارا دین تمام مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ﴾ الحجرات49 :10

اور مومنوں کے درمیان آپس کے تعلقات اِس طرح ہوتے ہیں کہ وہ صرف اللہ کے دین کی خاطر ایک دوسرے سے پیار ومحبت کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے اُن کے اِن تعلقات کو یوں بیان کیا ہے :

﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ ﴾ التوبۃ9 :71

’’ مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے ( مدد گار ومعاون اور ) دوست ہوتے ہیں ۔ ‘‘

اور اگران کے درمیان کبھی نزاع واقع ہو تو اسلام انھیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو

معاف کردیں اور اپنے بھائی کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں ۔ اور نوبت اِس حد تک نہ پہنچنے دیں کہ ان کے مابین جھگڑا ہو اور وہ ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی کریں ۔ معاف کرنے اور جھگڑا ترک کرنے کی بڑی فضیلت ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

((أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ۔۔۔ )) سنن أبی داؤد : 4800۔ وحسنہ الألبانی

’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے ۔۔۔‘‘

12. مزاح میں بھی جھوٹ سے بچنا

ہمارا دین سچ بولنے کا حکم دیتا اور جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے ۔ سچ بولنا نیکی ہے اور جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور جھوٹ سے بچنا اِس قدر ضروری ہے کہ مذاق مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے ۔ اِس کی فضیلت کیا ہے ! سنئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا ۔۔۔ )) سنن أبی داؤد : 4800۔ وحسنہ الألبانی

’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے ۔ اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتاہوں جو جھوٹ چھوڑ دے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘

جبکہ کئی لوگ اپنی مجلسوں میں لطیفہ گوئی کرتے ہیں اور ہنستے ہنساتے ہیں ۔ اور ان کے لطیفوں میں سے اکثر وبیشتر لطیفے جھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔ لہٰذا ایسے لطیفے بیان کرنے سے بچنا چاہئے ۔

ہاں جھوٹ بولے بغیر جائز مزاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض اوقات خوش طبعی کیلئے مزاح کر لیا کرتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اسے سواری فراہم کی جائے ۔ آپ نے فرمایا : میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دونگا ۔

اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کرونگا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((وَہَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إلَّا النُّوقُ)) سنن أبی داؤد :4998، جامع الترمذی :1991۔ صححہ الألبانی ’’ اونٹ کو بھی اونٹنی ہی جنم دیتی ہے ۔‘‘

13. حسن اخلاق

اسلام میں حسن اخلاق کی بڑی اہمیت ہے ۔توحید کے بعد سب سے بڑی چیز جو قیامت کے روز انسان کے ترازو میں بڑی وزنی ثابت ہوگی وہ ہے حسن اخلاق۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :((مَا مِنْ شَیْیئٍ یُّوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ أَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ،وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَیَبْلُغُ بِہِ دَرَجَۃَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ)) جامع الترمذی :2003 ۔ وصححہ الألبانی

’’ ترازو میں رکھی جانے والی سب سے زیادہ وزنی چیز اچھے اخلاق کے سواکچھ نہیں ۔ اور اچھے اخلاق والا انسان اُس شخص کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے جو صوم وصلاۃ کا پابند ہو ۔ ‘‘

اور حسن اخلاق کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے شخص کو جنت کے اعلی درجے میں ایک گھر کی ضمانت دی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

((أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا ، وَبِبَیْتٍ فِیْ أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُہُ)) سنن أبی داؤد :4800۔ وحسنہ الألبانی

’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے ۔ اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتاہوں جو جھوٹ چھوڑ دے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو ۔ اور اس شخص کو جنت کے اعلی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس کا اخلاق اچھا ہو ۔‘‘

14. مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا

اسلام تمام مسلمانوں کو ایک امت اور ایک جماعت بننے کا حکم دیتا اور فرقہ بندی سے منع کرتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا ﴾ آل عمران3 :103

جامع الترمذی :

’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔‘‘

لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہے اور ان سے الگ تھلگ نہ ہو ۔ اور جو شخص ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہے اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے وسط میں ایک گھر کی خوشخبری دی ہے ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ ، وَإِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ ،فَإِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الْإِثْنَیْنِ أَبْعَدُ ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ ۔۔۔۔)) جامع الترمذی : 2165 ۔ وصححہ الألبانی

’’ تم لوگ ضرور مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا اور فرقہ واریت سے بچنا ۔ کیونکہ شیطان اکیلے بندے کے ساتھ ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے دور رہتا ہے ۔ جو شخص جنت کے وسط میں رہنا چاہتا ہو تو وہ بہر صورت جماعت میں شامل رہے ۔۔۔ ‘‘

مسلمانوں کی جماعت میں ہر حال میں شامل رہنے کے بارے میں اِس حدیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا حکم دیا ہے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا :

((وَأَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ أَمَرَنِی اللّٰہُ بِہِنَّ : اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَۃُ وَالْجَمَاعَۃُ، فَإِنَّہٗ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ إِلَّا أَن یَّرْجِعَ )) جامع الترمذی :2863 ۔ وصححہ الألبانی

’’ اور میں تمھیں اُن پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم مجھے اللہ تعالی نے دیا ہے ۔ ( حکمرانوں کی بات کو) سنتے رہنا ، ان کی اطاعت کرتے رہنا ، جہاد جاری رکھنا ، ہجرت ( کرنی پڑے تو اس سے گریز نہ کرنا ) اور (مسلمانوں کی) جماعت میں شامل رہنا ۔ کیونکہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت کو چھوڑ دے تو اس نے یقینا اسلام کی پابندیوں کو اپنی گردن سے اتار کر پھینک دیا ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنت کے محلات میں داخل کرے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! اپنے موضوع کو مکمل کرتے ہوئے کچھ مزید اعمال کا تذکرہ بھی سن لیجئے جن کے بسبب اللہ تعالی جنت میں گھر بنا دیتا ہے :

15. مریض کی عیادت کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَنْ عَادَ مَرِیْضًا نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ : طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاکَ ، وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّۃِ مَنْزِلًا )) سنن ابن ماجہ : 1443 ۔ وحسنہ الألبانی

’’ جو شخص مریض کی عیادت کرے توآسمان سے ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھیں خوشحالی نصیب ہو، تمھارا چلنا بہت اچھا ہے اور تم نے جنت میں ایک گھر بنا لیا ہے ۔‘‘

16. مسلمان سے ملاقات کیلئے جانا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( إِذَا عَادَ الرَّجُلُ أَخَاہُ أَوْ زَارَہُ قَالَ اللّٰہُ لَہُ : طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاکَ ، وَتَبَوَّأْتَ مَنْزِلًا فِی الْجَنَّۃِ)) الأدب المفرد :345۔ وحسنہ الألبانی

’’ جب ایک آدمی اپنے بھائی کی عیادت یا زیارت کرے تو اللہ تعالی اس سے کہتا ہے : تم اچھے ہو اور تمھارا چلنا بھی اچھاہے اور تم نے جنت میں گھر بنا لیا ہے۔‘‘

17. بازار میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا

بازار میں جانا اور اس میں خرید وفروخت کرنا ہر انسان کی ضرورت ہے ۔ بلکہ بعض اوقات دن میں کئی مرتبہ بازار جانا پڑتا ہے اور ضرورت کی اشیاء خریدنا پڑتی ہیں ۔ اگر بازار میں داخل ہونے سے پہلے بندہ مسنون دعا پڑھ لے تو اس سے بہت ساری نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں ، بہت سارے گناہ مٹ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جنت میں ایک گھر کی خوشخبری بھی ملتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنْ قَالَ فِی السُّوقِ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَۃٍ وَمَحَا عَنْہُ أَلْفَ أَلْفِ سَیِّئَۃٍ ،وَرَفَعَ لَہُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَۃٍ ))

وفی روایۃ : ( وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ) جامع الترمذی :3428،3429۔ وحسنہ الألبانی

’’ جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے :

(( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ))

تو اللہ تعالی اس کیلئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، دس لاکھ گناہ مٹا دیتا ہے اور دس لاکھ درجے بلند کردیتا ہے۔‘‘ جبکہ اِس حدیث کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’ اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

آخر میں اللہ تعالی سے ایک بار پھر یہی دعا ہے کہ وہ ہم سب کو جنت کے محلات نصیب فرمائے ۔ آمین