جنگی حالات میں ایک مسلمان کی ذمہ داریاں

 

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞ (بقرہ 155)

اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کی آزمائش کرتے رہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون اللہ تعالٰی کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صابر و شاکر بنتا ہے اور کون جزع و فزع کرتے ہوئے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے

اور یہ آزمائش کئی طریقوں سے ہوسکتی ہے

دشمن سے جنگ کے خوف سے ،

بھوک اور قحط سالی کے ذریعے ،

مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعے

یا پھر ان کے علاوہ کوئی بھی طریقہ ہوسکتا ہے

ایسے حالات میں جو مسلمان صبر کا دامن تھامے ہوئے اللہ تعالٰی پر خوش رہتا ہے اور کسی بھی قسم کی جاہلی بات اپنے قول و فعل سے ظاہر نہیں کرتا، اس کے لیے آزمائش کی اس گھڑی کے بعد اللہ تعالٰی نے بہت سے انعامات تیار کر رکھے ہیں

موجودہ حالات، جبکہ وطن عزیز پاکستان دشمن ملک بھارت کے ساتھ جنگی کیفیت سے دوچار ہے ہمارے لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک امتحان اور آزمائش کا ساماں ہے

ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے ، ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں اور ایک مسلم ریاست کے شہری ہونے کے ناطے سے دین اور شریعت کا کیا تقاضہ ہے،

یہ چند ایسے امور ہیں جن کے متعلق رہنمائی حاصل کرنا ازحد لازم اور ضروری ہے

01.ایمان اور توحید

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

دشمن پر غلبہ طاقت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایمان و عقیدہ توحید کی پختگی بہت ہی ضروری اور اہم چیز ہے

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ۞ ( آل عمران 139)

اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔

یعنی اللہ تعالٰی نے اس آئت مبارکہ میں دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ایمان کی شرط رکھی ہے کہ اگر تمہارا ایمان مضبوط اور مستحکم ہوا تو پھر فتح تمہارا ہی مقدر بنے گی

اور اسی طرح ایمان کے ساتھ ساتھ عقیدہ توحید کا ہونا بھی لازمی ہے تبھی امن و استحکام ہوگا اور تبھی دشمن کا خوف دور ہوگا

اللہ تعالٰی نے اہل شرک اور اہل توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

فَاَىُّ الۡفَرِيۡقَيۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ‌ۚ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‌ۘ ۞(الأنعام 82)

دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے،

کیا وہ مشرکین، جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا وہ خالص توحید پرست، جنھیں یہ یقین و اطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع و نقصان پر قادر ہے اور اس کے سوا دنیا کی کوئی ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کرسکتی۔

پھر آگے خود ہی اللہ تعالٰی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يَلۡبِسُوۡۤا اِيۡمَانَهُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰۤئِكَ لَهُمُ الۡاَمۡنُ وَهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ  ۞ (الأنعام 82)

وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ امن و سکون اور ہدایت ایسے خالص ایمان ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں جس میں توحید کے ساتھ کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ کی گئی ہو، جو قوم خالص ایمان اور خالص توحید سے محروم ہو اور کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو اسے کسی صورت امن و چین اور ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔

دراصل دشمن کے ساتھ ہماری لڑائی ہی ایمان اور توحید کی بنیاد پر ہے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان اور اسکی توحید کا اقرار کرنے والے ہیں جبکہ وہ کئی خداؤں پر ایمان اور شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں لیکن اگر یہ دونوں چیزیں خود ہمارے اندر ہی موجود نہیں ہونگیں تو پھر ہم دشمن سے کیسے اور کیوں لڑ سکیں گے

اسی کے متعلق اللہ تعالٰی نے فرمایا

هٰذٰنِ خَصۡمٰنِ اخۡتَصَمُوۡا فِىۡ رَبِّهِمۡ‌

یہ دو جھگڑنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا،

اسی توحید کی بنیاد پر حمزہ بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث اور علی بن ابی طالب (رض) اپنے قریب ترین رشتہ داروں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے تھے۔

اسی بنیاد پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور انکے بیٹے، عمر فاروق اور ان کے ماموں، سعد بن ابی وقاص اور ان کے بھائی مد مقابل ہوئے تھے

سو آج ہمیں بھی یہ جنگ جیتنے کے لیے ایمان اور توحید کو مضبوط کرنا ہو گا

بتان شعوب و قبائل کو توڑ

رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ

یہی دین محکم ، یہی فتح باب

کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

02.اللہ کا ذکر اور دعائیں

یوں تو ایک مومن کو ہر وقت ہی اللہ کا ذکر اور اللہ تعالٰی سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے مگر خاص جنگی حالات میں ان کی اہمیت اور ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ چیزیں مومن کا ہتھیار ہیں

اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ فتح و نصرت کا انحصار ظاہری اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت، اللہ کی یاد اور اس کا حکم بجا لانے پر ہے

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمۡ فِئَةً فَاثۡبُتُوۡا وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ

اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پھر اللہ تعالٰی بھی ایسے لوگوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں

فرمایا

فَاذۡكُرُوۡنِىۡٓ اَذۡكُرۡكُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِىۡ وَلَا تَكۡفُرُوۡنِ  ۞ (بقرہ 152)

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی :

رَبَّنَآ اَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرًا وَّثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِيۡنَؕ ۞ (البقرۃ 250)

اے ہمارے رب ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور ان کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞ (بقرہ 153)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بدر کا دن ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھی تین سو انیس آدمی تھے، تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلے کی طرف رخ کرکے ہاتھ پھیلا دیے اور اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرنے لگے : ” اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر، اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر۔ اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ “ آپ اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر کندھوں سے گرگئی تو ابوبکر (رض) آپ کے پاس آئے، آپ کی چادر پکڑی، اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ سے چمٹ گئے اور کہا : ” اے اللہ کے نبی ! آپ کا اپنے رب کو قسم دینا آپ کے لیے کافی ہے، کیونکہ یقیناً وہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔ “

جب ایسے حالات ہوں جو آجکل ہمارےملک اور دیگر اور مسلم ممالک میں نظر آرہے ہیں، تو اسوقت قنوت نازلہ کرنی چاہیے جو کہ سنت طریقہ ہے

ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﻧﮯ ﻣﺼﯿﺒﺖ ‘ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﻧﭽﻮﮞ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﻨﻮﺕ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺾ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ

حدیث میں آتا ہے

ﮐَﺎﻥَ ﻻَ ﯾَﻘْﻨُﺖُ ﻓِﯿْﮭَﺎ ﺍِﻻّ ﺍِﺫَﺍ ﺩَﻋَﺎ ﻟِﻘَﻮْﻡٍ ﺍَﻭْ ﺩَﻋَﺎ ﻋَﻠَﯽ ﻗَﻮْﻡٍ۔

ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻗﻨﻮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﺪ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ – ‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺧﺰﯾﻤﮧ – ﺑﺎﺏ ﺍﻟﻘﻨﻮﺕ ‏)

أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا تو آپ بکثرت ” يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ".پڑھا کرتے تھے

حكم الحديث: حسن، ترمذی

قنوت نازلہ کی دعائیں

01. ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍﻏْﻔِﺮْﻟَﻨَﺎ ﻭَﻟِﻠْﻤُﻮٔﻣِﻨِﯿْﻦَ ﻭَﺍﻟْﻤُﻮٔﻣِﻨَﺎﺕِ ﻭَﺍﻟْﻤُﺴْﻠِﻤِﯿْﻦَ ﻭَﺍﻟْﻤُﺴْﻠِﻤَﺎﺕِ ﻭَﺍَﻟِّﻒْ ﺑَﯿْﻦَ ﻗُﻠُﻮْﺑِﮭِﻢْ ﻭَﺍَﺻْﻠِﺢْ ﺫَﺍﺕَ ﺑَﯿْﻨِﮭِﻢْ ﻭَﺍﻧْﺼُﺮْﮬُﻢْ ﻋَﻠَﯽ ﻋَﺪُﻭِّﮎَ ﻭَﻋَﺪُﻭِّﮬِﻢْ

ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍﻟْﻌَﻦِ ﺍﻟْﮑَﻔَﺮۃَ ﺍﻟّﺬِﯾْﻦَ ﯾَﺼُﺪُّﻭْﻥَ ﻋَﻦْ ﺳَﺒِِﯿْﻠِﮏَ ﻭَﯾُﮑَﺬِّﺑُﻮْﻥَ ﺭُﺳُﻠَﮏَ ﻭَﯾُﻘَﺎﺗِﻠُﻮْﻥَ ﺍَﻭْﻟِﯿَﺎٓئَكَ

ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺧَﺎﻟِﻒْ ﺑَﯿْﻦَ ﮐَﻠِﻤَﺘِﮭِﻢْ ﻭَﺯَﻟْﺰِﻝْ ﺍَﻗْﺪَﺍﻣَﮭُﻢْ ﻭَﺍَﻧْﺰِﻝْ ﺑِﮭِﻢْ ﺑَﺄﺳَﮏَ ﺍﻟّﺬِﯼْ ﻻَ ﺗَﺮُﺩُّﮦٗ ﻋَﻦِ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟْﻤُﺠْﺮِﻣِﯿْﻦَ . ‏( ﺍﻟﺒﯿﮩﻘﯽ ﻭﺣﺼﻦ ﺣﺼﯿﻦ ‏)

02. ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍِﻧّﺎ ﻧَﺠْﻌَﻠُﮏَ ﻓِﯽْ ﻧُﺤُﻮْﺭِﮬِﻢْ ﻭَﻧَﻌُﻮْﺫُﺑِﮏَ ﻣِﻦْ ﺷُﺮُﻭْﺭِﮬِﻢْ . ‏( ﺭﻭﺍﮦ ﺍﺣﻤﺪ ﻭﺍﺑﻮﺩﺍﻭٔﺩ ‏)

03. ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍﮐْﻔِﻨَﺎ ﮬُﻢْ ﺑِﻤَﺎ ﺷِﺌْﺖَ۔ ‏( ﺭﺍﻭﮦ ﻣﺴﻠﻢ ‏)

04. ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﻣُﻨْﺰِﻝَ ﺍﻟْﮑِﺘَﺎﺏِ ﺳَﺮِﯾْﻊَ ﺍﻟْﺤِﺴَﺎﺏِ ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍﮬْﺰِﻡِ ﺍﻟْﺎَﺣْﺰَﺍﺏَ . ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺍﮬْﺰِﻣْﮭُﻢْ ﻭَﺯَﻟْﺰِﻟْﮭُﻢْ۔ ‏ ( ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﯿﮧ ‏)

05.حسبنا الله ونعم الوكيل نعم المولى ونعم النصير

03.استقامت، صبر اور حوصلہ اختیار کریں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَاسْأَلُوا اللهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ»، (مسلم 4542)

” لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، ( لیکن ) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ "

اللہ تعالٰی دوران جنگ استقامت، حوصلہ اور صبر کی تلقین کرتے ہیں، فرمایا

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ  ۞

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، صحابہ کرام (رض) میں شجاعت، صبر و ثبات اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی فرماں برداری تھی جو نہ اس سے پہلے کسی کو حاصل ہوئی نہ بعد میں ہوگی، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی برکت اور آپ کی اطاعت سے شرق و غرب کے ممالک کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی فتح کیا اور روم و فارس کے مقابلے میں نہایت تھوڑی تعداد کے باوجود سب پر غالب آئے، یہاں تک کہ اللہ کا بول سب پر بالا ہوگیا اور اس کا دین سب ادیان پر غالب آگیا اور صرف تیس سال سے بھی کم عرصے میں اسلامی ممالک مشرق سے مغرب تک پھیل گئے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور انھیں راضی کرے اور ہمارا حشر بھی ان کے ساتھ کرے، وہ بیحد کرم اور عطا والا ہے۔

04.دوران جنگ منفی پروپیگنڈہ کرنے، دشمن کی زبان بننے اور مسلمانوں میں مایوسیاں پھیلانے سے اجتناب کریں

موجودہ دور چونکہ میڈیا کا دور ہے ، اینڈ رائیڈ موبائلز کے ذریعے سوشل میڈیا ہر شخص کی رسائی میں ہے میڈیا پر کوئی بھی ایسی خبر مت شیئر کریں جس سے اسلامیان کے حوصلے پست اور دشمن کے حوصلے بلند ہوں

بلکہ کوئی بھی منفی خبر اگر آپ سنیں تو اسے فوراً اپ لوڈ کرنے کی بجائے علماء، داناء، اولو الأمر حضرات اور ماہرین سے رائے ضرور لے لیں

افواہیں بھی دشمن کا مؤثر ہتھیار ہوتی ہیں ، ان سے دشمن کو فائدہ، ملک کو نقصان اور عوام میں بددلی پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ھے

اسی کیفیت کو اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے

وَاِذَا جَآءَهُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَـوۡفِ اَذَاعُوۡا بِهٖ‌ ۚ وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّيۡطٰنَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞ (نساء 83)

اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔

مدینہ منورہ میں اکثر کئی قسم کی افواہیں پہنچتی رہتی تھیں، لیکن منافقین اور بےاحتیاط قسم کے مسلمان بجائے اس کے کہ انھیں سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے دار اصحاب تک پہنچائیں، از خود ان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے، ان کے اسی طرز عمل کی یہاں مذمت کی جا رہی ہے۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر امن یا خوف کی وہ خبر بلاتحقیق پھیلانے کے بجائے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے امراء کو پہنچاتے تو سب سے پہلے وہ غور و خوض اور تحقیق کر کے معلوم کرتے کہ خبر صحیح بھی ہے یا غلط، پھر وہ ذمے دار حضرات فیصلہ کرتے کہ اس خبر کی اشاعت کرنی چاہیے یا نہیں، اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے، ورنہ روک دیتے۔ انفرادی زندگی میں عموماً اور اجتماعی زندگی میں خصوصاً اس ہدایت پر عمل نہایت ضروری ہے، ورنہ اس بےاحتیاطی کے بیحد نقصانات ہوسکتے ہیں، بالخصوص جنگ کے ایام میں، جبکہ خبریں اور افواہیں فوجی کاروائیوں سے بڑھ کر تاثیر رکھتی ہیں، خبروں کے محاذ کو بھی جنگ کا زبردست محاذ سمجھ کر اس کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے۔

حالات کی سنگینی دیکھ کر خود ہی تجزیہ نگار نہیں بن جانا چاہئے بلکہ اولو الامر اور ذمے دار حضرات پر معاملہ چھوڑ رکھا جائے بعض لوگ دشمن کی ظاہری چند قلابازیاں دیکھ کر مرعوب ہو جاتے ہیں اور پھر مایوسیاں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ طالوت کے لشکر میں سے بعض نا عاقبت اندیشوں نے دشمن کو دیکھ کر یوں منفی تبصرہ کیا

 ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَةَ لَنَا الۡيَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَجُنُوۡدِهٖ‌ؕ

انھوں نے کہا آج ہمارے پاس جالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں۔

جبکہ اسی دشمن فوج کو دیکھ کر بعض سمجھ رکھنے والوں نے کتنا حوصلہ افزا تبصرہ کیا

قَالَ الَّذِيۡنَ يَظُنُّوۡنَ اَنَّهُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰهِۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَةٍ قَلِيۡلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً کَثِيۡرَةً ۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞

جو لوگ سمجھتے تھے کہ یقینا وہ اللہ سے ملنے والے ہیں انھوں نے کہا کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

منفی پروپیگنڈہ اور مایوسی پھیلانا منافقین کی نشانی ہے اور مثبت سوچ دینا مؤمنين کی نشانی ہے

غزوہ خندق کے موقع پر دشمن کے بھاری لشکر کو دیکھ کر مومن اور منافق دونوں طرح کے لوگوں نے تبصرے اور کمنٹس دیئے تھے

منافقین کے تاثرات دیکھیں

وَاِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ۞ (احزاب 12)

اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔

جب مدینہ کو کفار نے ہر طرف سے گھیر لیا اور یہودیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے مدینہ کے اندر سے بھی ہر وقت حملے کا خطرہ پیدا ہوگیا، تو اس وقت مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث یہ بات ہوئی کہ منافقین اور کچے ایمان والے لوگوں نے ایسی باتیں کہنا شروع کردیں جن سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور بددلی پھیل جائے، مثلاً یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہمیں قیصرو کسریٰ کے شہر فتح ہونے کی بشارتیں سناتے تھے، جبکہ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے سب دھوکا تھے

مومنین کے تاثرات دیکھیں

وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ ۚ وَمَا زَادَهُمۡ اِلَّاۤ اِيۡمَانًـا وَّتَسۡلِيۡمًا ۞ (الأحزاب 22)

اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اس ضمن میں ہمارے لیے بہترین مثال ہے کہ جب انہوں نے اپنی مرضی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اجازت کے بغیر ایک اہم جنگی خبر اپ لوڈ کرنے کی خطا کی تو کس طرح اللہ تعالٰی نے اس پر زبردست پہرہ بٹھایا اور ایک بہت بڑے نقصان سے محفوظ رکھا

موجودہ حالات میں

پاک فوج کی کسی بھی موومنٹ کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر جاری کرنے سے اجتناب کیجیے

یہ ایک جرم بھی ہے اور

دشمن کو بے خبر رکھنے کے لیے لازم بھی ہے

اس لیے احتیاط کیجیے اور پاکستان آرمی کی کسی بھی قسم کی موومنٹ کی ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہ کیجیے..

اس کے علاوہ دشمن کی چالوں کو سمجھے دشمن کی جھوٹی اور من گھڑت باتوں پر یقین نا کریں ۔۔

اپنے ملک کی فوج، نیوی اور ایئر فورس پر بھروسہ رکھیں اور خصوصی طور پر ان کے لیے اور پاکستان کے لیے دعا کریں ۔۔

اللّه پاک اس وطن عزیز پاکستان کو تا قیامت قائم دائم رکھے ۔

05.دوران جنگ مسلم سپہ سالار کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے حوصلہ دیا جائے

سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے دیگر ذرائع سے اپنی فوج اور اس کے سالار کو حوصلہ اور تھپکی دی جائے اور مشکل کی اس گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عزم کیا جائے اتفاق و اتحاد اور تعاون باہمی کے اظہار کا اعادہ کیا جائے

جیسا کہ بدر کی جنگ کے موقع پر مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بہترین حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ تھا اگر آپ ہمیں برک غماد تک جانے کا بھی کہیں گے تو ہم حاضر ہیں

عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ مقداد بن اسود (رض) نے بدر کے دن عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) ہم تو عرض کرتے ہیں کہ آپ چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ “ یہ سن کر ایسے محسوس ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب پریشانی دور ہوگئی

۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( فاذھب أنت وربک فقاتلا ) : ٤٦٠٩ ]

اسی طرح سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خندق کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیٹ پر دو پتھر بندھے دیکھے تو اپنے محبوب سالار کو کتنے شاندار الفاظ میں حوصلہ دیا

بآواز بلند کہنے لگے

نحن الذين بايعوا محمدا

علی الجہاد مابقینا ابدا

گو آج ہم مختلف میسجز، ٹویٹ اور پیغامات کے ذریعے اپنی فوج اور اس کے سالار کو حوصلہ دیں اور انہیں یقین دہانی کروائیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم آپ کی پشتی بان ہے

ویسے بھی اپنی زبان کے ذریعے کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے

06.رضا کار بنیں

اسلامی ملکوں، شہروں اور علاقوں کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہوتا ہے یہ صرف ان لوگوں کا فریضہ نہیں ہے جنہوں نے وردی پہنی ہوتی ہے بلکہ یہ سب کی ذمہ داری بنتی ہے اس لیے مسلم معاشرے کے ہر مسلم شہری پر فرض ہے وہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی ہر لحاظ سے ہر وقت تیار رکھے معاصر جنگی تدابیر اور فنون سے حتی الوسع واقفیت حاصل کرے اپنی جسمانی فٹنس اور فزیکلی ٹریننگ کو برقرار رکھے

وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ ۞

اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کرسکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے،

جب ہم سب بنیادی عسکری ٹریننگ سے واقف کار ہوں گے تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہنگامی حالات میں ہم خود حواس باختہ نہیں ہونگے اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن پر ہمارا رعب و دبدبہ بڑھے گا

معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر پیش کیا اور وقت کے فرعون، طاغوت اکبر ابوجہل کا کام تمام کیا تھا

مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

آج اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ان کا ہر شہری عسکری ٹریننگ سے واقف ہوتا ہے نتیجتاً وہ کیسے اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جا رہے ہیں

07.جنگی حالات میں باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکہ مفاد پر جد و جہد کی جائے

ایسے حالات میں ہر شہری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی، لسانی یا علاقائی تعصبات اور اختلافات کو ہوا نہ دے ان سب چیزوں کو چھوڑتے ہوئے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے کیونکہ اسی میں دفاع اسی میں بقاء اور اسی میں قوت ہے ورنہ نقصان ہی نقصان ہوگا

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ‌ وَاصۡبِرُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ۚ ۞ (الأنفال 46)

اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں مت جھگڑو، ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا چلی جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

یعنی تمہارے درمیان پھوٹ دیکھ کر دشمنوں پر سے تمہارا رعب اٹھ جائے گا اور وہ تم پر غلبہ پانے کے لیے اپنے اندر جرأت محسوس کرنے لگیں گے

جن دنوں مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ چل رہی تھی ان دنوں یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فوراً بھانپتے ہوئے اس سازش کا خاتمہ کیا

ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس، ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس و خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا : ”اوہ ! ا س دیار میں بنو قَیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔ واللہ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔” چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں – مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے : چلو تیار ہیں، حَرہ میں مقابلہ ہوگا — ہتھیا ر … ! ہتھیار …!

اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :”اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کا ٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔” آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی

الرحیق المختوم ص324

08.ارد گرد مشکوک افراد پر نظر رکھیں

اعلانیہ دشمن سے زیادہ خفیہ دشمن خطرناک ہوتا ہے سو ہمیں چوکنا ہو کر رہنا پڑے گا نظر رکھیے کہیں اپنی صفوں میں دشمن تو نہیں گھسا ہوا ماحول میں کہیں بھی کوئی مشکوک فرد نظر آئے تو فوراً سکیورٹی اداروں تک رپورٹ کریں

غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں کے بچے اور خواتین ایک قلعے میں بند تھے جس کی نگرانی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس تھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اسی قلعے میں تھیں آپ فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس سے ایک یہودی گزرا اور قلعے کا چکر کاٹنے لگا میں نے کہا اے حسان، یہ یہودی ہے اور ہمارے قلعے کا چکر لگا رہا ہے اور خدا کی قسم مجھے اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہودیوں کو بھی ہماری کمزوری سے آگاہ کرے گا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری مدد کو نہیں آ سکتے لہذا آپ جائیے اور اسے قتل کر دیجئیے حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں، صفیہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ اب میں نے خود اپنی کمر باندھی پھر ستون کی ایک لکڑی لی اور اس یہودی کے پاس پہنچی اور لکڑی سے مار مار کر اس کا خاتمہ کر دیا اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان سے کہا کہ جائیے اور اس کے ہتھیار اور اسباب اتار لیں

ابن ھشام بحوالہ الرحیق المختوم

سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ کی اس سنت پر عمل کرتے آج ہمیں بھی اپنے ارد گرد چھپے دشمن پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی آستین کا سانپ امت مسلمہ کی رگوں میں زہر گھولنے کی کوشش نہ کرے

10.اپنی فوج، قوت، تیاری اور اسلحہ پر تکبر نہیں شکر کریں

جنگی حالات میں اکثر دیکھا گیا ہے عوام الناس فخریہ اور متکبرانہ انداز میں بہت سی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو اللہ رب العزت کو قطعاً پسند نہیں ہیں

اپنی فوج، ٹینک اور میزائلز کی جب بھی تعریف کرنی ہو تو بھڑک اور تکبر کے انداز میں نہیں کرنی چاہیئے( الا کہ دشمن سے مخاطب ہیں تو الگ بات ہے)

بات بات پہ( بتوفيق اللہ، الحمد للہ، بإذن اللہ، ان شاء اللہ )جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہیئے

کیونکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سب کمال اللہ کی طرف سے ہوتا ہے

ہم میزائل پھینکتے ہیں

ہماری فوج ایکٹو ہے

ہمارے پاس ٹیکنالوجی اچھی ہے

ہمیں فتح حاصل ہوتی ہے

تو ان سب میں ہمارا کچھ بھی کمال نہیں ہے یہ سب اللہ تعالٰی کی مہربانی سے ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٢٤٩ ]

” کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں۔ “

اگر اپنی طاقت اور تعداد زیادہ ہو تو بھی اپنی طاقت اور کثرت پر تکبر کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھیں اور اس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔

غزوہ حنین کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب مسلمانوں نے اپنی کثرت اور قوت پر تکبر کیا تو اللہ تعالٰی نے کس طرح فوراً ہی گرفت کی تھی

سو ہم مسلمان ہیں۔ اور ہمیں فخر صرف اللہ کی مدد پر ہونا چاہیئے۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں یہ سب کارنامے تم نہیں دراصل ہم ہی سر انجام دیتے ہیں

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡهُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمۡۖ وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‌ ۚ وَلِيُبۡلِىَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡهُ بَلَاۤءً حَسَنًا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞

پس تم نے انھیں قتل نہیں کیا اور لیکن اللہ نے انھیں قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا جب تو نے پھینکا اور لیکن اللہ نے پھینکا اور تاکہ وہ مومنوں کو انعام عطا کرے، اپنی طرف سے اچھا انعام، بیشک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین