*حج بیت اللہ اہمیت، فرضیت اور فضیلت*

 

*کعبۃ اللہ کا حج کرنا فرض ہے*

ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران : 97)

اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں کلمہ (علی)فرضیت کی دلیل ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰہَ إلِاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ،وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ،وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ بَیْتِ اللّٰہِ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ )) [ بخاری : ۸]

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کی (شہادت) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ (سورہ بقرہ 196)

حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو

یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو

*زندگی میں صرف ایک حج فرض ہے*

اللہ کریم نے اپنے بندوں پر ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ حج کرنا فرض کیا ہے۔

01.صحیح مسلم میں ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ أَیُّہَا النَّاسُ! قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا۔‘‘

’’اے لوگو!بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، پس تم حج کرو۔‘‘

ایک شخص نے عرض کیا:

’’أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘

’’ یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا۔

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ لَوْ قُلْتُ: ’’نَعْم۔‘‘ لَوَجَبَتْ ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ۔‘‘

’’اگر میں ’’ ہاں ‘‘کہہ دیتا ، تو ( ہرسال) واجب ہو جاتا اور تم (ہر سال ادا کرنے کی ) طاقت نہ رکھتے۔‘‘

02.امام احمد، ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:

’’کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے ہوئے عرض کیا:

’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! الْحَجُّ فِيْ کُلِّ سَنَۃٍ أَوْ مَرَّۃً وَاحِدَۃً؟‘‘

’’یا رسول اللہ! حج ہر سال کرنا ہے یا (زندگی میں) ایک مرتبہ؟‘‘

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بَلْ مَرّۃً وَاحِدَۃً ، فَمَنْ زَادَ، فَہُوَ تَطَوُّعٌ۔‘‘ [ سنن أبي داود : 1721 ]

’’بلکہ ایک مرتبہ ہے ، پس جس نے زیادہ دفعہ کیا ، تو وہ نفلی ہے۔‘‘

*حج کس پر فرض ہے؟*

حج،ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اور درج ذیل اُمور کے حامل افراد پر فرض ہے:

01.مسلم : کافر اور مرتد پر حج فرض نہیں۔

02. عاقل : دیوانے پر حج فرض نہیں۔

03.آزاد : غلام کے لیے حج ضروری نہیں۔

04.بالغ : بچے پر حج فرض نہیں۔ اگر وہ حج کرلے تو جائز ہے لیکن بالغ ہونے پر حج کا فریضہ اس سے ساقط نہیں ہوگا۔

05.تندرست : جب تک مریض شفا یاب نہ ہوجائے اس پر حج فرض نہیں۔

06.زاد راہ کا مالک : اس فقیر پر حج فرض نہیں جس کے پاس آنے جانے کے اخراجات نہ ہوں۔

*عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔*

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

((لا تُسافِرِ المَرْأَةُ ثَلاثًا،إلّا وَمعها ذُو مَحْرَمٍ))

’’کوئی عورت تین دن کی مسافت کا سفر نہ کرے،جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ عورت کیلئے محرم

[مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا]

کے تحت فرض ہے،جس عورت کا محرم نہ ہواس سے فرضیتِ حج ساقط ہوجاتی ہے۔

*استطاعت سے کیا مراد ہے*

حدیث میں استطاعت کی تفسیر زادِ راہ اور سواری سے کی گئی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ مَلَكَ زَادًا، وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا [ ترمذی : ۸۱۲ ]

جس کے پاس زاد راہ اور سواری ہو جو اسے کعبہ تک پہنچا سکے پھر وہ حج نہ کرے تو پھر چاہے یہودی ہو کر مرے یا عیسائی

شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب میں اسے حسن قرار دیا ہے

اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔

[ ہدایۃ المستنیر ]

استطاعت کے مفہوم میں راستے کا پر امن ہونا، جان و مال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہونا بھی شامل ہے اور عورت کے لیے محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔

*حج کی استطاعت کے متعلق سعودی دائمی مجلس برائے علمی تحقیقات و افتاء کا فتویٰ درج ذیل ہے:*

’’ أَنْ یَکُوْنَ صَحِیحَ الْبَدَنِ،

وَأَنْ یَمْلِکَ مِنَ الْمُوَاصِلَاتِ مَا یَصِلُ بِہٖ إِلیٰ بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ مِنْ طَائِرَۃٍ أَوْ سَیَّارَۃٍ أَوْ دَابَّۃٍ أَوْ أُجْرَۃٍ ، ذَلِکَ عَلیٰ حَسْبِ حَالِہ ؛ و أَنْ یَّمْلِکَ زَادًا یَکْفِیْہِ ذِہَابًا وَإِیَابًا،

عَلیٰ أَنْ یَکُوْنَ زَائِدًا عَنْ نَفَقَاتِ مَنْ تَلْزَمُہُ نَفْقَتُہُ، حَتّٰی یَرْجِعَ مِنْ حَجِّہِ ؛

وَأَنْ یَکُوْنَ مَعَ الْمَرْأَۃِ زَوْجٌ أَوْ مَحْرَمٌ فِيْ سَفَرِہَا لِلْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ۔‘‘

’’وہ صحیح البدن ہو،

بیت اللہ الحرام تک پہنچانے کے لیے اس کے حسبِ حالت ہوائی جہاز، کاریا جانور کی سواری یا ان کا کرایہ ہو،

دورانِ سفر کے لیے مناسب مقدار میں زادِ راہ ہو،

اور یہ زیر کفالت (اہل و عیال) کے لیے پلٹنے تک کے اخراجات کے علاوہ ہو

اور خاتون کے ہمراہ حج اور عمرہ کے سفر میں خاوند یا محرم ہو۔‘‘

*قصداً حج نہ کرنا کفر ہے*

سورہ آل عمران کی 97 نمبر آیت میں حج کی فرضیت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کفر ہے اور جو کفر کرے تو اس بے چارے کی کیا اوقات ہے، اللہ تعالیٰ تو سارے جہانوں سے بے پروا ہے۔ اسلام کی پانچ بنیادوں کے ترک اور دوسری چیزوں کے ترک کا یہی فرق ہے کہ ان پانچوں میں سے کسی کے ترک سے اسلام کی بنیاد ڈھے جاتی ہے۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا مرضِ شدید نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘

(الدارمی)۔

(یعنی یہ شخص یہود ونصاریٰ کے مشابہ ہے)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا(رواہ الترمذی)

’’جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر بھی حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر فوت ہونا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنے کے مترادف ہے‘‘

*ادائیگی حج میں جلدی کرنی چاہئے*

ادائیگیِٔ حج میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ ایک انسان کو جونہی استطاعت میسرآجائے فوراً حج کرلے،بلاعذر حج کو مؤخر کرتے رہنے پر وہ یقینا گناہگارہوگا۔

مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:

” تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ ". (حدیث نمبر 2867)

فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو کیونکہ تمہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ آگے تم پر کیا بیتنے والی ہے۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ،فَإِنَّہُ قَدْ یَمْرُضُ الْمَرِیْضُ،وَتَضِل الضَّالَّۃُ،وَتَعْرِضُ الْحَاجَۃُ (ابن ماجہ 2883،حسن)

’’ جس آدمی کا حج کرنے کا ارادہ ہو تو ( فرضیت کے بعد ) وہ جلدی کر لے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بیمار پڑ جائے یا اس کی کوئی چیز گم ہو جائے یا اسے کوئی ضرورت پیش آ جائے۔ ‘‘

*حج و عمرہ کے فضائل*

01. *حج اسلام کی بنیاد ہے*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کی (شہادت) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : ۸، عن ابن عمر رضی اللہ عنہما]

02.*ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟

آپ نے فرمایا :

(( إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ))

’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ ‘‘

پوچھا گیا :

پھر کون سا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( جِہَادٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ))

’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘

پوچھا گیا :

پھر کون سا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( حَجٌّ مَبْرُوْرٌ)) (بخاری ومسلم)۔

’’حج مبرور ‘‘

03.*حج اور عمرہ فقر اور گناہ مٹاتے ہیں*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ ) [ ترمذي : ٨١٠]

” حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ “

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِِلَّا الْجَنَّۃُ ) [ بخاري : ١٧٧٣۔ مسلم : ١٣٤٩ ]

” عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ “ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے،

اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

( مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ أُمُّہٗ ) [ بخاري : ١٥٢١، مسلم : ١٣٥٠ ]

” جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ “

حضرت عمرو بن عاص ؓکہتے ہیں کہ میں نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ نبی اکرم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا، تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ نبی اکرم نے دریافت کیا:

’’ عمرو کیا ہوا۔‘‘

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:

’’ تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ ۔‘‘

میں نے عرض کیا ( گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپ نے فرمایا:

( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ وَأَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ ) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ۔۔ : ١٢١ ]

” کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔ “

04 *رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت*

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً أَوْ حَجَّةً مَعِي (بخاری 1863)

رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے

*حاجی و معتمر کی فضیلت*

*اللہ تعالیٰ حجاج کرام کے استقبال کے لیے اپنے دو عظیم الشان پیغمبروں کو کعبۃ اللہ کی صفائی کا حکم دیتے ہیں*

فرمایا :

وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ }

’’ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔‘‘

اس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں جیسا کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلْغَازِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللّٰہِ،دَعَاہُمْ فَأَجَابُوْہُ،وَسَأَلُوْہُ فَأَعْطَاہُمْ)) (سنن ابن ماجہ 2893،ابن حبان،صحیح الترغیب والترہیب:1108)

ے راستے میں جہاد کرنے والا ‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اللہ نے انھیں بلایا تو یہ چلے آئے۔اس لئے اب یہ جو کچھ اللہ سے مانگیں گے وہ انھیں عطا کرے گا۔‘‘

*اللہ تعالیٰ کا حاجیوں پر فخر کرنا*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ ” (مسلم 3288)

"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”

*حجاج کو پانی پلانے کی نبوی خواہش*

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (حاجیوں کو پانی پلانے کے لیے) لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کر رہے تھے۔

آپﷺ نے ( انہیں دیکھ کر ) فرمایا :

اعْمَلُوا فَإِنَّكُمْ عَلَى عَمَلٍ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا لَنَزَلْتُ حَتَّى أَضَعَ الْحَبْلَ عَلَى هَذِهِ يَعْنِي عَاتِقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشَارَ إِلَى عَاتِقِهِ . (صحیح بخاری : 1635)

کام کرتے جاؤ کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو ( اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ آئندہ لوگ ) تمہیں پریشان کر دیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے کندھے پر رکھ لیتا۔

*حاجیوں کی خدمت کے لیے عباس رضی اللہ عنہ کا جذبہ*

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِي مِنًى، مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ . ۔(صحیح مسلم : 3177)

عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ ( زمزم پر حاجیوں کو ) پانی پلانے کے لیے منیٰ کی راتیں

مکہ میں گزار لیں؟ تو آپ نے انھیں اجازت دے دی

*حج کے دن کی خاص فضیلت*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ ” (مسلم 3288)

"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”

ایک یہودی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ

يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا.

اے امیرالمومنین! تمھاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے

آپ نے پوچھا : أَيُّ آيَةٍ؟

وہ کون سی آیت ہے؟

اس نے جواب دیا : یہ آیت

{اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3]

( سورہ مائدہ کی یہ آیت کہ ) “ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا

قَالَ عُمَرُ: «قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ» (بخاري 45)

” حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( خَیْرُ الدُّعَائِ دُعَائُ یَوْمِ عَرَفَۃَ)) (سنن الترمذی:3585وحسنہ اللألبانی۔ الصحیحۃ:1503)

سب سے بہتر دعا یومِ عرفہ کی دعا ہے

*سفر حج کی فضیلت*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (الحج : 27)

اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔

*’’ڈونگھے پینڈے‘‘*

یہاں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ نے ایک لطیف نکتہ بیان کیا

لکھتے ہیں :

(’’ فَجٍّ ‘‘ دو پہاڑوں کے درمیان کھلے راستے کو کہتے ہیں، مکہ کے راستے میں اکثر پہاڑوں سے گزر ہوتا ہے، اس لیے اس کے راستوں کو ’’فَجٍّ ‘‘ کہہ دیا ہے۔ ’’ عَمِيْقٍ ‘‘ کا لفظی معنی گہرا ہے، مراد دور کا سفر ہے، دور کی مسافت کو کنویں کی گہرائی سے مشابہت دی ہے۔ پنجابی میں اسے ’’ڈونگھے پینڈے‘‘ کہتے ہیں۔)

تفسیر القرآن الكريم

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی فرمایا :

ایک شخص احرام کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا وہ اپنے اونٹ سے گر گیا (اس سے) اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :

«اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَأَلْبِسُوهُ ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي» (مسلم 2894)

"اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ اس کے اپنے (احرام کے )دو کپڑے پہنا ؤ اس کا سر نہ ڈھانپو بلا شبہ وہ قیامت کے روز آئے گا ۔تلبیہ پکار رہا ہو گا” ۔

*حج اور دعا کی قبولیت*

*غازی، مجاہد اور حج، عمرہ کرنے والے کی دعا*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ (ابن ماجہ، حسن)

اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ۔

*یوم عرفہ کی دعا*

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ (ترمذي ،حسن)

بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے

*صفا اور مروہ پر دعا کریں*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحابہ بیان کرتے ہیں :

فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا، فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ (مسلم)

جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے ، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے

حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا (مسلم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا

*جمرات کی رمی کے وقت دعا کریں*

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کیا ہے کہ جب آپ نے پہلے جمرہ کو کنکریاں ماریں تو اس کے بعد

فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ،

دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے

پھر جب آپ نے جمرہ وسطی کو کنکریاں ماریں تو اس کے بعد بھی

فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ

دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے

*مشعر الحرام کے پاس دعا کریں*

پھر فرمایا :

حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ (مسلم)

یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی

*بیت اللہ کے طواف کی فضیلت*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طوافِ بیت اللہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(( مَا رَفَعَ رَجُلٌ قَدَمًا وََلا وَضَعَہَا إِلَّا کُتِبَ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ،وَحُطَّ عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ،وَرُفِعَ لَہُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ )) (أحمد،صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:1139)

’’ ( دوران طواف ) ہر ہر قدم پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(( مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَۃٍ )) (سنن ابن ماجہ :2956 وصححہ الألبانی)

’’ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعت نماز ادا کی ، اس کیلئے ایک گردن کوآزاد کرنے کا ثواب ہے۔‘‘

*تلبیہ کہنے کی فضیلت*

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :

[ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ؟ قَالَ الْعَجُّ وَ الثَّجُّ ] [ ترمذي : ۸۲۷ ]

’’حج کی کون سی چیز افضل ہے؟‘‘ فرمایا : ’’(لبیک کے ساتھ) آواز بلند کرنا اور خون بہانا (قربانی کرنا)۔‘‘

*حج کے منافع*

حج کا اصل مقصد تو عبادت کے ذریعے سے دینی اور اخروی فوائد حاصل کرنا ہے، لیکن حج مسلمانوں کے بے شمار سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد کا جامع ہے اس میں بہت سے دنیوی اور ملی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (الحج. آیت 28)

تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں

چند فوائد درج ذیل ہیں :

01. حج کے فوائد میں سے سب سے بڑا فائدہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا جمع ہونا ہے

02. اور اس بات کا مظاہرہ ہے کہ ہم سب ایک امت ہیں، کالے، گورے، سرخ اور زرد کسی کو کسی پر رنگ یا زبان کی وجہ سے برتری حاصل نہیں، سب بھائی بھائی ہیں۔

03. اور اس موقع پر سب کا ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونا اور مشکل میں گرفتار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے سوچنا اور اس کا بندوبست کرنا ہے۔

04. اور اس موقع پر تجارت، صنعت، مزدوری وغیرہ کے ذریعے سے حلال روزی کمانا بھی ہے

چنانچہ فرمایا :

« لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ » [ البقرۃ : ۱۹۸ ]

’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو۔‘‘

یہ مسلمانوں کی بین الاقوامی مصنوعات اورپیداوار سے آگاہی اور تمام دنیا کی باہمی تجارت منظم کرنے کا بہترین موقع ہے۔

5 اور اسی طرح اس موقع پر دنیا بھر کے علماء سے ملاقات اور دین و دنیا کے علوم میں اضافہ بھی حج کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ ہے۔

6 پھر اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے حالات سے واقفیت بھی بہت بڑا علم ہے جو حج کی برکات میں سے عظیم برکت ہے

*حج، خواتین کا جہاد*

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم دیکھ رہی ہیں کہ جہاد افضل ترین عمل ہے، کیا ہم بھی جہاد نہ کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( لَا، وَلَکُنَّ أَفْضَلُ الْجِھَادِ: حَجٌّ مَبْرُوْرٌ ))

’’نہیں، بلکہ تمھارے لیے حجِ مبرور افضل ترین جہاد ہے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( جِہَادُ الْکَبِیْرِ وَالضَّعِیْفِ وَالْمَرْأَۃِ : اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ )) (سنن النسائی 2626 وصححہ الألبانی)

’’ عمر رسیدہ ، کمزور اور عورت کا جہاد حج و عمرہ ہے۔ ‘‘