حفاظتِ قرآن کے الہی انتظام اور سویڈن کے نادان

قسط(1)

 

یورپ اور دنیا بھر کے عیسائی اور دیگر غیر مسلم طاقتیں، نزولِ قرآن کے پہلے روز سے ہی اسے مٹانے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں، سویڈن میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ بھی اسی ناپاک سلسلہ کی ایک کڑی ہے مگر کمال ہے کہ قرآن اس سب کے باوجود پورے آب و تاب سے کھڑا ہے اس کا ایک حرف تو کیا، ایک حرکت بھی تبدیل نہیں کی جا سکی

اور سویڈن کے نادانوں کو کون سمجھائے کہ یہ تبدیل ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ وہ ہے کہ جس کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کررہے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصف : 8)

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کے ساتھ بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے،اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔

اور فرمایا :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 9)

بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔

سویڈن کے نادانو!

جہاں میرے رب نے بڑے بڑے بیریئر لگا رکھے ہیں وہاں تمہاری ناتواں پھونکوں کی بھلا کیا اوقات ہے؟

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

اس شمع ھدائت کو روشن اور کتاب ھدی کو محفوظ رکھنے کے لیے میرے رب تعالیٰ نے جو اقدامات کیے ہیں ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں

01.پہلا اقدام

قرآن مجید کو نزول سے پہلے لوح محفوظ میں رکھا گیا، جس کی فرشتوں کے ذریعے سے حفاظت کی گئی، وہ لوح اس قدر حفاظت میں تھی کہ اس کا نام ہی لوح محفوظ رکھ دیا گیا، جن و انس میں سے کسی کی اس تک رسائی ہی نہیں، کسی شیطان کا اس میں دخل نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ وہاں پہنچ کر کوئی رد و بدل کر سکے

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ (البروج : 21)

بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے ۔

فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ (البروج : 22)

اس تختی میں ( لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے۔

مزید یہ کہ وہ لوح چھپا کر رکھی ہوئی ہے

فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (الواقعة : 78)

ایک ایسی کتاب میں جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔

وہاں سے کسی جن یا انسان کا اسے پڑھنا تو درکنار، کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، سوائے اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں کے جنھیں ہر قسم کی خیانت اور معصیت سے ہر طرح پاک پیدا کیا گیا ہے۔

لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 79)

اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کیے ہوئے ہیں۔

02.دوسرا قدم

آسمان کی سکیورٹی سخت کردی گئی

نزول قرآن سے پہلے جنات، آسمان کی باتیں سن لیا کرتے تھے

اگرچہ نزول قرآن سے پہلے بھی عالم بالا کی حفاظت کا انتظام تھا، مگر جنات کوئی نہ کوئی بات سن لیتے تھے اور انہیں بالائی فضا میں چھپ کر بیٹھنے کی بھی کوئی نہ کوئی جگہ مل جاتی تھی

آسمان کی باتیں سننے کی کیفیت و طریقہ کیا تھا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :

’’جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم صادر فرماتا ہے تو اس کا کلام سن کر فرشتے اظہار اطاعت و عجز کے لیے اپنے بازو (پر) پھڑ پھڑانے لگتے ہیں، (اس کلام کی آواز ایسی ہوتی ہے) جیسے کسی چٹان پر زنجیر کی آواز۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے جو فرمایا حق فرمایا اور وہ بلند اور بڑا ہے۔ (اس وقت) فرشتوں سے سنائی دینے والی بات کو چوری سننے والے شیطان سننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں‘‘

اور راوی حدیث سفیان نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک دوسرے کے اوپر کر کے دکھائیں ’’پھر بعض اوقات وہ شعلہ سننے والے کو اس سے پہلے جا پہنچتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو جلدی سے بتائے اور اسے جلا دیتا ہے اور بعض اوقات اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اپنے ساتھ والے کو جلدی سے بتا چکا ہوتا ہے، جو اس سے نیچے ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

[ بخاری : ۴۷۰۱ ]

فرشتے ،بادلوں میں آکر آپس میں باتیں کیا کرتے تھے تو جنات انہیں سن لیا کرتے تھے

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ، فَتَسْتَرِقُ الشَّيَاطِيْنُ السَّمْعَ، فَتَسْمَعُهُ فَتُوْحِيْهِ إِلَی الْكُهَّانِ، فَيَكْذِبُوْنَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ] [ بخاري : ۳۲۱۰ ]

’’فرشتے عنان یعنی بادل میں اترتے ہیں اور (آپس میں) اس بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمان میں فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے، تو شیطان چوری سے وہ بات سننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے سن لیتے ہیں، پھر وہ یہ بات کاہنوں کو چپکے سے پہنچا دیتے ہیں، پھر کاہن اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔‘‘

کاہن کے کان میں مرغی کے کڑکڑ کرنے کی طرح ڈال دیتے

عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں (غیب کی باتیں بتانے والوں) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَيْسُوْا بِشَيْءٍ

’’وہ کچھ بھی نہیں۔‘‘

لوگوں نے کہا :

’’یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ہمیں کوئی بات بتاتے ہیں جو سچی نکلتی ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِيْ أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ فَيَخْلِطُوْنَ فِيْهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ] [بخاري: ۶۲۱۳ ]

’’وہ بات حق ہوتی ہے جسے جنّی (جن) اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں مرغی کے کڑکڑ کرنے کی طرح ڈال دیتا ہے، پھر وہ اس کے ساتھ سو (۱۰۰) جھوٹ ملا لیتے ہیں۔‘‘

نزول قرآن کے لیے آسمان کے پہرے پہلے سے بھی سخت ہوگئے

(یعنی قرآن مجید میں گڑ بڑ کرنے اور اس میں جنات و شیاطین کی طرف سے کچھ نیا شامل کرنے کا یہ ایک ممکنہ دروازہ ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے پیشگی بند کر دیا)

اب( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد) جب وہ جنات سننے کے لیے اوپر گئے تو ساری بالائی فضا سخت پہرے اور مسلسل شہابوں (انگاروں) کی بارش سے بھری ہوئی تھی۔

جیسا کہ خود جنوں نے کہا ہے :

وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا (الجن : 8)

اور یہ کہ بے شک ہم نے آسمان کو ہاتھ لگایا تو ہم نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ سخت پہرے اور چمکدار شعلوں سے بھر دیا گیا ہے۔

وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا (الجن : 9)

اور یہ کہ ہم اس کی کئی جگہوں میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے تو جو اب کان لگاتا ہے وہ اپنے لیے ایک چمکدار شعلہ گھات میں لگا ہوا پاتا ہے۔

وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا (الجن : 10)

اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کیا ان لوگوں کے ساتھ جو زمین میں ہیں، کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے، یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (الحجر : 17)

اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کر دیا ہے۔

إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ (الحجر : 18)

مگر جو سنی ہوئی بات چرا لے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

جنات کی تشویش اور حقیقت تک رسائی

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

وہ جنات (جب آسمان سے خبریں نہ سن سکے اور) اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے پوچھا:

’’کیا معاملہ ہے؟‘‘

انھوں نے کہا :

’’ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی ہے اور ہم پر انگارے پھینکے گئے ہیں۔‘‘

تو ان جنات کی قوم نے کہا :

’’تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ کی وجہ کوئی نئی پیدا ہونے والی چیز ہی ہو سکتی ہے، اس لیے تم زمین کے مشارق و مغارب کا سفر کرکے دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔‘‘

تو کچھ جنات، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ، اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر سننے لگے

(جنوں کے قرآن سننے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (الأحقاف : 29)

اور جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کو تیری طرف پھیرا، جو قرآن غور سے سنتے تھے تو جب وہ اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے کہا خاموش ہو جاؤ، پھر جب وہ پورا کیا گیا تو اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر واپس لوٹے۔

اور کہنے لگے : ’’اللہ کی قسم! یہی وہ چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔‘‘

پھر جب وہ اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے کہا :

’’اے ہماری قوم!

« اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا (1) يَّهْدِيْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا » [ الجن : 2,1 ]

’’بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا، جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم کبھی کسی کو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کریں گے۔‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔

[ بخاري : ۷۷۳۔ مسلم : ۴۴۹ ]

(دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان جنوں کے اپنی قوم سے خطاب کو یوں بیان کیا ہے :

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (الأحقاف : 30)

انھوں نے کہا اے ہماری قوم! بے شک ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے، وہ حق کی طرف اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

03.تیسرا قدم

آسمان سے زمین تک قرآن کی منتقلی کی ذمہ داری ایک بہت ہی قوت والے اور امانت دار کے سپرد

قرآن میں رد و بدل کرنے کا یہ تیسرا دروازہ ہوسکتا تھا کہ اسے جنات اور شیاطین سے تو بچا لیا گیا مگر جو اسے لے جانے والا ہے کہیں وہ ہی اس میں کوئی گڑ بڑ نہ کردے

تو اللہ تعالیٰ نے یہ دروازہ بھی بند کر دیا اور وہ اس طرح کے اس ڈیوٹی پر جس کو متعین کیا وہ بذات خود بھی بہت امانت دار ہے کہ اسے جو امانت دی جائے اسے من و عن آگے منتقل کرتا ہے اور طاقت ور بھی بہت زیادہ ہے کہ کوئی دشمن راستے میں اس سے زبردستی رد و بدل نہیں کرواسکتا

فرمایا :

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (التكوير : 19)

بے شک یہ یقینا ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کاقول ہے جو بہت معزز ہے۔

ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (التكوير : 20)

بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔

مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (التكوير : 21)

وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔

جبریل علیہ السلام کی قوۃ و طاقت

جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر قوت ہی نہایت مضبوط اور زبردست ہے، بھلا جسے اللہ تعالیٰ نہایت مضبوط قوتوں والا فرمائے اس کی قوتوں کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی اصل صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا اور اس دیکھنے سے جو کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزری اس سے ان کی عظمت و ہیبت، حسن و جمال اور قوت و وسعت کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔

جبریل علیہ السلام کے چھ سو پَر

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

[ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ رَأَی جِبْرِيْلَ، لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ ] [ بخاري : ۴۸۵۷ ]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو (اصل صورت میں) دیکھا، ان کے چھ سو پَر تھے۔‘‘

مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ رَأَيْتُ جِبْرِيْلَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، يَنْتَثِرُ مِنْ رِيْشِهِ التَّهَاوِيْلُ الدُّرُّ وَالْيَاقُوْتُ ] [ مسند أحمد : 460/1، ح : ۴۳۹۵، اسنادہ حسن]

’’میں نے جبریل صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے۔‘‘

جبریل علیہ السلام کا جسمانی حجم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ایک دفعہ میں چلا جا رہا تھا، اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں اس سے ڈر گیا، یہاں تک کہ میں زمین پر گر گیا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا، مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو، تو انھوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔‘‘ [بخاري : ۴۹۲۶ ]

ذرا سوچیں کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی منتقل کرنے والا فرشتہ اتنا طاقتور ہے کہ اس کے کرسی پر بیٹھنے سے زمین و آسمان کے درمیان کا سارا خلا پُر ہوگیا تو بھلا کس میں اتنی جرات ہوسکتی ہے کہ اسے راستے میں ڈرا دھمکا کر وحی میں تبدیلی پیدا کرسکے

04. چوتھا اقدام

جس ذات پر قرآن نازل ہونا تھا اس کے سینے کی صفائی

اب یہ مسئلہ ہوسکتا تھا کہ آسمان کا پہرہ بھی مضبوط ہو گیا، پیغام رساں فرشتہ بھی امانت دار اور قوۃ والا مقرر ہوا لیکن جس ذات پر نازل ہورہا ہے اس کی کیفیت کیا ہے؟ آیا وہ اس عظیم الشان امانت کی متحمل ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بطور انسان یا بتقضاء بشریت اس سے کسی کمی اور سستی کی بنا پر قرآن ضائع ہو جائے یا اس میں کوئی تبدیلی واقع ہو جائے

سبحان اللہ

دیکھیں میرے رب تعالیٰ نے اس دروازے کو کیسے بند کیا اور حفاظت قرآن کے لیے کیسا زبردست بندوبست کیا

اس ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو بشری آلودگیوں اور شیطانی غلاظتوں سے ویسے ہی پاک صاف کر دیا

فرمایا :

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (الشرح : 1)

کیا ہم نے تیرے لیے تیرا سینہ نہیں کھول دیا۔

اور آپ کا مبارک سینہ دو مرتبہ چاک کر کے اسے صاف کر کے اس مقدس امانت کے لیے تیار کیا :

ایک دفعہ مائی حلیمہ سعدیہ کے پاس بچپن میں اور دوسری بار معراج کے موقع پر۔

پہلی مرتبہ حلیمہ سعدیہ کے پاس سینہ چاک

’’ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بچپنے میں جب بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو جبرئیل امین نے آکر آپ کو زمین پر چت لٹایا اور سینہ چاک کرکے آپ کادل مبارک باہر نکالا اور پھر اس کے اندر سے جما ہوا کچھ خون نکالا اور کہا یہ آپ کے دل میں شیطان کاحصہ ہے ۔ پھرایک طلائی طشتری میں آبِ زم زم سے آپ کے قلب مبارک کو غسل دیا اور پھر اس کو شگاف سے ملایا اور اس کی اصلی جگہ پر اسے رکھ دیا۔ اتنے میں دوسرے بچوں نے دوڑ کر آپ کی رضاعی والدہ کو اطلاع دی کہ محمدقتل کردیے گئے ہیں تو انہوں نے آکر آپ کا اڑا ہوا رنگ دیکھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشان دیکھے ہیں۔

(صحيح مسلم : 162)

دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” میں ایک رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھر محو خواب تھا کہ جبرئیل امین میرے گھرکی چھت پھاڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرا سینہ چاک کیا، آبِ زمزم سے دھویا اور پھر ایمان وحکمت سے بھری ہوئی ایک طلائی طشتری میرے سینہ میں انڈیل دی اور پھر اسے بند کردیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے گئے۔‘‘ صحيح البخاري |1636

05. پانچواں اقدام

جس ذات پر قرآن نازل ہونا تھا اسے کمالِ عقل عطا کیا

یہ چوتھے اقدام کا ہی حصہ ہے کہ جس ذات گرامی پر یہ مقدس کتاب نازل ہوئی ہے نہ صرف یہ کہ اس کا مبارک سینہ پاک صاف کردیا گیا ہے بلکہ اس کے حواس، ذہانت اور جسمانی نشو نما بھی بہتر سے بہترین شکل میں ڈھال دی گئی، اسے ہر قسم کے ذہنی اور اخلاقی عیب سے بچا لیا گیا تاکہ کسی طرف سے بھی اس کتاب میں کوئی رخنہ باقی نہ رہے،

آپ کو ہر طرح کی دیوانگی، نادانی اور ذہنی کمزوری سے بے عیب قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (القلم : 2)

کہ تو اپنے رب کی نعمت سے ہرگز دیوانہ نہیں ہے۔

اور فرمایا :

وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ (التكوير : 22)

اور تمھارا ساتھی ہرگز کوئی دیوانہ نہیں ہے۔

سبحان اللہ! جس کے دیوانہ نہ ہونے کی گارنٹی خود اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں اندازہ کیجئے کہ وہ کس قدر کمالِ عقل رکھتا ہوگا

اور اس کا اخلاق و کردار کس قدر اعلی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : 4)

اور بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے خلق پر ہے۔

06.. چھٹا اقدام

نزولِ وحی کی کیفیت

آسمان کا پہرہ بھی سخت ہوگیا، پیام رساں فرشتہ بھی بہت طاقتور اور امانت دار مقرر ہوگیا جس ذات گرامی پر نازل ہونا تھا اس کی بھی ظاہری اور باطنی، جسمانی اور روحانی صفائی اور تیاری ہوگئی

اب ایک خدشہ یہ تھا کہ پہلے جس طرح آسمان سے جِنات باتیں سن لیا کرتے تھے اسی طرح جبریل علیہ السلام کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سناتے وقت بھی کوئی انسان یا جن اسے سن سکتا تھا اور بعد میں کہہ سکتا تھا کہ اے نبی! میں بھی سن رہا تھا، آپ کو غلطی لگ رہی ہے، جبریل نے ایسے نہیں ایسے فرمایا تھا

تو اللہ تعالیٰ نے یہ دروازہ بھی بند کر دیا اور وحی کا طریقہ ہی کچھ ایسا رکھا کہ کوئی انسان یا جن اسے سمجھ ہی نہ سکے

اگرچہ نزول وحی کے وقت آپ ہوش و حواس اور روحانی طور پر نہایت چاق و چوبند اور چوکس ہوا کرتے ۔ کسی عصبی تکلیف میں مبتلا ہوتے نہ کسی بیماری کا کوئی دورہ پڑتا۔ مگر کچھ ظاہری کیفیت تبدیل ہو جایا کرتی تھی اور وہ بھی فرشتہ جب وحی نازل کرکے چلا جاتا تو آپ تھوڑی دیر بعد اپنی طبعی حالت میں لوٹ آتے

وحی کے مختلف طریقے :

کبھی گھبراہٹ طاری ہو جاتی

وحی کا طریقہ اس قدر ما فوق الفطرت اور مشکل تھا کہ عام انسان تو دور کی بات شروع شروع میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھبرا جایا کرتے تھے

جیسا کہ سب سے پہلی وحی کے نزول کے وقت آپ بہت زیادہ گھبرا گئے اور کپکپانے لگے

صحیح بخاری 3

اور دوسری وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا المَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي (صحیح بخاری 4)

ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔

سخت سردی میں بھی پسینے بہہ جاتے

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:

وَلَقَدْ رَأَیْتُہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ فِی الْیَوْمِ الشَّدِیْدِ الْبَرْدِ فَیَفْصِمُ عَنْہُ وَإِنَّ جَبِیْنَہُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا ( صحیح بخاری : ۲)

میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي يَوْمٍ شَاتٍ (صحيح البخاري |2661)

یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو آپ کو وحی کی سخت تنگیوں نے ایسا پکڑ لیا کہ شدید سردی والے دن میں آپ سے موتیوں کی طرح پسینہ ٹپک رہا تھا

گھنٹی جیسی آواز

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ ( صحیح بخاری : ۲)

کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گزرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس ( فرشتے ) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے

خراٹوں جیسی آواز

یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دکھایئے جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہر ے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے کپڑے کے اندر اپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں

فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْمَرُّ الوَجْهِ، وَهُوَ يَغِطُّ (بخاری ،كِتَابُ الحَجِّ ،1536)

کہ آپ کا روئے مبارک سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔

شہد کی مکھی جیسی آواز

صحابہ کرام ؓ اس وحی کی آواز کو شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دیا کرتے کیونکہ انہیں اس کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دیتی تھی۔( مسند أحمد)

انتہائی بوجھ پڑ جاتا

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

إِنْ كَانَ لَيُوحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَتَضْرِبُ بِجِرَانِهَا [مسند أحمد : 118/6، ح : ۲۴۸۶۸، سندہ صحیح ]

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے، آپ پر وحی اترتی تو اونٹنی زمین پر گردن رکھ دیتی

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِي

[ دیکھیے بخاري : ۲۸۳۲ ]

کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ کی ران میری ران پر تھی، آپ کی ران کا اتنا بوجھ تھا، قریب تھا کہ وہ میری ران کو کچل دے۔

سبحان اللہ! قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایسا شاندار انتظام کہ واضح عربی زبان ہونے کے باوجود بوقتِ نزول قریب کھڑے انسان خراٹوں، گھنٹیوں، اور شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سے زیادہ کچھ نہیں سمجھ سکتے تھے تو بھلا کوئی انسان کل یہ دعویٰ کیسے کرسکتا تھا کہ وحی ایسے نہیں ایسے نازل ہوئی تھی