حفاظتِ قرآن کے الہی انتظام اور سویڈن کے نادان

قسط(2)

07. ساتواں اقدام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھنے اور لکھنے پر قادر نہ ہونا

قرآن پر اعتراض اور لوگوں کی طرف سے اسے مشکوک سمجھے جانے کا ایک دروازہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمانے میں مروجہ تعلیمی طریقہ کار کے مطابق بہت پڑھے لکھے اور ڈگری ہولڈر ہوتے تو شاید کسی جھوٹے کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ یہ کتاب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تصنیف ہے۔

مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دروازہ بھی نہ کھلنے دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو أُمی حالت میں مبعوث کرکے بڑے بڑے فصیح و بلیغ لوگوں کے منہ بند کر دیے

فرمایا :

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (العنكبوت : 48)

اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، (اگر تو پڑھنے اور لکھنے والا ہوتا تو) اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔

الغرض کہ جب وہ ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم جس نے دنیا کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پیش کیا ہے، لکھنے اور پڑھنے پر قادر نہیں تو یہ اشکال کیسے پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے پاس سے کچھ لکھ کر اس میں شامل کر دیا ہو؟

کیا قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تصنیف ہے؟

بالآخر مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض جڑ ہی دیا، آپ کے امی ہونے کے باوجود انہوں نے تہمت لگا دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی قرآن تصنیف کیا ہے

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ (الأنبياء : 5)

بلکہ انھوں نے کہا یہ خوابوں کی پریشان باتیں ہیں، بلکہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔

تو اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس : 16)

کہہ دے : اگر اللہ چاہتا تو میں اسے تم پر نہ پڑھتا اور نہ وہ تمھیں اس کی خبر دیتا، پس بے شک میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر رہ چکا ہوں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

مطلب یہ ہے کہ میں نبوت سے پہلے ایک عمر، یعنی چالیس برس تم میں رہا، اس ساری مدت میں تم سب جانتے ہو کہ نہ مجھے پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا تو کیا تمھاری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قرآن جس کی سب سے چھوٹی سورت کی مثل پیش کرنے سے اللہ کے سوا پوری کائنات عاجز ہے، وہ میں نے کیسے تصنیف کر لیا اور تم اعتبار کیوں نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ وہ اسے مجھ پر نازل کرتا، نہ میں اسے پڑھ کر تمھیں سناتا اور نہ وہ اس کی خبر تمھیں دیتا۔

کیا امی ہونا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبوت سے پہلے تو آپ فی الواقع لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان حضرات نے عقیدت میں غلو کی وجہ سے یہ بات کہی ہے اور اپنی طرف سے یہ تصور ذہنوں میں بٹھا رکھا ہے کہ شاید "امی” کہنے سے آپ کی شان میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے

جبکہ غور کیا جائے تو "امی” ہونے میں آپ کی زیادہ شان ہے، کیا انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ایک شخص "امی” ہوکر سارے جہاں کا استاذ بن جائے، یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا یہ کہ کوئی عالم فاضل اور پڑھا لکھا شخص کوئی کتاب تصنیف کر کے لے آئے؟۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کی شان ہے کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کتاب عطا فرمائی کہ ساری دنیا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل بنانے سے عاجز ہے، تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک امی ہی رہے

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ (وفات تک) یہی حال رہا، آپ نہ پڑھ سکتے تھے نہ ہی ایک سطر یا ایک حرف اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت تک اُمی ّ ہونے کی دلیل صلح حدیبیہ کے معاہدے کا واقعہ ہے، جس کا صلح نامہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تحریر کیا تھا۔

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے :

وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ [ بخاري : ۳۱۸۴ ]

آپ لکھ نہیں سکتے تھے

یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری کا ہے جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار سال اور چند ماہ زندہ رہے، اس میں صراحت ہے ’’وَكَانَ لَا يَكْتُبُ‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھتے نہیں تھے) اب وہ کون سی روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا سیکھ لیا تھا؟

قرآن، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اختراع ہوتی تو عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگنے کے بعد مہینہ بھر وحی کا انتظار نہ کیا جاتا

قرآن، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اختراع ہوتی تو یہ آیات (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ*لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ*ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ)قرآن مجید میں نہ ہوتیں

آپ کا بذات خود اعتراف کہ قرآن لکھنا میرے امکان اور میرے بس ہی میں نہیں۔

جب آپ کے مخالفین نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن ہمارے پاس لاؤ یا اسے ہی بدل دو ۔

تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبانی یہ بات کہلوائی

قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (يونس : 15)

کہہ دے : میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں پیروی نہیں کرتا، مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، بے شک میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

08.آٹھواں اقدام

کسی انسان یا جن کا قرآن جیسی کلام بنانے پر قادر نہ ہونا

ایک خدشہ اور چور دروازہ یہ بھی تھا کہ باقی سب اقدامات تو اپنی جگہ درست ہیں لیکن اگر عربی فصاحت و بلاغت میں مہارت رکھنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے چند جملے بنا کر اسے کلام الہی کے طور پر منوانے چلے، جیسا کہ پہلی آسمانی کتابوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے، تو اصلی قرآن اور جعلی قرآن میں تفریق کیسے ہوگی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے کسی دشمن، انسان یا جن کا اپنے پاس سے اس میں کوئی نیا کلام شامل کرنا تو درکنار کوئی شخص اس بات پر قادر ہی نہیں ہے کہ اس سے ملتی جلتی کلام ہی بنا سکے اور لطف کی بات ہے کہ قرآن نے قیامت تک کے لیے یہ چیلنج بھی کررکھا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی میری ایک آیت جیسی آیت نہیں بنا سکتے

فرمایا :

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (الإسراء : 88)

کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔

سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی چیلنج کرنے کے بعد اگلا چیلنج یہ بھی کردیا کہ اگر اب نہیں تو قیامت تک بھی تم اس جیسا کلام پیش نہیں کرسکتے

فرمایا :

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا (البقرۃ : 24)

چیلنج کا شاندار پہلو

حیران کن بات یہ ہے کہ قرآن کی سب سے چھوٹی سورۃ "الکوثر” ہے جو کہ صرف 3 آیات پر مشتمل ہے گویا چیلنج یہ تھا کہ 3 آیات پر مشتمل کوئی سورۃ بنا لاؤ

مقامِ حیرت

اس وقت اہل عرب میں ادب و لغت کا ایسا غلغلہ تھا کہ شاعری کے مقابلے ہوا کرتے تھے

امرء القیس، عنترہ اور زہیر جیسے نامور شعراء کی بلاغت ابھی تازہ دم تھی

بھلا وہ عرب لوگ جو اپنی فصاحت پر بے حد اِتراتے اور نازاں تھے ان کے لیے تین آیات بنانا کیا مشکل تھا؟

جو، بڑے بڑے قصیدے اور معلقات لکھ سکتے تھے وہ تین جملوں کی ایک عبارت بنانے سے کیوں عاجز آگئے؟

اور پھر وہ لوگ اسلام دشمنی میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور یقیناً اس حوالے سے بھی انہوں نے ضرور بہت کوشش کی ہوگی کہ کوئی عبارت بنا کر قرآن کے اس چیلنج کا جواب دے کر اسے جھوٹا ثابت کیا جائے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ایسا نہ کرسکے

مزید حیران کن بات

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ اُس وقت تعلیم و تعلم کا اتنا رواج نہیں تھا جہالت کا غلبہ تھا تو وہ اجڈ لوگ کیسے اس چیلنج کو پورا کرتے

مگر

یہ خیال اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ 14 سو سال کا لمبا عرصہ گزر گیا ہے اس دوران بڑے بڑے غیر مسلم عربی دان گزرے ہیں اور آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مصر، یمن، فلسطین، شام کے علاقوں میں عربی زبان پر عبور رکھنے والے لاکھوں غیر مسلم تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں

مگر

پھر بھی یہ چیلنج جوں کا توں برقرار ہے اور اسے توڑا نہ جا سکا

الغرض اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو اس جیسی کلام بنانے سے بے بس کرتے ہوئے یہ چور دروازہ بھی بند کردیا کہ کوئی شخص اس میں پیوند کاری کرسکے

09. نوواں اقدام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی کو فوراً یاد کرلینا

مندرجہ بالا تمام اقدامات کے باوجود یہ احتمال موجود تھا کہ اِس بات کی کیا گارنٹی کہ جس ذات پر وحی نازل ہو وہ اسے یاد بھی رکھ پائے یا نہیں؟

تو اللہ تعالیٰ نے یہ دروازہ بھی بند کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانی قرآن یاد کروانے کی ذمہ داری خود لے لی

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (الأعلى : 6)

ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ (شروع میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید اترتے وقت (اسے یاد کرنے کے لیے) ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتے جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (القيامة : 16)

تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے، تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے۔

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : 17)

بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کا اسے پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تو آپ کان لگاکر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پڑھ لیتے جیسے جبریل علیہ السلام نے پڑھا تھا۔

[ بخاری : ۵ ]

پھر سب لوگوں نے دیکھا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک دفعہ جبریل علیہ السلام سے سن کر کسی کتابت یا تکرار کے بغیر اتنا بڑا قرآن حفظ ہوگیا۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ ( صحیح بخاری : ۲)

جب یہ وحی کی کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس ( فرشتے ) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے

الغرض اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ شاید محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی کوئی محکم آیت بھول گئے ہوں

دسواں اقدام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کو نہ چھپانا

کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ جس ذات پر قرآن نازل کیا جا رہا ہے، قرآن اس ذات تک محفوظ شکل میں پہنچ تو جائے مگر وہ ذات کسی معاشرتی دباؤ، برادری کے پریشر، ذاتی ترجیحات یا لالچ کی بناء پر اسے سو فیصد آگے بیان کرنے سے قاصر رہے اور اس کا کچھ حصہ چھپا لے

مگر

اللہ تعالیٰ نے یہ دروازہ بھی بند کر دیا، قربان جائیں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے تبلیغِ قرآن کا حق ادا کر دیا کوئی ایک آیت تو درکنار ایک لفظ بھی چھپا کر نہیں رکھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ گارنٹی تو خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے فرمایا :

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (التكوير : 24)

اور وہ غیب کی باتوں پر ہرگز بخل کرنے والا نہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو وحی کرتے ہیں وہ اسے اپنے پاس ہی نہیں رکھ لیتے بلکہ امت تک پہنچا دیتے ہیں۔

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

[ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا مِّمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقَدْ كَذَبَ ] [ بخاري : ۴۶۱۲ ]

’’جو شخص تمھیں بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر نازل ہونے والی کوئی بات چھپائی ہے، تو اس نے یقینا جھوٹ بولا ہے۔‘‘

تفسیر طبری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ نے فرمایا :

لو كتم رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم شيئا مما أوحي إليه من كتاب الله لكتم

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپانا ہوتا تو یہ آیت چھپاتے ( وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ )

بھلا وہ شخص کسی پریشر کو کیسے قبول کرسکتا ہے کہ جس نے اپنا 40 سالہ صاف شفاف کیریئر داؤ پہ لگا کر ڈنکے کی چوٹ اللہ رب العزت کی توحید کا اعلان کیا تھا اور کسی کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں کی؟

اور وہ شخص کسی دباؤ کا شکار کیسے ہو سکتا ہے جس نے انجام کی پرواہ کیے بغیر سپر پاوروں کے حاکموں کو دو ٹوک الفاظ میں لکھ بھیجا تھا کہ "اَسْلِمْ تَسْلَمْ” اسلام قبول کر لو اسی میں تمہاری خیر ہے؟

بھلا کسی ایسے شخص کو تبلیغِ حق سے کیونکر روکا جا سکتا ہے کہ جس کی ڈکشنری میں "لومۃ لائم” کی کوئی جگہ نہیں؟

اور اس شخص کے بارے میں کسی

لالچ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ جس کے جانثار دوستوں کی طرف سے ہر قسم کی دنیاوی آفر کے باوجود وہ کہے کہ میرا اس دنیا سے کیا تعلق؟ میں تو دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہوں جو تھوڑی دیر کسی درخت کے نیچے بیٹھے اور پھر اسے چھوڑ کر آگے چل پڑے

11.گیارہواں اقدام

قرآن کی کسی پیش گوئی کا غلط ثابت نہ ہونا

کسی بھی کتاب یا شخصیت کے متعلق شک پیدا ہونے کا ممکنہ دروازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی مستقبل کے متعلق کہی ہوئی کوئی بات غلط ثابت ہوجائے، پیش گوئی کا پورا ہونا اپنے قائل کی صداقت کی دلیل ہے اور پیش گوئی کا جھوٹ ثابت ہونا اپنے قائل کے جھوٹا ہونے کی نشانی ہے

قرآن مجید میں بھی مستقبل کی بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں اگر قرآن کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت ہو جاتی تو ذہنوں میں اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے تھے اور یوں قرآن غیر محفوظ ہو جاتا

مگر ایسا ہوتا کیوں؟ یہ کسی انسان کی تصنیف تھوڑی ہے یہ تو اللہ رب العزت کی کتاب ہے اس کی ایڈوانس دی ہوئی خبر بھلا کیسے جھوٹی ثابت ہو سکتی ہے؟

سبحان اللہ! قرآن نے جتنی بھی مستقبل کی باتیں بیان کی ہیں سب کی سب یا تو من و عن پوری ہو چکی ہیں یا ابھی ان کے ظہور کا وقت نہیں ہوا لیکن کوئی ایک پیش گوئی بھی جھوٹی ثابت نہیں ہو سکی

صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

رومی ایرانیوں پر نو سال کے اندر اندر فتح حاصل کریں گے

قرآن مجید کی یہ حیرت انگیز پشین گوئی، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے دوران دنیا کی دو بڑی طاقتوں روم و ایران کے درمیان شدید جنگ برپا تھی، اسی جنگ میں ایرانی فوجیں مسلسل رومیوں پر غالب آتی رہی تھیں، انہیں حالات میں قرآن نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ 9 سال کے عرصے میں رومی ایرانیوں پر غالب آئیں گے

جو لوگ روم اور ایران کے جنگی حالات سے باخبر تھے ان کیلئے یہ پیشن گوئی قطعی طور پر ناقابل یقین تھی اس وقت روم کی پوزیشن ایران کے مقابلے میں ایسی لڑکھڑارہی تھی کہ آئندہ سو سال تک بھی رومیوں کی فتح کے آثار نظر نہیں آتے تھے مگر عسکری ماہرین تب ورطہ حیرت میں ڈوب گئے جب قرآن کی آیات کے مطابق ٹھیک سات سال بعد قیصر روم بلکل خلاف توقع قسطنطنیہ سے باہر نکلا اور اسکی فوجوں نے ایرانیوں پر پے درپے حملے کرکے انہیں متعدد مقامات پر شکست فاش دی اور اس کے بعد رومی لشکر ہر جگہ غالب ہی آتا چلا گیا _

آپ ضرور مکہ واپس لوٹیں گے

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے مکہ مکرمہ سے نکلے ۔ اس موقع پر قران کریم کی یہ آیت نازل ہوئی

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص : 85)

بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔

صحیح بخاری (4773) میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ اس ’’ مَعَادٍ ‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

ہجرت کے وقت اس پیشنگوئی کے پورا ہونے کی کوئی توقع یا امید نظر نہیں آ رہی تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا اور آپ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے

12.بارہواں اقدام

قرآن کی بیان کردہ کسی حقیقت کا جھوٹ ثابت نہ ہونا

کسی شخصیت یا کتاب کے بر حق ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کے بیان کردہ اصول و ضوابط اور حقائق کو عقل، مشاہدہ اور تجربہ سے جھٹلایا نہ جا سکے اور اگر اس کی بیان کردہ کوئی حقیقت، فطرت اور تجربہ و مشاہدہ سے ٹکرا جائے تو اس میں شک کی دراڑ واقع ہوسکتی ہے جس کی بنیاد پر اس کتاب سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور یوں وہ غیر محفوظ ہو جاتی ہے

مگر

سبحان اللہ! قرآن مقدس کی بیان کردہ کوئی بھی حقیقت آج تک جھٹلائی نہیں جا سکی

فرمایا اس میں کہیں کوئی اختلاف نہیں

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء : 82)

تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔

قرآن کے بیان کردہ چند حقائق اور انسانی تجربہ سے ان کی تائید کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

بارآور ہوائیں

اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کے متعلق فرمایا :

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ (الحجر : 22)

اور ہم نے ہواؤں کو بار آور بناکر بھیجا

’’لَاقِحٌ‘‘ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو اپنے پیٹ میں بچہ اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں

اور یہ ہوائیں مادہ درختوں اور مادہ پھولوں پر عمل کرنے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں کہ ان کے ذریعے سے نر درختوں اور نر پھولوں کا بور ان کے مادہ درختوں اور پھولوں تک پہنچتا ہے، جس سے ان کے پھل لانے کا عمل وجود میں آتا ہے۔

یقین جانیں کہ آج سے صدیوں پہلے، جب جدید آلاتِ ٹیکنالوجی نہ تھے، قرآن کی یہ بتائی ہوئی تھیوری، جدید تجربہ گاہوں میں ایسی سچ ثابت ہوئی ہے کہ موجودہ سائنس اس سے ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں ہے

اوپر چڑھتے ہوئے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ انعام کی 125 نمبر آیت میں سینے کی گُھٹن اور سانس کی دشواری کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے

كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ (الأنعام : 125)

گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے

آج سے چودہ سو سال پہلے ایک ایسے زمانے میں کہ جب انسان ہوا میں جانے کے تصور سے بھی عاری تھا کبھی کوئی انسان اوپر کی طرف گیا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے مشاہدے سے بتا سکے کہ جیسے جیسے اوپر چڑھتے جائیں ویسے ویسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے

مگر

حیرت ہے کہ قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کو موجودہ انسانی مشاہدہ، تجربہ اور سائنس بھی اسی طرح بیان کرتی ہے کہ جوں جوں اوپر چڑھتے جائیں آکسیجن کم ہوتی جاتی ہے اور بالآخر ختم ہی ہوجاتی ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ سانس ہی نہیں لے سکتا۔

تکلیف محض چمڑے میں ہوتی ہے

قرآن نے بیان کیا ہے :

كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ (النساء : 56)

جب بھی ان کی کھالیں گل سڑ جائیں گی ہم انھیں ان کے علاوہ اور کھالیں بدل دیں گے، تاکہ وہ عذاب چکھیں

اس مبارک آیت میں ایک حقیقت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جلنے کی تکلیف محض چمڑے میں ہوتی ہے کیونکہ اگر کھال کے سڑ جانے کے بعد بھی احساسِ درد باقی رہتا تو نئے چمڑے چڑھانے کی کوئی وجہ نہیں تھی

سبحان اللہ! مقام حیرت یہ ہے کہ قرآن، یہ تھیوری اس وقت پیش کررہا تھا جب کوئی میڈیکل لیبارٹری یا آلات نہیں تھے

اور ہم ورطہ حیرت میں تب ڈوب جاتے ہیں جب یہ دیکھتے ہیں ہزار جتن کرنے کے بعد سائنس بھی وہاں ہی کھڑی ہے

سعودی عرب کے شہر جدہ میں دنیا کے نامور ڈاکٹروں کی ایک عالمی مجلس ہوتی ہے ایک یورپین ڈاکٹر نے اپنی تحقیق بیان کی کہ انسان کو جلنے کی تکلیف اس کی جِلد میں محسوس ہوتی ہے اگر چمڑا نہ ہو تو درد کا احساس جاتا رہتا ہے

حالانکہ یہ بات تو ہمیں قرآن نے چودہ سو سال پہلے سے بتا دی ہے