حفاظتِ قرآن کے الہی انتظام اور سویڈن کے نادان

قسط(3)

 

حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ (صحيح مسلم |2865)

اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی دھو(کر مٹا) نہیں سکتا ،آپ سوتے ہوئے بھی اس کی تلاوت کریں گے اور جاگتے ہوئے بھی

سابقہ أقساط میں ہم نے حفاظتِ قرآن کے الہی انتظامات کے حوالے سے 12 اقدامات بیان کیے تھے، اب کچھ مزید اقدامات کا ذکر کرتے ہیں

13.تیرہواں اقدام

قرآن کے اولین حاملین اور قراء دنیا کے بہترین لوگ

پہلے باراں اقدامات کے بعد یہ رخنہ باقی رہ سکتا تھا کہ چلیں یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ٹھہریں مگر صاحب قرآن کے دنیا سے چلے جانے اور سلسلہ وحی کے انقطاع کے بعد یہ مقدس کتاب جن لوگوں کے سپرد کی گئی، ان کی صداقت و امانت کا کیا حال ہے؟

جوابا عرض ہے کہ یہ کوئی کچی گولیوں کا کھیل نہیں تھا کہ اتنے سارے اقدامات کے بعد اس مقدس امانت کو غیر ذمہ دار ہاتھوں میں دے دیا جاتا، جن لوگوں نے زبان نبوت سے اس کتاب کو وصول کیا وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

«إن الله تبارك وتعالى اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا» (المستدرك للحاكم ج3ص632طبع دار المعرفة بيروت صحيح )

اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لیے ساتھیوں کو بھی خود چنا،پھر ان میں سے میرے وزیر،انصار و مددگار اور سسرال و داماد بنائے-

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا

«خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» (بخاری : 2652)

"لوگوں میں سے بہترین میرے دور کے لوگ(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین )ہیں،پھر وہ جو ان کے ساتھ(کے دورکے) ہوں گے(تابعین رحمۃ اللہ علیہ )،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور کے) ہوں گے(تبع تابعین۔)”

بھلا وہ ہستیاں قرآن کو کیونکر ضائع ہونے دیتیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی ایک ایک بات حاصل کرنے کے لیے مہینہ بھر سفر کرنے سے بھی نہ کتراتیں؟

بھلا وہ عظیم جماعت جو اتنی محتاط تھی کہ لفظ” رسول” کی جگہ لفظ "نبی” اور "نبی” کی جگہ "رسول” نہ پڑھتی تھی، قرآن کے حروف کی حفاظت میں کیسے لاپرواہی کرسکتی تھی؟

اور اس جماعت کے دل میں کوئی میل کیسے ہو سکتی ہے کہ جنہیں دلوں کے مالک کی طرف سے (امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى) کا سرٹیفکیٹ جاری ہوچکا ہے

لھذا قرآن کے ضائع ہو جانے کا یہ دروازہ بھی بند ہو گیا اور ثابت ہوا کہ زبان نبوت سے اس مقدس امانت کو وصول کرنے والے امانت، دیانت اور صداقت میں یکتا اور بے مثال تھے

14.چودھواں اقدام

قرآن کی کتابت

ممکن تھا، کل اعتراض کیا جاتا کہ کوئی کتاب چاہے جتنی بھی زبانی کلامی یاد ہو زبانی بات لکھی ہوئی بات کی طرح مضبوط اور محفوظ نہیں ہوسکتی

تو اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے خاتمے کا بھی بندوبست کردیا اور حفاظت قرآن کی خاطر ایک اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کی کتابت کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ سینہ بسینہ حفظ کے علاوہ تحریری شکل میں بھی محفوظ ہو سکے قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حکم فرماتے کہ اسے تحریر کرلیں

دسیوں صحابہ، کتابت وحی پر مامور تھے، کتب حدیث میں ایسی لا تعداد روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کاتبین وحی کو قرآن مجید لکھواتے اور ان کو آیات کی ترتیب سے آگاہ کیاکرتے تھے

نازل شدہ قرآن کریم کو پتھر کی باریک اور چوڑی سلوں، کھجور کی ٹہنیوں اونٹ یا بکری کے شانہ کی ہڈیوں ، اونٹ کے کجاوہ کی لکڑیوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر تحریر کیا جاتا تھا

جیسا کہ مستدرک حاکم میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عہد رسالت میں ”رقاع”(ٹکڑوں) پر قرآن جمع کیا کرتے تھے

اور صحیح بخاری میں ہے :

براءبن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

: کہ جب آیت{ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ }نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ( جو کاتب وحی تھے ) کو بلایا

فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا (صحيح البخاري |2831)

تو آپ ایک چوڑی ہڈی ساتھ لے کر حاضر ہوئے اور اس آیت کو لکھا

اس طرح عہد رسالت میں قرآن کریم کا ایک مکمل ایسا نسخہ تیار ہو گیا جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا۔

اس کے علاوہ بہت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایسے تھے جنہوں نے از خود اپنے اپنے ذوق و شوق کے مطابق بعض سورتیں یا آیات اپنے پاس لکھ رکھی تھیں

مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے آئینہ پرویزیت میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ( غیر مرتب شکل میں ) زیادہ سے زیادہ سترہ (17) مصاحف کا پتہ چلتا ہے۔

اور لکھنے کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے صرف ایک مثال ہی دیکھ لیں : مدینہ منورہ میں قائم شدہ شاہ فہد قرآن اکیڈمی سالانہ 2 کروڑ 80لاکھ قرآن مجید کے نسخے چھاپ کر دنیا بھر میں بلا قیمت تقسیم کرتی ہے

15. پندرہواں اقدام

قرآن کا ایک جگہ جمع ہوجانا

پھر یہاں پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ مختلف صحابہ کے پاس مختلف جگہوں، ٹکڑوں، تختیوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : 17)

بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

جب جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظ و قراء شہید ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ ابو بكر کے پاس آئے اور قرآن جمع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا :

جنگ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر مزید جگہوں میں ایسا ہوا تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا لہذا آپ قرآن کو جمع کرنے کا اھتمام کریں

ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :

كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں وہ کام کیسے کروں جو نبی علیہ السلام نے نہیں کیا

تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا

هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ

قسم اللہ کی یہ خیر ھے

ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ (بخاري 4679)

عمر مسلسل میرے ساتھ تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے وہی سمجھا جو عمر کہہ رہے تھے

چنانچہ عہد صدیقی میں قرآن جمع کرنے کے لیے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگا دی گئی

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ (صحيح البخاري |4679)

اللہ کی قسم ! اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئی پہاڑ منتقل کرنے کا کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا قرآن مجید کی جمع و ترتیب کا حکم مشکل تھا۔(العنكبوت آیت 49)

پھر انہوں نے پوری محنت اور امانت سے اس ذمہ داری کو نبھایا

فرماتے ہیں :

فَقُمْتُ، فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ، وَالْأَكْتَافِ، وَالْعُسُبِ ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ (صحيح البخاري |4679)

چنانچہ میں اٹھا اور کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے قرآن مجید جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے حافظے سے بھی مدد لی

زید رضی اللہ عنہ آیات کی تصدیق کیسے کرتے تھے

آپ چار طریقوں سے تصدیق فرماتے تھے :

01. حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ خود حافظ تھے، لہذا سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی تصدیق کرتے۔

02. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ قرآن مجید جمع کرانے کی خدمت میں شریک تھے اور حافظ قرآن بھی تھے، لہذا وہ بھی آیت کی تصدیق کرتے۔

03. حضرت زید رضی اللہ عنہ اس وقت تک کوئی آیت قبول نہ کرتے جب تک دو قابل اعتماد گواہ اس بات کی گواہی دیتے کہ ہاں واقعی یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے ہی تحریر کی گئی تھی۔

04. آخر میں پیش کردہ آیت کا مقابلہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی لکھی ہوئی آیات سے کیا جاتا۔

زید رضی اللہ عنہ کسی کے کہنے پر تب تک آیت نہ لکھتے جب تک وہ کم از کم دو بندوں سے نہ مل جاتی

مگر سورہ توبہ کی دو آیات حضرت خزیمہ انصاری اللہ کے پاس پائیں۔ وہ ان کے علاوہ اور کسی کے پاس (لکھی ہوئی نہ تھیں اور وہ یہ ہیں: ( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ) (صحيح البخاري |4679)

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے لکھے ہوئے اوراق، قرآن کے نسخوں میں نقل کیے تو مجھے سورۃ احزاب کی ایک آیت جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا نہ ملی پھر وہ مجھے صرف خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا اور وہ اللہ کا یہ فرمان تھا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ

(بخاری :2807)

اس حدیث کی شرح میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

ہمارے استاد حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ یادصرف زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ہوئی تھی ورنہ وہ ان کے اوراق میں لکھی ہوئی تو تھی قرآن مجید لکھنے میں شرط یہ تھی کہ کم از کم دو آدمیوں کو یاد ہوتا کہ نسخ کا احتمال نہ رہے اس لیے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ اور کی تلاش کی۔

فتح السلام شرح جلد 4 حدیث 2807

16. سولہواں اقدام

قرآنی زبان کی حفاظت

اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ دیگر سبھی مذاہب کی نا صرف یہ کہ کتب ختم ہو گئیں بلکہ ان کی زبانیں بھی دنیا سے ختم ہو گئیں

وید کی زبان، ژند واستا کی زبان، توراۃ کی زبان، انجیل کی زبان، کیا آج دنیا میں کسی جگہ بولی جاتی ہے یا کوئی شہر، کوئی قریہ کوئی کوچہ بھی ایسا ہے جہاں ان زبانوں میں سے کسی زبان کا استعمال بطور زبان ہوتا ہے؟؟؟

مگر جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے وہ ابھی تک محفوظ چلی آ رہی ہے اور حفاظت قرآن کی سبھی بشارتوں میں اشارۃ النص کے طور پر قیامت تک اس زبان کے محفوظ رہنے کی گارنٹی بھی دی گئی ہے

اولڈ انگلش کا موجودہ حال

آج اولڈ انگلش موجودہ انگریز کے لیے ایک نئی زبان کے برابر ہے۔ یہ تفاوت صرف تین صدی کے اندر اندر کا ہے۔

مگر قرآن مجید کی عظیم زبان اب تک ہجازی، تہامی یمنی ، حضرمی نجدی ، بطحائی کے لیے ویسی ہی صاف اور واضح ہے۔ جیسا کہ وہ چودہ صدی پیشتر تھی ۔

اور آج ہم یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ صدیوں بیت جانے کے باوجود عربی زبان بالکل تروتازہ نظر آ رہی ہے قرآن ہی کو لے لیجیے، تلاوتِ قرآن کے دوران کبھی احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ چودہ سو سال پرانی عربی زبان ہے یا یہ موجودہ عربی زبان سے موافقت نہیں رکھتی جبکہ اردو، فارسی اور انگلش وغیرہ کی صرف سو سال پہلے لکھی ہوئی کوئی ایک کتاب اٹھا کر دیکھ لیں اپنی ہی موجودہ زبان سے اجنبی محسوس ہوتی ہے

اور لطف کی بات یہ ہے کہ عربی زبان دیگر زبانوں کے حملوں اور مداخلت سے بھی محفوظ ہے ورنہ اردو، فارسی، ہندی وغیرہ میں سینکڑوں، ہزاروں الفاظ ایسے شامل ہو چکے ہیں جو ان زبانوں کے اپنے الفاظ نہیں ہیں

قرآن کی زبان کی تازگی، بقا اور حفاظت بھی دراصل قرآن کی حفاظت کی ہی ایک کڑی ہے

17. سترہواں اقدام

قرآنی رسم الخط کی حفاظت

یہاں رسم الخط سے مراد وہ انداز اور اسٹائل ہے جس میں مصحف عثمانی لکھا گیا تھا کمال یہ ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ مختلف عربی الفاظ کے لکھنے کا انداز تبدیل ہوتا رہا مگر جب وہی الفاظ قرآن میں دیکھے گیے تو نئے انداز کے برعکس قرآنی طباعت میں ہو بہو جوں کے توں پائے گئے گویا اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مقدس کتاب میں ظاہری لفظی تبدیلی بھی قبول نہیں

چند مثالیں ملاحظہ کیجئے

01. قرآن کی 114 سورتوں میں سے صرف سورۃ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے تو آج تک ویسے ہی چلتا آرہا ہے

02. شَيْءٍ کا لفظ قرآن میں 200 سے زائد مرتبہ آیا ہے مگر سورۃ کہف کی 23 نمبر آئت (شأی)میں اسے جس انداز سے لکھا گیا ہے وہ کسی بھی عربی رسم الخط سے موافقت نہیں رکھتا اور لطف کی بات یہ ہے کہ کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے ویسے ہی لکھ دیا جائے جیسے باقی جگہوں پر لکھا گیا ہے

03. لفظ ابراہیم پر غور کیجئے کہ قرآن میں بہت مرتبہ استعمال ہوا ہے مگر سورہ بقرہ میں ابراہیم کی ہاء اور میم کے درمیان یاء نہیں ہے (جیسے ابراھم) اور باقی پورے قرآن میں ہاء اور میم کے درمیان یا موجود ہیں(جیسے ابراھیم)

04. سورۃ کہف کی 49 نمبر آیت میں (لھذا) کو(لِ ھذا) کی شکل میں لکھا گیا ہے (دیکھئیے، مَالِ هَذَا الْكِتَابِ)یہ کتابت کسی بھی عربی رسم الخط سے میل نہیں کھاتی مگر حیرت ہے کہ کسی بھی پبلشر یا کاتب کو اسے تبدیل کرنے کا خیال تک نہیں گزرتا جو کہ حفاظت الہی کا منہ بولتا ثبوت ہے

05. لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَاذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (النمل : 21)

اس آیت مبارکہ میں لَأَاذْبَحَنَّهُ پر غور کریں "أ” اور "ذ” کے درمیان الف زائد ہے جوکہ گرائمر کے کسی بھی قانون کے مطابق نہیں ہے مگر پھر بھی قرآن میں صدیوں سے جوں کی توں جاری وساری ہے

یہی بات اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پیرائے میں یوں ارشاد فرمائی

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (فصلت : 42)

اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔

18.اٹھارہواں اقدام

امت کے سینوں میں محفوظ ہونا

یہ کتاب ہر دور میں امت مسلمہ کے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتی ہے، کوئی شخص اس کے کسی لفظ یا نقطے یا زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کر دیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں

آج تک دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہو کہ اسے ہروقت ہر عمر کے لوگ حفظ کر رہے ہوں

بچے بوڑھے اور جوان ہر طرح کے لوگ حفاظ بنتے ہیں پانچ چھے سال کی عمر میں حفظ قرآن کے ریکارڈ موجود ہیں

چھے ماہ، تین ماہ حتی کہ ایک ایک ماہ میں قرآن حفظ کرنے کے واقعات موجود ہیں اور یہ اعزاز فقط قرآن کو حاصل ہے

بقول شاعر

نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں

وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (العنكبوت آیت 49)

بلکہ یہ تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر جو ظالم ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حفظ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (الأعلى : 6)

ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔

اور فرمایا :

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : 17)

بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

روس کی غلامی میں رہنے والی مسلم ریاستوں کی مثال

نوے سال تک روس کی غلامی میں رہنے والی مسلم ریاستوں میں یہ منظر دیکھا گیا کہ وہاں قرآنی اوراق تک ختم کردیئے گئے تھے ان کی تین نسلوں نے قرآن نہ دیکھا تھا مگر ہزاروں حفاظ کرام نے سینہ بسینہ قرآن کو محفوظ رکھا

آج یہود و نصاری اور ان کی محرف کتب تورات و انجیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کو من و عن محفوظ قرآن کا تحفہ انہیں حفاظ کی مرہون منت ہے

یہ حفاظ و علماء امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر دین کے پہرے دار اور نوکر ہیں

أولئك کان سعیہم مشكورا

19.انیسواں اقدم

قرآن کو مٹانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی

ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ماضی قریب یا بعید میں جس نے بھی اس مقدس کتاب کو مٹانے اور ختم کرنے کی کوشش کی ہے وہ یا تو خود مٹ گیا یا پھر نشان عبرت بن کر رہ گیا

ایک مرتد عیسائی کاتب کا واقعہ

انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نصرانی اسلام لایا اور اس نے سورت بقرہ اور سورت آل عمران پڑھی پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کاتب وحی مقرر ہو گیا اس کے بعد پھر وہ نصرانی ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا وہ کہا کرتا کہ محمد صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا میں نے ان کو لکھ دیا ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے موت دی تو لوگوں نے اس کو دفن کر دیا جب صبح کو دیکھا گیا تو زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تھا لوگوں نے کہا یہ محمد اور اس کے ساتھیوں کا فعل ہے چونکہ ان کے ہاں سے بھاگ آیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھود ڈالی چنانچہ ان لوگوں نے اس کو دوبارہ حتی الامکان بہت گہرائی میں دفن کیا۔ دوسری صبح بھی اس کی لاش کو جب زمین نے باہر پھینک دیا تو لوگوں نے کہا یہ محمد اور ان کے اصحاب کا فعل ہے کیونکہ وہ بھاگ آیا تھا پھر انہوں نے جتنا گہرا کھود سکتے تھے کھود کر اس کی لاش کو دفن کر دیا لیکن تیسری صبح بھی جب زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تب لوگوں نے سمجھا کہ یہ بات آدمیوں کی طرف سے نہیں تب انہوں نے یوں ہی پڑا رہنے دیا

صحیح بخاری

روس کی مثال

ایک وقت تھا کہ روس کو اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ تھا، وہ غرور و تکبر کی غلاظت میں اسلام دشمنی میں حد سے گزر چکا تھا، روس کی غلامی میں رہنے والی مسلم ریاستوں میں قرآنی اوراق تک ختم کردیئے گئے ان کی تین نسلوں نے قرآن نہ دیکھا تھا جس گھر سے قرآن کا کوئی نسخہ مل جاتا تمام گھر والوں کو سولی چڑھا دیا جاتا پورے روس سے قرآن ختم کرنے کی مہم چلائی گئی

میرے اللہ تعالیٰ کی پکڑ دیکھیں، وہ روس جو قرآن کے ٹکڑے چاہتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے ٹکڑے کر دیے گیارہ ریاستیں اس کے پیٹ سے جدا ہو گئیں خود روس کا اپنا نظریہ سوشل ازم، سکڑ کر ماسکو تک محدود ہو گیا

اور لطف کی بات یہ ہے کہ آج وہی روس ہے اس کی حکومت اور اس کا صدر ہاتھ میں قرآن پکڑ کر تصویر بنا رہا ہے اور اس مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خلاف قانون بنا رہے ہیں

20.بیسواں اقدم

قرآنی الفاظ کو اوپر اٹھا لینا

یہ بات بھی قرآن کی حفاظت سے ہی تعلق رکھتی ہے کہ قیامت کا حادثہ جو کہ ہر چیز کو فنا کرکے رکھ دے گا جب اس کا وقت بالکل قریب آ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی اس مقدس کتاب کے حروف و کلمات کو ویسے ہی اوپر اٹھا لے گا

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اسلام اس طرح محو ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقوش مٹ جاتے ہیں حتی کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں رہے گا کہ روزے کیا ہوتے ہیں یا نماز یا قربانی یا صدقہ کیا ہوتا ہے۔ اللہ کی کتاب کو ایک ہی رات میں اٹھا لیا جائے گا اور زمین میں اس کی ایک آیت بھی نہیں رہے گی۔ لوگوں میں کچھ بوڑھے مرد اور عورتیں رہ جائیں گی جو کہیں گی: ہم نے اپنے بزرگوں کو لا اله الا الله کہتے دیکھا تھا، ہم بھی کہتے ہیں۔

(حضرت حذیفہ ؓ کے ایک شاگرد) حضرت صلہ بن زفر ؓ نے کہا: انہیں لا اله الا الله سے کیا فائدہ ہو گا جب انہیں نماز، روزے، قربانی اور صدقے کا بھی علم نہیں ہو گا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے ان سے منہ پھیر لیا۔ انہوں نے تین بار یہ سوال کیا اور ہر دفعہ حضرت حذیفہ ؓ نے ان سے منہ پھیرتے رہے۔ تیسری بار ان کی طرف متوجہ ہو کر تین بار فرمایا: اے صلہ! (اس دور میں) یہی انہیں جہنم سے بچا لے گا۔

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ ذَهَابِ الْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ4049 صحیح)