حقارت ِ دنیا

اہم عناصرِ خطبہ :

01. آخرت کے مقابلے میں دنیا کی عمر

02. دنیا کی حقارت

03. فتنۂ دنیا سے تحذیر

04. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رخی

05. آخرت کیلئے عمل کرنے کی اہمیت

06. دنیا کے مقابلے میں جنت کی نعمتوں کا کیا ہی کہنا !

07. دین میں رہبانیت نہیں ہے

08. دنیا اور چار قسم کے لوگ !

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! دنیا اپنی تمام تر زینتوں ، خوبصورتیوں اور رعنائیوں کے ساتھ آخرت کے مقابلے میں انتہائی حقیر ہے ۔ اور آخرت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( مَا الدُّنْیَا فِی الآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعَہُ ہٰذِہٖ ۔ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ ۔ فِی الْیَمِّ ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ)) صحیح مسلم:2858

’’ آخرت کے مقابلے میں دنیا ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی یہ ( شہادت کی) انگلی سمندر میں ڈالے ، پھر وہ دیکھے کہ وہ کس چیز کے ساتھ باہر آئی ہے ۔ ‘‘

اِس حدیث کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں ۔

01. ایک مفہوم یہ ہے کہ جس طرح انگلی کو لگا ہوا پانی بہت جلد خشک ہوجاتا ہے اسی طرح دنیا بھی بہت جلد ختم ہونے والی ہے ۔ اور جس طرح سمندر کا پانی باقی ہے اور ختم ہونے والا نہیں اسی طرح آخرت کی نعمتیں باقی رہیں گی اور ختم نہیں ہونگی۔ اور اِس حدیث میں اشارہ ہے اِس بات کی طرف کہ دنیا کی عمر ، چاہے ہزاروں سال کیوں نہ ہو ، پھر بھی آخرت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ جیسا کہ انگلی پہ لگے ہوئے پانی کی عمر سمندر کے پانی کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے ۔

دنیاکی عمر آخرت کے مقابلے میں کتنی کم ہے ؟ اِس کا اندازہ اِس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب کفار قیامت

کی سختیوں کو دیکھ لیں گے تو وہ ایسے سمجھیں گے کہ جیسے وہ دنیا میں صرف ایک گھڑی کیلئے رہے تھے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْآ اِِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰہَا ﴾ النازعات79 :46

’’جب وہ اسے ( قیامت کو ) دیکھیں گے تو انھیں ایسے لگے گا کہ وہ گویا بس ایک پچھلا یا پہلا پہر ہی ( دنیا میں ) ٹھہرے تھے ۔ ‘‘

اِس آیت مبارکہ میں دنیا کی عمر ایک پہر ذکر کی گئی ہے ۔ جبکہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا :

﴿کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ ﴾ الأحقاف46 :35

’’ جس دن وہ اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس سے انھیں ڈرایا جاتا ہے تو وہ سمجھیں گے جیسے ( دنیا میں ) بس ایک ساعت ہی ٹھہرے تھے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿وَ یَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ ﴾ یونس10 :45

’’ اور جس دن اللہ انھیں جمع کرے گا تو انھیں ایسے لگے گا جیسے وہ ( دنیا میں ) دن کی ایک گھڑی رہے ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں ۔ ‘‘

ان آیات سے ثابت ہوا کہ دنیا کی عمر ، چاہے ہزاروں سال کیوں نہ ہو ، آخرت کے مقابلے میں ایک گھڑی کے برابر ہے ۔ لہٰذا میرے بھائیو ! اِس ایک گھڑی کو اللہ کی اطاعت میں گزار لو ۔ پھر آخرت میں اللہ کی نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی ۔

02. حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انگلی پہ لگا ہوا پانی دنیا ہے اور باقی پانی جو سمندر میں ہے وہ آخرت ہے ۔ یعنی دنیا آخرت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ اور آخرت دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ اور اُس سے کہیں بہتر ہے ۔ اتنی زیادہ اور اتنی بہتر ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اِس بات کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو جو جنت نصیب ہوگی اس کی صرف چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾ آل عمران3 :133

’’ اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔ اسے

متقی لوگوں کیلئے تیار کیا گیا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿سَابِقُوْٓا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ الحدید57 :21

’’ تم اپنے رب کی مغفرت اور جنت کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ (وہ جنت ) جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے ۔ اور اسے ان لوگوں کیلئے تیار کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتاہے دیتا ہے ۔ اور اللہ تو ہے ہی بڑے فضل والا ۔ ‘‘

اور جب جنت کی چوڑائی اتنی زیادہ ہے تو اس کی لمبائی کتنی ہوگی ! اِس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :

(( مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مْنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا ، وَلَغَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا)) صحیح البخاری: 6415

’’جنت کا ایک کوڑے کے برابر حصہ پوری دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے ۔ اوراللہ کے راستے میں ایک مرتبہ صبح کے وقت یا شام کے وقت نکلنا دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے ۔ ‘‘

گویا جنت کا چھوٹا سا ٹکڑا پوری دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے ۔ اِس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ آخرت دنیا کے مقابلے میں کتنی زیادہ اور کس قدر بہتر ہے !

٭ دنیا بہت جلد ختم ہونے والی ہے ۔

جی ہاں ، دنیا کی زندگی انتہائی تیزی اور سرعت کے ساتھ گزر رہی ہے ۔ اور بہت ہی جلد اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُ حَتّٰی اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَھْلُھَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْھَآ اَتٰھَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْنَھَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ﴾ یونس10 :24

’’دنیا کی زندگی کی مثال تو ایسے ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا ، جس سے زمین کی وہ نباتات خوب گھنی ہوگئیں ، جن سے انسان بھی کھاتے ہیں اور چوپائے بھی ۔ حتی کہ زمین اپنی بہار پر آگئی اور خوش نما معلوم ہونے لگی اور مالکوں کو یقین ہوگیا کہ وہ اس پیداوار سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں ۔ تو یکا یک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آپہنچا ، تو ہم نے اسے کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بنا دیا ، جیسے کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔ اسی طرح ہم اپنی آیات ان لوگوں کیلئے تفصیلا بیان کرتے ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں ۔ ‘‘

اِس آیت مبارکہ میں دنیا کی بے ثباتی کو ایک مثال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے کھیتی میں بہار آتی ہے اور ہر دیکھنے والے کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے اور اس کے مالک یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ اس سے فائدہ اٹھانے پر قدرت رکھتے ہیں ، لیکن اچانک اللہ کی طرف سے طوفان باد وباراں آ جاتا ہے اور وہ ایسے تباہ ہو جاتی ہے جیسے کل اس کی جگہ پہ کچھ تھا ہی نہیں ! اسی طرح انسان کی زندگی میں بھی جوانی کی بہار آتی ہے اوروہ اپنی جوانی کی رعنائیوں میں مست ہو جاتا ہے اور اللہ کے احکام سے بالکل بے پرواہ ۔ پھر اچانک موت آجاتی ہے اور کچھ عرصہ بعد ایسے لگتا ہے جیسے دنیا میں اس کا وجود ہی نہ تھا !

اسی طرح فرمایا : ﴿ اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌمبَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَّفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنْ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ﴾ الحدید57 : 20

’’ خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ، زینت اور تمھارا آپس میں فخر جتلانا اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے سبقت کی کوشش کرنا ہے ، جیسے بارش ہوئی تو اس کی نباتات نے کاشتکاروں کو خوش کر دیا ، پھر وہ جوبن پر آتی ہے ، پھر تُو اسے زرد پڑی ہوئی دیکھتا ہے ۔ پھر وہ بھس بن جاتی ہے ۔ اور آخرت میں شدید عذاب ہے اور اللہ کی بخشش اور اس کی رضا ہے ۔ اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے ۔ ‘‘

اِس آیت مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی سرعت زوال کے لحاظ سے ایسے ہے جیسے ایک کھیتی ہو ، جو شاداب ہو تو بڑی بھلی لگتی ہے ، کاشتکار اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ بہت ہی جلد خشک اور زرد ہو کر بھس بن جاتی ہے ۔ اسی طرح دنیا کی زیب وزینت ، مال اور اولاد اور دیگر دنیاوی ساز وسامان انسان کا دل لبھاتا ہے ، لیکن یہ زندگی بھی کھیتی کی طرح بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے ۔ پھر اِس کے بعد ان لوگوں

کیلئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور اس کی رضا ہے جو دنیا کو عارضی اور دار ِ فانی سمجھتے ہوئے اس میں اپنی زندگی اللہ کی تعلیمات کے مطابق گزار جاتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کیلئے عذاب ہے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہتے ہیں اوراللہ کے دین کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے دنیا کی زندگی کو محض دھوکے کا سامان قرار دیا ہے ۔ لہٰذا عقلمندوں کو اِس کے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے ۔

حقارت ِ دنیا !

دنیا انتہائی حقیر اور گھٹیا سی چیز ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال کے ذریعے اس کی حقارت کو بیان فرمایا۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عالیہ) کی جانب سے آتے ہوئے بازار سے گزر ے ، آپ کے ساتھ کئی لوگ تھے ، آپ ایک بکری کے مردہ بچے کے پاس سے گزرے جس کے کان چھوٹے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کانوں کو پکڑا ، پھر فرمایا :

(( أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ہٰذَا لَہُ بِدِرْہَمٍ ؟ ))

’’ تم میں سے کون ہے جو اِس کو ایک درہم کے بدلے میں لینا پسند کرتا ہو ؟ ‘‘

تو لوگوں نے کہا : ( مَا نُحِبُّ أَنَّہُ لَنَا بِشَیْیئٍ ، وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ )

’’ ہم پسند نہیں کرتے کہ یہ ہمیں کسی بھی چیز کے بدلے میں ملے ۔ اور ہم اسے کریں گے کیا ؟ ‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : (( أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہُ لَکُمْ ))

’’ کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں ( مفت میں ) مل جائے ؟ ‘‘

تو لوگوں نے کہا :’’ اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ ہوتا تو اس میں ایک عیب ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے کان چھوٹے ہیں ۔ چہ جائیکہ اب یہ مردہ ہے ! ‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : (( فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذَا عَلَیْکُمْ )) صحیح مسلم :2957

’’ اللہ کی قسم ! جس قدر یہ تمھارے نزدیک حقیر ہے ، دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔ ‘‘

اسی طرح سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ ، مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْ شَرْبَۃِ مَائٍ )) جامع الترمذی : 2320۔ وصححہ الألبانی

’’ اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کوپانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَلَا الدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ ، مَلْعُونٌ مَا فِیْہَا إِلَّا ذِکْرَ اللّٰہِ وَمَا وَالَاہُ ، أَوْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا )) جامع الترمذی : 2322۔ سنن ابن ماجہ : 4112۔ وحسنہ الألبانی

’’ خبر دار ! دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب ملعون ہے ، سوائے اللہ کے ذکر کے اور جو عمل اللہ کو پسندیدہ ہو ۔ اور عالم یا متعلم ۔ ‘‘

دنیا ایک فتنہ ہے !

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ ، وَإِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیْہَا ، فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ، فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَائَ ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ کَانَتْ فِی النِّسَائِ)) صحیح مسلم : 2742

’’ بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز وشاداب ہے ۔ اور اللہ تعالی تمھیں اس میں ( دوسری قوموں کا )جانشین بنانے والا ہے ، تاکہ وہ دیکھ لے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ! لہٰذا تم دنیا ( کے فتنے میں مبتلا ہونے ) سے بچتے رہنا ۔ اور اسی طرح عورتوں کے فتنے سے بھی بچتے رہنا کیونکہ بنو اسرائیل کو سب سے پہلے عورتوں کے فتنے میں مبتلا کیا گیا تھا ۔ ‘‘

اور اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام کو اِس بات کی خصوصی تعلیم دیا کرتے تھے کہ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اس کے ساتھ دل نہ لگاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے فتنے میں مبتلا ہو جاؤ ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا:

((کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ)) ’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے : (( إِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ ، وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ )) صحیح البخاری ۔ الرقاق باب قول النبی صلي الله عليه وسلم ( کن فی الدنیا کأنک غریب ۔۔۔ ) : 6416

’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے ۔ اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو

موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں ۔ ‘‘

مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

((کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ)) الصحیحۃ للألبانی : 1157

’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو ۔ ‘‘

ایک اجنبی انسان کا کوئی گھر نہیں ہوتا جس میں وہ مستقل طور پر پناہ لے سکے ، اسی طرح مسافر بھی دوران ِ سفر بے گھر ہوتا ہے ، وہ اگر کہیں ٹھہرتا بھی ہے تو اسے سکون نصیب نہیں ہوتا کیونکہ اسے منزل مقصود پر پہنچنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ کچھ وقت کیلئے آرام کرنے کے بعد آگے کو روانہ ہو جاتا ہے ۔

اسی طرح دنیا میں ہر انسان کو ایک اجنبی اور مسافر کی طرح ہی رہنا چاہئے کہ وہ اسے اپنی مستقل رہائش گاہ نہ سمجھے ، بلکہ مسافر کی طرح اسے اپنی عارضی گزرگاہ سمجھے اور اس میں آخرت کیلئے عمل کرے اور اللہ تعالی جتنی زندگی دے اسے اس کی منشا کے مطابق گزارے ۔

٭امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

( لَا تَرْکَنْ إِلَی الدُّنْیَا وَلَا تَتَّخِذْہَا وَطَنًا ، وَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالْبَقَائِ فِیْہَا ، وَلَا تَتَعَلَّقْ مِنْہَا بِمَا لَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْغَرِیْبُ فِیْ غَیْرِ وَطَنِہٖ )

’’ تم دنیا کی طرف مت جھکو اور نہ ہی اسے اپنا وطن بناؤ ۔ اور نہ اس میں باقی رہنے کا سوچو ۔ اور نہ اس کی کسی ایسی چیز سے دل لگاؤ ، جس سے کوئی اجنبی اپنے وطن سے باہر دل نہیں لگاتا ۔ ‘‘

٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا تَتَّخِذُوا الضَّیْعَۃَ فَتَرْغَبُوْا فِی الدُّنْیَا)) جامع الترمذی :2328۔ وصححہ الألبانی

’’ تم جائیداد وغیرہ مت بناناکہ پھر دنیا میں ہی دل لگا کے بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

یعنی تم باغات ، زرعی زمینیں ، فیکٹریاں اور تجارتی ذرائع وغیرہ اتنے نہ بنانا کہ پھر اُنہی میں مشغول ہو کر رہ جاؤ اور تمھیں دنیاوی کاموں سے مہلت ہی نہ ملے ۔ اور تم مکمل طور پر دین سے غافل ہو جاؤ اور اس کی کوئی پرواہ نہ کرو ۔

٭ ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابو ہاشم بن عتبہ کی عیادت کرنے کیلئے گئے ( تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں ) تو انھوں نے کہا : ماموں جان ! کیوں رو رہے ہیں ؟ درد کی وجہ سے یا دنیا کے لالچ کی وجہ سے ؟ تو

انھوں نے کہا : ( دنیا کے لالچ کی وجہ سے )ہرگز نہیں ، بلکہ بات یہ ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہد لیا تھااور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی ! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا کہ تمھیں پورے مال میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کے راستے میں جہاد کیلئے ایک سواری کافی ہے ، جبکہ میں آج محسوس کر رہاہوں کہ میں نے اس سے زیادہ مال جمع کرلیا ہے ۔ جامع الترمذی :2327۔ وصححہ الألبانی

یہ حدیث بھی اِسی بات کی دلیل ہے کہ دنیا سے انسان بہت کم لے اور آخرت کیلئے سوچے اور اسی کیلئے عمل کرے ۔ اور دنیا میں اِس قدر مگن نہ ہو کہ وہ اس کے فتنے میں مبتلا ہو جائے اور آخرت سے بالکل ہی غافل ہو جائے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رخی

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے، پھر اُٹھے تو آپ کے پہلو پر اس کے نشانات پڑ ے ہوئے تھے ۔

تو ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر ہم آپ کیلئے ایک بستر تیار کردیں تو ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا ،مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا )) جامع الترمذی :2377۔ وصححہ الألبانی

’’ میرا دنیا سے کیا تعلق ہے ! میں تو دنیا میں ایک سوار ( مسافر ) کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے آرام کرتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر آگے کو چل دیتا ہے ۔ ‘‘

یعنی مجھے دنیا سے کوئی الفت ومحبت نہیں ہے ۔ اور دنیا میں میری حیثیت ایک مسافر کی سی ہے جو چلتے چلتے جب تھک جاتا ہے تو ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر کیلئے آرام کرلیتا ہے ، پھر اسے چھوڑ کر چل دیتا ہے ۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بیویوں سے ایلاء کیا تھا ، یعنی قسم کھائی تھی کہ آپ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم الگ تھلگ ایک اونچے سے کمرے میں چلے گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں جس پر کوئی بستر نہیں بچھا ہوا تھا ۔ بس ایک تکیہ تھا جو جلد سے بنا ہوا تھا اور اس میں کھجور کی چھال کو بھرا ہوا تھا ۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔

جناب عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چٹائی کے نشانات پڑے ہوئے ہیں تو مجھے رونا آگیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ کیوں روتے ہیں ؟

تو میں نے کہا : قیصر وکسری کے پاس کیا کیا نعمتیں ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں !

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَہُمُ الدُّنْیَا وَلَنَا الْآخِرَۃُ )) صحیح البخاری :4913، وصحیح مسلم :1479

’’ کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ؟ ‘‘

یہ واقعہ بھی اِس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے بے رخی کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دنیا کی کوئی محبت نہ تھی ۔ ورنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی آسائشوں کو مد نظر رکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے مانگ سکتے تھے اور اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینا تمام آسائشیں عطا بھی کردیتا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر صرف آخرت تھی ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کو یہی فرمایا کہ قیصر وکسری کیلئے دنیا کی آسائشیں جبکہ ہمارے لئے آخرت کی آسائشیں اور نعمتیں ہیں ۔

آخرت کیلئے عمل کرنے کی اہمیت

دنیا سے بے رغبتی کرتے ہوئے انسان کو آخرت کیلئے عمل کرنا چاہئے ، کیونکہ دنیا فانی ہے اور اس کی تمام آسائشیں اور لذتیں ختم ہونے والی ہیں ۔ جبکہ آخرت باقی رہنے والی ہے اور اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ بَلْ تُؤثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ٭ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی﴾ الأعلی87 : 16۔17

’’ بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُھَا وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ القصص28 :60

’’ اور تمھیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ بس دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے ۔ اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور دائمی ہے ۔ کیا تم سوچتے نہیں ؟ ‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

﴿ فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی﴾

’’ اور تمھیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ بس دنیوی زندگی کا سامان ہے ۔ اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور دائمی ہے ۔‘‘

لیکن جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہے کن لوگوں کیلئے ؟

فرمایا : ﴿لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ﴾ الشوری42 :36

’’ ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ۔ ‘‘

اللہ ! اُن کی مزیدصفات کیا ہیں ؟

فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ ٭ وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾ الشوری42 :37۔38

’’اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں ۔ اور جب انھیں غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں ۔ اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔ اور ان کے کام باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں ۔ اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ ‘‘

ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ہمیں اِس دنیا میں جو کچھ دیا گیا ہے وہ محض دنیوی ساز وسامان ہی ہے اور ہم اسے چھوڑ چھاڑ کر آخرت کی طرف جانے والے ہیں ۔ اور آخرت میں اللہ تعالی کے ہاں جو کچھ ہے وہ صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو اِس دنیا میں ایمان لائیں ، اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کریں ، اُسی پر بھروسہ کریں اور خصوصی طور پر بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کریں ۔ اور پانچ وقتی نمازوں کو پابندی سے پڑھتے رہیں اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے رہیں ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ﴿ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّۃِ وَ الْخَیْلِ الْمَسَوَّمَۃِ وَ الْاَنَعَامِ وَ الْحَرْثِ ﴾

’’ لوگوں کیلئے خواہشات کی محبت مزین کردی گئی ہے ، ( جیسا کہ ) عورتیں ، بیٹے ، سونا اور چاندی کے جمع کردہ خزانے ، عمدہ قسم کے گھوڑے ، مویشی اور کھیتی ہیں ۔‘‘

پھر ان ساری چیزوں کے بارے میں فرمایا : ﴿ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ عَنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ﴾ آل عمران3 :14

’’ یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے ۔ اور بہتر ٹھکانا اللہ ہی کے پاس ہے ۔ ‘‘

اِس کے بعد ان تمام چیزوں سے بہتر چیز کی نشاندہی اور اس کی طرف ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :

﴿قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ ﴾ آل عمران3 :15

’’ آپ کہہ دیجئے : کیا میں تمھیں ایسی چیزوں کی خبر نہ دوں جو دنیوی سامان سے بہتر ہیں ؟ جو تقوی اختیار کریں ان کیلئے ان کے رب کے ہاں ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور وہاں انھیں پاکیزہ بیویاں میسر ہونگی اور اللہ کی رضامندی بھی ۔ ‘‘

اِن آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قیامت کے روز جنت کی نعمتوں اور اللہ کی رضامندی سے بس وہی لوگ ہمکنار ہونگے جو نفسانی خواہشات میں مگن ہونے کی بجائے اللہ تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور دنیاوی زیب وزینت کے فتنے میں پڑنے کی بجائے آخرت کیلئے عمل کرتے ہیں ۔

اگر کوئی انسان دنیا میں اپنی نفسانی خواہشات میں مگن رہے اور اللہ کے دین سے مکمل طور پر غافل رہے توایک وقت آئے گا ، جب وہ چاہے گا کہ کاش اسے دنیا میں دوبارہ لوٹا دیاجائے اور وہ نیک عمل کرلے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَاَنِیْبُوْٓا اِِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ٭ وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِِلَیْکُمْ مِّنْ رَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ٭ اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ وَاِِنْ کُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ ٭ اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰہَ ہَدٰنِیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ٭ اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ کَرَّۃً فَاَکُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ الزمر39 : 54۔58

’’ اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مان لو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے ، پھر تمھیں کہیں سے کوئی مدد بھی نہ مل سکے ۔ اور جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے بہترین (وحی ) نازل ہوئی اس کی اتباع کرو قبل اِس کے کہ اچانک تم پر عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو ۔ ( کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وقت ) کوئی کہنے لگے : افسوس میری کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا ۔ یا یوں کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں متقین میں سے ہوتا ۔ یا جب عذاب دیکھے تو کہنے لگے : کاش ! مجھے ایک اور

موقع مل جائے تو میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں ۔ ‘‘

محترم بھائیو اور بزرگو ! آخرت میں اللہ تعالی نے اپنے متقی اور پرہیزگار بندوں کیلئے کیا کچھ تیار کیا ہے ! اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنت میں سب سے نچلے مرتبے والے جنتی کو جو جنت ملے گی وہ اِس دنیا کے کسی بھی بادشاہ کی مملکت سے دس گنا بڑی ہوگی ۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :

’’ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سوال کیا کہ جنت میں سب سے نچلے درجے والا جنتی کیسا ہو گا ؟ تو اللہ تعالی نے جواب دیا : وہ وہ آدمی ہو گا جو جنت والوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا ۔ اس سے کہا جائے گا : جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب! میں کیسے جاؤں جبکہ تمام لوگوں نے اپنے اپنے گھر سنبھال لئے ہیں اور سب نے اپنا اپنا انعام وصول کرلیا ہے! اسے کہا جائے گا : کیا تجھے یہ پسند ہے کہ دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی پوری مملکت جیسی مملکت تجھے عطا کردی جائے ؟ وہ کہے گا : اے رب ! میں راضی ہوں؟ اللہ تعالی کہے گا : میں نے تجھے اس کی مملکت جیسی ایک مملکت ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور مملکت عطا کردی ہے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں ۔

پھر اللہ کہے گا : (( ہٰذَا لَکَ وَعَشْرَۃُ أَمْثَالِہٖ ، وَلَکَ مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ ، وَلَذَّتْ عَیْنُکَ ))

’’ یہ بھی تیرے لئے ہے اور میں تجھے اس جیسی دس مملکتیں اور عطا کرتا ہوں ۔اور تیرے لئے ہر وہ چیز ہے جس کی تو تمنا کرے گا اور جس سے تیری آنکھوں کو لذت ملے گی ۔ ‘‘

وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہو گیا ہوں ۔

حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب ! ( یہ تو ہوا نچلے درجے والا جنتی ) تو جنت میں سب سے اونچے درجے والے جنتی کیسے ہونگے؟ اللہ تعالی نے کہا:

((أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ أَرَدْتُّ غَرَسْتُ کَرَامَتَہُمْ بِیَدِیْ وَخَتَمْتُ عَلَیْہَا فَلَمْ تَرَ عَیْنٌ ،وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ،وَلَمْ یَخْطُرْعَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ)) صحیح مسلم۔کتاب الایمان باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا :189 ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں میں نے چن لیا ہے اورمیں نے ان کی عزت اپنے ہاتھ سے گاڑھ دی ہے اور اس پر مہر لگا دی ہے (یعنی اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔) اور ان کیلئے وہ کچھ تیار کیا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ اس کے بارے میں کسی کان نے کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔‘‘

اور اس کا مصداق اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ ﴾ صحیح مسلم۔کتاب الایمان باب آخر أہل النار خروجا:187

’’کسی جان کو نہیں معلوم کہ ان کیلئے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کونسی نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ۔ ‘‘

اور جو شخص جنت میں سب سے آخر میں داخل ہوگا ، اسے کیسی جنت ملے گی ؟ آئیے اِس حدیث سے معلوم کرتے ہیں :

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخر ی شخص وہ ہو گا جو اس حالت میں آئے گا کہ کبھی چلے گا اور کبھی گر پڑے گا ۔ کبھی آگ اسے تھپیڑے مارے گی اورجب وہ اسے ( آگ کو) عبور کر جائے گا تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا : بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی ہے ۔ یقینا اللہ نے مجھے وہ چیز عطا کردی ہے جو اس نے پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی ۔ پھر ایک درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے (قریب بہتے ہوئے ) پانی سے پیاس بجھا سکوں ۔

اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں تو شاید تو پھر کوئی اور سوال بھی کرے گا ؟ وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ۔ پھر وہ اللہ تعالی سے وعدہ کرے گا کہ وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا ۔ اللہ تعالی بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔ چنانچہ اللہ تعالی اسے اس درخت کے قریب کردے گا ۔ تو وہ اس کے سائے میں چلا جائے گا اور اس کے پانی سے پیاس بجھائے گا ۔

پھر ایک اور درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ اچھا ہو گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے ( قریب بہتا ہوا ) پانی پی سکوں ، اس کے بعد تجھ سے کوئی اورسوال نہیں کروں گا۔

اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو کوئی اور سوال نہیں کرے گا ؟ پھر کہے گا : اگر میں تیرا یہ سوال بھی پورا کردوں تو شاید تو پھر کوئی اور سوال بھی کرے گا؟ وہ اللہ تعالی سے وعدہ کرے گا کہ وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا ۔ اللہ تعالی بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالی اسے اس درخت کے قریب کردے گا ۔ تو وہ اس کے سائے میں چلا جائے گا اور اس کے پانی سے پیئے گا ۔

پھر ایک اور درخت جنت کے دروازے کے قریب اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہو گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے ( قریب بہتا ہوا ) پانی پی سکوں ، اس کے بعد تجھ سے کوئی اورسوال نہیں کروں گا ۔

اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو کوئی اور سوال نہیں کرے گا ؟وہ کہے گا : کیوں نہیں اے میرے رب !بس یہی سوال پورا کردیں ، اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کروں گا ۔ اللہ تعالی بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔ چنانچہ وہ اسے اس درخت کے قریب کردے گا اوروہ اس کے قریب پہنچ کر اہلِ جنت کی آوازیں سنے گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس میں داخل کردے ۔

اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! کونسی چیز تجھے راضی کرے گی اور تیرے اور میرے درمیان سوالات کا سلسلہ کب منقطع ہو گا ؟کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گا کہ میں تجھے دنیا اور اس جیسی ایک اور دنیا دے دوں ؟ وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں جبکہ آپ تو رب العالمین ہیں !

یہاں تک حدیث بیان کرکے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے ۔ پھر کہنے لگے : کیا تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ لوگوں نے پوچھا : آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حدیث یہاں تک بیان کرکے ہنس پڑے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ اللہ تعالی بھی اس آدمی کی یہ بات سن کر ہنس پڑیں گے کہ کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے حالانکہ تو تو رب العالمین ہے ! پھر اللہ تعالی کہے گا : میں تجھ سے ہرگز مذاق نہیں کر رہا بلکہ میں جو چاہوں ( کر سکتا ہوں ) اور میں ہر چیز پر قادر ہوں ۔ ‘‘ صحیح مسلم:2807

اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ، ہمارے والدین ، ہمارے بیوی بچوں اور ہمارے بہن بھائیوں ، سب کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔

دوسرا خطبہ

عزیز القدر بھائیو اور بزرگو !

دنیا کی خوشحالی یا تنگ حالی آخرت کی خوشحالی یا تنگ حالی کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے ، اِس کا اندازہ اِس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ، ثُمَّ یُقَالُ : یَا ابْنَ آدَمَ ! ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ ؟ فَیَقُولُ : لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ ))

’’ قیامت کے روز اہل ِ دنیا میں سے سب سے زیادہ خوشحال کو لایا جائے گا جو جہنم والوں میں سے ہوگا ، پھر اسے جہنم کی آگ میں تھوڑا سا غوطہ دیا جائے گا ، پھر کہا جائے گا : اے ابن آدم ! کیا تم نے کبھی خیر دیکھی تھی ؟ کیا تجھ پر کبھی خوشحالی کا دور گزرا تھا ؟ تو وہ کہے گا ! اے میرے رب ! ہرگز نہیں ۔ ‘‘

یعنی جہنم کا تھوڑا سا عذاب دنیا کی ہر آسائش اور ہر خوشحالی کو بھلا دے گا ۔

پھر فرمایا :(( وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ، فَیُقَالُ لَہُ : یَا ابْنَ آدَمَ ! ہَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ ؟ فَیَقُولُ : لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ، مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ)) القصص28 :77

’’ اور دنیا میں سب سے زیادہ تنگ حال آدمی کو لایا جائے گا جو جنت والوں میں سے ہوگا ، پھر اسے جنت میں تھوڑا سا غوطہ دیا جائے ، پھر کہا جائے گا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تم نے کبھی تنگ حالی دیکھی تھی ؟ کیا تم پر کبھی کوئی سختی آئی تھی ؟ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! ہرگز نہیں ، مجھ پرکبھی کوئی سختی نہیں آئی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی تنگ حالی دیکھی تھی ۔ ‘‘

یعنی جنت کی تھوڑی سی خوشحالی دنیا کی ہر تنگی اور ہر سختی کو بھلا دے گی ۔

اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زیب وزینت اور عارضی خوشحالی آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اور دنیا کی سختیاں آخرت کی خوشحالی کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ لہٰذا ہمیں ہر حال میں آخرت کو ہی مد نظر رکھنا چاہئے ۔ اگر ہم دنیا کی عارضی خوشحالی کی خاطر آخرت کا عذاب مُول لے لیں تو ہم سے بڑا بد نصیب کوئی نہیں ہوگا ۔ اور اگر ہم دنیا کے فتنے سے بچ کر آخرت میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جنت کے مستحق بن جائیں تو ہم سے بڑا خوش نصیب کوئی نہ ہوگا ۔

البتہ ایک بات آپ کی توجہ کیلئے بہت ہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آپ دنیا سے اور دنیاوی معاملات سے بالکل ہی لا تعلق ہو جائیں اور ’رہبانیت ‘ اختیار کر لیں۔ ہمارے دین میں وہ رہبانیت نہیں ہے جسے نصاری نے گھڑ لیا تھا ۔

بلکہ ہماری پوری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ دنیا یقینی طور پر فانی ہے اور اس کی زیب وزینت اور آسائشیں عارضی ہیں ، جو انسان کو اپنے فتنے میں مبتلا کرتی اور اللہ کے دین سے غافل کرتی ہیں ۔ اور عقلمند انسان وہ ہے جو اس کے فتنے میں مبتلا نہیں ہوتا ، بلکہ اپنا دامن بچاتے ہوئے اللہ تعالی کی منشا کے مطابق زندگی گزار جاتا ہے ۔ وہ ایک پیاسے اور بھوکے انسان کی طرح حسب ِ ضرورت کھاتا پیتا بھی ہے اور دیگر ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے ۔ لیکن اُس میں اِس طرح مگن نہیں ہوتا کہ اُسی کا ہو کر رہ جائے اور اللہ کے دین کی کوئی پرواہ نہ کرے ۔

اسی لئے اللہ تعالی نے قارون سے کہا تھا : ﴿ وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ﴾ صحیح مسلم : 2956

’’ جو مال ودولت تمھیں اللہ نے دے رکھا ہے ، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کرو ۔ اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو ۔ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تمھارے ساتھ بھلائی کی ہے ۔ ‘‘

لہٰذا ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ معاشرے کے اندر لوگوں سے گھل مل کر رہیں ، رزق ِ حلال کیلئے تگ ودو بھی کریں ، اللہ تعالی آپ کو جو نعمتیں عطا کرے ان سے بھر پور فائدہ بھی اٹھائیں ، لیکن یہ سب کچھ شریعت کی حدود میں رہ کر ۔ اور اِس طرز پر کہ آپ کا مطمح ِ نظر دنیا ہی نہ ہو کہ آپ دنیاوی آسائشوں کے حصول کیلئے دن رات ایک کردیں اور اللہ کے دین کو یکسر نظر انداز کردیں ۔ بلکہ آپ دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی طرح رہیں اور آپ کے مد نظر آخرت ہو ، آپ کو یقین ہو کہ دنیا کی لذتیں آخر ایک دن ختم ہو جائیں گی اور آپ اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونگے ۔ پھر وہ آپ سے آپ کے اعمال کا حساب لے گا اور آپ کے آخری ٹھکانے کا فیصلہ کرے گا۔ جس شخص کو قیامت کے روز اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کی فکر ہوتی ہے وہ دنیا سے دل نہیں لگاتا ۔ اور جس آدمی کا مقصد اللہ تعالی کی رضا اور اس کی جنت کو حاصل کرنا ہوتا ہے وہ دنیا کے فتنے سے اپنے دامن کو بچاتا ہے اور اپنے تمام دینی ودنیاوی امور کو اللہ کے دین کے مطابق انجام دیتاہے ۔ اور آخرت کیلئے تیاری کرتا ہے ۔

ایک عقلمند مومن یہ سمجھتا ہے کہ دنیا اس کیلئے ایک جیل کی طرح ہے ۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) صحیح مسلم : 2956

’’ دنیا مومن کی جیل ہے اور کافر کی جنت ہے ۔ ‘‘

یعنی مومن یہ سمجھے کہ وہ جیل میں ہے ، جس میں اسے حرام اور مکروہ شہوات سے منع کردیا گیا ہے ۔ اور اسے بامشقت عبادات کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ وہ محرمات سے بچتے ہوئے اور با مشقت عبادات کو انجام دیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگا تواس کی سختیوں سے چھٹکارا پاکر جنت کی دائمی نعمتوں میں چلا جائے گا ۔ جبکہ کافر کا معاملہ اِس کے بر عکس ہے ، جس کیلئے دنیا ہی جنت ہے ، اِس کے بعد اُس کیلئے دائمی عذاب ہی عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ

عزیز القدر بھائیو اور بزرگو !

خطبہ کے آخر میں ہم ایک حدیث آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ اِسے اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور ہمیشہ اسے اپنے مد نظر رکھیں ۔

کبشۃ الأنماری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوہُ ))

’’میں تمھیں ایک حدیث بیان کرنے لگا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لو ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّمَا الدُّنْیَا لِأَرْبَعَۃِ نَفَرٍ )) ’’دنیا چار آدمیوں کیلئے ہے۔‘‘

01. ((عَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالًا وَعِلْمًا ، فَہُوَ یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ وَیَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَیَعْلَمُ لِلّٰہِ فِیْہِ حَقًّا ، فَہٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ ))

’’ ایک وہ جسے اللہ تعالی مال اور علم دونوں عطا کرے ۔ پھر وہ مال کے سلسلے میں اپنے رب سے ڈرتا ہو ، صلہ رحمی کرتا ہو اور اس میں جو اللہ کا حق ہے وہ اسے بھی ادا کرتا ہو ۔ تو یہ سب سے افضل درجے پر فائز ہے ۔‘‘

02. ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ عِلْمًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ مَالًا، فَہُوَ صَادِقُ النِّیَّۃِ ، یَقُولُ : لَوْ أَنَّ لِیْ مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ ، فَہُوَ نِیَّتُہُ فَأَجْرُہُمَا سَوَائٌ ))

’’ دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے علم تو دیا ہو لیکن مال عطا نہ کیا ہو ۔ تو وہ سچا ارادہ کرتے ہوئے کہے : اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی پہلے شخص کی طرح خرچ کرتا ۔ لہذا اِس کا اور اُس پہلے شخص کا اجر برابر ہے ۔ ‘‘

03. ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ عِلْمًا ، فَہُوَ یَخْبِطُ فِیْ مَالِہٖ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَا یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ وَلَا

یَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَلَا یَعْلَمُ لِلّٰہِ فِیْہِ حَقًّا ،فَہٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ ))

’’تیسرا وہ ہے جسے اللہ تعالی نے مال تو دیاہو لیکن اسے علم سے محروم رکھا ہو ۔ تو وہ اپنے مال کے سلسلے میں بغیر علم کے ٹامک ٹوئیاں مارتا ہو اور نہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا ہو اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہو ۔ اور نہ ہی اس میں اللہ تعالی کے حق کو جانتا ہو ۔ تو یہ سب سے نچلے مرتبے میں ہے۔ ‘‘

04. ((وَعَبْدٌ لَمْ یَرْزُقْہُ اللّٰہُ مَالًا وَلَا عِلْمًا ، فَہُوَ یَقُولُ : لَوْ أَنَّ لِیْ مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ ، فَہُوَ نِیَّتُہُ فَوِزْرُہُمَا سَوَائٌ )) جامع الترمذی : 2325۔وصححہ الألبانی

’’اور چوتھا وہ ہے جسے اللہ تعالی نے نہ مال دیا ہو اور نہ علم ۔ تو وہ یہ کہے کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اُس ( تیسرے ) آدمی کی طرح عمل کرتا ۔ تو اِس آدمی کا گناہ اپنی نیت کے اعتبار سے اُس ( تیسرے ) آدمی کے گناہ کے برابر ہوا ۔ ‘‘

ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ان چاروں افراد میں سے کونسا ہے ؟ اگر ہم پہلے دو قسم کے افراد میں سے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور اگر ہم آخری دو قسم کے افراد میں سے ہیں تو پھر ہم اپنی اصلاح کریں ۔ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں :

﴿ وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَ رِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ﴾ طہ20 : 131

’’ اور آپ ان چیزوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائیے جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیوی زندگی کی زینت کیلئے دی ہیں تاکہ ہم انھیں ان چیزوں میں آزمائیں ۔ اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور دائمی ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی ہمیں حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین