خاوند بیوی کے حقوق

اہم عناصر خطبہ :

01.بیوی پر خاوند کے حقوق

02.خاوندپر بیوی کے حقوق

پہلا خطبہ

قابلِ صد احترام بھائیو ! آپ کو یاد ہو گا کہ گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے نکاح کی اہمیت ، نکاح کے فوائد اور کامیاب ازدواجی زندگی کے چند اصول قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کئے تھے۔اور اُس ضمن میں ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ خاوند بیوی کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کریں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے حقوق سلب نہ کرے اور پچھلے خطبہ ہی میں ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ خاوندبیوی کے حقوق تین قسم کے ہوتے ہیں :

01.مشترکہ حقوق

02. بیوی پر خاوند کے حقوق

03.خاوند پر بیوی کے حقوق

اور ہم نے پہلی قسم کے حقوق تو پچھلے خطبہ میں ہی بیان کردئیے تھے اب آئیے باقی حقوق بھی سماعت فرما لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کہنے ، سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔

بیوی پر خاوند کے حقوق

01.خاوند کی خدمت

عرفِ عام اور دستور کے مطابق خاوند کی خدمت کرنا بیوی پر خا وند کا حق ہے ۔ چنانچہ حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جب وہ اپنی حاجت سے فارغ ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:کیا تمھارا خاوند موجود ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم اس سے کیسا سلوک کرتی ہو ؟اس نے کہا:میں ہر طرح سے اس کی خدمت کرتی ہوں سوائے اس کے کہ میں عاجزآ جاؤں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( فَانْظُرِیْ أَیْنَ أَنْتِ مِنْہُ،فَإِنَّمَا ہُوَ جَنَّتُکِ وَنَارُکِ)) (أحمد:341/6، الحمیدی : 355، الطبرانی فی الکبیر :183/25،الحاکم:189/2، وصححہ الألبانی فی آداب الزفاف :ص 118)

’’ تم اس سے کیسا سلوک کرتی ہو ذرا اس بات کا اچھی طرح سے جائزہ لے لینا ( اور یاد رکھنا ) وہی تمھاری جنت اور وہی تمھاری جہنم ہے ۔ ‘‘

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بیوی اپنے خاوند کی خدمت گذار ہو تو وہ اس کی بدولت جنت میں جائے گی اور اگر وہ خدمت گذار نہ ہو تو وہ جہنم میں جائے گی ۔

اور اِس دور کی خواتین کو اس امت کی اولیں خواتین کے نقشِ قدم پہ چلنا چاہئے جو اپنے خاوندوں کی خدمت کیا کرتی تھیں اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر تھیں اور جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (( سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ)) ’’جنت کی عورتوں کی سردار ‘‘ کی بشارت سنائی تھی وہ اپنے خاوند حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت کیا کرتی تھیں اور گھر کے کام کاج میں محنت ومشقت کا عالم یہ تھا کہ چکی پیس پیس کر ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند قیدی آئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کا سوال کرنے آئیں لیکن انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں نہ ملے ۔ چنانچہ وہ چلی گئیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بتایا کہ وہ اس غرض سے آئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں گئے اور انھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’ کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جو اُس خادم سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا ہے ؟ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر ، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور ۳۳ مرتبہ الحمد للہ پڑھ لیا کرو ، یہ تمھارے لئے خادم سے بہتر ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری :3113،3705،صحیح مسلم :2727)

اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اس وقت شادی کی جب ان کے پاس کوئی جائیداد تھی نہ کوئی غلام تھا ۔ صرف ایک اونٹ اور ایک گھوڑا تھا ۔ میں ان کے گھوڑے کو گھاس چارہ ڈالتی اور اونٹ پر پانی لاد کر لے آتی اور میں خود ان کے ڈول کو سی لیتی اور خود آٹا گوندھتی۔البتہ میں روٹی پکانا نہیں جانتی تھی تو پڑوس کی انصاری خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں اور وہ سچی محبت کرنے والی خواتین تھیں اور جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بطور جاگیر عطا کی تھی وہ تقریبا دو میل کے فاصلے پر تھی اور میں اس میں گٹھلیاں چننے جاتی اور اپنے سر پر وہاں سے گٹھلیاں اٹھا کر لے آتی … الخ (صحیح البخاری،النکاح باب الغیرۃ :5224، صحیح مسلم ،السلام :2182)

یہ دونوں خواتین ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ) اپنے زمانے کی بہترین خواتین میں سے تھیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے شوہروں کی خدمت کیا کرتی تھیں ۔ لہٰذا اِس دور کی خواتین ‘ خواہ وہ کتنی مالدار اور کتنے اچھے گھرانوں کی کیوں نہ ہوں وہ ان صحابیات سے افضل نہیں ہو سکتیں ، تو انھیں بھی اپنے شوہروں کی خدمت کرنی چاہئے ۔

02.خاوند کی فرمانبرداری

بیوی پر خاوند کا دوسرا حق یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری کرے اور اس کی حکم عدولی نہ کرے ۔ خاوند کی فرمانبردار خاتون کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا،وَصَامَتْ شَہْرَہَا،وَحَفِظَتْ فَرْجَہَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَہَا،قِیْلَ لَہَا: ادْخُلِیْ الْجَنَّۃَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْتِ )) (أحمد:191/1،الطبرانی فی الأوسط:8805،فیہ ابن لہیعۃ،ولکن لہ شاہد من حدیث أبی ہریرۃ عند ابن حبان:4163،وآخر من حدیث أنس عند البزار:1463،وصححہ الألبانی فی آداب الزفاف: ص120)

’’ جب ایک عورت پانچوں نمازیں ادا کرے ، ماہِ رمضان کے روزے رکھے ، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تواسے کہا جائے گا : تم جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ ‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سے کونسی عورت سب سے افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :

(( اَلَّتِیْ تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ،وَتُطِیْٖعُہُ إِذَا أَمَرَ،وَلَا تُخَالِفُہُ فِیْ نَفْسِہَا وَمَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ)) ( النسائی،النکاح باب أی النساء خیر:3231،وصححہ الألبانی فی صحیح سنن النسائی والصحیحۃ :1838)

’’ وہ جو کہ اسے ( خاوند کو) خوش کردے جب وہ اسے دیکھے اور اس کی فرمانبرداری کرے جب وہ اسے حکم دے اور اپنے نفس اورمال میں اس کی خلاف ورزی نہ کرے جسے وہ ناپسند کرے ۔ ‘‘

اور خا وند کی نافرمانی کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے نافرمان بیوی کی نماز تک قبول نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( اِثْنَانِ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُہُمَا رُؤُوْسَہُمَا: عَبْدٌ أبَقَ مِنْ مَوَالِیْہِ حَتّٰی یَرْجِعَ، وَامْرَأَۃٌ

عَصَتْ زَوْجَہَا حَتّٰی تَرْجِعَ )) (صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1948)

’’دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقاؤں سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آجائے اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبرداربن جائے ۔‘‘

ہاں یہ بات یاد رہے کہ خاوند کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو اور اگر خاوند کسی ایسی بات کا حکم دے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو تو اس میں خاوند کی اطاعت ہرگز نہیں ہو گی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ ،إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ )) (متفق علیہ)

’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے ۔ ‘‘

03.بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے

بیوی پر خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( لَا یَحِلُّ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تَصُوْمَ وَزَوْجُہَا شَاہِدٌ إِلَّا بِإِذْنِہٖ )) (صحیح البخاری،النکاح باب لا تأذن المرأۃ فی بیت زوجہا:5195،صحیح مسلم، الزکاۃ :1026)

’’کسی عورت کیلئے حلال نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کی بغیر ( نفلی ) روزہ رکھے۔ ‘‘

04.بیوی خاوند کے مال اور اس کی جائیداد کی حفاظت کرے

بیوی پر خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ وہ اس کے مال اور جائیداد کی حفاظت کرے اور خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں کوئی تصرف نہ کرے ۔

حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :

(( لَا تُنْفِقِ الْمَرْأَۃُ شَیْئًا مِنْ بَیْتِ زَوْجِہَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا،قِیْلَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَا الطَّعَامَ ؟ قَالَ : ذَاکَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا )) (حمد:267/5،سنن الترمذی،الزکاۃ باب فی نفقۃ المرأۃ من بیت زوجہا670،سنن ابن ماجہ، التجارات باب ما للمرأۃ من مال زوجہا:2295، وحسنہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ :1873)

’’ کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ بھی خرچ نہ کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کھانا بھی کسی کو نہ دے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھانا تو ہمارا بہترین مال ہے۔ ‘‘

05.بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے

بیوی پر خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( ۔۔وَلَا تَأْذَنَّ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا بِإِذْنِہٖ )) (صحیح البخاری:5195،صحیح مسلم :1026)

’’ اور وہ خاوند کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے ۔‘‘

اور خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

(( أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا،وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا،فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ فَلَا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَہُوْنَ،وَلَا یَأْذَنَّ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَہُوْنَ )) (سنن الترمذی،الرضاع،باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجہا:1163،سنن ابن ماجہ ،النکاح،باب حق المرأۃ علی زوجہا:1851،قال الترمذی:حسن صحیح)

’’ خبردار ! بے شک تمھارا تمھاری بیویوں پر حق ہے اور تمھاری بیویوں کا تم پر حق ہے ۔ رہا تمھارا تمھاری بیویوں پر حق تو وہ یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم نا پسند کرو اور نہ ہی وہ تمھارے گھروں میں کسی ایسے شخص کو داخل ہونے کی اجازت دیں جو آپ کو نا پسند ہو ۔ ‘‘

06.خاوند کی شکر گذاری

بیوی پر خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اس کی شکر گذار رہے اورکبھی اس کی ناشکری نہ کرے کیونکہ خاوند کی ناشکری کرنا حرام ہے اور بہت بڑا گناہ ہے ۔

نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو خاوند کی ناشکری کرتی تھیں اور اس کے احسانات کو بھلا دیتی تھیں ۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر تم زندگی بھر احسانات کرتے رہو ، پھر وہ تمھاری طرف سے کوئی کمی کوتاہی دیکھ لے تو کہتی ہے : میں نے تو کبھی تجھ سے کوئی خیر دیکھی ہی نہیں ۔ ‘‘ (صحیح البخاری،الإیمان باب کفران العشیر:29،صحیح مسلم،الکسوف :907)

اور ناشکری بیوی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَی امْرَأَۃٍ لَا تَشْکُرُ لِزَوْجِہَا ، وَہِیَ لَا تَسْتَغْنِیْ عَنْہُ )) (صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :1944،والصحیحۃ : 289)

’’ اللہ تبارک وتعالیٰ اس عورت کی طرف دیکھتا ہی نہیں جو اپنے خاوند کی ناشکری ہو حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ ‘‘

ان احادیث کے پیشِ نظر بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کی شکر گذار اور احسانمند ہو اور اس کے تمام حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ یَّسْجُدَ لِبَشَرٍ،وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ یَّسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا لِعِظَمِ حَقِّہٖ عَلَیْہَا )) (احمد ، والبزار ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : 1936)

’’ کسی انسان کیلئے حلال نہیں کہ وہ کسی انسان کے سامنے سجدہ ریز ہو اور اگر ایسا کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ ریز ہوکیونکہ اس پر اس کا حق بہت بڑا ہے ۔ ‘‘

اور بیوی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے ۔ جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْمَرْأَۃُ لَا تُؤَدِّیْ حَقَّ اللّٰہِ حَتّٰی تُؤَدِّیَ حَقَّ زَوْجِہَا،حَتّٰی لَوْ سَأَلَہَا وَہِیَ عَلٰی ظَہْرِ قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْہُ نَفْسَہَا )) (صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1943)

’’ عورت اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر کا حق ادا کرے حتی کہ اگر وہ کجاوے کی پیٹھ پر ہو اور اس کا شوہر اسے ( اپنی حاجت کیلئے ) بلائے تو وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کرنے سے انکار نہ کرے۔ ‘‘

اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی ایک بیٹی کو لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میری اس بیٹی نے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اپنے باپ کی فرمانبرداری کرو ۔ ‘‘اس نے کہا : اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! میں اس وقت تک شادی نہیں کرونگی جب تک آپ مجھے یہ نہیں بتاتے کہ بیوی پرخاوند کا حق کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم

نے فرمایا: (( حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہٖ لَوْ کَانَتْ بِہٖ قُرْحَۃٌ فَلَحَسَتْہَا أَوِ انْتَثَرَ مِنْخَرَاہُ صَدِیْدًا أَوْ دَمًا ثُمَّ ابْتَلَعَتْہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ )) (صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1934)

’’بیوی پر شوہر کا حق اتنا بڑا ہے کہ اگر اس پر کوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے ، یا اس کے نتھنوں سے پیپ یا خون بہہ نکلے اور وہ اسے نگل لے تو تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتی ۔ ‘‘

اس لڑکی نے کہا : اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! تب تو میں کبھی شادی نہیں کرونگی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لڑکیوں کی شادی ان کی اجازت کے بغیر نہ کیا کرو‘‘

ان تینوں احادیث کو سامنے رکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شریعت میں خاوند کے حقوق کو کتنا اہم قرار دیا گیا ہے اور بیوی کو ان کے ادا کرنے کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے !

خاوند پر بیوی کے حقوق

بیوی پر خاوند کے حقوق تو آپ نے معلوم کرلئے ۔ آئیے اب خاوند پر بیوی کے حقوق بھی جان لیجئے :

01.حق مہر

خاوند پر بیوی کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ اسے حق مہر ادا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیْئًا مَّرِیْئًا﴾ (النساء4 :4)

’’ اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ۔ ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ ۔ ‘‘

اس آیت میں عورتوں کا مہر انھیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لہٰذا شوہروں پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی بیویوں کو ان کا حق مہر ادا کریں ۔ ہاں اگر کوئی عورت خود اپنی مرضی سے کچھ مہر معاف کردے تو وہ مرد کیلئے حلال ہے لیکن سرے سے اس کو اس کا حق ادا کرنے سے انکار کردینا ، یا زبردستی اس سے حق مہر معاف کروا لینا بہت بڑا جرم ہے اور عورت پر ظلم وزیادتی ہے ۔ اِس کی سنگینی کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلٰی مَا قَلَّ مِنَ الْمَہْرِ أَوْ کَثُرَ ، لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ أَنْ یُّؤَدِّیَ إِلَیْہَا

حَقَّہَا ، خَدَعَہَا ، فَمَاتَ وَلَمْ یُؤَدِّ إِلَیْہَا حَقَّہَا لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَہُوَ زَانٍ)) (صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1807)

’’جو شخص کم یا زیادہ حق مہر پر کسی عورت سے شادی کرے اور اس کے دل میں اس کا حق اسے ادا کرنے کا خیال ہی نہ ہو تو وہ اس سے دھو کہ کرتا ہے ۔ پھر اس حال میں اس کی موت آ جائے کہ ابھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا تھا تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ زانی ( بد کار ) ہو گا ۔‘‘

حق مہر کے سلسلے میں ظلم وزیادتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شوہر کی جانب سے اگر بیوی کو اس کا حق مہر اداکر دیا جائے تو بعض اوقات اس کا والد اس پر قبضہ کر لیتا ہے حالانکہ حق مہر تو خالصتا بیوی کا ہی حق ہوتا ہے جو اسے ہی ملنا چاہئے ۔ ہاں اگر عورت اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ اپنے والد کو دے دے تو وہ اس کیلئے حلال ہے ۔

حق مہر کے متعلق چند ضروری مسائل

01.شریعت میں حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی اور اسے نکاح کرنے والے کی مالی حیثیت پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس لئے ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق ہی حق مہر دینے کا پابند ہے اور اسے اتنا حق مہر ہی طے کرناچاہئے جتنا وہ بآسانی دے سکتا ہو ۔ لیکن اس دور میں کئی لوگ بوقت ِ نکاح توبڑھا چڑھا کرحق مہر مقرر کر دیتے ہیں مگر اس کے بعد یا تو حالات کی مجبوری کے باعث ادا نہیں کر سکتے ، یا پھر جان بوجھ کر پورا حق مہر ہی کھا جاتے ہیں ، یا اس کا کچھ حصہ تو ادا کردیتے ہیں اور باقی ہضم کر جاتے ہیں ، یا پھر عورت پر دباؤ ڈال کر یا اسے بہلا کر پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ اس سے معاف کروا لیتے ہیں۔ تو اس ظلم وزیادتی تک نوبت ہی کیوں آئے اگر شروع ہی سے اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کردیا جائے جو بآسانی ادا کیا جا سکے تو کیا وہ بہتر نہیں ؟ اور جب اللہ تعالیٰ نے اور اسی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر کی مقدار متعین نہیں فرمائی تو ہم خواہ مخواہ اپنے آپ کو مشقت میں کیوں ڈالیں اور اپنے نامۂ اعمال میں کیوں گناہ لکھوائیں ؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ2 :286)

’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ‘‘

بلکہ یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ اگر انسان کی مالی حیثیت کمزور ہو تو وہ کم حق مہر پر شادی کر سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ‘ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (( اِلْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیْدٍ)) ’’جاؤ ایک لوہے کی انگوٹھی ہی ڈھونڈ لاؤ ۔‘‘ پھر جب اس شخص کو لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :کیا تمھیں قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا:ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اسے یہ سورتیں ہی سکھلا دینا،میں نے اسی کے عوض تمھاری اس سے شادی کردی ہے ۔ (صحیح البخاری :5030،5120، صحیح مسلم :1425)

اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص زیادہ حق مہر ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ کم قیمت والی چیز کے عوض شادی کر سکتا ہے کیونکہ لوہے کی انگوٹھی بظاہر اتنی قیمت والی نہیں ہو سکتی ۔

اسی طرح جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے کچھ نہ کچھ دو ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمھاری وہ حطمی زرہ کہاں ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : وہ میرے پاس ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہی اس کو دے دو ۔ ‘‘ (سنن أبی داؤد:2125،سنن النسائی:3375،وصححہ الألبانی فی صحیح سنن النسائی:3160)

یہ تھاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق مہرجو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (( سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) ہونے کی بشارت دی ۔اس سے ثابت ہوا کہ کم حق مہر پر شادی کی جا سکتی ہے ۔

02.کم حق مہر ہی مستحب ہے

شریعت میں اگر چہ حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی لیکن اس بات کی طرف ترغیب ضرور دلائی گئی ہے کہ حق مہر کم ہو اور اتنا ہو جتنا آسانی سے ادا کیا جا سکے۔

اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( خَیْرُ النِّکَاحِ أَیْسَرُہُ )) (ابن حبان ۔ صحیح الجامع للألبانی :3300)

’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بآسانی ہو جائے ۔ ‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( خَیْرُ الصَّدَاقِ أَیْسَرُہُ )) (الحاکم والبیہقی ۔ صحیح الجامع للألبانی :3279)

’’ بہترین حق مہر وہ ہے جو بآسانی ادا کیا جاسکے ۔ ‘‘

اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بہت زیادہ حق مہر نہیں دیا تھا ۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو کتنا حق مہر دیا تھا ؟ تو انھوں نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو صرف ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی بطور حق مہر ادا کی جو کہ پانچ سو درہم کے برابر بنتی ہے ۔ (صحیح مسلم:1426)

جبکہ سعودی عرب کے بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ موجودہ دور کے مطابق پانچ سو درہم چاندی کا وزن 1487.5گرام بنتا ہے۔اور اگر یہ دیکھا جائے کہ اُس دور میں اتنے وزن چاندی کے برابر سونا کتنا تھا تو ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی کے بارہ درہم سونے کے ایک دینار کے برابر ہوتے تھے۔ اِس لحاظ سے پانچ سو درہم چاندی ساڑھے اکتالیس دینار سونے کے برابر ہو گی اور ایک دینار سونا آج کل کے وزن کے مطابق تقریبا سوا چار گرام کا ہوتا ہے ۔ یوں ساڑھے اکتالیس دینار سونے کا وزن 176.375 گرام ہو گا ۔ واللہ اعلم

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟انھوں نے جواب دیا: میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک عورت سے شادی کی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مبارکباد دی اور ولیمہ کرنے کا حکم دیا ۔ (صحیح البخاری :5072،5155، صحیح مسلم :1427)

ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم حق مہر ہی مستحب ہے ۔ ظاہر ہے کہ کوئی خاتون ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور دیگر صحابیات رضی اللہ عنہن سے تو افضل نہیں ہو سکتی ۔ جب ان کا حق مہر اتنا کم تھا تو اس دور کی خواتین یا ان کے سرپرستوں کو زیادہ حق مہر کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے ۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے : ’’ جس شخص کو اس کا نفس اس بات کی طرف دعوت دیتا ہو کہ اس کی بیٹی کا حق مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں اور بیویوں کے حق مہر سے زیادہ ہوحالانکہ وہ تو دنیا بھر کی خواتین کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والی ہیں تو وہ شخص یقینا جاہل اور احمق ہے ۔ ‘‘ (الفتاوی:194/32)

03.بڑھا چڑھا کرحق مہر مقرر کرنا شرعا مرغوب نہیں ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کو بتایا کہ اس نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کتنے حق مہر پر ؟ اس نے کہا : چار اوقیہ چاندی پر ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : چار اوقیہ ! یوں لگتا ہے جیسے تم اس پہاڑ کے دامن سے چاندی کریدتے ہو ۔ (صحیح مسلم:1424)

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار اوقیہ چاندی پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر کرنا شریعت میں مرغوب نہیں ہے ۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :

’’ تم عورتوں کے حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر نہ کیا کرو کیونکہ زیادہ حق مہر دینا اگر دنیا میں عزت وتکریم کا باعث ہوتایااللہ کے ہاں یہ تقوی کی بات ہوتی تو اسکے زیادہ حقدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی یا اپنی کسی بیٹی کیلئے بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ حق مہر مقررنہیں کیا۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ :1887،صححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ :1532)

02.نان ونفقہ

خاوند پر بیوی کا دوسرا حق یہ ہے کہ وہ اسے اپنی طاقت اور عرفِ عام کے مطابق نان ونفقہ اور رہائش مہیا کرے اور اس کے جائز اخراجات کو پورا کرے ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا :

(( وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)) (صحیح مسلم:1218)

’’ اور عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انھیں عرفِ عام کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو ۔ ‘‘

اور حضرت معاویہ القشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَنْ تُطْعِمَہَا إِذَا طَعِمْتَ،وَتَکْسُوَہَا إِذَا اکْتَسَیْتَ،وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ ،وَلَا تَہْجُرْ إِلَّا فِیْ الْبَیْتِ )) (أحمد:447/4، سنن أبی داؤد،النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجہا:2142،سنن ابن ماجہ،النکاح باب حق المرأۃ علی الزوج:1850،صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1929)

’’ اس کا حق یہ ہے کہ جب تم خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ اور جب تم خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ اور منہ پر نہ مارو اور گالی گلوچ نہ کرو اور اگر اسے چھوڑنا چاہو تو گھر ہی میں چھوڑو ۔ ‘‘

ان احادیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ بیوی کا نان ونفقہ اور لباس وغیرہ خاوند کے ذمے ہے اور خاوند کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے گا اگر اس میں وہ اپنی نیت درست کر لے اور اللہ

تعالیٰ سے اجر وثواب کا طلبگار ہو تو اس کا ہر چھوٹا بڑا خرچ اس کیلئے صدقہ بن جائے گا ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَإِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْہَا،حَتّٰی مَا تَجْعَلُ فِیْ فِی امْرَأَتِکَ )) (متفق علیہ)

’’ اور تو جو بھی خرچ کرے گا اس پر تجھے اجر دیا جائے گا بشرطیکہ تو اس کے ذریعے اللہ کی رضا کا طلبگار ہو حتی کہ تو جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے گا اس پر بھی تجھے اجر دیا جائے گا ۔ ‘‘

اور حضرت ابو مسعود البدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی أَہْلِہٖ نَفَقَۃً وَہُوَ یَحْتَسِبُہَا کَانَتْ لَہُ صَدَقَۃً )) (متفق علیہ)

’’جب ایک شخص اپنے گھر والوں پر خرچ کرے اور وہ اجر کا طلبگار ہو تو وہ اس کیلئے صدقہ بن جاتا ہے ۔ ‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( دِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہُ فِیْ رَقَبَۃٍ ، وَدِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ،وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہُ عَلٰی أَہْلِکَ،أَعْظَمُہَا أَجْرًا الَّذِیْ أَنْفَقْتَہُ عَلٰی أَہْلِکَ)) (صحیح مسلم 995)

’’ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جسے تم ایک غلام کی گردن کو آزاد کروانے میں لگاتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جس کے ساتھ تم ایک مسکین پر صدقہ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہو ۔ ان سب میں زیادہ اجر والا دینار وہ ہے جسے تم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہو ۔ ‘‘

تنبیہ :اہل وعیال پر خرچ کرنے کی فضیلت میں خاوند جہاں یہ احادیث اپنے مد نظر رکھے وہاں یہ بات بھی اس کے پیشِ نظر رہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اور اعتدال کی راہ اختیار کرنا ضروری ہے اور یہ بات اسے کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جہاں بخل کرنا مذموم ہے وہاں اسراف وفضول خرچی کرنا بھی حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے ضمن میں فرمایا ہے :

﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَامًا﴾ (الفرقان25:67)

’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے

درمیان گذر اوقات کرتے ہیں ۔ ‘‘

03.اچھے انداز سے بود وباش رکھنا

خاوند پر بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بود وباش رکھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُوْا شَیْْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْرًا کَثِیْرًا﴾ (النساء 4:19)

’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘

یعنی ان کے ساتھ اچھے انداز سے رہو ، ان سے اچھا سلوک کرو اور ان سے نرم رویہ اور عمدہ برتاؤ رکھو جیسا کہ تم خود ان سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ اچھے انداز سے رہیں اور ہر طرح سے تمھارا خیال رکھیں ۔

اچھے طرزِ بود وباش کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ بہت عمدہ برتاؤ کرتے تھے ، ان کا دل بہلاتے تھے ، ان سے بعض اوقات مزاح بھی کرتے تھے ، نمازِ عشاء کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں سے حال احوال دریافت کرتے ، ان سے گفتگو فرماتے ، ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے اورباری باری ہر ایک کے ساتھ آرام فرماتے … الغرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح سے اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر عورتوں کا یہ حق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بیان کرتے ۔ اس سلسلے میں چند احادیث آپ بھی سماعت فرما لیں :

01.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا،وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ )) (سنن الترمذی:1162:حسن صحیح،وانظر:السلسلۃ الصحیحۃ :284)

’’ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو اور تم سب میں بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو ۔ ‘‘

02.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً ، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ )) (صحیح مسلم:1469)

’’ کوئی مومن (اپنی ) مومنہ (بیوی ) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی عادت اسے نا پسند ہو گی تو کوئی عادت اسے پسند بھی تو ہوگی ۔ ‘‘

اس حدیث میں خاوند کو بیوی سے بغض رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اس کی کسی عادت کی بناء پر نا پسند کرتا ہو تو اس میں کوئی ایسی عادت بھی تو یقینا ہو گی جسے وہ پسند کرتا ہو گا ۔ لہٰذا وہ اس کی پسندیدہ عادات کو نا پسندیدہ عادات پر ترجیح دیتے ہوئے اس سے محبت کرے ۔ مثلا ایک عورت تعلیم یافتہ نہ ہو لیکن وہ کفایت شعار ہو ،امور خانہ داری بخوبی سر انجام دیتی ہو اور ہر حال میں اپنے خاوند کو راضی رکھنے کی کوشش کرتی ہو تو اس کی ان خصالِ حمیدہ کی بناء پر وہ اس کا تعلیم یافتہ نہ ہونا برداشت کر لے اور اس سے اچھے انداز سے نبھانے کی کوشش کرے ۔

03.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ ،فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ،وَإِنَّ أَعْوَجَ مَا فِیْ الضِّلَعِ أَعْلَاہُ،فَإِنْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہُ کَسَرْتَہُ،وَإِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ)) (صحیح البخاری:5185 و5186،صحیح مسلم :1468)

’’تم عورتوں کے متعلق اچھے سلوک کی میری وصیت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اسے سیدھا کرنا چاہیں گے تو اسے توڑ ڈالیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں گے تو اس کا ٹیڑھا پن بدستور باقی رہے گا۔ لہٰذا تم عورتوں سے اچھا برتاؤ ہی کیا کرو ۔ ‘‘

04.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :

(( فَاتَّقُوا اللّٰہَ فِی النِّسَائِ،فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ،وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ )) (صحیح مسلم:1218)

’’ تم عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی ذمہ داری پر لیا ہے اور انھیں اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے ۔ ‘‘

ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی کا خاوند پر لازمی حق ہے کہ وہ اس سے اچھا برتاؤ کرے اور اسے اذیت دینے سے پرہیز کرے ۔

اور اگر بیوی خاوند کی نافرمانی کرتی ہو یا بد خلقی سے پیش آتی ہو یا ہٹ دھرمی دکھاتی ہو تو اس کے بارے میں خاوند کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہئے :

﴿وَاللَّاتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلًا ﴾ (النساء4 :34)

’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ۔ ( اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو ۔ ( پھر بھی نہ سمجھیں ) تو انھیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں ۔ پہلا یہ کہ اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھاؤ ۔ اگر وہ سمجھ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دوسرا اقدام یہ ہے کہ اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کردو ۔ اگر اس میں ذرا برابر بھی عقل ہو گی تو وہ یقینا راہ راست پر آجائے گی لیکن اگر وہ اس کے باوجود بھی نہ سمجھے تو آخری حربہ یہ ہے کہ اسے مارو … لہٰذا مار آخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں ۔اور یہ بات بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مار کو اس بات سے مشروط کر دیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ )) (صحیح البخاری،النکاح باب ما یکرہ من ضرب النساء:5204،صحیح مسلم: الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون :2855)

’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے وہ اپنے غلام کو مارتا ہے ، پھر وہ دن کے آخر میں اس سے ہمبستری بھی کرے ۔ ‘‘

اور دووسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ۔۔۔ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ ،وَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ )) (سنن الترمذی،الرضاع باب فی حق المرأۃ علی زوجہا)

’’ اگر وہ ( بے حیائی ) کریں تو تم اپنے اور ان کے بستر الگ الگ کردو اور اس طرح مارو کہ انھیں چوٹ نہ آئے ۔ ‘‘

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! جیسا کہ پہلے خطبے میں آپ نے سماعت فرمایا کہ خاوند کے بیوی پر کونسے حقوق ہیں اور بیوی کے شوہر پر کونسے حقوق ہیں ۔ بیوی کے حقوق میں سے ایک حق باقی ہے جسے اس خطبے میں ذکر کرتے ہیں ۔

04.حق خلع

شوہر پر بیوی کا چوتھا حق یہ ہے کہ اگر کسی شرعی عذر کی بناء پر بیوی خاوند کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ خاوند کو واپس کرکے اس سے طلاق لے سکتی ہے ۔ ’’ شرعی عذر ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مثلا خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو یا خاوند بلا عذر بیوی کو تنگ کرتا ہو اور اس نے اس کا جینا حرام کردیا ہو یا خاوند بیوی کے درمیان ناچاقی ہونے کے بعد صلح کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہوں اور خاوند نہ تو اسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہو اور نہ ہی اسے طلاق دینے پر آمادہ ہو ۔ تو اس طرح کے شرعی عذر کی موجودگی میں بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوندد سے لیا ہوا حق مہر ( پورا یا کچھ حصہ ‘جتنے پر اتفاق ہو) واپس کردے اور اس سے طلاق لے لے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ﴾ (البقرۃ2 229 )

’’ ہاں اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘

اور اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت معروف ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے اپنے خاوند کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو ۔ ‘‘ (صحیح البخاری،الطلاق باب الخلع:5273)

لیکن عورت کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اسے حقِ خلع تو حاصل ہے مگر تب جبکہ شرعی عذر موجود ہو اور رہا بغیر شرعی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا تو یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا الطَّلَاقَ،مِنْ غَیْرِ مَا بَأْسٍ،فَحَرَامٌ عَلَیْہَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ )) (أحمد،سنن أ بی داؤد،سنن الترمذی،سنن ابن ماجہ،صحیح الجامع للألبانی: 2706)

’’ جو عورت بغیر کسی معقول عذر کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہو جاتی ہے۔ ‘‘

یہ تھے خاوند بیوی کے ایک دوسر ے پر حقوق ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دینِ حنیف کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین