خروج دجال اور نزول عیسی علیہ السلام

(1)

قرب قیامت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے

قرآن مجید میں اور

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں قیامت سے پہلے عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کے عادل و منصف امام بن کر نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (الزخرف : 61)

اور بلاشبہ وہ یقینا قیامت کی ایک نشانی ہے تو تم اس میں ہرگز شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو، یہ سیدھاراستہ ہے۔

اسی آیت کی دوسری قراءت ’’وَ إِنَّهُ لَعَلَمٌ لِلسَّاعَةِ‘‘ ہے، یعنی وہ قیامت واقع ہونے کا ایک نشان اور دلیل ہے۔

’’ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ‘‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا وجود قیامت قائم ہونے کی نشانی اور دلیل ہے، کیونکہ وہ عام دستور کے خلاف باپ کے بغیر پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کے اذن سے مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا نشان ہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے پر بھی یقینا قادر ہے۔

(تفسیر القرآن الكريم ازاستاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

قیامت سے پہلے واقع ہونے والی دس بڑی نشانیوں میں سے ایک دجال

سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے کمرے کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہم نے قیامت کا ذکر کیا اور ہماری آوازیں بلند ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ (بخاری ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي الْآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ7285)

قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔

پھر ذکر کیا

دھوئیں کا

دجال کا

زمین کے جانور کا

سورج کے مغرب سے نکلنے کا

عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا

یاجوج ماجوج کے نکلنے کا

تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں۔

اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے (میدان)محشر کی طرف لے جائے گی۔

دجّال کا ذکر قرآنِ کریم میں نہ ہونے کی کیا حکمت ہے؟

جؤاب :

تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ آنجناب محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث بھی دین ہے.

دجال کے آنے سے پہلے عرب مسلمانوں کی تعداد کم ہو جائےگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کیا تو ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ

یا رسول اللہ اس وقت عرب کہاں ہوں گے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

هُمْ قَلِيلٌ

وہ بہت کم ہوں گے۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ  بَابٌ فِي بَقِيَّةٍ مِنْ أَحَادِيثِ الدَّجَّالِ7393)

دجال کے آنے سے پہلے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خونریز جنگ ہوگی

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"قیامت قائم نہیں ہو گی ،یہاں تک کہ رومی (عیسائی) اعماق یا دابق میں اتریں گے۔

(یہ تاریخی بستی شام کے شہر حلب کی ایک جانب واقع ہے یہاں سے موجودہ ترکی صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے)

ان کے ساتھ مقابلے کے لیے (دمشق )شہر سے(یامدینہ سے) اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا

جب وہ (دشمن کے سامنے) صف آراءہوں گے تو رومی (عیسائی )کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وہ ان (عیسائیوں )سے جنگ کریں گے۔ان(مسلمانوں )میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے

اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے ۔وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔(ہمیشہ ثابت قدم رہیں گے)اور قسطنطنیہ کو(دوبارہ) فتح کریں گے ۔(پھر) جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔ مسیح(دجال)تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام(دمشق )پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي فَتْحِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ وَنُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ7278)

جب مسلمان خشکی اور سمندر کے بیچ واقع ایک شہر فتح کرلیں گے تب دجال آجائے گا

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم نے ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں ہے اور دوسری جانب سمندر میں ہے؟”انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی ،جی ہاں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کے خلاف بنو اسحاق میں سے ستر ہزار لوگ جہاد کریں گے،وہاں پہنچ کر وہ اتریں گے تو ہتھیار اس سے جنگ کریں گے نہ تیر اندازی کریں گے،وہ کہیں گے،لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر،تو اس(شہر) کی ایک جانب گرجائےگی۔”

ثور نے کہا:میں ہی جانتا ہوں کہ انھوں(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہی(کنارہ) کیا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو سمندر میں ہے،پھر وہ دوسری بار لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہیں گے تو اس(شہر) کا دوسرا کنارابھی گرجائے گا،پھر وہ تیسری بار لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہیں گے تو ان کے لیے راستہ کھل جائے گا اور وہ اس(شہر) میں داخل ہوجائیں گے اور غنائم حاصل کریں گے۔جب وہ مال غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے تو ایک چیختی ہوئی آواز آئے گی جو کہےگی :دجال نمودار ہوگیا۔چنانچہ وہ(مسلمان) ہر چیز چھوڑدیں گے اور واپس پلٹ پڑیں گے۔”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ7333)

دجال سے بڑی کوئی مخلوق آج تک پیدا نہیں ہوئی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ اِلٰی قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ ]

[ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ۲۹۴۶، عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ]

’’آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کوئی مخلوق دجال سے بڑی نہیں ہوئی۔‘‘

ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7363)

"کوئی نبی نہیں (گزرا مگر اس نے اپنی امت کوکانے کذاب سے ڈرایا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَإِنِّي أَنْذَرْتُكُمْ بِهِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7372)

میں نے اسی طرح تمھیں اس سے خبر دار کر دیا ہے۔جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے بارے میں اپنی قوم کو خبردار کیاتھا۔

دجال کہاں سے آئے گا

نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کیا

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ منبر پرخطبہ دے رہے تھے ،آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ قِصَّةِ الجَسَّاسَةِ7386)

خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا:

أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ 4072 ورواہ الترمذي برقم 2163)

‘‘دجال مشرق کی ایک زمین سے نکلے گا، اسے خراسان کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کا اتباع کریں گے، ان کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ دار ڈھال ہوتی ہے’’۔

تمیم داری رضی اللہ عنہ کی دجال سے ملاقات، اس وقت دجال کہاں ہے اور دجال کا حلیہ بیان کرنا

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمیم داری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دجال کا حال سناتے ہوئے فرمایا

"تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔

لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟

اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔

لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟

اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔

تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟

اس نے کہا تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے (اور پھر ایک حادثہ کا شکار ہو کر یہاں تک پہنچے ہیں)

پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔

(یہ فلسطین کا ایک شہر ہے جو نہر جالوت کے جنوب مغرب میں واقع ہے)

ہم نے کہا کہ تو اس کا کیوں حال پوچھتا ہے؟

اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟

ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔

اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔

اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔

(یہ اردن اور فلسطین کے درمیان واقع ہے)

ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا حال کیوں پوچھتا ہے؟

وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔

اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔

پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔

(زغر، اردن میں بحیرہ مردار کے کنارے پر واقع ایک بستی ہے علامہ ابن اثیر کہتے ہیں زغر شام میں بلقاء کی سرزمین پر واقع ایک چشمہ ہے)

لوگوں نے کہا کہ اس کا حال کیوں پوچھتا ہے؟

اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟

ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔

اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ ان کا کیا بنا؟

لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔

اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟

ہم نے کہا کہ ہاں۔

اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔

اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟

ہم نے کہا کہ ہاں۔

اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں،سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ قِصَّةِ الجَسَّاسَةِ 7386)

جس دن دجال کو شدید غصہ آئے گا اس دن وہ اپنی قید کے حصار کو توڑ کر باہر نکل آئے گا

ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا :

أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا

(مسلم ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7359)

کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

"دجال غصہ آجانے کی وجہ سے ہی(اپنی حقیقی صورت میں ) برآمد ہوگا۔”

دجال کی دونوں آنکھیں کانی ہوں گی اور بال گھنے گچھے دارہوں گے

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ الدَّجَّالِ حَدِيثًا مَا حَدَّثَهُ نَبِيٌّ قَوْمَهُ إِنَّهُ أَعْوَرُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7372)

"کیا میں تمھیں دجال کے متعلق ایسی بات نہ بتاؤں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی ۔وہ یقینی طور پر کانا ہو گا۔”

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِئَةٌ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ،بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ 7361)

"بلاشبہ مسیح دجال داہنی آنکھ سے کاناہے۔ اس کی آنکھ اس طرح ہے جیسے ابھراہواانگورکادانہ۔”

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى جُفَالُ الشَّعَرِ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7366)

"دجال کی بائیں آنکھ (بھی)عیب دار ہوگی اور بال گھنے گچھے دارہوں گے”

دجال کی دائیں آنکھ اس طرح ہوگی کہ گویا بالکل ہی بے نور اور مٹی ہوئی ہے اور اس پر موٹا سا انگور کی طرح دانہ پھولا ہوگا اور بائیں آنکھ کانی ہوگی

دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان (ک ف ر) کافر لکھا ہوگا

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الدَّجَّالُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر أَيْ كَافِرٌ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ،بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7364)

"دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ریعنی کافر لکھا ہوا ہو گا۔”

اور مسلم ہی کی (7367)نمبر روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ وَغَيْرِ كَاتِبٍ

اسےہر مومن لکھنے (پڑھنے)والاہویا نہ لکھنے(پڑھنے)والا، پڑھ لے گا۔

عبدالعزی بن قطن سے دجال کی تشبیہ

عبد العزیٰ بن قطن ایک یہودی آدمی تھا یا پھر مشرک بت پرست تھا جیسا کہ اس کے نام "عبدالعزی یعنی عزی کا بندہ” سے ظاہر ہوتا ہے

(تحفۃ الاحوذی)

خزاعہ قبیلے کی شاخ بنو مصطلق سے تعلق رکھتا تھا اور جاہلیت میں ہی فوت ہو گیا تھا

(فتح الباری)

معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب لوگوں میں اس کی شکل و صورت معروف تھی

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

"وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

دجال کی تیز رفتاری

نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

"بادل/بارش کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔”

دجال کتنا عرصہ رہے گا

نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

دجال کتنا عرصہ رہے گا

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

چالیس دن رہے گا ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا اور دوسرا دن ایک مہینہ کے برابر اور تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر ہوگا اور پھر باقی دن عام روٹین کے مطابق ہوں گے

تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول یہ جو ایک سال کے برابر دن ہے کیا اس میں ایک دن کی نمازیں کافی ہو جائیں گی

تو آپ نے فرمایا :نہیں، بلکہ عام دنوں کے حساب سے ہی اندازہ لگا کر نمازیں پڑھیں

دجال ،مدینہ اور مکہ کے علاوہ دنیا کے ہر شہر میں داخل ہو گا

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ وَلَيْسَ نَقْبٌ مِنْ أَنْقَابِهَا إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ تَحْرُسُهَا فَيَنْزِلُ بِالسِّبْخَةِ فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ يَخْرُجُ إِلَيْهِ مِنْهَا كُلُّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ قِصَّةِ الجَسَّاسَةِ7390)

” مکہ اور مدینہ کے علاوہ کوئی شہر نہیں مگر دجال! اسے روندے گا۔ان(دو شہروں) کے راستوں میں سے ہر راستے پر فرشتے صف باندھتے ہوئے پہرہ دے رہے ہوں گے پھر وہ ایک شوریلی زمین میں اترے گا۔اس وقت مدینہ تین بارلرز ےگا اور ہر کافر اور منافق اس میں سے نکل کر اس(دجال) کے پاس چلا جائے گا۔”

مدینہ منورہ میں تو دجال کا خوف بھی داخل نہیں ہو گا

ابوبکرہ سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا

لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ رُعْبُ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ بَابٍ مَلَكَانِ

(بخاری ،كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7125)

مدینہ والوں پر دجال کا رعب نہیں پڑنے کا اس دن مدینہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو فرشتے( پہرہ دیتے) ہوں گے۔

فرشتے، دجال کو احد پہاڑ کے پیچھے سے ہی شام کی طرف بھگا دیں گے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

يَأْتِي الْمَسِيحُ إِذَا جَاءَ دُبُرَ أُحُدٍ صَرَفَتْ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ وَهُنَالِكَ يَهْلَكُ

(ترمذی ،أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّجَّالِ لاَ يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ2243)

‘جب مسیح دجال احدکے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیردیں گے اورشام ہی میں وہ ہلاک ہوجائے گا’۔

لوگ دجال سے چھپتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے

ام شریک نے خبر دی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :

لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنْ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي بَقِيَّةٍ مِنْ أَحَادِيثِ الدَّجَّالِ7393)

"لوگ دجال سے فرار ہوکر پہاڑوں میں جائیں گے۔”

دجال سے دور رہنے کا حکم

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ – يبتعد – مِنْهُ ، فَإِنَّ الرَّجُلَ يَأْتِيهِ يَتَّبِعُهُ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ بِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنْ الشُّبُهَاتِ "

روى الإمام أحمد ( 19118 ) وأبو داود (3762 ) والحاكم ( 4/531 )

تم میں سے جو کوئی بھی دجال کے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے کیونکہ اگر کوئی آدمی اس کے پیچھے جائے گا تو (غالب امکان ہے کہ) اس کی پیروی کرلے گا حالانکہ وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میں دجال کے شبہات کو اچھی طرح جانتا ہوں

یہود، دجال کا ہراول دستہ ہوں گے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمْ الطَّيَالِسَةُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي بَقِيَّةٍ مِنْ أَحَادِيثِ الدَّجَّالِ7392)

"اصبہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار(یہودی) دجال کی پیروی کریں گے،ان(کے جسموں) پر طینسان کی حبائیں ہوں گی۔”

الطَّيَالِسَةُ، سبز یا کالے رنگ کی خاص قسم کی چادروں یا ٹوپیوں کو کہتے ہیں

عورتوں کی کثرت دجال کی تابعداری کرے گی

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَيَكُونُ أَكْثَرَ مَنْ يَخْرُجُ إِلَيْهِ النِّسَاءُ ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَرْجِعُ إِلَى حَمِيمِهِ وَإِلَى أُمِّهِ وَابْنَتِهِ وَأُخْتِهِ وَعَمَّتِهِ فَيُوثِقُهَا رِبَاطًا مَخَافَةَ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ ” (رواه أحمد برقم 5099)

عورتوں کی اکثریت دجال کی طرف نکلے گی (اور اس کے شبہات کا شکار ہو گی) حتی کہ آدمی اپنے گھر میں آکر اپنی ماں، بیٹی، بہن اور پھوپھی کو مضبوطی سے باندھ دے گا اس وجہ سے کہ کہیں وہ دجال کی طرف نہ نکل جائے

دجال اپنے فرمانبرداروں کو نوازے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل )کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

دجال اپنے نہ ماننے والوں کو قحط سالی میں مبتلا کردے گا

پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

دجال بنجر زمین سے خزانے نکالے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وہ (دجال)بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین )کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

دجال کے ساتھ ایک جنت اور ایک دوزخ ہوگی

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7366)

اس کے ہمراہ ایک جنت ہوگی اور ایک دوزخ ہوگی۔اس کی دوزخ (حقیقت میں)جنت ہو گی اور اس کی جنت اصل میں دوزخ ہو گی۔

حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اس کے ساتھ دوچلتے ہوئے دریا ہوں گے۔دونوں میں سے ایک بظاہر سفید رنگ کاپانی ہوگا اور دوسرا بظاہربھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔اگر کوئی شخص اس کو پالے تو اس دریا کی طرف آئے جسے وہ آگ (کی طرح )دیکھ رہا ہے اور اپنی آنکھ بند کرے۔پھر اپنا سر جھکا ئے اور اس میں سے پیے تو وہ ٹھنڈا پانی ہو گا۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7367)

دجال پیدائشی اندھوں کو ٹھیک کرے گا

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وإنه يبرئ الأكمه والأبرص ويقول: أنا ربكم

رواه الطبرني في (الكبير) و (الأوسط) ورجاله ثقات وفي بعضهم خلاف لا يضر كما قال في (مجمع الزوائد) (٧/ ٣٣٦)

"وہ پیدائشی اندھوں اور برص کی بیماری والوں کو ٹھیک کرے گا اور یہ دعویٰ بھی کرے گا کہ میں تمہارا رب ہوں”

دجال ایک نوجوان کو قتل کرکے زندہ کرنے کا کرتب دکھائے گا

پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار ۔مار کر( یکبارگی)دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا)ہو۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

دجال،لوگوں کے فوت شدہ والدین کو زندہ کرنے کا کرتب کرے گا

أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه قال النبي صلى الله عليه وسلم عن الدجال : ” وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ لأَعْرَابِيٍّ أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَقُولانِ يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّكَ ” رواه ابن ماجه برقم 4067 . وصححه الألباني ( صحيح الجامع الصغير / حديث رقم 7752 ) .

مدینہ منورہ کا ایک نوجوان دجال کا مقابلہ کرے گا

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"دجال نکلےگا تو مومنوں میں سے ایک شخص اس کا رخ کرے اسے دجال کے اسلحہ بردارمحافظ ملیں گے

اور اس سے پوچھیں گے۔کہاں جانا چاہتے ہو؟

وہ کہے گا ۔میں اس شخص کی طرف جانا چاہتا ہوں جو(اب) نمودار ہوا ہے

وہ اس سے کہیں گے۔ کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں رکھتے ؟

وہ کہے گا، ہمارے رب(کی ربوبیت اور صفات ) میں کوئی پوشیدگی نہیں

وہ (اس کی بات پر مطمئن نہ ہوتے ہوئے)کہیں گے۔ اس کو قتل کردو۔پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے۔ کیا ہمارے رب نے ہمیں منع نہیں کیا تھا کہ اس (کے سامنے پیش کرنے) سےپہلے کسی کو قتل نہ کرو ۔وہ اسے دجال کے پاس لے جائیں گے۔

وہ مومن جب اسے دیکھے گا تو کہے گا لوگو!یہ وہی دجال ہے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا ۔

تودجال اس کے بارے میں حکم دے گا تو اس(کے اعضاء )کو کھینچ کر باندھ دیا جا ئے گا

پھر وہ کہے گا۔اسے پکڑواور اس کاسر اور منہ توڑ دو

تو (مارمارکر)اس کا پیٹ اور اس کی کمر چوڑی کردی جائے گی۔

پھر وہ (دجال) کہے گا۔کیا تم مجھ پر ایمان نہیں لاؤگے؟

"تو وہ کہے گا تم جھوٹے (بناوٹی)مسیح ہو۔

"پھر اس کے بارے میں حکم دیا جا ئے گا۔تو اس کی پیشانی سے اسے آری کے ساتھ چیرا جائے گا۔یہاں تک کے اس کے دونوں پاؤں الگ الگ کر دیے جائیں گے۔

"پھر دجال دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا۔ پھر اس سےکہے گا۔کھڑے ہوجاؤچنانچہ وہ سیدھا کھڑا ہو جا ئے گا۔

وہ پھر اس سے کہے گا کیا مجھ پر ایمان لاتے ہو؟

وہ کہے گا۔ (اس سب کچھ سے) تمھارے بارے میں میری بصیرت میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں ہوا۔

پھر وہ شخص کہے گا لوگو!یہ(دجال) اب میرے بعد لوگوں میں کسی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکے گا۔

دجال اسے ذبح کرنے کے لیے پکڑے گا تو اس کی گردن سے اس کی ہنسلی کی ہڈیوں تک (کاحصہ )تانبے کا بنایا جا ئے گا وہ کسی طریقے سے (اسے ذبح)نہ کر سکے گا۔

تو وہ اس کے دونوں پاؤں اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کراسے پھینکےگا۔لوگ سمجھیں گےاس (دجال )نے اسے آگ میں پھینک دیا ہے جبکہ (اصل میں وہ) جنت میں ڈال دیا جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

هَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ

"شہادت میں رب العالمین کے سامنے یہ شخص سب لوگوں سے بڑا ہے۔”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي صِفَةِ الدَّجَّالِ، وَتَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ عَلَيْهِ وَقَتْلِهِ الْمُؤْمِنَ وَإِحْيَائِهِ7377)