خرید وفروخت کے آداب واحکام

اہم عناصرِ خطبہ :

01. بیع ( خرید وفروخت ) حلال ہے

02.  خرید وفروخت کے آداب

03. خرید وفروخت کے احکام

پہلا خطبہ

محترم حضرات !

روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ مسجد ہے اور سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہ بازار ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے  : ( أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُہَا ، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ أَسْوَاقُہَا )  [ مسلم : ۶۷۱]

’’ شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ان میں پائی جانے والی مساجد ہیں ۔ اور شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ان میں پائے جانے والے بازار ہیں ۔ ‘‘

’بازار ‘ جہاں خرید وفروخت کے معاملات طے ہوتے ہیں ، اگرچہ سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہ ہے ، لیکن اس بازار میں جانا اور خرید وفروخت کرنا انسان کی ایک اہم ضرورت ہے اور اُس کیلئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اسی  لئے اللہ تعالی نے ’ بیع ‘ ( یعنی خرید وفروخت ) کو حلال قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ  اس کا فرمان ہے :

﴿وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾  [ البقرۃ : ۲۷۵]

’’اور اللہ نے خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام کردیا ہے ۔ ‘‘

جاہلیت کے دور میں بھی عربوں کے مشہور بازار لگتے تھے اور ان میں لوگ تجارت وکاروبار کرتے تھے اور ضرورتمند

لوگ اپنی ضرورتوں کے مطابق لین دین کیا کرتے تھے ۔ پھر جب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے تو آپ بھی بازار میں جایا کرتے تھے اور ضروری اشیاء کی خریدوفروخت کیا کرتے تھے ۔ کفارِ مکہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر جو اعتراضات کئے تھے ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ

﴿ مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْاَسْوَاقِ  ﴾ [ الفرقان : ۷ ]

’’یہ کیسا رسول ہے کہ جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی بازاروں میں جاکر مختلف چیزوں کا کاروبار کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کپڑے کا کاروبارکرتے تھے ۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  بعض شرعی احکام سے ناواقفیت کا عذر یہ پیش کرتے تھے کہ وہ بازاروں میں لین دین کے معاملات میں مشغول رہتے تھے ۔ اسی طرح حضرت عبد الرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ  اور حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  بھی مشہور تاجروں میں سے تھے ۔

اِس سے یہ ثابت ہوا کہ بازار اگرچہ اللہ تعالی کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے ، اس کے باوجود اپنی ضرورتوں کیلئے اس میں جانا اور وہاں خرید وفروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے ۔ تاہم اس کے کچھ آداب واحکام ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ۔ ان شاء اللہ ۔ انہی آداب واحکام کا تذکرہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں گے ۔

خرید وفروخت کے آداب

01. بازار میں داخل ہونے کی دعا

بازار میں داخل ہونے سے پہلے مسنون دعا پڑھ لینی چاہئے جس کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

’’ جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے :

( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ) [ الترمذی : ۳۴۲۸۔ وحسنہ الألبانی ]

تو اللہ تعالی اس کیلئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، دس لاکھ گناہ مٹا دیتا ہے اور دس لاکھ درجے بلند کردیتا ہے ۔‘‘

اِس حدیث کی ایک اور روایت میں ’’ دس لاکھ درجات کی بجائے ‘‘ یہ الفاظ ہیں :

( وَبَنٰی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ )   [الترمذی : ۳۴۲۹ ۔ ابن ماجۃ : ۲۲۳۵ ۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ اور اس کیلئے   جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

02. شور شرابہ اور ہنگامہ برپا کرنے سے بچنا

کئی لو گ  بازاروں اور مارکیٹوں میں شور شرابہ کرکے ہنگامہ سا برپا کردیتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا کرنا درست نہیں ہے ۔

ر سول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اوصاف حمیدہ میں سے یہ بھی تھا کہ ( لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیْظٍ وَلَا سَخَّابٍ بِالْأسْوَاقِ ، وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰکِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ ۔۔)  [ البخاری : ۴۸۳۸]

’’ آپ نہ بد اخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں ۔ اور نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں ۔ اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور در گذر کردیتے ہیں ۔‘‘

03.  لین دین  میں اخوت وبھائی چارے کے تقاضوں کو پورا کرنا

اس کا فرمان ہے :﴿إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ﴾ [الحجرات :۱۰]

’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہوئے  ارشاد فرمایا :

( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا )  [ البخاری : ۴۸۱ ، ۲۴۴۶ ، مسلم :۲۵۸۵ ]

’’  مومن دوسرے مومن کیلئے ایک مضبوط عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ۔ ‘‘

اِس اخوت وبھائی چارے کے کئی تقاضے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر شخص خرید وفروخت کے معاملات میں سخت رویہ اختیار کرنے کی بجائے نرم رویہ اختیار کرے ۔ ہر مسلمان اپنے بھائی کیلئے آسانیاں پیدا کرے ۔ خرید کررہا ہو تب بھی ، فروخت کر رہا ہو جب بھی ۔ کوئی چیز لے رہا ہو یا کسی چیز کی قیمت ادا کر رہا ہو  دونوں صورتوں میں سہل پسندی سے کام لے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ( رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَی وَإِذَا اقْتَضَی )  [ البخاری : ۲۰۷۶ ]

’’ اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو اُس آدمی پر جو بیچتے وقت ، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نہایت آسان

 اور ( اپنے حق کو ) معاف کرنے والا ہو ۔ ‘‘

 بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ   ( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ ، سَمْحَ الشِّرَائِ ، سَمْحَ الْقَضَائِ )  [ الترمذی : ۱۳۱۹۔ وصححہ الألبانی ]

’’ بے شک اللہ تعالی اُس آدمی سے محبت کرتا ہے جو خرید وفروخت اور ادائیگی میں آسان ہو اور اپنے حق سے کم  پر راضی ہوجانے والا ہو ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ( أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا کَانَ سَہْلًا مُشْتَرِیًا وَبَائِعًا وَقَاضِیًا وَمُقْتَضِیًا الْجَنَّۃَ)   [ النسائی : ۴۶۹۶۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ اللہ تعالی نے اس آدمی کو جنت میں داخل کردیا جو خرید وفرخت میں اور کسی کو اس کا حق ادا کرنے میں اور کسی سے اپنے حق کا تقاضا کرنے میں بہت آسان تھا ۔ ‘‘

اسی طرح اخوت کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لین دین اور خرید وفروخت کے معاملات میں مومن اپنے بھائی کیلئے وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو اور وہ چیز نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہو۔  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ )  [ البخاری :۱۳، ۱۲۳۹]

’’ تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ ‘‘

لہذا خریدار اور بائع دونوں پر یہ بات لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا فائدہ سوچیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہو ۔ صرف اپنا فائدہ سوچنا ، خواہ دوسرے فریق کا نقصان کیوں نہ ہو ، یہ مومن کے شایان شان نہیں ہے اور اخوت وبھائی چارے کے سراسر خلاف ہے ۔

صحیحین میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

’’ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا ۔ اسے اس میں ایک ٹھلیا ( گھڑا ) ملا جس میں سونا رکھا ہوا تھا ۔ تو خریدار نے  [ یہ نہیں سوچا کہ بس اب تو وارے نیارے ہو گئے ، اتنا سرمایہ ہاتھ لگ گیا، پتہ نہیں میں زندگی بھر اتنا کما سکتا یا نہیں ، بلکہ اس نے  بائع سے کہا : اپنا سونا واپس لے لو ، کیونکہ میں نے تم سے صرف زمین خریدی ہے ، یہ سونا نہیں خریدا ۔ بائع نے کہا : میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ ہے سب تیرے ہاتھ فروخت کردیا ہے ۔ [ یعنی نہ خریدار سونا ساتھ لے جانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی بائع اسے واپس لینے پر تیار ہے ، بلکہ دونوں کی

خواہش ہے کہ اس کا بھائی اسے لے جائے ] اب وہ اپنا یہ معاملہ ایک اور شخص کے پاس لے گئے ۔ تو اس نے دونوں سے پوچھا : کیا تمھاری کوئی اولاد ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا : میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا : میری ایک لڑکی ہے ۔ تو ثالث نے کہا : اِس سونے کے ساتھ لڑکے اور لڑکی کی شادی کردو ، اس میں سے کچھ اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور اس میں سے کچھ صدقہ بھی کردو ۔ ‘‘   [ البخاری : ۳۴۷۲ ، مسلم : ۱۷۲۱ ]

04. نظروں کو جھکانا

بازار میں چونکہ خواتین بھی ہوتی ہیں اور آج کل بے پردگی بھی عام ہے ، اس لئے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھنا چاہئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ لِّلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ﴾ [ النور : ۳۰ ]

’’ مومنوں سے کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالی اس سے یقینا با خبر ہے ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو فرمایا تھا 🙁 یَا عَلِیُّ ! لَا تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ ، فَإِنَّ لَکَ الْأُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃُ ) [ ابو داؤد : ۲۱۴۹ ۔ ترمذی : ۲۷۷۷ ۔  وحسنہ الألبانی]

’’ علی ! ایک مرتبہ ( اچانک ) نظر پڑ جائے تو اس کے بعد دوسری نظر نہ اٹھایا کرو ، کیونکہ تمھارے لئے پہلی نظر تو معاف ہے ، لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے ۔ ‘‘

یہ اس لئے ضروری ہے کہ غیر محرم عورت کو دیکھنا شریعت کی نظر میں آنکھ کا زنا ہے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا ، أَدْرَکَ ذَلِکَ لَا مَحَالَۃَ ، فَزِنَی الْعَیْنَیْنِ النَّظَرُ ، وَزِنَی اللِّسَانِ النُّطْقُ ۔۔۔ )   [ مسلم : ۲۶۵۷]

’’بے شک اللہ تعالی نے ہر انسان پر زنا سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس کو وہ ہر حال میں پاکر رہے گا ۔ لہذا   آنکھوں کا زنا ( غیر محرم عورت پر )نظر ڈالناہے اور زبان کا زنا  بولنا ہے ۔ ‘‘

05.  سچ بولنا اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرنا

جس طرح عام گفتگو میں سچ بولنا اورجھوٹ سے بچنا لازم ہے اسی طرح خرید وفروخت کے معاملات  طے کرتے

 ہوئے بھی یہی وتیرہ اختیار کرنا چاہئے ۔

حضرت رفاعہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مشغول دیکھا تو آپ نے فرمایا :

(  یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ !) ’’ اے تاجروں کی جماعت ! ‘‘

تو وہ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کا ارشاد بغور سننے کیلئے تیار ہو گئے ۔ تب آپ نے فرمایا :  (  إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ )  [ترمذی : ۱۲۱۰ : حسن صحیح ، ابن ماجہ :۲۱۴۶]

’’ بے شک تاجروں کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ گناہگار ہونگے سوائے اس کے جو اللہ تعالی سے ڈرتا رہا ، نیکی کرتا رہا اور سچ بولتا رہا ۔‘‘

لین دین میں سچ بولنے کی بناء پر اللہ تعالی اس میں برکت دے دیتا ہے اور جھوٹ بولنے کی بناء پر اس کی برکت کو مٹا دیا جاتا ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :  ( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا )  [ البخاری : ۱۹۷۳ ، مسلم : ۱۵۳۲]

’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں ۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی ۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو چھپائیں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی ۔‘‘

جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ خرید وفروخت میں بہت زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے ۔ مثلا آپ کوئی چیز خریدنے گئے ، ابھی آپ اپنی منشاء کے مطابق اُس چیز کو دیکھ ہی رہے ہونگے کہ دوکاندار خود ہی اس کی تعریف کرنا شروع کردے گا ۔ اور اس کے بارے میں وہ باتیں بتائے گا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ مثلا وہ آپ کو بتائے گا کہ یہ چیز فلاں ملک کی بنی ہوئی ہے اور وہ اُس ملک کا نام لے گا جس کی پروڈکٹ لوگوں میں زیادہ پسندیدہ ہوگی ، حالانکہ وہ اُس ملک کی بنی ہوئی نہیں ہوگی ۔  پھر جب قیمت کی بات ہوگی تو وہ دانستہ طور پر بہت زیادہ قیمت بتائے گا ، تاکہ وہ گاہک کے ساتھ مک مکا کرتے ہوئے اسے اس قیمت پر لے آئے جس میں اس کیلئے اتنا نفع ہو گا کہ جو اس نے اپنے ذہن کے مکابق پہلے ہی طے کر رکھا تھا ۔ اگر گاہک کہے کہ یہ چیز مجھے اتنے میں دے دو تو وہ فورا کہے گا ، نہیں ، یہ تو میری خرید ہی نہیں ہے !!!  حالانکہ اس کی قیمت ِ خرید اس سے بہت کم ہوگی  ۔ پھر جب سودا طے ہو جائے گا تو گاہک مطالبہ کرے گا کہ میں دوں گا تو اتنے پیسے جتنے طے ہوئے ہیں لیکن آپ رسید زیادہ پیسوں کی بنا کر دیں ! کیونکہ ہو سکتا

 ہے کہ وہ اپنی کمپنی یا اپنے محکمے یا کسی شخص یا کسی ادارے کی طرف سے اُس چیز کو خریدنے گیا ہو تو وہ اپنا کمیشن بھی اس کی قیمت ِ خرید میں شامل کرنا چاہتا ہے ۔ اِس طرح وہ خود بھی جھوٹ میں ملوث ہوتا ہے اور دوکاندار کو بھی اس میں ملوث کرتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں ہمیشہ سچ بولنا اور سچ ہی لکھنا چاہئے ۔ اور جھوٹ سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہئے ۔

06. عیب کو بیان کرنا اور صاف گوئی سے کام لینا

بائع ( فروخت کنندہ) پر لازم ہے کہ وہ جس چیز کو بیچ رہا ہو اس میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے خریدار کے سامنے پوری امانت داری کے ساتھ بیان کردے اور کسی عیب کو مت چھپائے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن یَّبِیْعَ شَیْئًا إِلَّا بَیَّنَ مَا فِیْہِ ، وَلَا یَحِلُّ لِمَنْ عَلِمَ ذَلِکَ إِلَّا بَیَّنَہُ )  [ المستدرک : ۲۱۵۷ ۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی]

’’ کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے جب تک کہ اس کے عیبوں کو بیان نہ کردے ۔ اور جو بھی اس کے عیبوں کو جانتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ انھیں خریداروں کے سامنے بیان کرے ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ ) [ابن ماجہ : ۲۲۴۶۔ وصححہ الألبانی]

’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ اور کسی مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو عیب والی چیز فروخت کرے ، سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کیلئے بیان کردے ۔ ‘‘

07. دھوکہ دہی سے بچنا

خرید وفروخت کے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچنا بھی ضروری ہے ۔

ایک مرتبہ رسو ل اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر غلہ کے ایک ڈھیر سے ہوا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا توآپ کی انگلیوں کو نمی سی محسوس ہوئی ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا ! غلہ بیچنے والے ! یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! اسے بارش نے تر کردیا ہے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی )    [ مسلم : ۱۰۲]

’’ اسے تم نے  اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے !  جو شخص دھوکہ کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘

جبکہ آج کل لوگ مختلف طریقوں سے خریداروں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ مثلا اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ کرتے ہیں ۔ اور یہ ملاوٹ اِس قدر زیادہ ہے کہ شاید ہی کوئی چیز اس سے محفوظ ہو ۔ بازار میں زیادہ تر چیزیں ملاوٹ شدہ ہی ہوتی ہیں۔ خالص چیزیں توتلاش ِ بسیار کے بعد کہیں جا کر ملتی ہیں ۔ ورنہ حالت یہ ہے کہ نہ پانی خالص اور نہ دودھ خالص ، نہ آٹا خالص اور نہ مسالہ جات خالص ، حتی کہ گوشت کو بھی پانی لگایا جاتا ہے جس سے اس کا وزن کئی گنا بڑھ جاتا ہے ، پھر اسی حالت میں اسے بیچ دیا جاتا ہے ۔

اسی طرح جن ڈبوں میں مختلف چیزوں کو پیک کیا جاتا ہے ان پر بھی دھوکہ کیا جاتا ہے اور ان پر لگے ہوئے لیبل تبدیل کردئیے جاتے ہیں ، کمپنی یا ملک کا نام تبدیل کردیا جاتا ہے ۔اور تاریخوں میں بھی رد وبدل کردیا جاتا ہے ۔ اِس طرح دھوکہ دے کر گاہکوں سے مال بٹورا جاتا ہے !

08.  جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کرنا

 بعض لوگ اپنا تجارتی ساز وسامان جلد از جلد بیچنے کیلئے گاہکوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ۔ اور یہ اِس قدر سنگین گناہ ہے کہ قیامت کے روز ایسے لوگوں سے اللہ تعالی نہ بات کرنا پسند کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا ۔ بلکہ انھیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ والعیاذ باللہ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ ، وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)

’’ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا ۔ اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا ۔ ‘‘

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ الفاظ تین بار کہے ۔ تو حضرت ابو ذر  رضی اللہ عنہ  نے کہا :  وہ یقینا ذلیل وخوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے ۔ یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ ، وَالْمَنَّانُ ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ )  [ مسلم : ۱۰۶]

’’ اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ ‘‘

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَان ) [ متفق علیہ ]

’’ جو آدمی جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کر لے تو وہ اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا ۔‘‘

قسم کھانے سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے لیکن اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( اَلْحَلِفُ مُنَفِّقَۃٌ لِّلسِّلْعَۃِ وَمُمْحِقَۃٌ لِلْکَسْبِ )     [ البخاری : ۲۰۸۷ ، مسلم :۱۶۰۶]

’’ قسم سے سودا بک جاتا ہے اور کمائی ( کی برکت ) مٹ جاتی ہے ۔ ‘‘

لہذا خرید وفروخت میں جھوٹی قسم کھانے سے بچنا چاہئے ۔

09. ماپ تول میں کمی کرنے سے بچنا

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾  [ الإسراء : ۳۵ ]

’’اور جب تم ماپ کرو تو پورا پورا ماپو اور تولو تو سیدھی ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت شعیب  علیہ السلام    نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ  ﴾   [ ہود : ۸۵ ]

’’ اے میری قوم ! ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی اشیاء کم نہ دیا کرو ۔ اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماپ اور تول میں کمی کرنا اور لوگوں کو ان کی چیزیں پوری پوری نہ دینا فسادفی الأرض ہے ، جوکہ حرام ہے ۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾   [المطففین : ۱۔۳]

’’ ہلاکت وبربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ۔ جو جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی جن لوگوں نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے کہ جب لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب کوئی چیزدیتے ہیں تو ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں ۔  ایسے لوگوں کیلئے تباہی وبربادی ہے ۔  والعیاذ باللہ  ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے

قومِ شعیب  علیہ السلام  کو ان کے اسی جرم کی پاداش میں اور حضرت شعیب  علیہ السلام  پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے دنیا میں ہی بد ترین عذاب چکھا دیا ۔

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اِس جرم کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرمایا :

(وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ)  [ ابن ماجۃ : ۴۰۱۹ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جوقوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالی ، مہنگائی اور بادشاہ کے ظلم میں جکڑ لیا جاتا ہے ۔ ‘‘

اور آج ہم انہی چیزوں کا سامنا کر رہے ہیں ، چنانچہ مہنگائی کا طوفان ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ، ہر دس پندرہ دن  میں ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ اور اس پر ستم یہ ہے کہ حکمران ہر آئے دن نئے نئے ٹیکس لگا کر ظلم کی انتہاء کر ہے ہیں ۔ یوں بیچاری عوام مہنگائی اور ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے  ۔۔۔۔ لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اِس ظلم وستم کا سبب کیا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب در اصل خود عوام کے اپنے کرتوت ہیں ، انہی کرتوتوں میں سے ایک کرتوت ماپ تول میں کمی کرنا بھی ہے ، جس کے بارے میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیشین گوئی کی کہ جب لوگ اِس طرح کریں گے تو ان پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیا جائے گا ۔ لہذا ہمیں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اِس جرم سے اور لین دین کے معاملات میں دیگر جرائم سے سچی توبہ کرنی چاہئے ۔ تاکہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہو  جائے اور وہ ہمیں ظالم حکمرانوں سے نجات دلائے ۔

ماپ تول میں کمی کرنے کی بجائے کچھ زیادہ ہی دینا چاہئے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  بازار میں تشریف لے گئے ۔تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ایک شخص کو دیکھا جو مزدوری لے کر وزن کیا کرتا تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایا : ( زِنْ وَارْجِحْ ) ’’ وزن کرتے وقت قدرے جھکتا تول ۔ ‘‘  یعنی کچھ زیادہ ہی دیا کر ۔  [ ابو داؤد : ۳۳۳۶، ترمذی : ۱۳۰۵ ، نسائی : ۴۵۹۲ ۔ وصححہ الألبانی ]

اِس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ جہاں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بائع کو یہ ترغیب دی کہ وہ کچھ زیادہ ہی  دے ، وہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ادائیگی کرنے والے کو بھی ترغیب دی کہ وہ بہتر انداز سے ادا کرے ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنے قرض کا (جو ایک اونٹ تھا ) تقاضا کرنے آیا تو اس نے آپ سے سخت کلامی کی ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب  رضی اللہ عنہم  اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا :(دَعُوْہُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا) ’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حق والا ( سختی سے ) بات کرسکتا ہے۔‘‘

پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  ( أَعْطُوْہُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّہ) ’’ اسے اِس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو ۔‘‘

صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمیں اس سے بہتر اونٹ ہی ملا ہے ، اُس جیسا نہیں ملا ۔تو  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا 🙁  أَعْطُوْہُ فَإِنَّ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً ا)  [ البخاری : ۲۳۰۶، مسلم : ۱۶۰۱]

’’ اسے وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں بہتر ہو ۔‘‘

10.   خرید وفروخت کے دوران نماز اور اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ٭ رِجَالٌ لاَّ تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ٭ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾  [النور:۳۶۔ ۳۸]

’’ ان گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ، ان میں وہ لوگ صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں اللہ کے ذکر ، اقامت ِ صلاۃ اور ادائے زکاۃ سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔ تاکہ وہ جو عمل کرتے ہیں اللہ انھیں اس کا بہترین بدلہ دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے ۔ ‘‘

محترم حضرات ! ان آیات میں ذرا غور فرمائیے ۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو تجارت اور خرید وفروخت میں مشغول رہتے ہوئے اللہ کے گھروں ( یعنی مساجد ) میں بھی جاتے ہیں ، جہاں وہ صبح وشام اللہ کی تسبیح  بیان کرتے ہیں ، پانچ وقتی نماز پابندی سے اور با جماعت ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنے مال کی زکاۃ بھی دیتے رہتے ہیں ۔ وہ قیامت کے روز اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے احکامات سے غافل نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی ان کے اعمال کا بہترین بدلہ بھی دے گا اور اپنے فضل وکرم سے مزید بھی عطا کرے گا ۔ اور ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالی بے حساب رزق عطا کرتا ہے ۔

خرید وفروخت کے احکام

محترم حضرات ! خرید وفروخت کے آداب بیان کرنے کے بعد اب ہم خرید وفروخت کے چند اہم احکام قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ۔

01. فریقین کی باہمی رضامندی

خرید وفروخت اور لین دین میں بائع اور خریدار کی باہمی رضامندی از حد ضروری ہے ۔ لہذا دونوں فریق جبر واکراہ

 اور دھونس ودھاندلی کی بجائے خوشی خوشی معاملہ طے کریں ۔ بائع اپنے مال کا بھاؤ بتائے ، پھر خریدار کو سوچنے کا موقع دے ، اگر اسے وہ بھاؤ پسند ہو تو خرید لے ، اگر پسند نہ ہو تو نہ خریدے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾  [ النساء : ۲۹]

’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو (تو ٹھیک ہے ۔) ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ  ( لَا یَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَیْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ )  [ ترمذی : ۱۲۴۸۔ وصححہ الألبانی ]

’’ بائع اور خریدار رضامندی کی حالت میں ہی کسی چیز کی بیع سے جدا ہوں ۔ ‘‘

02.  شرح منافع کیا ہونی چاہئے ؟

اسلام میں شرح منافع کی تحدید نہیں کی گئی اور اسے محنت ومزدوری ، اخراجات ، بار برداری اور لاگت وغیرہ پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ ہر کاروبار میں یہ چیزیں ایک جیسی نہیں بلکہ کم وبیش ہوتی ہیں ۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ اس معاملے میں شریعت نے کاروباری حضرات کو بالکل ہی آزاد چھوڑ دیا ہو ۔بلکہ اس نے کچھ اصول متعین کردئیے ہیں جن کی روشنی میں منافع کی شرح کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ کاروباری حضرات ہرمسلمان کی خیرخواہی کریں اوراپنی مصلحت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مصلحت کا بھی خیال رکھیں ۔ اور اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ عامۃ الناس کا بھی فائدہ سوچیں ۔ نہ وہ اپنا نقصان کریں اور نہ ہی گاہکوں کا نقصان برداشت کریں ۔ کسی بھی چیز کی لاگت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جائز نفع کمائیں ۔ اور کوشش کریں کہ عام ضروریات تک پبلک کی رسائی آسان سے آسان تر ہو ۔

اسی طرح دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ہر وہ چیز اس کیلئے نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ ایک تاجر جب خود خریدار ہو گا تو وہ یہ چاہے گا کہ ہر چیز اسے سستے داموں مل جائے ۔ اور وہ قطعا یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی چیز اسے مہنگے داموں فروخت کی جائے  ۔ لہذا جس طرح وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے کہ اس سے جائز نفع ہی لیا جائے اسی طرح اسے یہ بھی پسند ہونا چاہئے کہ وہ اپنے بھائی سے بھی جائز نفع ہی کمائے ۔ اور جس طرح وہ اپنے لئے نا پسند کرتا ہے کہ اس سے ناجائز نفع نہ کمایا جائے اسی طرح اسے یہ بھی نا پسند ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے نا جائز نفع کمائے ۔

اِس سلسلے میں ایک اثر بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے ، جسے امام بخاری نے ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ امام محمد بن سیرین  رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ایک شخص اگر کوئی چیز دس میں خرید کرے تو وہ اسے گیارہ میں بیچ سکتا ہے  ۔ نیز اس پر جو خرچہ ہوا ہو وہ اس پر بھی منافع کما سکتا ہے ۔   [ صحیح البخاری ۔ کتاب البیوع باب  من أجری أمر الأمصار علی ما یتعارفون ۔۔۔۔]

اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تاجر عام حالات میں کسی بھی چیز کی اصل قیمت پر اور اس کے اخراجات اور بار برداری پر دس فیصد تک نفع لے سکتا ہے ۔ واللہ اعلم

جبکہ آج کل صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ چنانچہ وہ چیز جو ’مثال کے طور پر ‘تاجر کو پانچ سو کی پڑتی ہے ،  وہ اس کی قیمت ایک ہزار یعنی سو گنا زیادہ بتاتا ہے  ۔ پھر وہ کسی کو نو سو میں ، کسی کو آٹھ سو میں اور کسی کو سات سو میں پھانس لیتا ہے  ۔ الغرض یہ کہ جیسے کسی کا داؤ لگتا ہے وہ اسی طرح لگا لیتا ہے ۔ کیونکہ اس کا اصل مقصد جائز منافع کمانا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا ہے ۔ صارفین کیلئے سہولتیں پیدا کرنا نہیں ، بلکہ ان کی مشکلات میں اور اضافہ کرنا ہے ۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ

03. سودا منسوخ کرنے کا اختیار

سودا طے ہوجانے کے بعد جب تک بائع اور خریدار ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں ، ان میں سے کوئی بھی اس سودے کو منسوخ کر سکتا ہے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ۔۔۔۔)  [ البخاری : ۱۹۷۳ ، مسلم : ۱۵۳۲]

’’ خریدار اور بائع کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودے کو حتمی شکل دے دیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں ۔۔۔۔‘‘

جبکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایک دفعہ خریدار کے منہ سے ایک بات نکل جائے ، پھر فورا ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے  اور وہ اُس قیمت پر اسے نہ خریدنا چاہے تو بائع اسے دبا لیتا ہے اور آس پاس کے لوگوں سے بھی دباؤ ڈلواتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کرے اور ہر حال میں اسے اُس قیمت پر خریدلے جو اس کے منہ سے نکل گئی تھی ۔ یہ طرزِ عمل بالکل غلط ہے اور جو حدیث ہم نے ابھی ذکر کی ہے اس کے سراسر خلاف ہے۔

04. جو چیز اپنے پاس موجود نہ ہو اس کا سودا نہ کیا جائے

حضرت حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  ( نَہَانِی رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِیْ )   [ ترمذی : ۱۲۳۳ ، ابو داؤد : ۳۵۰۵ ، نسائی : ۴۶۱۳ ، ابن ماجہ : ۲۱۸۷ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا کہ میں اس چیز کا سودا کروں جو میرے پاس موجود نہیں ۔ ‘‘

ایک اورروایت میں یہ الفاظ ہیں :  ( لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ )  ’’ تم وہ چیز نہ بیچو جو تمھارے پاس موجود نہ ہو ۔ ‘‘

اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس غیر موجود چیز کا وہ سودا کرے گا ، ہو سکتا ہے کہ وہ اسے نہ ملے ، یا ویسی نہ ملے جیسی کا اس نے سودا طے کیا ! اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قیمت پر نہ ملے جس کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے اس کا سودا کیا ۔ چونکہ یہ امکانات موجود ہیں اس لئے وہ کسی بھی ایسی چیز کا سودا نہ کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو ۔

05. منڈی یا بازار میں پہنچنے سے پہلے ہی کسی مال کا سودا طے نہ کیا جائے ۔

شہر میں رہنے والے تاجر حضرات منڈی یا بازار کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہوتے ہیں اور باہر سے تجارتی ساز وسامان لانے والا بائع اُس سے واقف نہیں ہوتا ، چنانچہ اس کی لا علمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  وہ اسے راستہ میں ہی  روک کر کم قیمت پر اس کے ساتھ سودا طے کر لیتے ہیں ۔ اِس سے انھیں تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن بائع کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس لئے یہ معاملہ درست نہیں ہے ۔

حضر ت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ( أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  نَہَی أَنْ تُتَلَقَّی السِّلَعُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْأسْوَاقَ )  [ البخاری : ۲۱۶۵، ومسلم : ۱۵۱۷ واللفظ لہ ]

’’ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اِس بات سے منع فرمایا کہ بازاروں میں پہنچنے سے پہلے ہی تجارتی مال کا آگے جا کر سودا کیا جائے ۔ ‘‘

جس بائع کے ساتھ اِس طرح ہاتھ ہو جائے ، پھر وہ بازار آئے اور اسے پتہ چلے کہ اُس کے ساتھ تو ہاتھ ہو چکا ہے تو اسے اس سودے کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :  ( لَا تَلَقَّوُا الْجَلَبَ ، فَمَنْ تَلَقّٰی فَاشْتَرَی مِنْہُ ، فَإِذَا أَتَی سَیِّدُہُ السُّوقَ فَہُوَ بِالْخِیَارِ )    [ مسلم : ۱۵۱۹ ]

’’ غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو ۔ لہذا جو شخص آگے جا کر ملے اور بائع سے خرید لے ، پھر اس کا مالک بازار میں آئے تو اسے سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے ۔ ‘‘

06. ماپ تول کے بغیر کسی ڈھیر کا سودا کرنا درست نہیں ہے

غلے وغیرہ کا وہ ڈھیر جس کا وزن معلوم نہ ہو اس کا وزن کئے بغیر سودا کرنا ممنوع ہے ۔

حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  ( نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  عَنْ بَیْعِ الصُّبْرَۃِ مِنَ التَّمْرِ لَا یُعْلَمُ مَکِیْلُہَا بِالْکَیْلِ الْمُسّمّٰی مِنَ التَّمْرِ ) [ مسلم : ۱۵۳۰]

’’ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات سے منع فرمایا کہ ایسے ڈھیر کا سودا کیا جائے جس کا ماپ کھجور کے ماپنے کے معروف پیمانے سے معلوم نہ ہو ۔ ‘‘

لہذا غلے وغیرہ کے ڈھیر میں اگر ماپنے کی چیز ہے تو اسے ماپ کر اور اگر تولنے کی چیز ہے تو اسے تول کر اس کا سودا طے کیا جائے ۔ ورنہ جو شخص مجہول الوزن ڈھیر کا سودا کرے تواس کا جرم قابل سزا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا جو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں اناج کے ڈھیر بغیر ماپ تول کے خرید لیتے تھے ، ان کو مار پڑتی تھی ۔  [ البخاری : ۲۱۳۱]

07.  خرید کردہ مال کو اپنے سٹور وغیرہ میں منتقل کئے بغیر اس کا آگے سودا کر دینا ممنوع ہے

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے بازار میں زیتون کا سودا کیا ۔ اس کے بعد مجھے ایک آدمی ملا جو مجھ سے اسی زیتون کو معقول منافع پر خریدنے کیلئے تیار تھا ۔ میں نے ارادہ کیا کہ اسے اس کے ہاتھوں بیچ دوں ، لیکن اچانک ایک شخص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ  تھے ۔ انھوں نے کہا : اِس زیتون کو اسی مقام پر مت بیچو جہاں تم نے خریدا ہے ، جب تک کہ اسے اپنے ٹھکانے پر منتقل نہ کر لو ۔ پھر انھوں نے کہا :  ( إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  نَہَی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ ، حَتّٰی یَحُوْزَہَا التُّجَّارُ إِلٰی رِحَالِہِمْ ) [ ابو داؤد : ۳۴۹۹ ۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سامان کو اسی جگہ پر فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں اسے خرید کیا گیا ہو ۔ جب تک کہ تاجر لوگ اسے اپنے ٹھکانے ( سٹور وغیرہ ) پر نہ لے جائیں ۔ ‘‘

08. جب سودا ہو رہا ہو تو اسی چیز کی بیع کی غرض سے بائع اور مشتری کے درمیان کسی تیسرے آدمی کا گھس آنا ممنوع ہے  ۔

بعض اوقات بائع اور مشتری کے درمیان بات چیت چل رہی ہوتی ہے کہ بیچ میں کوئی تیسرا آدمی گھس آتا ہے اور وہ بائع کو زیادہ قیمت کی پیش کش کرکے ان دونوں کے سودے کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لَا یَبِیْعُ الرَّجُّلُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ ، وَلَا یَخْطُبُ عَلٰی خِطْبَۃِ أَخِیْہِ ، إِلَّا أَنْ یَّأْذَنَ لَہُ )  [ مسلم : ۱۴۱۲ ]

’’ کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے ۔ اور نہ ہی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجے ۔ ہاں اگر وہ اجازت دے دے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ‘‘

اسی طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ  ( لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلَی سَوْمِ أَخِیْہِ ۔۔۔) [ مسلم : ۱۴۱۳ ]

’’ کوئی مسلمان اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے ۔ ‘‘

09. کسی کی مجبوری سے نا جائز فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے

عام طور پر جب کوئی آدمی اپنی کسی مجبوری کے تحت کسی چیز کو فروخت کرنا چاہتا ہے تو اس سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی قیمت کم سے کم لگائی جاتی ہے ، کیونکہ اس کے بارے میں پتہ ہوتا ہے کہ اس نے یہ چیز بیچنی تو ہے ہی ، اس لئے صرف اپنا ہی فائدہ مد نظر رکھا جاتا ہے ، چاہے بائع کو نقصان کیوں نہ ہو ۔ اور یہ اخوت وبھائی چارے کے سراسر خلاف ہے ۔ جو شخص اپنے بھائی کو اِ س طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اسے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر وہ اُس کی جگہ پر مجبور ہوتا تو کیا وہ اِس بات کو پسند کرتا کہ کوئی اسے نقصان پہنچائے یا اس کی مجبوری سے نا جائز فائدہ اٹھائے ؟  یقینا وہ اسے پسند نہ کرتا  ۔ تووہ اس بات کو اپنے بھائی کیلئے کیوں پسند کرتا ہے ؟

اِس کے بر عکس ہر مسلمان کو اپنے بھائی کا خیر خواہ ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ جریر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیعت کی کہ میں ہمیشہ نماز قائم کروں گا ، زکاۃ ادا کرتا رہوں گا اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا ۔   [ البخاری : ۵۷ ، مسلم : ۵۶ ]

ایک مرتبہ جریر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  کے ایک غلام نے ان کیلئے ایک گھوڑا تین سو میں خریدا ۔ چنانچہ انھوں  نے جب اس گھوڑے کو دیکھا تو اس کے مالک کے پاس آئے اور کہا : تمھارے اس گھوڑے کی قیمت تین سو سے زیادہ ہے ۔ پھر اسے زیادہ قیمت کی پیش کش کی ، حتی کہ اسے آٹھ سو دے  دئیے ۔  [ فتح الباری ۔ الإیمان باب قول النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  : الدین النصیحۃ ۔۔۔]

10. سودا واپس موڑ لینا کار ثواب ہے

سودا طے ہونے اور خرید وفروخت مکمل ہوجانے کے بعد بعض اوقات مشتری اپنی رائے تبدیل کر لیتا ہے کہ مجھے یہ چیز خریدنی نہیں چاہئے تھی ، یا اُس چیز میں کوئی عیب نکل آتا ہے اور وہ اسے واپس کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اگر بائع کو کوئی نقصان نہ ہو تو اسے اس  چیز کو واپس لے کر اس کی قیمت خریدار کو لوٹا دینی چاہئے ۔ خصوصا اگر ’خیار عیب ‘کی شرط رکھ لی گئی ہو اور خرید کردہ چیز میں واقعتا کوئی عیب ظاہر ہو جائے تو بائع کو اس چیز کے واپس لینے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )  [ ابو داؤد : ۳۴۶۲ ، ابن ماجہ : ۲۱۹۹ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جو بائع کسی مسلمان کا سودا واپس کر لے ، اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے گناہ معاف فرما دے گا ۔ ‘‘

11. اشیائے محرمہ کا کاروبار کرنا حرام ہے

جو چیزیں حرام ہیں ان کا کاروبار کرنا بھی حرام ہے ۔ اور جو شخص ان چیزوں کی تجارت کرے جو شرعی لحاظ سے حرام ہوں  تو اُس تجارت کے ذریعے ہونے والے اس کی آمدنی بھی یقینا حرام ہوگی ۔

مثلا سگریٹ ، تمباکو ، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کا کاروبار حرام ہے ۔ اسی طرح موسیقی اور گانوں پر مشتمل کیسٹوں یا فحش افلام والی سی ڈیز کا کاروبار بھی حرام ہے ۔ اسی طرح حرام جانوروں کی خرید وفروخت بھی حرام ہے اور ان کے ذریعے ہونے والی آمدنی بھی ۔ اس کے علاوہ کسی حرام کام کے ذریعے پیسہ کمانا بھی حرام ہے ۔ مثلا بدکاری ، کہانت اور داڑھی مونڈ کر کمائی کرنا وغیرہ ۔

حضرت ابو مسعود انصاری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی آمدنی اور نجومی کی کمائی سے منع فرمایا  ۔  [ البخاری : ۲۲۳۷، مسلم : ۱۵۶۷]

اور جب حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا گیا کہ کیا کتے اور بِلّے کی قیمت وصول کرنا جائز ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے ۔  [ مسلم : ۱۵۶۹]

ہاں البتہ شکاری کتا اس سے مستثنی ہے ۔  [ الترمذی : ۱۲۸۱۔ قال الألبانی : حسن ]

12. مسروقہ مال کی خرید وفروخت حرام ہے ۔

جو شخص مسروقہ مال کو فروخت کرکے پیسہ کمائے ، وہ یقینا حرام ہے ۔ اور اسے خریدنے والا شخص اگر یہ جانتا ہو کہ یہ مسروقہ مال ہے ، پھر بھی وہ اسے اونے پونے خرید لے تو وہ بھی اس کے گناہ میں شریک تصور کیا جائے گا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ۔۔۔ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ﴾ [ المائدۃ : ۲]

 ’’ اور تم گناہ اور زیادتی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو ۔ ‘‘

اگر مسروقہ مال کے مالک کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کا مال فلاں شخص نے لا علمی میں خرید لیا ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس سے وہی مال پیسوں سے خرید لے ۔ اور اگر چاہے تو اس سے اس کے چور کے بارے میں معلومات لے کر اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے ۔

اسیدبن حضیر   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ فرمایا کہ  ( إِذَا کَانَ الَّذِی ابْتَاعَہَا (یَعْنِی السَّرِقَۃَ ) مِنَ الَّذِی سَرَقَہَا غَیْرَ مُتَّہَمٍ ، یُخَیَّرُ سَیِّدُہَا ، فَإِنْ شَائَ أَخَذَ الَّذِیْ سُرِقَ مِنْہُ بَثَمَنِہَا ، وَإِنْ شَائَ اتَّبَعَ سَارِقَہَا ) [ النسائی : ۴۶۸۰۔ وصححہ الألبانی ]

’’ وہ شخص جس نے مسروقہ مال چور سے خرید کیا ہو ، اگر وہ اس جرم میں شریک نہ ہو اور لا علمی میں اس نے وہ مال خریدا ہو تو اس کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر وہ چائے تو چوری شدہ مال کی قیمت ادا کرکے لے لے ۔ اور اگر چاہے تو اس کے چور کا پیچھا کرے ۔ ‘‘

اِس حدیث میں اسیدبن حضیر   رضی اللہ عنہ   نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد تینوں خلفائے راشدین ، ابو بکر ، عمر اور عثمان  رضی اللہ عنہم   نے بھی اس کے متعلق یہی فیصلہ فرمایا تھا ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

’’ اِس حدیث میں دو اہم فائدے ہیں : پہلا یہ کہ جو شخص اپنا مسروقہ مال کسی ایسے شخص کے پاس پڑا ہوا دیکھے کہ جو اس کی چوری میں ملوث نہیں ہوا بلکہ اس نے غاصب یا سارق سے اسے خرید کیا تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اس سے لے لے ، الا یہ کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے ۔ اور اگر وہ چاہے تو حاکم کے ہاں غاصب یا سارق کے خلاف اپیل کرسکتا ہے  ۔۔۔۔۔‘‘ [ الصحیحۃ للألبانی : ۶۰۹ ]

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگر صاحب مال کو معلوم ہو جائے کہ اس کا مال فلاں شخص کے پاس موجود ہے تو وہ بے روک ٹوک اسے لے جا سکتا ہے ۔ رہی مشتری کی رقم جو وہ چور کو ادا کر چکا تو اس کی یہی صورت ہے کہ وہ چور کو تلاش کرکے اس سے اپنی رقم واپس لے ۔ ورنہ اس کی رقم ضائع ہو جائے گی ۔  ان حضرات نے اس کی دلیل سمرہ بن جندب  رضی اللہ عنہ  کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  ( مَن وَّجَدَ عَیْنَ مَالِہِ عِنْدَ رَجُلٍ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ ، وَیَتَّبِعُ الْبَیِّعُ مَنْ بَاعَہُ )  [ ابو داؤد : ۳۵۳۱ ، نسائی : ۴۶۸۱]

’’ جو شخص اپنا مال بعینہ کسی دوسرے آدمی کے پاس پڑا ہوا پالے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور مسروقہ مال کو

خریدنے والا اُس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس یہ مال بیچا تھا ۔ ‘‘

تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور جو حدیث ہم نے ابھی ذکر کی ہے اُس کے خلاف ہے ۔

13. مسجد میں خرید وفروخت ممنوع ہے

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( إِذَا رَأَیْتُمْ مَّن یَّبِیْعُ أَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ فَقُولُوْا : لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ )   [الترمذی : ۱۳۲۱ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز فروخت کرتے ہوئے یا خرید کرتے ہوئے دیکھو تو کہو : اللہ تمھاری تجارت میں کوئی برکت نہ ڈالے ۔ ‘‘

14.  حیلہ سازی کے ذریعے سودی لین دین کرنا

سودی لین دین بلا شبہ حرام ہے ۔ قرآن وحدیث کے واضح دلائل اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں ۔ بلکہ اللہ تعالی نے سودی لین دین کی حرمت معلوم ہونے کے بعد اسے جاری رکھنا اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا ہے ۔ لیکن صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو حیلہ سازی کے ذریعے سودی لین دین جاری رکھتے ہیں ۔ ویسے تو اس کی متعدد صورتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ، لیکن ہم اس کی ایک ہی صورت کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں۔ اور وہ ہے بیع عِینہ ۔

’بیع عِینہ ‘ یہ ہے کہ ایک شخص کو نقد پیسوں کی ضرور ت ہوتی ہے ۔ تو وہ کسی سے کوئی چیز مثلا گاڑی ایک لاکھ روپے میں ایک سال کے وعدے پر خرید لیتا ہے ۔ پھر ایک آدھ دن کے بعد وہ وہی گاڑی اسی آدمی کو نوے ہزار روپے میں نقد قیمت پرفروخت کردیتا ہے ۔ اور نوے ہزار وصول کر لیتا ہے ۔ پھر سال گزرنے پر وہ اسے ایک لاکھ روپے دے دیتا ہے ۔ اِس طرح اسے فوری طوری پر نوے ہزار روپے مل گئے ۔ اور گاڑی کے مالک کو ایک سال بعد دس ہزار روپے منافع مل گئے جو در اصل نوے ہزار روپے کا ایک سال کا سود ہے ۔ گاڑی کی بیع کو درمیان میں لا کر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ بیع عین سود پر مشتمل ہے ۔ اس لئے یہ حرام ہے۔

15. خوردنی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے

بعض تاجر حضرات خوردنی اشیاء کو ذخیرہ کر لیتے ہیں ، جبکہ مارکیٹ میں ان کی اشد ضرورت ہوتی ہے ، وہ اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب ان اشیاء کی قلت ہوگی تو یقینی طور پر ان کا ریٹ بڑھ جائے گا ، چنانچہ جب واقعتا ریٹ بڑھ جاتا

ہے تو وہ اپنا ’سٹاک ‘ مارکیٹ میں لے آتے ہیں ۔ اِس کا ملکی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور خوردنی اشیاء بہت مہنگی ہو جاتی ہیں ۔ بیچارے غریب عوام ان خوردنی اشیاء کو ترستے رہ جاتے ہیں جبکہ تاجر حضرات صرف ہوسِ زر پوری کرنے کیلئے اِس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر تے ہیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیٌٔ )  ’’ ایک گناہ گار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ۔ ‘‘ [ مسلم : ۱۶۰۵ ]

اِس کے برعکس ہونا یہ چاہئے کہ تاجر حضرات خوردنی اشیاء وافر مقدار میں مارکیٹ میں بھیجیں ، تاکہ عام لوگوں کو یہ چیزیں سستے داموں مل جائیں ۔ ظاہر ہے کہ جب یہ چیزیں سستے داموں ملیں گی تو جلدی نکل جائیں گی، اِس طرح تاجروں کے ہاتھوں میں سرمایہ جلد از جلد آئے گا اور وہ اس سے مزید اشیاء خرید کر مارکیٹ میں بھیج سکیں گے ۔ اور انھیں مزید منافع حاصل کرنے کے مواقع   میسر آئیں گے ۔

لیکن اگر تاجر حضرات ایسا نہ کریں اور خوردنی اشیاء کو سٹاک کرکے مارکیٹ میں ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کریں تو حکومت وقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جبراً ان سے خوردنی اجناس وغیرہ باہر نکلوائے اور مصنوعی قلت کا خاتمہ کرے ۔ یا وہ خود مناسب وقت پر ان اجناس کو خریدلے اور حسب ضرورت انھیں مارکیٹ میں بھیجتی رہے۔

آخر میں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دین ِ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! آخری گزارش یہ ہے کہ خرید وفروخت کی ہر وہ صورت جس میں جہالت ( لا علمی ) ہو یا دھوکہ پایا جاتا ہو وہ ممنوع ہے ۔ ’جہالت ‘سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو خریدنا ہو وہ نا معلوم ہو یا اس کی قیمت نامعلوم ہو ۔  اِس اصول کے تحت خرید وفروخت کی بعض ممنوع  صورتیں نہایت اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

01. باغ کا پھل پکنے سے پہلے ہی اس کا سودا کر نا ممنوع ہے ۔ کیونکہ طوفانِ باد وباراں یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کے تباہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھل کے پکنے سے پہلے اس کا سودا کرنے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا :

( أَرَأَیْتَ إِذَا مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمْرَۃَ بِمَ یَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہِ ؟ )    [ البخاری : ۲۱۹۸]

’’ تمھارا کیا خیال ہے ، جب اللہ تعالی پھل روک دے تو تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا مال کس چیز کے بدلے میں لے گا ؟ ‘‘

02. کھیتی کے تیار ہونے سے پہلے ہی اس کا سودا کرنا بھی ممنوع ہے ۔

03. کسی باغ کی پیداوار کا کئی سالوں کیلئے پیشگی سودا کرنا بھی ممنوع ہے ۔

04. حاملہ جانور کے پیٹ میں جو کچھ ہو اس کی ولادت سے پہلے ہی اس کا سودا کرنا ممنوع ہے ۔

05. شیردار جانور کو فروخت کرنے سے تین چار دن پہلے اس کے تھنوں میں دودھ روک دینا ۔ تاکہ گاہک کے سامنے جب اس کا دودھ نکالا جائے تو وہ بہت زیادہ ہو اور دھوکہ دے کر اس سے جانور کی قیمت زیادہ  وصول کی جائے ۔ یہ بھی حرام ہے ۔

06. ماہی گیر سے سودا کرنا کہ اس مرتبہ جتنی مچھلیاں تمھاری جال میں آئیں گی وہ میں اتنی رقم میں تم سے خرید لوں گا ۔ اس میں ماہی گیر اور مشتری دونوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جال میں کتنی مچھلیاں آئیں گی ۔ جہالت کی بناء پر یہ بیع ممنوع ہے ۔

07. بیعِ نجش بھی حرام ہے ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ایک بائع کسی چیز کو فروخت کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کے ذمے لگا دے کہ جب اس چیز کی قیمت لگنا شروع ہو تو وہ اس کی قیمت بڑھاتے جائیں ۔ تاکہ خریدار کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر پھانسنا ممکن ہو ۔ یقینا یہ بھی دھوکہ دہی ہے جو کہ حرام ہے ۔ اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صراحتا اس سے منع فرمایا ہے ۔   [ البخاری : ۲۱۴۲، مسلم :۱۴۱۳، ۱۵۱۵]

محترم حضرات ! خرید وفروخت کے جو آداب واحکام ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کئے ہیں ، اگر تمام مسلمان   پابندی سے ان پر عمل کریں تو یقینی طور پر ان کے بہت سارے مالی مسائل حل ہو سکتے ہیں ، معاشی پریشانیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ان کے رزق میں برکت آسکتی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان آداب واحکام پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین