خصائصِ رمضان و فضائلِ صیام

=========

علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرٰی ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُوْنِهَا وَ بُطُوْنُهَا مِنْ ظُهُوْرِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ!؟ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ أَدَامَ الصِّيَامَ وَ صَلّٰی لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ غرف الجنۃ : ۲۵۲۷، و قال الألباني حسن ]

’’جنت میں ایسے اونچے محل ہیں جن کے باہر کے حصے ان کے اندر کے حصوں سے اور اندر کے حصے باہر کے حصوں سے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ایک اعرابی نے اٹھ کر پوچھا : ’’اے اللہ کے نبی! وہ کن کے لیے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لیے جو پاکیزہ گفتگو کریں اور کھانا کھلائیں اور روزوں پر ہمیشگی کریں اور اللہ کے لیے نماز پڑھیں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘

رمضان میں قرآن نازل ہوا

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ  [البقرۃ 185]

رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا

صحف ابراهيم یکم رات رمضان

تورات چھ روزے گزرنے کے بعد

انجیل تیرہ رمضان کے بعد

زبور 18 رمضان کے بعد

قرآن 24 رمضان کے بعد

رمضان اور قرآن سفارش

” الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ "، قَالَ : ” فَيُشَفَّعَانِ [مسند أحمد،6626]

دورہ جبریل

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ ] صحيح البخاري،6[

مبارک مہینہعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ".] نسائي [

دس ماہ کے برابر

صیام رمضان بعشرۃ اشہر وصیام ستۃ ایام بشہرین ] ابن خزیمہ[

کفارہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ : ” الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ] مسلم[

قیام رمضان

غفر لہ ما تقدم من ذنبہ [بخاری ]

صیام رمضان

غفر لہ ما تقدم من ذنبہ [بخاری]

شیاطین بند

«إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ» [مسلم، كِتَابُ الصِّيَامِبَابُ فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ،2495]

پہلی رات

إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ [ ابن ماجہ ]

ہررات

وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ [ ابن ماجہ ]

قدر کی رات

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ [ القدر : 3]

لِلَّهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ [ نسائی ]

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ  [الدخان : 3]

بے شک ہم نے اسے ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈرانے والے تھے۔

من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ[ بخاری ]

رمضان سخاوت

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ  [بخاري ]

رمضان میں عمرہ

تقضی حجۃ معی

رمضان المبارک کےروزےرکھنافرض ہیں

قرآنِ حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :

يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ [البقرة، 183]

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کا حکم دیا فرمایا

فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ ۞[ البقرہ 185]

تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"”بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ””.[ بخاری ]

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

روزوں کا ثواب

01. روزے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.[ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من اليمان، 1 : 22، رقم : 38]

’’جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

رمضان المبارک کے دوران قیام بھی گزشتہ تمام گناہ معاف کروانے کا ذریعہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. [بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1 : 22، رقم : 37]

’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا

فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

02. روزے جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ. [نسائی، السنن، کتاب الصيام، 2 : 637، رقم : 2230، 2231]

’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنْ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا ]بخاري[

کہ جو شخص لوجہ اللہ ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے

03. روزے کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ ﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ. [ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638]

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔‘

وفی روایۃ: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ. [بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول انی صائم اذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805]

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘

04. روزہ دار کے لیے انتہائی خوشی کے دو لمحات

روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ کئی خوشیاں بھی ملیں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.

’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘

01.[ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805]

02. [مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب : فضل الصيام، 2 : 807، رقم : 1151]

05. اللہ کے نزدیک روزےدار کے منہ سے آنے والی خوشبو کی اہمیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: « والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك»

خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔

مسلم شریف میں الفاظ اس طرح ہیں:

«ولخلوف فیه أطیب عند اللہ من ریح المسك»

06. قیامت کے دن روزہ سفارشی بن کر آئے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

((اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآَنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ۔)) (مسند احمد: ۶۶۲۶)

روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے اوقات میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا تھا، لہٰذا تو اب اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا: میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے روکے رکھا تھا، لہٰذا اب تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، نتیجتاً دونوںکی سفارش قبول کی جائے گی۔

07. روزے دار کو جنت میں ویلکم کہنے کیلئے خاص استقبالیہ لگایا جائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

”نمازی کو جنت میں داخل ہونے کے لئے ”باب الصلوٰۃ” سے بلایا جائے گا۔ جو مجاہد ہے اسے ”باب الجہاد” سے ندا دی جائے گی۔ جو شخص روزے دار ہے اسے ”باب الریّان” سے پکارا جائے گا۔ جو صاحب الصدقہ ہے اسے ”باب الصدقہ” سے جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"”إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الرَّيَّانُ، ‏‏‏‏‏‏يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ””.

، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔

روزہ چھوڑنے کا گناہ اور نقصان

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ يَقْضِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِنْ صَامَهُ [ بخاری معلقا]

جس نے ماہ رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی (شرعی) عذر یا بیماری کے ترک کیا تو وہ قیامت تک بھی لگاتار روزے رکھتا رہے تو اس روزے کی قضا ادا نہیں ہو سکتی

گرمی کے روزے ایمان و استقامت کا امتحان

امسال چونکہ روزے گرمی کے موسم میں آ رہے ہیں اس لیے سلف صالحین کے چند ایمان افروز واقعات سنتے ہیں تاکہ ہمارے دلوں میں بھی اس سخت موسم میں روزے رکھنے کا جذبہ پیدا ہو

01. مکہ مکرمہ 10ہجری 19 رمضان المبارک کو فتح ہوا، رمضان کا مہینہ تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مدینہ سے مکہ کی طرف نکلے تو روزے کی حالت میں تھے سخت گرمی تھی وہ بھی عرب کی جھلسا دینے والی گرمی، راستے میں پتھریلی زمین تپتے ہوئے چولہے کا منظر پیش کر رہی تھی جانی دشمن سے مقابلہ تھا سائے بہت کم تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے مگر اس حالت کے باوجود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین روزے کی حالت میں تھے اور روزے کے ساتھ پیار محبت، لگن اور تڑپ اس قدر زیادہ تھی کہ راستے میں مقام کدید پر پہنچ کر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے افطار کرنے کا حکم دیا تو سب پریشان ہو گئے کہ اب ہمیں روزہ چھوڑنا پڑے گا

02. عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ معرکہ موتہ میں شہید ہوئے تو بوقت شہادت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ روزے کی حالت میں تھے (البدایہ والنہایہ)

03. ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت گرمی میں روزے رکھا کرتی تھیں

(لطائف المعارف)

04. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کیفیت یہ تھی کہ سخت گرمی میں روزے رکھتے بسا اوقات یہ کیفیت بھی بن جاتی کہ آپ بے ہوش ہو جایا کرتے تھے لیکن روزہ افطار نہ کرتے

(لطائف المعارف)

05. سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ سخت گرمی میں روزے رکھا کرو تاکہ جہنم کی گرمی سے بچ سکو اور رات کے اندھیرے میں اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کیا کرو تاکہ قبر کے اندھیرے سے بچ سکو

(لطائف المعارف لابن رجب)

06. سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو رونے لگے اور اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے افسوس کہ سخت روزوں میں لگنے والی پیاس (کی چاشنی) ختم ہو جائے گی

(الزہد لابن مبارک)

07. سیدنا عامر بن قیس رضی اللہ عنہ امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ سے شام تشریف لائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ کی کوئی خواہش یا ضرورت ہو تو بتائیں انہوں نے انکار کر دیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بار بار پوچھا تو انہوں نے ہربار انکار کر دیا جب انہوں نے زیادہ ہی اصرار کیا تو کہنے لگے میری حاجت یہ ہے کہ مجھ پر بصرہ کی گرمی لوٹا دو شائد کہ مجھ پر روزہ سخت ہوجائے تمہارے شہر میں تو بہت ہلکا روزہ ہے

08. سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے

وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی

چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ

رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو

پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا

اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،،

چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں

سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ

ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا

چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے

ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے

اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے

اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے

اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں

اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے

کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے

(الراوي : زيد بن أسلم المحدث : الألباني – المصدر : السلسلة الصحيحة – لصفحة أو الرقم : 7/469)

09. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سخت گرمی میں روزے رکھتے کبھی بے ہوش ہو کر گر پڑتے تو ان کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے جاتے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اس بات کا علم تھا کہ سفر میں روزے کی رخصت ہے مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ روزہ رکھنے کا اجر و ثواب کس قدر زیادہ ہے نیز ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھا

وان تصوموا فھو خیر لکم

اور یہ کہ تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین