خطبۂ حجۃ الوداع (2)
اہم عناصرِ خطبہ:
1۔ تکمیل خطبۂ یوم النحر اور اس کے اہم نکات
2۔ خطبۂ یوم النحر کی مختلف روایات
3۔ منیٰ میں ایک اور خطبہ
4۔ خطبۂ حجۃ الوداع اور مسیحِ دجال
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام! گذشتہ خطبہ ٔ جمعہ میں ہم نے عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع کا تفصیل سے تذکرہ کیا تھا اور اسی طرح خطبۂ یوم النحر کا بھی اجمالا ذکر کیا تھا ۔۔۔۔۔ اور ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی تشریح ہم اگلے خطبہ میں عرض کریں گے۔ تو لیجیے اس کی بعض تفصیلات سماعت کیجیے۔
اَعمال کے متعلق سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ یوم النحر میں ارشاد فرمایا کہ (وسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَسَيَسْأَلُكُمْ عن أعْمالِكُمْ،) (صحيح البخاري:4406)
’’ اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے۔ تو وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔‘‘
لہٰذا ہم پر یہ بات لازم ہے کہ ہم عقائد کی اصلاح کے بعد اعمال کی اصلاح پر بھر پور توجہ دیں اور صرف وہ اعمال کریں جو ہمارے رب کو راضی کرنے والے ہوں اور ان اعمال سے پرہیز کریں جو اسے ناراض کرنے والے ہوں اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا یا ان کی طرف ترغیب دلائی۔ جبکہ اللہ کو نارض کرنے والے اعمال وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا یا ان سے ڈرایا۔ یاد رہے کہ کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک کہ اس میں دو شرطیں نہ پائی جاتی ہوں: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور اس میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا گیا ہو۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے مطابق ہو۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿فَمَن كَانَ يَرْجُوا۟ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَٰلِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدَۢا (سورة الكهف:110)
’’ لہٰذا جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہو اسے چاہيے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إلى صُوَرِكُمْ وأَمْوالِكُمْ، ولَكِنْ يَنْظُرُ إلى قُلُوبِكُمْ وأَعْمالِكُمْ.) (صحيح مسلم:2564)
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(تُعْرَضُ الأعْمالُ في كُلِّ يَومِ خَمِيسٍ واثْنَيْنِ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ في ذلكَ اليَومِ، لِكُلِّ امْرِئٍ لا يُشْرِكُ باللَّهِ شيئًا، إلَّا امْرَءًا كانَتْ بيْنَهُ وبيْنَ أخِيهِ شَحْناءُ، فيُقالُ: ارْكُوا هَذَيْنِ حتَّى يَصْطَلِحا، ارْكُوا هَذَيْنِ حتَّى يَصْطَلِحا.) (صحيح مسلم:2565)
’’ ہر جمعرات اور سوموار کو اعمال پیش کيے جاتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتا ہے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان بغض اور کینہ پایا جاتا ہو تو کہا جاتا ہے: ان دونوں کو ڈھیل دے دو یہاں تک کہ صلح کرلیں، ان دونوں کو ڈھیل دے دو یہاں تک کہ صلح کرلیں۔‘‘
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ تصحیح عقائد کے بعد اصلاحِ اعمال ضروری امر ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی روشنی میں اپنے اعمال کی اصلاح کا اہتمام کرنا چاہيے۔
تبلیغ ِ دین کی اہمیت
خطبۂ یوم النحر کی تیسری اہم بات‘ جو خطبۂ عرفات میں نہیں تھی‘ وہ یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فَلْيُبْلِغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ،)یعنی’’ جو موجود ہے وہ غیر موجود تک اللہ کا دین پہنچائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تبلیغ کرنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا نہایت اہم امر ہے۔ اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے والا شخص اس لحاظ سے بڑا خوش نصیب ہوتا ہے کہ جب لوگ اس کی دعوت پرعمل کرتے ہیں تو اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا عمل کرنے والوں کو ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَن دَعا إلى هُدًى، كانَ له مِنَ الأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن أُجُورِهِمْ شيئًا، ومَن دَعا إلى ضَلالَةٍ، كانَ عليه مِنَ الإثْمِ مِثْلُ آثامِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن آثامِهِمْ شيئًا.) (صحيح مسلم:2674)
’’ جو شخص ہدایت کی طرف دعوت دیتا ہے تو اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ملتا ہے اور پیروی کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آتی اور جو شخص کسی گناہ کی طرف بلاتا ہے تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ہوتا ہے جتنا اس کے کرنے والوں کو ہوتا ہے اور کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں آتی۔‘‘
لیکن دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہيے کہ وہ جس بات کی طرف لوگوں کو دعوت دیں وہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو اور انہیں اس کے بارے میں علم حاصل ہو۔ کیونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے علم سب سے پہلی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ۖ وَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ‎﴿١٠٨﴾ (سورة يوسف:108)
’’ آپ کہہ دیجيے کہ یہی(دین اسلام)میری راہ ہے۔ میں اور میرے ماننے والے‘ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دلیل و برہان کی روشنی میں بلاتے ہیں اور اللہ کی ذات بے عیب ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے والوں کی ایک اور فضیلت جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ہی کے موقعہ پر منیٰ میں مقامِ خیف پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمائی وہ یہ ہے:

(نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي، فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ، غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ، تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ) (سنن ابن ماجه:3056)
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوشی، بہجت و سرور اور آسودگی دے جس نے میری بات سنی اور اسے آگے پہنچا دیا، کیونکہ کئی علم لینے والے(فقیہ)سمجھ دار نہیں ہوتے اور کئی علم لینے والے اسے اپنے سے زیادہ سمجھ دار تک پہنچا دیتے ہیں اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی موجودگی میں مومن کے دل میں کینہ داخل نہیں ہوتا۔ اللہ کے لیے عمل خالص کرنا، مسلمانوں کے سربراہوں سے خیر خواہی کرنا اور ان کی جماعت میں بہر حال شامل رہنا۔ کیونکہ ان کی دعوت ان سب کو محیط ہوتی ہے(جیسے ایک دیوار ان کا احاطہ کرتی ہے اسی طرح ان کی دعوت’جو کہ دعوتِ اسلام ہے‘ بھی ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور انھیں فرقہ بندی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس لیے ان کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا اشد ضروری ہے۔)‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے خوشی اور آسودگی کی دعا فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کو سنتے ہیں اور پھر انہیں آگے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تین باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور آپ نے فرمایا کہ یہ تینوں چیزیں بغض اور کینے کے منافی ہیں، یعنی اگر یہ چیزیں موجود ہوں تو مومن کے دل میں بغض اور کینہ نہیں آ سکتا اور وہ ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کو خالص کرنا
جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ہر عملِ صالح کی قبولیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے وہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور اس میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا گیا ہو۔
فرمان الٰہی ہے: ﴿وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ وَيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ ٱلْقَيِّمَةِ ‎﴿٥﴾ (سورة البينة:5)
’’ اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ بس اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے اور یکسو ہو کر اور وہ نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں۔ یہی نہایت درست دین ہے۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ فَٱعْبُدِ ٱللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ ٱلدِّينَ ‎﴿٢﴾‏ أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ (سورة الزمر:2تا3)
’’ بے شک ہم نے یہ کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل کی ہے، لہٰذا آپ اللہ کی عبادت‘ اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے کرتے رہیں۔ خبردار! دینِ خالص اللہ کے لیے ہی ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُۥ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُسْلِمِينَ ‎﴿١٦٣﴾ (سورة الأنعام:162تا163)
’’ آپ کہہ دیجيے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرنا ضروری ہے، ورنہ اگر کوئی عمل غیر اللہ کے لیے کیا جائے، یا کسی عمل میں غیر اللہ کو شریک کر لیا جائے، یا اس میں ریاکاری یا لوگوں سے تعریف سننے کی نیت شامل ہو جائے تو ایسا عمل کسی کام کا نہیں رہتا، بلکہ الٹا وبالِ جان بن جاتا ہے۔
(2) سربراہانِ مملکت سے خیر خواہی کرنا
سربراہانِ مملکت سے خیرخواہی کرنے سے مقصود یہ ہے کہ بر حق کاموں میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیقِ الٰہی کی دعا کی جائے۔ انہیں امورِ مملکت کے سلسلے میں نیک مشورے دیے جائیں، مملکت میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان کی راہنمائی کی جائے، معاشرے میں اسلامی اقدار کے فروغ اور منکرات کے خاتمے کے لیے انہیں اچھے انداز سے نصیحت کی جائے اور اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کی غلطیوں کو لوگوں کے سامنے ذکر کر کے انہیں ان کے خلاف بغاوت پر نہ ابھارا جائے، بلکہ خفیہ طور پر اور خیر خواہی کے انداز میں انہیں متنبہ کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنا: لِمَنْ؟ قالَ: لِلَّهِ ولِكِتابِهِ ولِرَسولِهِ ولأَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ وعامَّتِهِمْ.) (صحيح مسلم:55)
’’ دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: کس کے لیے اے اللہ کے رسول؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، عام مسلمانوں کے لیے اور ان کے حکمرانوں کے لیے۔‘‘
(3) مسلمانوں کی جماعت میں بہر حال شامل رہنا
جب تمام مسلمان یا ان کی اکثریت ایک خلیفہ کے تحت جمع ہو تو ان کی جماعت کو نہ چھوڑا جائے اور ان سے الگ ہو کر ان میں انتشار یا افتراق نہ ڈالا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَن رَأَى مِن أمِيرِهِ شيئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ، فإنَّه مَن فارَقَ الجَماعَةَ شِبْرًا، فَماتَ، فَمِيتَةٌ جاهِلِيَّةٌ.) (صحيح مسلم:1849)
’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہو تو اسے صبر کرنا چاہيے، کیونکہ جو آدمی جماعت سے بالشت بھر الگ ہو اور اسی حالت میں اس کی موت آ جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘
اور حضرت حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لوگ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اندیشے کے پیشِ نظر شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہ کہیں میں شر میں مبتلا نہ ہو جاوں۔ چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خیر(اسلام)سے مشرف کیا، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا اس شر کے بعد بھی کوئی خیر آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور اس میں کدورت ہو گی۔ میں نے کہا: کدورت سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بغيرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بغيرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ منهمْ وَتُنْكِرُ،)’’ ایسے لوگ آئیں گے جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے پر چلیں گے اور میری سیرت کو چھوڑ کر کسی اور کی سیرت سے راہنمائی لیں گے۔ تمھیں ان کی بعض باتیں اچھی لگیں گی اور بعض بری لگیں گی۔‘‘میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کچھ داعی ایسے آئیں گے کہ جو گویا جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، جو بھی ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو اس میں گرا دیں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی صفات بیان فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم میں سے ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں بات کریں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر وہ زمانہ مجھ پر آ گیا تو آپ مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وإمَامَهُمْ،)’’تم ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران سے وابستہ رہنا۔‘‘ میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا حکمران نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فَاعْتَزِلْ تِلكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، ولو أَنْ تَعَضَّ علَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ علَى ذلكَ.) (صحيح مسلم:1847)
’’ پھر تم ان تمام فرقوں کو چھوڑ دینا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانا پڑیں، یہاں تک کہ تجھ پر اسی حالت میں موت آجائے۔‘‘ نیز حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَن أتاكُمْ وأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ علَى رَجُلٍ واحِدٍ، يُرِيدُ أنْ يَشُقَّ عَصاكُمْ، أوْ يُفَرِّقَ جَماعَتَكُمْ، فاقْتُلُوهُ.) (صحيح مسلم:1852)
’’ جو شخص تمھارے پاس اس وقت آئے جب تم ایک حکمران پر متفق ہو تاکہ وہ تمھارے درمیان انتشار پیدا کرے اور تمھاری جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو تم اسے قتل کردینا۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ تینوں امور(اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کو خالص کرنا، سربراہِ مملکت سے خیر خواہی کرنا اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا)یہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے بندۂ مومن کا دل مسلمانوں کے متعلق بغض اور کینہ جیسی امراض سے پاک رہتا ہے۔
خطبۂ یوم النحر … ایک اور روایت
سنن ابن ماجہ کی صحیح روایت میں خطبۂ یوم النحر کے حوالے سے کچھ مزید الفاظ بھی وارد ہیں جو سابقہ روایت میں نہیں تھے اور وہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کے خون، مال اور اس کی عزت کی حرمت بیان کرنے کے بعد فرمایا:
(أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ، وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَدًا، وَلَكِنْ سَيَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَيَرْضَى بِهَا،) (سنن ابن ماجه:3055)
’’ خبر دار! ہر مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی والد جرم کرے تو اس کا وبال اس کی اولاد پر نہیں پڑتا اور کوئی اولاد جرم کرے تو اس کی ذمہ داری اس کے والد پر نہیں پڑتی۔ خبردار! شیطان اس بات سے یقینا مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس شہر میں اس کی کبھی پوجا کی جائے گی، ہاں بعض ان اعمال میں اس کی اطاعت ضرور کی جائے گی جنہیں تم معمولی سمجھو گے، تو وہ بس اسی پر ہی خوش ہو جائے گا۔۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی طرف اشارہ فرمایا:
(1) ہر شخص اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے۔ لہٰذا اس کے جرم کا بدلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اسی سے لیا جائے گا۔ اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا:﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ (سورة الإسراء:15)
’’ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ نیز فرمایا:﴿ كُلُّ نَفْسِۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ‎﴿٣٨﴾(سورة المدثر:38)
’’ ہر نفس اپنی کمائی کے ساتھ گروی ہے۔‘‘ اور عربوں میں چونکہ یہ عام رواج تھا کہ ایک شخص کے جرم کی پاداش میں اس کے کسی قریبی رشتہ دار کو پکڑ لیتے تھے جو کہ سرا سر ظلم تھا۔ اس ليے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع کے دوران اس سے منع کرتے ہوئے قانونِ جرم و سزا کی ایک اہم شق کو بیان فرمایا دیا کہ’’ جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ یہ نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی!
(2) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر والد اور اولاد دونوں کا تذکرہ کیا کہ ان میں سے کوئی جرم کرے تو اس کی پاداش میں دوسرے کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ یعنی والد کے جرم کی سزا اس کی اولاد کو یا اولاد کے جرم کی سزا اس کے والد کو دینا درست نہیں۔ جب والد اور اس کی اولاد کے ما بین یہ معاملہ نہیں ہو سکتا تو کسی اور کے درمیان بالاولی نہیں ہو سکتا۔
(3) اس روایت کی تیسری اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے آگاہ فرمایا کہ اب جبکہ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں اور کل تک جو قبائل اسلام کے دشمن تھے وہ آج مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں تو شیطان اپنے طور پر اس سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرۃ العرب میں اس کی عبادت یعنی کفریہ کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے گی۔ ہاں بعض اعمال‘ جنہیں عام طور پر لوگ معمولی تصور کرتے ہیں مثلا جھوٹ، خیانت، چغل خوری، غیبت اور دھوکہ دہی وغیرہ‘ ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی پر خوش ہو جائے گا۔ اسی طرح جدید الیکٹرانک فتنے مثلا موبائل، ٹی وی، انٹرنیٹ اور کیمرہ وغیرہ کے ذریعے پھیلنے والی خرابیاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔
یوم النحر … ایک اور خطبہ
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دوران اپنی اونٹنی(الجدعاء)پر بیٹھے ہوئے یوم النحر کو منیٰ میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوے کی رکاب میں اپنے پاؤں رکھ کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بلند آواز سے فرمایا: (أَلا تَسْمَعُوْنَ)کیا تم سنتے نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا : (ألَا لعلَّكم لا تَرَوني بعدَ عامِكم هذا،)’’ شاید تم مجھے آئندہ سال نہ دیکھ سکو۔‘‘
ایک آدمی جو سب سے پیچھے کھڑا تھا، کہنے لگا: تو آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اتَّقوا اللَّهَ ربَّكم وصلُّوا خمسَكم وصوموا شَهرَكم وأدُّوا زَكاةَ أموالِكم وأطيعوا ذا أمرِكم تدخلوا جنَّةَ ربِّكُم) (صحيح الترمذي:616)وفي رواية لأحمد: (أعبدواربكم…)
’’ تم اللہ سے ڈرتے رہو جو کہ تمھارا رب ہے اور پانچوں نمازیں ادا کرتے رہو اور اپنے مالوں کی زکاۃ دیتے رہو۔ نیز اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرتے رہو۔ اس طرح تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘ احمد کی روایت میں(اِتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ)کی بجائے(اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ) کے الفاظ ہیں: اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کا حکم دیا اور ان پر عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سنائی۔ وہ پانچ باتیں یہ ہیں:
(1) تقوی:

تقوی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف ہو جس کی بناء پر وہ اپنے دامن کو اس کی نافرمانی سے بچائے رکھے اور جب اس کے دل میں برائی کا خیال پیدا ہو یا شیطان اس کے لیے کسی برائی کو مزین کرکے پیش کرے تو اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے اور اس برائی کے درمیان حائل ہو جائے اور وہ اس سے باز آجائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار تقوی کا حکم دیا ہے۔ یاد دہانی کے لیے چند آیات آپ بھی سماعت فرمائیے:
فرمان الٰہی ہے:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٨﴾ (سورة الحشر:18)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور ہر شخص دیکھ لے کہ اس نے کل(قیامت کے دن)کے لیے کیا آگے بھیجا ہے! اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎﴿١٠٢﴾ (سورة آل عمران:102)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمھاری موت اس حالت میں ہی آئے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوْلًا سَدِيدًا ‎﴿٧٠﴾‏ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (سورة الأحزاب:67تا68)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمھارے کام سنوار دے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تقوی کا حکم دیا جبکہ تقوی کے فوائد بیان کرتے ہوئے اس کا فرمان ہے:
﴿وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًا ‎﴿٢﴾‏ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (سورة الطلاق:2تا3)
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی راہ نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مِنْ أَمْرِهِۦ يُسْرًا ‎﴾ (سورة الطلاق:4)
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّـَٔاتِهِۦ وَيُعْظِمْ لَهُۥٓ أَجْرًا ‎﴾‏ (سورة الطلاق:5)
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اسے بہت بڑا اجرعطا کرتا ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تقوی کے فوائد بیان فرمائے کہ اس سے ڈرنے والے اور اس کی نافرمانیوں سے اپنے آپ کو بچانے والے مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ مشکلات اور پریشانیوں سے نکلنے کے راستے بنا دیتا ہے، ان کے کام آسان کر دیتا ہے، ان کے رزق میں فراوانی عطا کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو مٹا کر انھیں اجرِعظیم نصیب کرتا ہے۔
(2) پانچ نمازیں
دن اور رات میں پانچ نمازیں ہر مکلف مسلمان پر فرض ہیں اور توحید و رسالت کے اقرار کے بعد انھیں پابندی کے ساتھ ادا کرنا دین ِ اسلام کا دوسرا بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دین کا ستون قرار دیا اور اس کی فرضیت و فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا:

(خَمسُ صلواتٍ كتَبهُنَّ اللهُ على العِبادِ، فمَن جاء بهنَّ لم يُضيِّعْ منهنَّ شيئًا استخفافًا بحقِّهنَّ، كان له عندَ اللهِ عهدٌ أنْ يُدخِلَه الجنَّةَ، ومَن لم يأتِ بهنَّ، فليس له عندَ اللهِ عهدٌ؛ إنْ شاء عذَّبه، وإنْ شاء أدخَلَه الجنَّةَ.) (سنن أبي داود:1420)
’’ اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ لہٰذا جو شخص انھیں ادا کرے گا اور انھیں ہلکا سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی نماز کو ضائع نہیں کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص انھیں ادا نہیں کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں، اگر چاہے گا تو اسے عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے جنت میں داخل کر دے گا۔‘‘
عزیزان گرامی! اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں بلایا، آسمانوں سے اوپر جہاں تک اس نے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرایا اور اس دوران آپ اور آپکی امت پر پانچ نمازیں فرض کیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ تمام فرائض میں فریضۂ نماز انتہائی اہم ہے! اور اس کی اہمیت اور قدر و منزلت کے پیشِ نظر ہی اللہ تعالیٰ روزِ قیامت سب سے پہلے اسی کا حساب لے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(أوَّلُ ما يحاسبُ بِهِ العبدُ يومَ القيامةِ الصَّلاةُ، فإن صلُحَت صلُحَ سائرُ عملِهِ، وإن فسَدت فسدَ سائرُ عملِهِ) (الترغيب والترهيب:1/189)
’’ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست نکلی تو باقی تمام اعمال بھی درست نکلیں گے اور اگر نماز فاسد نکلی تو باقی تمام اعمال بھی فاسد نکلیں گے۔‘‘
اور دوسری روایت میں فرمایا: (يُنْظَرُ في صلاتِهِ فإنْ صَلُحَتْ فقد أفلحَ ، وإنْ فَسَدَتْ فقد خَابَ وخَسِرَ) (الترغيب والترهيب:1/190)
’’ اس کی نماز میں دیکھا جائے گا، اگر وہ ٹھیک ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ ذلیل و خوار اور خسارے والا ہو گا۔‘‘
پانچ نمازوں کی فضیلت کے بارے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خک ٹہنی کو پکڑا اور اسے اتنا ہلایا کہ اس کے تمام پتے جھڑ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إنَّ المُسْلِمَ إذا توضَّأَ فأحسنَ الوضوءَ، ثمَّ صلَّى الصَّلواتِ الخمسَ-تحاتَّت خطاياهُ كما تحاتَّ هذا الورقُ وقالَ:{أَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} (الترغيب والترهيب:1/185)
’’ بے شک ایک مسلمان جب اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پانچ نمازیں( اپنے اپنے وقت پر)ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس ٹہنی کے پتے جھڑ گئے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے:’’ آپ دن کے دونوں اطراف کے اوقات میں اور کچھ رات گئے نماز قائم کریں، بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَرَأَيْتُمْ لو أنَّ نَهْرًا ببَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ منه كُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هلْ يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ؟ قالوا:لا يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ، قالَ: فَذلكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بهِنَّ الخَطَايَا.) (صحيح مسلم:667)
’’ بھلا بتاؤ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ لوگوں نے کہا: نہیں، ذرا سا میل بھی باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
(3) ماہِ رمضان کے روزے
پانچ نمازوں کی طرح ماہِ رمضان کے روزے بھی ہر مکلف مسلمان پر فرض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿١٨٣﴾(سورة البقرة:183)
’’ اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کيے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کيے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے روزوں کے کئی فضائل بیان فرمائے۔ ان میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ:
(مَن صَامَ رَمَضَانَ، إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ) (صحيح البخاري:38)
’’ جو شخص ایمان و یقین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ سے اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ اور بہت سارے فضائل دیگر احادیث میں ثابت ہیں جن کا تذکرہ ہم تفصیل سے رمضان المبارک کے خطبات کے ضمن میں کر چکے ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں لوگوں کے بہت بڑے مجمع کے سامنے جہاں دیگر اعمال صالحہ کی تاکید فرمائی وہاں ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق بھی تاکید فرما دی تاکہ ان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔
(4) مال کی زکاۃ
اس حدیث کی چوتھی بات اموال کی زکاۃ ادا کرنا ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں زکاۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زکاۃ کی اہمیت بھی نماز سے کم نہیں۔ اس ليے اصحابِ اموال کو زکاۃ ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہيے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آغاز میں جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا آپ نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا:
(واللَّهِ لو مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ علَى مَنْعِهِ،) (صحيح البخاري:7284)
’’ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے ‘تو میں ان سے اس کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔‘‘
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی کس قدر اہم ہے! خاص طور پر ایسا معاشرہ جس میں طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہو، جہاں ایک گھر میں ہر قسم کی آسائش اور دنیا کی ہر نعمت موجود ہو اور اسی کے پڑوس میں کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ہو اور جہاں ایک محلے میں کئی اغنیاء رہائش پذیر ہوں اور انہی کے پہلو میں کئی فقراء، مساکین اور محتاج بھی موجود ہوں، وہاں زکاۃ کی اہمیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ سب سے پہلے لوگوں کو توحید و رسالت کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کرلیں تو انھیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: (فإذا فَعَلُوا، فأخْبِرْهُمْ أنَّ اللَّهَ قدْ فَرَضَ عليهم زَكاةً تُؤْخَذُ مِن أغْنِيائِهِمْ فَتُرَدُّ علَى فُقَرائِهِمْ،) (صحيح مسلم:19)
’’ اگر وہ ایسا کرلیں(یعنی نمازیں پڑھنا شروع کردیں) تو انھیں خبردار کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے اغنیاء سے لے کر انہی کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿‏ خُذْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا… (سورة التوبة:103)
’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ان کے مالوں سے صدقہ(زکاۃ)وصول کیجئے جس کے ذریعے ان(کے اموال)کو پاک اور ان(کے نفوس)کا تزکیہ کیجئے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کی ادائیگی سے مال پاک ہوتا ہے اور حرص، بخل اور لالچ وغیرہ سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔
(5) حاکم ِ وقت کی اطاعت
اس خطبۂ یوم النحر کی پانچویں بات ہے(أطيعوا ذا أمْرِكُم) یعنی’’ اپنے حکمرانوں اور ذمہ داران کی اطاعت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد ولی الأمر(حاکم)کی اطاعت کا حکم دیا ہے:
﴿‏ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ(سورة النساء:59)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی فرمانبرداری کرو اور ان کی جو تم میں اصحابِ اقتدار ہوں۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب اقتدار کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا، لیکن اپنی اطاعت کا حکم دینے کے بعد رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی اطاعت کے لیے(أطیعوا)کا لفظ دوبارہ استعمال کیا، جبکہ اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی اطاعت مستقل ہے جبکہ اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری مستقل نہیں بلکہ مشروط ہے اور وہ شرط کیا ہے؟ اس کی وضاحت حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کی گئی ہے:
(عَلَى المَرْءِ المُسْلِمِ السَّمْعُ والطَّاعَةُ فِيما أحَبَّ وكَرِهَ، إلَّا أنْ يُؤْمَرَ بمَعْصِيَةٍ، فإنْ أُمِرَ بمَعْصِيَةٍ، فلا سَمْعَ ولا طاعَةَ.) (صحيح مسلم:1839)
’’ سننا اور فرمانبرداری کرنا مسلمان پرضروری ہے، خواہ اسے اس بات کا حکم دیا جائے جو اسے پسند ہو یا اس بات کا جو اسے ناپسند ہو(یعنی ہر حال میں فرمانبرداری کرنا لازم ہے۔)سوائے اس کے کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے۔ لہٰذا اگر اسے(اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی)نافرمانی کرنے کا حکم دیا جائے تو اس حکم کو نہ سنا جائے اور نہ اسے مانا جائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حاکم/سربراہ/صاحبِ اقتدار کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مشروط ہے۔ چنانچہ اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حاکم وقت اور اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری نہیں کی جائے گی۔
برادران اسلام! اس دور میں معمولی سی باتوں پر اصحابِ اقتدار کے خلاف آوازیں بلند کی جاتی ہیں، احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ ملک میں شر انگیز فضا پیدا کر دی جاتی ہے، جلسوں اور جلوسوں میں حکمرانوں اور وزیروں کو گالیاں دی جاتی ہیں! حالانکہ یہ انداز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث کے منافی اور اہل السنۃ والجماعۃ کے منہج کے سراسر خلاف ہے۔ کیونکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا اصحابِ اقتدار کے متعلق متفقہ طور پر یہ منہج ہے کہ ان سے خیر خواہی کی جائے، حق کے امور میں ان سے معاونت کی جائے اور اگر وہ رعایا پر ظلم کریں تو انھیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کی بھلائی کے لیے دعا کی جائے۔ اس بارے میں چند احادیث سماعت فرمائیے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمیں حکام کی نافرمانی کرنے سے منع کیا اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں سنایا کہ:
(لا تَسُبُّوا أُمَراءَكم ولا تَغُشُّوهم ولا تَبْغَضوهم واتقوا اللهَ واصبِروا فإنَّ الأمرَ قريبٌ) (تخريج كتاب السنة:1015)
’’ تم اپنے حکمرانوں کو گالیاں مت دو اور ان سے دھوکہ نہ کرو اور ان سے بغض نہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور صبر کرو کیونکہ معاملہ قریب ہے۔‘‘
اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ألا مَن ولِيَ عليه والٍ، فَرَآهُ يَأْتي شيئًا مِن مَعْصِيَةِ اللهِ، فَلْيَكْرَهْ ما يَأْتي مِن مَعْصِيَةِ اللهِ، ولا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِن طاعَةٍ.) (صحيح مسلم:1855)
’’ خبردار! جس شخص پر کسی کو حکمران بنایا جائے، پھر وہ اسے دیکھے کہ وہ کچھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے تو وہ اس کی نافرمانی کو تو پسند نہ کرے لیکن اس کی فرمانبرداری سے اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔‘‘
اور حضرت حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(يَكونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لا يَهْتَدُونَ بهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فيهم رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ في جُثْمَانِ إنْسٍ، قالَ: قُلتُ: كيفَ أَصْنَعُ يا رَسولَ اللهِ، إنْ أَدْرَكْتُ ذلكَ؟ قالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلأَمِيرِ، وإنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ،) (صحيح مسلم:1847)
’’ میرے بعد کچھ حکمران آئیں گے جو میری ہدایت سے راہنمائی نہیں لیں گے اور نہ ہی وہ میری سنت پر عمل کریں گے اور عنقریب تم میں سے کچھ ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے اور جسم انسانوں کے ہوں گے۔‘‘ میں نے کہا: اگر میں ایسے دور کو پا لوں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم حکمران کی بات سننا اور اس پر عمل کرنا اگرچہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے اور تمھارا مال ضبط کرلے۔‘‘
اور حضرت عیاض بن غنیم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِي سُلْطَانٍ فَلا يُبْدِهِ عَلانِيَةً وَلَكِنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيَخْلُوا بِهِ فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَاكَ وَإِلا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ”.) (رواه ابن أبي عاصم وصححه الألباني في ظلال الجنة:1096)
’’ جو شخص صاحبِ اقتدار کو نصیحت کرنا چاہے وہ علی الاعلان نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر علیحدہ ہو جائے(اور پھر نصیحت کرے۔)اگر وہ مان لے تو ٹھیک ہے، ورنہ نصیحت کرنے والا اپنا فرض پورا کر چکا۔‘‘
عزیزان گرامی! یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی احادیث اصحابِ اقتدار کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کے منہج و موقف کی وضاحت اور اس کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ لہٰذا اسی موقف کو اپنانا چاہئے اور اس سے انحراف کر کے ملک میں انارکی اور بغاوت کی فضا نہیں پیدا کرنی چاہئے کیونکہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے ملک میں بد نظمی، لا قانونیت اور انتشار پھیلتا ہے اور اگر حکام بغاوت کو کچلنے پر آمادہ ہو جائیں تو بے گناہ جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ۔۔۔ ہاں اگر اصحابِ اقتدار واضح کفر کا‘ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو‘ ارتکاب کریں اور اصحابِ علم و فضل کے سمجھانے کے باوجود وہ اس کفر کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوں تو ان کے خلاف خروج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خروج کرنے سے‘کسی بڑے شر اور فساد کے پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو اور خروج کرنے والے بغیر خون خرابے کے اصحابِ اقتدار کو ہٹانے پر قادر ہوں اور اگر وہ انھیں ہٹانے پر قادر نہ ہوں یا خروج کرنے سے کسی بڑے شر کے آنے کا خطرہ ہو تو پھر صبر کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں۔
حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم ہر حال میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے حتی کہ اگر ہماری حق تلفی کی گئی تو تب بھی ہم فرمانبرداری ہی کریں گے۔ اور یہ کہ ہم اصحابِ اقتدار سے اقتدار چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے اس کے کہ تم واضح کفر دیکھو جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل موجود ہو۔‘‘(صحيح البخاري :7055،صحيح مسلم:1709، الأمارة باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خطبہ میں پانچ باتوں کا حکم دیا(تقوی، پانچ نمازیں، ماہِ رمضان کے روزے، اموال کی زکاۃ اور حاکم کی فرمانبرداری۔)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:
(تدخلوا جنة ربكم)یعنی اگر تم ان پر عمل کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ اس ليے ہم سب کو ان پانچوں کی پابندی کرنی چاہئے۔
دوسرا خطبہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع کی مزید کچھ روایات پیش خدمت کی جاتی ہیں تاکہ اس موضوع کا مکمل احاطہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور خطبہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق کے وسط میں ہمیں خطبۃ الوداع دیا اور اس میں ارشاد فرمایا: (يا أيُّها النَّاسُ: إنَّ ربَّكمْ واحدٌ، وإنَّ أباكمْ واحدٌ، ألا لا فَضلَ لعربيٍّ على عَجميٍّ، ولا لعَجميٍّ على عَربيٍّ، ولا لأحمرَ على أسوَدَ، ولا لأسوَدَ على أحمرَ، إلَّا بالتَّقوَى،{إنَّ أكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أتْقاكُمْ،}ألا هل بلَّغتُ؟ قالوا: بلَى يا رسولَ اللهِ. قال: فلْيُبلِّغِ الشاهدُ الغائبَ)(صحيح الترغيب:2964)
’’ اے لوگو! بے شک تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ ہاں صرف تقوی اور پرہیز گاری سے ہی کوئی کسی پر فضیلت حاصل کر سکتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: {إنَّ أكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أتْقاكُمْ،}بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز شخص وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہو۔ خبردار! کیا میں نے پہنچا دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو موجود ہے وہ غیر موجود کو پہنچا دے۔‘‘
اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اہم باتوں کی تاکید فرمائی۔ ایک وحدتِ امت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت‘ ایک امت ہے، اس کا رب ایک اور اس کا باپ ایک ہے۔ لہٰذا اس امت کے ایک ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرے اورغیر اللہ کی عبادت کر کے اس میں انتشار اور فرقہ بندی پیدا نہ کرے۔ بالکل یہی بات اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں ارشاد فرمائی:

﴿إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ ‎﴾(سورة الأنبياء:92)
’’ بے شک تمھاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں، لہٰذا تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘
اور فرمایا: ‎﴿‏ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۟(سورة آل عمران:103)
’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔‘‘
یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس امت کو اتفاق و اتحاد کا درس دیتا ہے اور اختلاف اور گروہ بندی سے منع کرتا ہے اور اس وقت اس امت کی جو افسوسناک صورتحال ہے کہ یہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے اور دشمن اس پر غلبہ حاصل کر چکا ہے! اس سے نکلنے کا واحد راستہ وہی ہے جسے اس امت کے اولیں لوگوں نے اختیار کیا اور جسے اختیار کر کے انھوں نے ایک امت کا قابلِ رشک تصور پیش کیا اور آپس میں بے مثال اتفاق و اتحاد پیدا کیا اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت۔ صرف اللہ کے قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی۔ بس ان دو کے علاوہ تیسرا کوئی نہ تھا جسے پیشوا سمجھا جاتا اور جس کی فرمانبرداری کی جاتی اور یہی در اصل وہ صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَٰطِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (سورة الأنعام:153)
’’ اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا جدا کر دیں گے۔ یہ تمھارے لئے اللہ کا تاکیدی حکم ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘
اس خطبۂ حجۃ الوداع میں دوسری بات جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی وہ ہے قومیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفاضل کا خاتمہ۔ یعنی کسی قوم کو دوسری قوم پر اور کسی رنگ کو دوسرے رنگ پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں اگر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت ہے تو صرف تقوی کے اعتبار سے ہے۔ لہٰذا جو قوم یا جو شخص زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو گا اسے دوسری تمام اقوام اور تمام افراد پر فوقیت حاصل ہوگی چاہے اسکا تعلق عربوں سے ہو یا عجمیوں سے اور چاہے اسکا رنگ گورا ہو یا کالا۔
خطبۂ حجۃ الوداع ۔۔۔۔۔ اور دجال
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حجۃ الوداع کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے حالانکہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ حجۃ الوداع کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(حجۃ الوداع کے دوران)اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر آپ نے مسیح دجال کا تذکرہ کیا اور اس کے تذکرہ میں مبالغہ کیا اور فرمایا: (مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ أَنْذَرَهُ نُوحٌ وَالنَّبِيُّونَ مِنْ بَعْدِهِ وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِيكُمْ فَمَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ شَأْنِهِ فَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْكُمْ أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ عَلَى مَا يَخْفَى عَلَيْكُمْ ثَلَاثًا إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ وَإِنَّهُ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ) ‌(صحيح البخاري:4402)
’’ اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی مبعوث فرمائے سب نے اپنی اپنی امت کو اس(دجال)سے ڈرایا۔ اس سے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام نے ڈرایا اور وہ یقینا تم میں ظاہر ہو گا، اس کے بارے میں جو بات تم پر مخفی تھی وہ اب تم پر مخفی نہیں رہنی چاہئے۔ بے شک تمھارا رب تم پر مخفی نہیں۔ تین بار فرمایا۔ بے شک تمھارا رب کانا نہیں۔ اور وہ(دجال) یقینا دائیں آنکھ سے کانا ہو گا گویا کہ اس کی آنکھ ابھرے ہوئے انگور کے دانے کی طرح ہو گی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خطبۂ حجۃ الوداع میں امت کو فتنۂ دجال سے ڈرایا اوراس کے فتنے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ہر دور میں ہر نبی نے ڈرایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم میں ظہور پذیر ہو گا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ڈرانے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک ایسی علامت بھی بتا دی جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں بتائی تھی اور جس سے اسے پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی اور وہ ہے اس کا دائیں آنکھ سے کانا ہونا اور اس سے بھی زیادہ واضح علامت ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی اور وہ ہے اس کی پیشانی پر(کفر)کا لکھا ہونا ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔ آمین