خطبۂ عید الاضحی
اہم عناصر خطبہ:
01.قربانی: ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت
02.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف قرآن مجید میں
03.قربانی: امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکه
04.قربانی کے بعض اہم مسائل وآداب
05.ایامِ عید میں بعض منکرات کا ارتکاب!
برادران اسلام! آج عید الاضحی یعنی قربانی کی عید کا دن ہے۔ وہ عظیم دن کہ جس میں مسلمانانِ عالم حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اور اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا جیسا کہ ارشاد باری ہے: (وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبْرَاهِیْمَ خَلِیْلاً) (النساء4:125)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا بلند مقام عطا کیا کہ آپ کے بعد جتنے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے وہ سب کے سب آپ کی نسل سے تھے اور آپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے جتنی کتب نازل کیں وہ آپ ہی کی اولاد میں سے انبیاء علیہم السلام پر نازل کیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اِس پیارے نبی کا 49 مرتبہ ذکر کیا ہے اور ان کے مختلف واقعات کو بار بار ذکر کر کے ان کی تعریف کی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ إِبْرَٰهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ‎﴿١٢٠﴾‏ شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ ٱجْتَبَىٰهُ وَهَدَىٰهُ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ ‎﴿١٢١﴾‏ وَءَاتَيْنَٰهُ فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُۥ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ لَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ‎﴿١٢٢﴾‏ ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَٰهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ‎﴿١٢٣﴾ (النحل16:123-120)
’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) پیشوا اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ سب سے کٹ کر اللہ کے ہو گئے تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ نے انھیں چن لیا تھا اور راہِ راست کی طرف ان کی راہنمائی کر دی تھی۔اور ہم نے انھیں دنیا میں اچھائی دی تھی اور یقینا وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہونگے۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ بھی ملت ِ ابراہیمی کی پیروی کیجئے جو سب سے کٹ کر اللہ کے ہو گئے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَٰهِـۧمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُۥ ۚ وَلَقَدِ ٱصْطَفَيْنَٰهُ فِى ٱلدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُۥ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ لَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ‎﴿١٣٠﴾‏ إِذْ قَالَ لَهُۥ رَبُّهُۥٓ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿١٣١﴾ (البقرۃ2 :131-130)
’’اور ملت ِابراہیمی سے سوائے اُس شخص کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنا لیا کون اعراض کر سکتا ہے؟ ہم نے یقینی طور پر انھیں دنیا میں چن لیا تھا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہونگے۔ (یاد کرو) جب ابراہیم سے اس کے رب نے کہا: تُو اپنے رب کا اطاعت گذار بندہ بن جا تو اس نے کہا: میں رب العالمین کا اطاعت گذار بندہ بن گیا۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ مَا كَانَ إِبْرَٰهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ‎﴿٦٧﴾ (آل عمران3 :67)
’’ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی۔ بلکہ وہ موحد مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کئی طرح سے آزمایا اور ہر آزمائش میں آپ پورے اترے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَإِذِ ٱبْتَلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ رَبُّهُۥ بِكَلِمَٰتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِى ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى ٱلظَّٰلِمِينَ ‎﴿١٢٤﴾ (البقرۃ 2:124)
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو انھوں نے ان سب کو پورا کر دکھلایا۔ اللہ نے کہا: میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ابراہیم نے کہا: میری اولاد میں سے بھی؟ اللہ نے کہا: ظالم لوگ میرے اس عہد میں داخل نہیں ہونگے۔‘‘
(بِکَلِمَاتٍ) سے مراد تمام اوامر ونواہی ہیں۔ خاص طور پر ہجرت کرنے اور بیٹے کو قربان کرنے کا حکم۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی وفاداری کی اللہ تعالیٰ یوں تعریف کرتے ہیں:﴿ وَإِبْرَٰهِيمَ ٱلَّذِى وَفَّىٰٓ ‎﴾‏ (النجم53 :37)
’’اور وہ ابراہیم جنھوں نے (اپنے رب کے ساتھ) وفا کی۔‘‘
اُن آزمائشوں میں سے ایک آزمائش ان کے جگر گوشہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تعلق سے تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یوں فرماتے ہیں:

وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ ‎﴿٩٩﴾‏ رَبِّ هَبْ لِى مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ‎﴿١٠٠﴾‏ فَبَشَّرْنَٰهُ بِغُلَٰمٍ حَلِيمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ ٱلسَّعْىَ قَالَ يَٰبُنَىَّ إِنِّىٓ أَرَىٰ فِى ٱلْمَنَامِ أَنِّىٓ أَذْبَحُكَ فَٱنظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَٰٓأَبَتِ ٱفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّٰبِرِينَ ‎﴿١٠٢﴾فَلَمَّآ أَسْلَمَا وَتَلَّهُۥ لِلْجَبِينِ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَنَٰدَيْنَٰهُ أَن يَٰٓإِبْرَٰهِيمُ ‎﴿١٠٤﴾‏ قَدْ صَدَّقْتَ ٱلرُّءْيَآ ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ ٱلْبَلَٰٓؤُا۟ ٱلْمُبِينُ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَفَدَيْنَٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎﴿١٠٧﴾ (الصافات37 :107-99)
ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنے آبائی وطن کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ (رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ) ’’اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک برد بار بیٹے کی خوشخبری دی۔ اُس وقت آپ کی عمر اسی سال سے زیادہ تھی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت ہاجرہ کے بطن سے ایک بیٹا عطا کیا اور انھوں نے اس کا نام ’اسماعیل‘ رکھا۔ اِس بیٹے کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی آزمائش یہ کی کہ انھیں حکم دیا کہ اسے اور اس کی والدہ کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آئیں جہاں نہ کوئی انسان آباد تھا اور نہ کوئی پھل دار درخت اگتا تھا اور نہ وہاں پانی کا وجود تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس آزمائش میں پورے اترے اور محض اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے اِس چھوٹے سے خاندان کو اللہ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر چلے گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے اِس خاندان پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت ہاجرہ نے کمر پٹہ باندھا تاکہ حضرت سارہ ان کا سراغ تک نہ پائیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور ان کے بچے (اسماعیل علیہ السلام) کو وہاں سے نکال لائے۔ اُس وقت حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں بیت اللہ کے پاس مسجد الحرام کی بلند جانب‘ جہاں آبِ زمزم ہے‘ ایک بڑے درخت تلے بٹھا دیا۔ اُس وقت نہ وہاں کوئی آدمی آباد تھا اور نہ ہی پانی تھا۔ آپ انھیں ایک تھیلہ کھجور کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دے کر چلے آئے۔ حضرت ہاجرہ ان کے پیچھے آئیں اور پوچھا: ابراہیم! ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ پانی ہے؟ حضرت ہاجرہ نے کئی بار یہ بات پوچھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مڑکر بھی نہ دیکھا۔ پھر کہنے لگیں: (آللّٰہُ أَمَرَكَ بِهذَا؟) کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ہاں۔ تو وہ کہنے لگیں: (إِذَنْ َلا یُضَیِّعَنَا) اچھا، پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ پھر وہ واپس آگئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے چل کر جب ایک ٹیلے پر پہنچے جہاں سے انھیں دیکھ نہ سکتے تھے۔ انھوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اپنے ہاتھ اٹھا کر ان کلمات کے ساتھ دعا کی: (رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِندَ بَیْْتِكَ الْمُحَرَّمِ۔۔۔۔)
حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو اپنا دودھ اور یہ پانی پلاتی رہیں حتی کہ پانی ختم ہو گیا۔ تو وہ خود بھی پیاسی اور بچہ بھی پیاسا ہوگیا۔ بچے کو دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے، آپ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور آپ چل دیں۔ دیکھا کہ صفا پہاڑی ہی آپ کے قریب ہے، اس پر چڑھیں، پھر وادی کی طرف آگئیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ کوئی آدمی نظر آئے مگر کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صفا سے اتر آئیں حتی کہ وادی میں پہنچ گئیں۔ اپنی قمیص کا دامن اٹھایا اور ایک مصیبت زدہ آدمی کی طرح دوڑنے لگیں یہاں تک کہ وادی طے کرلی اور مروہ پہاڑی پر آگئیں اور مروہ پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ کوئی آدمی نظر آتا ہے؟ مگر انھیں کوئی نظر نہ آیا۔ اسی کیفیت میں انھوں نے سات چکر لگائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فَذَلِكَ سَعْیُ النَّاسِ بَیْنَهُمَا) ’’لوگ صفا ومروہ کے درمیان جو طواف کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔‘‘ اور جب وہ ساتویں چکر میں مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنی۔ انھوں نے اپنے آپ سے کہا: خاموش رہو (بات سنو۔) پھر کان لگایا تو وہی آواز سنی۔ کہنے لگیں: میں نے تیری آواز سنی، کیا تو کچھ ہماری مدد کر سکتا ہے؟ آپ نے اسی وقت زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا اپنا پر زمین پر مار کر اسے کھود ڈالا تو پانی نکل آیا۔ حضرت ہاجرہ اسے حوض کی طرح بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ سے منڈیر باندھنے لگیں اور چلؤوں سے پانی اپنے مشکیزہ میں بھرنے لگیں۔ جب وہ چلو سے پانی لیتیں تو اس کے بعد جوش سے پانی نکل آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یَرْحَمُ اللّٰہُ أُمَّ إِسْمَاعِیْلَ لَوْ تَرَکَتْ زَمْزَمَ۔ أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَائِ لَکَانَتْ زَمْزَمُ عَیْنًا مَعِیْنًا)

’’اللہ ام اسماعیل پر رحم فرمائے! اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں (یا فرمایا) اس سے چلو چلو پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتا۔‘‘
چنانچہ حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے ان سے کہا: تم جان کی فکر نہ کرو، یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ بچہ اور اس کا باپ اسے تعمیر کریں گے۔ اُس وقت کعبہ گر کر زمین سے اونچا ٹیلہ بن چکا تھا اور برسات کا پانی اس کے دائیں بائیں سے گزر جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد وہاں جرہم قبیلہ کے لوگ یا ان کے گھر والے (کداء) کے راستے سے آرہے تھے، وہ ادھر سے گزرے اور مکہ کے نشیب میں اترے۔ انھوں نے وہاں ایک پرندہ گھومتا دیکھا تو کہنے لگے: یہ پرندہ ضرور پانی پر گردش کر رہا ہے، ہم اس میدان سے واقف ہیں، یہاں کبھی پانی نہیں دیکھا۔ چنانچہ انھوں نے ایک دو آدمی بھیجے، انھوں نے پانی موجود پایا تو واپس جا کر انھیں پانی کی خبر دی تو وہ بھی آگئے۔ حضرت ہاجرہ وہیں پانی کے پاس بیٹھی تھیں۔ انھوں نے پوچھا: کیا ہمیں یہاں قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ حضرت ہاجرہ نے کہا: ہاں لیکن پانی میں تمھارا حق نہیں ہوگا۔ وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ام اسماعیل خود بھی یہ چاہتی تھیں کہ انسان وہاں آباد ہوں۔‘‘
چنانچہ وہ وہاں اتر پڑے اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا بھیجا۔ جب وہاں ان کے کئی گھر آباد ہوگئے اور اسماعیل علیہ السلام جوان ہوگئے اور انہی لوگوں سے عربی سیکھی تو ان کی نگاہ میں وہ بڑے اچھے جوان نکلے، وہ ان سے محبت کرتے تھے اور اپنے خاندان کی ایک عورت ان کو بیاہ دی۔ پھر ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ (صحیح البخاري:3364)
برادران اسلام! ہم نے جو آیات اِس آزمائش کے تعلق سے ذکر کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اِس جگر گوشے کو ذبح کر رہے ہیں اور چونکہ انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے اپنے اِس اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم کر لیا۔ تاہم انھوں نے اسے عملی جامہ پہنانے سے پہلے یہ معاملہ اپنے بیٹے پر پیش کیا اور اس سے اس کی رائے طلب کی۔ نیک اور برد بار بیٹے نے فورا کہا: ﴿قَالَ يَٰٓأَبَتِ ٱفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ’’اے ابا جان! آپ وہ کام کر گذریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔‘‘
صرف یہی نہیں بلکہ بوڑھے باپ کو اپنے صبر وثبات کا یقین دلاتے ہوئے کہا:﴿ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّٰبِرِينَ ‎﴾ ’’اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
کیا جذبہ تھا باپ بیٹے کا کہ دونوں اللہ کے حکم پر عمل کرنے کیلیے ہمہ تن تیار اور مستعد۔ باپ اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے کیلیے اور بیٹا قربان ہونے کیلیے بے تاب۔ اللہ اکبر! یقینا یہ بہت بڑی آزمائش تھی جس میں یہ دونوں حضرات کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ﴿إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ ٱلْبَلَٰٓؤُا۟ ٱلْمُبِينُ ﴾‏ سے تعبیر کیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر منیٰ کو چلے گئے جہاں جمرات کے قریب انھوں نے اپنے اِس فرمانبردار بیٹے کو ذبح کرنے کیليے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ تب چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کی گردن پر چھری رکھ رہا ہے! عین اُسی گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکار آئی:﴿ يَٰٓإِبْرَٰهِيمُ ‎﴿١٠٤﴾‏ قَدْ صَدَّقْتَ ٱلرُّءْيَآ ’’اے ابراہیم! آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔‘‘
مالکِ کائنات نے اپنے اِس پیغمبر کے سچے جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری کی تصدیق کر دی اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بدلے میں اس نے ایک مینڈھا بھیج دیا ﴿وَفَدَيْنَٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎﴾ جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا۔
یہ وہ عظیم قربانی ہے جس پر ہر سال لاکھوں مسلمان عمل کر کے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ہم پچھلے خطبۂ جمعہ میں ذکر کر چکے ہیں کہ قربانی کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے جس پر آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ہر سال عمل فرمایا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے شخص کو تنبیہ بھی فرمائی کہ (مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَن یَّضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرْ مُصَلَّانَا) (رواہ الحاکم وحسنہ الألباني فی صحیح الترغیب والترہیب:1087)
’’جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘
لہٰذا جو شخص قربانی کی طاقت رکھتا ہو اسے قربانی ضرور کرنی چاہئے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ارشاد فرمایا تھا:

(یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلٰی کُلِّ أَهْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَةِ…) (سنن أبي داؤد :2788،سنن الترمذي:1518،سنن ابن ماجہ:3125۔وصححہ الألباني)
’’اے لوگو! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ضروری ہے۔‘‘
لہٰذا اگر استطاعت ہو تو قربانی نہیں چھوڑنی چاہئے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ تمام عبادات کی طرح قربانی میں بھی اخلاصِ نیت از حد ضروری ہے۔ لہٰذا خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے جانور قربان کریں۔ ریاکاری ہو یا تعریف سننے کی خواہش ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ فلاں نے بھی قربانی کی ہے تو یہ دونوں چیزیں قربانی کے ثواب کو ضائع وبرباد کر دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنْحَرْ ‎﴾‏ (الکوثر108:2)
’’اپنے رب کیلئے ہی نماز پڑھ اور (اسی کیليے) قربانی کر۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُۥ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُسْلِمِينَ ‎﴿١٦٣﴾ (الأنعام6:163-162)
’’کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ تعالیٰ کیليے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔‘‘
اِس کے ساتھ ساتھ ہم آپ کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ جانور چاہے قربانی کا ہو یا کوئی اور ہر جانور کو صرف اللہ کے نام پر ہی ذبح کرنا لازم ہے۔ غیراللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور حلال نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿‏ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيْرِ ٱللَّهِ (البقرۃ2 :173)
’’بے شک اُس (اللہ) نے تم پر حرام کر دیا ہے مردہ جانور، (بہا ہوا) خون، سور کا گوشت اور ہر وہ جانور جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کیليے جانور ذبح کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ) (صحیح مسلم: 1978)
’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اُس شخص پر جس نے غیراللہ کیليے جانور ذبح کیا۔‘‘
لہٰذا قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے ان دو باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
ایک تو یہ کہ نیت میں اخلاص ہو اور اِس قربانی کے ذریعے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا مقصود ہو۔
دوسری یہ کہ جانور کو اللہ تعالیٰ کے نام پر ہی ذبح کیا جائے، غیراللہ کے نام پر نہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قربانی کا وقت عید الأضحی کی نماز کے بعد ہے۔ لہٰذا آج اگر کسی شخص نے نمازِ عید پڑھنے سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے تو اُس کیليے ضروری ہے کہ وہ اُس کی جگہ پر دوسری قربانی کرے۔
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قربانی کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ابھی آپ نمازِ عید سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ نے ان جانوروں کا گوشت دیکھا جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی قربان کر دیا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ کَانَ ذَبَحَ أُضْحِیَتَهُ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّیَ۔ أَوْ نُصَلِّیَ۔ فَلْیَذْبَحْ مَکَانَهَا أُخْرَی، وَمَنْ کَانَ لَمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاسْمِ اللّٰہِ) (صحیح البخاري 985، صحیح مسلم :1960)
’’جس شخص نے قربانی کا جانور نمازِ عید سے پہلے ہی ذبح کر دیا تھا وہ اُس کی جگہ اور جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا تھا وہ ’’بسم اﷲ‘‘پڑھ کر ذبح کر دے۔‘‘
اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ قربانی کیليے جو جانور آپ نے خاص کر رکھا ہے یا جو جانور آپ آج ہی خرید کر قربان کریں گے وہ موٹا تازہ ہو اور بے عیب ہو۔ ابو امامہ بن سہل بیان کرتے ہیں کہ (کُنَّا نُسَمِّنُ الْأضْحِیَةَ بِالْمَدِیْنَةِ، وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ یُسَمِّنُوْنَ) (صحیح البخاري : کتاب الأضاحی باب أضحیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بکبشین أقرنین)
’’ہم مدینہ میں قربانی کے جانور کو (خوب کھلا پلا کر) موٹا کرتے تھے اور اسی طرح عام مسلمان بھی قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے۔‘‘
اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَرْبَعٌ لَا تَجُوْزُ فِی الْأضَاحِیْ: اَلْعَوْرَاءُ بَیِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِیْضَةُ بَیِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَیِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْکَسِیْرُ الَّتِی َلا تُنْقِیْ) (سنن أبي داؤد:2802،سنن الترمذي:1497وصححہ الألباني)
’’قربانیوں میں چار قسم کے جانور جائز نہیں: وہ جانور جو بھینگا ہو اور اس کا بھینگا پن بالکل واضح ہو۔ وہ جانور جو مریض ہو اور اس کی بیماری بالکل عیاں ہو۔ وہ جانور جو لنگڑا ہو اور اس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو۔ اور وہ انتہائی کمزور ولاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔‘‘
لہٰذا اُس جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں جس میں ان عیبوں میں سے کوئی عیب پایا جاتا ہو۔ اسی طرح نہ کان کٹا ہو اور نہ ہی سینگ ٹوٹا ہو۔ تاہم جانور کا خصّی ہونا عیب نہیں ہے۔
عزیزان گرامی! اِن بنیادی باتوں کے بعد اب قربانی کے چند آداب بھی جان لیجئے جن کا قربانی میں لحاظ کرنا ضروری ہے۔
01.قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے چھری کو اچھی طرح تیز کرلیں۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ، وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَهُ) (صحیح مسلم :1955)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کو فرض کیا ہے۔ لہٰذا جب تم (قصاص میں) قتل کرو تو اچھی طرح سے قتل کرو اور جب جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر شخص اپنی چھری کو تیز کر لے اور ذبح کئے جانے والے جانور کو سکون پہنچائے۔‘‘
*لیکن چھری وغیرہ کو جانور کے سامنے تیز نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جس نے ایک بکری کی گردن پر اپنا پاؤں رکھا ہوا تھا اور چھری بھی تیز کر رہا تھا جبکہ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَفَلَا قَبْلَ هَذَا؟ أَوَ تُرِیْدُ أَنْ تُمِیْتَهَا مَوْتَاتٍ) (رواہ الطبراني وغیرہ وصححہ الألباني فی صحیح الترغیب والترہیب:1090)
’’تم نے اِس سے پہلے ایسا کیوں نہ کیا؟ کیا تم اسے کئی مرتبہ مارنا چاہتے ہو؟‘‘
02.بہتر ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرے۔ اگر وہ خود نہ کر سکے تو کوئی دوسرا بھی ذبح کر سکتا ہے۔ اسی طرح عورت بھی ذبح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
جانور ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹائیں، اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھیں اور ’’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ أَکْبَر‘‘ کہہ کر دائیں ہاتھ سے ذبح کر دیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

(ضَحَّی النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ، فَرَأَیْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلیٰ صِفَاحِهِمَا، یُسَمِّیْ وَیُکَبِّرُ، فَذَبَحَهُمَا بِیَدِہٖ) (صحیح البخاري:5558 ،صحیح مسلم:1966)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید ‘سیاہی مائل مینڈھوں کو قربان کیا، چنانچہ میں نے دیکھا کہ آپ نے ان کی گردنوں پر پاؤں رکھا اور ’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ أَکْبَر‘ پڑھ کر انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کر دیا۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی ٹانگیں سیاہ ہوں، پیٹ بھی سیاہ رنگ کا ہو اور آنکھوں کا ارد گرد بھی سیاہ ہو۔ چنانچہ اسے لایا گیا تاکہ آپ اسے قربان کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: (هَلُمِّی الْمِدْیَةَ) ’’چھری لے آؤ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: (اِشْحَذِیْهَا بِحَجَرٍ) ’’اِس کو کسی پتھر کے ساتھ تیز کر دو۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب چھری تیز کر دی تو آپ نے اسے ہاتھ میں لیا، مینڈھے کو پکڑا اور اسے ذبح کرتے ہوئے فرمایا: (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ) (صحیح مسلم:1967)
’’اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت ِمحمد کی طرف سے قبول فرما۔‘‘
اِس کے بعد آپ نے اسے قربان کر دیا۔
03.قربانی کے جانور کا گوشت خود بھی کھائیں، اپنے رشتہ داروں اور گھر میں آنے جانے والوں کو اور اسی طرح فقراء ومساکین کو بھی کھلائیں۔
ارشاد باری ہے:﴿ فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ ‎﴾ (الحج22:28)
’’پھر تم خود بھی ان (قربانیوں کے گوشت سے) کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘
اسی طرح فرمایا: ﴿فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ (الحج22 :36)
’’اس سے خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں اور سوال کرنے والے مساکین کو بھی کھلاؤ۔‘‘
ان آیاتِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے علمائے کرام قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک حصہ اپنے ليے، دوسرا رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کیليے اور تیسرا فقراء ومساکین کیليے۔
یاد رہے کہ اپنے حصے کا گوشت ذخیرہ کرنا بھی درست ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اِس سے منع کیا تھا پھر اِس کی اجازت دے دی تھی۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کر دیا تھا۔
پھر آپ نے فرمایا: (کُلُوْا وَتَزَوَّدُوْا وَادَّخِرُوْا) (صحیح مسلم:1972)
’’اب تم کھا سکتے ہو، (دورانِ سفر کھانے کیليے) زادِ راہ بھی لے سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔‘‘
اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:

(مَنْ ضَحّٰی مِنْکُمْ فَلاَ یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ فِی بَیْتِه مِنْهُ شَیْیٌٔ) ’’تم میں سے جو شخص قربانی کرے اس کے گھر میں تین دن کے بعد گوشت نہیں رہنا چاہئے۔‘‘
اِس کے بعد جب اگلا سال آیا تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اِس سال بھی اُسی طرح کریں جیسا کہ گذشتہ سال کیا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(کُلُوْا وَأَطْعِمُوْا وَادَّخِرُوْا فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدتُّ أَنْ تُعِیْنُوْا فِیْهَا) (صحیح البخاري:5569،صحیح مسلم:1974)
’’اب تم خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ کیونکہ گذشتہ سال لوگ تنگ حال تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ تم (باقی ماندہ گوشت کے ساتھ) ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘
04.قربانی کی کھالیں: جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا درست نہیں ہے اسی طرح قربانی کی کھالیں فروخت کر کے ان کی قیمت اپنے مصرف میں لانا بھی جائز نہیں۔ یا تو انھیں اپنے استعمال میں لایا جائے یا صدقہ کر دیا جائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے پاس رہ کر نگرانی کروں اور ان کے گوشت، ان کی کھالیں اور ان کی جھولیں صدقہ کر دوں اور ان میں سے کوئی چیز قصاب کو بطور مزدوری نہ دوں۔‘‘ (صحیح البخاري:1717،صحیح مسلم :1317)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِیَتِه فَلَا أُضْحِیَةَ لَهُ) (رواہ الحاکم ۔وحسنہ الألباني فی صحیح الترغیب والترہیب:1088)
’’جو شخص اپنی قربانی کی کھال کو بیچے تو اس کی قربانی نہیں۔‘‘
05.قربانی کے ایام: قربانی کے چار ایام ہیں۔ عید کا دن اور اس کے بعد مزید تین دن (11،12،13) جنھیں ایام ِ تشریق کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ان چار ایام میں سے کسی بھی روز قربانی کر سکتے ہیں۔
ایام ِعید میں تفریح
عید کے موقعہ پر تفریح جائز ہے بشرطیکہ دورانِ تفریح کوئی کام خلاف ِشرع نہ ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کو اِس موقعہ پر اپنے اہل وعیال، اقرباء اور دوست احباب کے ساتھ مل کر خوشی کا اظہار شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور میرے پاس اُس وقت انصار کی نوخیز لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں تھیں جو ان اشعار کے ساتھ گا رہی تھیں جو ’بعاث‘ کے دن انصار نے پڑھے تھے اور حقیقت میں وہ گانے والی نہ تھیں۔ یہ عید کا دن تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:
(أَمَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم؟)
’’کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز گونج رہی ہے؟‘‘
تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یَا أَبَا بَکْر، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَهذَا عِیْدُنَا) (صحیح البخاري:454،صحیح مسلم :892)
’’ ابو بکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے اور یہ ہمارا تہوار ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے اُسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور اُس وقت دو نو خیز لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹ ڈپٹ کی۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ انور سے چادر کو ہٹایا اور فرمایا:

(دَعْهُمَا یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّهَا أَیَّامُ عِیْدٍ) ’’ابو بکر! انھیں چھوڑ دو (اور مت روکو) کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: عید کے دن کچھ حبشی لوگ مسجد میں آئے اور بعض حربی آلات کے ساتھ کھیل پیش کرنے لگے۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر تشریف لائے اور خود بھی ان کے کھیل کا مشاہدہ کیا اورمجھے بھی آپ نے بلا لیا۔ میں آئی تو آپ نے مجھے اپنی چادر کی اوٹ میں کر دیا تاکہ میں پردے میں کھڑی ہو کر ان کے کھیل کا مشاہدہ کر سکوں۔ لہٰذا میں نے آپ کے کندھوں پر اپنا سر رکھا اور ان کے کھیل کو دیکھنے لگی۔ پھر جب میں خود کھیل دیکھتے دیکھتے اکتا گئی تو آپ نے پوچھا: کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: اب تم چلی جاؤ۔ (صحیح البخاري:454،صحیح مسلم :892)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ایامِ عید میں اِس طرح کی تفریح جائز ہے تاہم تفریح اور خوشی کے نام پر یہ قطعا درست نہیں کہ موسیقی اور گانے وغیرہ سنے جائیں اور ٹی وی کی سکرین پر یا سینما گھروں میں جا کر فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھے جائیں۔ کیونکہ گانے اور آلاتِ موسیقی سب حرام ہیں اور فارغ اوقات کو ان چیزوں میں گذارنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِىٓ أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٧﴾ (لقمان31:7-6)
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی بات خرید لیتا ہے تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے اور اس راہ کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیليے رسوا کن عذاب ہے اور جب اس کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انھیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں۔ لہٰذا آپ اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں (لَهْوَ الْحَدِیْثِ) سے مراد گانا اور موسیقی ہے جیسا کہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے توقسم کھا کر کہا کہ (لَهْوَ الْحَدِیْثِ) سے مراد گانا ہی ہے۔
لہٰذا جو شخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص وسرور کی محفلوں میں شرکت کرتا ہو یا گھر میں بیٹھ کر ایسی محفلوں کا نظارہ کرتا ہو اس کیليے اِس آیت کے مطابق رسوا کن عذاب ہے۔ والعیاذ باللہ
اسی طرح حضرت ابو مالک الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَیَشْرَبنَّ أُناَسٌ مِنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ وَیُسَمُّونَهَا بِغَیْرِ اسْمِهَا، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ، یَخْسِفُ اللّٰہُ بِهِمُ الْأرْضَ وَیَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ) (سنن ابن ماجہ:4020۔ وصححہ الألباني)
’’میری امت کے کچھ لوگ ضرور بالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے۔ ان کے سروں کے پاس آلاتِ موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور انہی میں سے کئی لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔‘‘
اِس حدیث میں نہایت سخت وعید ہے ان لوگوں کیليے جو رقص وسرور کی محفلوں میں شریک ہوتے یا ایسی محفلوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔
اور حضرت ابوعامر۔ یا ابومالک۔ الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ، وَالْحَرِیْرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ) (صحیح البخاري5590)
’’میری امت میں ایسے لوگ یقینا آئیں گے جو زنا، ریشم کا لباس، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال تصور کر لیں گے۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ کئی لوگ ان چار چیزوں کو حلال تصور کرلیں گے حالانکہ یہ دینِ اسلام میں حرام ہیں۔ چنانچہ اس دور میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ان چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں۔ اور جہاں تک گانوں کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے نہ صرف گناہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ کئی ’’روشن خیال‘‘ لوگوں نے اس کے جواز کے فتوے بھی جاری کر دئیے ہیں اور ایسا انھوں نے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ عام لوگوں کا رجحان دیکھ کر اور اپنی خواہشِ نفس کو پورا کرنے کیلیے کیا ہے اور اس کیلیے انھوں نے بعض اہل علم کے کمزور اقوال کا سہارا لینے کی کوشش اور ابن حزم کی تقلید کرتے ہوئے صحیح بخاری کی اِس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی سعی نا مشکور کی ہے۔ جبکہ ائمہ ٔاربعہ رحمہم اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ گانا اور موسیقی حرام ہے۔ اِس کی حرمت کے جو دلائل ہم نے ذکر کئے ہیں وہ یقینی طور پر ہرسمجھدار آدمی کیلیے کافی ہیں، ان کے علاوہ ایک اور دلیل بھی پیشِ خدمت ہے جس میں پوری صراحت کے ساتھ ڈھول وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَةَ وَقَالَ: کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ) (سنن أبي داؤد:3696۔ وصححہ الألباني)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پرشراب، جوا اور ڈھول کو حرام کر دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
ان واضح ترین دلائل کے بعد اب کسی کے ذہن میں شک نہیں رہنا چاہئے اور اِس بات پر یقین کر لینا چاہئے کہ گانا اور موسیقی حرام ہے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ’’روشن خیال‘‘ لوگوں کے اسی فتوی کی بناء پر اب بہت سارے لوگ موسیقی کو دل بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے، گانے عام ہو جائیں گے اور شراب نوشی کو حلال تصور کر لیا جائے گا تو اُس وقت اللہ کا سخت عذاب نازل ہوگا۔ جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(سَیَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ، قِیْلَ: وَمَتٰی ذَلِكَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟قَالَ: إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ) (صحیح الجامع للألباني:3665)
’’آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھا جائے گا۔‘‘
اسلامی بھائیو! گانا بجانا کیسے جائز اور مباح ہو سکتا ہے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے بجانے کی آواز کو ملعون قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ: مِزْمَارٌ عِنْدَ نِعْمَةٍ وَرَنَّةٌ عِنْدَ مُصِیْبَةٍ) (صحیح الجامع للألباني:3695)
’’دو آوازیں دنیا وآخرت میں ملعون ہیں: خوشی کے وقت گانے بجانے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بقول گانا نفاق پیدا کرتا ہے:

(اَلْغِنَائُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَائُ الزَّرْعَ) (قال الألباني فی تحریم آلات الطرب،ص13: إسنادہ جید)
’’گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ ایام عید میں خوشی کا اظہار ضرور کریں مگر جو دلائل ہم نے ابھی ذکر کئے ہیں ان کے پیشِ نظر گانا اور موسیقی وغیرہ سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
*ایام عید میں بعض منکرات کا ارتکاب
برادران اسلام! خاص طور پر ایامِ عید کے دوران بعض منکرات دیکھنے میں آتے ہیں جن پر تنبیہ کرنا ضروری ہے۔ ان منکرات میں سے چند ایک یہ ہیں:
01.کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اور تکبر اور بڑائی کا اظہار کرنا
بہت سارے لوگ ایام عید میں جو لباس پہنتے ہیں وہ ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہوتا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(ثَلَاثَةٌ لَا یُکَلِّمُهُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَلَا یُزَکِّیْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)

’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کیليے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار کہے۔ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ یقینا ذلیل وخوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے۔ یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ) (صحیح مسلم :106)
’’اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ) (صحیح البخاري:5787)
’’جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔ لہٰذا جو کپڑا بھی نیچے پہنا ہوا ہو، شلوار ہو یا چادر، پائجامہ ہو یا پینٹ، اسے ٹخنوں سے اوپر ہی رکھنا چاہئے نیچے نہیں لٹکانا چاہئے خواہ تکبر نہ بھی ہو اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ تکبر بھی ہو تو یہ اور زیادہ سنگین گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ خَسَفَ اللّٰہُ بِه فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْأرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ) (صحیح البخاري:5790)
’’ایک آدمی اپنے تہ بند کو گھسیٹ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دھنسا دیا۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے گا۔‘‘
ایک اور روایت میں اِس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

(بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ، إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِه فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ) (صحیح البخاري:5789،صحیح مسلم :2088)
’’ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا، اسی دوران اچانک اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا۔‘‘
جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ‎﴾ (لقمان31:18)
’’اور لوگوں (کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا تصور کرتے ہوئے) ان سے منہ نہ موڑنا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
تکبر اِس قدر بڑا گناہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر پایا جاتا ہو اور وہ اُس سے توبہ کئے بغیر مر جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ)
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر تھا۔‘‘
ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! بے شک ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور اس کا جوتا خوبصورت ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطْرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (صحیح مسلم :91)
’’بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ کبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔‘‘
لہٰذا ایامِ عید کی خوشی میں بڑائی اور فخر وغرور کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ لوگوں سے خندہ پیشانی اور عاجزی وانکساری کے ساتھ سے میل ملاقات رکھنی چاہئے اور اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے ساتھ اظہارِ محبت کرنا چاہئے۔
02.داڑھی منڈوانا یا اسے چھوٹا کرانا
بہت سارے لوگ عام طور پر بھی داڑھی منڈواتے یا اسے چھوٹا کراتے ہیں اور عید کے موقعہ پر تو اِس کا اور زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا حرام ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ، وَفِّرُوا اللِّحٰی، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ) (صحیح البخاري:5892،5893، صحیح مسلم259)
’’تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھیوں کو بڑھاؤ اور موچھوں کو چھوٹا کرو۔‘‘
دوسری روایت میں فرمایا: (جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحٰی، خَالِفُوا الْمَجُوْسَ) (صحیح مسلم :260)
’’تم موچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ۔ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
جبکہ آج کل بہت سارے مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے بالکل برعکس موچھیں بڑی بڑی رکھ لیتے ہیں اور داڑھی یا منڈوا دیتے ہیں یا اسے چھوٹا کرا دیتے ہیں اور یوں وہ مشرکین اور مجوس کی موافقت کرتے ہیں جن کی مخالفت کرنے کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
03.غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا
بہت سارے لوگ خصوصا ایام عید میں جب ایک دوسرے کے گھر میں جاتے ہیں تو غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرتے اور مبارکباد کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارا دین اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَأَنْ یُّطْعَنَ فِی رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِمِخْیَطٍ مِنْ حَدِیْدٍ خَیْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ یَّمَسَّ امْرَأَۃً لاَ تَحِلُّ لَهُ) (السلسلة الصحیحة للألباني :226)
’’تم میں سے کسی ایک کے سر میں لوہے کی سوئی کو چبھویا جائے تو یہ اُس کیليے اِس سے بہتر ہے کہ وہ اُس عورت کو ہاتھ لگائے جو اُس کیلئے حلال نہیں۔‘‘
اسی ليے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں سے بیعت لی تو وہ زبانی بیعت تھی، اُس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت سے مصافحہ نہیں کیا تھا۔ (صحیح مسلم:1866)
04.غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقات کرنا
خصوصا ایامِ عید میں کئی لوگ غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقات کرتے ہیں جبکہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع کیا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ)
’’تم (غیر محرم) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کیا کرو۔‘‘
تو ایک انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اَلْحَمْو یعنی خاوند کے بھائی (دیور) کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ) (صحیح البخاري،النکاح،باب لا یخلون رجل بامرأۃ:5232،مسلم،الأدب :2083) ’دیور موت ہے۔‘‘
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا وَمَعَها ذُوْ مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ) (صحیح البخاری،الحج،باب حج النساء:2862،صحیح مسلم،الحج:1341)
’’کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے اور اسی طرح کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘
05.عورتوں کا بے پردہ ہوکر گھومنا
خصوصا ایام عید میں بہت ساری خواتین گھروں سے بے پردہ ہوکر نکلتی ہیں۔ خوب سج دھج کے ساتھ بازاروں، مارکیٹوں اور سیاحت گاہوں میں آتی جاتی ہیں اور بہت سارے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اور اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع کیا ہے اور خواتین اسلام کو بغیر پردہ کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿‏ وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ (الأحزاب33:33)
’’اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔ اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّیْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهَا وَهِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِهَا) (ابن حبان:413/12:5599وصحح إسنادہ الأرناؤط،وأخرج الجزء الأول منہ الترمذي:1773 وصحح إسنادہ الشیخ الألباني فی المشکاۃ :3109)
’’خاتون ستر (چھپانے کی چیز) ہے۔ اس ليے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔‘‘
بے پردہ ہو کر اور نیم برہنہ لباس پہنے ہوئے گھروں سے نکلنے والی خواتین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہونگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا: قَوْمٌ مَعَهُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلَاتٌ مَائِلَاتٌ، وَرُؤُوسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَهَا وَإِنَّ رِیْحَهَا لَتُوجَدُ مِنْ مَّسِیْرَۃِ کَذَا وَکَذَا) (صحیح مسلم،الجنة،باب النار یدخلہا الجبارون:2128)
’’دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہونگے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے۔ اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ معلوم ہونگی۔ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور خود ان پر فریفتہ ہونے والی ہونگی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہونگے۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہونگی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْقَوْمِ لِیَجِدُوْا رِیْحَهَا فَهِیَ زَانِیَةٌ) (سنن أبي داؤد،الترجل،باب فی طیب المرأۃ :4167،الترمذي،الإستئذان،باب ما جاء في کراہیة خروج المرأۃ متعطرۃ:2937،سنن النسائي،الزینة،باب ما یکرہ للنساء من الطیب :5126۔ وحسنہ الألباني)
’’جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گذرے تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کر سکیں تو وہ بد کار عورت ہے۔‘‘
06.اقرباء اور فقراء ومساکین کے حقوق کا خیال نہ رکھنا
بہت سارے لوگ ایام عید کے دوران خوب کھاتے پیتے، زرق برق لباس پہنتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اپنے رشتہ داروں اور فقراء ومساکین کو بھول جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام ہمیں اِس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم ان خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شامل کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِهِ) (صحیح البخاري:13،صحیح مسلم:45)
’’تم میں سے کوئی شخص (کامل) ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیليے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے ليے پسند کرتا ہے۔‘‘
اور صلہ رحمی کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَهُ فِیْ رِزْقِهِ وَیُنْسَأَ لَهُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَهُ) (صحیح البخاري،الأدب باب من بسط لہ في الرزق لصلة الرحم:5986،صحیح مسلم ۔ البر والصلة باب صلة الرحم:2557)
’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کے اجل (موت) میں دیر ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
صلہ رحمی کے بارے میں بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے رشتہ دار ان سے صلہ رحمی کریں تو ان کو بھی اُن سے کرنی چاہئے حالانکہ یہ مفہوم بالکل غلط ہے اور صلہ رحمی کا درست مفہوم یہ ہے کہ اگر رشتہ دار قطع رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ دیں تو تب بھی انہیں دیا جائے۔ الغرض یہ کہ رشتہ دار صلہ رحمی کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیِٔ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا) (صحیح البخاري،الأدب،باب لیس الواصل بالمکافیٔ :5991)
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
لہٰذا عید کی خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شریک کرنا چاہئے۔
برادران اسلام! ہم نے اِس خطبہ کے آغاز میں ذکر کیا تھا کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اور امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے کی جاتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہمارا دین ہم سے بس اسی قربانی کا نہیں بلکہ اور بھی کئی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ سب سے اہم قربانی یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی تمام خواہشات کو قربان کر دیں اور اس کے احکامات پر عمل درآمد کے سلسلہ میں خواہشات کو آڑے نہ آنے دیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب اللہ کے احکامات اور ہماری خواہشات کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو ہم احکامات ِالہٰی کو قربان کر دیتے ہیں، خواہشات کو قربان نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں ہم خواہشات کی تکمیل میں اللہ کے دین کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ چیز یقینا ہمارے ليے مہلک اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اِس سے بچنا چاہئے اور اُسی جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین
آخر میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت مبارکہ کی یاد دہانی کرا دیں اور وہ ہے نمازِ عید کے بعد راستہ تبدیل کر کے واپس جانا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

(کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِ فِی طَرِیْقٍ رَجَعَ فِی طَرِیْقٍ آخَرَ) (سنن الترمذي:541۔ وصححہ الألباني)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تھے تو ایک راستے سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس لوٹتے تھے۔‘‘
لہٰذا جس راستہ سے آئے تھے اُس سے نہیں بلکہ دوسرے راستہ سے واپس جائیں اور قربانی کا جانور ذبح کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کی قربانیاں قبول فرمائے اور ہمارے ليے انھیں ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین